دولت فاطمیہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(فاطمیوں سے رجوع مکرر)
دولت فاطمیہ
الدولة الفاطمية
8 دسمبر 909ء13 ستمبر 1171ء
پرچم دولت فاطمیہ
مقام دولت فاطمیہ
دارالحکومت
عمومی زبانیںعربی (سرکاری)
مذہب
اسماعیلی اہل تشیع
حکومتخلافت بحیثیتِ امامت
خلیفہ 
• 8 دسمبر 909ء—934 (پہلا حکمران)
عبیداللہ مہدی
• 23 جولائی 1160ء13 ستمبر 1171ء (آخری حکمران)
العاضد
تاریخی دورابتدائی قرونِ وسطیٰ
• 
8 دسمبر 909ء
• قاہرہ کا قیام
8 اگست 969ء
• 
13 ستمبر 1171ء
رقبہ
969[1]4,100,000 کلومیٹر2 (1,600,000 مربع میل)
آبادی
• 
6,200,000
کرنسیدینار
ماقبل
مابعد
خلافت عباسیہ
خاندان اغلب
ولایت اخشید
امارت تیارت
ایوبی سلطنت
اوتریمیر
امارت صقلیہ
امارتِ زیریہ
امارتِ حمادیہ
موجودہ حصہ

دولتِ فاطمیہ یا سلطنت فاطمیہ یا خلافت فاطمیہ خلافت عباسیہ کے خاتمے کے بعد 297ھ میں شمالی افریقا کے شہر قیروان میں قائم ہوئی۔ اس سلطنت کا بانی عبیداللہ مہدی چونکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کی اولاد میں سے تھا (بعض محققین کو اس سے اختلاف ہے) اس لیے اسے سلطنت فاطمیہ کہا جاتا ہے۔ عبید اللہ تاریخ میں مہدی کے لقب سے مشہور ہے۔

اسماعیلی حکومت[ترمیم]

خلافت فاطمیہ کی حدود اپنے عروج کے زمانے

امام جعفر صادق کے بڑے لڑکے اسمعیل سے یہ فرقہ منسوب ہے ان کے مطابق اسمعیل کی وفات 133ھ میں وفات ہوئی تھی اور انھوں نے اپنے بیٹے محمد پر نص کیا تھا اور امام محمد کے بعد تین ائمہ عبد اللہ، احمد اور حسین ہوئے۔ یہ تینوں مستورین کہلاتے تھے۔ یعنی یہ بہت پوشیدہ زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کے خاص خاص نقیبوں کے علاوہ ان کا پتہ کسی کو نہیں معلوم ہوتا تھا۔ ان کے ناموں میں بھی اختلاف پایا جاتا تھا۔ حسین نے عسکر مکرم میں 268ھ میں وفات پائی۔ اس نے اپنی وفات سے پہلے اپنے بیٹے عبد اللہ مہدی کو نص کیا۔ جو مہدی نام سے 297ھ مغرب افریقا) میں ظاہر ہوا۔ بالاالذکر ہوا ہے کہ ان کے ناموں میں بہت اختلاف ہے اور مختلف تاریخوں میں اس کی تفصیل کچھ یوں درج ہے۔

ابن خلکان کی روایت استتارا لامام عیون الاخبار مقرریزی/ابن خلدون ابن اثیر ابن خلکان کی دوسری روایت مقریزی/ابن ندیم ابو الفدا رسائل دروزیہ
جعفر الصادق جعفر الصادق جعفر الصادق جعفر الصادق جعفر الصادق میمنون القداح میمنون القداح جعفر الصادق اسمعیل
اسمعیل اسمعیل اسمعیل اسمعیل اسمعیل عبد اللہ عبد اللہ اسمعیل محمد ( المکتوم )
محمد ( المکتوم ) محمد ( المکتوم ) محمد (المکتوم ) محمد ( المکتوم ) محمد ( المکتوم ) محمد احمد محمد ( المکتوم ) اسمعیل ( الثانی )
عبد اللہ ( الراضی ) عبد اللہ عبد اللہ ( الراضی ) جعفر ( الصادق ) اسمعیل ( ثانی ) احمد الحسین میمون محمد
احمد ( الوفی ) احمد احمد ( الوفی ) محمد (المجیب ) احمد الحسین سعید ( عبیداللہ المہدی ) عبد اللہ احمد
الحسین ( التقی ) الحسین الحسین ( التقی ) عبید اللہ ( المہدی ) عبیداللہ ( مہدی ) سعید ( عبیداللہ المہدی ) ۔۔ محمد عبد اللہ
عبید اللہ ( المہدی ) عبد اللہ ( المہدی ) عبد اللہ ( المہدی ) ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ عبید اللہ ( المہدی ) محمد
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ الحسین
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ احمد ( یا عبد اللہ )
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ عبید اللہ ( المہدی )

فاطمین کا نسب[ترمیم]

ان شجروں میں اختلاف یہ ہے کہ یہ ائمہ اپنے کو چھپایا کرتے تھے، یہاں تک بقول ابن خلدون محمد بن اسمعیل کا نام محمد مکتوم پڑ گیا۔ ائمہ مستورین کے داعی بھی اپنا نام بتانے میں بہت احتیاط کرتے تھے۔

اکثر مورخین نے مہدی کو عبد اللہ بن میمون قدح کی طرف منسوب کیا ہے۔ میمون ایران کا باشندہ تھا اور مختلف ادیان و مذاہب کے اصول سے خوب واقف تھا۔ یہ اپنے مریدوں سے محمد بن اسمعیل کا بیعت لیتا تھا۔۔ اسمعیلی روایت کے مطابق اسمعیل کے انتقال کے بعد جب محمد ان کے جانشین ہوئے تو ان کو جعفر صادق نے چھپا دیا اور عوام میں موسیٰ کاظم کو ان کا حجاب یا مستودع (یعنی ظاہری نائب) بنادیا۔ چونکہ میمون دعوت باطنہ کا صدر تھا، لہذا عام لوگوں نے سمجھ لیا کہ مہدی میمون کی اولاد میں سے ہے۔ مختصر یہ ہے کہ اس طرح دو سلسلے قائم ہو گئے۔ ایک سلسلہ اماموں کا دوسرا کفیلوں کا ہے۔ اسمعلیوں کی روایت کے مطابق امام اور کفیل کی ترتیب اس طرح ہے۔

امام
محمد بن اسمعیل بن صادق
عبد اللہ
احمد
حسین
المہدی

فاطمین حضرت فاطمہ کی نسل سے ہیں یا نہیں اس بارے میں مورخین میں اختلاف ہے۔ صرف ابن خلدون اور مقریزی اس بارے میں متفق ہیں کہ یہ فاطمی نسب ہیں۔ خود فاطمین یا ان کے داعیوں نے اثبات نسب میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ معتدد دفعہ ظہور کے زمانے میں نسب کا سوال اٹھایا گیا، لیکن کسی امام نے اس کا جواب نہیں دیا۔ معز سے مصر میں کسی نہ یہ سوال کیا کہ آپ کا نسب کیا ہے۔ اس جواب میں معز نے ایک جلسے میں تلوار اپنی میان سے نکال کر کہا کہ یہ میرا نسب ہے اور پھر سونا حاصرین پر اچھالتے ہوئے کہا کہ یہ میرا حسب۔ اس زمانے میں جو خطبہ پڑھا جاتا تھا اس میں بھی ائمہ مستورین کی جگہ ممتخنین یا مستضعفین جیسے الفاظ پڑھا کرتے تھے۔ زمانہ ظہور کے داعیوں نے بھی اس کی طرف توجہ نہیں دی۔ جب بھی ان کے نسب کا سوال اٹھایا گیا تو انھوں نے خاموشی اختیار کرلی۔ ان کی مشہور دعا ’ دعائم اسلام ‘ جو ہر نماز میں پڑھی جاتی ہے اس میں بھی کسی امام مستور کا ذکر نہیں پایا جاتا ہے

مشرق میں دعوت اسمعیلیہ کی ناکامی[ترمیم]

علویوں نے سرتوڑ کوششیں کیں، لیکن ان کی تحریکوں کا عباسیوں نے کامیاب نہیں ہونے دیا۔ اسعیلیوں کی تحریک جو نہایت خفیہ تھی مگر انہٰں کامیابی نہیں ہوئی۔ ان کے اماموں کو مستور ہونا پرا۔ یہی وجہ انھوں نے اس کے لیے مغرب ( افریقہ ) کا انتخاب کیا اور وہاں انھوں نے غیر متوقہ کامیابی حاصل کی۔

ابو عبد اللہ شیعی[ترمیم]

دولت فاطمہ کا ظہور رقادّہ ( افریقہ ) میں ہواتھا۔ اس کی ابتدا یوں ہوئی کہ ایک شیعی داعی ابو عبد اللہ شیعی 280ھ یمن سے میں مغرب پہنچا اور اس نے جلد بربروں کے ایک بڑے قبیلے کتامہ کو اہل بیت کی دعوت کا حامی بنالیا۔ جب ابو عبد اللہ کی طاقت بڑھی تو مغرب کے عمال کو نکلوانے کی کوشش کی۔ کئی شکستوں کے بعد عبد اللہ تاہرت پر قبضہ کر لیا اور رفتہ رفتہ اس نے اپنی طاقت بڑھائی اور اس نے اغلبی خاندان کو سولہ سال کی جہد کے بعد شکست دے کر پورے مغرب پر قبضہ کر لیا۔ اس فتح کی خبر اس نے اپنے آقا مہدی کو دی جو اس وقت سلیمہ میں تھا۔

ابو عبد اللہ نے دیکھا کہ مہدی نے تمام انتظامات خود سنبھال لیے اور اس کا حکومت میں کوئی دخل نہیں رہا تو اس نے مہدی کی مخالفت شروع اور اس کے افعال پر نکتہ چینی کرنے لگا اور اس وجہ سے کئی کتامی سردار بھی مہدی سے برگشتہ ہو گئے اور کھلم کھلا مہدی کی مخالفت شروع کردی۔ یہی وجہ ہے مہدی نے مناسب سمجھا کہ ابو عبد اللہ قتل کر دیا جائے۔ اس کا انجام بھی ابومسلم کی طرح جس نے عباسیوں کی خلافت کی بنیاد ڈالی تھی قتل کر دیا گیا۔

ابتدا[ترمیم]

ابو محمد عبد اللہ المہدی باللہ 297 ھ تا 322 ھ[ترمیم]

مہدی سلمیہ مغرب کی طرف روانہ ہوا اور چھپتے چھپاتے مغرب پہنچا 296ھ اور سجلماسہ پر پہنچ کر قید ہو گیا۔ جہاں سے ابو عبد اللہ نے قید خانے سے رہا کرا کر اس کی بیعت کی اور پھر سب لوگوں نے مہدی کی بیعت کی۔ اس کے بعد مہدی ابو عبد اللہ کے ساتھ رقادہ پہنچا۔ اس نے ہر شہر میں والی مقرر کیا اور تمام شہروں میں اسمعیلی داعی بھیجے گئے، جس نے انکار کیا اس کو قتل کر دیا گیا۔ مگر مہدی نے بعد میں مذہبی آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔

فاطمین نے جب اغلبی علاقے فتح کیا تو صقیلہ بھی اس کے قبضہ میں آ گیا۔ اس کے علاوہ مہدی نے بازنطینیوں سے معاہدہ کیا تاکہ ساحلی علاقوں حفاظت ہو سکے۔ اس طرح اسمعیلی داعیوں نے اندلس میں بھی اسماععیلیت کو پھیلانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ مہدی کے حکمت سنبھالنے کے چار سال کے بعد 301ھ میں مصر پر حملہ اس کے بیٹے کی سرکردگی میں کیا گیا لیکن اسے ناکامیابی کا سامنہ کرنا پڑا۔ اس کے بعد ایک مہم 306ھ میں مصر کی فتح کے لیے روانہ کی گئی لیکن وہ بھی پہلی مہم کی طرح ناکام رہی۔ البتہ انھیں بنی ادارسہ یا بنی ادریس جن کی حکومت فاس ( مغرب اقصی ) میں تھی کہ خلاف مہم کامیاب رہی اور ان کو مغرب سے نکال دیا گیا۔ یہ لوگ عمارہ ( اندلس ) چلے گئے اور وہاں بنی امیہ کے زوال کے بعد بنو حماد کے نام سے اپنے ریاست قائم کر لی تھی۔ اس کے علاوہ مہدی نے خارجیوں کے خلاف کارروائی کی اور ان کو شکست دی۔ اس کے علاوہ محمدیہ اور مہدیہ نامی دو نئے شہر آباد کیے۔ مہدی نے پچیس سال حکومت کرنے کے بعد 322ھ میں انتقال کیا۔

ابو القاسم محمد القائم بامراللہ 322 ھ تا 334 ھ[ترمیم]

مہدی کے انتقال کے اس کا بیٹا ابو القاسم محمد امام تھا اور اس نے قائم بااللہ کا لقب اختیار کیا۔ اس کواپنے باپ کی موت کا سخت صدمہ ہوا اور اس نے باقی ماندہ زندگی میں صرف دو دفعہ وہ سوار ہو کر محل سے نکلا۔ اس کے دور میں فاطمین نے رومی علاقوں پر حملے کیے، جنوہ اور دوسرے شہروں میں لوٹ مار کی۔ بلاد مغرب کے جو علاقہ فتح نہیں ہوئے تھے ان کی طرف قائم نے توجہ دی اور فاس تک کے تمام شہر فتح کر لیے۔ اس کی دور میں مصر پر323ھ حملہ کیا اور وہ بھی ناکام رہا۔ قائم کے دور میں بغاوتیں ہوئیں مگر ناکام رہیں۔ مگر ان میں سب سے خطرناک بغاوت ابو یزید خارجی کی تھی۔ یہ زناتہ قبیلے سے تعلق رکھتا تھا اور لوگوں کو الناصر الدین اللہ ( خلیفہ اندلس ) کی دعوت دیتا تھا۔ اس کے اور قائم کے درمیان میں جو لڑائیاں ہوئیں ان میں اسے کامیابی ہوئی اور اس کا مغرب کے بیشتر شہروں پر قبضہ ہو گیا۔ یہاں تک کہ رقادہ اور قیران بھی ہاتھ سے نکل گیا اور قائم کو مہدیہ میں پناہ لینی پڑی۔ ابویزید نے مہدیہ کا محاصرہ کر لیا لیکن اس کو محاصرے سے دست بردار ہو کر قیران واپس جانا پڑا، اس کی وجہ یہ تھی کہ ابو یزید کی حامیوں میں پھوٹ پڑ گئی اور وہ آپس میں لڑنے لگے اور اس دوران میں ہی قائم کا انتقال ہو گیا۔ قائم ایک دلیر جنرل تھا، لیکن شیعی عقائد کے معاملے میں سخت تھا۔

ابو طاہر اسمعیل المنصور باللہ 334 ھ تا 341 ھ[ترمیم]

قائم کے بعد اس کا بیٹا ابو طاہر اسمعیل، المنصور باللہ کے لقب سے امام کے عہدے پر فائز ہوا۔ اس وقت ابو یزید کی بغاوت جاری تھی۔ فریقین میں کئی لڑائیاں ہوئیں، کبھی ایک فریق غالب آجاتا، کبھی دوسرا فریق۔ 335ھ میں منصور نے ایک بڑا لشکر تیار کیا جس نے غیر معمولی بہادری سے کام لیا اور ابو یزید کو شکست دی اور ابویزید کو اقصائے مغرب کی طرف فرار ہونا پڑا اور اس کی قوت بہت کم ہو گئی۔ کتامہ کے ساتھ لڑائی میں ابو یزید زخمی ہو گیا اور گرفتار ہو گیا۔ اس طرح یہ بغاوت اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ اس کے حمید بن بضلتین نے بغاوت کی لیکن یہ دبادی گئی۔ منصور سات سال حکومت کرنے کے بعد 341ھ میں وفات پائی۔

ابو تمیم معد المعز الدین اللہ 341 ھ تا 365 ھ[ترمیم]

منصور کے انتقال کے بعد اس بیٹا خلیفہ بنا۔ اس کا نام معد اور لقب معز الدین تھا۔ اس ملک میں استحکام پیدا کرنے کے لیے مختلف قبیلوں کے رئیسوں داد و دہش سے اپنی طرف راغب کیا۔ اس کے علاوہ اس نے 343ھ میں اندلس پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔ اس کے دور میں مغرب اقصی کے لوگوں نے بغاوت کی اور اکثر والیوں کا اخراج ہو گیا تھا۔ اس نے ان کے خلاف مہمیں راوانہ کیں اور یہ علاقہ دوبارہ زیر دست ہوئے۔

عروج[ترمیم]

335ھ میں مصر کے حکمران اخشید محمد بن طغج کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد ایک حبشی غلام کافور نے مصر پر بڑی دانائی سے حکومت کی اور اس کا دور مصر کا زریں دور تھا۔ 357ھ میں انتقال ہو گیا تو مصر میں امن و امان کی حالت بگڑ گئی اور رہی سہی کسر قحط نے پوری کردی۔ اس وقت مصر میں اسمعیلی داعی کام کر رہے تھے۔ ایسی صورت میں مصر میں ان کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا اور مصر کے بہت سے عہدے داروں نے منصور کو مصر فتح کرنے کی دعوت دی اور مصر کے حالات فاطمیوں کے حملہ لیے ساز گار ہو گئے تھے اور فاطمیوں کی مصر پر حملہ کرنے کی ہمت ہوئی۔ مصر پر حملے کے لیے منصور نے بھر پور تیاری کی اور ایک لشکر کی، ساز و سامان اور رسد کے علاوہ مصر کے راستہ میں کنوں اور سرائیں بنوائیں تاکہ اس کی فوج کو کسی قسم کی تکلیف یا پریشانی نہ ہو۔ 357ھ میں یہ لشکر قیران سے مصر روانہ ہوا اور اسکندریہ کا رخ کیا۔ یہ شہر بغیر کسی نقصان کے جوہر کے قبضہ میں آ گیا۔ اس کے بعدجوہر فسطاط روانہ ہوا اور معمولی مزاحمت کے بعد یہ شہر جوہر کے قبضہ میں آ گیا، بلکہ عمائدین شہر نے جوہر شاندار استقبال کیا، جوہر نے انھیں امان دے دی۔ جوہر نے اپنے امام کے حکم سے فسطاط کے باہر ایک نے ایک نئے شہر کی بنیاد ڈالی اور اس کا نام قاہرہ معزیہ رکھا۔ خطبہ میں عباسی خلیفہ کی جگہ فاطمی امام کا نام داخل کیا گیا۔ قاہرہ کی تعمیر کے بعد اس نے ایک جامع مسجد بنائی جس کا نام جامعہ ازہر رکھا گیا۔

اخشیدی خاندان کے قبضہ میں شام کے بہت سے شہر تھے، جہاں اخشیدی خاندان کے افراد احکومت کر رہے تھے۔ اس مصر کی فتح کے بعد جوہر نے اس کی طرف توجہ دی اور ان کی تسخیر کے لیے فوج بھیجی گئی، جس نے ان علاقوں فتح کرنے کے بعددمشق کو 359ھ میں فتح کر لیا۔ اس سال حب و حمص میں بھی بنو فاطمہ کا خطبہ پڑھا گیا۔ دمشق کی فتح سے قرامطہ کے مفادات پر ضرب پڑی تھی، کیوں کہ قرامطہ ہر سال ایک کثیر رقم اہل دمشق سے وصول کرتے تھے۔ حالانکہ قرامطہ اور فاطمیوں کے عقائد ایک جیسے تھے۔ مگر مفادات پر ضرب پرنے سے وہ فاطمین سے لڑنے پر تیار ہو گئے۔ اس پر عباسی خلیفہ المطیع باللہ نے ان کی مدد کی اور شام کے مقبوضات فاطمین سے چھین لیے گئے۔ اس کے بعد انھوں نے مصر پر حملہ کیا لیکن انھیں کامیابی نہیں ہوئی۔

مصر میں ایک بڑے بربری قبیلے زناتہ نے بغاوت کی مگر کامیاب نہیں ہوئی اور معز نے اسے دبادی گئی۔ 358ھ میں معز نے مصر جانے کا فیصلہ کر لیا اور چارسال بعد362ھ میں مصر پہنچا، کیوں کہ اسے مغرب کے انتظامات کرنے میں دیر ہو گئی تھی۔ مصر پہنچ کر وہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہا اور 365ھ میں اس کا 45 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔

ابو منصور نزار العزیز باللہ 365 ھ تا 386 ھ[ترمیم]

معز کی وفات کے بعد اس کا بیٹا نزار جس کی کنیت ابو منصور اور لقب عزیز باللہ تھا۔ بلاد مغرب کے اکثر والیوں نے بنو فاطمہ سے بغاوت کر کے اندلس کے اموی خلیفہ ہشام کی ماتحتی قبول کرلی۔ اس پر بلاد مغرب کے والی نے ان کے خلاف کارروائی کی اور بنو امیہ کے حامیوں کو اندلس کی جانب سے مدد نہیں پہنچنے کی وجہ سے انھیں شکست ہوئی۔ شام میں افتگین نے قوت پکڑ لی تھی اس کے خلاف معز نے کروائی کرنا چاہتا تھا لیکن موت نے اس کو مہلت نہیں دی۔ افتگین نے دمشق کے بعد شام کے ساحلی شہروں کو جو بنو فاطمہ کے قبضہ میں تھے، انھیں بھی فتح کرنے کی کوشش کی۔ جس پر عزیز نے جو ہر کو ایک لشکر کے ساتھ اس کے خلاف کارروائی کے لیے مقرر کیا۔ جوہر نے دمشق کا محاصرہ کر لیا۔ اس پر افتگین نے قرامطہ سے مدد طلب کی اور بحرین کے شہر الاحسار سے حسن قرمطی کو بلوا لیا۔ دمشقی اور قرمطہ کی مشترکہ فوج نے جب کارروائی کی تو جوہر کو پیچھے ہٹنا پڑا اور جوہر عسقلان تک ہٹنے پر مجبور ہو گیا۔ مجبوراً جوہر واپس ہو گیا۔ اب عزیز نے خود اس کے مقابلے میں گیا۔ لیکن عزیز کے حملے ان مشترکہ فوج کو شکست دینے میں ناکام رہے۔ عزیز افتگین سے صلح کرنا چاہتا تھا، لیکن حسن قرمطی اس کو صلح سے روکا، آخر عزیز کی فوجوں نے افتگین کے قلب پر حملہ کیا تو افتگین اور حسن قرمطی کے قدم اکھڑ گئے اور افتگین گرفتار ہو گیا۔ عزیز نے اس کے ساتھ اچھا سلوک کر دیا۔ عزیز کے دور میں شام کے علاقہ میںحلب کے والی لولو نے بغاوت بھی کردی، جب اس کے خلاف عزیز نے مہم بھیجی تو اس نے اپنی مدد کے لیے بازنطینینوں بلا لیا۔ بازنطیینوں نے اس وقت انطاکیہ پر قبضہ کر رکھا تھا اور انھیں ڈر تھا کے حلب کے بعد فاطمی انطاکیہ چھین لیں گے۔ اس لیے بسیل خود مدد کو آ گیا۔ فاطمی پیچھے ہٹ گئے اور عزیز خود ہی اس کے مقابلے کے روانہ ہوا لیکن راستہ میں اس کا انتقال ہو گیا۔ عزیز پہلا خلیفہ تھا جس نے فوج میں ترکوں کو شامل کرنے کی تباہ کن پالیسی اختیار کی، اس وجہ سے فاطمی حکومت کمزور ہوتی چلی گئی۔

ابو الحسین الحاکم بامراللہ 386 ھ تا 411 ھ[ترمیم]

عزیز کے بعد اس کا بیٹا ابو الحسین الحاکم بامراللہ امام و خلیفہ بنا۔ اس وقت اس کی عمر گیارہ سال پانچ ماہ تھی۔ اس کی کمسنی کی وجہ سے برجوان اور وزیر حسن عمار مملکت پر چھا گئے۔ حسن عمار کو یہ خوف ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو برجوان اور اس کی ترکی فوج کتامی فوج پر غلبہ حاصل کر لے۔ اس لیے حسن عمار نے برجوان کے اختیارت ختم دیدے۔ برجوان کے کا اقتدار صرف خلیفہ کے محل تک رہے گیا تھا۔ ان کے آپس کے جھگڑے سے مشارقہ ) ترکی فوج ( اور مغاربہ ) بربری کتامی فوج ( میں بھی لڑائیاں چھڑگئیں۔ برجوان نے شام کے ترک والیوں کے ساتھ مل کر سازش کی اور کتامی فوجوں کو ایسی شکست دی کہ وہ آئندہ سر نہیں اٹھا سکے اور حسن عمار کو بھی چند ترکوں نے قتل کر ڈالا۔ اس کے بعد برجوان نے حکم دیا کہ دمشق اور دوسرے شہروں کے کتامی والیوں نکال دیا جائے۔ اسے وجہ سے شام میں کتامی والیوں کو نکال دیا گیا، لیکن اس کا یہ نقصان ہوا کہ شام کے مختلف شہروں میں معمولی آدمیوں نے حکومتیں قائم کر لیں۔ ان کے خلاف کے لیے حبش کو بھیجا گیا اس نے شام میں باغیوں کو شکست دے کر فاطمی اقتدار کو دوبارہ استحکام بخشا۔ اس کے بعد حبش نے رومیوں کے خلاف کارروائی کی جو افامیہ تک بڑھ آئے تھے اور ان کو لڑائی میں شکست دی۔ یہ لڑائی 389ھ میں پیش آئی تھی۔ اس کے بعد برجوان نے قیصر بسیل سے مصالحت کرلی تاکہ مصر کے اندرونی مسائل کی طرف توجہ دے۔ اس کے بعد برجوان نے افریقا کے معمالات کی طرف توجہ دی۔ وہاں کی بغاوتوں کو کچلا۔ اس طرح برجوان کا اقتدار بہت بڑھ گیا اور وہ حاکم کو بھی خاطر میں نہیں لانے لگا اور حاکم سے بد سلوکی بھی کرنے لگا۔ ایک دن موقع سے فائدہ اٹھا کر حکم نے برجوان کو قتل کر وادیا۔ برجوان کے قتل سے ترکی فوج نے ہنگامہ برپا کر دیا۔ حاکم نے فوج سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’اے لوگوں ْ برجوان نے میرے خلاف شازش کی تھی اس لیے میں نے اسے قتل کروا دیا۔اس کے بعد اس حکومت اپنے ہاتھ میں لی۔

اس کے بعد حاکم سے عجیب و غریب افعال سرز ہونے لگے۔ جس کی وجہ سے اکثر مورخین نے اسے فاتر اثر اور مجنوں ٹہرایا۔ ان میں اس کا اکثر راتوں کو یہ سوار ہو کر نکلتا اور راتوں کا دربار لگانا، ، اس نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اپنا کاروبار رات ہی کو کرا کریں۔ دوکانیں رات کو کھلتی تھیں اور روشنی کی جاتی تھی۔ غرض رات دن سے بدل گئی۔ اکثر وہ باتیں جو راتوں کو در پردہ ہوا کرتی تھیں دن دہاڑے ہونے لگیں۔ لہو و لعب زیادہ ہونے لگا۔ جب تماشا دیکھنے کے لیے عوریں نکلنے لگیں تو ان کو روکنے کے لیے سخت احکامات صادر کیے گئے۔، تاکہ شام کے وقت وہ گھروں میں ہی رہیں۔ رات کے دربار کا سلسلہ 391ھ تا 393ھ تک یعنی تین سال تک برابر جاری رہا۔ اس کے بعد حاکم نے اسے باکل موقوف کر دیا اور یہ حکم دیا کہ رات کو کئی شخص نہیں نکلے۔ 393ھ میں حاکم نے بعض سبزیوں کے کھانے اور ان کی خرید و فروخت پر پابندی لگا دی اور ان کی خلاف ورزی پر سزا کا حکم جاری کیا۔ اس طرح اس نے بعض مچھلیوں پر پابندی لگا دی اور مچھروں سے عہد لیا کہ ان کو نہیں پکڑیں گے اور جس نے خلاف ورزی کی اس کی گردن ماری گئی۔ شراپ نویشی کو سختی سے روکا گیا انگور کی سیکڑوں بیلیں کاٹ دی گئیں، شہد کے پانچ ہزار مٹکے دریائے نیل میں بہادیے، قمار بازی پر پابندی لگادی گئی، شطرنج چوسر وغیرہ کے جتنے مہرے ملے انھیں آگ لگادی گئی۔ اس زمانے میں عورتیں بناؤسنگھار کر کے سڑکوں پر پھرتی تھیں، نیل کے کنارے سیر و تفریح کے جمع ہوتی تھیں، حاکم نے عورتوں کے باہر نکلنے پر سخت پابندی لگادی گئی اور ان پر یہاں تک پابندی لگائی گئی کہ وہ مکانات کے دریچوں سے سر باہر نکالیں۔ موچیوں کو ہدایت کی گئی کہ ان کے جوتے نہیں بنائیں۔ 395ھ میں ایک شوانہ ) مخزن ( کی تیاری کا حکم دیا، جس میں جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کی گئیں۔ لوگ خوف زدہ ہو گئے اور سب لوگ جمع ہوکر حاکم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حاکم سے معافی کی درخواست کی۔ اس پر حاکم نے سب کو امن دیا۔ جب حاکم نے سختی کی تو اہل سنت اور اہل کتاب میں بے چینی پھیل گئی۔ ابو رکوہ جیسے جاہل اور آوارہ شخص نے دولت فاطمیہ کے خلاف جھنڈا بلند کیا اور ہزاروں آدمی اس کے ساتھ ہو گئے، در پردہ حاکم کے عمال بھی اس سے مل گئے۔ جس سے اس کی قوت بہت بڑھ گئی اگر آخر میں شکست نہیں کھاتا تو یقینا دولت فاطمیہ کا خاتمہ ہو جاتا۔ اس لیے حاکم نے اہل سنت کے خلاف صادر کیے گئے احکامات 395ھ میں منسوخ کردیے اور انھیں خوش کرنے کے لیے ایک مالکی مدرسہ کھلوایا۔ اس کے بعد اس نے نظام حکومت میں بڑی تبدیلیاں کی اور اپنے بہت سے عمال کو برطرف یا قتل کروا دیا۔

390ھ میں دریائے نیل میں پانی کی کمی کی وجہ سے مصر کو قحط کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کی وجہ سے حاکم نے بہت سے محصول جو خاص طور پر امام کے طور پر اسے ملتے تھے وہ اس نے ختم کردیے۔ اس کے علاوہ مجالس الحکمتہ جو خاص طور پر اسمعیلیوں کے لیے منعقد کی جاتی تھی بند کروا دیں اور اس نے اذان میں ’ حی علی خیر العمل‘ کہنے کی ممانعت کردی گئی اور ’ اصلوٰۃ خیر من النوم ‘ کہنے کا حکم دیا۔ تاکہ رعایا کی بچینی کم کی جاسکے۔ مگر 403ھ میں حاکم نے ان احکامات کو منسوخ کر دیا۔ 403ھ میں مکہ میں حاکم کا خطبہ پڑھا گیا مگر حلب ہاتھ سے نکل گیا۔

حاکم نے اپنے اپنے وزیروں، قاضیوں اور خدمت گاروں کو قتل کرنے کا بڑا شائق تھا۔ خاص طور پر وزیر اور قاضی تو اس کے دور میں زیادہ دیر نہیں رہے پاتے تھے اور جلد ہی اپنے انجام کو پہنچا دیے جاتے تھے۔

دارلحکمۃ جس کی غرض یہ تھی کہ شیعی علوم کی اشاعت کی جائے، مگر اس میں نجومی، ادیب، منجم اور طبیب بھی رکھے گئے۔ اس مدرسے کے ساتھ اس نے ایک کتب خانہ بھی کھولا۔ اس نے ایک رصد گاہ بھی بنوائی، جس میں اپنے وقت کا مشہور ہیئت دان علی بن یونس کو حکم دیا کہ ایک مفضل زیح تیار کرے۔ اس زیح سے لوگ مدتوں تک افادہ حاصل کرتے رہے۔ اس کے نام سے مشہور مسجد جامع الحاکم تھی جس کی بنیاد اس کے باپ عزیز کے دور میں رکھی گئی تھی مگر اس کے دور میں تکمیل ہوئی۔ حاکم میں اس مسجد میں آرائش اور دیبائش کا کام کثیر رقم خرچ کی۔ بنیادی طور پر حاکم بنو فاطمہ کے دوسرے خلیفہ کے برعکس بہت سادہ زندگی بسر کرتا تھا۔ وہ معمولی کپڑوں اور خچر پر سادہ سی زین استعمال کرتا تھا۔ لیکن دولت و خرچ کرنے میں بڑا فیاض تھا اور خدمت گاروں اور ملازموں کو بڑی بڑی رقمیں انعام دیا کرتا تھا۔ اس نے امام کو سجدہ کرنے، قدم بوسی اور دوسری رسمیں ختم کر دیں تھیں۔

حاکم کی تلون مزاجی سے تنگ آکر مصری اس سے نفرت کرنے لگے اور اس کا اظہار بھی کرنے لگے۔ اس پر حاکم نے اپنے غلاموں کو خفیہ فسطاط بھیجا، انھوں نے فسطاط میں لوٹ مار کی اور آگ لگادی، جس پر ترکوں اور کتامیوں نے ان کا مقابلہ کیا اور بہت سے لوگ مارے گئے۔

آخر زمانے میں حاکم پر جنون کا دورہ پڑا اور اس کو یہ گمان ہونے لگا کے اللہ اس کے اندر حلول کر گیا ہے۔ اس نے اپنے مریدوں کو حکم دیا کہ اس کو پوجیں اور جب اس کا نام آئے تو وہ سجدے میں جھک جائیں۔ اس کے چند داعیوں نے یہ مذہب اختیار کر لیا اور اس کو اللہ کا خلیفہ کی بجائے اسے خدا ماننے لگے اور اس کی تائید میں حسن بن حیدر فرقانی نے الرسالہ الواعظ لکھا۔ جس میں حاکم کی الوہیت کی تعائید کی تھی۔ اس کے ماننے والوں ی تعداد روز بروز تعداد بڑھنے لگی۔ حاکم نے اس کو بلا کر خلعت اور انعام دیا۔ لیکن جلد ہی بازار میں لوگوں نے اس کو قتل کر دیا۔ اس نے لوگوں کو کہا کہ وہ خدا کی بجائے حاکم کی عبادت کریں۔ اس کے بعد ایک ان کی تعداد روز بروز تعداد بڑھنے لگی۔ حاکم نے اس کو بلا کر خلعت اور انعام دیا۔ لیکن جلد ہی بازار میں لوگوں نے اس کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد ایک ترک اثوستگین آیا جو درازی کہلاتا تھا۔ وہ بھی لوگوں سے حاکم کو پوجنے کی تلفین کرتا تھا۔ لوگوں نے اس کو مارا پیٹا تو حاکم نے اس پر تشدد کرنے والے لوگوں کو گرفتار کر کے انھیں مختلف اوقات میں قتل کروا دیا۔ اس پر لوگوں اور ترکوں کا یہ امر شاق گذرا اور انھوں نے اس کو قتل کرنا چاہا۔ یہ بھاگ کر حاکم کے محل میں چھپ گیا لوگوں نے حاکم سے اسے اس کے قتل کا مطالہ کیا تو حاکم نے لاعلمی کا اظہار کیا اور اسے بھگا دیا درازی لبنان چلاگیا۔ جہاں اس نے دروزی فرقہ کی بنیاد رکھی۔

حاکم اکثر گدھے پر سوار ہو کر قاہرہ کے باہر تمام رات گھوما کرتا تھا۔ ایک دن اس کے ساتھ دو خدمت گار تھے۔ اس نے انھیں واپس بھیج دیا اور خود حلوان کے شرقی علاقہ کی طرف چلدیا۔ جب اسے دیر ہو گئی تو لوگوں اسے تلاش کرنے کی کوشش کی مگر کسی کو نہیں ملا۔ البتہ اس کے گدھے کی لاش اور اس خون الودہ کپڑے ملے، مگر اس کا پتہ نہیں چلا۔ جو لوگ اس کی محبت میں غلو رکھتے تھے وہ یقین نہیں کرتے تھے کہ حاکم مرا ہے۔ ان کا خیال تھا حاکم دوبارہ آئے گا۔

زوال[ترمیم]

ابو معد علی الظاہر ) لا عزاز دین اللہ ( 411 ھ تا 427 ھ[ترمیم]

حاکم کے مفقود ہونے کے بعد 411ھ میں اس کا بیٹا ظاہر امام بنا۔ اس کے عہد میں عبد الرحیم نے بغاوت کی جو ایک روایت کے مطابق حاکم کا ولی عہد تھا۔ مگر وہ ناکام رہا اور گرفتار ہو کہ قید ہو گیا۔ ظاہر کی کم سنی کی وجہ سے اس کی بہن ست الملک کا اقتدار بڑھ گیا تھا اور مملکت کی باگ ڈور اس کے ہی ہاتھ میں رہی یہاں تک وہ چار سال کے بعد مر گئی، مگر اس کے انتقال کے بعد تین سرداروں الشریف الکبیر العجمی الشیخ ابو القاسم، علی بن احمد نجیب الدولہ الجر جراتی اور شیخ العمیہ محسن بن بادوس کے ہاتھوں میں رہی۔

416ھ میں مصر میں قحط پڑا جو برابر تین سال تک رہا۔ اس دوران میں لشکریوں میں تنخواہ کے جھگڑا ہو گیا اور ایک رکن محسن بن بادوس مارا گیا۔ اس پر لوٹ مار اور غارٹ گری ہوئی۔ اسی دوران میں ظاہر نے مالکی فقہیہ کو ملک سے نکال دیا گیا۔ لیکن شام کے کھوئے ہوئے علاقے دوبارہ فاطمیوں کے پاس واپس آ گئے۔ جب 418ھ میں قحط دور ہو گیا توظاہر نے بازنطینیوں سے صلح کرلی۔ اس کے تحت بازنطینی علاقوں میں بنو فاطمیہ کا خطبہ پڑھایا جائے گا اور بیت المقدس کے کسینہ کو دوبارہ بنانے کی اجازت دے دی گئی اور جو نصرانی حاکم کے زمانے میں نصرانیت اختیار کرلی تھی انھیں اختیار دے دیا گیا کہ وہ چاہیں تو دوبارہ نصرانیت اختیار کر لیں۔ اس کے بعد ترکوں اور مضاربہ کے درمیان میں جھگڑا ہو گیا جس میں بہت سے لوگ مارے گئے۔ 427ھ میں ظاہر کا انتقال ہو گیا۔ یہ اپنا زیادہ وقت لہو و لہب میں گزاتا تھا اور سلطنت کے امور میں حصہ نہیں لیتا تھا۔ شراب کا بہت شوقین تھا اور اس نے اس کو پینے کی اجازت دوسروں کو بھی دے دی تھی۔ اس باپ نے جتنی چیزیں حرام کیں وہ اس نے حلال کریں۔

ابوتمیم معد المستنصرباللہ 427 ھ تا 487 ھ[ترمیم]

ظاہر کی موت کے بعد اس کا کمسن بیٹا مستنصر 427ھ میں امام بنا۔ یہ نہایت کمسنی میں یعنی سات سال کی عمر میں یہ خلیفہ بن گیا تھا۔ اس کو بنو فاطمین میں یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کی حکومت تمام فاطمین خلیفاؤں سے زیادہ طویل یعنی ساتھ سال چار مہینے تک رہی، اس کے نام کا خطبہ بغداد اور عراق میں ایک سال تک پڑھا گیا اور حجاج اور یمن ان کے قبضہ میں بیس سال رہا۔ مستنصر کے عہد میں شام، صقلیہ اور بلاد مغرب سے فاطمی حکومت ختم ہو گئی تھی۔ اسی کے دور میں ناصر خسرو نے مصر کا دورہ کیا تھا۔ اس نے فاطمی دربار کی شان و شوکت اور دولت و ثروت کے چشم دید واقعات لکھے ہیں۔

453ھ میں ترکی اور حبشیوں لڑائی چھڑ گئی اور کئی لڑائیوں کے بعد حبشیوں کی کمر توڑ دی گئی اور اس وجہ سے ترکوں کا اثر بہت بڑھ گیا۔ ترک سالار ناصر الدولہ مستنصر سے فوج کی تنخواہ میں اضافہ کے علاوہ بجا مطالبات کرنے لگا۔ اس کے مطالبات پورے کرنے کے لیے مصتنصر بیش قیمت ذخیرے کو کوڑیوں کے مول بیچنے پر مجبور گیا۔ ناصر الدولہ نے جب مال دولت خود ہضم کرنا چاہا تو اس کے ساتھیوں میں پھوٹ پڑ گئی اور اس کے مقابلے کے لیے مستنصر کو خود میدان میں آنا پڑا، 463ھ ناصر الدولہ کو شکست ہوئی اور وہ بجرہ چلا گیا۔ ان لڑائیوں سے ملک کی حالت خراب ہو گئی اور مصر حالت دن بدن تک ابتر ہوتی گئی۔

463ھ میں مستنصر نے ایک لشکر ناصر الدولہ کے مقابلے کے لیے بھیجا، بدقسمتی سے اس لشکر کو شکست ہو گئی اور لشکر کا تمام مال دولت ناصر الدولہ کے قبضہ میں آ گیا۔ جس کی وجہ سے وہ بہت طاقت ور ہو گیا اور اکثر ساحلی مقامات مثلاً اسکندریہ اور دمیاط وغیرہ میں اس نے اسماعیلی خطبہ موقوف کر کے عباسی خلیفہ کا خطبہ جاری کیا۔ اس کے علاوہ اس نے مصر میں جو غلہ جاتا تھا وہ روک لیا۔ مصری دوہری مصیبت میں مبتلا ہو گئے، مصر پہلے ہی لڑائیوں کا شکار تھا اور اب غلہ بھی رک گیا۔ اس مصر قحط کا شکار ہو گیا اور ہزاروں لوگ موت کا شکار ہو گئے۔ مصری فوج کو تنخواہ نہیں ملی تو اس نے شاہی محل کو لوٹ لیا۔ اس طرح مستنصر کا تمام اقتدار جاتا رہا۔ لہذا مستنصر کو ناصر الدولہ سے صلح کرنی پڑی۔ اس شرط پر صلح ہوئی کہ ناصرالدولہ بجیرہ میں ہی ٹہرے اور اس کو ایک مقرہ رقم دی جائے گئی۔ اس کے مصر میں غلے کی آمد ہوئی۔ لیکن ایک مہینہ نہیں گذرا ناصرا لدولہ نے پھر قاہرہ کا محاصرہ کر لیا، اس دفعہ مستنصر کے لشکر نے ناصر الدولہ کو بھگا دیا۔ پھر وہ بجیرہ وا پس چلا گیا اور عباسی خلیفہ کا خطبہ جاری کرا دیا۔ مستنصر کی حالت خراب ہو چکی تھی اس کا محل لوٹ لیا گیا۔ مستنصر کو محل میں پناہ لینی پڑی۔ فاطمیوں کی ساری شان و شوکت جاتی رہی۔ کچھ عرصہ کے بعد ناصر الدولہ قتل ہو گیا۔ مستنصر نے بدر الجمالی کو مصر طلب کیا جو شام کا والی تھا۔ بدر الجمالی مصر پہنچا اور مصر کی حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی اور اس نے بڑے بڑے فتنہ پروازوں کو قتل کر وا دیا۔ بدرالجمالی نے ملک میں امن و امان قائم کیا۔ اسی زمانے میں شام پر سلجوقیوں کا قبضہ ہو گیا۔ 461ھ میں سلجوقی زرا ہمت کرتے تو دولت فاطمیہ سو سال پہلے ختم ہوجاتی۔ ساتھ سال چار مہینے حکومت کرنے کے بعد 784ھ میں مستنصر نے وفات پائی۔

ابو القاسم احمد المستعلی با اللہ 487 ھ تا 495ھ[ترمیم]

مستنصر کی وفات کے بعد مستعلی کی وفات کے بعد اس کے اکیس سالہ لڑکے کو خلیفہ بنا دیا گیا، اس پر امستنصر کے بڑے لڑکے نزار نے اس فیصلے کو نہیں مانا اور اس نے بغاوت کی مگر قید ہو گیا اور اس کو موت کی سزا دے دی گئی۔ نزار سے ہی اسمعیلیوں کے ایک بڑے فرقہ کی ابتدا ہوئی۔ مستعلی کے دور میں ہی صلیبی حملے شروع ہوئے اور 489ھ میں بیت المقدس پر صلیبیوں کا قبضہ ہو گیا اور مصری اس کا دفاع نہیں کرسکے۔ مستعلی نے 495ھ میں وفات پائی۔ مستعلی نام کا خلیفہ رہے گیا تھا۔ 467ھ تا 525ھ تک حکومت کی باگ دوڑ بدر الجمالی اور اس کے بعد اس کے بیٹے افضل کے ہاتھ میں رہی۔ ان وزرا کا دور مصر کی خوش حالی کا دور تھا۔

ابو علی منصور الامر باحکام اللہ 495 ھ تا 524 ھ[ترمیم]

مستعلی کے بعد اس کا کم سن لڑکا آمر کو خلیفہ بنا دیا گیا۔ اس دور میں بھی تیس سال وزیر افضل تک مصر کا حقیقی حاکم رہا۔ اس دور میں صلیبوں نے شام اور فلسطین میں ْْمزید کامیابیاں حاصل کر لیں۔ وزیر افضل نے صلیبیوں کی روک تھام کے لیے سر ٹور کوشش کیں مگر صلیبی کامیاب رہے۔ 498ھ تک ان کے قبضہ میں فلسطین کا بڑا حصہ ماسوائے چند ساحلی علاقوں کے علاوہ قبضہ میں آچکا تھا۔ 503ھ تک ان کہ قبضہ میں عکہ، جبیل، بانیاس ان کے قبضہ میں آ گئے۔ اس کے بعد رملہ، طرابلس، بیروت اور صور بھی ان کے قبضہ میں آچکا تھا۔ صرف عسقلان ہی فاطمیوں کے قبضہ میں آچکا تھا۔ 510ھ میں ان کی ہمت اتنی بڑھی کے انھوں نے مصر پر حملہ کیا اور فرما کو جلا دیا اور تنیس کے قریب پہنچ گئے مگر صلیبی سالار بلڈین کی علالت کی وجہ سے صلیبیوں کو کامیابی حاصل ہو سکی۔ اس کے بعد فاطمیوں کی پالیسی مدافعانہ رہی۔

513ھ میں ایک فرقہ بدیعیہ ظاہر ہوا، جس نے اصلی اسمعیلی عقیدے ظاہر کیے اور ان کے ساتھ کثیر جماعت ساتھ ہو گئی۔ افضل نے ان کو سزا دی اور اس کے بانیوں حمید اور برکات نے خلیفہ کے محل میں چھپ کر جان بچائی۔ بعد میں افضل کے قتل بعد حمید پھر ظاہر ہوا۔ اس کے وزیر مامون ابطائحی نے حمید اور اس کے پیروں کو قتل کروا دیا۔

افضل کو آمر نے 515ھ ہجری میں ایک سازش کے ذریعہ قتل کروا دیا اور اس کا جواز یہ بتایا جاتا ہے کہ افضل آمر پر بہت سختی کرتا تھا اور اہل سنت کے ساتھ بہت رعایت کرتا تھا۔ اس کے بعد وزیر المامون ابن ابطائحی وزیر مقرر ہوا۔ جس کو بھی آمر نے 519ھ میں قتل کروا دیا۔ لیکن اس کے بعد 524ھ میں آمر کو نزاریوں نے قتل کروا دیا۔

ابوالمیمون عبد المجید الحافظ الدین 524 ھ تا 544 ھ[ترمیم]

آمر جب قتل ہوا تو اس کا کوئی بیٹا نہیں تھا اس لیے اس کے چچا زاد بھائی کو خلیفہ بنا دیا گیا۔ یہ مستنصر کا پوتا اور اس کے بیٹے محمد کا بیٹا تھا۔ چونکہ شعیہ عقائد کے مطابق باپ کے بعد بیٹا ہی امام بنتا ہے۔ اس لیے اس نے اس لڑکے کا نائب ہونے کا دعویٰ کیا، جو آمر کی ایک بیوی کے بطن سے ہونے والا تھا۔ اس وقت تک حافظ اپنے کو نائب کہتا تھا۔ مگر لڑکی پیدائش کے بعد اس نے امام نے ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس کے پہلے وزیر ہزبر الملک کو فوج کے مطالبہ پر ہٹا کر قتل کروا دیا۔ اس کے بعد احمد وزیر مقرر ہوا۔ اس نے حافظ کے اختیارات چھین لیے اور اس نے حکومت کا مذہب اسمعیلی سے بدل کے اثنا عشری جاری کر دیا اور امام منتظر کے سکے اور خظبہ میں سے بھی حافظ کا نام نکلوا کر اثنا عشری کے اماموں اور اپنا نام داخل کروا دیا۔ پھر اس نے حافظ کو بھی قتل کرانے کی کوشش کی۔ لیکن اس میں وہ کامیاب نہیں ہوا۔ احمد 526ھ میں قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد حافظ نے زمان حکومت خود سنبھالی۔ خرابی حکومت کے جو الزامات وزیروں پر لگتے تھے اب خود حافط پر لگنے لگے۔

اس وقت تک فاطمی حکومت کمزور ہو چکی تھی اس لےے حالات اور بگڑگئے۔ 528ھ میں اس نے ولی عہد سلیمان کو بنایا، جو مر گیا۔ اس کے بعد اس نے دوسرے بیٹے حسین کو ولی عہد بنایا۔ مگر اس تیسرا بیٹا حسن نے اس کو تسلیم نہیں کیا اور اس نے مصری فوجوں میں پھوٹ ڈلوادی، اس طرح خانہ جنگی میں پانچ ہزار سے زیادہ افراد مارے گئے۔ پھر اس نے حافظ اور اپنے بھائی پر ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کی۔ اس پر حافظ نے تنگ آکر حسن کو ولی عہد بنانے کا فرمان جاری کیا۔ لیکن حسن کے اقدامات کی وجہ سے فوج حسن کے خلاف ہو گئی اور وہ تنہا رہ گیا۔ فوج کے خلاف ہونے پر اس نے اپنے باپ حافط کے محل میں پناہ لی۔ لیکن فوج نے قیصر خلافت کا محاصرہ کر لیا اور حسن کی موت کا مطالبہ کیا۔ جس پر مجبوراً حافظ نے بیٹے کو زہر دلوا دیا۔

خوش قسمتی سے اس وقت صلیبیوں کے حملہ کا خطرہ کم ہو گیا تھا۔ کیوں کہ وہ ترکوں کے حملوں کے خلاف مداخلت میں مصروف تھے۔ لیکن مغرب میں ان کا نیا دشمن صقیلہ کا راجر ثانی پیدا ہو گیا تھا۔ اس نے افریقہ میں برصہ، طرابلس الغرب، مہدیہ کو فتح کرنے کے بعد اس نے سکندریہ کا رخ کیا۔ حافظ کی موت 544ھ میں موت واقع ہو گئی۔

ابو منصور اسماعیل الظافر لاعدائ اللہ 544 ھ تا 549 ھ[ترمیم]

حافظ کے انتقال کے بعد اس کی وصیت کے مطابق اس کا سولہ سالا چھوٹا بیٹا فائز خلیفہ بنا۔ یہ عیش و عشرت کا شوقین اس کو 549ھ میں قتل کر دیا گیا۔

ابوقاسم عیسیٰ الفائز بامرللہ 549 ھ تا 567 ھ[ترمیم]

فائز کے قتل کے بعد اس کا کمسن بیٹے فائز کو میں امام بنایا گیا۔ مگر چھ سال کے بعد 555ھ میں یہ انتقال کرگیا۔

ابو محمد عبد اللہ العاصد الدین اللہ 555 ھ تا 567 ھ[ترمیم]

فایز کے انتقال کے بعد حافظ کے ایک پوتے جو اس کے بیٹے یوسف کا لڑکا تھا خلیفہ بنایا گیا۔ یہ کم سن لڑکا تھا اور یہ فاطمیوں کا آخری خلیفہ تھا، اس کے عہد میں ہی صلاح الدین ایوبی کا مصر پر قبضہ ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی 567ھ میں فاطمی خلافت کا خاطمہ ہو گیا۔

فاطمین کے زوال کے بعد دعوت کا سلسلہ[ترمیم]

فائز کی موت کے بعد مصر میں اس کے داؤد کے چند مصریوںنے 569ھ میں بیت کی۔ اس پر صلاح الدین نے ان مصریوں مروا دیا اور داؤد کو قید کر دیا۔ کچھ عرصہ کے فایز کے پوتے محمد بن عبد اللہ بن عاصد نے فاس میں مہدی ہونے کا دعویٰ کیا جس کو سولی دے دی گئی۔

فوج اور انتظامی عہدے دار[ترمیم]

فاطمین کے دور میں فوجوں کی رجمنٹیں تھیں، جو کسی خلیفہ، وزیر یا قومیت کے نام سے منسوب تھیں۔ مثلاً رومیہ، جیوشیہ، افضیلہ، سوڈانیہ۔ ہر رجمنٹ کا ایک افسر ہوا کرتا تھا، جو کوئی امیر ہوتا تھا۔ فاطمین میں امرا تین طرح کے ہوا کرتے تھے۔

  1. امرا مطوقین۔ ان کے گلے میں سونے کا طوق ہوتا تھا۔
  2. نفرئی براد، یہ عموماً خلیفہ کے ساتھ اس کے جلو میں رہتے تھے۔
  3. معمولی امرا۔

عہدے داروں کی دو قسمیں تھیں۔ پہلی جو براہ راست خلیفہ سے تعلق رکھتی تھی، دوسری جو ان امرا کے ماتحت تھی۔

بری افواج میں کتامی، زویلی، رومی صقیلی اور بربری سپاہیوں کے علاوہ جو کشیر تعداد میں تھے۔ صرف سوڈانی غلاموں کی تعداد دس ہزار تھی۔ بحری قوت کے بارے میں مقریزی لکھتا ہے کہ بنو فاطمہ جیسا بحری بیڑا کسی زمانے میں جب اسلام نے مصر پر فتح حاصل کی تھی نہ تھا۔ اساطیل یعنی جنگی جہازوں کی تعداد سولہ ہزار تھی۔ بحری بیڑا اسکندریہ، دمیاط ( مصر ) عسقلان، عکہ صور وغیرہ پر متعین تھا اور کم از کم پچھتر جہازوں، دس مسطحات اور دس صمالات پر مشتمل تھا اور ایک امیر بحر کے ماتحت تھا۔

وزیر[ترمیم]

سب سے اعلیٰ عہدے دار ہوا کرتا تھا۔ وزرا کبھی اہل سیف سے ہوا کرتا تھا اور کبھی اہل علم سے۔ دوسرا امیر الباب جس کا عہدے وزیر کے بعد ہوا کرتا تھا اور یہ وزیر صغیر بھی کہلاتا تھا۔

سپہ سالار[ترمیم]

تمام فوج کو قائد اور قصر شاہی کی حفاظت کا ذمہ دار ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ ایسے بہت سے عہدے دار تھے جو خلافت اور مملکت کے امور سنبھالتے تھے۔

قاضی القضاۃ[ترمیم]

یہ محکمہ قانون کا افسر اعلیٰ کے علاوہ دارالضروب کا ناظم بھی ہوتا تھا۔

داعی الدعاۃ[ترمیم]

جس کا درجہ قاضی القضاہ کے بعد تھا۔ یہ دعوت اسمعیلیہ کا نگران ہوتا تھا۔

مستجب[ترمیم]

یہ بازاروں، ِخرید و فروخت کی نگرانی، اوزان اور پیمانوں اور مجرموں کی دیکھ بھال اور ان کے امور اس کے سپرد تھے۔

وکیل[ترمیم]

اس کے سپرد بیت المال کی نگرانی، غلاموں کی شادیاں کرنا کے علاوہ سرکاری عمارتوں اور کشتیوں کی تعمیر بھی اس کے سپرد تھی۔

نائب امیر الباب[ترمیم]

یہ امیر الباب کا مدد گار، اس سپر سفیروں کی نگرانی ہوتی تھی اور سفیروں کو یہ امیر الباب سے ساتھ دربار میں پیش کرتا تھا۔ اس کے علاوہ قاری، منشی اور دوسرے عہدے دار ہوتے تھے۔

ریاستیں[ترمیم]

یعنی ضلعوں کے والی۔ مملکت مصر چار ولاتوں میں منقسم تھا۔

  1. ولایت قوس، یہ سب سے بڑی ولایت تھی۔
  2. ولایت شرقیہ
  3. ولایت غربیہ
  4. ولایت اسکندریہ

شام اور ایشیائے کوچک پر مقامی والی مامور تھے۔ ان کے تحت مقامی اہلکار اور مختلف امور انجام دینے والے افراد تھے۔

اہل سنت کے ساتھ سلوک[ترمیم]

فاطمین کی اہل سنت کے ساتھ ایک ہی حالت قائم رہے نہیں سکی۔ مہدی نے مذہبی آزادی کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کسی کو بھی اسمعیلیت پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ معز نے بھی مصر میں مذہبی آزادی کا اعلان کیا اور اس نے مصر کے سابق قاضی ابو طاہر کو اپنے عہدے پر برقرار رکھا۔ البتہ اسمعیلی قاضی نعمان بن محمد کو یہ ہدایات کی کہ وہ ابو طاہر کے ساتھ مشوروں میں شریک رہے۔ لیکن پھر بھی دولت فاطمیہ میں لوگوں کو شیعی مذہب قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا اور قاضیوں کو شیعی مذہب کے مطابق فیصلے کرنے کی تاکید کی جاتی تھی، عہدوں اور منصبوں کے لالچ میں بہت سے سنی اور اہل کتاب نے شیعی مذہب اختیار کر لیا تھا۔

عزیز نے 273ھ میں تراویح کی نمازا کی ممنوع قرار دے دی۔ ایک آدمی کو صرف اس لیے سزا دی کے کہ اس کے پاس ’ موطا ‘ برآمد ہوئی تھی۔ ظاہر نے سنیوں کو آزادی لیکن مستنصر کے آخر میں اذان میں ’ حیی علیٰ خیر العمل ‘ کا اضافہ کیا گیا۔ یہ سب باتیں عام مصریوں کی ناراضی کا باعث ہوئیں، جو سنی مذہب رکھتے تھے۔

حاکم نے اہل سنت کے ساتھ ناروا سلوک رکھا۔ 393ھ میں اس نے صواۃ الضحیٰ پڑھنے پر بابندی لگادی جس نے پڑھی اسے سزا دی گئی۔ تراویح کی نماز موقوف کردی گئی۔ 395ھ میں دوکانوں، مکانوں اور قبرستانوں پر سب السلف لکھوایا گیا، اہل سنت اپنے مکانوں پر رنگین اور منقش تحریروں میں اپنے مکانوں پر رنگین اور منقش تحریروں میں اپنے بزرگوں پر لعنت ملامت لکھوانے پر مجبور کیے گئے۔ اکثر لوگ جبراً دعوت اسمعیلیہ میں داخل کیے گئے اور ان کی تربیت کے لیے دارالحکمۃ بنایا گیا۔ اس نے اذان میں ’ اصلوٰۃ خیر من النوم ‘ کہنے کی بجائے ’ حی علی خیر العمل ‘ کا اعلان کیا، ماہ رمضان کے لیے اس نے حکم دیا کہ وہ ظاہر روایت پر عمل نہیں کریں بلکہ حساب سے روزے شروع کریں اور ختم کریں۔اس طرح کے بہت سے احکامات اس نے دیے جس سے اہل سنت کی دل آذاری ہوتی تھی۔ ٍ

اہل کتاب کے ساتھ سلوک[ترمیم]

فاطمین نے دوسرے دول اسلامیہ کے مقابلے میں اہل کتاب کے ساتھ نہایت روادری، فراق دلی اور قابل تحسین سلوک کیا ہے۔ اکثر خلیفہ فاطمین یہود و نصاری پر بہت مہربان تھے۔ خاص کر معز اور عزیز اہل کتاب پر بہت مہربان تھے۔ انھوں نے اہل کتاب کو بڑے بڑے عہدوں پر فائز کیا۔ جن میں وزیر اور مشیر شامل تھے۔

حاکم کے ابتدائی حکومت کے ابتدائی آٹھ سال تک اہل کتاب سے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا جو مسلمانوں کے ساتھ کیا جاتا تھا اور ان میں سے بہت سے وزیر اور دوسرے اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز رہے۔ 395ھ میں حاکم نے اہل کتاب کے ساتھ روادری کا سلوک چھوڑ دیا۔ اگرچہ اس کی بہت سی وجوہات بتائی جاتی ہیں اور ان پر بیجا سختیاں شروع کیں۔ انھیں تین باتوں میں سے اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ ( 1 ) اسلام قبول کر لیں یا مملکت فاطمیہ سے نکل کر دوسرے ملک چلے جائیں۔ ( 2 ) اگر نصاری ہوں تو کالا لباس پہنیں، جو بنو عباس کا شعار تھا اور اپنی گردنوں وزنی صلیب ڈالیں اور یہ صلیب ان کے کپڑوں میں سے نظر آتی ہوں۔ ( 3 ) اگر یہود ہوں تو پیلے رنگ کے عمامے پہنیں اور اپنے گلے میں ایک لکڑی کی بنی ہوئی گائے کے بچھڑے کی شکل لٹکائی ہو۔ اس کے علاوہ ان کے حمام بھی علحیدہ کر دیے گئے۔ تین سال کے بعد 398ھ میں ان کے اوقاف صبط کر لیے گئے۔ اگر چہ یہ احکامات تعصب پر مبنی ہیں لیکن اس کا ایک سبب اہل کتاب کا طرز عمل بھی تھا۔

مشاہیر[ترمیم]

یقوب بن کلس[ترمیم]

یہ عزیز کا وزیر اعظم تھا اور اس نے کئی کتابیں لکھیں اس کا انتقال 328ھ میں ہوا۔

المحنار المسجی محمد بن قاسم[ترمیم]

یہ المسجی کے نام سے مشہور ہیں۔ اس نے بہت سے معضوعات پر کتابیں لکھیں اس نے مصر پر ایک تاریخ ’ تاریخ الکبیر ‘ لکھی جو اب ناپید ہے۔

علی بن یونس[ترمیم]

ماہر ہیئت اور سائنس دان وفات 399ھ اس نے چار جلدوں میں زریح حاکمی لکھی ہے۔ اس میں بہت تحقیق اور تصیح سے مسائل ہیت لکھے ہیں۔ ابن خلکان نے اس کی بہت تعریف کی ہے۔

ابوعلی حسن الثہیم[ترمیم]

وفات 431ھ مشرور و معرف سائنس دان، ہیت دان، فلسفی، طبیب۔ اس نے ریاضی، ہیئت، فلسفہ اور طب پر ایک سو سے زیادہ کتابیں لکھیں۔۔ جس طب میں اسے خاص امتیاز حاصل تھا۔ اس کی کتاب المناظر نے بہت شہرت پائی۔ اس کتاب کا اصل نسخہ ناپید ہو چکا ہے مگر اس کا لاطینی ترجمہ 1572ئ میں لاطینی ہوا تھا باقی ہے۔ اس کتاب سے عہد وسطی کے تمام مغربی سائنسدانوں کو بہت مدد لی۔ راجر بیکن اور کپلر کی تصنیفوں میں اس کی جھلک پائی جاتی ہے۔ ابن الہثیم نے اس کتاب میں اقلیدیس اور بطلیموس کے اس نظریہ کی مخالفت کی کہ آنکھ سے بصری شعائیں نکل کے مرئی شے کی طرف جاتی ہیں اور زاویہ انعکاس کو معلوم کرنے کے لیے اس نے تجربے بیان کیے ہیں۔ بعض تجربوں میں وہ کبر عدسات Magnifying Lenses کے نظریہ انکشافات کے قریب پہنچ گیا تھا۔ جو اٹلی میں تین صدی کے بعد کیا گیا۔

عمر بن الموصلی[ترمیم]

اس کی تصنیف المنتخب فی علاج العین بہت اہم ہے۔ یہ آنکھوں اور ان علاج پر ایک عمدہ تصنیف سمجھی جاتی تھی۔ اس نے موتیا کو ایک نلکی کے چوس کر باہر نکالنے کی اس کتاب میں وضاحت کی ہے۔

محمد بن سلامۃ[ترمیم]

ابن جعفر القضاع۔ یہ شافعی فقیہ مستنصر کے عہد میں مصر کا قاضی تھا۔ اس کی کتابوں میں کتاب الشہاب، کتاب مناقب الامام شافعی، تواریخ الخلفائ اور کتاب خطوط مصر بہت مشہور ہیں۔ اس نے 454ھ میں وفات پائی۔

طاہر بن بشاذ الخلوی[ترمیم]

469ھ میں وفات پائی، یہ ویلمی تھا اور نحو پر امام سجھا جاتا تھا اور اس نے کئی کتابیں تصنیف کیں۔

ہبتہ اللہ بن موسیٰ شیرازی[ترمیم]

470ھ یہ اسمعیلی داعی تھا اور اس نے ایران میں اسمعیلی دعوت کوپھیلایا۔

حکیم ناصر خسرو[ترمیم]

یہ اسمعیلی داعی اور اس نے بھی بہت سی کتابیں تصنیف کیں، اس کا سفرنامہ بہت مشہور ہے۔

احمد حمیدالدین الکرمانی[ترمیم]

یہ فاطمی داعی کے اعلیٰ مراتب پر فائز تھا اور اس نے کئی کتابیں لکھیں۔

شعرا[ترمیم]

اسمعیلی دور میں بہت سے مشہور شعرا گذرے ہیں۔ جن میں ابن ہانی، علی تولنسی، الامیر تمیم زیادہ مشہور ہیں۔

کتب خانہ[ترمیم]

بنو فاطمہ مقریزی کا کہنا ہے کہ کتابوں ایسا ذخیرہ کسی بادشاہ کے پاس نہیں ہوگا جیسا کہ فاطمیوں کے پاس تھا۔ اس کتب خانہ میں قرات، حدیث، فقہ، نحو، حساب، نجوم، منطق اور فلسفہ وغیرہ یعنی اس وقت جتنے علوم اس زمانے میں رائج تھے کتب موجود تھی۔ ان کی تعداد لاکھوں میں تھیں، اکثر کتابوں کے کئی نسخہ جات تھے۔ جب مستنصر کے زمانے میں زمانے میں جب ترکوں نے لوٹ مار کی تو بہت سی کتابیں چلادیں گئیں۔ بعض کتابوں کو جلدیں تور کر جوتیاں بنالی گئیں۔ مقریزی اس کتب خانے میں کتب کی تعداد چھ لاکھ چھ ہزار بتاتا ہے۔ حاکم نے دارالحکمتہ کے نام سے ایک مدرسہ کھولا گیا تھا، جس میں اسمعیلی علوم کے علاوہ دوسرے علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔

صنعت و حرفت اور معماری[ترمیم]

فاطمین عہد کی عمارتوں میں سب سے قدیم عمارت جامع ازہر کی ہے۔ یہ 359ھ میں تعمیر ہوئی تھی۔ اس میں بہت کچھ رد بدل ہو چکا ہے۔ مگر اس کے بیج کا حصہ قدیم ہے۔ اس میں ایرانی فن تعمیر کی جھلک نظر آتی ہے۔ اس بعد جو قدیم عمارت ہے وہ جامع حاکم ہے۔ جو عزیز نے شروع کی اور اس کے بیٹے حاکم کے دور 403ھ میں پایا تکمیل کو پہنچی۔ اس میں اور جامع ازہر کے نقشہ میں فرق نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جامع القمر جو عہد آمر 519ھ مین تعمیر ہوئی۔ جو نصرانی یا آرمینی معماری کی مثال ہے۔ اس کے علاوہ فاطمی عہد کے تین دروازے باب زویلہ، باب النصر اور باب الفتوح ہیں۔ یہ عظیم الشان دروازے رہا کے معماروں نے بازنطینی وضع پر بنایا ہے۔

قاہرہ کے عجائب گھر میں فاطمی عہد کے چند دروازوں کے تختے ہیں۔ ان پر مختلف جانوروں کی تصویریں کندہ ہیں۔ کہیں خرگوشوں کو گدھ پکڑ رہا ہے۔کہیں ہرنوں پر وحشی جانور حملہ کر رہے ہیں۔کہیں جانوروں کے جوڑے کھڑے ہیں۔ یہ تصویریں ساسانی نمونوں کی ہیں۔ یہی مشابہت عہد فاطمی کے پیتل اور کانسی کی مصنوعات میں پائی جاتی ہیں۔ ان میں زیادہ تر آئینے، لوٹے، صراحیاں اور خود شامل ہیں۔ ان میں سب سے بہترین ایک پیتل کا عنقا ہے، جو چالیس انچ اونچا ہے۔ اس طرح پارچہ جات کی صنعت بھی قابل تعریف ہے۔جس کے نمونے صلیبی لڑائیوں میں یورپ داخل ہوئے۔ کپڑا بننا مصری کی قومی صنعت ہے جس پر ساسانی وضع کی تصویریں بنائی جاتی تھیں۔عہد وسطی میں دمیاط وابق اور تیش اس کے لیے مشہور ہیں۔

مٹی کے برتنوں کی صنعت میں دوسری صنعتوں کی طرح ایرانی وضع کی پیروی کی جاتی تھی اور ان جانوروں کی تصویریں ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ کتابوں کی جلدیں بھی بنائی جاتی تھیں۔ اس میں چمڑے پر نقش اور ٹھپا لگانا عام مسلمانوں کی صنعت بن گئی۔

دولت و ثروت[ترمیم]

اسمعیلیوں کے خزانوں میں ایسے جوہرات تھے جو اور ممالک کے خزانوں میں کمیاب تھے۔ مستنصر کے زمانے میں جب قحط پر تو جوہرات کے خزانے کا ایک صندوق کھولا گیا، جس میں زمرد کے سات ایسے نکلے تو جوہریوں نے ان کی قیمت لگانے سے انکار کر دیا کہ اس کی ہمارے پاس کوئی نظیر نہیں ہے۔ معز کی بیٹیوں نے جو ترکہ چھوڑا تو اس کی قیمت کا اندازہ بھی حیرت انگیز تھا۔ تاریخی کتابوں میں بنو فاطمہ کی دولت و ثروت کے بارے میں جو لکھا گیا ہے وہ مبالغے سے خالی نہیں لیکن ہمیں یہ بھولنا چاہیے کہ مصر ہمیشہ اپنی ذرخیزی میں مشہور رہا ہے۔

محصولات[ترمیم]

مصر میں زمین کے محصول خراجی اور ہلالی کہلاتے تھے۔ مگر فاطمین نے اس محاصل کے علاوہ زکاہ، خمس، فطرہ، نجوی اور جزویہ وغیرہ ہیں۔ زکوۃ اور فطرہ۔ خمس عام طور پر مال غنیمت یعنی لوت پر لیا جاتا تھا۔ فاطمین اپنے مریدوں سے نجوی لیتے تھے۔ یعنی جب مرید جب اسمعیلی دعوت میں داخل ہوتا یا داعی یا امام کی مڈمت میں پیش ہوتا تو وہ ساڑھے تین درہم نذرانہ پیش کرتا تھا۔ متمول مرید ساڑھے تنتیس دینار بھی دیا کرتے تھے۔ اہل کتاب سے جزیہ وصول کیا جاتا تھا۔ اس کی شرح آمر کے زمانے میں ڈیرھ دنیار تھی۔ حافظ کے دور میں اس میں اضافہ کر کے دو دینار مقرر کیے گئے۔ اس کے علاوہ فاطمین کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ قاہرہ کا کرایا بھی تھا۔ شہر کی دوکانیں، ہوٹل، حمام اور جتنی پبلک عمارتیں تھیں تمام شہر خلیفہ کی ملکیت تھا۔ ان سب کا کرایا دو سے دس دینار وصول کیا جاتا تھا

اسٹانلی لین پول کا تبصرہ[ترمیم]

اسٹانلی لین پول کا کہنا ہے کہ فاطمی حکومت جسے برقرار رکھنے میں تو حکمرانوں کی قابلیت تھی اور نہ محکوموں کا اخلاص۔ اکثر خلفائ بڑے عیش پسند تھے اور حکومت وزیروں کے ہاتھوں میں منتقل ہو گئی تھی، جو بار بار اپنے بادشاہوں یا فوج کے متواتر مالی مطالبوں کی وجہ سے جن کے پورا کرنے میں وہ کبھی کامیاب اور کبھی ناکام ہوتے تھے بدل دیے جاتے تھے۔ اکثر وزرا صرف روپیہ سمٹنے میں لگے ہوئے تھے۔ ان کی پالیسوں میں نہ بلند خیالات تھے، نہ حوصلہ مند تجویزیں۔ وہ سلطنت جو معز کے زمانے میں شمالی افریقہ، صقیلہ، شام اور حجاز تک پھیلی ہوئی تھی جلد گھٹ گھٹا کر صرف مصر تک محدود رہے گئے۔ افریقہ اضلاع جو صرف خراج گزاری کے تعلق کے باعث معلق تھے۔ 440ھ میں کھلا کھلم خود مختار ہو گئے اور خلفائے عباسیہ کی پھر سے اطاعت ( برائے نام ہی کیوں نہ ہو ) کرنے لگے۔ شام پوری طرح ان کے قبضہ میں نہیں آیا اور بغاوتوں اور خانہ جنگیوں کا مرکز بنا رہا۔ فقط بلاد عرب میں ان کا اثر زیادہ رہا۔ لیکن ان کی ذاتی کوششوں سے نہیں بلکہ عام شیعی تحریک کی وجہ سے جو بغیر ان کی رہنمائی کے وہاں جاری تھی۔ خود مصر میں ان کی قوت نہ کوئی درست اور معقول بنیاد پر قائم تھی، نہ کوئی عام شیعی عقیدوں کی پابندی یا ان کے نسبتی جھگڑے پر جس کی کئی بار سنی اور شیعی علمائ نے تردید کی۔ ان کا تخت خوف پر مبنی تھا اور ان کی غیر ملکی فوجی کثرت کی ہیبت سے باقی رہا۔ مغرب کی فوجوں میں ہمیشہ ان کے ہم وطن برابر بھرتی کیے جاتے رہے۔ زر آشنا ترکی جو مشرق سے خرید ے جاتے تھے یا خود فوجی ملازمت اختیار کرلیتے تھے اور عیاش سوڈانی جو جنوب سے فراہم کیے جاتے تھے۔ یہ سب مصری خلافت کے حصن حصین تھے اور اس کی دیر پائی کا اصل سبب تھے۔ تاہم اس ظلم کے سامنے یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا مصریوں کے سوا یہ ناقابل برداشت بھاری بوجھ کوئی اور قوم اٹھا سکتی ہے۔ سچ یہ خلافت فاطمہ کی ابتدا طویل تشدد کی کوئی توقع نہ تھی۔

مصر میں اسمعیلی مذہب کا زوال[ترمیم]

مصر میں اکثریت اہل سنت کی تھی۔ اسمعیلیوں کے بعد مذہب شیعی پستی میں چلا گیا۔ اسمعیلی ہوں خوا اثنا عشری انتہائی پستی میں چلا گیا۔ اسمعیلی تو ناپید ہو گئے اور شیعہ بھی مصر میں بہت کم ہیں۔ اسمعیلی اس وقت ہندوستان، پاکستان، یمن، لبنان، شام اورایران کے بعض دیہات میں پائے جاتے ہیں۔

فاطمین کے عقائد[ترمیم]

فاطمین کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول بنایا اور انھیں حکم دیا کہ علیؓ کو اپنا خلیفہ بنائیں اور حضرت علیؓ نے اللہ کے حکم سے خلافت کی امانت ہماری طرف منتقل کی۔ لہذا ہم اللہ کے خلیفہ ہیں اور ہم دنیا میں مذہبی و سیاسی حکمران ہیں۔

اسلام کے جن فرقوں نے مذہب کو فلسفہ سے متحد کرنے کی کوشش کی ان میں متعزلہ اور اسمعیلہ ( فاطمین ) کو قدامت کا شرف حاصل ہے۔ لیکن اسمعیلیوں ( فاطمین ) کا دوسرے شیعی فرقوں کی طرح یہ تھا کہ شریعت کے تمام روحانی علوم کا منبع اور سرچشمہ حضرت علیؓ کی ذات ہے ہیں اور آپ کے بعد ان علوم کی وراثت آپ کی اولاد کو ملی۔ سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے ہوئے امام جعفر صادق تک پہنچے۔ اسمعیلیوں ( فاطمین ) کی روایت کے مطابق امام جعفر صادق نے اس کی اشاعت میں بڑا اہتمام کیا۔

اسمعیلیوں ( فاطمین ) نے اپنی سیاسی عمارت کی بنیاد مذہب پر رکھی تھی۔ جسے وہ دعوت کہتے تھے۔ مہدی سے مستنصر کے زمانے تک ان کی مذہبی سرگرمیں جاری رہیں۔ لیکن مستنصر کے دور میں ہی اس کی قوت گھٹنے لگی۔ مستنصر کی وفات کے بعد خود اسمعیلیوں کے دو فرقے ہو گئے۔ مستعلیوں نے آمر کے قتل کے بعد اپنی دعوت یمن منتقل کردی، نزاریوں نے ’ الموت ‘ کو اپنا مستقر بنایا۔ دروزی جو حاکم کو خدا مانتے تھے مصر چھوڑ کر لبنان منتقل ہو گئے۔ اس طرح اسمعیلیوں ( فاطمین ) کی قوت جو ایک مرکز پر تھی منتشر ہو گئی۔ اسمعیلیوں کے دعوت کے اس اصول کے مطابق امامت باپ کے بعد منتقل ہونی چاہیے۔ لیکن آمر کے بعد اس کا چچا ذاد بھائی حافظ امام بن گیا۔ گو مستعلوی کہتے ہیں کہ آمر کے قتل کے بعد اس کا ڈھائی سالہ بیٹا طبیب حقیقی امام جو نزاریوں کے خوف سے چھپادیا گیا۔ اس وجہ سے بھی بہت سے اسمعیلیوں کے خیلات بدل گئے اور اسمعیلیوں کی قوت کو ضعیف پہنچا۔

یہ بھی کہا جاتا کہ مہدی اور اس کے بعد چند اماموں نے اسمعیلیت کو فروغ دینے کی کوشش کیں، لیکن اس میں ناکام رہے۔ اس لیے صرف سیاسی قوت پر قانع رہے۔ اگرچہ ان کی خاص مجلسوں میں باطنی تعلیم اور مجلسوں کا سلسلہ حاکم کے بعد کچھ عرصہ جاری رہا۔ بربر اور مصری شیعہ حکومت سے راضی تو تھے مگر خود شعیہ بننا نہیں چاہتے تھے اور نہ وہ شیعوں سے ہمدردی رکھتے تھے۔ حلول، ناسخ، آسمانی حق، موروثی حکومت وغیرہ کے عقیدوں ایران جیسی مقبولیت نہیں مل سکی۔ یہی وجہ ہے شیعہ فرقوں کے اکثر بانی ایرانی ہوئے۔ اسمعیلیوں میں بھی چند داعیوں کو چھوڑ کر اکثر داعی ایرانی تھے۔

یہ امر بھی قابل غور ہے کہ خود اسمعیلی مذہب ایک پوشیدہ راز ہے۔ دعوت خود ایک قسم کی فری مسنیری ہے۔ یہ ہر کسی کو اپنی انجمن میں شریک نہیں کرتے تھے اور جسے شریک کرتے تھے اس سے زبر دست عہد و پیمان لیتے تھے۔ باطنی علوم پر لیکچر قیصر خلیفہ کے ایک الگ کمرے میں مخفی طور پر دیے جاتے تھے۔ اسعیلیوں نے اپنے مذہبی اصولوں کی کبھی کہیں بھی کھلا کھلم تبلغ نہیں کی۔ ان یہ عقیدہ ہے کہ اس زمانے میں یہ صلاحیت نہیں کہ علم باطن ظاہر ہو سکے۔ قائم القیامۃ ہی کہ عہد میں باطن پورے طور پر آشکار ہوگا۔ اس میں کوئی تعجب نہیں ہے کہ اسمعیلیت کبھی عام طور پر پھیلی نہیں اور صرف چند افراد ہی تھے کہ اپنے مذہب سے پوری طرح واقف ہوں۔

فاطمین اپنے مذہبی اور سیاسی معملات کو بہت چھپاتے تھے۔ اس طرح یہ اپنے چانشینوں کے نام چھپاتے تھے اور ان پر اکثر نص بہت ہی خفیہ کرتے تھے۔ اکثر خلیفہ کی موت کا اعلان کے سال کے بعد کیا جاتا تھا۔

فاطمین کے عقائد[ترمیم]

فاطمین کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول بنایا اور انھیں حکم دیا کہ علیؓ کو اپنا خلیفہ بنائیں اور حضرت علیؓ نے اللہ کے حکم سے خلافت کی امانت ہماری طرف منتقل کی۔ لہذا ہم اللہ کے خلیفہ ہیں اور ہم دنیا میں مذہبی و سیاسی حکمران ہیں۔

شیعوں کے تمام فرقوں کی طرح اسماعیلی بھی باشاہوں کے خدائی حق کے قائل تھے۔ ان کہنا ہے کہ آدم کو اللہ نے اپنا خلیفہ بنایا اور بندوں کو اختیار نہیںہے کہ وہ کسی کو خلیفہ مقرر کریں۔ اللہ نے آدم کو حکم دیا وہ اپنا جانشین مقرر کرے۔ اس طرح ان کا قائم مقام بھی خدا کا خلیفہ کہلاتا ہے۔ خدا کی خلافت ہمیشہ زمین پر قائم رہے تی ہے اور یہ کبھی منقطع نہیں ہوتی ہے اور یہ سلسلہ ہمیشہ روئے زمین پر جاری رہتا ہے۔ کسی امام کا اپنا جانشین مقرر کرنا نص و توقیف کہلاتا ہے۔ بغیر نص و توقیف کے کسی امام کا قیام جائز نہیں ہے۔ اس میں بندوں کی رائے اور اجماع کا کوئی دخل نہیں ہے۔

فہرست خلفائے فاطمین[ترمیم]

  1. ابو محمد عبداللہ المہدی باللہ 297 ھ تا 322 ھ
  2. ابو القاسم محمد القائم بامراللہ 322 ھ تا 334 ھ
  3. ابو طاہر اسمعیل المنصور باللہ 334 ھ تا 341 ھ
  4. ابو تمیم معد المعز الدین اللہ 341 ھ تا 365 ھ
  5. ابو منصور نزار العزیز باللہ 365 ھ تا 386 ھ
  6. ابو الحسین الحاکم بامراللہ 386 ھ تا 411 ھ
  7. ابو معد علی الظاہر 411 ھ تا 427 ھ
  8. ابوتمیم معد المستنصرباللہ 427 ھ تا 487 ھ
  9. ابو القاسم احمد المستعلی با اللہ 487 ھ تا 495ھ
  10. ابو علی منصور الامر باحکام اللہ 495 ھ تا 524 ھ
  11. ابوالمیمون عبدالمجید الحافظ الدین 524 ھ تا 544 ھ
  12. ابو منصور اسماعیل الظافر لاعدائ اللہ 544 ھ تا 549 ھ
  13. ابوقاسم عیسیٰ الفائز بامرللہ 549 ھ تا 555 ھ
  14. ابو محمد عبداللہ العاصد الدین اللہ 555 ھ تا 567 ھ

مزید دیکھیے[ترمیم]

دولت فاطمیہ کے آثار[ترمیم]

دنیا کے اسٹیج پر دوسری حکومتوں کی طرح دولت فاطمیہ بھی جلوہ افروز ہوئی اور غائب ہو گئی اس کے عظیم الشان محلوں، مساجد وں مدرسوں کتب خانوں رصد گاہوں سیر گاہوں اور خزانوں کا جن جن کی تفصیل آپ تاریخ فاطمین مصر میں پڑھ سکتے ہیں اب تو کہی کہیں بھی کوئی نشان باقی نہیں، سب کے سب گردشوں میں غم ہو گئے ولا غر و فقد لیکن ان کا شان دار کارنامہ جامع الازہر اب تک باقی ہے یہی دولت فاطمیہ کی بقا کے لیے کافی ہے، علامہ ذہبی رحمہ اللہ وبرکاتہ فرماتے ہیں کہ خلافت عبیدیہ جو فاطمی خلفاء کہلاتے ہیں مجوسیوں اور یہودیوں جیسی تھی ان کا اسلام سے کوئی واسطہ نہ تھا جب ابن طبا طبا علوی نے عبیداللہ مہدی سے حسب و نسب ک پوچھا تو اس نے جواب میں کچھ اس طرح کیا تلوار میان سے نکالی اور کہا یہ میرا نسب ہے اور جوہر کی دولت وزارء امرا پر نثار کی تو کہا کہ یہ میرا حسب ہے،

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Peter Turchin، Jonathan M. Adams، Thomas D Hall (دسمبر 2006)۔ "East-West Orientation of Historical Empires" (PDF)۔ Journal of world-systems research۔ 12 (2): 219–229۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 9 جنوری 2012  آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ jwsr.ucr.edu (Error: unknown archive URL)
  2. ابن حماد (d. 1230) in Akhbar al-Muluk Bani Ubayd (ed. Paris, 1927, p. 57) mentions that Al-Mansur Billah in 948 after his victory over Abu Yazid was met at Kairouan by the notables mounted on fine horses and carrying drums and green flags. While green is often referred to as the dynastic colour of the Fatimids, it appears that the Fatimid caliphate did also use white, in opposition to the black used by the Abbasid Caliphate۔ "The Ismaili Shiʿite counter-caliphate founded by the Fatimids took white as its dynastic color, creating a visual contrast to the ʿAbbasid enemy … white became the Shiʿite color, in deliberate opposition ot the black of the ʿAbbasid 'establishment'۔" Jane Hathaway, A Tale of Two Factions: Myth, Memory, and Identity in Ottoman Egypt and Yemen، 2012, p. 97f.
  • ڈاکٹر زاہد علی۔ تاریخ فاطمین مصر

بیرونی روابط[ترمیم]