ازبکستان میں اسلام

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ازبکستان میں اسلام کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور یہ سب سے زیادہ اس مذہب کے ماننے وہاں رہتے ہیں۔ یہاں مذہب اسلام کے کئی فرقے آباد ہیں۔

شماریات[ترمیم]

تقریباً 90 فیصد آبادی مسلمان ہے۔ [1] }} ان میں زیادہ تر سنی ہیں۔ ازبکستان کو وسط ایشیا میں مذہبی اور ثقافتی مرکز ہونے کا شرف حاصل ہے۔ [2]

ایک دوسرے تخمینہ کے مطابق مسلمان 79 فیصد ، روسی راسخ الاعتقاد کلیسیا 5 فیصد اور 16 فیصد دیگر مذاہب کے ماننے والے ہیں۔ [3][4] تقریباً 93,000 یہود ازبکستان میں آباد ہیں۔

تاریخ[ترمیم]

عہد وسطی[ترمیم]

جدید ازبیک کے اجداد کو اسلام کا تعارف عرب قوم نے کروایا تھا جب وہ فتوحات ہرئے وسط ایشیا میں داخل ہوئے تھے۔ اولا اسلام ترکستان جنوبی علاقہ میں مضبوط ہوا پھر دھیرے دھیرے شمال کی جانب بڑھا۔ دولت سامانیہکے چند حوصلہ مند مبلغین کی محنت سے ترک میں اسلام کافی مقبول ہوا۔ 14ویں صدی میں امیر تیمور نے کئی مذہبی عماتریں بنوائیں جن میں مشہور بی بی خانم مسجد مسجد تبھی شامل ہے۔ انھوں نے احمد یسوی کی قبر ایک مزار بنوایا جو ان کا شاہکار ہے۔ احمد یسوی تصوف کے بہت بڑے بزرگ تھے۔ تیمور کے دربار میں عمر اقطا اسلامی خطاطی کے ماہر تھے، ان کو حکم ہوا تھا کہ وہ قرآن کو اتنے باریک حرفوں میں لکھیں کہ وہ ایک انگوٹھی میں سماجائے۔ ان کو پھر اتنے بڑے قرآن لکھنے کا حکم ہوا کہ اس کو اٹھانے کے لیے گاڑیوں کا سہارا لینا پڑے۔ ازبیک خان کے تبدیلی مذہب نے ازبک لوگوں کو کافی متاثر کیا اور بہت بڑی تعداد میں لوگ اسلام میں داخل ہوئے۔ ازبیگ خان نے احمد یسوی کے ایک مرید عبد الحمید کی تبلیغ پر اسلام قبول کیا۔ پھر انھوں نے طلائی اردو میں جم کر اسلام کی تبلغ کی اور وسط ایشیا میں مبلغین کے سفیر روانہ کیے۔ اسلام کے بڑے علما جنھوں نے تصنیف و تالیف کی دنیا میں لازوال اور لاثانی کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں ان کا تعلق اس علاقہ سے رہا ہے۔ ان میں سب سے نمایاں محمد بن اسماعیل بخاری ہیں جن کی صحیح بخاری قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب مانی جاتی ہے اورحدیث کی سب سے معتبر کتاب ہے۔ ابو عیسیٰ محمد ترمذی اور ابو منصور ماتریدی بھی اسی علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں[5][6] سمرقند میں مسلم سائندانوں نے خوب نام کمایا۔

روسی عہد[ترمیم]

مفتی اعظم نے اپنی وسعت کے بقدربیرون ملک سیکڑوں وفود سے ملاقات کی اور کئی اسلامی رسالے شائع کیے۔ حالانکہ اسلامی تنظیموں پر حکومت کی سخت نظر رہتی تھی اور حکومت نے مذہب مخالف مہمیں بھی شروع کی تھیں، اسلام کے اثر کر کم کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے اور مساجد و مدارس مقفل کردیے گئے۔ [7][غیر معتبر مآخذ؟]۔

آزادی کے بعد[ترمیم]

1990ء کی دہائی[ترمیم]

1990ء کے اواخر میں سوویت کے خاتمے کے بعد سعودی عرب اور ترکی سے متعدد تبلیغی وفود ازبکستان میں آئے اور تصوف اور وہابیت کی تبلیغ کی ۔ [8] ۔ 1992ء میں نامیغان نامی شہر میں سعودی یونیورسٹی سے پڑھکر آئے کچھ طالبعلموں میں ایک سرکاری عمارت پر قبضہ کر لیا اور صدر کریمو سے مانگ کی کہ اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب ہونے کا اعلان کیا جائے اور ملک میں شرعی قانون نافذ کیا جائے۔ حالانکہ ان کا یہ منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا اور حکومت نے ان پر غلبہ حاصل کر لیا۔ ان کا سرغنہ افغانستان فرار ہو گیا اور پھر پاکستان چلا گیا۔ اسے بعد میں اتحادی فوج نے شہادت دے دی۔ 1992ء اور 1993ء میں 50 مبلغین کو سعودے عرب سے بھگا دیا گیا۔ صوفی مبلغوں کو بھی تبلیغ سے منع کر دیا گیا۔ [9]آزادی کے بعد ازبکستان میں اسلام کا احیا ہوا اور 1994ء کے ایک سروے میں یہ سامنے ہوا کہ لوگوں کی اسلام کے تئیں دلچسپی بڑی تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔

2000ء کی دہائی[ترمیم]

حکومت نے حزب التحریر اور ترکی کے بدیع الزمان کے متبعین پر پابندی عائد کررکھی ہے۔ [3]


حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Uzbekistan"۔ CIA۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2018 
  2. Rohan & Yee 2016, p. 404.
  3. ^ ا ب Uzbekistan
  4. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 19 مئی 2011 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2018 
  5. کاتب چلبی حاجی خلیفہ۔ (1943)۔ Keşfü'z-Zünûn an Esâmi'l-Kütüb vel-Fünûn، (Vol. I)، (pp. 110‑11)۔ Istanbul:Maarif Matbaası۔
  6. Ali, A. (1963)۔ Maturidism. In Sharif, M. M. (Ed.)، A history of muslim philosophy: With short accounts of other disciplines and the modern renaissance in the muslim lands (Vol. 1)، (p. 261)۔ Wiesbaden: Otto Harrassowitz.
  7. Muslims in the Former U.S.S.R
  8. Constitution of Uzbekistan. Part II. Basic human and civil rights, freedoms and duties.
  9. Islam and Secular State in Uzbekistan: State Control of Religion and its Implications for the Understanding of Secularity.