حزقیل

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(حزقی ایل سے رجوع مکرر)
حزقی ایل
نبی، کاہن
پیدائش622 ق۔م
یروشلم
وفات570 ق۔م
بابل
مزارحزقی ایل کا مقبرہ، الکفل، عراق
تہواراگست 28 – آرمینیا چرچ
جولائی 23 – راسخُ الاعتقاد کلیسا اور رومن کیتھولک
جولائی 21 – لوتھریت

حزقیل لفظ کا عربی زبان میں مطلب ہے، “قدرت اللہ”۔ تورات اور بائبل میں جناب علیہ السلام کو حزقی ایل کے نام سے پکارا گیا ہے۔ عبرانی میں حزقی کا مطلب “زور” اور ایل “اللہ” کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ‘اللہ کا زور’ بنتا ہے۔ بائبل کے انگریزی ترجمے میں جناب حزقیل علیہ السلام کو Ezekiel کے نام سے پکارا گیا ہے۔حزقی ایل یا حزقیال (عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں خدا کا زور۔/ᵻˈzi:ki.əl/؛ عبرانی: יְחֶזְקֵאל‎‎ Y'ḥez'qel، عبرانی تلفظ: [jəħezˈqel]) کتاب حزقی ایل اور عبرانی بائبل کے حامی مرکزی کردار ہے۔

حیات[ترمیم]

یہ اسیری دور کے ایک کاہن تھے جو عہد نامہ قدیم کے مطابق ایک نبی تھے اور یرمیاہ اور دانی ایل (دانیال) نبی کے ہمعصر تھے۔[1] یہ اسیری سے پہلے یہودیہ میں پلے بڑھے اور 597ق-م میں بخت نصر کے دور میں قیدی بنا کر بابل لائے گئے۔[2]اسیری کے پانچویں سال ان کو نبوت ملی۔[3]

تمہید[ترمیم]

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد انبیائے بنی اسرائیل کا طویل سلسلہ ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک پہنچتا ہے ‘ صدیوں کے اس دور میں کس قدر انبیا ورسل مبعوث ہوئے ‘ ان کی صحیح تعداد رب العزت ہی جانتا ہے۔ قرآن عزیز نے ان میں سے چند پیغمبروں کا ذکر کیا ہے ان میں سے بعض کا ذکر تو تفصیل سے آیا ہے اور بعض کا اجمال کے ساتھ اور بعض کا صرف نام ہی مذکور ہے توراۃ میں قرآن عزیز کی بیان کردہ فہرست پر چند اور پیغمبروں کا اضافہ ہے اور ان کے واقعات اور حالات کا بھی۔ ان اسرائیلی پیغمبروں کے درمیان تاریخی ترتیب اختلافی مسئلہ ہے ‘ ہم ابن جریر طبری اور ابن کثیر کی ترتیب کو راجح سمجھتے ہیں اور اس لیے اسی کے مطابق ان پیغمبروں کے حالات زیر بحث لائیں گے۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کے بعد باتفاق توراۃ و تاریخ حضرت یوشع (علیہ السلام) منصب نبوت پر فائز ہوئے اور ان کے بعد ان کی جانشینی کا حق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دوسرے رفیق کا لب بن یوفنا نے ادا کیا۔ یہ حضرت موسیٰ کی ہمشیرہ مریم بنت عمران کے شوہر تھے مگر نبی نہیں تھے۔ [4] طبری کہتے ہیں کہ ان کے بعد سب سے پہلے جس ہستی نے بنی اسرائیل کی روحانی اور دنیوی قیادت و راہنمائی کا فرض انجام دیا وہ حزقیل (علیہ السلام) ہیں۔

نام و نسب اور بعثت[ترمیم]

توراۃ میں ہے کہ وہ بوذی کا ہن کے بیٹے ہیں اور ان کا نام حزقی ایل تھا ١ ؎ عبرانی زبان میں ایل اسم جلالت ہے اور حزقی کے معنی قدرت اور قوت کے ہیں اس لیے عربی زبان میں اس مرکب نام کا ترجمہ ” قدرۃ اللّٰہ “ ہے کہتے ہیں کہ حضرت حزقیل (علیہ السلام) کے والد کا بچپن ہی میں انتقال ہو گیا تھا اور جب ان کی بعثت کا زمانہ قریب آیا تو ان کی والدہ بہت ضعیف اور معمر ہو چکی تھیں اس لیے اسرائیلیوں میں

حزقی ایل کی کتاب۔ بنی اسرائیل کے یہاں کاہن متبحر عالم و شیخ کامل کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے۔ یہ ” ابن العجوز “ ١ ؎ کے لقب سے مشہور تھے۔ ٢ ؎ [5] [6] حضرت حزقیل عرصہ دراز تک بنی اسرائیل میں تبلیغ حق کرتے اور ان میں دین و دنیا کی راہنمائی کا فرض انجام دیتے رہے۔

قرآن اور حزقیل (علیہ السلام)[ترمیم]

قرآن عزیز میں حزقیل نبی کا نام مذکور نہیں ہے لیکن سورة بقرہ میں بیان کردہ ایک واقعہ کے متعلق سلف صالحین سے جو روایات منقول ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کا تعلق حضرت حزقیل (علیہ السلام) کے ساتھ ہی ہے۔ کتب تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ اور بعض دوسرے صحابہ سے یہ روایت منقول ہے کہ بنی اسرائیل کی ایک بہت بڑی جماعت سے جب ان کے بادشاہ یا ان کے پیغمبر حزقیل (علیہ السلام) نے یہ کہا کہ فلاں دشمن سے جنگ کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ اور اعلائے کلمۃ اللہ کا فرض ادا کرو تو وہ اپنی جانوں کے خوف سے بھاگ کھڑے ہوئے اور یہ یقین کر کے کہ اب جہاد سے بچ کر موت سے محفوظ ہو گئے ہیں دور ایک وادی میں قیام پزیر ہو گئے۔ اب یا تو پیغمبر نے ان کے اس فرار کو خدا کے حکم کی خلاف ورزی یا قضا و قدر کے فیصلہ سے روگردانی سمجھ کر اظہار ناراضی کرتے ہوئے ان کے لیے بددعا کی یا خود اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ حرکت ناگوار ہوئی۔ بہرحال اس کے غضب نے ان پر موت طاری کردی اور وہ سب کے سب آغوش موت میں چلے گئے۔ ایک ہفتہ کے بعد ان پر حضرت حزقیل (علیہ السلام) کا گذر ہوا تو انھوں نے ان کی حالت پر اظہار افسوس کیا اور دعا مانگی کہ الٰہ العٰلمین ان کو موت کے عذاب سے نجات دے تاکہ ان کی زندگی خود ان کے لیے اور دوسروں کے عبرت و بصیرت بن جائے۔ پیغمبر کی دعا قبول ہوئی اور وہ زندہ ہو کر نمونہ عبرت و بصیرت بنے۔ ٣ ؎ [7] تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ یہ اسرائیلی جماعت داوردان کی باشندہ تھی جو شہر واسط سے چند کوس پر اس زمانہ کی مشہور آبادی تھی اور یہ فرار ہو کر انیح کی وادی میں چلے گئے تھے وہیں ان پر موت کا عذاب نازل ہوا۔ قرآن عزیز میں اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے : { اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَ ھُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِص فَقَالَ لَھُمُ اللّٰہُ مُوْتُوْاقف ثُمَّ اَحْیَاھُمْط اِنَّ اللّٰہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْکُرُوْنَ } [8] (اے مخاطب) کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے ہزاروں کی تعداد میں نکلے پھر اللہ نے فرمایا کہ مرجاؤ پھر ان کو زندہ کر دیا بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔ “

فرار از جہاد[ترمیم]

شریعت محمدیہ (علیہ الصلوۃ والسلام) میں بھی میدان جہاد سے فرار (شرک باللہ کے بعد) سب سے بڑا گناہ شمار ہوتا ہے اور حقیقت حال بھی یہی ہے کہ خدا پر ایمان لانے کے بعد جبکہ انسان اپنی جان و مال کو اس کے سپرد کردیتا ہے۔ اور سپردگی ہی کا نام اسلام ہے تو پھر اس کو ایک لمحہ کے لیے بھی یہ حق نہیں رہتا کہ وہ اس کے حکم کے خلاف جان کو بچانے کی فکر کرے جبن اور نامردی اسلام کے ساتھ جمع نہیں ہوتی اور راہ حق میں شجاعت ہی اسلام کا طغرائے امتیاز ہے۔
اسی طرح جب انسان کا اذعان و اعتقاد اس یقین کو حاصل کرلے کہ خیر و شر اور موت وحیات سب خالق کائنات کے قضاء و قدر کے ہاتھ ہے تو پھر آن واحد کے لیے بھی اس کو خیال نہیں آتا کہ وہ خدا کی مقررہ قدر کے متعلق یہ باور کرے کہ اس کا حیلہ خدا کے فیصلہ کو رد کرسکتا ہے اور ایک مقام پر اگر اس کی تقدیر نافذ ہے تو دوسرے مقام پر وہ اس کے اثر سے آزاد رہ سکتا ہے۔ اسلام کی نگاہ میں تقدیر کا فلسفہ یہ ہے کہ انسان اپنے اندر یہ یقین پیدا کرلے کہ میرا فرض خدا کے احکام کی تعمیل ہے رہا یہ امر کہ اس ادائے تعمیل میں جان کا خوف یا مال کی تباہی کا ڈر ہے تو یہ میرے اپنے اختیار میں نہیں ہے اگر قدرت کا ہاتھ جان و مال کی ہلاکت کا فوری فیصلہ کرچکا ہے تو دوسرے اسباب پیدا ہو کر عالم تکوین کے اس فیصلہ کو ضرور صادق کردکھائیں گے یہی یقین انسان کو شجاع اور بہادر بناتا اور جبن و نامردی سے دور رکھتا ہے۔ اس کی نظر صرف ادائے فرض پر جم جاتی ہے اور وہ تکوینی فیصلوں کو اپنی دسترس سے بالاتر سمجھ کر اس سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔
اسلام نے تقدیر کے یہ معنی کبھی نہیں بتائے کہ ہاتھ پیر توڑ کر اور جدوجہد اور عمل کی زندگی کو چھوڑ کر غیبی مدد کے منتظر ہو بیٹھو اور ادائے فرض کو یہ کہہ کر ترک کر دو کہ تکوینی فیصلہ کے مطابق جو کچھ ہونا ہوگا ہو رہے گا۔ دراصل یہ خیال جبن اور نامردی کی پیداوار ہے جو ادائے فرض سے روکتا اور تن آسانی کی دعوت دے کر ذلت کے حوالہ کر دیا کرتا ہے۔

آیت جہاد سے روایت کی تائید[ترمیم]

ان آیات کے متعلق جو روایت نقل کی گئی ہے اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ان آیات کے بعد ہی دوسری آیت ” آیت جہاد “ ہے جس میں مسلمانوں کو جہاد پر آمادہ کیا گیا ہے۔
{ وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبْیْلِ اللّٰہِ } [9]
” اور اس کی راہ میں جنگ کرو “
اور چونکہ فریضہ جہاد سخت جانبازی اور فداکاری کی دعوت دیتا اور موت کے ڈر کو دل سے نکالتا ہے اس لیے یہ مناسب سمجھا گیا کہ پہلے بنی اسرائیل کے ایک ایسے واقعہ کا ذکر کر دیا جائے جس میں جہاد کے خوف سے بھاگ جانے والوں پر موت کا عذاب مسلط کیا گیا۔ تاکہ وہ اس واقعہ سے عبرت حاصل کریں اور ان کے قلوب میں شجاعت و بہادری کا جذبہ اور بزدلی و نامردی کے خلاف نفرت پیدا ہو۔

احیائے موتی[ترمیم]

یہ تمام تصریحات و تفصیلات جمہور کے مسلک کے مطابق کی گئی ہیں۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ احیائے موتی کا یہ معاملہ ان لوگوں کی عبرت کے لیے تھا جو قیامت کے دن حشر اجساد کے منکر ہیں کیونکہ بنی اسرائیل میں بھی مشرکین کا ایک ایسا گروہ تھا جو حشر اجساد کا قائل نہ تھا۔ ١ ؎
ہم اگرچہ اس مسئلہ پر گذشتہ صفحات میں بحث کر آئے ہیں لیکن اس مقام پر بھی اس قدر واضح کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ جب کہ روحانیت Spiritualism کے ماہرین کے نزدیک یہ بات پایہ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ ” روح “ جسم سے الگ ایک مستقل مخلوق ہے اور جسم کے گل سڑ جانے اور اس کی عنصری ترکیب کے مٹ جانے کے باوجود روح زندہ رہتی ہے ‘ نیز یہ بھی امر معقول ہے جس ہستی نے کسی شے کو ترکیب دیا ہے وہ ترکیب کے بکھر جانے کے بعد دوبارہ اس کو ترکیب دے سکتی ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ حیات روح اور بکھرے ہوئے اجزاء کی دوبارہ ترکیب کے معقول ہونے کے بعد احیائے موتی کا انکار کیا جائے جو بعض خاص حالات میں نبی اور رسول کی تصدیق اور تائید کے لیے اسی دنیا میں بصورت معجزہ عالم وجود میں آجاتا ہے۔
اور جن حضرات نے جلد اول میں معجزہ کی بحث کا مطالعہ فرمایا ہے وہ اس شبہ کا جواب بھی پاسکتے ہیں کہ عالم دنیا میں عام قانون کے مطابق اگرچہ دوبارہ زندگی نہیں ملتی اور قیامت ہی کے دن حشر اجساد کا واقعہ پیش آئے گا لیکن خاص قانون کے پیش نظر کسی حکمت و مصلحت کی بنا پر ایسا ہونا عقلاً نہ صرف ممکن ہے بلکہ واقع ہوتا رہا ہے۔
لیکن جمہور کے خلاف مشہور تابعی مفسر ابن جریج کہتے ہیں کہ ان آیات میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ ایک تمثیل ہے جو جہاد سے ڈر کر بھاگنے والوں کی عبرت و بصیرت کے لیے قرآن نے بیان کی ہے ‘ کسی واقعہ کا ذکر نہیں ہے جو بنی اسرائیل کی سابق تاریخ میں پیش آیا ہو۔ ہمارے نزدیک جمہور کا قول صحیح ہے اس لیے کہ قرآن عزیز کے نظم کلام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات سے پہلے زن و شوہر سے متعلق طلاق کے بعض احکام بیان کیے جا رہے ہیں اور جہاد کا قطعاً کوئی تذکرہ نہیں ہے البتہ ان آیات کے بعد آیت جہاد مذکور ہے پس اگر یہ آیات جہاد کی ترغیب و ترہیب کے لیے بطور تمثیل پیش کی گئی ہیں تو بلاغت کے اعتبار سے پہلے جہاد کا حکم مذکور ہوتا اور پھر جہاد سے جی چرانے والوں کے لیے بطور مثال اس حقیقت کا اظہار کیا جاتا ‘ کہ جہاد سے بھاگنے والوں کا حشر خراب ہوتا ہے مگر یہاں اس کے برعکس ہے ‘ یعنی پہلے تمثیل بیان ہوئی ہے پھر آیت جہاد ہے۔
اس لیے صحیح تفسیر یہ ہے کہ جب کلام کا رخ حکم جہاد کی جانب ہوا تو اس سے قبل بنی اسرائیل کا ایک واقعہ بیان کیا گیا کہ اگلے وقتوں میں ایک قوم نے جہاد سے روگردانی کر کے خدا کا عذاب مول لیا تھا اور اس کے بعد مخاطبین قرآن کو حکم دیا گیا کہ جہاد کے لیے تیار ہو جاؤ ‘ اس طریق بیان کا نفسیاتی اثر یہ ہوتا ہے کہ اس حکم کی روگردانی مشکل ہوجاتی ہے اور وساوس و شبہات اور ہواجس و خطر ات کا جو ہجوم جان طلبی کے اس اہم موقع پر دل پر چھا جاتا ہے وہ مرد سلیم الطبع سے فوراً کافور ہوجاتا ہے اور پھر وہ خود کو حق کی راہ میں جاں سپاری کے لیے ہر طرح آمادہ پاتا ہے۔

بصائر[ترمیم]

حضرت حزقیل (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل سے متعلق ان آیات میں جو بصیرتیں نمایاں طور پر ہم کو دعوت نظر دیتی ہیں وہ یہ ہیں :
اگر فطرت سلیم اور طبع مستقیم ہو تو انسان کی ہدایت اور بصیرت کے لیے ایک مرتبہ فکر و ذہن کو حقائق کی جانب متوجہ کردینا کافی ہے پھر اس کی انسانیت خود بخود راہ مستقیم پر گامزن ہوجاتی اور منزل مقصود کا پتہ لگا لیتی ہے۔ لیکن اگر خارجی اسباب کی بنا پر فطرت میں کجی اور طبیعت میں زیغ پیدا ہو چکا ہو تو اس کو ہموار کرنے کے لیے اگرچہ بار بار خدا کی پکار اس کو بیدار کرتی ہے مگر ہر مرتبہ کے بعد اس کی صلاحیتیں اور استعدادی قوتیں خفتہ ہوجاتیں بلکہ اور زیادہ غفلت میں سرشار ہو کر رہ جاتی ہیں ‘ حتیٰ کہ قوت و استعداد باطل ہوجاتی ہے اور جب اس درجہ پر پہنچ جاتی ہے جس کا ذکر قرآن عزیز نے اس طرح کیا ہے۔
{ خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَ عَلٰی سَمْعِھِمْط وَ عَلیٰٓ اَبْصَارِھِمْ غِشَاوَۃٌ} [10]
تو پھر اس پر خدا کا عذاب نازل ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ کے لیے اس کے غضب اور اس کی پھٹکار کا نشانہ بن جاتی اور اس اعلان کا مستحق ٹھہرتی ہے۔
{ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُق وَ بَآئُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ } [11]
چنانچہ بنی اسرائیل کی پیہم سرکشی اور خدا کے فرامین کے مقابلہ میں مسلسل بغاوت نے ان کی کج روی کو اس دوسری راہ پر ڈال دیا تھا اور حضرت حزقیل (علیہ السلام) کے دور میں بھی وہ اسی راہ بد کی تکمیل میں مصروف تھے۔ مگر ان میں ایک چھوٹی سی جماعت پیغمبروں کی رشد و ہدایت کے سامنے ہمیشہ سر جھکاتی رہی اور لغزشوں اور خطاکاریوں کے باوجود اس نے راہ مستقیم کو گرتے پڑتے حاصل کر ہی لیا۔
! جہاد اگرچہ قوم کے بعض افراد کے لیے پیغام موت بن کر ان کو دنیوی لذائذ سے محروم کردیتا ہے لیکن وہ امت اور قوم کے لیے اکسیر حیات ہے اور نظام قومی و ملی کے لیے بقائے دوام کا کفیل اور ساتھ ہی آغوش موت میں جانے والے افراد کے لیے فانی اور ناپا ئیدار حیات کے عوض حیات سرمدی عطا کرنے والا ہے ‘ یہی موت کا وہ فلسفہ ہے جس نے مسلمانوں کی زندگی کو دوسری قوموں سے اس طرح ممتاز کر دیا تھا کہ خدا کا کلمہ بلند کرنے والا انسان حیات دنیوی سے اگر شاد کام رہا تو غازی اور مجاہد ہے اور اگر موت کا شربت حلق سے اتار لیا تو شہید ہے ‘ اسی لیے ارشاد ہے :
{ وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌط بَلْ اَحْیَآئٌ وَّ لٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ } [12]
” اور جو اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ان کو مردہ نہ کہو بلکہ (حقیقی) حیات تو ان ہی کو حاصل ہے لیکن تم اس حقیقت سے آگاہ نہیں ہو۔ “
اور اسی لیے اس زندگی سے جان چھڑانے والے کے لیے یہ وعید ہے :
{ وَ مَنْ یُّوَلِّھِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہٗٓ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ فَقَدْ بَآئَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ مَاْوٰہُ جَھَنَّمُ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ } [13] ” اور جو کوئی اس روز (جہاد کے روز) ان (کافروں ) کو اپنی پیٹھ دے گا سوائے اس شخص کے جو لڑائی کی جانب واپس آنے والا ہو یا اپنی جماعت میں پناہ تلاش کرنے والا ہو وہ اللہ کے غضب کی طرف لوٹا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے۔ “
اسلام شجاعت کو خلق حسن قرار دیتا اور بزدلی کو اخلاق ردیہ میں شمار کرتا ہے۔ ایک حدیث میں مختلف اعمال بدکو شمار کراتے ہوئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد منقول ہے کہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی لغزش اور خطا کی راہ سے ان اعمال کا صدور ممکن ہے۔ لیکن اسلام کے ساتھ جبن (بزدلی) کسی حال میں بھی جمع نہیں ہو سکتی مگر یاد رہے کسی پر بے جا قوت آزمائی کا نام شجاعت نہیں ہے ‘ بلکہ امر حق پر قائم ہوجانا اور باطل سے بے خوف بن جانا شجاعت ہے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (کتاب) حزقی ایل، 1:1، 15:3
  2. قاموس الکتاب، صفحہ 322
  3. حزقی ایل، 3:1
  4. (تاریخ ابن کثیر جلد ٢ ص ٢)
  5. ١ ؎ حزقی ایل کی کتاب
  6. ٢ ؎ تاریخ ابن کثیر جلد ٢ ص ٣۔ )
  7. (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر جلد ٢ ص ١٣٤ و روح المعانی جلد ٢ صفحہ ١٣٠ و تفسیر کبیر جلد ٢ صفحہ ٢٨٣)
  8. (البقرۃ : ٢/٢٤٣)
  9. (بقرہ : ٢/٢٤٤)
  10. (سورہ البقرۃ : ٢/٧)
  11. (سورہ البقرۃ : ٢/٦١)
  12. (سورہ البقرۃ : ٢/١٥٤)
  13. (سورہ الانفال : ٨/١٦)