کملا دیوی چٹوپادھیائے

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
کملا دیوی چٹوپادھیائے
(بنگالی میں: কমলাদেবী চট্টোপাধ্যায় ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
پیدائش 3 اپریل 1903(1903-04-03)
منگلور، مدراس پریزیڈنسی، برطانوی ہند
وفات 29 اکتوبر 1988(1988-10-29) (عمر  85 سال)
ممبئی، مہاراشٹر، بھارت
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رکنیت نیشنل فلیگ پریزنٹیشن کمیٹی [1]  ویکی ڈیٹا پر (P463) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سیاسی کارکن ،  حریت پسند   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
IMDB پر صفحہ  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

کملا دیوی چٹوپادھیائے (3 اپریل 1903ء – 29 اکتوبر 1988ء) ایک بھارتی سماجی مصلح اور آزادی کی فعالیت پسند تھیں. وہ تحریک آزادی ہند میں ان کی شراکت، آزاد ہند میں ہندوستانی فن اور ثقافت کی نشاة ثانیہ کی شروعات اور بھارتی عورتوں کی سماجی اقتصادی ترقی کے لیے جانی جاتی ہیں۔ وہ مدراس سے انتخابات میں کھڑی ہونے والی پہلی خاتون تھیں. سو انتخابات میں ہارنے کے باوجود وہ کئی بھارتی عورتوں کے لیے پریرتا کا ذریعہ بنیں.

چٹوپادھیائے کو نیشنل اسکول آف ڈرامہ، سنگیت ناٹک اکادمی، سینٹرل کاٹیج انڈسٹریز ایمپوریم اور کرافٹس کونسل آف انڈیہ سمیت کئی ثقافتی اداروں کے تعین کا آبرو دیا جاتا ہے۔ وہ بھارتی عوام کی سماجی اور اقتصادی ترقی میں دستکاری اور شعبی تحریکوں کی اہمیت کے متعلق بحث شروع کرنے والی اول ترین شخصیات میں شمار ہیں۔ اس کی وجہ سے انھیں قبل اور بعد آزادی کئی بڑی کمپنیوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا.

1974ء میں انھیں سنگیت ناٹک اکادمی اعزاز ملا تھا جسے سنگیت ناٹک اکادمی کا عزیز ترین اعزاز سمجھا جاتا ہے.[2] انھیں حکومت ہند کی طرف سے 1955ء میں پدم بھوشن اور 1987ء میں پدم وبھوشن دیا گیا تھا۔ کرگا کے شعبے میں ان کی شراکت کے لیے انھیں ہاتھ کرگھا ماں کے نام سے بھی جانا جاتا ہے.

سوانح[ترمیم]

ابتدائی زندگی[ترمیم]

3 اپریل 1903ء کو منگلور، کرناٹک کے ایک سارسوت براہمن خاندان میں جنمی کملا دیوی اپنے والدین کی چوتھی اور سب سی چھوٹی بیٹی تھیں.[3] ان کے والد اننتیہ دھاریشور منگلور کے حاکم ضلع تھے اور ان کی والدہ گرجا بائی، جن کی وجہ سے انھیں آزادی متعلقہ معاملات میں دلچسپی ہوئی، کراوالی کے زمین دار چترپور سارسوت براہمن خاندان سے تعلق رکھتی تھیں. کملا دیوی کے جد امجد قدیم بھارتی اساطیروں اور پرانوں میں ماہر تھے اور گرجا بائی بھی تعلیم یافتہ تھیں حالانکہ ان کی پڑھائی گھر میں ہی کی گئی تھی. طفلی سے ہی کملا دیوی کو اپنی فہم اور قلب پر دھیان دینے کی سیکھ دی گئی تھی اور اسی کی وجہ سے وہ مشہور ہوئیں.

کملا دیوی ایک مستثنیٰ طالبہ تھیں اور بہت چھوٹی عمر سے ہی عازم تھیں. ان کے والدین کی مہادیو گوویند رانڈے، گوپال کرشن گوکھلے، رما بائی رانڈے اور اینی بیسنٹ جیسے آزادی کے فعالیت پسندوں اور قائدوں کے ساتھ دوستی تھی. لہذا وہ بچپن سے ہی سودیشی تحریک میں دلچسپ تھیں.

کملا دیوی نے ناٹیاچاریہ پدم شری مانی مادھو چاکیار سے ان کے کیلیکوریشیمنگلم کے گھر میں قدیم سنسکرت ناٹکی ثقافت کوڈئیاٹم کی تعلیم لی تھی.[4]

ان کی بڑی بہن اور سب سے چہیتی دوست سگن، جنہیں کملا دیوی ایک مثالی شخصیت سمجھتی تھیں، اپنی شادی کے بعد ہی گذر گئیں۔ جب کملا دیوی سات سال کی تھیں تب ان کے والد بھی بلا وراثت نامہ چھوڑے چل بسے. اسی لیے اس زمانے کے قانون کے مطابق ساری جائداد ان کے سوتیلے بھائی کو مل گیا اور کملا دیوی اور ان کی والدہ کو صرف مہینے بھر کے پیسے ملتے تھے۔ گرجا بائی نے ان پیسوں کو قبول کرنے کی بجائے اپنے جہیز کے پیسوں سے اپنی بیٹیوں کی پرورش کرنے کا فیصلہ کیا.

کملا دیوی پہلے سے ہی سرکش ہونے کے وجہ سے اپنی والدہ کے گھر گرہستی میں اشرافیائی بنٹوارے پر سوال اٹھاتی تھی اور نوکروں کے ساتھ گھل مل جانا پسند کرتی تھیں.

پہلی شادی اور بیوگی[ترمیم]

چٹوپادھیائے کی 1917ء میں 14 سال کی عمر میں شادی ہوئی تھی مگر دو سالوں میں ہی بیوہ ہو گئیں.[5]

1920ء کی دہائی[ترمیم]

ہریندر ناتھ سے شادی[ترمیم]

چنائی میں کوین میریز کالج میں پڑھائی کے سلسلے میں کملا دیوی کی سروجنی نائڈو کی چھوٹی بہن سہاسنی چٹوپادھیائے کے ساتھ جان پہچان ہوئی جنھوں نے انھیں اپنے بھائی، شاعر اور اداکار ہریندر ناتھ چٹوپادھیائے، سے ملوایا. ان دونوں کی فنون میں دلچسپی کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے قریب ہونے لگے.

آخر میں بیس سال کی عمر میں ان دونوں کی شادی ہوئی. اس دور میں بیواؤں کو دوسری شادی کرنے کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ اس شادی کے خلاف تھے۔ ان کا اکلوتا بیٹا رام ایک سال بعد پیدا ہوا.[6] ہرین اور کملا دیوی اپنے عام خوابوں کا تعاقب کرنے کے لیے ساتھ رہے اور کئی ناٹک رچے.

بعد میں انھوں نے کچھ فلموں میں کام کیا حالانکہ اس زمانے میں قابل احترم خاندانوں کے عورتوں کو اداکاری میں شامل ہونے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ شروعات کے لیے انھوں نے کنڑ فلمی صنعب کی پہلی خاموش فلم مرچھکٹک میں کام کیا جو علمبردار ہدایت کار موہن دیارام بھونانی کی ہدایت کاری میں بنی تھی. وقفے کے بعد انھوں نے 1943ء میں تان سین، 1943ء میں شنکر پاروتی اور 1945ء میں دھنا بھگت جیسی ہندی فلموں میں کام کیا.[7][8]

آخر کار شادی کے کئی سال بعد وہ دونوں ایک دوسرے سے دوستانہ طور پر جدا ہوئے. کملا دیوی نے اس دور کے روایتوں کے خلاف جا کر ہرین سے طلاق مانگا.

لندن کی طرف ہجرت[ترمیم]

ان کی شادی کے ٹھیک بعد ہرین پہلی بار لندن چلے گئے اور کچھ ہی مہینوں بعد کملا دیوی بھی ان کے پاس چلی گئیں جہاں انھوں نے بیڈفرڈ کالج، جامعہ لندن سے معاشرتی علم میں ڈپلوما حاصل کی.[9]

تحریک آزادی کا بلاوا[ترمیم]

1923ء میں جب کملا دیوی لندن میں ہی تھیں تب انھیں مہاتما گاندھی کی تحریک عدم تعاون کے متعلق معلوم پڑا اور وہ فوراً سماجی ترقی کے لیے گاندھی کی طرف سے قائم کیا گیا سیوا دل میں شامل ہونے کے لیے بھارت لوٹیں. جلد ہی انھیں دل میں شعبۂ خواتین کا ان چارج بنایا گیا جہاں پر انھوں نے ہر عمر کی عورتوں کو سیویکا بننے کی تعلیم دی.

1926ء میں وہ کل ہند خواتین کانفرنس کی بانی مارگریٹ کزنز سے ملی جنھوں نے انھیں مدراس پریزیڈنسی قانون ساز اسمبلی میں کھڑی ہونے کا مشورہ دیا۔ وہ بھارت سے انتخابات میں کھڑی ہونے والی پہلی خاتون تھیں. حالانکہ وہ انتخابات میں ہار گئیں، وہ کئی بھرتی عورتوں کے لیے پریرتا کا ذریعہ بنیں.

کل ہند خواتین کانفرنس[ترمیم]

اگلے سال وہ کل ہند خواتین کانفرنس کی بانی رکن بن گئیں اور اس کی پہلی آرگنائزنگ سکریٹری تھیں. آگے کے سالوں میں کل ہند خواتین کانفرنس بڑی ہو کر شہرت کی ایک قومی تنظیم بن گئی جس کی شاخیں اور رضاکارانہ پروگرام پورے ملک میں چلائے جانے لگے. اپنے دور میں انھوں نے بہت سے یورپی ممالک کا بڑے پیمانے پر سفر کیا اور سماجی اصلاحات اور کمیونٹی ویلفیئر کے کئی پروگرام شروع کیا. اس سلسلے کی ایک اور روشن مثال نئی دہلی میں لیڈی ارون کالج فار ہوم سائنسز کا قیام تھا جو اپنے زمانے کی خواتین کے لیے مشہور ترین کالجوں میں سے ایک تھا.

1930ء کی دہائی[ترمیم]

بعد میں وہ مہاتما گاندھی کی طرف سے اعلان کردہ ممبئی کے ساحل پر نمک مارچ کی تیاری کرنے والی ٹولی کا حصہ تھیں جس میں اونتکا بائی گوکھلے کے علاوہ وہ اکلوتی عورت رکن تھیں. اسی دوران انھوں نے نزدیک مقیم ہائی کورٹ میں جا کر وہاں کے حاکم ضلع کو پوچھا کہ اگر وہ "نمک آزادی" خریدنے میں دلچسپی لیں گے جو چٹوپادھیائے نے حال ہی میں تیار کیا تھا۔

26 جنوری 1930ء کو انھیں میڈیہ سے بہت توجہ ملی تھی جب انھوں نے ایک دھینگا مشتی کے دوران بھارتی تری رنگا کو بچانے کے لیے اس کو اپنے جسم پر لپیٹا تھا.[10]

1940ء کی دہائی[ترمیم]

جنگ عظیم دوم کی شروعات میں کملا دیوی برطانیہ میں تھیں. فوراً ہی وہ بھارت کی حالات کا ذکر کر جنگ کے بعد آزادی کے لیے حمایت بٹولنے لگیں.

اسی دوران انھوں نے جنوبی ریاستہائے امریکا کا سفر کیا تھا۔ 1941ء میں وہ ایک علیدہ ریل گاڑی میں چڑھیں. لویزیانہ میں بس کمڈکٹر نے انھیں گوروں کے لیے مخصوص گاڑی سے ہٹانے کی کوشش کی. جب اسے احساس ہوا کہ وہ سیاہ ذات کی نہیں ہیں تو کمڈکٹر الجھن میں پڑ گیا اور ان سے پوچھا کہ وہ کہاں سے ہیں۔ جب انھوں نے جواب میں "نیو یارک" کہا تو اس نے پوچھا کہ وہ کہاں سے آئی ہیں۔ پھر انھوں نے کہا، "اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا. میں گوری نہیں ہوں اور آپ کے پاس مجھے پریشان کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیوں کہ میں یہاں سے نہیں ہٹنے والی." کمڈکٹر نے انھیں وہیں چھوڑ دیا.[11]

بعد از آزادی[ترمیم]

ہندوستان کی آزادی کے بعد تقسیم کا آغاز ہوا اور وہ پناہ گزین کی بحالی میں ملوث ہو گئیں۔ انھوں نے پہلے بھارتی تعاون یونین کھڑا کیا جس کے ذریعے انھوں نے کوآپریٹیو لائنوں میں بستی کا منصوبہ بنایا. بہت وقت بعد نہرو نے انھیں اجازت دی لیکن اس شرط پر کہ وہ ریاستی مدد نہیں مانگیں گی. بہت جد و جہد کے بعد دہلی کے مضافات میں فرید آباد کھڑا ہوا تھا جہاں شمال مغربی سرحدی صوبہ کے پناہ گزین کی بحالی ہوئی. انھوں نے پناہ گزیں کو گھر بنانے اور روزگار دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ انھوں نے آباد میں ہسپتال بنانے میں مدد کی.

اس کے بعد وہ لوگوں کے ساتھ ان کے گمشدہ فنون کی بحالی میں ملوث ہونے لگیں. انھیں آزادی کے بعد بھارتی دستکاری کو پھر سے مشہور بنانے کا آبرو دیا جاتا ہے اور اسے جدید بھارت کے لیے ان کی سب سے بڑی شرکت سمجھا جاتا ہے.[12]

1950ء کی دہائی اور اس کے بعد[ترمیم]

اس دہائی میں وہ بھارت کی ترقی کی خاطر بھارت میں کارخانوں میں بڑے پیمانے میں پیداوار کرنے والے نہرو کے منصوبے سے غیر منظم شعبوں میں روایتی کاریگروں اور عورتوں پر آثار کے بارے میں فکر مند ہو گئیں۔ انھوں نے بھارتی دیسی فنون اور دستکاریوں کی پیشی اور حفاظت کے لیے دہلی میں مقیم تھیٹر کرافٹس میوزیم کئی عجائب خانوں کی استھپنا کی.

انھوں نے فن اور دستکاری کی ترقی کے لیے قومی اعزاز برائے ماہر دستکار دینا شروع کیا جس کے نتیجے کے طور پر بھارت کی مختلف جگہوں پر سینٹرل کاٹیج انڈسٹریز ایمپوریہ قائم ہوا.

1964ء میں انھوں نے بھارتیہ ناٹیہ سنگھ کے تحت بنگلور میں ناٹیہ ادارۂ کتھک اور رقص قائم کیا جویونیسکو سے وابستہ ہے۔ اس کا ناظم مشہور رقاصہ مایا راؤ تھیں.

چٹوپادھیائے اپنے وقت سے آگے کی خاتون تھیں، اکھل بھارتیہ دستکاری بورڈ کے قیام میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا تھا اور وہ اس تنظیم کی پہلی نظام تھیں. ان کی ہدایت میں کھڑا کرافٹس کونسل آف انڈیہ ورلڈ کرافٹس کونسل کی پہلی ایشیائی شاخ تھا.[13]

چٹوپادھیائے نے نیشنل اسکول آف ڈرامہ کا قیام کیا اور بعد میں انیسکو کے رکن سنگیت ناٹک اکادمی کی ہدایت کی. ان کی مشہور و معروف خود نوشت انر ریسیسیز اینڈ آؤٹر سپیسیز: میموار 1986ء میں شائع کی گئی۔ 29 اکتوبر 1988ء کو 85 سال کی عمر میں ممبئی میں ان کی وفات ہو گئی.

اعزازات اور افتخارات[ترمیم]

چٹوپادھیائے کو حکومت ہند کی طرف سے 1955ء میں پدم بھوشن اور 1987ء میں پدم وبھوشن دیا گیا تھا جو جمہوریہ بھارت کی عزیز ترین سرکاری اعزازات میں شمار ہیں.[14] انھیں 1966ء میں رامن میگ سیسے انعام برائے سماجی قیادت اور 1974ء میں سنگیت ناٹک اکادمی کی عزیز ترین سنگیت ناٹک اکادمی اعزاز کے ساتھ رتن رکن کا خطاب ملا تھا.[15]

یونیسکو نے 1977ء میں انھیں دستکاری کی ترقی میں ان کی شراکت کے لیے ایک انعام دیا تھا. شانتی نیکیتن نے انھیں اپنی عزیز ترین دیسیکوتما اعزاز سے نوازا تھا.[16]

3 اپریل 2018ء کو ان کی 115 ویں سالگرہ کے موقع پر گوگل نے اپنے اول صفحے پر ان پر مبنی ڈوڈل پیش کیا تھا.[17]

کملا دیوی چٹوپادھیائے کی کتب[ترمیم]

  • The Awakening of Indian women۔ ایوری مینز پریس۔ 1939ء 
  • Japan: Its weakness and strength۔ پدما پبلیکیشنز۔ 1943ء 
  • Uncle Sam's empire۔ پدما پبلیکیشنز۔ 1944ء 
  • In war-torn China۔ پدما پبلیکیشنز۔ 1944ء 
  • Towards a National Theatre۔ اوندھ پب ٹرسٹ۔ 1945ء 
  • America: The land of superlatives۔ فینکس پبلیکیشنز۔ 1946ء 
  • At the Cross Roads۔ نیشنل انفارمیشن اینڈ پبلیکیشنز۔ 1947ء 
  • Socialism and Society۔ چیتنا۔ 1950ء 
  • Indian Handicrafts۔ ممبئی: ایلائڈ پبلشرز پرائیویٹ لمیٹڈ۔ 1963ء 
  • Indian Carpets and Floor Coverings۔ وائلی ایسٹرن۔ 1974ء 
  • Tribalism in India۔ برل اکیڈمک پب۔ 1978ء۔ ISBN 0706906527 
  • Indian Women's Battle for Freedom۔ ساؤتھ ایشیاء بکس۔ 1983ء۔ ISBN 0-8364-0948-5 
  • Inner Recesses, Outer Spaces: Memoirs۔ 1986ء۔ ISBN 81-7013-038-7 
  • Handicrafts of India۔ نئی دہلی: انڈین کونسل فور کلچرل ریلیشنز اور نیو ایج انٹرنیشنل پب لمیٹڈ۔ 1995ء۔ ISBN 99936-12-78-2 
  • India's Craft Tradition۔ حکومت بھارت۔ 2000ء۔ ISBN 81-230-0774-4 
  • Traditions of Indian Folk Dance 
  • The Glory of Indian Handicrafts۔ نئی دہلی: کلیرین بکس۔ 1985ء 

کملا دیوی چٹوپادھیائے پر کتب[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. http://164.100.47.194/Loksabha/Debates/cadebatefiles/C14081947.html
  2. "SNA: List of Sangeet Natak Academy Ratna Puraskarwinners (Academy Fellows)"۔ 4 مارچ 2016ء میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  3. "Who was Kamaladevi Chattopadhyay?"۔ دی انڈین ایکسپریس (بزبان انگریزی)۔ 3 اپریل 2018ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2022ء 
  4. داس بھارگونلیم (1999)۔ Mani Madhaveeyam۔ حکومت کیرل۔ صفحہ: 272۔ ISBN 81-86365-78-8۔ 15 فروری 2008ء میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  5. "A Freedom Fighter With a Feminist Soul, This Woman's Contributions to Modern India Are Staggering!"۔ د بیٹر انڈیہ۔ 3 اپریل 2017ء۔ 7 نومبر 2017ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اکتوبر 2017ء 
  6. جی ایس بھارگو (16 اکتوبر 2007ء)۔ "Kamaladevi Chattopadhyay: The Many-splendoured Figure"۔ مین سٹریم۔ 3 اپریل 2018ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 اپریل 2018ء 
  7. "International Film Festival of India"۔ 21 جولائی 2011ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2007ء 
  8. انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر کملا دیوی چٹوپادھیائے
  9. "Kamaladevi Chattopadhyaya | Making Britain"۔ www.open.ac.uk۔ 7 نومبر 2017ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اکتوبر 2017ء 
  10. Kamala Devi Centenary Celebrated, نہرو سینٹر آرکائیو شدہ 2007-10-15 بذریعہ وے بیک مشین
  11. نیکو سلیٹ (15 جنوری 2012ء)۔ Colored Cosmopolitanism: The Shared Struggle for Freedom in the United States and India (بزبان انگریزی)۔ جامعہ ہارورڈ چھاپاخانہ۔ ISBN 978-0-674-05967-2 
  12. "Kamaladevi Chattopadhyaya at IGNCA"۔ 7 جولائی 2007ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 نومبر 2007ء 
  13. Kamala centenary, ورلڈ کرافٹس کونسل آرکائیو شدہ 2007-10-26 بذریعہ وے بیک مشین
  14. "Padma Awards" (PDF)۔ وزارت داخلہ، حکومت ہند۔ 2015ء۔ 15 اکتوبر 2015ء میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جولائی 2015ء 
  15. "Ratna Sadsya"۔ سنگیت ناٹک اکادمی۔ 27 ستمبر 2007ء۔ 27 ستمبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 نومبر 2022 
  16. "A tribute to Kamaladevi Chattopadhyay"۔ د ہندو (بزبان بھارتی انگریزی)۔ 21 اپریل 2016ء۔ 7 نومبر 2017ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اکتوبر 2017ء 
  17. "Kamaladevi Chattopadhyay's 115th Birthday - Google Doodle"۔ 3 اپریل 2018ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 اپریل 2018ء 

مزید پڑھیے[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]