مباہلہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(واقعہ مباہلہ سے رجوع مکرر)
تاریخاکتوبر 631

ایک قرآنی اصطلاح، دو لوگوں یا گروہوں کی خود کو حق پر ثابت کرنے کے لیے اللہ سے ایک دوسرے کے خلاف بد دعا کرنا۔


سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ (مباہلے والی) آیت:

﴿نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ﴾

اور (مباہلے کے لیے) ہم اپنے بیٹے بلائیں تم اپنے بیٹے بلاؤ۔ (اٰل عمران: 61)

نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین (رضی اللہ عنہم اجمعین) کو بلایا اور فرمایا:

((اَللّٰھُمَّ ھٰؤ لا أھلي))

اے اللہ! یہ میرے اہل (بیت) ہیں۔

(صحیح مسلم: 32/2404 وترقیم دارالسلام: 6220)

مباہلہ کے معنی[ترمیم]

لغوی معنی[ترمیم]

اصل مباہلہ کا لفظ اھل کے وزن پر مادہ "بہل" سے آزاد کرنے اور کسی چیز سے قید و بند اٹھانے کے معنی میں ہے۔ اور اسی وجہ سے جب کسی حیوان کو آزاد چھوڑتے ہیں تا کہ اس کا نوزاد بچہ آزادی کے ساتھ اس کا دودھ پی سکے، اسے "باھل" کہتے ہیں اور دعا میں "ابتھال" تضرع اور خداوند متعال پر کام چھوڑنے کو کہتے ہیں۔[1]

اصطلاحی معنی[ترمیم]

ایک دوسرے پر نفرین کرنا تا کہ جو باطل پر ہے اس پر اللہ کا غضب نازل ہواور جو حق پر ہے اسے پہچانا جائے، اس طرح حق و باطل کی تشخیص کی جائے۔ مباہلے کا عمومی مفہوم یہ بیان کیا جاتا ہے۔

دو مد مقابل افراد آپس میں یوں دعا کریں کہ اگر تم حق پر اور میں باطل ہوں تو اللہ مجھے ہلاک کرے اور اگر میں حق پر اور تم باطل پو ہو تو اللہ تعالی تجھے ہلاک کرے۔ پھر یہی بات دوسرا فریق بھی کہے۔[2][3]]

آیت مباہلہ[ترمیم]

سورۃ آل عمران کی آیت 61 کو مفسرین آیت مباہلہ کہتے ہیں، کیونکہ اس میں مباہلہ کا ذکر آیا ہے۔ آیت کا ترجمہ

پھر اے حبیب! تمہارے پاس علم آ جانے کے بعد جو تم سے عیسی کے بارے میں جھگڑا کریں تو تم ان سے فرما دو:آو ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنی جانوں کو اور تمہاری جانوں کو (مقابلے میں) بلا لیتے ہیں پھر مباہلہ کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالتے ہیں۔

(ترجمہ کنزالعرفان، مفتی محمد قاسم)[4]

واقعہ مباہلہ[ترمیم]

مباہلہ ایک مشہور واقعہ ہے جسے سیرت ابن اسحاق اور اور تفسیر ابن کثیر میں تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نجران کے مسیحیوں کی جانب ایک فرمان بھیجا، جس میں یہ تین چیزیں تھیں اسلام قبول کرو یا جزیہ ادا کرو یا جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔ مسیحیوں نے آپس میں مشورہ کر کے شرجیل،جبار بن فیضی وغیرہ کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں بھیجا۔ ان لوگوں نے آکر مذہبی امور پر بات چیت شروع کر دی، یہاں تک کہ حضرت عیسی کی الوہیت ثابت کرنے میں ان لوگوں نے انتہائی بحث و تکرار سے کام لیا۔ اسی دوران وحی نازل ہوئی جس میں اوپر ذکر کردہ آیت بھی نازل ہوئی جس میں مباہلہ کا ذکر ہے۔

اثرات[ترمیم]

عید مباہلہ کا ایک فارسی میں چھپا ہوا اشتہار

اس آیت کے نزول کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے نواسوں حسن اور حسین اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ زہرا اور دامادحضرت علی کو لے کے گھر سے نکلے، دوسری طرف مسیحیوں نے مشورہ کیا کہ اگر یہ نبی ہیں تو ہم ہلاک ہو جاہیں گے۔ اور ان لوگوں نے جزیہ دینا قبول کر لیا۔ اسی واقعہ کی نسبت سے شعیہ اوراکثر سنی بھی پنجتن پاک کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، جس سے سلفی حضرات اختلاف کرتے ہیں۔[5]

عید مباہلہ[ترمیم]

اس دن 24 ذوالحجہ کو کچھ ممالک میں، خاص کر کہ ایران میں عید مباہلہ منائی جاتی ہے۔

مباہلہ کے احکام[ترمیم]

قرآن کی اس آیت مباہلہ سے ثابت ہوتا ہے کہ مباہلہ صرف کافر کے ساتھ ہو سکتا لیکن احادیث میں حضرت ابن مسعود رض سے رویت بھی ملتی ہے جس میں مباہلے کو مسلمان سے مباح ہونے کا ذکر ہے۔ سنن نسائی صیحح حدیث نمبر [6]3552

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. کیا مباھلہ کی کوئی شرط ہے؟ مباہلہ کس سلسلہ میں کیا جا سکتا ہے؟ کیا یقیناْ مباہلہ واقع ہوا ہے؟ - جوابات کا خزانہ - کویسٹ اسلامی موضوعات کے بارے میں سوالات کا جواب دینے کا ایک مر۔..
  2. القاموس المحيط والقابوس الوسيط
  3. تفسیر صراط الجنان فے تفسیر القران جلد 1، صفحہ 491 پر مفتی [[محمد قاسم قادری]
  4. سورۃ آل عمران
  5. كتاب آية المباهلة ص21 و ص22
  6. "لعان مباہلہ کی ایک قسم"۔ اخذ شدہ بتاریخ http://www.erfan.ir/urdu/11975.html