ترکمانستان میں اسلام

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

2009ء کی پیو تحقیقی مرکز کے اعداد و شمار کے مطابق، 93.1% ترکمانی عوام کا مذہب اسلام ہے۔[1] روایت کی رو سے، ترکمانستان کے ترکمانی، ازبکستان اور افغانستان کے قرابت دار اہل سنت ہیں۔ البتہ اہل تشیع یعنی اسلام کے دوسرے بڑے فرقے کی قابل ذکر تعداد نہیں ہے اور شیعہ مذہبی اقلتیتیں آذری اور کرد سیاسی طور پر فعال نہیں ہیں۔ ترکمانستان کے عوام کی اکثریت خود کو باخوشی بطور مسلمان اپنی شناخت ظاہر کرتے ہیں اور اسلام سے وابستگی ان کے ثقافتی ورثے کا حصہ ہے، تاہم بعض اس بات کے حمایتی ہیں کہ قومی احیا میں مذہبی احیا بنیادی عنصر ہے۔

تاریخ اور ڈھانچا[ترمیم]

644ء میں عمر بن خطاب کی سلطنت کا حصہ

اسلام ترکمنستان میں دوسرے اور تیسرے خلفا، عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان کی اسلامی فتوحات کے دوران میں پہنچا۔

ترکمانی قبائلی ڈھانچا اس "مقدس" قبیلے کا حصہ ہے جسے اولات کہا جاتا ہے۔ نژاد نامہ نگاروں کے مطابق اولات، چھ فعال صوفی سلسلوں میں سے ہے۔ ان کے نسب ناموں کے مطابق، ہر قبیلے کا نسبی تعلق خلفائے راشدین میں سے کسی ایک کے ذریعے محمد بن عبد اللہ تک پہنچتا ہے۔ [2]

ترکمنستان کا شہر مرو ایک دور میں طویل عرصے تک اسلامی دنیا کا مرکز رہا ہے اور ترکمانستان میں آج بھی یہ کہاوت مشہور ہے کہ “ مرو دنیا کا بادشا ہ ہے”۔ معروف صحابی اسلم بریدہ کا مزار بھی مرو میں ہی مرجع خلائق ہے۔ ترکمانستان میں اسلم برید ہ کو بابابریدہ کے نام سے مشہور ہیں ۔ مرو میں ہی خواجہ یوسف ہمدانیکا مزار بھی مرجع خلائق ہے ،خواجہ یوسف ہمدانیؒ اپنے عہد کے بے مثال صوفی خواجہ احمد یساوی کے دادا مرشد تھے اور بھارت کے شہر پانی پت میں مدفون بزرگ شمس الدین ترک خواجہ احمد یساوی کے صاحبزادے ہیں۔ خواجہ یوسف ہمدانی کے مریدوں میں سے ہی ایک مرید خواجہ بہاالدین نقشبند تھے جنھوں نے روحانیت کے مشہور سلسلہ نقشبندیہ کی بنیاد رکھی، یہ سلسلہ برصغیر پاک و ہند میں آج بھی مقبول ہے۔ معروف روحانی شخصیت شیخ نجم الدین کبرىٰ کا مزار بھی ترکمانستان کے شہر داشوغوز میں ہی مرجع خلائق ہے۔ ترکمانستان میں ہی ایران کی سرحد کے قریب “ماری ”نامی علاقے میں علی ابن ابی طالب کے غلام قمبر کا مزار شریف ہے۔[3]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 23 دسمبر 2010 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 نومبر 2018 
  2. Larry Clark, Michael Thurman, and David Tyson. "Turkmenistan"۔ A Country Study: Turkmenistan (Glenn E. Curtis, editor)۔ کتب خانہ گانگریس وقاقی تحقیقی ڈویژن (مارچ 1996)۔ This article incorporates text from this source, which is in the دائرہ عام۔[1]
  3. "پاکستان اور ترکمانستان کے رشتے - ہم سب"۔ ہم سب (بزبان انگریزی)۔ 2017-10-12۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 نومبر 2018