اسلام میں طلاق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

طلاق کا لفظی معنی ترک کرنا یا چھوڑ دینا ہے، اسلامی فقہ میں اس سے مراد 2 گواہوں کی موجودگی میں اپنی بیوی (منکوحہ) کو قید نکاح سے آزاد کرنے کا اعلان کرنا ہے، عام ازدواجی زندگی کی اصطلاحات میں بھی اس سے مراد میاں بیوی کے نکاح کی تنسیخ ہے۔

طلاق کی اقسام[ترمیم]

طلاق کے حوالے سے مختلف علما نے اس کی مختلف اقسام بیان کی ہیں۔ محمد اکبر [1] کے مطابق اس کی 6 درج ذیل اقسام ہیں۔

  1. طلاق بائن
  2. طلاق مغلظہ
  3. طلاق رجعی
  4. طلاق غیرموثر
  5. طلاق موثر
  6. طلاق مغلظہ کبیرہ

اہل تشیع کے نزدیک طلاق[ترمیم]

اہل تشیع میں طلاق دینا ایک انتہائی قبیح کام سمجھا جاتا ہے۔ اس کی اقسام کچھ مختلف ہیں۔ اہل تشیع میں طلاق کی کئی تقسیم بندیاں ہیں۔ [حوالہ درکار]

طلاق کا بیان[ترمیم]

زوجہ کو زوجیت سے خارج کرنے کا نام طلاق ہے۔ اور چونکہ طلاق بڑا سخت معاملہ ہے۔ لہذا نہایت اچھی طرح اور ٹھنڈے دل سے سوچ سمجھ کر طلاق کا اقدام کیا جائے۔ پاک دامن عورت کے طلاق پرعرش الہی کانپ اٹھتا ہے۔ اور خداوند عالم کے نزدیک حلال امور میں طلاق سے زیادہ ناگوار کوئی چیز نہیں ہے جب زن و شوہر کی نااتفاقی و ناچاقی بالکل اصلاح کے قابل نہ رہے۔ اور بجز علیحدگی کے اور کوئی چارہ کار نہ ہو تو طلاق ضروری ہو جاتی ہے۔ اور خصوصا جب کہ عورت اپنی علیحدگی کے لیے جائز خواہش بھی رکھتی ہو تو شوہر کا طلاق پر آمادہ نہ ہونا ظلم عظیم اور عورت کے لیے بڑی مصیبت ہے۔[2]

شرائط طلاق[ترمیم]

  • دو عادل افراد کے سامنے طلاق کے صیغے طلاق دینے کے لیے جاری کرے۔
  • صرف عربی زبان میں طلاق دی جا سکتی ہے۔
  • طلاق صرف اور صرف “طالق“ کے لفظ سے دی جا سکتی ہے۔
  • اختیار اور ارادے کے ساتھ اپنے فیصلے سے طلاق دے۔
  • عورت کی پاکی کی حالت میں طلاق دے۔
  • عورت کے ساتھ اس پاکی میں اس کے ساتھ ہمبستری نہ کی ہو۔ [حوالہ درکار]

پہلی تقسیم بندی[ترمیم]

  • طلاق رجعی

رجعی طلاق وہ ہے جس میں عدت ہوتی ہے اور عدت کے دوران شوہر اپنی طلاق کو کالعدم قرار دے کر رجوع کر سکتا ہے۔

  • طلاق بائن اس میں شوہر کو حق رجوع نہیں ہوتا۔ اس کی کئی صورتیں ہیں۔

حوالہ جات[ترمیم]