انتقاد بر قرآن

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
  • ماسوائے کسی خصوصی بیان کے تمام القرآن حوالہ جات بیرون الویکی صفحات پر جاتے ہیں۔

انتقاد بر قرآن یا قرآن پر تنقید (criticism of the qur'an) اصل میں اسی خالق کی پیدا کردہ انسانی نفسیات سے پیدا ہوتی ہے جس نے قرآن نازل کیا؛ اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ قرآن پر کیا جانے والا یہ انتقاد محض غیر مسلم اشخاص تک محدود نہیں بلکہ خود مسلمانوں میں ایسے اشخاص تاریخی طور پر ثابت ہیں کہ جنھوں نے مختلف الفاظ و اشکال میں اس تنقید کی جھلک پیش کی۔ عام طور پر مسلم اذہان میں قرآن کا جو تصور اور توقیر ہے وہ شاید ہی کسی اور الہامی (غیر الہامی) کتاب رکھنے والوں میں پائی جاتی ہو، مسلمانوں کے لیے قرآن پر انتقاد ایسا ہرگز نہیں جیسا کہ عیسائیوں کے لیے بائبل پر تنقید یا بدھوں کے لیے سترا پر تنقید ہو اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن اور اسلام، اسلام میں مذہب کے ایسے جدا اجزاء نہیں کے جیسے بائبل اور مسیحیت، مسیحیت میں ہیں ؛ مسلم اذہان کے لیے قرآن پر انتقاد اصل میں اسلام پر انتقاد ہی کے مترادف ہے۔ قرآن اور بائبل کے اس فرق کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ؛ قرآن، مسلمانوں کے لیے ایک الہام یا وحی ہے جبکہ بائبل عیسائیوں کے لیے وہ نسخہ ہے جہاں الہام یا وحی کو پایا جا سکتا ہے گویا تقابلی انداز اختیار کیا جائے تو یہ کہنا غلط نا ہوگا کہ قرآن کا مسیحیت میں متبادل بائبل نہیں بلکہ حضرت عیسیٰ کی ذات ہے جبکہ بائبل کی حیثیت کا اسلامی متبادل حدیث کو قرار دیا جا سکتا ہے۔[1] قرآن پر کیے جانے والے انتقاد میں تنقید کا کوئی بھی پہلو نظر انداز نہیں کیا گیا اور اس تنقید کا دائرہ ؛ قرآن کے انسانی نا کہ الہامی منبع، قرآن میں تاریخی اغلاط، قرآن میں قواعدی و لسانی اغلاط، قرآن میں سائنسی و علمی اغلاط، قرآن کی حفاظت میں اغلاط اور خود قرآن کے اپنے الفاظ و متن میں تصادم و اغلاط تک وسعت رکھتا ہے۔

قرآن، پیغمبرِاسلام کی تحریر[ترمیم]

مسلم اذہان کے لیے قرآن محض اللہ کا کلام یا کوئی مذہبی کتاب نہیں بلکہ مسلم اذہان میں قرآن اس کائنات میں موجود وہ زندہ شے ہے جس کو انسان کہا جاتا ہے۔ مسلم فرد قرآن کی صرف قرآت و تلاوت نہیں کرتا بلکہ وہ خود چلتا پھرتا قرآن ہوتا ہے، خود پیغمبر اسلام کے بارے میں مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ قرآن کو محض منتقل کرنے والے نہیں تھے بلکہ وہ اپنی ذات میں ایک قرآن تھے۔ ایک مسلم مفکر بنام اقبال نے اسی تصور کو یوں بیان کیا ہے۔

یہ بات کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن

قرآن کا ماخذ انسانی ہے یا الہامی؟ قرآن کس نے تحریر کیا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو درون اسلامی دنیا میں یا تو اٹھتے ہی نہیں اور یا پھر بلا شک و شبہ کے اپنا جواب رکھتے ہیں کہ قرآن الہامی کتاب ہے جس کو اللہ نے تحریر کیا اور محمد کے وسیلے سے انسانوں تک پہنچایا؛ لیکن بیرون اسلامی دنیا میں یہ ایسے سوالات ہیں جن پر بحث تاریخی طور پر چلی آ رہی ہے اور غیر مسلم و مسلم دونوں جانب سے جواب در جواب اور سوال در سوال کا سلسلہ کہیں ختم نہیں ہوتا۔ انسانی ذہن، دماغ میں وارد ہونے والا کوئی پہلو (خواہ اچھائی کا تسلیم کیا جائے یا برائی کا) چھوڑتا نہیں ہے ؛ قرآن پر انتقاد کرنے والے بھی اسی فطری اصول کی مثال نظر آتے ہیں۔ اور قرآن پر اعتراض کا سب سے بڑا اور اہم پہلو دماغ میں یہی آتا ہے کہ اس کو الہامی نہیں بلکہ خود پیغمبر اسلام یا ان کے بعد آنے والے اصحابہ اکرام کی جانب سے آنے والا متن ثابت کرنے میں کوئی دقیقہ باقی نا رہنے دیا جائے ؛ انسانی ہاتھوں میں موجود وہ قرآن جس کے بارے میں مسلم عقیدہ ہے کہ اس کی ہو بہو اصل اللہ کے پاس محفوظ ہے (فِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ - (قرآن: سورۃ البروج:21 - 22)) معترضین اسی کو تورات اور انجیل کی نقل قرار دیتے ہیں۔

الزام پرانا، توجیہات نئی[ترمیم]

قرآن پر الہامی کلام نا ہونے کا الزام کوئی نیا نہیں ہے، قرآن پر اللہ کا کلام نا ہونے کا یہ الزام تو اہلِ عرب، غروبِ زمانۂ جاہلیت اور ظہورِ عہد اسلام سے لگاتے چلے آ رہے ہیں۔ جب ان کو اس بات کا کوئی جواب نا ملتا کہ قرآن کی فصاحت و بلاغت اور اس کا اذہان پر طاری ہوجانے والا انداز و بیان ایک غیرتعلیم یافتہ شخص (الرَّسُولَ النَّبِيَّ الأُمِّيَّ - (قرآن: سورۃ الاعراف:157)) کیسے مرتب کر سکتا ہے؟ تو وہ قرآن کے پراثر کلام کے لب و لہجے کو کسی جن یا روح یا بدروح کی کارستانی گردان دیتے تھے۔ قرآن (الاعراف 157) کو قرآن ہی سے غلط ثابت کرنے والے خوش فہم (اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ - (قرآن: سورۃ العلق:1)) کا حوالہ بھی دیتے ہیں کہ اگر محمد اُمّی تھے تو پھر مذکورہ بالا آیت میں ان کو پڑھنے کے لیے (اقرا) کیوں کہا جاتا؟ مسلم تفاسیر میں اقرا کے معنی عربی قواعد کے لحاظ سے پڑھنے اور تلاوت کرنے دونوں کے بتائے جاتے ہیں ؛ دونوں ہی معنوں میں، اُمّی ہونے کی حالت کوئی قباحت پیدا نہیں کرتی کیونکہ پڑھنے (سمجھ مشروط) اور تلاوت یا قرات (سمجھ غیر مشروط)، دونوں کے لیے ہی بات، جبرائیل سے سن کر دہرانے کی کی جا رہی ہے نا کہ خود اپنے علم سے کچھ بیان کرنے یا کسی تحریر کو پڑھنے کی بات کی جا رہی ہو۔
مسلمان جس بات کو قرآن کا معجزہ بنا کر پیش کرتے ہیں اعتراض کرنے والے اسی معجزے کو مزید اعتراضات اٹھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں ؛ قرآن کی اپنے جیسی ایک سورت ہی بنا کر دکھانے کی للکار (قُلْ فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّثْلِهِ - (قرآن: سورۃ یونس:38)) کا سامنا آج تک کوئی عربیدان نا کرسکا لیکن معترضین کے مطابق ایسا بے مثال کلام لکھ کر اس کو اپنے نام سے منسوب کرنے کی بجائے اللہ کا کلام کہنے کے، حضرت محمد کے اپنے مخصوص مقاصد تھے۔ ۔۔۔۔

  1. ذاتی شہرت، آسائش و طاقت کی تمنا
    اعتراض پر جواب: تاریخ سے ثابت ہے کہ اسلام کی خاطر پیغمبر اسلام نے اپنی جان کو خطرے میں ڈالا اور مزید یہ کہ کبھی عیش و عشرت کی زندگی بھی بسر نہیں کی؛ اگر قرآن کو پیغمبر اسلام کی تحریر مان لیا جائے تو وہ شخص جو تمام عرب شعرا کو اپنی تحریر کے سامنے لاجواب کر سکتا ہو،[2] وہ شخص جو بڑے بڑے مخالفین کو اپنی جانب راغب کر سکتا ہو وہ اتنی دانش و اہلیت تو ضرور رکھتا ہوگا کہ شہرت و طاقت کے حصول کی خاطر وہ طریقہ اختیار کرے جس میں اس کی جان خطرے میں نا پڑے۔
  2. اپنی (یعنی عرب) قوم کی اخلاقی بدحالی درست کرنا
    اعتراض پر جواب:
  3. اپنی قبائل میں منتشر قوم کو متحد و یکجا کرنا
    اعتراض پر جواب:
  4. پیغمبر کی حیثیت سے تاریخ میں اپنا نام درج کروانا
    اعتراض پر جواب:

تنقیدات کے جواب[ترمیم]

آریہ سماج رہنما سوامی دیانند جن کو ہندوستان میں قرآن کا سب سے بڑا نقاد کہاجاتاہے نے دیگر مزاہب پرتنقید کے ساتھ قرآن پر 159 تنقیدی اعتراضات کیے تھے۔ اپنی کتاب "ستیارتھ پرکاش" ہندی میں 14 نمبر کا سمولاس قرآن پر لکھا تھا۔
اعتراضات پر تنقید:
ستیارتھ پرکاش کے جواب میں ثناء اللہ امرتسری نے"حق پرکاش بجواب ستیارتھ پرکاش" اردو میں[3] (جو کافی پہلے سے ہندی میں[4] بھی ہے) لکھی۔جس میں ترتیب سے مدلل جواب دیے۔
بعد میں اس کتاب کی طرح" مقدس رسول" بجواب رنگیلا رسول[5]کابھی جواب آریہ سماج ابھی تک نہ دے سکا۔
ثناء اللہ امرتسری کی"ترک اسلام بجواب ترک اسلام" (غازی محمود دھرمپال)[6] اورطبر اسلام بجواب نخل اسلام[7] (غازی محمود دھرمپال) بھی لاجواب ہیں۔
آریہ سماج کے ناقدین کی قرآن ،محمد اور اسلام پر اعتراضات پر"سوامی دیانند اور ان کی تعلیم"[8] از خواجہ غلام حسنین،اچھی تاریخی کتاب ہے۔

حوالہ جات[ترمیم]

  • آج کل کم و بیش تمام کتب، گوگل کتب پر دستیاب ہو جاتی ہیں۔
  1. Mahmut Aydin۔ Modern western christian theological understandings of muslims since the second vatican council 
  2. Muhammad Baqir Behbudi, Colin Turner۔ The Quran: a new interpretation 
  3. مولانا ثناء اللہ امرتسری۔ حق پرکاش بجواب ستیارتھ پرکاش 
  4. मौलाना सनाउल्लाह अमृतसरी۔ हक़ प्रकाश बजवाब सत्यार्थ प्रकाश 
  5. مولانا ثناء اللہ امرتسری۔ مقدس رسول بجواب رنگیلا رسول 
  6. ترک اسلام بجواب ترک اسلام (غازی محمود دھرمپال) https://www.scribd.com/document/41806300/Turk-e-Islam-Sanaullah-Amratsari
  7. طبر اسلام بجواب نخل اسلام (غازی محمود دھرمپال) https://www.scribd.com/document/41845917/Tabrra-e-Islam-Sanaullah-Amratsari
  8. خواجہ غلام حسنین۔ سوامی دیانند اور انکی تعلیم