محمد سلامت اللہ بیگ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محمد سلامت اللہ بیگ
پیدائشمحمد سلامت اللہ بیگ
08 دسمبر 1911ء
فخرپور،بہرائچ اتر پردیش، ہندوستان
وفات18جولائی1991ء
محلہ قاضی پورہ شہر بہرائچاتر پردیش ہندوستان
رہائشمحلہ قاضی پورہ شہر بہرائچ اتر پردیش ہندوستان
اسمائے دیگرمولانا محمد سلامت اللہ بیگ
پیشہعالم دین
وجہِ شہرتمجاہد آزادی
مؤثر شخصیاتمحمود حسن دیوبندی، رشید احمد گنگوہیحسین احمد مدنی
مذہباسلام
اولادچھ اولادیں

مولانا محمد سلامت اللہ بیگ مشرقی یوپی کے مشہور عالم دین، بلند پایہ استاذ، نامور مقرر، مجاہد آزادی اور جامعہ نور العلوم کے سابق صدر المدرسین 8 دسمبر، 1911ء کو آبائی وطن ضلع بہرائچ کے مردم خیز قصبہ فخر پور میں ایک معزز علمی خانوادہ میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کا آغاز فخر پور مدرسہ جواہر العلوم سے کیا اور یہیں تکمیل حفظ کلام اللہ کی سعادت سے بہرہ ور ہوئے۔ اس کے بعد مدرسہ الٰہیات کانپور برائے حصول تعلیم تشریف لے گئے۔ ابتدائی عربی و فارسی زبانکی تعلیم اسی مدرسہ سے حاصل کی۔ آخر میں ازہر ہند دار العلوم دیوبند پہنچ کر اس وقت کے مایہ ناز علما واساطین علم ومعرفت سے اکتساب فیض کیا۔ آپ کے اساتذہ میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہٗ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب نور اللہ مرقدہٗ حضرت علامہ مولانا محمد ابراہیم صاحبؒ وغیرہ کے اسماء خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ 1936ء میں فاضل دار العلوم ہو کر قاسمی سلسلۃ الذہب میں شامل ہوئے، نیز 1944ء میں الہ آباد بورڈ سے فاضل دینیات کی سند حاصل کی۔

جامعہ نور العلوم میں تدریسی خدمت[ترمیم]

فراغت کے بعد ہی مدرسہ عالیہ کلکتہ سے تدریس کی دعوت کے باوجود جامعہ نور العلوم کو ترجیح دیتے ہوئے تدریسی کام کا آغاز کر دیاتھا، لیکن 1940ءمیں گاندھی جی کی بھارت چھوڑو (سول نافرمانی) تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے مسلمانان بہرائچ واطراف کی نمائندگی کرتے ہوئے جیل جا کر قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں، جس کی وجہ سے درمیان میں تدریسی مشاغل سے انقطاع ہو گیا تھا، پھر جون 1942ء کو باضابطہ تدریس کے لیے انتخاب ہوا اور اس کے بعد تادم حیات تقریباً 49 سال مسلسل جامعہ نورالعلوم کے طلبہ کی علمی پیاس بجھاتے رہے۔ موصوف کا نور العلوم کی تعلیمی ترقی میں بہت ہی اہم رول رہا ہے، آپ کی محنتوں اور خدمات کا نہ صرف آپ کے معاصرین کو اعتراف رہا، بلکہ آپ کے بڑوں نے بھی آپ کی کاوشوں وکوششوں کو سراہا، چنانچہ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتمم دار العلوم دیوبند نے اپنے معائنہ میں تحریر فرمایا ہے کہ، ’’مولانا محمد سلامت اللہ صاحب اس نصب العین اور عام تعلیمی امور میں ساعی ہیں، امید ہے کہ ان پاکیزہ عناصر کے ساتھ یہ مدرسہ برابر ترقی کرتا رہے گا‘‘۔[1] نیز اسی معائنہ بک میں (ص151) پر استاذ الاساتذہ حضرت مولانا حسین احمد صاحب بہاری استاذ دار العلوم دیوبند رقم طراز ہیں ’’حضرت مولانا محمد سلامت اللہ صاحب صدر المدرسین کی تعلیم و تربیت میں مدرسہ برابر ترقی کرتا جا رہا ہے‘‘ اور حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی صاحبؒ نے (ص174) پر تحریر کیا ہے ’’کہ مولانا محمد سلامت اللہ صاحب جیسے کہنہ مشق استاذ کی خدمات بھی اس کو حاصل ہیں، جو نورالعلوم کی ترقی کے وجوہات میں سے ایک اہم وجہ ہے‘‘۔

درس کی خصوصیات[ترمیم]

محمد سلامت اللہ بیگ کو افہام وتفہیم میں مہارت تامہ حاصل تھی، مضامین کو نہایت آسان اور مختصر الفاظ میں حل فرما دیا کرتے تھے، آپ کا مختصر المعانی کا درس بے حد مقبول ومشہور تھا، ہدایہ شریف میں احناف کی دلیل انتہائی مضبوط ومستحکم انداز میں بیان فرمانے کے بعد اس کی وجہ ترجیح ضرور ذکر فرماتے تھے، جلالین شریف بھی بہت عمدہ انداز میں پڑھاتے تھے، ایک مرتبہ مصر سے عربوں کی ایک تبلیغی جماعت آئی، جس میں وہاں کے بڑے بڑے ذمہ دار شامل تھے، احقر نے اس دن حضرت صدر صاحب سے عربی میں سبق پڑھانے کی درخواست کی، جسے حضرت نے قبول فرما کر مہمانوں کی موجودگی میں اس سلاست اور روانی سے عربی میں درس دیا جیسے عربی آپ کی مادری زبان ہو، جس سے عرب بہت خوش ہوئے اور انتہائی حیرت واستعجاب سے کہا کہ ہندوستان کے اس چھوٹے سے شہر میں بھی ایسے جبال علم اور جید علما موجود ہیں؟ مولانا قاری عبد الوحید نوری نے اپنی تصنیف لغات القرآن کے دیباچہ میں آپ کی درس کی خصوصیات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو افہام وتفہیم کا بے مثال ملکہ عطا فرمایا تھا، قرآن وحدیث کی تفسیر وتشریح کے سلسلے میں جب مفسرین ومحدثین کے اقوال بیان کرنے کے بعد آپ نکات بیان فرماتے تو اس سے علم دوست وقدر داں طبقہ انگشت بدنداں ہوتا، فن ادب ومعانی کے اسباق میں جب آپ محققین کی رائے پیش کرنے کے بعد اپنی رائے رکھتے تو سب پر فائق معلوم ہوتی تھی۔ جامعہ نور العلوم کے موجودہ ناظم تعلیمات اور آپ کے علمی جانشین حضرت مولانا قاری زبیر احمد صاحب قاسمی نے2011ءکے یوم جمہوریہ کی تقریب پر حضرت صدر صاحب ودیگر مجاہدین آزادی کے کارناموں اور ان کے مقامات عالیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت صدر صاحب سے متعلق ایک بہت ہی اہم واقعہ حضرت مولانا حکیم وصی احمد صاحب گورکھپوری کے حوالے سے نقل کیا کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا حکیم وصی احمد صاحب نے خواب میں دیکھا کہ جنت کی طرف سے حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ تشریف لا رہے ہیں، مجھے دیکھ کر اپنے مخصوص لب ولہجہ میں فرمایا کہ حکیم صاحب کہاں جا رہے ہیں؟ تو میں نے عرض کیا کہ حضرت مولانا سلامت اللہ بیگ صاحب سے ملاقات کے لیے جنت میں جا رہا ہوں، تو حضرت شیخ نے کہا کہ میں ابھی ان ہی کے پاس سے آ رہا ہوں، وہ جنت میں بخاری شریف کا درس دے رہے ہیں، میں نے عرض کیا میں بھی ملاقات کرآؤں، چنانچہ جب میں جنت میں پہنچا تو دیکھا کہ حضرت صدر صاحب قیام کی حالت میں بخاری شریف کا درس دے رہے ہیں اور سیکڑوں علما بخاری کھولے درس سن رہے ہیں اور حضرت صدر صاحب قرأۃ خلف الامام سے متعلق بحث کرتے ہوئے ایسے دلائل پیش کر رہے ہیں، جن کو میں نے پہلی مرتبہ سنا ہے، ’’وہ فرما رہے تھے کہ شوافع کے نزدیک امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا فرض ہے، تو اگر کوئی شخص جماعت کی نماز میں رکوع میں شامل ہوا ہو۔ تو اس کو وہ رکعت نہ ملنی چاہیے، کیوں اس سے ایک فرض چھوٹ گیا ہے، حالاں کہ وہ اس رکعت کو شمار کرلیتے ہیں، جب کہ احناف کے نزدیک امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا واجب نہیں ہے اور امام کی قرأۃ مقتدیوں کی قرأۃ ہے، اس لیے ان کے نزدیک رکوع پانے والا بلاشبہ رکعت پانے والا ہوگا‘‘۔

نظامت تعلیمات وصدارت تدریس[ترمیم]

محمد سلامت اللہ بیگ جامعہ مسعودیہ نور العلوم میں نومبر 1949ء سے مارچ 1959ءتک تقریباً 9؍ سال 4؍ ماہ ناظم تعلیمات کے اہم منصب پر اور جمادی الاولیٰ 1371ھ سے ذی الحجہ 1410ھ تک تقریباً 39سال 7؍ ماہ صدارتِ تدریس کے ذی وقار عہدے پر متمکن رہے۔[2]

تقریر وتحریر کی خصوصیات[ترمیم]

محمد سلامت اللہ بیگ کو اللہ تعالیٰ نے تدریس، تقریر، تحریر ہرسہ میدانوں میں ایک نمایاں مقام عطا کررکھا تھا، چنانچہ آپ کی یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے موقع پر ہر سال بہت پر مغز تقاریر ہوا کرتی تھیں، اسی طرح میسا کے تحت گرفتار ہو کر رمضان المبارک میں قید وبند کی صعوبتوں کو برداشت کرنے کے بعد جیل سے واپسی پر سردار جوگیندر سنگھ کی آمد پر ہونے والی تقریر بھی نہایت اہمیت کی حامل تھی، حضرت صدر صاحب اگر کسی کے پاس خط تحریر فرماتے تھے، تو وہ عمدہ مقالہ ہوجاتا تھا، کبھی کبھی تعزیتی خطوط میں حضرت یوسف علیہ السلام ان کے بھائیوں اور حضرت یعقوب علیہ السلام کا پورا واقعہ ہی مخصوص انداز میں تحریر فرما دیتے تھے۔

محمد سلامت اللہ بیگ اور قید وبند کی سختیاں[ترمیم]

محمد سلامت اللہ بیگ صاحب نے گاندھی جی کی بھارت چھوڑو (سول نافرمانی) تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس کے لیے 1940ءمیں مسلمانان ضلع بہرائچ کی نمائندگی کرتے ہوئے جیل تشریف لے گئے اور سالہا سال کی قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ اسی طرح ایمرجنسی کے زمانے میں بھی سیاسی وملی اسباب کی بنا پر میسا کے تحت گرفتار ہوکر رمضان المبارک میں جیل کی سختیاں جھیلیں۔ جس کے نتیجے میں وزیر اعظم اندر گاندھی کی دور وزارت میں ’’مجاہد آزادی‘‘ کے لقب سے سرفراز ہوئے اور تاحیات مرکز وریاست دونوں جگہوں سے معقول مقدار میں سرکاری پنشن ودیگر رعایتوں اور سہولتوں سے مستفید ہوتے رہے۔

نمایاں اوصاف[ترمیم]

حضرت مولانا محمد سلامت اللہ صاحب سانولے رنگ کے ہونے کے باوجود انتہائی حسین معلوم ہوتے تھے، آپ متوسط قد، صحت مند جسم، خوبصورت بڑی آنکھوں، گھنی اور بھری داڑھی، بارعب اور وجیہ چہرہ کے حامل تھے، بدن پر سفید کھدر کا لباس، نصف ساق تک کلی دار کرتا، ٹخنہ سے اوپر شرعی پائجامہ، سر پر اونچی دیوار کی دو پلی ٹوپی اور ہاتھ میں بینت کی چھڑی جس سے منصب صدارت کی واقعی شان ظاہر ہوتی تھی۔ مولانا موصوف کا علم بہت گہرا تھا، علوم عقلیہ، ونقلیہ میں مہارت تامہ رکھتے تھے، وہ انتہائی محقق، مدقق، اساتذہ وطلبہ کے لیے مرجع اور ایک عبقری شخصیت تھے، حضرت مولانا محمد عمر نوریؔ کے بیان کے مطابق حضرت مولانا حکیم وصی احمد صاحب گورکھپوری نے آپ کے وصال پر فرمایا تھا کہ آج علم کا ایک سمندر سوکھ گیا اور مولانا قاری عبد الوحید نوریؔ نے اپنی تصنیف لغات القرآن کے دیباچہ میں تحریر کیا ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے متقدمین کا علم دیا تھا اور آپ بہترین معبّر تھے، تعبیر رویا میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔ حضرت صدر صاحبؒ جس طرح اپنے معمولات، اوقات ونظام مدرسہ کے انتہائی پابند تھے، اسی طرح پنج وقتہ نمازیں جماعت کے ساتھ اپنی مسجد میں اور جمعہ کی نماز شہر کی جامع مسجد میں پڑھنے کا التزام واہتمام فرماتے تھے، مولانا موصوف کو اللہ نے بڑی خوبیوں سے نوازا تھا، سادگی خوش اخلاقی، وضع داری اور خر د نوازی، آپ کا امتیازی وصف تھا، تواضع تو آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی، حضرت صدر صاحب شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ سے بیعت تھے، آپ کو خاندان مدنی سے بڑی گہری عقیدت اور وابستگی تھی، آپ اپنے شیخ حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے تذکرہ سے ہی آبدیدہ ہوجایا کرتے تھے، ہمیشہ جمعیۃ علماء ہند سے منسلک رہے اور سیاسی طور پر کانگریس کے مؤید رہے۔ مجاہد آزادی حضرت مولانا محمد سلامت اللہ بیگ صاحبؒ کے والد محترم کا نام حاجی رحمت اللہ بیگ تھا، حضرت صدر صاحب کی شادی فخر پور کے ایک عظیم المرتبت اور پروقار شخصیت مرزا غوث احمد بیگ صاحب کی صاحبزادی سے ہوئی، جو انتہائی نیک خاتون تھیں۔

اولاد[ترمیم]

مولانا سلامت اللہ بیگ کی چھ اولادیں ہوئیں، جن میں پانچ نرینہ اولاد ہیں ۔

  • مرزا حمایت اللہ بیگ سابق وائس پرنسپل بھٹکل انجیرنگ کالج کرناٹکا، ہیڈ آف انجیرنگ ڈپارٹمنٹ رام سروپ انجیرنگ کالج لکھنؤ۔
  • مولانا محمد کفایت اللہ بیگ قاسمیؔ صاحب سابق صوبیدار ملیٹری، وصدر انتظامیہ کمیٹی جامع مسجد شہر بہرائچمولانا محمد کفایت اللہ بیگ قاسمیؔ صاحب سابق صوبیدار ملیٹری کا انتکال [مردہ ربط]
  • مولانا حافظ قاری ڈاکٹر محمد ہدایت اللہ بیگ قاسمیؔ صاحب، (بی، یو، ایم، ایم، ایس، علیگ)
  • مولانا ڈاکٹر محمد عنایت اللہ بیگ قاسمیؔ صاحب، میڈیکل آفیسر گونڈہ (بی، یو، ایم، ایم، ایس، علیگ)
  • حضرت مولانا قاری زبیر احمد قاسمیؔ صاحب ہیں جن کا تقرر جامعہ نور العلوم کے شعبہ قراء ۃ میں 6 شوال المکرم 1398ھ مطابق 10 ستمبر 1978ءکو ہوا، پھر جامعہ ہذا کی مجلس شوریٰ نے ترقی دے کر 6 شوال المکرم1405ھمطابق 1985ءکو شعبہ عربی میں منتقل کر دیا اور 8جون 2000ءسے مسلسل جامعہ نور العلوم میں ناظم تعلیمات کے اہم منصب پر فائز ہیں اور برابر پانچ ٹرموں سے جمعیۃ علماء ضلع بہرائچ وشراوستی کے صدر منتخب ہوتے چلے آ رہے ہیں، اس کے علاوہ حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد باندویؒ اور الحاج محمد سلمان بیگ صاحبؒ سابق پروفیسر انجیرنگ کالج علی گڑھ کے خلیفہ ومجاز اور راجا نانپارہ چوک بازار کے امام وخطیب بھی ہیں۔
  • بیٹی رقیہ بیگم جو حضرت مولانا حکیم وصی احمد صاحب (علیگ) گورکھپوری کے بڑے صاحبزادے جناب مولانا حکیم محمد احمد (علیگ) گورکھپوری سے منسوب ہیں۔

وصال اور آخری آرام گاہ[ترمیم]

مولانا سلامت اللہ بیگ تندرست، مضبوط اور گٹھے ہوئے بدن کے مالک تھے، صرف گھنٹوں کی تکلیف پریشان کرتی تھی، اس کا کافی علاج بھی کیا، لیکن بالکلیہ افاقہ نہیں ہوا، پھر اچانک وصال سے چند یوم قبل بیہوشی کا عارضہ ہوا، مقامی ڈاکٹروں سے رابطہ قائم کیا گیا، فائدہ نہ ہونے کے باعث لکھنؤ لے جایا گیا، وہاں قدرے صحت ہوئی، ہوش آنے پر دودھ نوش فرمایا، لیکن پھر دوبارہ حالت بگڑی اور معالجین نے تشویش کا اظہار کیا، اس لیے بہرائچ لے آیا گیا اور بالآخر 5 محرم الحرام 1412ھمطابق 18جولائی 1991ءبروز پنجشنبہ بعمر 79؍ سال 7 ماہ وطن مالوف محلہ قاضی پورہ شہر بہرائچ میں آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی، ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ انتقال کی خبر بجلی کی طرح پورے ضلع میں پھیل گئی، تجہیز وتکفین کی تیاریاں شروع ہوگئیں اور ٹھیک دس بجے سینکڑوں علما، مشائخ، عوام وخواص نے آپ کے سمدھی حضرت مولانا حکیم وصی احمد صاحب گورکھپوری کی اقتدا میں نماز جنازہ ادا کرکے اس علمی خزانے کو شہر کے مشہور قبرستان چھڑے شاہ تکیہمیں سپرد خاک کیا گیا۔

مولانا سلامت اللہ بیگ کی آخری آرام گاہ

مخصوص تلامذہ[ترمیم]

حضرت مولانا سلامت اللہ بیگ صاحب کے تلامذہ میں جامعہ ہذا کے سابق مہتمم حضرت مولانا محمد افتخار الحق صاحب قاسمی، حضرت مولانا حافظ حبیب احمد صاحب اعمیٰ، حضرت مولانا عابد علی صاحب، حضرت مولانا سمیع اللہ صاحب، حضرت مولانا جنید احمد صاحب بنارسی مقیم حال ممبئی (خواہرزادہ) حضرت مولانا محفوظ الرحمٰن نامیؔ (بانی جامعہ مسعودیہ نور العلوم بہرائچ)،حضرت مولانا غلام احمد صاحب، موجودہ مہتمم حضرت مولانا حیات اللہ صاحب قاسمی، حضرت مولانا مفتی ذکر اللہ صاحب قاسمی، حضرت مولانا محمد زکریا صاحب قاسمی شیخ الحدیث دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ، حضرت مولانا عبد العلی فاروقی صاحب مہتمم دار العلوم فاروقیہ کاکوری، حضرت مولانا مجیب اللہ صاحب قاسمی گونڈوی ناظم تعلیمات دار العلوم دیوبند، حضرت مولانا مفتی شکیل احمد صاحب سیتاپوری سابق استاذ دار العلوم دیوبند، حضرت مولانا عتیق احمد صاحب بستوی دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ، حضرت مولانا مفتی نعمت اللہ صاحب قاسمی صدر المدرسین مدرسہ فرقانیہ گونڈہ، حضرت مولانا محمد عظیم خاں صاحب قاسمی سابق استاذ جامعہ نور العلوم، حضرت مولانا مفتی غلام مصطفے ٰ صاحب قاسمی رامپور جبدی، حضرت مولانا عبد التواب صاحب قاسمی استاذ دار العلوم اسلامیہ بستی وغیرہ خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں، ان کے علاوہ آپ کے بہت سے تلامذہ اور شاگرد جامعہ ہذا اور ملک کے مختلف اداروں میں علم دین کی خدمت انجام دے رہے ہیں، جو انشاء اللہ آپ کے لیے توشہ آخرت اور رفع درجات کا باعث ہوں گے۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. قدیم معائنہ بک جامعہ نور العلوم 1102
  2. جامعہ نور العلوم کا مختصر تعارف، خدمات اور منصوبے1993-94
  • نورالعلوم کے درخشندہ ستارے (مطبوعہ 2011)