مندرجات کا رخ کریں

یہودی تاریخ کا خط زمانی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سلسلہ مضامین
یہودیت

  

باب یہودیت

یہ یہودیوں اور یہودیت کی ترقی کا تقویم ہے ۔ تمام تاریخیں  عبرانی تقویم کی بجائے  زمانہ عام کے مطابق دی گئی ہیں ۔

یہودیوں کی تاریخ بھی دیکھیں جس میں انفرادی ملک کی یہودی تاریخ کے روابط شامل ہیں ۔  یہودیوں پر عقوبت کی تاریخ کے لیے سام دشمنی، تاریخ  سام دشمنی اور ٹائم تقویم سام دشمنی دیکھیں۔

بائبلی دور

[ترمیم]
1312 قبل مسیح (؟*)

خروج مصر سے (موسیٰ)

1250 قبل مسیح  سے  1025 قبل مسیح

بائبل اسرائیلی قضا‍ۃ لوگوں کی قیادت کی

1025 قبل مسیح 1010 قبل مسیح
بادشاہ (طالوت) ساؤل
1010 قبل مسیح 970 قبل مسیح
داؤد بادشاہ
970 قبل مسیح 931 قبل مسیح
بادشاہ سلیمان
960 قبل مسیح
تکمیل ہیکل سلیمانی یروشلم میں
رحبعام کی سلطنت یہودا
931 قبل مسیح
تقسیم مملکت   اسرائیل (سامریہ) اور سلطنت یہودا
931 قبل مسیح 913 قبل مسیح
یہوداہ کا بادشاہ رحبعام
931 قبل مسیح 910 قبل مسیح
بادشاہ یُربعام نے اسرائیل کے
840 قبل مسیح
میشا کی لکھائی اسرائیلی بادشاہ عمری  کے بیٹے پر موآبی فتح بیان کرتی ہے ۔
740 قبل مسیح 700 قبل مسیح
یسعیاہ کی نبوت
740 قبل مسیح 722 قبل مسیح
ریاست اسرائیل کے کرنے کے لیے آتا ہے نو اسوری سلطنت
715 قبل مسیح 687 قبل مسیح
یہوداہ کا بادشاہ حزقیاہ
649 قبل مسیح 609 قبل مسیح
 یہوداہ کےبادشاہ یوسیاہ  کے اہم اصلاحات
626 قبل مسیح 587 قبل مسیح
 یرمیاہ  کی نبوت
597 قبل مسیح
پہلی  بابل  کو ملک بدری
586 قبل مسیح
بخت نصر کی سقوط یروشلم اور ہیکل سلیمان کی تباہی
539 قبل مسیح
کورش اعظم (سائرس)  کی جانب سے  یہود کو یروشلم واپسی کی اجازت
ہیکل دوم کا ماڈل 
520 قبل مسیح
زکریا  کی نبوت
520 ق م
زربابل کی قیادت میں یہود کا پہلا گروہ اسیری سے واپس یروشلم جانا
516 قبل مسیح
ہیکل دوم  مقدس کا درجہ دیکر وقف کردیاگیا
 475 قبل مسیح
فارس کا خشیارشا اول  سے منسلق ، ملکہ آستر نے اپنی شناخت کروائی اور اپنے لوگوں کے لیے التجا کی ، حامان کی نشان دہی کی کہ ان کو تباہ کرنے کے لیے اس کے قبیح چالوں سے  بجایا جائے
 460 قبل مسیح
یہودا میں طوائف الملوکی اور افراتفری  کے پیش نظر خشیارشا کے جانشین  اردشیر اول نے عزیر کو بھیجا  تاکہ حالات  معمول پر لائیں

بعد از بائبل کی تاریخ

[ترمیم]

قبل مسیح

[ترمیم]
332 قبل مسیح
مصرجاتے ہوئے یہودیہ سے گزرتے  سکندر اعظم  نے فونیقی اور غزہ فتح کیا اور شاید یہودی پہاڑی علاقوں میں داخل ہوئے  بغیر  ۔
200 قبل مسیح–100 عیسوی
اس دور میں کسی مقام پر  تنک (عبرانی بائبل) کو بائبل میں شامل کیا گیا ۔ یہودی مذہبی کام جو  واضح طور پر عزیر کے وقت کے بعد لکھے گئے اس کی تقدیس کر کے شامل نہیں کیا گیا، اگرچہ بہت سا کام یہودیوں کے کئی جماعتوں میں مقبول ہوئے۔ ان کاموں نے اپنی جگہ یونانی زبان میں بائبل کا ترجمہ ( ہفتادی ترجمہ) کے طور پر بنائی جنہیں فہرست مسلمہ  ثانی کتابیں کہا گیا۔
167۔161 قبل مسیح
مکاہی بغاوت کے خلاف ہیلینیائی سلوقی سلطنت یہوداہ مکابی کی قیادت میں ہوئی جس کے نتیجے میں فتح اور حنوکا چھٹی کی تنصیب ہوئی۔
157۔129 قبل مسیح
حشمونی خاندان نے سلوقی سلطنت کے ساتھ نئی جنگ میں اپنی دھاک یہودیہ میں بٹھائی ۔
63 قبل مسیح
پومپی نے ہیکل میں داخل ہونے کے لیے محاصرہ کیا کرنے اور  یہودیہ روم کی ایک مؤکل ریاست بنی ۔
40 قبل مسیح–4 قبل مسیح
ہیرودیس اعظم نے رومی سینیٹ کے ذریعے سے یہودیوں کے لیے بادشاہ مقرر کیا۔

پہلی صدی عیسوی

[ترمیم]
6 ء
یہودیہ ، سامریہ اور ادوم کو ضم کر کے یہودا (رومی صوبہ)  بنایا گیا۔
10 ء
ہلل مشر نے سب سے زیادہ تورات کی حکمت سمجھی ، پھر فوت ہونے کے بعد 30 عیسوی تک شمائے کو غلبہ حاصل ہوا ، ہلل اور شمائے دیکھیں ۔
26۔36 ء
رومیوں کی جانب سے یسوع کے مقدمے کی سماعت اور یسوع کی تصلیب ۔
30 ء
آدیابن کی ہیلینا، جو  بین النہرین کی ایک بادشاہت کی جاگیردارنی تھی، یہودیت مذہب اختیار کیا آدیابن کے آبادی کی ایک اہم تعداد کے نے اس کی پیروی کی بعد ازاں اس نے رومی یہودی جنگوں میں یہودیوں کو محدود تعاون فراہم کیا ۔ بعد کی  صدیوں میں اس برادری نے مسیحیت قبول کی۔
30۔70 ء
ہیکل دوم کے دور میں یہودیت کے اندر فرقہ بندی  ۔ ایک فرقے کے اندر اندر ہیلینیائی  یہودی معاشرے کے اندر ایک فرقہ یہودی مسیحیت کو فروغ دیتا ہے، ارتداد یسوع کو بھی دیکھیں۔
رومیوں کی طرف سے  یروشلم کا محاصرہ اور تباہی (1850 ڈیوڈ رابرٹس کی پینٹنگ )
66۔70ء
 پہلی یہودی رومن جنگ ہیکل دوم اور یروشلم کے زوال و تباہی پر اختتام پزیر ہوئی ۔ رومی محاصرے کے دوران میں 1,100,000 افراد ہلاک  اور 97,000 کو غلام بنایا گیا۔[1] ایوان (مجلس شوری) کو  یوحنان بن زکائی  نے یفنہ منتقل کیا ۔جمنیہ کی مجلس بھی دیکھیں۔ رومی سلطنت کے تمام یہود سے محصول کی تحصیل چاہے انھوں نے بغاوت میں حصہ لیا تھا یا نہیں۔
200 – 70ء
تنایم   کی مدت  میں ، ربیوں نے زبان تورات کو منظم اور واضح کیا ۔ ایسے تنائم   کے فیصلوں کو  جو ، مشناہ، باریتا، توسفتا اور مدراش  کی تالیفات میں موجود ہیں[2]
73  ء
پہلی یہودی رومن جنگ  کے  آخری واقعات – سقوط   مسادا ۔ مسیحیت یہودی فرقے کے طور پر شروع ہوتا ہے اور تحاریر اور نظریات کے ذریعے سے اپنی الگ شناخت تیار کرتا ہے پھر یہودیت سے ہٹ کر ایک جداگانہ مذہب بنتا ہے۔

دوسری صدی

[ترمیم]
115۔117ء
 کٹوس کی جنگ ( ٹراجان  کے خلاف بغاوت) – قبرص کی بڑے یہودی برادریوں  ، سائرین (جدید لیبیا)، آئیجیپتا (جدید مصر) اور بین النہرین (جدید شام اور عراق) میں ایک دوسری یہودی رومن جنگ شروع ہوئی۔ اس کا نتیجہ سینکڑوں ہزاروں یہودیوں، یونانیوں اور رومیوں کے  باہمی قتل اور یہودی باغیوں کی مکمل شکست پر ہوا اور نو تخت نشیں شہنشاہ حدارین  کی جانب سے قبرص اور سائرین سے یہود کا مکمل صفایا کیا گیا ۔
131۔136ء
رومی شہنشاہ حدارین ، دیگر  اشتعالات کے ساتھ ساتھ ،  یروشلم کا نام بدل کر "ایلیا کاپیٹولینا" رکھنا اور ختنہ کو ممنوع کرنا تھا۔ شمعون بار کوخبہ (بار کوصیبہ) نے  حدرین کے جواب میں رومی سلطنت کے خلاف ایک بڑی یہودی بغاوت کی۔جس کے بعد، زیادہ تر یہودی آبادی کو ہلاک کر دیا گیا (تقریباً 580,000) اور حدرین نے  کی صوبہ یہودیہ کا نام بدل کر شام فلسطینیہ رکھ دیا اور کوشش کی کہ یہودیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔
136ء
ربی اکیوا کو شہید کر دیا گیا۔
138ء
شہنشاہ حدرین  کی موت کے ساتھ رومی سلطنت میں یہودیوں پر ظلم و ستم میں   نرمی ہوئی اور یہودیوں کو  تیشا  باؤ کے موقع پر یروشلم دورہ کرنے  کی اجازت ہوئی۔ آنے   والی صدیوں میں یہودی مرکز گلیل (جلیل ) منتقل ہوا۔

تیسری صدی

[ترمیم]
200ء
مشناہ ، آج تک کی یہودی زبانی شریعت کی معیار بندی اور تدوین   یہوداہ ہناسی نے ارض مقدسہ میں کی ۔
259ء
 بابل میں   نہر دعا  جسے تدمر نے تباہ کیا اور جس کی تباہی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر یہوداس علاقے میں منتشر ہوئے ۔[3]
220۔500ء
 امورائیم  اور تلمود کے رہبوں کا دور۔

چوتھی صدی

[ترمیم]
315۔337ء
رومی شہنشاہ قسطنتین اعظم اول نے نیا  پابندیوں کا قانون جاری کیا ۔ مسیحییوں  کا مذہب تبدیل کر کے یہودی بنانا کالعدم ٹہرا ، مذہبی اجتماعات کو کم سے کم رکھا گیا ، لیکن یہودیوں کو یروشلم کے  ہیکل کی تباہی کی سالگرہ کے موقع پر بھی داخل ہونے کی اجازت دی گئی ۔
351۔352ء
قسطنطیث گالس کے خلاف یہودی بغاوت  کچل دی جاتی ہے۔
358ء
رومی ظلم و ستم کے بڑھتے ہوئے خطرے کی وجہ سے ، ہلل دوم  نے یہودی ماہ و سال کے حساب کے لیے ایک ریاضیاتی کیلنڈر بنایا ۔ اپنانے کے بعد ، کیلنڈر ، طبریہ میں سنھردین کی شوری تحلیل ہوئ ۔
361۔363ء
آخری مشرک رومی شہنشاہ جولین نے یہودیوں کو واپس یروشلم جانے کی اجازت دی جسے تعمیر شدہ  حالت میں  دیکھنے  کے لیے کئی سال انتظار کرنا پڑا" اور ہیکل کو دوبارہ تعمیر نو کے لیے کوشش کریں۔ تھوڑی دیر بعد ، شہنشاہ قتل کے فورا بعد ، اس کا منصوبہ تحلیل کر دیا گیا ۔
363ء
گلیل میں زلزلہ
379ء
بھارت  کا، ہندو بادشاہ شرا پریمل جسے ایرو براہمن کے طور پر بھی جانا جاتا ہے ایک پیتل کے قطبہ پر کندہ اجازت نامہ جاری کیا گیا کہ یہود آزادانہ طور پر رہیں اور کنیسہ کی تعمیر کر سکیں اور   اپنی جائداد کی ملکیت کا حق انھیں اس وقت تک ہے جب تک دنیا اور چاند موجود رہیں گے ۔ ۔[4][5]

پانچویں صدی

[ترمیم]
438ء
مہارانی یودوشیا نے یہود کے حرم قدسی (ہیکل) کی جگہ عبادت کرنے کی پابندی ہٹائی اور ان کی جلیل(گیلیلی) میں سربراہی کی اور آواز لگائی "عظیم اور طاقتور یہودی لوگو:  جان لو  ہمارے لوگوں کی جلاوطنی اختتام کو پہنچی "!
450ء
یروشلمی تلمود کی تدوین و ترمیم

چھٹی صدی

[ترمیم]
500۔523ء
حمیری  بادشاہ  (جدید یمن)  یوسف ذو نواس  نے یہودیت اختیار کی ،اور موجودہ یمنی  یہودی مرکز کو ترقی دی ۔ اس کی بادشاہت  اکسوم اور مسیحیوں کا مابین جنگ میں تباہ ہوئی۔
550ء
بابلی تالمود کی بڑی تدوین راہب راوینہ اور اشی کی زیر نگرانی  مکمل ہوئی۔ جبکہ کچھ کچھ اگلے 200 سال تک چھوٹی چھوٹی  تبدیلیاں ہوتی رہیں
700–550ء
سورائیم کے دور میں ، فارسی دانشور(علما) تالمود کو اصلی حالت میں بحال کرتے ہیں۔
572–555ء
 بازنطینیوں کے خلاف چوتھی سامری بغاوت نے  سامری برادری کو بڑی حد تک کم کر دیا ، انکا اسرائیلی عقیدہ  کالعدم قرار دے دیا گیا ۔  قریب کے یہود جو زیادہ تر بحیرہ طبریہ کے آس پاس رہتے تھے وہ بھی ان ظالمانہ اقدامات سے متاثر ہوئے۔
20 یہودی برادریاں بشمول 2 کاہن نے بازنطینیوں کے ظلم سے بچنے  کے لیے (یا مسلمانوں کے مطابق آخری موعود ﷺ کی تلاش میں ) حجاز خصوصا مدینہ کی جانب ہجرت کی ۔[6]

ساتویں صدی

[ترمیم]
صحابہ یہودی قبیلہ بنو قریضہ کے مردوں کو قتل کرتے ہوئے۔ 19 ویں صدی کا خاکہ۔مصور محمد رفیع بازل۔مسودہ اب برطانوی عجائب خانہ میں ہے ۔

جزیرہ نما عرب میں مکمل اسلامی عروج اورتسلط مشرک عربوں کے ساتھ ساتھ یہودی برادریوں پر بھی کلی خاتمہ یا تبدیلی مذہب  کی صورت اثر انداز ہوا، جبکہ ارض مقدسہ بازنطینیوں کے ہاتھ  سے نکل کر مسلمانوں کے زیر تسلط  آیا۔ پے در پے مدینہ کے مختلف یہودی قبائل کی جانب سے عہد شکنی اور بغاوت کے بعد 627ء میں جنگ خندق کے دوران میں قبیلہ یہود مدینہ (بنو قریضہ) نے بغاوت کر کے مسلم دشمنوں (قریش مکہ) کی حمایت کی اور  بعد ازاں تسلیم ہوجانے کے بعد محمد ﷺ کی جانب سے  ان کے بالغ مردوں کا قتل  اور عورتوں کو لونڈی بنایا گیا۔[7][7][8][8][9][10][11][10]

628–610ء
گلیل (طبریہ) کے یہودنے طبریہ کے بنیامین کی قیادت میں ساسانی سلطنت کے خسرو دوم اور فارسی یہودیوں کے ساتھ ملکر ہراکل کے خلاف بغاوت کی اور  خود مختاری حاصل کی، جو عارضی رہی تاہم کچھ ہی عرصہ بعد ان یہود کا قتل عام ہوا۔

آٹھویں صدی

[ترمیم]
700۔1250ء
گاؤنیم کے دور میں جنوبی یورپ اور ایشائے کوچک کے  یہود غیر روادار مسیحی بادشاہوں اور پادریوں کے تحت  رہے۔ جبکہ زیادہ تر یہود مسلمان عرب حکمرانوں کے علاقوں یعنی اندلس، شمالی افریقا، فلسطین، عراق اور یمن میں رہتے رہے۔ وقتا فوقتا ظلم کے ادوار کے باوجود اس دور میں یہودی برادری کی ثقافت اور معاشرتی زندگی ترقی کرتی رہی۔ بلاتفاق تسلیم شدہ یہودی زندگی کے مراکز میں  طبریہ اور یروشلم، سورا اور پمبیدتہ (عراق) کے علاقے تھے۔ ان قانونی درسگاہوں کے  مہتممین گاونیم تھے جنہیں تمام یہودی دنیا مختلف قسم کے مسائل کے لیے رجوع کرتی تھی۔ اسی زمانے میں طبریہ میں عبرانی رسم الخط کی تنقیط ایجاد ہوئی۔
711ء
مسلمان فوجوں نے  سپین پر حملہ کرکے اس کے اکثریتی علاقے پر قابض ہوئے (اس وقت تک  یہود تمام تر ہسپانوی آبادی کا  %8 بنتے تھے )۔ مسیحیحکومت کے دور میں ، یہود کو بکثرت  متشدد مظالم کا نشانہ بنایا گیا ، جبکہ مسلمانوں نے دوسرے غیر مسلموں کے ساتھ ساتھ  انھیں بھی  باقاعدہ دوسرے درجے کا شہری (ذمی )بنایا  ، جو جزیہ ادا کیا کرتے تھے – جبکہ کچھ ذرائع اس دور کو سپین میں  یہود کاسنہرا دور گردانتے ہیں ۔
740ء
خزر۔ وسطی ایشیاء کے ایک ترک قفقازی خانہ بدوش قبیلے کے سردار اور بڑوں نے یہودیت قبول کی ۔ ان کی مملکت 10 ویں صدی تک رہی، جسے روسیوں نے آلیا ،اور حتمی طور پہ 1016ء  روسیوں اور بازنطینیوں کے بیچ تقسیم ہوا، کچھ سام مخالف دانشوروں کے خیال میں یہی قبیلہ سد ذوالقرنین کے یاجوج ماجوج ہیں۔
760ء
یہود کے فرقے قرائیم نے زبانی قانون کی عمل داری رد کی اور ربیائی یہودیت سے علیحدگی اختیار کی۔

نویں صدی

[ترمیم]
807ء
عباسی خلیفہ ہارون الرشید اپنی خلافت میں موجود تمام تر یہود کو حکم جاری کرتا ہے کہ وہ زنارزرد نشان یا کمر بند زیب تن کریں جبکہ مسیحیوں کو نیلا زیب تن کرنے کا حکم تھا ۔
846ء
سورا(عراق)  میں امرام گاون اپنی ثدر کی کتاب تالیف کرتا ہے ۔
850ء
المتوکل ایک حکم نامہ جاری کرتا ہے کہ تمام تر یہود اور مسیحی ذمی ایسے لباس زیب تن کریں کہ ان کی مسلمانوں سے تمیز کی جاسکے، ان کے  عبادت خانے مسمار کر دئے جائیں اور سرکاری و دفتری معملات میں ان کی کم از کم مداخلت ہو۔
871ء
اس سال کا ایک نامکمل ازدواجی معاہدہ جو قاہرہ کے بن عزرا کنیسہ سے ملحقہ کمرے سے ملے دستاویزات میں سے قدیم ترین دستاویز ہے جواسی سال مورخہ 6 اکتوبر کودریافت ہوئے۔

دسویں صدی

[ترمیم]
1013–912ء
یہودی ثقافت  کا ہسپانیہ میں سنہرا دورعبدالرحمن سوم 912ء میں ہسپانیہ کا خلیفہ بنا اور اس کے ساتھ ہی رواداری کا ایک نیا دور شروع ہوا ۔ مسلمان یہودیوں اور مسیحیوں کی لازمی عسکری خدمت ختم کی ، انھیں اپنے قاضی اور شریعت کی اجازت اور جائداد کی حفاظت کی ضمانت دی گئی۔ یہودی شعرا، دانشور، علما، سائنس دان ، فلسفی اور سیاست دان ترقی پاتے عظیم تر عربی تہذیب کا لازمی حصہ بنے۔ یہ دور قرطبہ کے قتل عام کے ساتھ یعنی 1013ء میں ختم ہوا۔
940 ء
عراق میں سعادیا گاؤن نے اپنی ثدر (دعائیہ کتاب)  تالیف کی

گیارہویں صدی

[ترمیم]
1013ء ۔ 1008ء
فاطمی حکمران حکم بامراللہ نے یہود پر کئی پابندیاں لگائی، تمام یہود کو لکڑی کا سنہرا بچھڑا گلے میں لٹکانا ضروری تھا ، جبکہ مسیحیوں کو لکڑی کی صلیب لٹکانے کی پابندی تھی اور تمام زمیوں کو کالے ہیٹ پہننا لازمی تھا
   1013ء
سقوط قرطبہ کے دوران میں قتل عام ہوا ،جس کی وجہ سے بہت سے نامور یہود جیسے سموئیل بن نغریلہ شہر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔
1073۔ 1013ء
مراکش کے راہب اسحا ق الفاسی  نے ہلاخہ کی ابتدائی دستاویزات لکھیں  جو  یہودی شریعت  کا مجموعہ ضوابط   کی تحریرایک اہم کام تھا
 1016ء
تیونس ۔قیروان کی یہودی برادری کو جلاوطنی اور تبدیلی مذہب میں سے چننے پرمجبور کیا گیا۔[12]
1033ء
تمیم کی فوج  اور مغراوہ قبیلے نے شہر فتح کرنے کے بعد، قبیلے کے سردار زناتہ بربر بنو عرفان  نے فاس میں یہود کا قتل عام کیا۔
1105–1040ء
راہب شلمو یتذاخی(راشی) نے تنخ اور تالمود کی اہم ترین تفسیر لکھی
30دسمبر 1066ء
غرناطہ قتل عام : مسلمان بلوائیوں نے غرناطہ کے شاہی محل پر ہلہ بول دیا ، یہودی وزیر یوسف بن نغریلہ  کی تصلیب کی اور شہر کی بیشتر یہودی آبادی کا قتل عام کیا۔1500 سے زائد یہودی خاندانوں جن میں 4000 افراد ایک دن میں قتل ہوئے ۔[13]
1090ء
غرناطہ کو مرابطین کے بادشاہ یوسف بن تاشفین نے فتح کیا  جبکہ یہودی برادری کے بارے میں مانا جانے لگا کہ انھوں نے مسیحیوں کی طرف داری اختیار کرلی، جس کی وجہ سے انھیں تباہی کا سامنہ کرنا پڑا۔ بہت سے یہود کسمپرسی کی حالت میں مسیحی حکومت کے زیر تسلط  شہر طلیطلہ  (تولیدو)  کی جانب فرار ہوئے۔[14]
1095۔1291ء
صلیبی جنگیں شروع ہوتے ہی فلسطین میں آگ بھڑکی۔ صلیبیوں نے عارضی طور پہ 1099ء میں یروشلم پر قبضہ کیا۔لاکھوں یہودیوں کو یورپی صلیبیوں نے تمام تر یورپ اور مشرق وسطی میں قتل کیا۔

بارہویں صدی

[ترمیم]
1100ء۔ 1275ء
توسفوت ( قرون وسطی ) کی تالمودی تفاسیر کے دور میں ، تالمودی مفسروں نے راشی کے تفسیری کام کو جاری رکھا۔ ان  مفسروں میں سے کچھ اس کے جانشین بھی تھے۔
1107ء
مراکشی مرابط حاکم یوسف بن تاشفین ان مراکشی یہود کو جلاوطن کر دیتا ہے جو قبول اسلام نہیں کرتے۔
1135ء۔1204ء
ربط موسی بن میمون المعروف میمونائیدث یا رمبام سفاردی یہودیت کا  نمایاں ربی ہے۔ اس کے کارناموں میں سے ، یہودی تاریخ کی سب سے بااثر  یہودی شریعت کی عربی کتاب(مشنہ تورات) لکھی ، جبکہ دوسری فلسفیانہ تصانیف  میں بشمول  (دلالة_الحائرين رہنمائے مضطرب) یہودی ادب میں اہم مقام رکھتی ہیں۔
1141ء
یہودا لاوی یہود کو فلسطین کی جانب ہجرت کرنے کے لیے آواز لگاتا ہے ، وہاں جاکر آباد اور یروشلم میں مدفون ہوتا ہے۔
1148ء
قرطبہ کے بربر یہود کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرتے ہیں ، میمونائیڈث قرطبہ کو چھوڑ دیتا ہے ۔
1187ء
یروشلم پر قبضہ کے بعد ، صلاح الدین ایوبی نے یہود کو طلب  کرکے شہر میں  بسنے کی اجازت دی[15] ، خاصکر عسقلانی یہودی  اس کے بلاوے پر آباد ہوئے۔ [16]
1189ء
رچرڈ اول کی تاجپوشی کے دوران میں لندن میں سام مخالف فسادات میں اوغلین کا جیکب  قتل ہوا، بعد ازاں بادشاہ نے مرتکبین کو سزا دی۔
1190ء
یارک قتل عام میں 150 یہود یارک لندن کے ایک پوگروم میں مسیحیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔

تیرھویں صدی

[ترمیم]
1240 ء
بادشاہ ہنری سوم کے ماتحت یہود پر جعلی  سکے بنانے کا الزام لگا اور جب مقامی  آبادی نے انھیں بدلے کا نشانہ بنایا تو بادشاہ نے  انھیں بچانے کے لیے جلا وطن کر دیا[17]
1250–1300 ء
موسی ڈی لیون  تورات کی راہب شمعون بار یوحائی اور اس کے مریدوں  کی پوشیدہ تفسیر زوہر کی تدوین اور  اشاعت کی، اس کے بعد سے  جدید قسم کی قبالہ (مخفی یہودی تصوف ) کا آغاز ہوتا ہے
1500–1250 ء
رشونیم (دانہائے  قرون وسطی)   کا دور – زیادہ تر یہود اس دور میں  بحیرہ روم اور مغربی یورپ میں جاگیردارانہ نظام کے ماتحت  آباد تھے۔عراق میں مسلم اور یہودی مرکز قوت کے انحطاط کے ساتھ ہی  کوئی دنیا بھر میں یہودی قابل ذکرقوت نافذہ  نہ رہی جو یہودی قانون ، معملات اور رواج کا فیصلہ کرسکتی۔چنانچہ راہبوں نے تورات اور تالمود کی ایسی تفاسیر اور  یہودی قوانین لکھنے کی  ضرورت محسوس کی   جو دنیا بھر کے یہود کو ان کے علاقوںمیں ہی اس قابل بنا سکیں کہ وہ یہودی روایات کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں۔
1267 ء
موسی بن نحمان یروشلم میں آکر آباد ہوا  اور رمبان کنیسہ بنایا۔
1343–1270 ء
اسپین کا راہب یعقوب بن اشر نے مشہور اربعہ طوریم ( یہودی قانون کی چار صفیں) لکھی
1276ء
فاس میں تمام تر یہود کا قتل عام امیر شہر کی مداخلت سے نہ ہو سکا۔[18]
1290ء
ایڈورڈ اول کی جانب سے انگلینڈ میں 1275ء کے کلعدمی سود کے قانون کے جاری ہونے کے 40 سال بعد یہود کو وہاں سے بیدخل کیا گیا۔

چودھویں صدی 

[ترمیم]
1300 ء
راہب لیوی ابن گروشم المعروف جرثونائیڈس  چودھویں صدی کا فرانسیسی یہودی فلسفی تھا،جس نے 1317–1329 میں کتاب سفر ملھموت آدونائی   (آقا کی جنگوں کی کتاب) لکھی ، جسے بعد میں یہودی ادب میں خاص مقام ملا، ان کے ادبی کام میں دیگر فلسفیانہ تصانیف بھی ہیں ۔
1304۔1394ء
یہود کو متعدد بار فرانس سے جلا وطن کیا گیا  اور قیمت لے کر پھر سے آنے کی اجازت دی گئی
1343 ء
مغربی یورپ کے مظلوم یہود کو کزیمیر اعظم نے پولینڈ مدعو کیا
1353–1346 ء
یہود کو سیاہ موت کا قصوروار ٹھہرایا گیا(قرون وسطی کی ضد سامیت دیکھیں)
1348 ء
پوپ  کلیمنٹ ششم نے  6  جولائی اور  26  ستمبر  1348 کو فرمان جاری کیے ، بعد والا  قوآمویس پرفیڈیم کہلایا ، جس میں یہود پر ظلم و ستم کی مذمت کی گئی تھی اور یہ کہ جنھوں نے یہود کو وبا کا ذمہ دار ٹہرایا وہ خود شیطان کاذب کا شکار ہوئے[19] ۔اس نے اہل کلیسا پر زور دیا کہ یہود کی حفاظت کے لیے اقدامت کریں جیسے اس نے کیے ۔
سٹراسبرگ کا پوگروم ۔ ایمائل شوائٹزر کی تصویر
1349ء
سٹراسبرگ قتل عام
1350ء کی دہائی
اشکنازی یہود پر منعقد موجودہ جینیاتی پرکھ کی نشان دہی کے مطابق چودھویں صدی میں اشکنازی یہودی آبادی مذہبی تعصب کی بنا پر کم ہوتے ہوتے 250 سے 420 نفوس تک رہ گئی تھی [20]
1370۔ 1369 ء
پیٹر شاہ قشتالہ(پیڈرو) اور قشتالہ کا ہنری دوم(انریکو) کے درمیان میں ہسپانوی خانہ جنگی میں  38,000 یہود مارے گئے   جو اس تصادم میں ملوث تھے۔[21]

پندرھویں صدی

[ترمیم]
1478ء
سپین کے کیتھولک حکمرانوں شاہ فرڈیننڈ ا ور ملکہ ازابیلا اول نے ہسپانوی مہم جوئی کی بنیاد رکھی
1486ء
اٹلی میں پہلی یہودی دعائیہ کتاب کی اشاعت
1488۔1575ء
راہب یوسف کارو بیس سال لگا کر بیت یوسف  مرتب کی، جو  یہودی شریعت کی اعلیٰ ترین شرح  ہے۔اس نے اس کے بعد مزید مختصر شرح شولکان اروخ لکھی ، جو اگلے 400 سال تک یہودی شریعت پر معیار ٹہری۔ وہ پیدا سپین میں ہوا اور اس کا انتقال صفد ، فلسطین میں ہوا۔۔
1488ء
عبیدہ بن  ابراہیم ، مفسرِِ مشناہ یروشلم پہنچا اور ایک نئی یہودی برادری کو نقطہ آغاز دیا۔
دستخط شدہ فرمان الحمرا
1492ء
فرمان ِ الحمرا  : تقریباً دو لاکھ یہود کو سپین سے ملک بدر کیا گیا ، جو عرب اور ترک علاقوں کے علاوہ  نیدرلینڈز اور کچھ فلسطین میں جا بسے،کچھ وسطی اور جنوبی امریکا گئے۔  تاہم ، زیادہ تر پولینڈ  ہجرت کر گئے۔ بعد کی صدیوں میں تمام دنیا کی یہودی آبادی کا  50% پولینڈ ہی میں رہتی رہی۔جبکہ بہت سے یہود  نے اعلیٰ الاعلان مسیحیت تسلیم کر کے سپین ہی میں رہے  یا آنوسی ہوکر در پردہ یہودی ہی رہے۔
1492ء
سلطنت عثمانیہ کے  بایزید دوم نے باقاعدہ دعوتنامے کے ذریعے سمندری جہاز بھیج کر سپین اور پرتگال سے جلاوطن کیے گئے یہود  کو اپنے ملک بلوایا۔
1493ء
137,000   یہود کو صقلیہ، اٹلی سے  بیدخل کیا گیا۔
1496ء
پرتگال سے اور جرمنی سے بہت سے یہود بیدخل کیے گئے۔

سولہویں  صدی

[ترمیم]
1501ء
پولینڈ کے شاہ الیکزنڈر نے یہود  واپس لتھوینیا کی عظیم ڈچی کی ریاست میں آنے کی اجازت دی
1516ء
یورپ کا پہلا یہودی پاڑہ وینس اٹلی میں قائم ہوا۔
1572–1525ء
راہب موشے اسرلس(رے ما) کراکوفی نے شلخان اروخ کی اشکنازی یہودیت پر اطلاق بارے جامع تفسیر لکھی
1534ء
شاہ پولینڈ صجیسمند اول یہود کے  امتیازی لباس پہننے کے قانون کو منسوخ کی
1534ء
پولینڈ میں پہلی یدشی کتاب شائع ہوا
1572–1534ء
اسحاق لوریہ (اریزل) نے یروشلم اور صفد میں مخصوص مریدوں کو قبالہ کی  تعلیم  دی، جن میں سے ابن تبل، اسرائیل ساروگ خاصکر خائیم  ویٹل نے اس کی تعلیمات قلمبند کیں، جبکہ ساروگ کا نسخہ تو فورا ہی  اٹلی اور ہالینڈ میں شائع ہوا لیکن ویٹل کا نسخہ تین صدیوں تک  مخطوطہ (ہاتھ کا لکھا ) ہی رہا اور شائع نہ ہو سکا۔
1547ء
لوبلیون میں پہلا یہودی (مطبوعۃ) چھاپہ خانہ شروع ہوا۔
1550ء
جینوا، اٹلی سے یہود بیدخل کیے گئے،
موسی بن یعقوب کوردوویرو  نے صفد ،فلسطین میں قبالہ اکیڈمی قائم کی
1567ء
پولینڈ میں پہلی یہودی یونیورسٹی یشیوا قائم کی گئی
1577ء
ایشیا کا پہلا یہودی (مطبوعۃ) پریس صفد فلسطین میں قائم کی گئی
1764–1580ء
پولینڈ کے چار علاقوں عظیم تر پولینڈ ، پولینڈ صغیر، روتہینیہ ، والہینیہ کے یہودی کونسل کا پہلا اجلاس لوبین پولینڈ میں ہوا۔کحال (یہودی مجلس شوری) کے 70 ارکان نے محصول و خراج اور دیگر اہم یہودی امور کا جائزہ لیا گیا۔
                                             

سترھویں صدی

[ترمیم]
1630–1621ء
شیلاہ حکادوش نے ارض مقدسہ کی جانب ہجر ت کے بعدیہودی مذہب کا اپنا تحریر کردہ سب سے مشہور ادب لکھا۔
1623 ء
لتھوینیا کی عظیم  ڈچی ریاست کی  میں پہلی مرتبہ الگ سے (واعد )یہودی پارلیمان قائم ہوا ۔
1676–1626ء
سباتائی زیوی جھوٹا مسیح منظر عام پر آیا۔
1633 ء
پوزنان  کے یہود نے  مسیحیوں کو اپنے شہر میں آنے پر پابندی عائد کی ۔
1648 ء
پولینڈ  کی یہودی آبادی 4,50,000  تک جاپہنچی ( جو پولش لتھوینی دولت مشترکہ  کے 1,1000,000 کی آبادی کا 4% بنتا ہے) جس میں  بوھیمیہ 40,000 ، موراویہ 25,000۔جبکہ اس وقت کی دنیا بھر کی یہودی آبادی کا تخمینہ 750,000 لگایا گیا۔
1655–1648 ء
قوضاق بوھدان  چمیلنکی نے یوکرین میں پولش اشرافیہ اور یہود کے قتل عام کی قیادت کی ، جس میں 65,000 یہود اور اشرفیہ مارے گئے – جبکہ تمام تر یہود کی تعداد100,000تک تھی[22]
1655 ء
اولیور کرامویل نے یہود کو واپس انگلینڈ میں آنے کی اجازت دی۔
1660 ء
صفد  کی تباہی ہوئی۔[23]
1679ء
یمنی یہود کی بیدخلیِ ماوضہ

اٹھارویں صدی

[ترمیم]
1760–1700ء
اسرائیل  بن الیزر، المعروف بعل شیم توو  نے حسیدی یہودیت کی بنیاد رکھی ، خدا تک پہنچنے کے لیے پرجوش مراقبے کا ایک طریقہ  اختیار کیا۔اس کے اور اس کے مریدوں کے بہت سے معتقدین ہوئے اور کئی حاسیدی فرقے قائم کیے۔ حاسیدیت کے یورپی یہودی مخالفین (مثناگدیم) کا ماننا ہے کہ علمانہ طرز  یہودیت پر ہی عمل کرنا چاہیے نہ کہ روحانی یہودیت پر۔ آج کل کہ مشہور حاسیدی فرقوں میں بابور، بسلور،جرجر، لوبائچ اور سطمر شامل ہیں۔
1700ء
راہب یودہ ہی حاسید فلسطین کی جانب مع اپنے سینکڑوں مریدین کے علیا اختیار کیا اور پہنچنے کے کچھ ہی دن بعد اچانک فوت ہوا ۔
سر سلیمان ڈی مدینہ کو ولیم سوم شاہ انگلستان کی جانب سے نائٹ کا اعزاز دیا گیا ، وہ انگلستان میں یہ اعزاز حاصل کرنے والا پہلا یہودی بنا ۔
کنیسہ خرابا 1898ء میں
1720ء
یودہ ہی حاسید کی موت کے بعد ان کے مرید منتشر ہوئے ،جو رہ گئے انھوں نے چالیس گھروں کا اشکنازی محلہ اور کنیسہ بنایا، کچھ ہی عرصہ بعد انھوں نے اس کنیسہ میں عالیشان توسیع شروع کی ، جس کے لیے انھیں بڑ  ے سرمایہ  کی ضرورت تھی، انھوں نے مقامی عربوں سے قرض لینا شروع کردیاجنھیں وہ ادا نہ کرسکے ، اتنے میں عربوں نے زیر تعمیر کنیسہ کو تحویل میں لے لیا ،چنانچہ انھوں نے چندہ اکھٹا کر نے کی غرض سے یورپ کی جانب قاصدین کی جماعتیں(مشولاخ) بھیجیں ، بیس سال بعد جب یہود قرض کی ادئیگی میں ناکام رہے تو غصہ میں عرب سرمایہ داروں نے قبضہ میں لیا کنیسہ خرابہ کو نذر آتش کر دیا، مقامی اشکنازی برادری کے زعماء کو قید کر لیا اور تمام اشکنازی یہود کو شہر سے بیدخل کر دیا –وقت گزرتے  اس کنیسہ  کے اطراف میں دکانیں بن گئیں اور بقیہ کھنڈر کو ربی ہاحاسیدی کا کھنڈرکہا جانے لگا۔
1797–1720ء
ویلنیوس کے متقی عبقری (جینئیس) ویلنا گاؤنربی الیاس کی پیدائش۔
1786–1729ء
موسی مندلسون اور حثکالا تحریک۔ موسی مندلسؤن نے یہود کی تفرید ختم کرنے کی جدوجہد کی تاکہ وہ مغربی ثقافت و تہذیب سے ہم آغوش ہوں اور غیر یہودی (جنٹایل ) انھیں برابری پر تسلیم کریں۔ حثکالا نے  جدید یہودی گروہوں اور بطور گفتاری زبان عبرانی کے لیے ترقی کے دروازے کھول دئے۔ لیکن ساتھ ہی اس تحریک نے مسیحی معاشرے میں مکمل طور پہ قبولیت کے خواہشمندوں یہود کے لیے راستہ ہموار کیا  جنھوں نے مسیحیت اختیار کی یا یہودیت میں رہ کر مسیحیت کی مشابہت اور اس کی تقلید اختیار کی۔
1740ء
یہود کو امریکی نوآبادیاتی کالونی میں شہریت دینے کے لیے برطانوی مقننہ نے قانون بنایا، اس سے قبل کئی اور کالونیوں نے بھی یہود کو رائج العام طریقہ یعنی مسیحی ایمان پر حلف لیے بغیر شہریت دی۔
عثمانی حاکم ظاهر العمر نے مشہور قبالوی اور ازمیر ، ترکی  کے راہب ، ربی ہائیم ابولفیہ کو ارض مقدسہ ، طبریہ میں آنے کی دعوت دی جو تقریباً 70 سال سے غیر آبادتھا اور انھیں کنیسہ بنانے کی اجازت دی،بہت سے دانشور اس شہر کی آبادی کے مسیح آخر الزماں کے  ظہور کی نشانی سے جوڑتے ہیں[24]
1750–1740ء
مسیح موعود کی پیشنگوئ کے پیش نظر  ہزاروں کی تعداد میں یہود  فلسطین کی جانب ہجرت کی،اس بڑی ہجرت سے فلسطینی یہودی آبادی کی تعداد اور قوت میں اضافہ ہوا۔[24]
1747ء
کوٹی ، یوکرین کا ربی ابراہیم گرشوم  حاسیدی مہاجروں  میں سے پہلا تھا –وہ ایک محترم تلمودی دانشور ، روحانی پیر اورربی اسرائیل بعل شیم توو (حاسیدی تحریک کے بانی)کا بہنوئی تھا۔ ربی ابراہیم پہلے پہل  الخلیل میں جا بسا ، لیکن پھر اسنے یروشلم کے رہائشیوں کی فرمائش پر ان کے شہرنقل مکانی کی۔[25]
1759ء
یعقوب فرانک پولش شلختا (اشرفیہ)  کی صفوں میں شامل ہوئے۔
1795–1772ء
روس ،پروشیا اور آسٹریا کے مابین انقسام پولینڈ کے بعد یہودی دنیا  تین ملکوں میں رہتی رہی۔پولینڈ کے یہود کو دئے گئے استحقاق ختم کیے گئے۔
1781–1775ء
انقلاب امریکہ برپا ہوا، جس میں  مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی۔[26]
1775ء
بلوائیوں کا الخلیل کے یہود پر تشدد[27]
1789ء
فرانسیسی انقلاب کے تحت فرانس نے کچھ شرائط سمیت یہود کو مکمل حقوق اور شہریت دی۔[28]
1790ء
ریاست ہائے امریکا میں  صدر جارج واشنگٹن جزیرہ روڈز کی یہودی برادری کو خط لکھا کہ میں ایسے ملک کا تصور کر رہا ہوں جہاں ’’  تعصب کو حلت نہیں۔۔۔عقوبت کی تائید نہیں ‘‘ باوجود اس کے کہ امریکا ایک پروٹسٹنٹ ملک تھا،نظریاتی طور پہ یہود کو مکمل حقوق دئے گئے۔ مزید برآں مشرقی یورپ کے یہود کے تجارت کے کردار نے امریکا میں آئے یہودی مہاجروں کی ذہن سازی کی ،جس کا مطلب تھا کہ وہ  امریکی  معاشرے میں تجارتی مقابلے کے لیے خوب تیار تھے۔
1791ء
روس  نے ملفوف نوآبادی (محدود علاقہ) تخلیق کیا جو یہودی آبادی والے  پولینڈ اور کریمیا کے مكتسب (حاصل کردہ)  علاقوں پر مشتمل تھا۔اس ملفوف علاقے کی یہودی آبادی   75,000     تھی جس میں سے 450,000 پروشیا اور آسٹریا پر مشتمل پولینڈ کے حصوںمیں  سے تھے[29]
1798ء
برسلو کے ربی ناکھمن نے فلسطین کا سفر  کیا
لوئس ہیغ ، ڈیوڈ رابرٹس کی 24 اپریل 1839ء کی عکہ کی تصویر
1799ء
جب فلسطین میں موجود فرانسیسی دستے عکہ شہر کا محاصرہ کر رہے تھے، نپولین نے اعلان مددتیار کیا کہ ایشیائی اور افریکی یہود پیش قدمی اور فتح یروشلم میں اس کی مدد کریں، لیکن عکہ کے ناکام محاصرہ کی وجہ سے وہ اعلان جاری نہ کر سکا۔
بلوائیوں کا صفد میں یہود پر تشدد۔۔[27]

انیسویں صدی

[ترمیم]
1900–1800ء
یدیش ادب کا سنہری دور ، عبرانی زبان کا بطور گفتاری زبان اور عبرانی ادب کا احیا ہوا۔[30]

1840–1808ء

1840ء آمدِ مسیح کی توقع کے پیشِ نظر عجلتِ نجات کی امید میں بڑے پیمانے پر علیا ہوا۔[31]

1860–1820ء

یورپی  یہودی روشن خیالی اور آزادی کی تحاریک جو ہلاخاہ پر سختی سے عمل پیراہی کا خاصہ رہی ہیں اس کے رد عمل میں روایت پرست  راسخ العقیدہ یہودیت کی تحاریک ابھری جو ان کا مزاحمت کرتی رہیں۔
1830ء
یونان نے یہود کو شہریت دی۔
1831ء
رضاکار یہودی ملیشیا نے وارسا کی روسیوں سے حفاظت میں حصہ لیا۔
1835–1834 ء
فلسطینی کاشتکاروں نے مصر کے حکمران ابراہیم پاشا کے جبری بھرتی اور ہتھیار ڈالنے کے حکم خلاف مسلح  بغاوت کی ،حکومت نواز  دروزیوں اور کاشتکار فلسطینی باغیوں کی افراتفری میں  صفد، الخلیل اور یروشلم کے یہود بھی درمیان میں مارے گئے۔[32][33][34][35][36] (دیکھیں صفد کی لوٹمار)۔.
1837ء
ملکہ وکٹوریہ نے موسی ہائم مونٹے فیورے کو  نائٹ (شہہ سوار ) کا درجہ دیا ۔
الجلیل (گلیلی) کےزلزلہ  نے صفداور طبریہ کی یہودی  برادریوں کو تباہ و برباد کیا۔
1933–1838 ء
ربی یسروئیل میئر ہاکوہن (شوفتض کھائم) نے ایک اہم مدرسہ کھولا۔اس کی ھلاخائی تصنیف مشنیٰ برورہ سند ٹھرا۔
وسط 19 ویں صدی
کلاسیکی اصلاحی یہودیت  کا آغاز اور ترقی۔
ربی اسرائیل صلانطر نے موسر تحریک کی بنیاد رکھی، اس کے مطابق اگرچہ یہودی شریعت پر عمل واجب ہے ، لیکن اسنے موجودہ فلسفیانہ بحث کو رد کیااور اخلاقی تعلیمات کی بطورروحِ یہودیت  کی حمایت کی ۔
مثبت تاریخی یہودیت جوبعد میں  رجعت پسند یہودیت  کہلائی نمودار ہوئی۔
1841 ء
متحدہ امریکی ریاستہائے  سینٹ کی کانگریس میں پہلا یہودی ڈیوڈ لیوی یولی منتخب ہوا۔
قدیم یروشلم کے باہر پہلے یہودی محلے مشکنوت شنانیم میں قائم سرائے خانہ جو 1860ء میں قائم ہوا ۔
1851 ء
ناروے نے یہود کو واپسی کی اجازت دی، وہ 1891 ءتک آزاد نہ ھوسکے۔
1858 ء
انگلستان کے یہود کو آزادی ملی۔

1860 ء

ایک بین الاقوامی یہودی تنظیم  الائنس اسرائیلائٹ یونیورسل (عالمی اسرائیلی اتحاد) برائے تحفظ یہودی شہری حقوق ،پیرس میں قائم ہوئی۔
ہنریٹہ ظولڈ
1875–1860ء
موشے مونٹےفیورے نے قدیم شہر (یرو شلم) کے باہر یہودی بستی کے قیام کا آغاز مشکنوت شنانیم سے کیا۔
1864–1860ء
پولستان کے یہود قومی پولش تحریک میں حصہ لیا  جس کے بعد بغاوتِ جنوری  ہوئی۔ [توضیح درکار]
1943–1860ء
مشہور امریکی صہیونی راہ نُما ، معلمہ ، سماجی کارکن اور صہیونی تنظیم برائے امریکی خواتین حداثہ کی بانیہ  ہنریٹا زولڈ کا عرصہ حیات۔
1861 ء
فرینکفرٹ ، جرمنی میں صہیونی مجلس کا قیام ہوا۔
1862ء
روسی زیر نگرانی مملکت پولستان کے یہود کو مساوی حقوق دئے گئے۔کچھ بستیوں میں یہودی آبادکاری کی پابندی ختم کی گئی۔
لائپزش، جرمنی میں موسی حص  نے کتاب  روم اور یروشلم شائع کی ، جو فلسطین میں یہودی اشتراکی دولت مشترکہ  کے قیام بارے لکھی جانے والی پہلی کتاب تھی، اسی کتاب نے سوشلسٹ ( اشتراکی)صہیونی تحریک کو  قوت دی۔
بنیامین ڈزرائیلی کی تصویر 1870ء
1867 ء
مجارستان کے یہود کوآ زادی ملی۔
1868 ء
بینجمن ڈزرائیلی  مملکت متحدہ کے پہلے وزیر اعظم بنے، وہ پہلے نسلی یہودی تھے جو کسی یورپی حکومت کے سربراہ ہوئے اگرچہ  انھوں نے بچپن میں ہی مسیحیت قبول کر لی تھی۔
1890–1870 ء
روسی صہیونی  جماعت  ہوویوے صہیون (محبان صہیون) اور بیلو (قائم  از 1882 ء) نے ارض اسرائیل میں یہودی آبادکاری کاسلسلہ کھڑا کیا،جس کی مالی معاونت بیرن(انگریز نواب) ایڈمنڈ جیمز ڈی رتھشایلڈ نے کی۔
ریشون لصہیون میں علیزر بن یہوداہ عبرانی زبان کی بطور گفتاری زبان احیاء کی۔
1870 ء
اطالیہ کے یہود کوآ زادی ملی۔
1871 ء
جرمنی کے یہود کوآ زادی ملی۔
1875 ء
امریکی اصلاحی یہودیت کے بانی اسحاق مائر وائز نے  اصلاحی یہودیت کے عبرانی یونین (انجمن) کالج کی بنیاد سنسیناٹی میں رکھی ۔[37]
1877 ء
نیو ہیمپشائر آخری امریکی ریاست تھی جسنے یہود کو مساوی سیاسی حقوق دئے۔
فتح تکو 1912ء
1878 ء
یروشلم کے مذہبی پہل کاروں نے یہوشواہ سٹامپفر کی زیرقیادت اور ایڈمنڈ جیمز ڈی رتھشایلڈ کی مالی معاونت سے فتح تکو قائم کی۔
1880 ء
عالمی  یہودی آبادی 77 لاکھ تک جا پہنچی ، جو  90% یورپ اور وہاں اکثرمشرقی یورپ میں تھی جبکہ 33 لاکھ کی آبادی سابقہ پولش صوبوں میں تھی۔
1884–1881 ء
1906–1903 ء
1920–1918 ء
روس اور یوکرین میں پوگروم کے تین  نمایاں لہروںمیں  ہزاروں یہود قتل ہوئے۔جبکہ 22 لاکھ روسی یہود نے وہاں سے ہجرت کی۔
1881 ء
دسمبر 31۔30 کو فلسطین میں یہودی آبادکاری بارے تمام صہیونی انجمنان کی مجلس فوکشانی ، رومانیہ میں ہوئی۔
1882ء : یہودی مہاجرین یورپ سے علیا کرتے ہوئے
1903–1882 ء
فلسطین کو وطن بنانے کے لیے یہودی مہاجروں کی علیا کا پہلا ریلا پہنچا۔[38]
1886 ء
ربی سباتو مورائس اور سکندر کوہت نے  امریکی اصلاحات کے رد عمل میں رجعت پسند یہودیت کی حمایت شروع کی اور راسخ العقیدہ روشن خیال امریکی یہودی دینیاتی درسگاہ قائم کی۔
فرانسیسی یہودی فوجی افسر کیپٹن الفرڈ ڈریفس پر خفیہ دستاویز دشمن تک پہنچانے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی جاتے ہوئے
1890 ء
'صہیونیت' کی اصطلاح  آسٹریائی مروج نیتھن برنبام نے اپنے اخبار سلف امنسپیشن(خود خلاصی)  میں  پہلی بار وضع کی  اور اس کی تعریف  یہود کی آبائی وطن ارض اسرائیل واپسی اور یہودی حاکمیت کی بحالی کی قومی تحریک  کی۔
1895 ء
سگمنڈفرائڈ کی پہلی کتاب کی اشاعت ہوئی۔
1897 ء
فرانسیسی کیپٹن الفرڈ دریفس معاملے کے رد عمل  میں تھیوڈور ھرتزل نے درجودن سٹاٹ   (اسرائیلی ریاست)  نامی کتاب لکھی،جس میں اس نے آزاد اور خومختار اسرائیلی کے قیام کا تصور پیش کیا۔
جنرل یہودی لیبر بند(پارٹی) کا روس میں قیام۔
پہلی روسی مردم شماری : مجموعی طور پہ5,200,000   شمار کیے گئے جن میں سے یہودی علاقے میں   4,900,000 تھے، سابقہ پولستان کے علاقوں میں[توضیح درکار] 1,300,000 یا مجموعی آبادی کا 14% تھے۔
پہلی صہیونی  کانگریس (شوری) کا اجلاس بازل شہرمیں ہوا، جس میں عالمی صہیونی تنظیم کا قیام عمل میں آیا۔

بیسویں صدی

[ترمیم]
1902ء
ربی ڈاکٹر سلیمان  شیکٹر نے امریکی یہودی دینی مدرسے کی تنظیم نو کی اور اسے  رجعت پسند یہودیت کی سب سے بہترین درسگاہ بنایا۔
1903ء
سینٹ پیٹر برگ کے اخبار ضنامایہ نے آدابِ صہیونی بزرگان شائع کی –
یہود پہ آدمخوری کے الزامات کی وجہ سے کشنیو پروگروم رونما ہوئے۔
1905ء
پوگروم کے ساتھ ساتھ 1905ء کا روسی انقلاب بھی برپا ہوا۔
1915ء
یشیوا کالج  (بعد میں جامعہ)اور اس کے ربی اسحاق علقنان نے جدید راسخ العقیدہ سماجی ماحول کی تربیت کے لیے  نیو یارک شہر میں راہبانہ مدرسہ قائم  کیا۔
1916ء
لوئس برانڈیس یکم جون کو ریاستہائے متحدہ امریکا  کے عدالت عظمیٰ کا پہلا یہودی قاضی ہوا، اسے امریکی صدر ووڈرو ولسن نے نامزد کیا تھا۔
لارڈ بالفورڈ کا مملکت متحدہ و آئرستان کی صہیونی فیڈریشن اور بدنام زمانہ خاندان روتھ چائیلڈ کے نام خط، اعلانِ بالفورڈ نے  فلسطین میں یہودی  وطن کے قیام کی تائید کی اور  موجودہ غیر یہودی طبقات اور برادریوں کی  شہری اور مذہبی  حقوق کو تحفظ دیا۔
1917ء
برطانیہ نے ترکوں کو شکست دیکر فلسطین کا قبضہ حاصل کیا اور  اعلانِ بالفور   جاری کیا جو فلسطین میں یہود کے لیے قومی وطن کے قیام کی باضابطہ  طور پہ  برطانوی منظوری اور حمایت تھی۔ جس سے یہ واضح طور پہ سمجھا گیا کہ فلسطین میں کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھایا جائے گا جس سے  غیر یہودی طبقے کے شہری اور مذہبی حقوق  کو ضرر پہنچے۔ بہت سے یہود  اس سے یہ تعبیر اخذ کرتے ہیں کہ فلسطین کو   یہودی ریاست  بننا تھا۔[39]


فروری 1917ء
تحدیدی آبادکاری کو منسوخ کیا گیا اور یہود کو مساوی حقوق ملے – روسی خانہ جنگی سے دو ہزار پوگروموں نے جنم لیا جس میں ہزاروں افرادکا قتل ہوااور لاکھوں بے گھر ہوئے۔
1939ء–1918ء
دونوں عالمی جنگوں کے درمیان کا زمانہ جسے دعائیہ عبادت کے اماموں ( هزّانت ) کا  سنہری دور بھی کہا جاتا ہے۔ اس دور کے مشہور اماموں میں ابراہیم ڈیویس، موشے کوسےویٹسکی، زیول کوآرٹین(1953ء۔1874ء) ، جان پیرص، یوسف یوسیلے روزنبلاٹ(1933ء۔1882ء)، گرشؤن سیروٹا (1943ء۔1874ء) اور لائبہلے ولدمن شامل ہیں۔
1919ء
15 فروری : خملنسکی کے پوگروم میں 1200 یہود قتل ہوئے۔
25 مارچ : تقریباً 4000 یہودتتیو میں کسک کے فوج کے ہاتھوں قتل ہوئے۔
17 جون :  800 یہود کو دوبوا (یوکرین) میں ایک خط میں کھڑا کرکے سر کاٹے گئے۔[40]
1920ء
متحدہ مملکت برطانیہ میں منعقدہ سین ریمو کانفرنس میں جمعیت الاقوام اور انتداب فلسطین کا استقبال کیا گیا۔
اپریل 4 سے7 کے یروشلم فسادات میں  پانچ یہود قتل اور 216 زخمی ہوئے۔
1920ء–تاحال
متعددیہودی ادیب گرٹروڈسٹائین،ایلن گنسبرگ ،سال بیلو ، ادریان ریچ اور  فلپ روتھ کوعروج حاصل ہوا اور  انگریزی بولنے والے ملکوں کے ادب پر کافی اثر انداز ہوئے۔
1921ء
انتداب فلسطین کی برطانوی عسکری انتظامیہ سویلین حکمرانوں سے تبدیل ہوئی۔
برطانیہ نے اعلان کیا کہ دریائے اردن اور اس کے مشرق میں فلسطینی علاقے یہودی آبادکاری کے لیے ہمیشہ کے لیے بند رہیں گے تاہم عرب آبادکاری جاری رہے گی۔
ریگا شہر میں پولستانی ۔  سوویت اتحاد کا امن معاہدہ ہوا۔ دنوں اطراف کی عوام کو اپنا ملک منتخب کرنے کا حق دیا گیا۔  سوویت اتحاد میں ہزاروں چھوٹے چھوٹے کاروباروں پر پابندی لگی، خصوصا یہودی تاجروں پر اور وہ پولستان ہجرت کر گئے۔
1922ء
اصلاحی یہودی ربی سٹیفن س وائز نے نیو یارک میں یہودی مذہبی ادارہ قائم کیا، یہی ادارہ بعد میں 1950ء میں عبرانی یونین کالج میں  ضم کیا گیا۔
1923ء
سطح مرتفع گولان کو برطانیہ نے فرانسیسی تعہد برائے سوریہ اور لبنان کے حوالے کیا جس کے بعد وہاں عربوں کو ہجرت کی اجازت ہوئی لیکن یہودی ہجرت پر پابندی جاری رہی۔
1924ء

پولستان کی مذہبی مردم شماری کے مطابق  پولستانی آبادی کا 10.5% تقریباَ 29,89,000 انتیس لاکھ نواسی ہزار یہود تھے جن میں سے 23% ہائی اسکول اور 26% یونیورسٹی کے طلبہ تھے۔

1926ء
جنگ عظیم اول سے قبل یورپ میں  حسیدی مدرسے کچھ ہی تھے۔ لگ باعمر  کے دن ربی شلومو چانوخ ،حاکوہن ربینوویکز ، چوتھا رادومسکر ربی نے اعلان کیا
وقت آچکا کہ (مذہبی) مدرسے قائم کئے جائیں جہاں نئی نسل تورات کی تعلیم حاصل کرے اور اس پر تحقیق کرے

چنانچہ قبل از جنگ کے پولستان میں کیسر تورات کی  36 مدارس کا جال بچھایا گیا۔[41]

1929ء
مسلمانوں اور یہود کے درمیان مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار پر جاری دیرینہ تنازع سے 1929ءکے فلسطینی فسادات نے جنم لیا، جس سے عرب اور یہود کے درمیان 1929ءکے الخلیل کا قتل عام ، 1929ء صفد پوگروم اور یروشلم کے دنگے ہوئے
1930ء
تخمینہ
دنیائے یہودیت: 15,000,000
ریاستہائے امریکا متحدہ: 4,000,000
پولستان: 3,500,000 کل آبادی کا 11%
سوویت اتحاد: 2,700,000 کل آبادی کا 2%
رومانیہ: 1,000,000 کل آبادی کا 6%
فلسطین: 175,000کل آبادی کا 17%
1933ء
ہٹلر جرمنی کا حکمران ہوا، ساتھ ہی ضد سامیت میں اضافہ ہوا ، بہت سے یہود نے جرمنی سے انخلاء اور ہجرت  کی۔
1935ء
پہلی یہودی خاتون ریجینہ یونس کو ربی کا درجہ دیا گیا۔[42]


1937ء
11ویں صدی کے یہودی مفسر راشی  کے بعدپہلے عالم ،ادین سٹائنسالٹز نے بابلی تالمود کی تفسیر لکھی۔
1939ء
برطانوی حکومت نے سفید کاغذ جاری کیا – جس کے مطابق 1944ء–1940ء تک ہر سال 10,000 یہود کو ہجرت کی اجازت دی گئی  ، جبکہ مزید 25,000 یہود کو کسی ہنگامی کی صورت حال میں  اجازت دی گئی۔
1945ء–1938ء
مرگ انبوہ  کا دورانیہ: تمام تر یورپ میں سے 60 لاکھ یہود کی باقاعدہ نسل کشی کا دعوی کیا گیا۔
1940ء–تاحال
بہت سے یہودی فلم ساز جیسے بلیوائلڈر ، وڈی ایلن، میل بروکس اور کوین برادران نے یہودی فلسفہ اور ظرافت پر فلم سازی کی اور اس زمین میں مشہور اور کامیاب ہوئے۔
1941ء
یکم جون کو بغداد کے مسلم شہریوں نے  بغدادی یہود کے خلاف پوگروم کر دیا، جسے الفرھود کہا گیا۔اس میں 200 یہود ہلاک ہوئے یہودی املاک لوٹی گئیں اور گھر نذر آتش ہوئے۔
1948ء–1945ء
بعد از مرگ انبوہ متاثرین بحران: مملکت متحدہ کی جانب سے  غیر قانونی طور پہ فلسطین میں داخل ہونے والے یہود پر داخلے کی پابندی۔
1948ء–1946ء
انتداب فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد دہشت گردی میں بدلی اور ہگاناہ، اِرگن اور لیہی جیسے  گروپ وجود میں آئے۔
29 نومبر, 1947ء
پہلے اسرائیلی وزیر اعظم داؤد بن گوریون 14مئی 1948ء کوتل ابیب میں روتھشیلڈ روڈ پر واقع اوٹے والش بلڈنگ میں تھیوڈور ہرتزل کی تصویر کے نیچے اسرائیلی آزادی کا اعلان کرتے ہوئے ۔
اقوام متحدہ نےانتداب فلسطین میں یہودی اور عرب ریاستوں کے قیام کی باقاعدہ منظوری دی۔
14 مئی, 1948ء
اسرائیل ی ریاست نے اپنی آزادی کا اعلان انتداب فلسطین کے اختتام سے کچھ ہی گھنٹوں قبل کر دیا اور گیارہ منٹوں میں ہی   ریاستہائے متحدہ امریکا نے اسے تسلیم کیا۔ سوویت اتحاد کے اقوام متحدہ میں سفیر اندرے گرومکو نے اسے اجلاس بلا کر بطور رکنی ریاست اسرائیل کوقبول کیے جانے کی قرارداد پیش کی جسے اقوام متحدہ نے قبول کیا اور یوں جدید دور میں مذہب کے نام پہ بننے والی پاکستان کے بعد دوسری ریاست ٹھہری۔دیکھیں مماثلت پاکستان و اسرائیل
15 مئی, 1948ء
1948ء کی عرب اسرائیلی جنگ: سوریہ،عراق ،اردن،لبنان اورمصر نے اسرائیلی ریاست کے بنتے ہی   گھنٹوں بعد اس پہ حملہ کر دیا، اسرائیل نے حملہ پسپا کر دیا اور فلسطین کے مزید  علاقہ پرقبضہ کر لیا۔ بہت سے مسلم اسرائیل اور  یہود نےعرب ریاستوں سے ہجرت کی ؛  دیکھیں 1949 التوائے جنگی سمجھوتہ.
1949–1948ء
صدر جمال عبد الناصر کا جنگ استنزاف کے دوران مصری اعلی عسکری قیادت کے ساتھ سویز نہر کے محاذ کا دورہ۔ان کے عقب میں جنرل کمانڈر محمد فوزی اور ان کے بائیں جانب چیف آف سٹاف عبدالمنعم ریاد کھڑے ہیں
ڈھائی لاکھ مرگ انبوہ سے بچ رہنے والے اسرائیل آن پہنچے، آپریشن طلسماتی قالین میں ہزاروںیمنی یہودکو اسرائیل لایا گیا۔
1956ء
سوئز بحران: مصر نے خلیج عقبہ  کی ناکہ بندی کی اور اسرائیل کے لیے بحری جہازوں کی آمدورفت کے لیے بند کردی۔ مصری صدر جمال عبدالناصر نے عربوں کو اسرائیل تباہ کرنے کی دعوت دی، برطانیہ اور فرانس  اسرائیل و مصر کی جنگ میں شامل ہوئے اور مصر کا سوئز نہر سے ناکہ بندی ختم کروا کر اسرائیل کو ترسیل جاری کروا دی۔
1964ء
یہودی – عیسائی تعلقات میں رومن کاتھولک کلیسیا ویٹیکن دوم کی جانب سے نیا انقلابی موڑ آیا۔
1966ء
پہلے یہودی ادیب سیمویل یوسف اگنون (1970ء۔1888ء)نے ادب کا نوبل انعام جیتا۔
16 مئی, 1967ء
مصری صدرجمال عبدالناصر نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ اسرائیل اور مصر کے درمیان ایمرجنسی فورس کو ختم کرے اور اقوام متحدہ کی امن فوج سینا اور غزہ سے 19مئی تک نکل جائے۔
مئی 1967ء
مصری صدرجمال عبدالناصر آبنائے تیرا ن میں بحری آمدورفت کواسرائیل کے لیے اس بنیاد پر بند کیا  کہ مصر اسرائیل کیساتھ حالت جنگ میں تھا۔تو جزیرہ نما سینا میں مصریوں کو اسرائیل نے اغوا کرنا شروع کیا۔
10–5 جون ,1967ء
6 روزہ جنگ اسرائیل نے مصر ، اردن  اور شام پہ پیشگی حملہ کر دیا، اسرائیلی فضائی قوت نے اکثر زمین پر کھڑے عربوں کے ہوائی جہازوں کو غیر متوقع حملے میں تباہ کیا جس کے بعد زمینی حملہ کردیاجس میں  اس نے  جزیرہ نما سینا،مغربی کنارہ اور سطح مرتفع گولان پر قبضہ کر لیا۔
یکم ستمبر ,1967ء
خرطوم سوڈان میں  عرب حکمرانوں کی بیٹھک ہوئی، تین نقاط پر فیصلہ ہوا، اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا، کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے اور کوئی امن نہیں کیا جائیگا۔
1968ء
ربی موردے چائی نے باقاعدہ طور پہ ایک علاحدہ تحریک تشکیل نو یہودیت  کا رہبانی  تشکیل نو کالج فلاڈلفیہ قائم کر کے شروع کی[43][44]
1969ء
افریکن عبرانی  یہودکا پہلا جتھہ بن عمی بن اسرائیل کی قیادت میں اسرائیل ہجرت کرنا شروع کی۔
دہائی وسطی 1970ء سے تاحال
کلضمیر موسیقی (یورپی یہود کی لوک موسیقی)کی بحالی بڑھی [45] [4]
1972ء
سیلی پریسنڈ امریکا کی پہلی خاتون ربی بنی، جو یہودیت کی تاریخ میں باقاعدہ طور پہ بنی   دوسری خاتون ہیں ۔[46]


تل ابیب : میونخ اولمپکس میں مارے گئے اسرائیلی کھلاڑیوں کی یادگار پر موجود ان کے نام و تصاویر کا قطبہ ۔
1972ء
1972ء گرمائی اولمپکس میں مارک سپیٹز نے ایک کھلاڑی کی جانب سے کسی گرمائی اولمپکس مقابلوںمیں جیتے گئے طلائی تمغوں میں سب سے زیادہ یعنی 7 جیت کر پچھلوں پہ سبقت لی اورنیا کارنامہ (ریکارڈ)سر انجام دیا۔
سیاہ ستمبرتنظیم نے اسرائیلی کھلاڑیوں کومیونخ کے گرمائی اولمپکس میں یرغمال بنایا جو بعد ازاں انھیں بچانے کی ناکام کوشش کے دوران قتل ہوئے۔
نقّاشی : مصری سپاہی جنگ رمضان میں نہر سویز عبور کرتے اور اسرائیلی مورچوں (Bar۔Lev line)کو کی پانی کے بلند فشار کے نل سے روندتے ہوئے۔
اکتوبر 24–6, 1973ء
جنگ یوم کپور: مصر اور شام نے دیگرعرب قوموں کی مہم جو فوجوں کے ساتھ ملکر اسرائیل پر یوم کپور کے دن حملہ کیا، ابتدائی حملوں کو پسپا کرنے کے بعداسرائیل نے کھوئے ہوئے علاقے واپس لیے اور مصر و شام میں پیش قدمی کی –بالاخر اوپیک نے تیل کی پیداوار میں کمی کی جس سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ اورعالمی اقتصادی بحران پیدا ہوا۔
1975ء
صدر جیرالڈ فورڈ نے جیکسن وانیک ترمیم سمیت قانون سازی پر دستخط کیے، جس نے کہ امریکی تجارتی مفادات کو سویت یونین و دیگر کمیونسٹ ممالک سے سے یہود کی ہجرت و انخلا سے جوڑا۔
اقوام متحدہ نے ایک قرارداد منظور کی جس کے مطابق صہیونیت کو نسل پرستی سے جوڑا جو بعد ازاں 1991ء میں منسوخ کی گئی۔
1976ء
اسرائیل نے انٹیبے ، یوگانڈا لیجائے گئے یرغمالیوں کو چھڑوا کر آزاد کرایا۔
18 ستمبر, 1978ء
کیمپ ڈیوڈ نزد واشنگٹن ڈی سی میں اسرائیل اور مصر نے ایک جامع معاہدہ پر دستخط کیا جسے کیمپ ڈیوڈ سمجھوتہ کہا گیا، جس میں اسرائیل کے صحرائے جزیرہ نما سینا سے انخلاء کی شق بھی شامل تھی۔
1978ء
اسرائیلی وزیر اعظم مناکھیم بیگن اور مصری صدر انور سادات ، ستمبر 1978ء کیمپ ڈیوڈ میں ہاتھ ملاتے ہوئے ، عقب میں امریکی صدر جمی کارٹر کھڑے ہیں
یدیش زبا ن کے امریکی  ادیب و لکھار ی آئزک بشویس سنگر کو نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا۔
1979ء
اسرائیلی وزیر اعظم مناخم بیگن اور مصری صدر انور سادات کو نوبل امن انعام سے نوازا گیا.
1983ء–1979ء
آپریشن الیہ:حبشی یہود کو چھڑوایا گیا۔
جون۔ دسمبر ,1982ء
1982ء کی جنگ لبنان :  اسرائیل نے جنوبی لبنان پر حملہ کر دیا   تاکہ تنظیم آزادی فلسطین کو وہاں سے نکالا جاسکے۔
1983ء
امریکی اصلاحی یہودیت نے باقاعدہ پدری نسب کو تسلیم کیا ، جس سے'یہودی کون ہے' کی نئی تعریف تخلیق ہوئی۔
1985ء–1984ء
آپریشن موسی، یوشع: اسرائیل نے حبشی یہود کو چھڑوایا۔[47]


1986ء
امریکی یہودی ادیب ایلی ویزل کو نوبل امن انعام دیا گیا
سویت نژاد اسرائیلی سیاست دان ، انسانی حقوق کاسرگرم کارکن نیتھن شارنسکی کو جیل سے رہائی ملی۔
1987ء
اسرائیل مخالف انتفاضہ اول کا آغازہوا۔
1989ء
مشرقی اور مغربی جرمنی کے درمیان دیوار برلن ڈھا دی گئی مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ حکومت ختم ہوئی اور  جرمن اتحاد مکرر کا آغاز ہوا ، جو باقاعدہ اکتوبر َ1990ء کو ہوا۔ اسرائیلی وزیر اعظم  اسحاق شامیر کو اندیشہ تھا کہ
جس ملک نے یہود کی نسل کشی کی کوشش کی وہ اتحاد مکرر سے دوبارہ یہی کر سکتا ہے

کھلے عام اس اتحاد مکررکی مخالفت  صرف اسرائیل نے کی ، اگرچہ یورپی ممالک اور نیٹو نجی اور خانگی مخالفت کرتے رہے۔[48]

1990ء
سویت یونین نے تیس لاکھ سویت یہود کے لیے اپنے حدود کو کھول دئے،علیہ کے تحت بہت سے یہود نے وہاں سے اسرائیل اور امریکا ہجرت کی۔
1991ء–1990ء
25مئی 1991ء ، آپریشن سلیمان کے بعد اسرائیلی فضائی قوت کی کسی ایئر بیس پر جبشی یہود ہرکولیس جہاز سے نکل کر بسوں کی طرف جاتے ہوئے ہوئے۔
عراق نے کویت پرحملہ کر دیا جس سے عراق اور کویت مع امریکا میں جنگ چھڑ گئی اور امریکی اتحادی  اسرائیل پر عراق نے 39 سکڈ میزائل داغے۔
1991ء
آپریشن سلیمان: 24 گھنٹوں پر محیط فضائی انتقال میں بچے کچھے حبشی یہود کو حبشہ سے منتقل کیا گیا۔
30 اکتوبر, 1991ء
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان میڈرڈ امن کانفرنس ہسپانیہ میں شروع ہوئی، جس میں  ہسپانیہ میزبان جبکہ سویت اتحاد اور متحدہ امریکا شریک معاون تھے۔
22 اپریل, 1993ء
1993ءمیں اسحاق رابین اور یاسر عرفات اوسلو معاہدےپر دستخط کے موقع پر ہاتھ ملاتے ہوئے ،عقب میں امریکی صدر بل کلنٹن کھڑے ہیں ۔
ریاستہائے متحدہ امریکا کا مرگ انبوہ یادگاری عجائب گھر منوسب کیا گیا۔
13 ستمبر, 1993ء
اسرائیل اور تنظیم آزادی فلسطین نے اوسلو معاہدے پر دستخط کیے۔
1994ء
لوباؤچر (چبعد)فرقے کا راہب ،مناکھیم مینڈل شنیرسن کا انتقال ہوا۔
26 اکتوبر, 1994ء
اسرائیل اور اردن نے باقاعدہ امن معاہدے پر دستخط کیے۔اسرائیل نے متنازع زمین کا کچھ حصہ اردن کو تفویض کیااور ان ممالک نے کھلی سرحدوں اور آزادانہ تجارت سمیت سفارتی تعلقات قائم کیے۔
10 دسمبر, 1994ء
اسحاق رابیناوریاسر عرفات کیساتھاسرائیلی وزیر خارجہ شمعون پیریز کو ایک  ہی نوبل امن انعام دیا گیا۔[49]
4 نومبر, 1995ء
اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابین کو قتل کیا گیا ۔
1996ء
شمعون پیریز نے بنیامین نیتن یاہو کی لوکیڈ پارٹی سے شکست کھائی۔
1999ء
ایہود باراک بطور اسرائیلی یوزیراعظم چنے گئے۔

اکیسویں صدی

[ترمیم]
24 مئی, 2000ء
اسرائیل نے یکطرفہ طور پر اس کی بقیہ فوجیں جنوبی لبنانی جنگی علاقے سے نکال لیں اور اقوام متحدہ کی قرارداد 425 پرمکمل  عمل درآمد کیا۔
جولائی 2000ء
کیمپ ڈیوڈ اجلاس ہوا۔.[50]


موسم گرما 2000ء
جوزف لیبرمین
سنیٹر جوزف لیبر مین پہلا امریکی یہودی جو کسی قومی دفتر ( نائب صدر ریاستہائے متحدہ امریکا)کے لیے کسی بڑی امریکی سیاسی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے نامزد ہوا۔
29 ستمبر, 2000ء
الاقصی انتفادہ کا آغاز ہوا۔
2001ء
آرئیل شارون کو وزیر اعظم منتخب کیا گیا
ترک یہود نے ترکی میں یہودی عجائب گھر قائم کیا
2004ء
ٹیکنیون کے اورام ہرشکو اور ہارون چیکونور نے نوبل انعام برائے کیمیا جیتا۔
خود مختار یہودی اوبلاست(روسی صوبہ) نے اپنا پہلا کنیسہ بنایا،بیروبدضہان کنیسہ، جو یہودی شریعت(ہلاخاہ)کے عین مطابق تھا،[51]
افریقی عبرانی اسرائیلی برادری کے اوریاھو بٹلر پہلے رکن تھے جو اسرائیلی فوج میں شامل ہوئے۔
31 مارچ, 2005ء
بنی مناشے لوگ اسرائیل پہنچنے کے بعد
اسرائیلی حکومت نے شمال مشرقی بھارت کے بنی مناشے لوگوں کو باقاعدہ دس گمشدہ قبائل میں سے تسلیم کیا،جس سے ہزاروں لوگوں کے اسرائیل ہجرت کا دروازہ کھلا۔
اگست 2005ء
حکومت اسرائیل نے غزہ کی پٹی سے اپنی عسکری فوجیں اور نو آبادلوگ واپس بلائے۔
دسمبر 2005ء
آرئیل شارون قومہ میں گئے جبکہ نائب وزیر اعظم ایہود المرٹ قائم مقام  وزیر اعظم منتخب ہوئے۔
مارچ 2006ء
ایہود المرٹ نے کدیمہ پارٹی کو اسرائیلی انتخابات میں فتح دلا کر وزیر اعظم کی کرسی سنبھالی۔
نہل بریگیڈ سے اسرائیلی فوجی لبنان سے انخلا کرتے ہوئے
جولائی تا اگست 2006ء
حزب اللہ کے سرحد پار حملے کے بعد، 12 جولائی کو لبنان اور شمالی اسرائیل کے مابین عسکری تنازعہ شروع ہوا، 34 دن کی لڑائی اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 کی منظوری پر ختم ہوئی، جس میں 159اسرائیلی قتل اور تقریباْ 2000 لبنانی شہید ہوئے،جبکہ بہت سے شہری املاک کو بھی سخت نقصان پہنچا۔
دسمبر 2008ء
غزہ کی پٹی میں حماس کے خلاف اسرائیلی فوج نے سیسہ ڈھالو آپریشن(2008ء۔2009ء) شروع کیا۔
مارچ 2009ء
بنیامین نیتن یاہو لوکیڈ پارٹی کے چیرمین اور اسرائیلی وزیراعظم منتخب ہوئے۔
جنوری 2014ء
یروشلم میں واقع نئے امریکی سفارتخانہ کی منتقلی کے موقع پر امریکی صدر ٹرمپ کے حق میں آویزاں بینر
آرئیل شارون کا انتقال تیز تر صحت کی خرابی اور 8 سال قومہ میں رهنے کے بعد ہوا۔
دسمبر 2017ء
ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے کا باقاعدہ اعلان کرکے یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کیا ۔
مارچ 2019ء
امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے سطح مرتفع گولان پراسرائیلی عملداری تسلیم کرکے ریاستہائے متحدہ امریکا کو اس علاقے پرصہیونی خود مختاری تسلیم کرنے والادنیاکاپہلاملک بنایا[52] ۔

اگست 2020ء

متحدہ عرب امارت اور اسرئیل نے امن معاہدے پر دستخط کیے.[53]

7اکتوبر 2023ء

[ترمیم]

یہ دن ہولوکاسٹ کے بعد یہود و سرائیل کی تاریخ کا سب سے مہلک دن سمجھا جانے والا دن ،جب 7 اکتوبر 2023 ءکو اسرائیل پر حماس کے حملے میں 1,390 افراد مارے گئے۔[54]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. Mladen Popovi? (2011-01-01)۔ The Jewish Revolt Against Rome: Interdisciplinary Perspectives (بزبان انگریزی)۔ BRILL۔ ISBN 9004216685۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 جولا‎ئی 2018 
  2. Torah آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ shamash.org (Error: unknown archive URL) (Shamash.org)
  3. The Iggeres of Rav Sherira Gaon (ed. Nosson Dovid Rabinowich)، Jerusalem 1988, p. 98
  4. Israel Joseph Benjamin (1975)۔ Three Years in America, 1859–1862۔ Arno Press۔ صفحہ: 59–60۔ ISBN 978-0-405-06693-1۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 جولا‎ئی 2018 
  5. James Massey، I.S.P.C.K. (Organization) (1996)۔ Roots of Dalit history, Christianity, theology, and spirituality۔ ISPCK۔ صفحہ: 28۔ ISBN 978-81-7214-034-2۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 جولا‎ئی 2018 
  6. Bernard Lewis, The Crisis of Islam (London, 2003)، p. XXVII
  7. ^ ا ب Peterson, Muhammad: the prophet of God، p. 125-127.
  8. ^ ا ب Ramadan, In the Footsteps of the Prophet، p. 140f.
  9. Hodgson, The Venture of Islam، vol. 1, p. 191.
  10. ^ ا ب Brown, A New Introduction to Islam، p. 81.
  11. Lings, Muhammad: His Life Based on the Earliest Sources، p. 229-233.
  12. George F. Nafziger، Mark W. Walton (2003)۔ Islam at War: A History۔ Greenwood Publishing Group۔ صفحہ: 230۔ ISBN 978-0-275-98101-3۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اگست 2018 
  13. Granada by Richard Gottheil, Meyer Kayserling، Jewish Encyclopedia۔ 1906 ed.
  14. "Jewish History 1090–1099"۔ www.jewishhistory.org.il۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2017 
  15. Scharfstein and Gelabert, 1997, p. 145.
  16. Rossoff, 2001, p. 6.
  17. Gedaliah Ibn Yechia، Shalshelet Ha-Kabbalah
  18. ʻAlī ibn ʻAbd Allāh Ibn Abī Zarʻ al-Fāsī، Ṣāliḥ ibn ʻAbd al-Ḥalīm al-Gharnāṭī (23 نومبر 1860)۔ "Roudh el-Kartas: Histoire des souverains du Maghreb (Espagne et Maroc) et annales de la ville de Fès"۔ Impr. impériale۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اگست 2018 
  19. Fred Skolnik، Michael Berenbaum (2007)۔ Encyclopaedia Judaica: Ba-Blo۔ Granite Hill Publishers۔ صفحہ: 733۔ ISBN 978-0-02-865931-2۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اگست 2018 
  20. Diana Gitig (23 ستمبر 2014)۔ "Ashkenazi Jewish population has distinctive, yet similar genomes"۔ Ars Technica۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اگست 2018 
  21. Abraham Zacuto، Sefer Yuchasin، Cracow 1580 (q.v. Sefer Yuchasin، electronic page 265 (in PDF) (Hebrew)۔
  22. "Archived copy"۔ 29 جنوری 1999 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جون 2005 
  23. Joan Peters (1985)۔ From time immemorial: the origins of the Arab-Jewish conflict over Palestine۔ JKAP Publications۔ صفحہ: 178۔ ISBN 978-0-9636242-0-8۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 ستمبر 2018 
  24. ^ ا ب Morgenstern, Arie. "Dispersion and Longing for Zion, 1240–1840"۔ Azure. "Archived copy"۔ 11 اکتوبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 فروری 2008 
  25. Encyclopedia Judaica، vol. 9, pp. 514. Gershon of Kitov
  26. "Declaring Independence: Drafting the Documents"۔ 30 جون 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2017 
  27. ^ ا ب David P. Dolan (1991)۔ Holy war for the promised land: Israel's struggle to survive۔ Thomas Nelson Incorporated۔ صفحہ: 60۔ ISBN 978-0-8407-3325-2۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 ستمبر 2018 
  28. "Archived copy"۔ 01 اکتوبر 2002 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2002 
  29. "The Pale of Settlement"۔ 1 دسمبر 2002 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2017 
  30. "Archived copy"۔ 02 دسمبر 2002 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2002 
  31. Hastening Redemption: Messianism and the Resettlement of the Land of Israel, Arie Morgenstern, Oxford University Press, 2007
  32. Changes in the Position of the Jewish Communities of Palestine and Syria in the Mid-Nineteenth Century, by Moshe Maoz, Studies on Palestine During the Ottoman Period, Jerusalem, Israel, 1975, pp. 147–148
  33. "Palestine Events in History at BrainyHistory.com"۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2017 
  34. "Palestinian History"۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2017 
  35. A descriptive geography and brief historical sketch of Palestine by Joseph Schwarz, translated by Isaac Leeser, published by A. Hart, 1850, p. 399 [1] [2] آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ utom.org (Error: unknown archive URL)
  36. "History of the Jews in Hebron"۔ www.jewish-history.com۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2017 
  37. "Hebrew Union College—Jewish Institute of Religion"۔ 02 فروری 2002 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2017 
  38. "Aliyah"۔ 15 ستمبر 2000 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2017 
  39. "Balfour Declaration"۔ 04 جولا‎ئی 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2017 
  40. "Dubova"۔ jewua.org۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مارچ 2018 
  41. Rabbi Gershon Tannenbaum (7 April 2009)۔ "Radomsker Rebbe's Yahrzeit"۔ The Jewish Press۔ 15 جون 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جنوری 2012 
  42. Klapheck, Elisa۔ "Regina Jonas 1902–1944"۔ Jewish Women's Archive۔ 29 مارچ 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 اپریل 2011 
  43. "آرکائیو کاپی"۔ 14 جولا‎ئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جنوری 2021 
  44. "Jewish Reconstructionist Federation - JRF"۔ 08 مئی 1999 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2017 
  45. "About the Klezmer Revival"۔ Well.com۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2018 
  46. Blau, Eleanor. "1st Woman Rabbi in U.S. Ordained; She May Be Only the Second in History of Judaism", نیو یارک ٹائمز, June 4, 1972. Retrieved September 17, 2009. "Sally J. Priesand was ordained at the Isaac M. Wise Temple here today, becoming the first woman rabbi in this country and it is believed, the second in the history of Judaism."
  47. "The Zionist Century - Concepts - Aliyah"۔ 15 ستمبر 2000 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2017 
  48. Klaus Wiegrefe (29 September 2010)۔ "An Inside Look at the Reunification Negotiations"۔ Der Spiegel۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اکتوبر 2010 
  49. [3]
  50. "The 2000 Camp David Summit"۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2017 
  51. "FJC | News | Remote Russian Jews Get Synagogues"۔ fjc.ru۔ 2004-09-13۔ 29 ستمبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 جنوری 2018 
  52. "US President Donald Trump's decision to recognise Israeli sovereignty over the Golan Heights"۔ www.france24.com۔ (FRANCE 24 with AFP, REUTERS)۔ 25 مارچ 2019ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مارچ 2019ء 
  53. "Israel, UAE to normalize relations in shift in Mideast politics; West Bank annexations on hold"۔ روئٹرز۔ 13 August 2020 
  54. "Hamas attack 'deadliest day for Jews since the Holocaust', says Biden, as Israeli jets pound Gaza"۔ The Guardian۔ 12 October 2023۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اکتوبر 2023