طاہر القادری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(طاہرالقادری سے رجوع مکرر)
طاہر القادری
(انگریزی میں: Tahir Qadri ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 19 فروری 1951ء (73 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جھنگ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش کینیڈا (2006–)  ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان[2][3]
کینیڈا[4]  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
جماعت پاکستان عوامی تحریک  ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ پنجاب  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سیاست دان،  مترجم،  مصنف،  عالم  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو[5]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت پنجاب یونیورسٹی لا کالج  ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثر محمد اقبال،  رومی،  طاہر علاؤ الدین قادری گیلانی،  جلال الدین سیوطی،  احمد رضا خان،  ابن عربی  ویکی ڈیٹا پر (P737) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک منہاج القرآن،  اہل سنت،  تصوف  ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ویب سائٹ
ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

محمد طاہر القادری 19 فروری، 1951ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے۔ آپ تحریک منہاج القرآن کے بانی رہنما ہیں، جو 1980ءسے قرآن و سنت کے افکار کے ذریعے فروغ علم و شعور، اصلاح احوال امت اور ترویج و اقامت دین کے لیے مصروف عمل ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی تحریک کے قیام کا مقصد ان الفاظ مین بیان کیا: "تحریک منہاج القرآن کے بپا کیے جانے کا مقصد اولیں غلبہ دین حق کی بحالی اور امت مسلمہ کے احیاء و اتحاد کے لیے قرآن و سنت کے عظیم فکر پر مبنی جمہوری اور پرامن مصطفوی انقلاب کی ایک ایسی عالمگیر جدوجہد ہے جو ہر سطح پر باطل، طاغوتی، استحصالی اور منافقانہ قوتوں کے اثر و نفوذ کا خاتمہ کر دے۔"

آپ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن، مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ، عوامی تعلیمی منصوبہ اور منہاج یونیورسٹی کے بانی ہیں اور پاکستان عوامی تحریک نامی سیاسی جماعت کے بھی بانی چیئرمین ہیں۔

آپ شیخ سید طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی کے مرید ہیں، جو سلسلہ نسب میں شیخ سید عبدالقادر جیلانی کی 17 ویں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 28 ویں پشت سے ہیں۔

خاندانی پس منظر

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جھنگ کے ایک معروف عالم دین ڈاکٹر فرید الدین قادری کے بیٹے ہیں۔ ان کے آباؤاجداد سیال خاندان سے تھے، جو تحصیل و ضلع جھنگ کے چنیوٹ روڈ پر واقع گاؤں کھیوا کے نواب تھے۔ ان میں سے دو بھائیوں نے اپنی جائداد تیسرے بھائی کے سپرد کر کے خود درویشی اختیار کی، نواب جمعہ خان ڈیرہ اسمعیل خان کی طرف اور نواب احمد یار خان (جو ڈاکٹر طاہرالقادری کے اجداد میں سے تھے) جھنگ صدر جا آباد ہوئے۔ڈاکٹر فریدالدین 1918ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے عربی و فارسی ادب، فقہ اسلامی اور تصوف و روحانیت کے حصول کے لیے دنیابھر کا سفر کیا۔ انھوں نے لکھنؤ (بھارت) سے طب یونانی میں تخصص کیا اور انھیں 1940ء میں پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے گولڈمیڈل دیا گیا۔ انھوں نے لکھنؤ، حیدرآباد، دہلی، دمشق، بغداد اور مدینہ منورہ سے اکتساب علم کیا۔ وہ دہلی اور حیدرآباد میں حکیم نابینا انصاری کے ساتھ بھی شریک رہے۔ وہ نقیب الاشراف سید ابراہیم سیف الدین الگیلانی کے مرید تھے، جو بغداد سے بمبئی میں آن بسے تھے۔ انھیں علامہ محمد اقبال کے ساتھ گہرا شغف تھا اور وہ قیام پاکستان کی تحریک میں قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ بھی شریک سفر رہے۔ وہ سعودی عرب کے عبدالعزیز ابن سعود کے طبی مشیر بھی رہے۔ ان سے مروی ہے کہ وہ 1948ء میں سعودی عرب گئے تو بیت اللہ کے پہلو میں آخر شب اللہ تعالٰی سے دعا کی کہ انھیں ایسا بیٹا عطا فرما جو اسلام کی خدمت کرے، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں خواب میں طاہر کی ولادت کی خوشخبری دی تھی۔ ڈاکٹر فریدالدین نے 2 نومبر 1974ء کو جھنگ میں 56 سال کی عمر میں انتقال کیا۔[6]

سوانح

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اوائل عمر ہی سے انقلابی رجحانات کے حامل تھے۔ ان کے والد چاہتے تھے کہ انکا یہ ہونہار بیٹا نہ صرف روایتی مذہبی علوم میں ماہر ہو بلکہ جدید علوم و فنون میں بھی طاق ہو۔ لہذا انھوں نے بیٹے طاہر کے لیے بیک وقت دینی و دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم کا اہتمام کیا۔ یہ معمول از اول تا آخر جاری رہا۔

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری امت مسلمہ اور بالخصوص پاکستان کے حالات پر شدید دکھی رہتے تھے۔ امت مسلمہ کی زبوں حالی ان کو ہردم پریشان کیے رکھتی تھی۔ اسی اثنا میں اکتوبر 1971ء میں انھیں عظیم مفکر ڈاکٹر ب رہان احمد فارقی کی صحبت ملی، جس نے ان کی فکر کو پروان چڑھانے میں بہت ہی نمایاں کردار ادا کیا۔

1971ء سے 1973ء کے زمانے میں ڈاکٹر طاہر القادری نے مختلف مسلم و غیر مسلم مفکرین کے انقلابی افکار کا تاریخی مطالعہ کیا۔ مسلم مفکرین میں امام غزالی، شاہ ولی اللہ دہلوی، مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی، مولانا عبید اللہ سندھی وغیرہم اور غیر مسلم مفکرین میں کارل مارکس، فریڈرک اینجلس، لینن، سٹالن اور ماؤزے تنگ وغیرہم شامل ہیں۔ اس مطالعے سے ان پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ انقلابی فکر کے حوالے سے کامیابی کا جو دوٹوک یقین غیر مسلم مفکرین کے ہاں نظر آتا ہے، وہ اکثر مسلم مفکرین کے ہاں مفقود ہے۔ اس پر انھوں نے انقلابی زاویہ نگاہ سے قرآن و حدیث کا ازسرنو گہرا مطالعہ شروع کیا، جس کے نتیجے میں قرآن مجید اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو انقلاب کی کامیابی کی حتمی اور دوٹوک ضمانت مہیا کردی، جس سے انقلاب پر انکا ایقان پختہ تر ہو گیا۔

چنانچہ انھوں نے ایک بار قرآن کریم کو تھام کر اور دوسری بار اپنے شیخ طریقت سید طاہر علاؤ الدین القادری البغدادی کے دست اقدس پر باضابطہ بیعتِ انقلاب کرکے، اپنے رب اور آقائے کریم سے اپنی زندگی کو عظیم عالمی انقلاب کے لیے وقف کردینے کا پختہ عہد کر لیا۔ یہ بیعتِ انقلاب مورخہ 26 جولائی 1972ء بمطابق 14 جمادی الثانی 1392ھ ساڑھے بارہ بجے بعد دوپہر بمقام دربارِ غوثیہ شارع الگیلانی کوئٹہ میں منعقد ہوئی۔ ان کے شیخِ طریقت نے انقلاب سے متعلق تفصیلی ہدایات دیں اور ان کے لیے عزم واستقلال، جرآت و ہمت اور کامیابی و کامرانی کی دعا فرمائی۔[7]

ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی جدوجہد کا آغاز 1976ء میں جھنگ کی سطح پر نوجوانوں کی تنظیم محاذ حریت قائم کرکے کیا، جسے بعد ازاں 1980ء میں لاہور سے تحریک منہاج القرآن کے نئے نام کے ساتھ بدل دیا گیا۔ اس دوران میں ڈاکٹر صاحب نے نصنیف و تالیف اور دروس قرآن کا سلسلہ جاری رکھا، جس کے ذریعے ان کے افکار پورے ملک اور پھر رفتہ رفتہ دوسرے ممالک میں بھی عام ہوتے گئے۔ اسی دوران میں وہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں اسلامک لاءپر لیکچر دیتے رہے۔ پھر وہ فیڈرل منسٹری آف ایجوکیشن کے ارکان بنے۔ بعد ازاں فیڈرل شریعت کورٹ میں جیورسٹ کنسلٹنٹ مقرر ہوئے۔ جب ان کی شاندار صلاحیتوں کی وجہ سے ان کی شہرت مزید بڑھی تو ٹی وی پر ان کے پروگرام فہم القرآن نے بھی ان کی مقبولیت میں بے انتہا اضافہ کیا۔

ان کے سیاسی مخالفین کہتے ہیں کہ ان کی اس ترقی کا سارا کریڈٹ نواز شریف کی اتفاق مسجد میں ان کے خطیب مقرر ہونے کا ہے۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ جب انکا پروگرام فہم القرآن ٹی وی پر شروع ہوا تو اس وقت نواز شریف ابھی وزیر اعلیٰ بھی نہیں بنے تھے۔ اور ادارہ منہاج القرآن بھی اتفاق مسجد سے تعلق قائم ہونے سے بہت پہلے قائم ہو چکا تھا۔[6] اتفاق مسجد اور شریف برادران سے تعلق کے بارے میں مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے آخری خطبہ جمعہ اتفاق مسجد لاہور

انتظامی کیریئر

فائل:250px-Tahirhidayah.JPG
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، الھدایہ کیمپ برطانیہ اگست 2007ء

تعلیمی خدمات

سیاسی خدمات

  • مؤرخہ 25 مئی 1989ء کو آپ نے پاکستان عوامی تحریک کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی، جس کا بنیادی ایجنڈا پاکستان میں انسانی حقوق و عدل و انصاف کی فراہمی، خواتین کے حقوق کا تحفظ، تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی، ملکی سیاست سے کرپشن اور دولت کے اثرات کا خاتمہ تھا۔[10]
  • 1990ء میں پاکستان عوامی تحریک نے پہلی بار عام انتخابات میں حصہ لیا۔
  • 1991ء میں ملک میں جاری فرقہ واریت اور شیعہ سنی فسادات کے خاتمے کے لیے پاکستان عوامی تحریک اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے مابین اعلامیہ وحدت جاری کیا گیا۔
  • 1989ء تا 1993ء انھوں نے اسمبلی سے باہر اپوزیشن کا کردار ادا کیا اور ملکی تعلیمی، سیاسی اور معاشی صورت حال پر حکومت وقت کو تجاویز ارسال کیں۔
  • 1992ء میں آپ نے قومی اور بین الاقوامی ٹرانزیکشنز کا احاطہ کرنے والا بلاسود بینکاری نظام پیش کیا، جسے صنعتی و بینکاری حلقوں میں سراہا گیا۔
  • 1998ء میں وہ سیاسی اتحاد پاکستان عوامی اتحاد کے صدر بنے، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی سمیت کل 19 جماعتیں شامل تھیں۔
  • 2003ء - محترمہ بے نظیر بھٹو نے ان کے ادارہ کی تاحیات رفاقت اختیار کی۔[11]
  • 2003ء میں آپ نے فرد واحد کی آمریت کے خلاف قومی اسمبلی کی نشست سے استعفی دے دیا [12] جو پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی رکن اسمبلی کی طرف سے پہلا استعفی تھا۔
  • 2006ء میں جب ڈنمارک سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توہین آمیز خاکے بنائے گئے تو آپ نے اقوام متحدہ کو ایک احتجاجی مراسلہ بھیجا، جس کے ساتھ 15 کلومیٹر طویل کپڑے کا بینر بھی تھا[13] جس پر 10 لاکھ سے زائد لوگوں کے دستخط ثبت تھے۔[14]
  • توہین آمیز خاکوں کے حوالے سے آپ نے امریکا، برطانیہ، ڈنمارک، ناروے اور دیگر یورپی ممالک کی حکومتوں کو ’’دنیا کو تہذیبی تصادم سے بچایا جائے‘‘[15] کے نام سے ایک مراسلہ بھی جاری کیا۔
  • 2009ء میں اسرائیل کے ہاتھوں ہونے والی غزہ کی تباہی کے بعد فلسطینی مسلمان بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے غزہ کانفرنس [16] کا انعقاد ہوا، بعد ازاں متاثرین غزہ کے لیے امداد سامان روانہ کیا گیا۔[17]

دینی خدمات

  • آپ کے زیراہتمام لاہور میں ہر سال رمضان المبارک میں اجتماعی اعتکاف ہوتا ہے، جسے حرمین شریفین کے بعد دنیا کا سب سے بڑا اجتماعی اعتکاف کہا جاتا ہے۔[18]
  • آپ کے زیراہتمام لاہور میں مینار پاکستان کے تاریخی مقام پر ہر سال میلاد کانفرنس منعقد ہوتی ہے، کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی میلاد کانفرنس ہے۔[19]
  • آپ کے قائم کردہ گوشہ درود میں لوگ سارا سال دن رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ روئے زمین پر یہ ایسی واحد جگہ ہے جسے تاریخ میں پہلی بار ڈاکٹر طاہرالقادری نے قائم کیا۔[20]
  • آپ کی قائم کردہ تحریک منہاج القرآن کی دنیابھر میں شاخیں ہیں، جو تارکین وطن کی نئی نسل کو اسلام پر کاربند رکھنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔[21]

علمی و ادبی خدمات

  • ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہزا رہا دینی موضوعات پر اردو، انگریزی اور عربی میں خطابات کر چکے ہیں۔ فہرست خطابات ڈاکٹر طاہرالقادریآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ minhaj.org (Error: unknown archive URL) کیو ٹی وی، اے ٹی وی، پی ٹی وی، پرائم ٹی وی اور اے آر وائے گاہے بگاہے ان کے خطابات نشر کرتے ہیں۔
  • بہت سے اسلامی موضوعات پر ان کی اردو، انگریزی اور عربی زبانوں میں سیکڑوں کتب شائع ہو چکی ہیں۔[22][23]
  • عرفان القرآن کے نام سے آپ نے قرآن مجید کا سلیس اردو اور انگریزی زبان میں ترجمہ کیا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ترجمہ ہو کر تفسیری شان کا حامل ہے اور عام قاری کو تفاسیر سے بے نیاز کر دیتا ہے۔[24]
  • تفسیر منہاج القرآن کے نام سے آپ قرآن مجید کی تفسیر پر کام کر رہے ہیں، سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کی تفسیر طبع ہو کر منظر عام پر آ چکی ہے۔[25]
  • المنہاج السوی کے نام سے ان کا حدیث مبارکہ کا ایک ذخیرہ طبع ہو چکا ہے، جس میں ریاض الصالحین اور المشکوٰۃ المصابیح کی طرز پر منتخب موضوعات پر احادیث مع تخریج پیش کی گئی ہیں۔[26]
  • سیرت الرسول کے نام سے آپ کی تصنیف اردو زبان میں سیرت نبوی کی سب سے ضخیم کتاب ہے، جو 12 جلدوں پر مبنی ہے۔ اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات زندگی اور ان کی سیرت سے آج کے دور میں رہنمائی کے پہلوؤں پر کام کیا گیا ہے۔[27]
  • میلاد النبی کے نام سے آپ نے میلاد منانے کی شرعی حیثیت کے حوالے سے ایک ضخیم کتاب تصنیف کی، جس میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں میلاد کی حیثیت اور سلف صالحین کا میلاد منانے کا طریقہ باتحقیق پیش کیا گیا ہے۔[28]
  • اسلام اور جدید سائنس نامی تصنیف میں آپ نے ایک تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے، جس کے مطالعہ سے اسلامی تعلیمات کی سائنسی افادیت و ناگزیریت واضح ہوتی ہے۔[29]
  • اسلام کے اقتصادی نظام کو آج کے دور میں قابل عمل ثابت کرنے کے لیے آپ نے اقتصادیات اسلام کے نام سے ایک ضخیم تصنیف بھی تحریر کی۔[30]
  • حقوق انسانی نامی تصنیف میں اقلیتوں، [31] خواتین [32]، بچوں[33] اور عمررسیدہ اور معذور افراد[34] کے حقوق سمیت بنیادی انسانی حقوق کو اسلام کی عطا ثابت کیا۔
  • عالمی سیاسی صورت حال میں عالم اسلام کو درپیش خطرات کے حوالے سے آپ کی تصنیف نیو ورلڈ آرڈر اور عالم اسلام خاص اہمیت کی حامل ہے۔
  • امام مہدی کے حوالے سے افراط و تفریط پر مبنی غلط فہمیوں کے ازالہ کے لیے القول المعتبر فی الامام المنتظر آپ کی اہم تصنیف ہے۔[35]
  • اسلامی فقہ حنفی کے امام ابو حنیفہ کے علم حدیث میں مقام و مرتبہ کے حوالے سے امام ابو حنیفہ امام الائمہ فی الحدیث نامی ضخیم کتاب تمام اعتراضات اور غلط فہمیوں کا ازالہ کرتی ہے۔

کینیڈین شہریت

جب 2012ء میں ڈاکٹر طاہر القادری نے کرپٹ انتخابی نظام میں اصلاحات لانے کے لیے لانگ مارچ کی کال دی تو ان کے سیاسی مخالفین نے میڈیا میں یہ خبر چلائی کہ انھوں نے 2008 میں عبدالشکور قادری کے نام سے کینیڈا میں سیاسی پناہ مانگی تھی اور کہا تھا کہ انھیں لشکرجھنگوی، سپاہ صحابہ اور طالبان سے جان کا خطرہ ہے۔ میڈیا کے مطابق 17 اکتوبر2009ء کو کینیڈین حکومت نے ان کا کیس منظور کیا تھا اور 2012ء میں انھیں کینیڈا کی شہریت اور پاسپورٹ دے دیا گیا، اس کے علاوہ طاہرالقادری مختلف امراض کی مد میں ویلفئیر فنڈز بھی لیتے رہے۔ قانون کے مطابق کینیڈا میں سیاسی پناہ لینے والا شخص اس ملک میں نہیں جا سکتا جہاں اس کی جان کو خطرہ ہے۔ اس سے سیاسی پناہ کا حلف توڑنے پر وضاحت کے لیے رائل کینیڈین مانیٹرنگ پولیس نے 5 فروری 2013ء کو کینیڈا میں طلب کیا۔ حوالہ ٹرائبون "وقت نیوز کے مطابق طاہر القادری نے 5برس قبل گستاخانہ خاکے بنانے والے ملعون کارٹونسٹ سے ملاقات کے بعد عبد الشکور قادری کے نام سے کینیڈا کی شہریت کے لیے درخواست دی تھی۔

تحریک منہاج القرآن کے ذرائع نے ان خبروں کو جھوٹا پراپیگنڈہ قراردیا اور اصل حقائق میڈیا کے سامنے رکھے۔ بعد میں جب غیر جانبدار اہل صحافت نے تحقیق کی تو یہ سب جھوٹ ثابت ہوا۔ تفصیلات کے لیے دیکھیے : کیا ڈاکٹر طاہر القادری نے سیاسی پناہ لی؟آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ zemtv.com (Error: unknown archive URL)

نظریات

فائل:250px-Shaykhulislam.JPG
ڈاکٹر طاہرالقادری، 1990ء میں
  • ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک سنی سکالر ہیں مگر وہ مسلک اہل سنت کو کسی شخصیت یا علاقے سے منسوب کرنے کو مذموم سمجھتے ہیں، اس لیے وہ خود کو بریلوی اور دیوبندی عنوانات سے آزاد فقط اہل سنت مسلمان قرار دیتے ہیں۔[36][37]
  • ان کے مطابق اہل سنت کوئی فرقہ نہیں بلکہ مسلمانوں کی اکثریتی جماعت یعنی سواد اعظم کا نام ہے، جو سنت رسول اور طریق صحابہ کرام کی اتباع کرنے والی ہو، جبکہ فرقے وہ ہیں جو مختلف ادوار میں اس اکثریتی جماعت سے اختلاف کرکے الگ ہوتے گئے۔[38]
  • ان کے مطابق اپنا عقیدہ چھوڑو مت اور دوسروں کا عقیدہ چھیڑو مت کی پالیسی اتحاد امت کے لیے ناگزیر ہے۔[39]
  • ان کے مطابق اسلامی تصوف کی روح نفس کی پاکیزگی سے عبارت ہے، جو شریعت کی پاسداری کے بغیر ناممکن ہے۔ اسی بنا پر وہ تصوف کو کاروبار بنانے والوں کو جاہل اور گمراہ قرار دیتے ہیں۔[40]
  • ان کے مطابق اسلام قیام امن کا سب سے بڑا داعی ہے[41] اور جہاد کے نام پر دہشت گردی کا بازار گرم کرنے والے گروہ مسلمان تو کجا انسان بھی کہلانے کے مستحق نہیں۔[42] آپ کے مطابق دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں۔[43][44] آپ نے متعدد بار واضح طور پر اسامہ بن لادن کی کارروائیوں کی مذمت بھی کی۔[45]
  • ان کے مطابق اسلام حقوق نسواں کا واحد علمبردار مذہب ہے[32]، جو آزادی نسواں کے نام پر عورت کی تذلیل کرنے کی بجائے صحیح معنوں میں اسے مرد کے برابر معاشرتی حقوق دیتا ہے[46][47]
  • ان کے مطابق اسلام کا اصول مشاورت اسلامی نظام حیات کی روح ہے۔ اسلامی فلاحی معاشرے کے قیام کے لیے فرد واحد کے فیصلوں کی بجائے تمام فیصلوں میں اجتماعی مشاورت ناگزیر ہے۔[48]
  • ان کے مطابق انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے بین المذاہب رواداری نہایت ضروری ہے۔[49] انھوں نے خود عملی طور پر مسلم کرسچئن ڈائیلاگ فورم[50] بنا رکھا ہے اور وہ عیسائیوں کے مسجدوں میں آ کر عبادت[51][52] کرنے کو حدیث نبوی [53] کی بنیاد پر جائز قرار دیتے ہیں۔
  • ان کے مطابق اسلامی نظام معیشت آج کے دور میں بھی قابل عمل ہے۔[54] اس سلسلے میں آپ نے بلاسود بینکاری نظام بھی پیش کیا۔[55]
  • ان کے مطابق اسلام کو آج کے دور میں قابل عمل دین ثابت کرنے کے لیے اسلام کی مذہبی، سماجی اور ثقافتی اقدار کے فروغ کے ساتھ ساتھ سائنسی بنیادوں پر اسلام کی تعبیر کی ضرورت ہے۔[56]
  • ان کے مطابق سیاست اسلام کا حصہ ہے، جسے دین سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔[57]

تنقید

  • آپ کے کچھ مخالفین آپ کو امت کے لیے فتنہ گردانتے ہیں۔ نواز کھرل نے آپ کے خلاف متنازع ترین شخصیت نامی کتاب لکھی جو کوئی باقاعدہ تصنیف نہیں ہے بلکہ ان کے مخالفین کی تحریروں کا مجموعہ ہے۔
  • کچھ علما کرام موسیقی کو جائز قرار دینے پر ان سے ناراضی کا اظہار کرتے ہیں۔[58]
  • اتحاد امت کی کوششوں اور شیعہ علما سے اچھے تعلقات کی بنا پر شیعہ مخالف گروہوں نے ان پر تنقید کی۔[59]
  • دیوبندی اور شیعہ طبقات کو بالعموم کافر قرار دینے سے انکار، عورت کی نصف دیت کی مخالفت اور دیوبندی، بریلوی عنوانات اختیار کرنے کو ناجائز قرار دینے پر بریلوی مکتب فکر کے بعض علما نے انھیں اہل سنت سے خارج قرار دیا۔
  • بین المذاہب رواداری کے فروغ بارے کوششوں پر انتہا پسند مذہبی فکر رکھنے والے طبقے کی طرف سے بھی انھیں تنقید کا سامنا ہے۔[60][61]
  • ان پر یہ بھی الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ یہ تحریک منہاج القرآن کے نام پر جمع ہونے والے فنڈز کو پاکستان عوامی تحریک کے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں، مگر تحریک منہاج القرآن کے ذرائع نے ان الزامات کو لغو قرار دیا۔
  • ان پر جھوٹے خواب سنا کر شہرت کے حصول کا بھی الزام ہے حوالہ طاہرالقادری کا انقلاب، مگر مخالفین ان کے جھوٹا ہونے کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کرسکے۔

حوالہ جات

  1. Munzinger person ID: https://www.munzinger.de/search/go/document.jsp?id=00000029446 — بنام: Muhammad Tahir al-Qadri — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. http://www.nytimes.com/2014/06/18/world/asia/pakistan-police-clash-with-qadri-followers.html
  3. http://www.nytimes.com/aponline/2010/03/02/world/AP-EU-Britain-Anti-Terror-Fatwa.html
  4. http://www.bbc.co.uk/news/world-asia-21022855
  5. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12537677v — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  6. ^ ا ب میری کہانی میری زبانی
  7. "ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی ذاتی ڈائری 1973ء - انقلابی فکر کب تشکیل پائی؟"۔ 20 مئی 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اپریل 2014 
  8. "تحریک منہاج القرآن کا ایجوکیشن پراجیکٹ"۔ 05 مارچ 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2009 
  9. "Upgradation of the Minhaj University, Lahore from X to W category"۔ 04 مئی 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2009 
  10. "منشور پاکستان عوامی تحریک"۔ 14 فروری 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2009 
  11. بے نظیر نے تحریک منہاج القرآن کی تاحیات رفاقت اختیار کی۔
  12. ڈاکٹر طاہرالقادری نے قومی اسمبلی رکنیت سے استعفی دے دیا۔
  13. عوامی دستخط مہم، 15 کلومیٹر طویل بینر
  14. گستاخانہ خاکوں کے خلاف تیار کیا گیا دنیا کا طویل ترین احتجاجی بینر اقوام متحدہ کے سپرد کر دیا گیا۔
  15. دنیا کو تہذیبی تصادم سے بچایا جائے۔ (مراسلہ)
  16. تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام غزہ کانفرنس
  17. "منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے زیراہتمام غزہ کے لیے امدادی سامان کی روانگی"۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2009 
  18. تحریک منہاج القرآن کا شہر اعتکاف
  19. تحریک منہاج القرآن کی سالانہ عالمی میلاد کانفرنس
  20. "تحریک منہاج القرآن کا گوشہ درود"۔ 16 جولا‎ئی 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2009 
  21. "بیرون ملک منہاج القرآن اسلامک سنٹرز کا مختصر تعارف"۔ 25 دسمبر 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2009 
  22. فہرست کتب ڈاکٹر طاہرالقادری[مردہ ربط]
  23. ڈاکٹر طاہرالقادری کی کتب برائے آن لائن مطالعہ
  24. عرفان القرآن کی ویب گاہ
  25. "تفسیر منہاج القرآن"۔ 27 فروری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2009 
  26. "المنہاج السوی من الحدیث النبوی"۔ 27 فروری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2009 
  27. "سیرت الرسول"۔ 27 فروری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2009 
  28. "میلاد النبی"۔ 27 فروری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2009 
  29. "اسلام اور جدید سائنس"۔ 27 فروری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2009 
  30. "اسلامی نظام معیشت کے بنیادی اصول"۔ 27 فروری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2009 
  31. "اسلام میں اقلیتوں کے حقوق"۔ 27 فروری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2009 
  32. ^ ا ب "اسلام میں خواتین کے حقوق"۔ 26 فروری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2009 
  33. "اسلام میں بچوں کے حقوق"۔ 27 فروری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2009 
  34. "اسلام میں عمر رسیدہ اور معذور افراد کے حقوق"۔ 26 فروری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2009 
  35. "القول المعتبر فی الامام المنتظر"۔ 27 فروری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2009 
  36. اہل سنت کا عنوان بریلویت نہیں ہے
  37. مسلک اہل سنت کو کسی بھی فرد سے منسوب کرنیوالا حدیث رسول سے انحراف کا مرتکب
  38. Daily Sahara India 13-03-2012
  39. فرقہ پرستی کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے
  40. آل پاکستان مشائخ کانفرنس 2009ء
  41. اسلام۔۔۔۔ قیام امن کا سب سے بڑا داعی
  42. دہشت گردی کا اسلام اور انسانیت سے کوئی واسطہ نہیں
  43. دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں، (استنبول کانفرنس)
  44. http://www.minhaj.org/english/cid/5007/
  45. Prominent Muslim Cleric Denounces bin Laden
  46. "ریاست مدینہ میں حق رائے دہی"۔ 27 فروری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2009 
  47. تحفظ نسواں ایکٹ 2006ء اور قائد اعظم کا پاکستان
  48. خطاب ڈاکٹر طاہرالقادری: اسلام کا شورائی نظام، شام ہمدرد 2 اپریل 1987ء
  49. منہاج القرآن لندن کے زیراہتمام بین المذاہب سیمنار
  50. Establishment of Muslim Christian Dialogue Forum – MCDF
  51. Christians Worshiping in the Mosque in Lahore, PK
  52. Mosque Open Day for non-Muslims held at Nelson, UK
  53. طبقات ابن سعد، جلد اول صفحہ 375
  54. "اسلامی نظام معیشت کے بنیادی اصول"۔ 27 فروری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2009 
  55. ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی علمی خدمات
  56. "اسلام اور سائنس میں عدم مغایرت"۔ 27 فروری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2009 
  57. "خطاب ڈاکٹر طاہرالقادری: پیغمبرانہ جدوجہد اور طاغوتی قوتوں کے مزاحمتی حربے، 19 مارچ 1993ء"۔ 06 جون 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2009 
  58. اسلام میں موسیقی کی اجازت (حدیث بخاری) یوٹیوب پر
  59. شیعہ ہونے کا الزام خارجی فتنہ ہے۔ یوٹیوب پر
  60. بین المذاہب ہم آہنگی اور ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
  61. مسلم کرسچئن ڈائیلاگ فورم کا قیام

بیرونی روابط