ڈیرہ غازی خان
شہر | |
عرفیت: ڈیرہ | |
نعرہ: Dera phullain da sehra دیرا پھلیں دا سہرا (ترجمہ: Dera–the garland of flowers) | |
ملک | پاکستان |
علاقہ | پنجاب |
ضلع | ڈیرہ غازی خان |
قدیم شہر کی بنیاد | 1474 |
نئے شہر کی بنیاد | 1910 |
آبادی | |
• شہری | 2,512,650 |
منطقۂ وقت | PST (UTC+5) |
• گرما (گرمائی وقت) | +6 (UTC) |
ڈاک رمز | 32200 |
رموز رقبہ | 064[1] |
مخفف | DGK |
ڈیرہ غازی خان کی دھرتی تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے مشہور رہی ہے، پندرہویں (15) صدی عیسوی میں بلوچ قبائل نے اس دھرتی کو اپنا مستقر بنایا۔ ایک ممتاز بلوچ سردار میر حاجی خان میرانی نے اپنے لاڈلے بیٹے غازی خان کے نام پر دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر ڈیرہ غازی خان کی بنیاد رکھی۔ 1887ء میں ڈیرہ غازی خان دریائے سندھ کے کٹاوُ کی لپیٹ میں آگیا۔ اس وقت یہ شہر موجودہ مقام سے 15 کلومیٹر مشرق میں واقع تھا۔ ڈیرہ کا لفظ فارسی سے نکلا ہے جس کے معنی رہائش گاہ ہے۔ تاہم بلوچ ثقافت میں ڈیرہ کو قیام گاہ کے ساتھ ساتھ مہمان خانہ یعنی وساخ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
محل وقوع کے لحاظ سے ڈیرہ غازی خان ملک کے چاروں صوبوں کے وسط میں واقع ہے، اس کے مغرب میں کوہ سلیمان کا بلند و بالا سلسلہ ہے، شمال میں تھل اور مشرق میں دریائے سندھ ٹھاٹھیں مار رہا ہے، طبقات الارض کے حوالے سے یہ خطہ پہاڑی، دامانی، میدانی اور دریائی علاقوں پر مشتمل ہے، آب و ہوا کے لحاظ سے سردیوں میں سرد اور گرمیوں میں گرم مربوط خطہ ہے۔
علاقے کے رہائشیوں کی اکثریت سرائیکی زبان بولتی ہے جبکہ ارد گرد کے کچھ علاقوں میں بلوچی زبان بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے کوہ سلیمان کے یہ سب قبائل نمڑدی، بزدار، دریشک، کھیتران لغاری، جلبانی، گورچانی، کھوسہ چغتائی خان، میرانی، لنڈ، مزاری، علیانی، گرمانی، رند، جروار ا قیصرانی، شہانی اور سکھانی یہاں کے تمندار ہیں، بلوچ قبیلوں کی یہ تقسیم انگریز حکمرانوں نے کی، انھوں نے قبائلی سرداروں کو اختیارات دیے۔ عدلیہ کا کام جرگے نے سنبھالا جس کی نشتیں ڈیرہ غازی خان کے صحت افزاء مقام فورٹ منرو کے مقام پر ہوتی ہیں جو سطح سمندر سے 6470 فٹ بلند ہے۔ انتظامیہ کے لیے بارڈر ملٹری پولیس بنائی گئی ہے جو انہی قبائلی سرداروں کی منتخب کردہ ہوتی ہے۔ 1925ء میں نواب آف بہاولپور اور گورنر جنرل غلام محمد کے درمیان میں ہونے والے معاہدے کے تحت ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ کے اضلاع کو ریاست بہاولپور میں ضم کر دیا گیا۔ تاہم 1982ء میں ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ، لیہ، راجن پور وغیرہ کو بہاولپور سے علاحدہ کر کے ملتان ڈویژن میں ضم کر دیا گیا۔ بعد میں اس شہر کو منفرد اور نقشے کے مطابق آباد کرنے کا منصوبہ تیار ہوا۔ شہر کی تمام سڑکوں، گلیوں اور بلاکون کو یکم جولائی 1900ء میں مختلف بلاکوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس وقت کے منصوبے کے مطابق ہر گھر کے لیے پانچ مرلے کا رقبہ مختص تھا اور ہر بلاک 112 مرلے پر مشتمل تھا۔ تاہم وراثتی طور پر مکانات کی منتقلی سے گھروں کا حجم بہت فرق ہو گیا۔ 1982ء میں ﮈیرہ غازی خان ﮈویژن بنا۔ ڈیرہ غازی خان کی چار تحصیلیں ہیں۔ ڈیرہ غازی خان۔ تونسہ شریف۔ ٹرائیبل ایریا(تحصیل کوہ سلیمان) اور کوٹ چُھٹہ ڈیرہ غازی خان کی سرزمین معدنی وسائل سے مالا مال ہے ارد گرد کا علاقہ سنگلاخ پہاڑوں کے باعث ناقابل کاشت ہے، علاقے کے نوجوانوں کی اکثریت روزگار کی تلاش میں خلیجی ممالک کا رُخ کرتی ہے، تونسہ کے علاقے سے گیس اور تیل نکلتا ہے، علاقے میں موجود یورینیم کے استعمال سے پاکستان آج ایٹمی طاقت بن چکا ہے، روڑہ بجری، خاکہ اور پتھر کے تاجر کروڑوں روپے کما رہے ہیں الغازی ٹریکٹر پلانٹ فیٹ ٹریکٹر اور ڈی جی سیمنٹ (DG Cement)اس علاقے کی پہچان ہے، اندرون ملک سفر کے ليے ریل، بسوں اور ویگنوں سے ملک کے چاروں صوبوں سے رابطہ کیا جا سکتا ہے چلتن ایکسپریس کوئٹہ سے لاہور، لاہور سے کوئٹہ کے ليے براستہ ڈیرہ غازی خان چلتی ہے، خوشحال خان خٹک ایکسپریس کراچی سے پشاور اور پشاور سے کراچی براستہ ڈیرہ چلتی ہے۔ ڈیرہ غازی خان پاکستان کے چاروں صوبوں کے سنگم پر واقع ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں ھر صوبے کے لوگ رہتے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان میں مرکز دعوت اسلامی، مرکز تبلیغی دیوبند اور اهل حدیث کا دینی ادارہ طلبہ کے قرآن مجید اور حدیث و ترجمہ کے لیے مرکز التوحید چوک چورهٹہ ڈیرہ غازی خان ہے جس کی بنیاد 1956ء میں فضیلة الاستاد حاجی محمد موسی نے رکھی جس کی اب سرپرستی ڈاکٹر حافظ عبد الکریم صاحب وفاقی وزیر مواصلات وتعميرات کرتے هیں قاری عبد الرحیم کلیم اس ادارے کی دیکھ بھال کرتے هیں۔ جب کے دیگر پرانی عمارتیں اور مندر بھی موجود ہیں۔
نقل و حمل
[ترمیم]کوئٹہ روڈ پر سخی سرور سے پہلے جدید ائیرپورٹ تعمیر کیا گیا ہے جہاں سے کراچی، لاہور، اسلام آباد اور دبئی کے ليے پروازیں چلتی ہیں۔ مگر گذشتہ چند سالوں سے یہ ایرپورٹ کمرشل پروازوں کے لیے غیر فعال ہے
تعلیم اور کھیل
[ترمیم]کوئٹہ روڈ پر ہی تقریباً 85 کلومیٹر کے فاصلے پر جنوبی پنجاب کا سرد ترین تفریحی مقام فورٹ منرو ہے۔ شہر میں تفریحی سہولتوں کے ليے سٹی پارک، غازی پارک، وائلڈ لائف پارک، چند کھیل کے میدان اور آرٹ کونسل ہے۔ بلدیہ کی لائبریری میں کتب کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ علاقے کے لوگ بشمول خواتین تعلیم کے حصول میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔ ڈییرہ غازی خان کا سب سے بڑا تعلیمی مرکز غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازیخان ہے جو 2014 میں بنی اور اس میں تین اہم اداروں کو ضم کیا گیا۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد ڈی جی خان کیمپس، بی زیڈ یو ملتان ڈی جی خان کیمپس اور گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ڈیرہ غازی خان یونیورسٹی میں 17000 سے زیادہ طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں اور اس میں صرف ڈی جی خان ڈویژن ہی نہیں بلکہ مختلف شہروں سے لوگ پڑھنے آتے ہیں اس کا ایک کیمپس سٹی کیمپس ہے جب کہ دوسرا کیمپس ایئر پورٹ کیمپس سخی سرور روڈ پر موجود ہے۔ اس میں بی۔ ایس اور ایم اے کے علاوہ ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگرام بھی کروائے جا رہے ہیں۔ مختلف شعبہ جات کے علاوہ شعبہ اردوپروفیسر ڈاکٹر سہیل عباس خان بلوچ کی معیت میں ترقی جررہاہے۔ تحقیق کے میدان میں خاصی ترقی کررہا ہے۔ اس کے علاوہ لڑکیوں کے لیے وومن یونیورسٹی کی منظورہ مل گئی ہے اور وہ زیر تعمیر ہے۔ اس کے علاؤہ ٹیکنیکل یونیورسٹی میں میر چاکر خان رند یونیورسٹی ہے جو سخی سرور روڈ پر موجود ہے۔ اس کے علاؤہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن کیمپس، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کیمپس بھی پڑھائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔ شہر میں لڑکوں اور لڑکیوں کے ليے علاحدہ علاحدہ ایلیمنٹری کالجز ہیں۔ تین سالہ ڈپلوما آف ایسوسی ایٹ انجینئرز کے سخی سرور روڈ پر انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی قائم ہے۔ جبکہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے علاحدہ علاحدہ فنی اور پیشہ ورانہ تعلیمی ادارے موجود ہیں جن میں ریلوے روڈ پر واقع گورنمنٹ ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ، گورنمنٹ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے خواتین، گورنمنٹ انسٹی ٹیوٹ آف کامرس برائے خواتین، گورنمنٹ کالج آف کامرس ڈی جی خان، گورنمنٹ ڈگری کالج بلاک 17، گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج ڈی جی خان ایگری کلچر اسکول وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاؤہ نرسنگ اسکول، ڈیرہ غازی خان میڈیکل کالج اور درجنوں گورنمنٹ اور پرائیوٹ اسکولز اور کالجز اور لا کالجز، پرائیویٹ ہومیو پیتھک کالج، کمپیوٹر کے درجنوں تربیتی ادارے اور درجنوں پرائیویٹ اسکول ہیں۔ ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج، گورنمنٹ کالج، انٹر کالج، سنٹرل ماڈل اسکول، جامع اسکول، اسلامیہ ہائی اسکول اور لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے گورنمنٹ ہائی اسکول اور دیگر تمام تعلیمی ادارے شہر میں علم کے فروغ کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ جامعہ رحمانیہ اسلامیہ اور کلیتہ النبات، اسکول نمبر 1، 2 اور 3، للدراسات الا اسلامیہ ممتاز دینی مدارس ہیں۔ والی بال یہاں کے لوگوں میں مقبول کھیل ہے لیکن اب کرکٹ اس کی جگہ لے رہا ہے۔ اور کرکٹ کا اسٹیڈیم بھی موجود ہے۔
کھانے
[ترمیم]روایتی طور پر مقامی لوگ ناشتا میں حلوہ پوری، دوپہر کو سری پائے شوق سے کھاتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک گھروں میں ڈرائنگ روم یا بیٹھک نہیں ہوتی تھی بلکہ گھروں کے آگے یا چوک میں رکھی ہوئی بڑی بڑی چارپائیاں جنھیں مقامی زبان میں ہماچہ کہتے ہیں، ڈرائنگ روم یا بیٹھک کے نعم البدل کے طور پر استعمال ہوتی تھیں جن پر بیٹھ کر رات گئے تک گپ شپ اور حال احوال کرنا مقامی لوگوں کے مزاج اور ثقافت کا حصہ ہے، مگر بدلتے زمانے کے ساتھ ساتھ ثقافت کو بھی نئے دو ر کے مطابق ڈھالا جا رہا ہے چارپائی اور ہماچے کی جگہ اب ڈرائنگ رومز اور بیٹھکوں نے لے لی ہے۔
مسائل
[ترمیم]شہر میں زیر زمین پانی کافی کڑوا ہے۔ پینے کا صاف پانی ڈیرہ غازی خان کا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ شہر میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے ليے شہر سے کم و بیش دس کلومیٹر دور پمپ لگے ہوئے ہیں جہاں سے پانی پائپوں کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ پمپ اکثر خراب رہتے ہیں اور پھر پائپ لائنوں کے پھٹ جانے سے سیوریج ملا پانی پینے کو ملتا ہے۔ شہریوں کی اکثریت گندے پانی کی وجہ سے گردوں اور دیگر امراض کا شکار ہو رہی ہے۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے لاکھوں روپے کی لاگت سے 11 اگست 2000 کو واٹر پیور لیفیکیشن پلانٹ کا افتتاح کیا اور اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اس کے بعد تین اور پمپس بھی چالو کیے گئے جنھیں مشرف واٹر پمپس کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ مگر محکمہ پبلک ہیلتھ، تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کی عدم توجہی کی بنا پر پانی صاف کرنے کے یہ پلانٹ بے کار ہو رہے ہیں۔
فہرست گنجان شہر بلحاظ آبادی
[ترمیم]- صوبائی دار الحکومت
- وفاقی دار الحکومت
- ڈویژنل دار الحکومت
درجہ | شہر | آبادی (مردم شماری 2017ء)[2][3][4] |
آبادی (1998 کی مردم شماری)[2][5][4] |
تبدیلی | صوبہ |
---|---|---|---|---|---|
1 | کراچی | 14,916,456 | 9,339,023 | +59.72% | سندھ |
2 | لاہور | 11,126,285 | 5,209,088 | +113.59% | پنجاب، پاکستان |
3 | فیصل آباد | 3,204,726 | 2,008,861 | +59.53% | پنجاب، پاکستان |
4 | راولپنڈی | 2,098,231 | 1,409,768 | +48.84% | پنجاب، پاکستان |
5 | گوجرانوالہ | 2,027,001 | 1,132,509 | +78.98% | پنجاب، پاکستان |
6 | پشاور | 1,970,042 | 982,816 | +100.45% | خیبر پختونخوا |
7 | ملتان | 1,871,843 | 1,197,384 | +56.33% | پنجاب، پاکستان |
8 | حیدرآباد | 1,734,309 | 1,166,894 | +48.63% | سندھ |
9 | اسلام آباد | 1,009,832 | 529,180 | +90.83% | وفاقی دارالحکومت،اسلام آباد |
10 | کوئٹہ | 1,001,205 | 565,137 | +77.16% | بلوچستان |
11 | بہاولپور | 762,111 | 408,395 | +86.61% | پنجاب، پاکستان |
12 | سرگودھا | 659,862 | 458,440 | +43.94% | پنجاب، پاکستان |
13 | سیالکوٹ | 655,852 | 421,502 | +55.60% | پنجاب، پاکستان |
14 | سکھر | 499,900 | 335,551 | +48.98% | سندھ |
15 | لاڑکانہ | 490,508 | 270,283 | +81.48% | سندھ |
16 | شیخوپورہ | 473,129 | 280,263 | +68.82% | پنجاب، پاکستان |
17 | رحیم یار خان | 420,419 | 233,537 | +80.02% | پنجاب، پاکستان |
18 | جھنگ | 414,131 | 293,366 | +41.17% | پنجاب، پاکستان |
19 | ڈیرہ غازی خان | 399,064 | 190,542 | +109.44% | پنجاب، پاکستان |
20 | گجرات | 390,533 | 251,792 | +55.10% | پنجاب، پاکستان |
مزید دیکھیے
[ترمیم]- اس صفحہ ”ڈیرہ غازی خان“ کے تبادلہ خیال پر بھی اہم معلومات موجود ہیں۔ پڑھنے کےلیے تبادلۂ خیال:ڈیرہ غازی خان پر کلک کریں۔
- پاکستان کے شہر
- پنجاب کے شہر
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ "National Dialing Codes"۔ پی ٹی سی ایل۔ 2012-04-09 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-05
- ^ ا ب
- ↑
- ^ ا ب "PAKISTAN: Provinces and Major Cities"۔ PAKISTAN: Provinces and Major Cities۔ citypopulation.de۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-05-04
- ↑ "AZAD JAMMU & KASHMIR AT A GLANCE 2014" (PDF)۔ AJK at a glance 2014.pdf۔ AZAD GOVERNMENT OF THE STATE OF JAMMU & KASHMIR۔ 11 فروری 2017۔ 2020-06-30 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-06-30