داؤد بن دینار

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
داؤد بن دینار
معلومات شخصیت

داؤدبن دینار تابعین میں سے ایک ہیں۔آپ نے 139ھ میں وفات پائی۔

نام ونسب[ترمیم]

داؤد نام، ابوبکر کنیت، طہمان القسیری کے غلام تھے۔اصل وطن سرخس تھا، لیکن بصرہ میں سکونت اختیار کر لی تھی۔

فضل وکمال[ترمیم]

داؤد کا پیشہ خیاطی تھا۔ [1] لیکن یہ پیشہ انھیں تحصیل علم اور کسبِ کمال سے نہ روک سکا، انھوں نے خیاطی کے ساتھ ساتھ قرآن، حدیث اور فقہ میں اتنا کمال حاصل کر لیا کہ حافظ ذہبی انھیں امام حافظ اور مفتی لکھتے ہیں۔ [2]

تعلیم قرآن[ترمیم]

قرآن کے ساتھ انھیں خاص شغف تھا، اس شغف کا باعث ایک خاص واقعہ ہوا جو خود انہی کی زبان میں یہ ہے کہ میں ایک مرتبہ طاعون میں مبتلا ہوا، بیہوشی کی حالت میں مجھے نظر آیا کہ میرے پاس دو آدمی آئے ہیں، ان میں سے ایک نے میری زبان کی جڑ کو اور دوسرے نے میرے تلوے کو دبا کر ایک نے دوسرے سے پوچھا کیا چیز معلوم ہوتی ہے۔ دوسرے نے جواب دیا تسبیح تکبیر اور کچھ مسجد کی طرف چلنا اور تھوڑی سی قرآن کی قرأت، میں نے اس وقت تک قرآن حاصل نہ کیا تھا بیماری سے اٹھنے کے بعد ہمہ تن تعلیم قرآن کی طرف متوجہ ہو گیا اور اس کو حاصل کر لیا۔ [3]

حدیث[ترمیم]

حدیث کے وہ ممتاز حفاظ میں تھے، علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کان ثقۃ کثیر الحدیث [4] حافظ ذہبی امام حافظ اور ثبت لکھتے ہیں [5] حدیث میں انھوں نے ابو العالیہ، سعید بن مسیب، ابو عثمان نہدی، شعبی، عکرمہ، عززہ بن عبد الرحمن، محمد بن سیرین، ابوزبیر، مکحول شامی وغیرہ سے سماع کیا تھا اور شعبہ، ثوری، مسلمہ بن علقمہ، ابن جریح، حماد، وہیب بن خامہ عبد الوارث ابن سعید، عبد الاعلی ابن الاعلی، یحییٰ قطان، یزید بن زریع اور یزید بن ہارون وغیرہ ان کے زمرہ تلامذہ میں تھے۔ [6]

ان کی مرویات کی تعداد دو سو تک پہنچتی ہے [7] کیفیت کے اعتبار سے ان کی مرویات کے متعلق ائمہ فن کی یہ رائے تھی، امام احمد بن حنبل فرماتے تھے کہ وہ ثقہ ہیں ایک مرتبہ کسی نے داؤد کے بارے میں آپ سے پوچھا آپ نے فرمایا داؤد جیسے شخص کے متعلق بھی پوچھنے کی ضرورت ہے ؟[8] ابن حبان لکھتے ہیں کہ وہ متقنین فی الروایہ میں تھے [9] عجلی کہتے ہیں کہ وہ ثقہ، جید الاسناد اور رفیع تھے (ایضاً) ان کی روایات صحاح کی تمام کتابوں میں ہیں۔

فقہ[ترمیم]

ان کے تفقہ کے لیے یہ سند کافی ہے کہ بصرہ جیسے علمی مرکز کے مفتی تھے۔ [10]

قوت استدلال[ترمیم]

اس علم کے ساتھ اُن کا دماغ نہایت عقلی تھا قوتِ استدلال ایسی زبردست تھی کہ بڑے سے بڑے معترضین کو دو جملوں میں خاموش کردیتے تھے، ایک مرتبہ شام گئے، وہاں غیلان قدری سے ملاقات ہوئی، اس نے کہا میں آپ سے چند مسائل پوچھنا چاہتا ہوں، آپ نے جواب دیا تم پچاس مسائل پوچھ سکتے ہو، لیکن مجھے دوسوالوں کی اجازت دو، غیلان نے کہا، فرمائیے آپ نے سوال کیا، خدا نے انسان کو سب سے افضل کون سی شے عطا کی ہے؟غیلان نے کہا عقل، فرمایا اچھا بتاؤ عقل اختیاری شے ہے جس کا دل چاہے لے اورجس کا دل چاہے نہ لے یا خدا کی جانب سے تقسیم ہوتی ہے غیلان ان چند جملوں کو سن کر خاموشی سے چلا گیا، اورکوئییی جواب نہ دے سکا، اس وقت داؤد نے کہا عقل ہی کی طرح خدا نے ایمان و مذہب ہر شے تقسیم فرمائی ہے، خدا ہی کی قوت اصل ہے [11] اورجب تمام امور خدا کی طرف سے ہوئے تو پھر قدر کہا ں رہ گیا۔

عمل[ترمیم]

اس علم کے ساتھ داؤد نے عمل کی دولت سے بھی وافر حصہ پایا تھا، حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ راس فی العلم والعمل تھے [12] حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ وہ صالح آدمی تھے [13] راستہ چلتے بھی خدا کا ذکر جاری رہتا تھا [14] چالیس سال تک مسلسل روزے رکھے اور لوگوں کو خبر تک نہ ہونے پائی، صبح کو گھر سے کھانا لے کر دکان چلے جاتے تھے اورراستہ میں اس کو خیرات کردیتے تھے اورشام کو گھر واپس ہوکر افطار کرتے تھے۔ [15]

وفات[ترمیم]

139ھ میں حج سے واپسی میں راستہ میں وفات پائی۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (تہذیب التہذیب:3/204)
  2. (تذکرہ الحفاظ:1/131)
  3. (ابن سعد، ج 7،ق2،ص20)
  4. (ایضاً)
  5. (تذکرۃ الحفاظ :1/131)
  6. (تہذیب التذہیب:3/204)
  7. (تہذیب الکمال:111)
  8. (تہذیب التہذیب:3/204)
  9. (ایضاً)
  10. (تذکرہ الحفاظ:1/131)
  11. (تذکرۃ الحفاظ:1/131)
  12. (ایضاً)
  13. (تہذیب التہذیب:3/204)
  14. (تذکرہ الحفاظ :1/132)
  15. (ایضا:132)