صفیہ بنت عبد المطلب
صفیہ بنت عبد المطلب | |
---|---|
(عربی میں: صَفِيَّة بنت عبد المطّلب بن هَاشِم القُرَشية الهاشمية) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 570ء مکہ |
وفات | سنہ 640ء (69–70 سال) مدینہ منورہ |
مدفن | جنت البقیع |
شوہر | حارث بن حرب عوام بن خویلد |
اولاد | زبیر ابن العوام ، ام حبيب بنت عوام |
والد | عبد المطلب |
والدہ | ہالہ بنت وہب |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، محدثہ |
مادری زبان | عربی |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوہ احد ، غزوہ خندق ، غزوہ خیبر |
درستی - ترمیم |
صفیہ بنت عبد المطلب صحابیہ جو عبدالمطلب کی صاحبزادی اور آنحضرت کی پھوپھی تھیں۔
نام و نسب
[ترمیم]حضرت سیدہ صفیہ نام، عبد المطلب جدّ رسول اللہﷺ کی دختر تھی، والدہ کا نام ہالہ بنت وہب جو حضرت آمنہ بنت وہب کی بہن تھیں اس لحاظ سے صفیہ بنت عبد المطلب آنحضرت کی خالہ زاد بہن بھی تھیں نیز آپ سید الشہداء حضرت حمزہ کی حقیقی بہن تھیں۔
ازدواجی حیثیت
[ترمیم]صفیہ کا پہلا نکاح ابو سفیان بن حرب کے بھائی حارث بن حرب سے ہواجس سے ایک لڑکا پیدا ہوا۔ اس کے انتقال کے بعد آپ کا نکاح حضرت خدیجہ کے بھائی عوام بن خویلد سے ہو گیا۔
اولاد
[ترمیم]آپ عشرہ مبشرہ میں شامل زبیر ابن العوام کی والدہ تھیں۔
قبول اسلام
[ترمیم]آنحضرت کی بعثت کے ساتھ ہی آپ نے اسلام قبول کر لیا۔ آنحضرتﷺ کی تمام پھوپھیوں میں یہ شرف صرف صفیہ کو حاصل ہے کہ انھوں نے اسلام قبول کیا اسد الغابہ میں ہے: وَالصَّحِیْحُ اَنَّہٗ لَمْ یُسْلِمْ غَیْرُھَا۔ ’’یعنی صحیح یہ ہے کہ ان کے سوا آنحضرتﷺ کی کوئی پھوپھی ایمان نہیں لائیں۔‘‘
دینی خدمات
[ترمیم]غزوہ احد اور غزوہ خندق میں انھوں نے بڑی بہادری دکھائی۔ یہ بہت شیر دل اور بہادر خاتون ہیں جنگ خندق کے موقع پر تمام مجاہدین اسلام کفار کے مقابلہ میں صف بندی کر کے کھڑے تھے اور ایک محفوظ مقام پر سب عورتوں بچوں کو ایک پرانے قلعہ میں جمع کر دیا گیا تھا اچانک ایک یہودی تلوار لے کر قلعہ کی دیوار پھاندتے ہوئے عورتوں کی طرف بڑھا اس موقع پرصفیہ اکیلی اس یہودی پر جھپٹ کر پہنچیں اور خیمہ کی ایک چوب اکھاڑ کر اس زور سے اس یہودی کے سر پر ماری کہ اس کا سر پھٹ گیا اور وہ تلوار لیے ہوئے چکرا کر گرا اور مرگیا پھر اسی کی تلوار سے اس کا سر کاٹ کر باہر پھینک دیا یہ دیکھ کر جتنے یہودی عورتوں پر حملہ کرنے کے لیے قلعہ کے باہر کھڑے تھے بھاگ نکلے اسی طرح جنگ احد میں جب مسلمانوں کا لشکر بکھر گیا یہ اکیلی کفار پر نیزہ چلاتی رہیں یہاں تک کہ حضورﷺ کو ان کی بے پناہ بہادری پر سخت تعجب ہوا اور آپ ﷺ نے ان کے فرزند زبیر سے فرمایا کہ اے زبیر! اپنی ماں اور میری پھوپھی کی بہادری تو دیکھو کہ بڑے بڑے بہادر بھاگ گئے مگر چٹان کی طرح کفار کے نرغے میں ڈٹی ہوئی اکیلی لڑ رہی ہیں اسی طرح جب جنگ احد میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے چچا سید الشہداء حمزہ شہید ہو گئے اور کافروں نے ان کے کان ناک کاٹ کر اور آنکھیں نکال کر شکم چاک کر دیا تو حضورﷺ نے زبیر کو منع کر دیا کہ میری پھوپھی صفیہ کو میرے چچا کی لاش پر مت آنے دینا ورنہ وہ اپنے بھائی کی لاش کا یہ حال دیکھ کر رنج و غم میں ڈوب جائیں گی مگر صفیہ پھر بھی لاش کے پاس پہنچ گئیں اور حضورﷺ سے اجازت لے کر لاش کو دیکھا تو اناﷲ وانا الیہ راجعون پڑھا اور کہا کہ میں خدا کی راہ میں اس کو کوئی بڑی قربانی نہیں سمجھتی پھر مغفرت کی دعا مانگتے ہوئے وہاں سے چلی آئیں۔[1][2]
ادبی ذوق
[ترمیم]آنحضرت کی رحلت پر انھوں نے بڑا پر اثر مرثیہ کہا۔
وفات و تدفین
[ترمیم]20ھ میں تہتر برس کی عمر پاکر مدینہ میں وفات پائی آپ جنت البقیع میں مدفون ہیں۔
فضل وکمال
[ترمیم]حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے بقول صاحب اصابہ کچھ حدیثیں بھی روایت کی ہیں؛ لیکن ہماری نظر سے نہیں گذریں اور نہ مسند میں ان کی حدیثوں کا پتہ چلتا ہے۔ [3]