آل طاہر
آل طاہر طاهریان | |||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
821ء–873ء | |||||||||
دار الحکومت | مرو, بعد میں نیشاپور | ||||||||
عمومی زبانیں | فارسی زبان[1] عربی زبان | ||||||||
مذہب | اہل سنت | ||||||||
حکومت | امارات | ||||||||
امیر | |||||||||
• 821ء | طاہر بن حسین | ||||||||
تاریخی دور | مشرقی وسطی | ||||||||
• | 821ء | ||||||||
• | 873ء | ||||||||
|
تاریخ ایران |
---|
دور قدیم
|
شہنشاہی دور
|
قرون وسطی
|
ابتدائی دور حاضر
|
دور حاضر
|
متعلقہ مضامین |
باب ایران |
آل طاہر (فارسی: سلسله طاهریان) 821ء سے 873ء تک شمال مشرقی ایرانی علاقے خراسان پر حکومت کرنے والا ایک خاندان تھا جس کی حکومت میں موجودہ ایران، افغانستان، تاجکستان، ترکمانستان, پاکستان اور ازبکستان کے علاقے شامل تھے۔ طاہری حکومت کا دار الحکومت نیشا پور تھا۔
حالانکہ یہ خاندان عباسی خلافت کو تسلیم کرتا تھا لیکن در حقیقت طاہری آزاد تھے۔ اس حکومت کا بانی طاہر بن حسین تھا جسے عباسی خلیفہ مامون الرشید نے خراسان کا مستقل والی مقرر کیا تھا۔ متوکل باللہ کے انتقال کے بعد اس حکومت نے خود مختاری حاصل کرلی تھی۔
طاہری خاندان کے حکمرانوں میں طاہر کے صاحبزادے عبد اللہ نے اپنی سخاوت، تدبر اور دانش مندی اور رعایا پروری کی وجہ سے بڑی شہرت حاصل کی۔ عبد اللہ بن طاہر اپنے کارناموں کے لحاظ سے برامکہ سے کسی طرح کم نہ تھا۔
طاہری حکومت کو خلافت عباسیہ سے آزاد ہونے والی پہلی ریاست سمجھا جاتا ہے۔ 873ء میں صفاریوں نے اس حکومت کا خاتمہ کر دیا۔
آل طاہر کے حکمران
[ترمیم]طاہریوں میں درج ذیل حکمران گذرے ہیں :
نام | دورِ حکومت |
---|---|
طاہر بن حسین | 821ء تا 822ء |
طلحہ بن طاہر | 822ے تا 828ء |
عبد اللہ بن طاہر | 828ء تا 845ء |
طاہر ثانی | 845ء تا 862ء |
محمد خراسانی | 862ء تا 873ء |
بغداد کے گورنر | |
طاہر بن حسین | 820ء-822ء |
اسحاق ابن ابراہیم | 822ء-849ء |
محمد ابن اسحاق ابن ابراہیم | 849ء-850ء |
'عبدﷲ ابن اسحاق | 850ء-851ء |
محمد ابن عبدﷲ | 851ء-867ء |
'عبیدﷲ ابن عبدﷲ | 867ء-869ء |
سلیمان ابن عبدﷲ | 869ء-879ء |
عبید ﷲ ابن عبد ﷲ (دوبارہ) | 879ء-884ء |
محمد خراسانی | 884ء-890ء |
عبید ﷲ ابن عبد ﷲ (دوبارہ) | 890ء-891ء |
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ Bosworth, C. E. (1975), "The Tahirids and Saffarids", in Frye, R. N., The Cambridge History of Iran, Volume 4: From the Arab Invasion to the Saljuqs, Cambridge, UK: Cambridge University Press, p. 91.