حمزہ بن عبد المطلب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(حمزہ بن عبدالمطلب سے رجوع مکرر)
حمزة بن عبد المطلب
حمزة بن عبد المطلب
حمزہ بن عبد المطلب
(عربی میں: حمزة بن عبد المطلب ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے فوجی کمانڈر
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 568ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ[1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 22 مارچ 625ء (56–57 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جبل احد  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قاتل وحشی بن حرب  ویکی ڈیٹا پر (P157) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات لڑائی میں ہلاک  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ سلمیٰ بنت عمیس  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد
والد عبد المطلب[3]  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ ہالہ بنت وہب  ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
رشتے دار
full-siblings:
عملی زندگی
پیشہ شکاری،  مصنف،  عسکری قائد  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
وفاداری محمد صلی اللہ علیہ وسلم (623–625)
لڑائیاں اور جنگیں
Tribe قریش (بنو ہاشم)
Religion اسلام

حمزہ بن عبد المطلب (پیدائش: 568ء یا 570ء– وفات: 30 مارچ 625ء) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا اور رضاعی بھائی ہیں دونوں نے ثوبیہ جو ابو لہب کی لونڈی تھی کا دودھ پیا تھا۔[4] بعثت کے چھ برس بعد جب ابوجہل حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مخالفت میں حد سے تجاوز کر گیا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حمایت کے جوش میں اسلام قبول کر لیا۔ بے حد جری اور دلیر تھے۔ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مدینہ منورہ کو ہجرت کی۔ جنگ بدر میں حصہ لیا اور خوب داد شجاعت دی۔غزوہ احد میں جام شہادت نوش کی۔

نام و نسب

حمزہ نام، ابو یعلی اور ابو عمارہ کنیت، اسد اللہ لقب، آنحضرت کے چچا تھے ، ماں کی طرف سے یہ تعلق تھا کہ ان کی والدہ ہالہ بنت وہب سرور کائنات ﷺ کی والدہ حضرت آمنہ کی چچا زاد بہن تھیں، پورا سلسلہ نسب یہ ہے، حمزہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی۔

اس نسبی تعلق کے علاوہ حضرت حمزہ ؓ آپ کے رضاعی بھائی بھی تھے، یعنی ابولہب کی لونڈی حضرت ثوبیہ ؓ نے دونوں کو دودھ پلایا تھا، سن میں حضور انور سے دو برس بڑے تھے۔ شمشیر زنی، تیراندازی اور پہلوانی کا بچپن ہی سے شوق تھا، سیر و شکار سے بھی غیر معمولی دلچسپی تھی؛ چنانچہ زندگی کا بڑا حصہ اسی مشغلہ میں بسر ہوا۔

اسلام

دعوتِ توحید کی صداگو ایک عرصہ سے مکہ کی گھاٹیوں میں گونج رہی تھی ، تاہم حضرت حمزہ بن عبد المطلب ؓ جیسے سپاہی منش کو ان باتوں سے کیا تعلق ؟ انھیں صحرا نوردی اور سیر و شکار سے کب فرصت تھی۔ جو شرک و توحید کی حقانیت پر غور کرتے ؛ لیکن خدا نے عجیب طرح سے ان کی رہنمائی کی ، ایک روز حسب معمول شکار سے واپس آ رہے تھے کوہِ صفا کے پاس پہنچے تو ایک لونڈی نے کہا "ابو عمارہ! کاش تھوڑی دیر پہلے تم اپنے بھتیجے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا حال دیکھتے ، وہ خانہ کعبہ میں اپنے مذہب کا وعظ کہہ رہے تھے کہ ابو جہل نے نہایت سخت گالیاں دیں اور بہت بری طرح ستایا ، لیکن محمد نے کچھ جواب نہ دیا اور بے بسی کے ساتھ لوٹ گئے۔ یہ سننا تھا کہ رگِ حمیت میں جوش آگیا ، تیزی کے ساتھ خانہ کعبہ کی طرف بڑھے ، ان کا قاعدہ تھا کہ شکار سے واپس آتے ہوئے کوئی راہ میں مل جاتا تو کھڑے ہوکر ضرور اس سے دو دو باتیں کرلیتے تھے، لیکن اس وقت جوشِ انتقام نے مغضوب الغضب کر دیا تھا، کسی طرف متوجہ نہ ہوئے اور سیدھے خانہ کعبہ پہنچ کر ابو جہل کے سر پر زور سے اپنی کمان دے ماری۔ جس سے وہ زخمی ہو گیا، یہ دیکھ کر بنی مخزوم کے چند آدمی ابو جہل کی مدد کے لیے دوڑے ہوئے آئے اور بولے حمزہ شاید تم بھی بد دین ہو گئے ہو فرمایا" جب اس کی حقانیت مجھ پر ظاہر ہو گئی تو کون سی چیز مجھے اس سے باز رکھ سکتی ہے؟۔[5]ہاں! میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد خدا کے رسول ﷺ ہیں اور جو کچھ وہ کہتے ہیں سب حق ہے، خدا کی قسم اب میں اس سے پھر نہیں سکتا، اگر تم سچے ہو تو مجھے روک کر دیکھ لو ابو جہل نے کہا ابو عمارہ کو چھوڑ دو خدا کی قسم میں نے ابھی اس کے بھتیجے کو سخت گالیاں دی ہیں۔

یہ اسلام کا وہ زمانہ تھا کہ آنحضرت ارقم بن ابی ارقم کے مکان میں پناہ گزین تھے اور مومنین کا حلقہ صرف چند کمزور ناتواں ہستیوں پر محدود تھا، لیکن حضرت حمزہ ؓ کے اضافہ سے دفعۃً حالت بدل گئی اور کفار کی مطلق العنان دست درازیوں اور ایذا رسانیوں کا سدِ باب ہو گیا، کیونکہ ان کی شجاعت وجانبازی کا تمام مکہ لوہا مانتا تھا۔[6]

حضرت امیر حمزہ ؓ کے اسلام لانے کے بعد ایک روز حضرت عمرؓ نے آستانہ نبوی ﷺ پر دستک دی ، چونکہ شمشیر بکف تھے ، اس لیے صحابہ کرام کو تردد ہوا؛ لیکن اس شیر خدا نے کہا،کچھ مضائقہ نہیں آنے دو اگر مخلصانہ آیا ہے تو بہتر ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کردوں گا !غرض وہ اندر داخل ہوئے اور کلمہ توحید ان کی زبان پر تھا اور مسلمان جوشِ مسرت سے اللہ اکبر کے نعرے بلند کر رہے تھے۔[7]

مواخات

مکہ کی مواخات میں حضرت خیرالانام کے محبوب غلام حضرت زید بن حارثہ ؓ ، حمزہ ؓ بن عبد المطلب کے اسلامی بھائی قرار پائے، ان کو حضرت زید ؓ سے اس قدر محبت ہو گئی تھی کہ غزوات میں تشریف لے جاتے تو ان ہی کو ہر قسم کی وصیت کر جاتے تھے۔[8]

ہجرت

بعثت کے تیرہویں سال تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ المنورہ پہنچے ، جہاں ان کو زور بازو اور خداداد شجاعت کے جوہر دکھانے کا نہایت اچھا موقع ہاتھ آیا ، چنانچہ پہلا اسلامی پھر یرا ان ہی کو عنایت ہوا اور تین آدمیوں کے ساتھ ساحلی علاقہ کی طرف روانہ کیے گئے کہ قریشی قافلوں کے سدِّ راہ ہوں ، غرض وہاں پہنچ کر ابو جہل کے قافلہ سے جس میں تین سو سوار تھے مڈ بھیڑ ہوئی اور طرفین نے جنگ کے لیے صف بندی کی، لیکن مجدی بن عمرو الجہنی نے بیچ بچاؤ کرکے لڑائی روک دی اور حضرت امیر حمزہ ؓ بغیر کشت وخون واپس آئے۔[9]

غزوات

اسی سال ماہ صفر میں خود سرورِ کائنات نے سب سے پہلی دفعہ تقریبا ساٹھ صحابہ کرام ؓ کے ساتھ قریش مکہ کی نقل وحرکت میں سدراہ ہونے کے لیے ابوا پر فوج کشی فرمائی، حضرت امیر حمزہ ؓ علمبردار تھے اور تمام فوج کی کمان ان کے ہاتھ میں تھی ، لیکن قریش کا قافلہ آگے بڑھ چکا تھا، اس لیے جنگ وجدل کا موقع پیش نہ آیا ؛تاہم اس مہم کا سب سے زیادہ نتیجہ خیز اثر یہ تھا کہ بنو خمرہ سے ایک دوستانہ معاہدہ طے پا گیا۔[10] اسی طرح میں غزوۂ عشیرہ پیش آیا، اس میں بھی علمبرداری کا طرۂ افتخار حضرت امیر حمزہ ؓ کے دستار فضل و کمال پر آویزاں تھا، لیکن اس دفعہ بھی کوئی جنگ واقع نہ ہوئی اور صرف بنی مدلج سے امداد باہمی کا ایک عہد نامہ طے پایا۔[11]

غزوۂ بدر

اسی سال بدر کا مشہور معرکہ پیش آیا ، صف آرائی کے بعد عتبہ، شیبہ اور ولید نے کفار کی طرف سے نکل کر مبارز طلبی کی تو غازیانِ دین میں سے چند انصاری نوجوان مقابلہ کے لیے آگے بڑھے ؛ لیکن عتبہ نے پکار کر کہا"محمد !ہم نا جنسوں سے نہیں لڑسکتے، ہمارے مقابل والوں کو بھیجو ارشاد ہوا حمزہ ؓ، علی ؓ، عبیدہ ؓ، اٹھو اور آگے بڑھو حکم کی دیر تھی کہ یہ تینوں نبرد آزما بہادر نیز ے ہلاتے ہوئے اپنے حریف کے مقابل جا کھڑے ہوئے، حضرت حمزہ ؓ نے پہلے ہی حملہ میں عتبہ کو واصل جہنم کیا ، حضرت علی ؓ بھی اپنے حریف پر غالب آئے، لیکن حضرت ابو عبیدہ ؓ اور ولید میں دیر تک کشمکش جاری رہی، وہ زخمی ہو گئے تو ان دونوں نے ایک ساتھ حملہ کرکے اس کو تہ تیغ کر دیا،[12]

یہ دیکھ کر طعیمہ بن عدی جوشِ انتقام میں آگے بڑھا ؛ لیکن شیر خدانے ایک ہی وار میں اس کو بھی ڈھیر کر دیا، مشرکین نے طیش میں آکر عام ہلہ کر دیا، دوسری طرف سے مجاہدین اسلام بھی اپنے دلاوروں کو نرغہ میں دیکھ کر ٹوٹ پڑے، نہایت گھمسان کارن پڑا، اسد اللہ حمزہ ؓ کے دستار پر شتر مرغ کی کلغی تھی اس لیے جس طرف گھس جاتے تھے صاف نظر آتے تھے،دونوں ہاتھ میں تلوار تھی اور مردانہ وار دودستی حملوں سے پرے کا پرا صاف کر رہے تھے، غرض جب تھوڑی دیر میں غنیم بہت سے قیدی اور مال غنیمت چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا تو بعض قیدیوں نے پوچھا، یہ کلغی لگائے کون ہے؟ لوگوں نے کہا حمزہ ؓ بولے ، آج ہم کو سب سے زیادہ نقصان اسی نے پہنچایا۔[13]

غزوۂ بنی قینقاع

بنو قینقاع نام کی اطرافِ مدینہ میں یہودیوں کی ایک جماعت تھی، چونکہ یہ عبد اللہ بن ابی سلول کے حلیف تھے،اس لیے رسول اللہ سے دوستانہ معاہدہ طے پاگیا تھا،لیکن غزوۂ بدر کی کامیابی نے ان کے دلوں میں رشک وحسد کی آگ بھڑکا دی اور علانیہ سرکشی پر آمادہ ہو گئے، چنانچہ آنحضرت نے اس عہد شکنی کے باعث اسی سال ماہ شوال میں ان پر فوج کشی فرمائی اور بزور اطرافِ مدینہ سے جلاوطن کر دیا، حضرت حمزہ ؓ اس معرکہ میں علمبرداری کے منصب پر مامور تھے۔[14]

غزوۂ اُحد

بدر کی شکست فاش نے مشرکین قریش کے تو سنِ غیرت کے لیے تازیانہ کا کام کیا اور جوشِ انتقام سے برانگیختہ ہوکر میں قریش کا سیلاب عظیم پھر مدینہ کی طرف بڑھا، حضرت سرورِ کائنات نے اپنے جان نثاروں کے ساتھ نکل کر کوہِ اُحد کے دامن میں اس کو روکا، 7 شوال ہفتہ کے دن لڑائی شروع ہوئی کفار کی طرف سے سباع نے بڑھ کر مبارز طلبی کی تو حضرت امیر حمزہ ؓ اپنی شمشیرخار اشگاف تو لتے ہوئے میدان میں آئے اور للکار کر کہا اے سباع! اے ام انمار مضغہ نجس کے بچے! کیا تو خدا اور اس کے رسول سے لڑنے آیا ہے یہ کہہ کر اس زور سے حملہ کیا کہ ایک ہی وار میں اس کا کام تمام ہو گیا،[15]اس کے بعد گھمسان کی جنگ شروع ہوئی اس شیر خدا نے دوبارہ کفر کے ٹڈی دل میں گھس کر کشتوں کے پشتے لگا دیے اور جس طرف جھک پڑے صفیں کی صفیں الٹ دیں، غرض اس جوش سے لڑے کہ تنہا تیس کافروں کو واصلِ جہنم کر دیا۔[16]

شہادت

حضرت امیر حمزہ ؓ نے چونکہ جنگ بدر میں چن چن کر اکثر صنادید قریش کو تہ تیغ کیا تھا اس لیے تمام مشرکین قریش سب سے زیادہ ان کے خون کے پیاسے تھے۔ چنانچہ جبیر بن مطعم نے ایک غلام کو جس کا نام وحشی تھا، اپنے چچا طعیمہ بن عدی کے انتقام پر خاص طور سے تیار کیا تھا اور اس صلہ میں آزادی کا لالچ دلایا تھا،غرض وہ جنگ اُحد کے موقع پر ایک چٹان کے پیچھے گھات میں بیٹھا ہوا حضرت حمزہ ؓ کا انتظار کر رہا تھا۔ اتفاقاً وہ ایک دفعہ قریب سے گذرے تو اس نے اچانک اس زور سے اپنا نیزہ پھینک کر مارا کہ آر پار ہو گیا پھر بھی آپ وحشی کی طرف شیر کی طرح جھپٹے مگر زخموں سے نڈھال ہوکر گر پڑے،[17]اس شیر خدا کی شہادت پر کفار کی عورتوں نے خوشی و مسرت کے ترانے گائے ، ابوسفیان کی بیوی ہندہ بنت عتبہ نے ناک کان کاٹ کر زیور بنائے، نیز شکم چاک کرکے جگر نکالا اور چباچبا کر تھوک دیا، حضرت سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو پوچھا،کیا اس نے کچھ کھایا بھی ہے، لوگوں نے عرض کیا نہیں فرمایا، خدا حمزہ ؓ کے کسی جزوکو جہنم میں داخل ہونے نہ دینا۔[18]

تجہیز و تکفین

اختتام جنگ کے بعد شہدائے اسلام کی تجہیز و تکفین شروع ہوئی، حضرت سرورِ کائنات اپنے عم محترم کی لاش پر تشریف لائے،چونکہ ہندہ نے ناک کان کاٹ کر نہایت دردناک صورت بنادی تھی،اس لیے یہ منظر دیکھ کر بے اختیار دل بھر آیا،اور مخاطب ہوکر فرمایا تم پرخدا کی رحمت ہے، کیونکہ تم رشتہ داروں کا سب سے زیادہ خیال رکھتے تھے۔نیک کاموں میں پیش پیش رہتے تھے، اگر مجھے صفیہ کے رنج و غم کا خیال نہ ہوتا تو میں تمھیں اسی طرح چھوڑ دیتا کہ درند اور پرند کھا جائیں اور تم قیامت میں ان ہی کے شکم سے اُٹھائے جاؤ، خدا کی قسم مجھ پر تمھارا انتقام واجب ہے، میں تمھارے عوض ستر کافروں کا مثلہ کروں گا، لیکن تھوڑی دیر کے بعد وحی الہی نے اس ناجائز انتقام کی ممانعت کر دی ، اس لیے کفارۂ یمین ادا کر کے صبرو شکیبائی اختیار فرمائی۔[19]

حضرت صفیہ ؓ ، حضرت امیر حمزہ ؓ کی حقیقی بہن تھیں، بھائی کی شہادت کا حال سنا تو روتے ہوئے جنازہ کے پاس آئیں، لیکن آنحضرت ﷺ نے دیکھنے نہ دیا اور تسلی وتشفی دے کر واپس فرمایا، حضرت صفیہ ؓ اپنے صاحبزادہ حضرت زبیر ؓ کو دو چادریں دے گئی تھیں کہ ان سے کفن کا کام لیا جائے،لیکن پہلو میں ایک انصاری کی لاش بھی بے گور وکفن تھی، اس لیے انھوں نے دونوں شہیدانِ ملت میں ایک ایک چادر تقسیم کردی، اس ایک چادر سے سر چھپایا جاتا تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں چھپائے جاتے تو سر برہنہ ہو جاتا تھا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ چادر سے چہرہ چھپاؤ اور پاؤں پر گھاس اور پتے ڈال دو،غرض سید الشہداء کا جنازہ تیار ہوا، سرورِ کائنات ﷺ نے خود نماز پڑھائی، اس کے بعد ایک ایک کرکے شہدائے اُحد کے جنازے ان کے پہلو میں رکھے گئے اور آپ نے علاحدہ علاحدہ ہر ایک پر نماز پڑھائی اس طرح تقریبا نمازوں کے بعد غازیانِ دین نے بصد اندوہ والم اس شیر خدا کو اسی میدان میں سپرد خاک کیا۔[20]

آنحضرتﷺ کا حزن و ملال

سرورِ کائنات کو اس سانحہ پر شدید قلق تھا ،مدینہ منورہ تشریف لائے اور بنی عبداشہل کی عورتوں کو اپنے اپنے اعزہ واقارب پر روتے سنا تو فرمایا، افسوس!حمزہ ؓ کے لیے رونے والیاں بھی نہیں ،انصار نے یہ سن کر اپنی عورتوں کو آستانہ نبوت پر بھیج دیا،جنھوں نے نہایت رقت آمیز طریقہ سے سید الشہداء ؓ پر گریہ وزاری شروع کی، اسی حالت میں آنحضرت کی آنکھ لگ گئی،کچھ دیر کے بعد بیدار ہوئے تو دیکھا کہ وہ اب تک رورہی ہیں، فرمایا کیا خوب یہ سب اب تک یہیں بیٹھی رو رہی ہیں،انھیں حکم دو کہ واپس جائیں اور آج کے بعد پھر کسی مرنے والے پر نہ روئیں، بیان کیا جاتا ہے کہ اس وقت سے مدینہ کی عورتوں کا یہ دستور ہو گیا تھا کہ جب وہ کسی پر روتی تھیں تو پہلے حضرت امیر حمزہ ؓ پر دو آنسو بہا لیتی تھیں۔

قاتل سے بیزاری

حضرت حمزہ ؓ کے قاتل وحشی ؓ اسلام قبول کرکے بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے تو آنحضرت نے دیکھ کر پوچھا "کیا تم ہی وحشی ہو؟"عرض کیا ہاں فرمایا تم نے حمزہ ؓ کو قتل کیا تھا ؟ بولے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو جو کچھ معلوم ہوا وہ صحیح ہے، ارشاد ہو، کیا تم اپنا چہرہ مجھ سے چھپا سکتے ہو؟ غرض اسی وقت باہر آنا پڑا اور پھر تمام عمر سامنے نہ جا سکے، آنحضرت کے بعد جب مسلیمہ کذاب پر فوج کشی ہوئی تو یہ بھی اس میں شریک ہوئے کہ شاید میں اس کو قتل کرکے حمزہ بن عبد المطلب ؓ کے نقصان کی تلافی کرسکوں ،چنانچہ وہ اس ارادہ میں کامیاب ہوئے،[21] اس طرح خدا نے ان کی ذات سے اسلام کو جس قدر نقصان پہنچایا تھا اس سے زیادہ فائدہ پہنچایا۔

اخلاق

حضرت امیر حمزہ ؓ کے اخلاق میں سپاہیانہ خصائل نہایت نمایاں تھے، شجاعت جانبازی اور بہادری ان کے مخصوص اوصاف تھے،مزاج قدرۃ تیز وتند تھا، شراب حرام ہونے سے پہلے اس کے عادی تھے،ایک دفعہ ایک انصار کے میخانہ میں صحبت احباب گرم تھی اور دور ساغر کے ساتھ ایک رقاصہ کی خوش الحان راگنیوں سے محفل کا رنگ جما ہوا تھا۔اسی حالت میں اس نے دو اونٹوں کی طرف اشارہ کرکے جو سامنے بندے ہوئے تھے یہ مصرع پڑھا۔ الایاحمزۃ للشرف النواء

حضرت حمزہ ؓ نشہ کی مدہوشی میں بے اختیار کودے اور دونوں کے جگر اور کوہان کاٹ لائے، یہ اونٹ حضرت علی ؓ کے تھے،انھوں نے یہ حال دیکھا تو آبدیدہ ہوکر دربارِ نبوت میں شکایت کی،آنحضرت ان کو اور حضرت زید بن حارثہ کو ساتھ لیے ہوئے اس وقت اس محفل طرب میں تشریف لائے اور حضرت حمزہ ؓ کو ملامت فرمانے لگے،لیکن یہاں ہوش وحواس پر نشہ کا قبضہ ہو چکا تھا، انھوں نے یک دفعہ سر سے پاؤں تک آنحضرت ﷺ کو گھور کر دیکھا اور آنکھیں لال پیلی کرکے بولے"تم سب میرے باپ کے غلام ہو،آپ نے مدہوشی کی یہ کیفیت دیکھی تو الٹے پاؤں لوٹ آئے۔[22]

حضرت امیر حمزہ ؓ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور تمام نیک کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے،چنانچہ شہادت کے بعد آنحضرت ﷺ نے ان کی لاش سے مخاطب ہوکر اس طرح ان محاسن کی داد دی تھی۔ رحمۃ اللہ علیک فانک کنت ماعلمت وصولا للرحم فعولاللخیرات تم پر خدا کی رحمت ہو کیونکہ جہاں تک مجھے معلوم ہے تم قرابت داروں کا سب سے زیادہ خیال رکھتے تھے،نیک کاموں میں پیش پیش رہتے تھے۔

ازواج واولاد

حضرت حمزہ ؓ نے متعدد شادیاں کیں،بیویوں کے نام یہ ہیں، بنت الملہ،خولہ بنت قیس،سلمی بنت عمیس، ان میں سے ہر ایک کے بطن سے اولاد ہوئی،لڑکوں کے نام یہ ہیں، ابویعلیٰ، عامر، عمارہ، آخرالذکر دونوں لاولد فوت ہوئے، ابویعلی سے چند اولادیں ہوئیں لیکن وہ سب بچپن ہی میں قضا کرگئیں،اس طرح حضرت حمزہ ؓ کا سلسلہ نسل شروع ہی میں منقطع ہو گیا۔[23]

سلمی بنت عمیس کے بطن سے امامہ نامی ایک لڑکی بھی تھی، فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ﷺ نے مراجعت فرمائی تو بھائی بھائی کہہ کر اس نے پیچھا کیا،حضرت حمزہ ؓ کے رشتہ داروں میں سے حضرت علی ؓ، حضرت جعفر ؓ اورحضرت زید بن حارثہ ؓ نے ان کو اپنی اپنی تربیت میں لینے کا دعویٰ پیش کیا،لیکن آپ نے حضرت جعفر ؓ کے حق میں فیصلہ دیا؛ کیونکہ ان کی بیوی اسماء بنت عمیس امامہ کی حقیقی خالہ تھیں، حضرت علی ؓ نے آنحضرت کو امامہ سے شادی کرلینے کی ترغیب دی تھی، لیکن آپ نے انکار کردیااورفرمایا حمزہ ؓ میرے رضاعی بھائی تھے۔[24]

حوالہ جات

  1. عنوان : Хамза ибн Абд аль-Мутталиб
  2. http://www.islamicthinkers.com/index/index.php?option=com_content&task=view&id=261&Itemid=26
  3. عنوان : Абд аль-Мутталиб
  4. مواہب اللدنیہ ،امام قسطلانی،جلد اول مقصدثانی صفحہ 589 فرید بکسٹال لاہور
  5. (مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 93)
  6. (اسد الغابہ تذکرہ حمزہ ؓ)
  7. (طبقات ابن سعد قسم اول جزو 3 :92)
  8. (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث)
  9. (طبقات ابن سعد حصہ مغازی)
  10. (طبقات بن سعد حصہ مغازی : 3)
  11. (طبقات ابن سعد صفحہ 4)
  12. (ابوداؤد :1/ 263)
  13. (اسد الغابہ تذکرہ حمزہ ؓ)
  14. (طبقات ابن سعد حصہ مغازی: 19)
  15. (بخاری کتاب المغازی باب قتل حمزہ ؓ)
  16. (اسد الغابہ تذکرہ حمزہ ؓ)
  17. ( بخاری باب قتل حمزہ ؓ)
  18. (طبقات ابن سعد قسم اول ثالث : 7)
  19. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث: 7)
  20. (ابن سعد : 9)
  21. (بخاری باب قتل حمزہ ؓ)
  22. (بخاری کتاب فرض الخمس)
  23. (طبقات ابن سعد قسم اول جزثالث: 7)
  24. (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :7)