محمد مسعود احمد نقشبندی
محمد مسعود احمد نقشبندی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1930ء دہلی ، برطانوی ہند |
وفات | 28 اپریل 2008ء (77–78 سال) کراچی |
شہریت | برطانوی ہند پاکستان |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ سندھ |
تعلیمی اسناد | ایم اے ، پی ایچ ڈی |
پیشہ | مصنف ، معلم ، سوانح نگار |
پیشہ ورانہ زبان | اردو ، انگریزی |
اعزازات | |
طلائی تمغا |
|
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
سلسلہ مضامین |
بریلوی تحریک |
---|
|
ادارے بھارت
پاکستان
مملکت متحدہ |
مسعود ملت پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقشبندی(پیدائش: 1930ء - وفات: 28 اپریل 2008ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے ممتاز مصنف اور سلسلہ نقشبندیہ کے صوفی بزرگ تھے۔ شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی اور اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی پر تحقیقی کام کی وجہ سے سند مانے جاتے تھے۔ جو مسعود ملت کے نام سے معروف ہیں۔
حالات زندگی
[ترمیم]ڈاکٹر مسعود احمد 1930ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔۔ آپ دہلی کے ممتاز عالم دین اور روحانی پیشوا مفتی اعظم شاہ محمد مظہر اﷲ کے فرزند رشید ہیں۔ آپ کے والد ماجد بے مثل عارف و عالم اور فقیہ و مفتی تھے اور مسجد فتح پوری کے امام و خطیب تھے۔ ان کی علمی یادگاروں میں شاہ ولی اللہ دہلوی کے فارسہ ترجمہ قرآن کا اردو میں مظہر القرآن کے نام سے ترجمہ و تفسیر اور قتاویٰ مظہری معروف ہیں۔ ڈاکٹر مسعود نے عربی، فارسی، فقہ اور قرآن و حدیث کی ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی۔ بعد ازاں 1941ء تا 1945ء مدرسہ امینیہ مسجد جامع فتح پوری دہلی سے پڑھ کر سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں بیعت و خلافت حاصل کی۔ 1947ء میں اورینٹل کالج دہلی سے فارسی میں آنرز، 1948ء میں مشرقی پنجاب یونیورسٹی سے فاضل اردو اور پھر پاکستان منتقل ہونے کے بعد 1956ء میں سندھ یونیورسٹی جامشورو سے ایم اے (گولڈ مڈلسٹ) اور 1971ء میں قرآن پاک کے اردو تراجم و تفاسیر کے عنوان سے اسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
علمی سفر
[ترمیم]مسعود ملت نے اپنے سفرنگارش کاآغاز 1951ء میں کیا۔ جب آپ نے اسلام کی تعلیمات پر مبنی ایک انگریزی کتاب (Islam at the Cross Road) کے چند ابواب کا ترجمہ کیا جس کا عنوان ’’اسلام دوراہے پر‘‘ تھا۔ 1958ء میں آپ کو سندھ یونیورسٹی حیدرآباد کی جانب سے تمام امتحانات میں اول آنے پر گولڈ میڈل دیا گیا۔ آپ 1958ء سے 1966ء تک لیکچرار کے عہدے پر فائز رہے۔ 1966ء سے 1974ء تک اسسٹنٹ پروفیسر رہے اور 1974ء سے 1992ء تک پروفیسر اور پرنسپل کے فرائض سر انجام دیے۔ آپ کے استاد پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفی خان نے ڈاکٹریٹ کے لیے یہ عنوان تجویز کیا ’’اردو میں قرآنی تراجم و تفاسیر… ایک تاریخی جائزہ‘‘ 1971ء میں آپ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی… اس سے قبل 1963ء میں سندھ یونیورسٹی حیدرآباد سندھ میں منعقدہ ’’آل پاکستان اسلامک اسٹیڈیز‘‘ کانفرنس میں شرکت کی اور وہیں بارہویں صدی کے اردو قرآنی تراجم کے موضوع پر مقالہ پڑھا۔
تحقیقی کام
[ترمیم]آپ نے 1970ء میں امام احمد رضا خان پر تحقیقی کام کا آغاز فرمایا اور امام صاحب کے سیاسی افکار پر پہلی کتاب ’’فاضل بریلوی اور ترک موالاۃ‘‘ لکھی جو 1971ء میں لاہور سے شائع ہوئی۔ دوسری کتاب ’’فاضل بریلوی علمائے حجاز کی نظر میں‘‘ مرتب فرمائی جو 1973ء میں لاہور سے شائع ہوئی۔ اس کے بعد علمی تحقیقات کا ایک وسیع سلسلہ شروع ہو گیا۔ آپ نے امام صاحب کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا۔ اب تک امام احمد رضا پر 30 سے زائد تصانیف اور 70 سے زائد تحقیقی مقالات و مضامین چھپ چکے ہیں۔ آپ ممبر بورڈ آف اسٹیڈیز شعبہ اردو سندھ یونیورسٹی کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ آپ شعبہ اردو، شاہ عبد اللطیف یونیورسٹی، خیرپور (سندھ) اور شعبہ علوم اسلامیہ، کراچی یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ریسرچ بھی رہے۔ 1990ء میں ایڈیشنل سیکریٹری وزارت تعلیم حکومت سندھ مقرر ہوئے۔ آپ کی علمی خدمات کو سراہتے ہوئے آپ کو پاکستان اینٹی لیکچوئل فورم کی جانب سے گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ 1993ء میں صدر پاکستان کی جانب سے نشان اعزاز فضیلت عطا کیا گیا۔ آپ ادارہ تحقیقات امام احمد رضا‘ کراچی کے سرپرست اعلیٰ رہے۔ ادارہ نے آپ کی علمی کاوشوں کو مدنظر رکھتے ہوئے 1991ء میں آپ کو طلائی تمغے سے نوازا۔[1] آپ کی تحقیقات ہر مکتب فکر کے علما میں اچھی نظر سے دیکھی جاتی ہیں۔ (جن کی تعداد 600 سے زائد ہے) آپ نے دوسرے موضوعات کے علاوہ امام احمد رضا خان کو تحقیقی موضوع بنایا ہے لیکن 1992ء سے مسلک اہل سنت و جماعت پر آپ کی تحقیقی کاوشیں اور رسائل و کتب، عربی، اردو، انگریزی، ہندی وغیرہ میں ترجمہ ہو کر شائع ہوئے ہیں۔
تصنیفات
[ترمیم]- فاضل بریلوی اور ترک موالاۃ، مطبوعہ 1971ء
- فاضل بریلوی علمائے حجاز کی نظر میں، مطبوعہ 1973ء
- عاشق رسول، مطبوعہ 1976ء
- حیات فاضل بریلوی، مطبوعہ1987ء
- مولانا احمد رضا خان بحیثیت سیاست دان، مطبوعہ 1979ء
- مولانا احمد رضا خان بریلوی، مطبوعہ 1979ء
- گناہ بے گناہی، مطبوعہ 1981ء
- اکرام امام احمد رضا خان، مطبوعہ 1981ء
- امام اہل سنت‘ لاہور، مطبوعہ 1981ء
- اجالا، 1983ء
- امام احمد رضا خان اور عالم اسلام، مطبوعہ 1983ء
- امام احمد رضا خان اور حرکت زمین، مطبوعہ 1984ء
- دائرۃ معارف امام احمد رضا، مطبوعہ 1984ء
- حیات امام اہل سنت، مطبوعہ 1984ء
- رہبر و رہنما، مطبوعہ1987ء
- حیات امام احمد رضا بریلوی، مطبوعہ1987ء
- تنقیدات و تعاقبات امام احمد رضا، لاہور مطبوعہ 1988ء
- غریبوں کے غم خوار، مطبوعہ 1990ء
- سرتاج الفقہاء، مطبوعہ 1990ء
- امام احمد رضا خان اور علوم جدیدہ و قدیمہ، مطبوعہ 1990ء
- گویا دبستان کھل گیا، مطبوعہ 1991ء
- امام احمد رضا اور عالمی جامعات، مطبوعہ 1991ء
- امام احمد رضا محدث بریلوی، مطبوعہ 1992ء
- عشق ہی عشق‘ لاہور، مطبوعہ 1993ء
- ارمغان رضا‘ کراچی، مطبوعہ1994ء
- انتخاب حدائق بخشش‘ کراچی، مطبوعہ 1995ء
- آئینہ رضویات 3 مجلدات‘ کراچی، مطبوعہ 1989ء۔1996ء
- خلفائے اعلیٰ حضرت‘ لاہور، مطبوعہ 1996ء
- خوب و ناخوب (اردو‘ فارسی)، مطبوعہ 1999ء
- مکتوبات مسعودی (بابت امام احمد رضا) لاہور، مطبوعہ 1999ء
انگریزی مقالات
[ترمیم]- The Neglected Genius of the East‘مطبوعہ لاہور 1987ء
- مولانا شاہ احمد رضا خان‘ماہنامہ دی میسج انٹرنیشنل 1987ء کراچی
- ماہ و سال مجلہ معارف رضا 1988ء‘ کراچی
- کرونیکل آن امام ا حمد رضا مجلہ معارف رضا 1995ء کراچی
- The Reformer of Muslim کراچی مطبوعہ 1995ء
مقالات برائے انسائیکلو پیڈیا
[ترمیم]- رضا بریلوی برائے انسائیکلو پیڈیا آف اسلام‘ جلد دہم‘ پنجاب یونیورسٹی 1975ء
- رضا بریلوی برائے شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا
- احمد رضا خان برائے انسائیکلو پیڈیا آف اسلام 1982ء
- احمد رضا خان برائے انسائیکلوپیڈیا اسلامیکا فائونڈیشن 1995ء، تہران،‘ ایران
- احمد رضا خان برائے مجمع الملکی لبحوث الحضارۃ الاسلامیہ 1990ء، عمان، اردن
اس کے علاوہ صرف امام احمد رضا سے متعلق تصانیف و مقالات کے عربی ‘ فارسی‘ ہندی‘ فرانسیسی‘ گجراتی‘ بنگلہ وغیرہ میں تراجم کی تعداد 25 سے زیادہ ہے‘ اخبارات و رسائل کے لیے امام احمد رضا پر 115 مضامین و مقالات تحریر فرمائے۔ بے شمار تقدیمات بھی آپ کے علمی گوہر کا پیغام دیتی ہیں۔
وفات
[ترمیم]ڈاکٹر مسعود احمد 28 اپریل 2008ء کو کراچی میں وفات پا گئے۔ آپ کامزار کراچی کے ماڈل کالونی قبرستان میں ہے۔
وفات کے بعد آپ کے فرزند صاحبزادہ ابوالسرور محمد مسرور احمد جانشین سلسلہ طریقت نقشبندیہ مجددیہ مظہریہ مسعودیہ ہوئے جبکہ خلفا میں علامہ مفتی محمد مکرم احمد دہلی، اور علامہ ڈاکٹر اقبال احمد اخترالقادری کراچی نمایاں ہیں[2]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ ڈاکٹر اعجاز انجم لطیفی ،بعنوان ’’پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد کی نثری خدمات‘‘ بہادر‘بہار یونیورسٹی مظفر پور‘ انڈیا سے ڈاکٹریٹ کیا ہے۔
- ↑ www.almazhar.com http://www.almazhar.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2024 مفقود أو فارغ
|title=
(معاونت)