آذربائیجان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
  
آذربائیجان
آذربائیجان
آذربائیجان
پرچم
آذربائیجان
آذربائیجان
نشان

 

ترانہ:  آذربائیجان کا قومی ترانہ  ویکی ڈیٹا پر (P85) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زمین و آبادی
متناسقات 40°18′N 47°42′E / 40.3°N 47.7°E / 40.3; 47.7  ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں[1]
پست مقام
رقبہ
دارالحکومت باکو  ویکی ڈیٹا پر (P36) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سرکاری زبان آذربائیجانی[2]  ویکی ڈیٹا پر (P37) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آبادی
حکمران
طرز حکمرانی جمہوریہ،  وحدانی ریاست،  پارلیمانی جمہوریہ  ویکی ڈیٹا پر (P122) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعلی ترین منصب الہام علیوف (31 اکتوبر 2003–)  ویکی ڈیٹا پر (P35) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سربراہ حکومت علی اسدوف (8 اکتوبر 2018–)  ویکی ڈیٹا پر (P6) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مقننہ آذربائیجان قومی اسمبلی  ویکی ڈیٹا پر (P194) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قیام اور اقتدار
تاریخ
یوم تاسیس 1991  ویکی ڈیٹا پر (P571) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عمر کی حدبندیاں
شادی کی کم از کم عمر
شرح بے روزگاری
دیگر اعداد و شمار
منطقۂ وقت متناسق عالمی وقت+04:00  ویکی ڈیٹا پر (P421) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ٹریفک سمت دائیں[3]  ویکی ڈیٹا پر (P1622) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ڈومین نیم az.  ویکی ڈیٹا پر (P78) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سرکاری ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آیزو 3166-1 الفا-2 AZ  ویکی ڈیٹا پر (P297) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بین الاقوامی فون کوڈ +994  ویکی ڈیٹا پر (P474) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
Map

آذربائیجان (Azerbaijan) جس کو سرکاری طور پر جمہوریہ آذربائیجان کہا جاتا ہے، یوریشیا کے جنوبی قفقاز کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا ملک ہے۔ مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا کے درمیان واقع اس ملک کے مشرق میں بحیرہ قزوین، شمال میں روس، مغرب میں آرمینیا اور ترکی، شمال مغرب میں جارجیا اور جنوب میں ایران واقع ہیں۔ آذربائیجان کے جنوب مغرب میں واقع نگورنو کاراباخ اور سات مزید اضلاع نگورنو کاراباغ کی 1994ء کی جنگ کے بعد سے آرمینیا کے قبضے میں ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی چار قراردادوں نے آرمینیا سے کہا ہے کہ وہ آذربائیجان کی سرحد سے اپنی فوجیں ہٹا لے۔ ملکی رقبے میں تیس مربع کلومیٹر کے لگ بھگ کے چند جزائر بھی ہیں جو بحیرہ قزوین میں واقع ہیں۔

آذربائیجان ایک سیکولر اور یونیٹاری جمہوریہ ہے۔ یہ ملک آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ، GUAM اور کیمیائی ہتھیاروں پر پابندی کی تنظیم کا بانی رکن ہے۔ ملک کا مستقل نمائندہ یورپی یونین میں موجود ہے، اسے یورپی کمیشن کے خصوصی ایلچی ہونے اور اقوام متحدہ کا رکن ہونے، OSCE، یورپی کونسل اور NATO کے قیام امن کے پروگرام یعنی PfP پروگرام میں بھی نمائندگی حاصل ہے۔

اٹمالوجی اور استعمال[ترمیم]

جمہوریہ آذربائیجان کی ریاست تاریخی طور پر اس علاقے سے تعلق رکھتی ہے جسے قفقازی البانیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس علاقے کو اران بھی کہا جاتا ہے۔ قفقاز 1740ء سے روسی قبضے تک مختلف خوانین کے قبضے میں تھا اور 19 ویں صدی کے وسط سے لے کر 1917ء تک جنوبی قفقاز روسی صوبہ جات میں منقسم تھا۔

تاریخ[ترمیم]

آذربائیجان کے موجودہ علاقے میں قدیم ترین انسانی آثار پتھر کے زمانے تک کے ملتے ہیں۔ یہ آثار مختلف غاروں میں محفوظ ہیں۔ شراب کی صراحیاں جو خشک ہو چکی ہیں، شہر خاموشاں اور مقابر میں ملی ہیں۔ یہ شراب تانبے کے دور میں بنائی جاتی تھی۔

جنوبی قفقاز کو اکامینڈس نے 550 قبل مسیح میں فتح کیا تھا اور اس سے زرتشتی مذہب کو فروغ ملا۔ چوتھی صدی قبل مسیح میں سکندر اعظم کی آمد کے بعد یہاں دیگر ملحقہ علاقوں میں ایک مملکت قائم ہوئی۔

عرب اموی خلیفہ نے ساسانیوں اور بازنطینیوں کو شکست دے کر قفقازی البانیہ کو فتح کر لیا۔ عباسیوں کے زوال کے بعد یہ علاقہ سالاریوں، ساجدی، شدادی، راوادی اور بائیدیوں کے قبضے میں رہا۔ 11 ویں صدی عیسوی کی ابتدا میں وسط ایشیا سے آنے والے ترک اوغدائی قبیلوں نے بتدریج اس علاقے پر قبضہ جمایا۔ ان بادشاہتوں میں سے پہلی بادشاہت غزنویوں کی تھی جنھوں نے 1030 میں اس علاقے پر قبضہ جمایا۔

مقامی طور پر بعد میں آنے والے سلجوقیوں پر اتابک نے فتح پائی۔ سلجوقیوں کے دور میں مقامی شعرا جیسا کہ نظامی گنجوی اور خاگانی شیروانی نے فارسی ادب کو بام عروج تک پہنچایا۔ یہ سب آج کل کے آذربائیجان میں ہوا۔ اس کے بعد یلدرمیوں نے مختصر قیام کیا اور ان کے بعد امیر تیمور آئے۔ جس کی مدد نوشیرواں نے کی۔ امیر تیمور کی موت کے بعد یہ علاقہ دو مخالف ریاستوں میں بٹ گیا۔ ان کے نام کارا کوئینلو اور اک کوئینلو تھے۔ اک کوئینلو کی موت کے بعد سلطان اذن حسن نے آذربائیجان کی پوری ریاست پر حکمرانی کی۔ اس کے بعد یہ علاقہ شیرواں شاہوں کے پاس آیا جنھوں نے 861 سے 1539تک بطور خود مختار مقامی حکمران کے اپنی حیثیت برقرار رکھی۔ شیروانیوں کے بعد صفویوں کی باری آئی اور انھوں نے شیعہ مذہب اس وقت کی سنی آبادی پر زبردستی لاگو کیا۔ اس ضمن میں انھوں نے سنی عثمانیوں سے جنگیں بھی کیں۔

کچھ عرصہ بعد صفویوں کے زوال کے بعد کئی خانوں نے مقامی طور پر اینی حکومتیں قائم کر لیں اور ان کی باہمی لڑائیوں کا آغاز ہو گیا۔ ترکمانچی کے معاہدے کے بعد کئی علاقوں پر روسی قبضہ ہو گیا۔ پہلی جنگ عظیم میں جب روس کے زوال کا وقت آیا تو آذربائیجان، آرمینیا اور جارجیا نے مل کر ایک الگ متحدہ ریاست قائم کی جو مختصر عرصہ تک قائم رہی۔ مئی 1918ء میں یہ ریاست ختم ہوئی اور آذربائیجان نے اپنی آزادی کا اعلان کیا اور اپنا نام عوامی جمہوریہ آذربائیجان رکھا۔ اس ریاست کو دنیا میں پہلی مسلمان پارلیمانی ریاست ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ دو سال بعد روسیوں نے اس پر پھر سے قبضہ کر لیا۔ مارچ 1922ء میں جارجیا اور آرمینیا کے ساتھایک نئی ٹرانس کاکیشیئن ایس ایف ایس آر بنائی جو روسی فیڈریشن کے ماتحت تھی۔ 1936ء میں یہ بھی اپنے انجام کو پہنچی اور آذربائیجان بطور سوویت سوشلسٹ ریپبلک کے سوویت یونین میں شمولیت اختیار کی۔

دوسری جنگ عظیم کا دور[ترمیم]

1940ء کی دہائی میں آذربائیجان سوویت سوشلسٹ ریپبلک نے جنگ عظیم دوم کے مشرقی محاذ کو تیل کی سپلائی کا فریضہ سر انجام دیا۔ اڈولف ہٹلر نے آپریشن ایڈیلویس شروع کیا تاکہ قفقازی تیل کے کنوؤں پر قبضہ کیا جا سکے۔ لیکن اس میں شکست ہوئی۔ کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری میخائل گورباچوف کی سیاسی پالیسیوں کے نتیجے میں پورے سوویت یونین میں بالعموم اور نگورنوکاراباغ میں بالخصوص بے چینی پھیل گئی۔ ایاز مطالی بوف نے آذربائیجان کے صدر کے عہدے کا حلف لیا اور 18 اکتوبر 1991ء کو آذربائیجان کی آزادی کا اعلان کیا گیا۔

آزادی کے ابتدائی سال نگورنو کاراباغ کی آرمینیا سے ہونے والی جنگ کے باعث دھندلا گئے۔ جنگ کے اختتام پر آذربائیجان کو اپنے کل رقبے کا 14 سے 16 فیصد حصہ آرمینیا کو دینا پڑا جس میں نگورنگوکاراباغ بھی شامل ہے۔ اس وقت کے صدر نے اپنی شکست کو قبول کیا اور ان کے بعد آذربائیجان کمیونسٹ پارٹی کے سابقہ پہلے سیکرٹری حیدرعلیوف نے اگلے صدر کا حلف اٹھایا۔ اس دور میں اگرچہ کچھ ترقی ہوئی لیکن پھر بھی تیل سے ہونے والی آمدنی کا بڑا حصہ اشراف کی زیر استعمال رہا۔ حیدر علیوف کی دوسری مدت اقتدار میں ان کی مقبولیت میں کمی ہوئی۔ ایک وجہ ان کی طرف سے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی بھی ہے۔ حیدر علیوف کی وفات کے بعد ان کے بیٹے کو بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا جو وزیر اعظم رہ چکے تھے

حکومت اور سیاست[ترمیم]

آذربائیجان نے 12 نومبر 1995ء کو نئے آئین کی منظوری دی جس میں اس کے ریاستی نشان، جھنڈے، سرکاری نشان اور قومی ترانے کی منظوری دی۔ آذربائیجان کی حکومت میں طاقت کو تین مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں مقننہ، عدلیہ اور اشرافیہ شامل ہیں۔ قانون سازی کی اجازت صرف یک ایوانی قومی اسمبلی کو ہے۔ پارلیمنٹ کے انتخابات ہر پانچ سال کے بعد نومبر کے پہلے اتوار کو ہوتے ہیں۔ آئینی عدالت کی مدد سے انتخابات کے شفاف ہونے کے بارے تسلی کی جا سکتی ہے۔ قومی اسمبلی کی طرف سے منظور ہونے والے قوانین ان کے شائع ہونے کی تاریخ سے نافذ سمجھے جاتے ہیں۔ صدر کو پانچ سال کی مدت کے لیے براہ راست منتخب کیا جاتا ہے۔ صدر کے پاس کابینہ کی تشکیل دینے کی طاقت ہوتی ہے۔ کابینہ میں وزیر اعظم، اس کے نائبین اور وزرا پر مشتمل ہوتی ہے۔ صدر کے پاس قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار نہیں ہوتا لیکن وہ قومی اسمبلی کے فیصلوں کو ویٹو کر سکتا ہے۔ صدر کی طرف سے ہونے والے ویٹو کو ختم کرنے کے لیے قومی اسمبلی کو 95 ووٹوں کی عددی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ عدلیہ آئینی عدالت، سپریم کورٹ اور اکنامک عدالتوں پر مشتمل ہے۔ صدر ان عدالتوں کے ججوں کا تقرر کرتا ہے۔

سلامتی کونسل صدر کے ماتحت ایک ادارہ ہے اور صدر اسے آئین کے تحت چلاتا ہے۔ اسے 10 اپریل 1997ء میں قائم کیا گیا۔ انتظامی محکمہ صدر سے ہٹ کر کام کرتا ہے۔

بیرونی تعلقات[ترمیم]

مختصر مدت کے دوران عوامی جمہوریہ آذربائیجان نے 6 ملکوں کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے اور جرمنی اور فن لینڈ میں اپنے سفارتکار بھیجے۔ بین الاقوامی طور پر آذربائیجان کی آزادی کو روس کے زوال کے ایک سال بعد تسلیم کیا گیا۔ بحرین آخری ملک تھا جس نے 6 نومبر 1996ء کو آذربائیجان کو تسلیم کیا۔ دو طرفہ سفارتی تعلقات جن میں سفارت کاروں کا تبادلہ بھی شامل ہے، سب سے پہلے ترکی، امریکا اور ایران کے ساتھ قائم ہوئے۔

اب تک آذربائیجان کے سفارتی تعلقات 158 ممالک کے ساتھ ہیں اور یہ 38 بین القوامی تنظیموں کا رکن بھی ہے۔ اسے غیر جانبدار ممالک کی تنظیم اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں مبصر کا درجہ ملا ہوا ہے۔ 9 مئی 2006ء میں آذربائیجان کو جنرل اسمبلی کے تحت بنائی جانے والی انسانی حقوق کی کونسل کا رکن بنایا گیا۔ اس کی مدت 19 جون 2006ء سے شروع ہوئی۔

خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں سب سے پہلے اپنی سرحدی حدود کی بحالی جن میں نگورنوکاراباغ اور سات دیگر اضلاع شامل ہیں، ہمسائیہ ممالک کے ساتھ دو طرفہ تجارتی تعلقات، خطے میں سلامتی اور سکون کی ضمانت، یورپ میں شمولیت اور بین البراعظمی سلامتی اور تعاون، بین الخطی معاشی، توانائی اور ذرائع نقل و حمل شامل ہیں۔

آذربائیجان دہشت گردی کے خلاف بننے والے بین الاقوامی اتحاد کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ کوسوو، افغانستان اور عراق میں امن بحالی کی کوششوں میں بھی حصہ لے رہا ہے۔ آذربائیجان نیٹو کے پروگرام "امن معاہدے " کا بھی سرگرم رکن ہے۔

فوج[ترمیم]

9 نومبر 1991ء میں جاری ہونے والے صدارتی فرمان کے مطابق موجودہ قومی افواج کی تشکیل کی گئی ہے۔ آذربائیجان کی افواج کے چار حصے ہیں : بری فوج، ہوائی فوج، بحری فوج اور فضائی دفاعی فوج۔ اس کے علاوہ نیشنل گارڈ، داخلی گارڈ، سرحدی گارڈ اور ساحلی گارڈ یعنی کوسٹ گارڈ بھی موجود ہیں۔ صدر کو افواج کے سپریم کمانڈر کی حیثیت حاصل ہے۔ 2007ء کے اوائل میں آذربائیجان کی فوجوں میں 95000 مرد شامل تھے۔

آذربائیجان یورپ کے روایتی ہتھیاروں کے معاہدے کا پابند ہے۔ 13 جنوری 1993ء کو آذربائیجان نے کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے معاہدے پر بھی دستخط کیے تھے۔ آذربائیجان نیٹو کا بھی رکن ہے۔ اس کے علاوہ آذربائیجان نے این پی ٹی پر بھی دستخط کیے ہوئے ہیں۔ آذربائیجان کی مسلح افواج نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں امن بحالی کے دستوں کا کردار بھی ادا کیا ہے۔ 2007ء میں اس کے دفاعی اخراجات 871 ملین ڈالر یعنی 870 کروڑ 10 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔

انتظامی تقسیم[ترمیم]

انتظامی امور کے لیے آذربائیجان کو 76 اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان میں 65 دیہاتی، 11 شہری اور 1 خود مختار علاقہ شامل ہیں۔ صدر ان علاقوں کے لیے گورنر کا تقرر کرتا ہے۔ ان کے اپنے مقامی سربراہ بھی منتخب ہوتے ہیں جن کے پاس مقامی سطح کے اختیارات ہوتے ہیں۔ کلیدی عہدوں پر بھی تقرری و تنزلی صدر کے اختیار میں ہوتی ہے۔ آرمینیا کے زیر قبضہ علاقوں کے گورنر ملک بدری کی حالت میں اپنے فرائض سر انجام دے رہیں۔ جغرافیہ

لینڈ سکیپ[ترمیم]

آذربائیجان کے کل سرحدیں 2648 کلومیٹر طویل ہیں جن میں سے آرمینیا کے ساتھ 1007، ایران کے ساتھ 756، جارجیا کے ساتھ 480، روس کے ساتھ 390 اور ترکی کے ساتھ 15 کلومیٹر کی سرحد شامل ہیں۔ اس کی ساحلی حدود 800 کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہیں جن میں بحیرہ کیسپئن کی 456 کلومیٹر کی سرحد بھی شامل ہے۔ ریاست کی کل لمبائی شمالاً جنوباً 400 کلومیٹر اور چوڑائی شرقاً غرباً 500 کلومیٹر ہے۔ اس میں تین پہاڑی سلسلے قفقاز کبیر، قفقاز صغیر اور تالیش پہاڑی سلسلے ہیں۔ یہ پہاڑی سلسلے کل ملکی رقبے کا تقریباً 40 فیصد بنتے ہیں۔ سب سے بلند مقام بازاردوزو ہے جو 4466 میٹر بلند ہے۔ اس کی سب سے نشیبی جگہ بحیرہ کیسپئین میں ہے جو سطح سمندر سے 28 میٹر نیچے ہے۔ دنیا میں مٹی کے آتش فشانوں کا تقریباً نصف حصہ آذربائیجان میں پایا جاتا ہے۔

پانی کے اہم ذخائر میں سطح پر پائے جانے والے ذخائر ہیں۔ تاہم کل 8350 دریاؤں میں سے صرف 24 ایسے ہیں جو 100 کلومیٹر سے زیادہ طوالت رکھتے ہیں۔ سب سے بڑی جھیل ساریسو ہے جو تقریباً 67 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے اور سب سے لمبا دریا کُر ہے جو 1515 کلومیٹر طویل ہے۔

موسم[ترمیم]

آذربائیجان کے موسم کی تشکیل میں سکینڈے نیویا کے اینٹی سائیکلون کے سرد حصے، سائبیریا کے معتدل درجہ حرارت، وسطی ایشیا کے اینٹی سائیکلون شامل ہیں۔ لینڈ سکیپ کے تنوع کے حوالے سے ملک میں مختلف جگہوں سے ہوا کے مختلف دباؤ داخل ہوتے ہیں۔ قفقاز عظیم ملک کو سرد ہواؤں کے براہ راست داخلے سے بچاتا ہے۔ اس وجہ سے اکثر پہاڑوں کے دامن اور میدانوں میں نیم استوائی موسم ملتاہے۔ ان علاقوں میں سورج سے آنے والی تابکاری بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔

موجودہ دور کے 11 موسمی خطوں میں سے 9 آذربائیجان میں ملتے ہیں۔ کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت بالترتیب منفی 33 ڈگری اور 46 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ کچھ علاقوں میں زیادہ سے زیادہ بارش 1600 سے 1800 ملی میٹر اور کچھ علاقوں میں کم از کم بارش 200 سے 350 ملی میٹر ہوتی ہے۔

فطرت اور ماحول[ترمیم]

آب رسانی کے حوالے سے آذربائیجان اوسط سے کم درجے پر آتا ہے اور اس میں فی مربع کلومیٹر پانی 100000 مربع میٹر ہے۔ تمام بڑے پانی کے ذخائر کُر پر بنائے گئے ہیں۔

نباتات کے تنوع کے اعتبار سے آذربائیجان میں نخچیوان، جہاں 60 فیصد اور کرہ ارض کے میدان، جہاں 40 فیصد انواع کے پودے اگتے ہیں، داواچی-قبہ جو قفقاز عظیم کے مشرق میں ہے، میں 38 فیصد، قفقاز صغیر کے درمیان میں 29 فیصد، گوبستان میں 26٫6 فیصد، لینکوران میں 27 فیصد اور ابشیرون میں 22 فیصد اقسام پائی جاتی ہیں۔

عام نباتات کی کل 400 مختلف اقسام پائی جاتی ہیں۔

معیشت[ترمیم]

آزادی کے بعد آذربائیجان نے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، یورپی بینک برائے تعمیر و ترقی، اسلامی ترقیاتی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی رکنیت حاصل کی۔ بینکاری کا نظام دو سطحوں پر ہے جن میں نیشنل اور کامرس کے بینک شامل ہیں جو غیر بینکاری سرمایہ داری نظام کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ 1992ء میں سٹیٹ بینک کی بجائے نیشنل بینک قائم کیا گیا تھا۔ نیشنل بینک آذربائیجان کے قومی بینک کا کام کرتا ہے اور کرنسی کا اجرا اور دیگر امور اس کی نگرانی میں طے ہوتے ہیں۔ تجارتی بینکوں میں سے دو بڑے ببنک انٹرنینشل بین اور یونائیٹڈ یونیورسل جوائنٹ سٹاک بینک حکومت کی ملکیت ہیں۔

دو تہائی آذربائیجان تیل اور قدرتی گیس کے حوالے سے اہم ہے۔ قفقاز صغیر کے اکثر حصوں میں سونا، چاندی، لوہا، تابنا، ٹائٹینیم، کرومیم، میگانیز، کوبالٹ، مولبڈینیم، مختلف اورز اور اینٹی منی ملتے ہیں۔

2007ء کے اوائل میں آذربائیجان میں کل 4755٫1 ہیکٹر زمین قابل کاشت ہے اور لکڑی کے 13 کروڑ 60 لاکھ مکعب میٹر ذخائر موجود ہیں۔ آذربائیجان کی سمندری تجارت کے ادارے کے پاس کل 54 جہاز ہیں۔

درآمد ہونے والی اکثر اشیا کے کچھ حصے اب آذربائیجان میں ہی تیار ہوتے ہیں۔

ذرائع مواصلات اور نقل و حمل[ترمیم]

2002ء میں آذربائیجان میں موبائل فون کے استعمال میں انتہائی اضافہ ہوا۔ عوامی پے فونز بھی ہر جگہ ملتے ہیں اور ان پر ایکسچینج یا دوکانوں سے خریدے گئے ٹوکن استعمال ہوتے ہیں۔ یہ پے فون ٹوکن لامحدود مدت کے لوکل فون کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ 2005ء میں 1091400 لینڈ لائن فون تھے اور 408000 انٹرنیٹ کے صارفین۔ اس کے علاوہ دو جی ایس ایم اور چار سی ڈی ایم اے نیٹ ورک بھی کام کر رہے ہیں۔

عام ریل کی پٹری کو 2005ء میں 2957 کلومیٹر تک پھیلایا گیا اور برقی ٹرینوں کے روٹ کو 127 کلومیٹر تک بڑھایا گیا۔ 2006ء میں کل ہوائی اڈوں کی تعداد 36 تھی اور اس کے علاوہ ایک ہیلی پورٹ بھی موجود ہے۔

آبادی[ترمیم]

2007ء میں ہونے والے اقلیتی مردم شماری سے پتہ چلا ہے کہ ایزیریز کی تعداد 95٫8 فیصد، روسی 2٫8 فیصد، آرمینیائی 1٫5 فیصد، تالیش 1 فیصد، اوار 0٫6 فیصد، تاتار 0٫4 فیصد، ترک 0٫5 فیصد، یوکرائنی 0٫4 فیصد، کرد 0٫2 فیصد، جارجین 0٫2 فیصد، ساخرس 0٫2 فیصد، تات 0٫13 فیصد، یہودی 0٫1 فیصد، یودی 0٫05 فیصد اور دیگر 0٫12 فیصد تھے۔

اپریل 2006ء میں کل آبادی کا 51 فیصد حصہ یعنی 4380000 افراد شہری اور 49 فیصد یعنی 4060000 افراد دیہاتی علاقوں میں رہتے ہیں۔ ملکی آبادی کا کل 51 فیصد حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔

آبادی میں اضافہ کی شرح 2006ء میں 0٫66 فیصد سالانہ رہی۔ اس کی ایک اہم وجہ لوگوں کی بیرون ملک ہجرت شامل ہے۔

مذہب[ترمیم]

سرکاری ذرائع کے مطابق 93٫4 فیصد سے 96 فیصد آبادی مسلمان ہے جن میں 85 فیصد شیعہ اور 15 فیصد سنی ہیں۔ عیسائیوں میں اکثریت روسی آرتھوڈکس اور آرمینیائی آرتھوڈکس شامل ہیں۔

ثقافت[ترمیم]

آذربائیجان کی فوک میں آبادی، لسانی گروہوں وغیرہ کی نمائندگی ہے۔ یہاں کردی، لزگن، تالیش، جارجین، روسی اور آرمینیائی زبانوں کے ریڈیو اسٹیشن بھی کام کرتے ہیں۔ ان کو حکومت کی طرف سے مالی امداد کے ساتھ چلایا جاتا ہے۔ بلقان میں موجود اسٹیشن آوار زبان میں اور خمچاز میں تات زبان میں بھی اسٹیشن کام کرتے ہیں۔ اسی طرح باکو میں کئی اخبارات روسی، کردی، لزگن اور تالیش زبانوں میں چھپتے ہیں۔ یہودی بھی اپنا ایک اخبار "عزیز" چھاپتے ہیں۔

قومی موسیقی کے آلات میں چودہ تاروں والے آلات، آٹھ پیٹنے والے تاشے اور چھ مختلف اقسام کے بانسری نما آلے شامل ہیں۔ یونیسکو کی جانب نے عالمی ورثے کی فہرست میں گوبستان ریاستی ریزرو، باکو کا آتشی مندر، مومن خاتون کا مزار اور شیکی میں خان محل شامل ہیں

فہرست متعلقہ مضامین آذربائیجان[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1.   ویکی ڈیٹا پر (P402) کی خاصیت میں تبدیلی کریں "صفحہ آذربائیجان في خريطة الشارع المفتوحة"۔ OpenStreetMap۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مارچ 2024ء 
  2. مکمل کام یہاں دستیاب ہے: http://www.constcourt.gov.az/laws/26 — باب: 21
  3. http://chartsbin.com/view/edr

مزید دیکھیے[ترمیم]

فہرست ہم نام ریاستیں اور علاقے