خلافت راشدہ کے والیوں کی فہرست
خلافت راشدہ متعدد ولایتوں (والی کے زیر ولایت علاقہ) پر بنا کسی خاص سرحد کے منقسم تھی، چنانچہ یہ ولایتیں حکومت کی توسیع کے مطابق وقتاً فوقتاً بدلتی رہتی تھیں۔ ولایتوں کے تعلق سے خلفائے راشدین کی پالیسیاں اور طریقہ کار باہم مختلف رہے ہیں، ان میں سے ہر ایک حکومت کے زیر تسلط علاقوں میں والیوں اور عاملوں کے انتخاب میں اپنا الگ معیار رکھتا تھا۔ چنانچہ خلیفہ راشد دوم عمر بن خطاب ہمیشہ صحابہ کو ولایت میں مقدم رکھتے تھے، جبکہ عثمان بن عفان اس پر زیادہ توجہ نہیں دیتے تھے، بلکہ وہ طاقت و امانت دیکھ کر والی بنا دیتے تھے، اسی طرح علی بن ابی طالب بھی طاقت و قوت اور اثر رسوخ کو ترجیح دیتے تھے، جب ان کے والیوں سے غیر مناسب افعال سرزد ہوتے یا شکایات آتی تو انھیں سزا بھی دیتے تھے۔[1] ان سب کے باوجود تمام خلفائے راشدین، صحابہ کو والی بنانے پر توجہ دیتے تھے اسی وجہ سے خلافت راشدہ کے اکثر والی صحابہ تھے یا ان کی اولادیں تھیں۔ والی کی کوئی متعین مدت نہیں ہوتی تھی بلکہ خلیفہ کی صوابدید، اس کی رضامندی اور والی کی بحسن وخوبی ذمہ داری ادا کرنے پر موقوف ہوا کرتا تھا۔ والی کہ اہم ذمہ داریوں میں سے: سرحدوں کو مستحکم کرنا، فوجیوں کی تربیت کرنا، دشمنوں کی خبرون کی چھان بین کرنا، شہروں میں کارکنان اور عمال متعین کرنا اور ولایت (والی کا علاقہ) کی تعمیر و ترقی کرنا (مثلاً: چشمے، نہر، ہموار راستے، سڑک، پل، بازار اور مساجد بنوانا، شہروں کی منصوبہ بندی کرنا وغیرہ) شامل ہیں۔[2] تاہم والیوں اور عاملوں کے اختیارات اور ان کے کام خلافت کی توسیع کے ساتھ بڑھتے رہے، یہاں تک کہ عثمان بن عفان کے عہدِ خلافت میں ان کے پاس مکمل فوجی اختیارات ہو گئے، وہ بھی فتوحات حاصل کرنے لگے اور قلعے بنانے لگے، لیکن اختیارات مالی نہیں تھے، مالی اختیار خراج وصول کرنے والے عاملوں اور صدقات و زکوٰۃ جمع کرنے والوں کے ہاتھوں میں ہی رہا۔[3]
خلیفہ اول ابوبکر صدیق کے اقتدار سنبھالنے اور خلیفہ بننے کے بعد پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ کے ذریعہ متعین کردہ بہت سے والیوں نے دوسرے خلیفہ کے لیے کام کرنے سے انکار کر دیا اور اپنے عہدہ سے دستبردار ہو گئے، ابوبکر صدیق نے نئے والیوں کو مقرر کیا۔[4] خلیفہ دوم عمر بن خطاب نے اپنے وسیع خلافت میں، خلافت راشدہ کو مختلف ولایتوں میں تقسیم کر دیا اور ہر ولایت میں وہاں کے معاملات سنبھالنے کے لیے ایک مختص والی مقرر کر دیا، وہ ان والیوں کی پوری باریک بینی سے نگرانی اور محاسبہ کرتے تھے، اس لیے کہ وہ پوری سادگی اور انصاف پروری کے ساتھ ساتھ والیوں سے متعلق نہایت سخت تھے، حج کے موسم اپنے تمام والیوں کو طلب کرکے جمع کرتے تھے اور کارگزاری لیتے تھے، [3] ڈاک کے ذمہ داروں سے کہہ رکھا تھا کہ وہ مختلف ولایتوں کے لوگوں سے وہاں کے والی سے متعلق شکایات کو والی کی مداخلت شکایت سے متعلق اسے بتائے بغیر خلیفہ تک پہنچایا جائے۔[5]
ابوبکر صدیق کے والیوں کی فہرست
[ترمیم]ولایت کا نام | والی کا نام | سنہ وفات | مختصر تعارف |
---|---|---|---|
مکہ | عتاب بن اسید | 13ھ | فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا، پیغمبر اسلام نے غزوہ حنین جاتے وقت انھیں مکہ کا عامل بنایا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ: غزوہ طائف سے واپسی کے بعد بنایا تھا، انھوں نے ہی فتح مکہ کے سال لوگوں کو حج کرایا تھا، ابوبکر صدیق نے انھیں ان کے عہدہ پر تا وفات باقی رکھا، وفات سنہ 13ھ میں ہوئی جس سال ابوبکر صدیق کی وفات ہوئی۔[6] |
طائف | عثمان بن ابی العاص | 51ھ | صحابی ہیں، بنو ثقیف کے ساتھ محمد بن عبد اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، پیغمبر اسلام نے انھیں طائف کا عامل بنایا تھا، نبی کی وفات اور ابوبکر صدیق کی وفات تک اور عمر بن خطاب کے عہد میں دو سال تک وہیں عامل رہے، عمر فاروق نے انھیں وہاں سے معزول کر کے سنہ 15ھ میں عمان اور بحرین کا والی بنا دیا تھا، چنانچہ یہ عمان چلے گئے اور اپنے بھائی حکم بن ابی العاص ثقفی کو بحرین بھیج دیا۔ سنہ 51ھ میں معاویہ کے عہد میں بصرہ میں وفات ہوئی۔[7] |
بحرین | علا حضرمی | 21ھ | مہاجرین کے سرداروں میں سے ہیں، نبی نے انھیں بحرین کا عامل بنایا تھا، پھر وہیں ابوبکر و عمر کے عہد تک والی رہے۔ کہا جاتا ہے کہ: عمر فاروق نے انھیں بصرہ کا حاکم بنا کر بھیجا تھا لیکن پہنچنے سے پہلے وفات ہو گئی۔ سنہ وفات 21ھ ہے۔[8] |
عُمان | حذیفہ بن محصن بارقی | ؟ | صحابی ہیں انھیں نبی نے عُمان کا والی بنا کر بھیجا تھا۔[9][10] اسلامی فتوحات میں شریک رہے، جنگ قادسیہ اور ایران کی فتوحات میں بھی شریک رہے ہیں۔[11] ابوبکر صدیق نے انھیں فتنۂ ارتداد کی جنگیں کا امیر بنایا تھا۔[12][13] یہ اس مہم کی قیادت کر رہے کر تھے جس کو ابوبکر صدیق نے دبا فجیرہ کے مرتدوں سے مقابلہ کے لیے روانہ کیا تھا۔[14] ابوبکر نے انھیں سلطنت عمان کا والی بنایا تھا۔[15][16] ابوبکر کی وفات کے بعد عمر بن خطاب نے یمامہ کا والی بنا دیا تھا۔[17][18] |
یمامہ | سمرہ بن عمرو عنبری | ؟ | خالد بن ولید نے انھیں یمامہ کو فتح کرنے کے بعد ابوبکر صدیق کے حکم سے وہاں کا والی بنا دیا تھا۔[19] |
یمن (صنعاء) | مہاجر ابن ابی امیہ | ؟ | نبی نے انھیں صدقات وصولنے کا عامل بنایا تھا، نبی کی وفات تک بیماری کی وجہ سے مدینہ میں ہی رہے، بعد میں "زياد بن لبيد" کو خط لکھا (زیاد یمن میں رسول اللہ کے عامل تھے)، جب بیماری سے نجات ملی تو فتنہ ارتداد کا زمانہ تھا، ابوبکر صدیق نے فتنۂ ارتداد کی جنگیں میں یمن میں اسود عنسی سے مقابلہ کے لیے ان کے ہاتھ میں جھنڈا دیا تھا، جنگ میں کامیاب ہونے کے بعد ابوبکر صدیق نے انھیں یمن اور محافظہ حضرموت کی ولایت کا اختیار دیا، انھوں نے یمن کو اختیار کیا۔[20][21] |
نجران | جریر بن عبد اللہ بجلی | 51ھ | اکابر صحابہ میں سے ہیں، یمن سے اسلام قبول کر کے مدینہ آئے، نبی کے ساتھ غزوات میں بھی شرکت کی، نبی نے نجران کا عامل بنا دیا تھا، ابوبکر کے عہد تک وہیں عامل رہے، پھر عراق کی فتح میں شرکت کی اور کوفہ میں سکونت پزیر ہو گئے، علی بن ابی طالب اور معاویہ بن ابو سفیان کے درمیان میں جنگوں میں علیحدگی اختیار کر لی تھی، سنہ 51ھ میں وفات پائی۔[22] |
عمر بن خطاب کے والیوں کی فہرست
[ترمیم]مدت ولایت | والی کا نام | سنہ وفات | مختصر تعارف | ||
---|---|---|---|---|---|
مکہ | |||||
عمر بن خطاب کی خلافت کا اوائل۔ | محرز بن حارثہ | 36ھ | صحابی ہیں، عمر بن خطاب نے اپنی خلافت کے اوائل میں مکہ کا والی بنایا تھا، پھر معزول کر دیا تھا۔ جنگ جمل میں شہید ہوئے تھے۔[23] مدت ولایت کے حالات مذکور نہیں ہیں۔[24] | ||
محرز بن حارثہ کی معزولی کے بعد | قنفذ بن عمیر تمیمی | ؟ | صحابی ہیں، عمر بن خطاب نے مکہ کا والی مقرر کیا تھا پھر معزول کر دیا تھا، مدت ولایت مذکور نہیں ہے۔[25] | ||
قنفذ بن عمیر کی معزولی کے بعد۔ | نافع بن عبد الحارث خزاعی | ؟ | عمر بن خطاب نے مکہ کا والی بنایا تھا، قریش کے سرداروں کے ہوتے ہوئے انھیں والی بننا اچھا نہیں لگا، چنانچہ انھیں معزول کر کے خالد بن العاص کو والی بنا دیا۔ بزرگ صحابہ میں شمار ہوتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ: نافع نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا، مکہ ہی میں رہتے تھے۔[26] بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عمر فاروق نے انھیں خلافت کے اخیر میں پھر مکہ کا والی بنا دیا تھا۔[27] | ||
نافع بن عبد الحارث کی معزولی کے بعد۔ | خالد بن العاص | وفات در عہدِ معاویہ بن ابی سفیان | فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا، مکہ میں ہی رہتے تھے، عمر بن خطاب نے نافع کو معزول کرنے کے بعد انھیں وہاں کا والی بن دیا تھا، اسی طرح عثمان بن عفان کے عہد میں بھی عامل رہے۔[28] | ||
طائف | |||||
13ھ – 15ھ | عثمان بن ابی العاص | 51ھ | عمر بن خطاب کے زمانے میں دو سال تک طائف کے والی رہے، پھر جہاد میں شریک ہونے کی اجازت مانگی اور قبول ہوئی۔[29] | ||
15ھ – 23ھ | سفیان بن عبداللہ | ؟ | صحابی ہیں، بنو ثقیف کے ساتھ پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، عمر بن خطاب نے عثمان بن ابی العاص کی جگہ انھیں طائف کا والی بنایا دیا تھا اور عثمان کو بحرین بھیج دیا تھا۔[30] | ||
بحرین | |||||
13ھ – 14ھ | علا الحضرمی | 21ھ | راجح قول کے مطابق سنہ14ھ تک بحرین کے والی رہے، پھر انھیں بصرہ کی امارت کے لیے بھیجا لیکن وہاں پہنچنے سے پہلے 21ھ میں وفات پا گئے، کہا جاتا ہے کہ انھوں نے بلاد فارس میں بحری راستے سے حملہ کیا تھا جو عمر فاروق کو پسند نہیں تھا اس لیے انھیں وہاں سے معزول کر دیا۔[31] | ||
15ھ میں، پھر اخیر میں ابو ہریرہ کے بعد دوبارہ والی بنائے گئے۔ | عثمان بن ابی العاص | 51ھ | انھیں سنہ 15ھ میں عمان اور بحرین کا والی بنایا تھا، عثمان عمان چلے گئے اور اپنے بھائی حکم بن ابی العاص ثقفی کو بحرین بھیج دیا، پھر بصرہ میں فوجیوں کی قیادت کی ضرورت پڑی تو ولایت کو چھوڑ دیا۔ اخیر میں ابو ہریرہ کے بعد پھر والی بنائے گئے اور عمر فاروق کی وفات تک والی رہے۔[32] | ||
عثمان بن ابی العاص کے بصرہ جانے کے بعد، مدت ولایت بہت مختصر رہی۔[33] | عیاش بن ابی ثور | ؟ | صحابی ہیں، عمر بن خطاب نے قدامہ بن مظعون سے پہلے بحرین کا والی کا والی بنایا تھا۔[34] | ||
عیاش بن ابی ثور کے بعد سنہ20ھ تک۔ | قدامہ بن مظعون | 36ھ | صحابی ہیں، دونوں ہجرتوں میں شرکت کی ہے، غزوہ بدر اور غزوہ احد میں بھی شریک تھے، عمر فاروق نے بحرین کا والی بنایا تھا، شراب پینے کی شکایت کی وجہ سے معزول کر کے ان پر حد لگائی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک برتن میں کوئی نا معلوم چیز تھی جس کو پی لیا تھا۔[35] | ||
سنہ 20ھ | ابو ہریرہ | 36ھ | قدامہ کے بعد عمر فاروق نے انھیں بحرین کا والی بنایا تھا، پھر ان کے مالی حساب وکتاب کی تحقیق کے لیے طلب کیا، ابو ہریرہ دس ہزار درہم لے کر مدینہ پہنچے، انھوں نے اپنی صفائی دی اور حق بجانب رہے، عمر فاروق نے انھیں دوبارہ والی بنانا چاہا لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔[36] | ||
مصر | |||||
21ھ – 23ھ | عمرو ابن عاص | 43ھ | صحابی ہیں، سنہ 8ھ میں اسلام قبول کیا تھا، قریش کے بہادر گھڑسواروں میں شمار ہوتا تھا۔ سریہ عمرو بن عاص (ذات السلاسل) میں قائد تھے، اسی طرح کچھ عرصے کے لیے عمان کے والی بھی رہے، قنسرین، حلب، منبج اور انطاکیہ کے فاتح رہے ہیں، فلسطین کے بھی والی رہے ہیں۔[37] اسلامی فتح مصر میں شریک رہے اور فتح کے بعد وہاں کے والی مقرر ہو گئے۔[38][39][40][41][42][43] | ||
یمن (صنعاء) | |||||
؟ | یعلی بن امیہ[44] | 38ھ | فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا، غزوہ حنین، غزوہ طائف اور غزوہ تبوک میں حاضر رہے۔ ابو بکر صدیق نے فتنہ ارتداد کے وقت حُلوان کا عامل بنایا تھا، پھر عمر فاروق کے زمانے میں یمن کے والی رہے، جنگ جمل میں عائشہ بنت ابی بکر کے لشکر میں تھے، بعد میں علی بن ابی طالب کے اصحاب میں ہو گئے اور ان کی ساتھ جنگ صفین میں شریک ہوئے اور اسی میں شہادت پائی۔[45] | ||
یمن (الجند) | |||||
؟ | عبد اللہ بن ابی ربیعہ[44] | 38ھ | عمر بن خطاب نے انھیں یمن (الجُند) کا والی بنایا تھا اور عمر فاروق کی وفات تک وہاں کے والی رہے۔[46] |
شام کے والیوں کی فہرست
[ترمیم]مدت ولایت | والی کا نام | سنہ وفات | مختصر تعارف | ||
---|---|---|---|---|---|
ولایتِ عامہ شام | |||||
13ھ – 18ھ | ابو عبیدہ بن جراح | 18ھ | عمر بن خطاب نے انھیں خالد بن ولید کے بعد شام کا والی بنایا تھا، ان کی وفات طاعون عمواس کی وبا پھوٹنے سے 18ھ میں ہوئی۔[47] | ||
18ھ | یزید بن ابو سفیان | 18ھ | ابو عبیدہ بن جراح کی وفات کے بعد عمر بن خطاب انھیں شام کا والی بنایا، قیصریہ کو فتح کرنے پر مامور تھے، مدت ولایت بہت مختصر رہی 18ھ میں وفات پا گئے۔[48] | ||
18ھ – 23ھ | معاویہ بن ابو سفیان | 60ھ | عمر بن خطاب نے انھیں ان کے بھائی یزید بن ابو سفیان کی جگہ والی بنایا، ان کے حق میں ایک خط بھی لکھا جیسا کی والیوں کی تقرری میں کیا کرتے تھے اور عمر فاروق کی وفات تک شام کے والی رہے۔[49] | ||
حمص اور جزیرہ | |||||
18ھ – 20ھ | عیاض بن غنم | 20ھ | جب ابو عبیدہ بن جراح کی وفات کا قریب آیا تو انھوں نے عیاض کو حمص کا والی بنانا چاہا، عمر بن خطاب نے منظور کر لیا اور جزیرہ فرات کو فتح کرنے کا حکم دیا، چنانچہ انھوں نے سنہ 18ھ میں فتح کیا اور حمص اور فرات و قنسرین کے والی بنا دیا گیا، وفات 20ھ میں ہوئی اس وقت ان کی عمر 60 سال تھی۔[50] | ||
20ھ | سعید بن عامر | 20ھ | عمر بن خطاب نے انھیں عیاض بن غنم کی وفات کے بعد 20ھ میں حمص کا والی بنایا تھا، چند ماہ کی والی رہے اور اسی سال ان کی وفات ہو گئی۔[51] | ||
20ھ - ؟ | عمیر بن سعد | ؟ | صحابی ہیں، غزوہ بدر، غزوہ احد اور غزوہ تبوک میں شریک رہے ہیں، اسی طرح شام کی اسلامی فتح میں بھی شریک تھے، عمر بن خطاب نے انھیں حمص اور دوسرے علاقوں کا والی بنایا تھا، زمانہ وفات میں اختلاف ہے، ایک قول: عہد عمر میں اور ایک قول: عہد معاویہ میں، کا ہے۔[52] | ||
اردن | |||||
13ھ – 17ھ | شرحبیل بن حسنہ | 18ھ | صحابی ہیں، سلطنت ایتھوپیا کے مہاجرین میں سے تھے، عمر فاروق نے انھیں شام ایک ایک خطہ کا والی بناتا تھا، چنانچہ شرحبیل بن حسنہ نے اردن کے پورے علاقہ کو سوائے طبریہ کے فتح کیا؛ وہاں کے لوگوں نے صلح کر لی تھی، یہ ابو عبیدہ بن جراح کے حکم سے تھا۔ بعد میں عمر فاروق نے انھیں اردن کی ولایت سے معزول کر دیا تھا، وفات 18ھ میں طاعون عمواس میں ہوئی۔[53] | ||
17ھ – 23ھ | معاویہ بن ابو سفیان | 60ھ | شرحبیل بن حسنہ کے بعد معاویہ اردن کے والی بنے، مستقل وہ والی رہے یہاں تک کہ شام کے عام والی بن گئے۔[54] |
عراق و فارس کے والیوں کی فہرست
[ترمیم]مدت ولایت | والی کا نام | سنہ وفات | مختصر تعارف | ||
---|---|---|---|---|---|
ولایتِ اجنادِ عراق | |||||
13ھ | ابو عبید بن مسعود ثقفی | 13ھ | عمر بن خطاب نے انھیں مثنی ابن حارثہ کے بعد عراق کا والی بنایا تھا، ان کی مدت ولایت بہت مختصر رہی اور معرکہ جسر میں شہید ہو گئے۔[55] | ||
؟ - ؟ | سعد بن ابی وقاص | 55ھ | سعد بن ابی وقاص عراق میں اسلامی فوج کے قائد تھے، جنگ قادسیہ میں فتح پائی اور مدائن کو فتح کیا، ولایتوں کو منظم و مرتب کرنا شروع کیا، چنانچہ بصرہ] اور کوفہ کی ولایتیں وجود میں آئیں۔[55] | ||
بصرہ | |||||
؟ - ؟ | شریح بن عامر | ؟ | صحابی ہیں، خالد بن ولید نے انھیں شام جاتے وقت بصرہ میں جزیہ وصولنے کا ذمہ دار بنایا تھا اور عمر بن خطاب نے بصرہ کے آس پاس کے علاقوں کا والی بنا دیا تھا، اہواز کے ایک معرکہ میں وفات پائی۔[56] | ||
14ھ – 17ھ | عتبہ بن غزوان | 17ھ | عمر فاروق نے انھیں 14ھ میں بصرہ کا والی بنایا تھا، وفات سنہ 17ھ میں ہوئی۔[55] | ||
17ھ | مغیرہ ابن شعبہ | 50ھ | عتبہ بن غزوان کی وفات کے بعد انھیں بصرہ کا والی بنایا تھا، پھر سنہ 17ھ میں زنا کی تہمت کی نسبت کیوجہ سے معزول کر دیا۔ تحقیق کے بعد مغیرہ بے گناہ ثابت ہوئے اور عمر فاروق نے گواہوں پر حد جاری کی، اس کے بعد عمر فاروق نے دیگر خطوں کا بھی والی بنایا تھا۔[55] | ||
17ھ – 23ھ | ابو موسیٰ اشعری | 42ھ | بصرہ کے سب سے مشہور والی، انھوں نے ہی شہر کی تعمیر وترتیب کا منصوبہ بنایا اور وہاں مٹی کا ایک "دار الامارت" بھی بنایا تھا۔، [57] ان کے زمانے میں بلاد فارس کے علاقے اور اہواز فتح ہوا تھا۔[55] | ||
کوفہ | |||||
17ھ – 20ھ | سعد بن ابی وقاص | 55ھ | سعد بن ابی وقاص کوفہ کے پہلے والی تھے، انھوں نے ہی عمر فاروق کے حکم سے 17ھ میں اس کی بنیاد رکھی، بعد میں بعض لوگوں کی شکایت کی وجہ سے انھیں معزول کر دیا۔[55] | ||
ایک سال نو مہینے | عمار بن یاسر | 37ھ | عمر بن خطاب نے عمار بن یاسر کو کوفہ کا امیر بنایا تھا، ان کے ساتھ عبد اللہ بن مسعود کو بھی بیت المال کے وزیر کے طور پر بھیجا، بعد میں اہل کوفہ کی شکایت کی وجہ سے معزول کر دیا تھا۔[55] | ||
؟ - 23ھ | مغیرہ ابن شعبہ | 50ھ | عمار بن یاسر کے بعد مغیرہ ابن شعبہ کوفہ کے والی بنے اور عمر فاروق کی وفات تک وہاں کے والی رہے۔[55] | ||
موصل | |||||
16ھ – 17ھ[58] | ربعی بن افکل | سعد بن ابی وقاص نے موصل کی جنگ میں والی بنایا تھا۔ عراق کی کئی فتوحات میں شریک رہے۔[59] | |||
17ھ – 20ھ[58] | عبد اللہ بن معتم عبسی | انھوں نے ہیموصل اور تکریت کو فتح کیا تھا، ان کے ساتھ عرفجہ بن ہرثمہ اور ربعی بن افکل بھی تھے، چنانچہ تکریت کو۔فتح کیا اور ربعی بن افکل کو "نِينَوى" و "المَوْصِل" بھیجا انھوں نے دونوں کو فتح کیا۔[60] | |||
20ھ – 22ھ[58] | عتبہ بن فرقد سلمی | یہ بھی موصل کے والی رہے ہین، وہاں انھوں نے ایک مسجد اور گھر بنایا تھا۔آذربائیجان کی فتح میں بھی شریک تھے۔[61] | |||
22ھ – 23ھ[58] | عرفجہ بن ہرثمہ بارقی | 34ھ | عمر فاروق کی وفات کے بعد اپنی وفات 34ھ تک والی رہے۔ | ||
مدائن | |||||
؟ - ؟ | سلمان فارسی | 36ھ | سلمان فارسی کسی طرح کے عہدے و ولایت کو قبول نہیں کرتے تھے لیکن عمر بن خطاب کے اصرار کے بعد قبول کیا تھا، بعد میں خط کے ذریعہ معذرت چاہی عمر فاروق نے قبول کر لیا۔[55] | ||
؟ - 23ھ | حذیفہ بن یمان | 36ھ | عمر بن خطاب نے اہل مدائن کو حذیفہ بن یمان کی سمع و طاعت کا حکم دیا تھا، مدائن میں ایک طویل عرصے تک والی رہے۔[55] | ||
آذربائیجان | |||||
؟ - ؟ | حذیفہ بن یمان | 36ھ | حذیفہ بن یمان آذربائیجان کے پہلے والی تھے، بعد میں انھیں سلمان فارسی کے استعفی کے بعد مدائن بھیج دیا تھا۔[55] | ||
؟ - 23ھ | عتبہ بن فرقد سلمی | ؟ | حذیفہ بن یمان کے بعد آذربائیجان کے والی بنے اور عمر فاروق کی وفات تک والی رہے۔[55] |
عثمان بن عفان کے والیوں کی فہرست
[ترمیم]مدت ولایت | والی کا نام | سنہ وفات | مختصر تعارف | ||
---|---|---|---|---|---|
مکہ | |||||
؟ - ؟ | علی بن عدی بن ربیعہ | ؟ | پیغمبر اسلام کے زمانہ میں پیدا ہوئے، ان کے والدین مسلمان تھے، صحابیت ثابت نہیں ہے، جنگ جمل مءں عائشہ بنت ابی بکر کے لشکر میں تھے اور اسی میں شہید ہوئے۔۔[62] | ||
؟ - ؟ | عبد اللہ بن عمرو حضرمی | ؟ | بنو امیہ کے حلیف اور علا الحضرمی کے چچا زاد بھائی ہیں، پیغمبر اسلام کے زمانے میں پیدا ہوئے تھے۔[63] | ||
؟ - ؟ | خالد بن العاص | وفات در عہد معاویہ بن ابو سفیان | عثمان بن عفان کے زمانہ خلافت کے آخری مہینوں میں دوبارہ والی بنائے گئے تھے۔[64] | ||
بحرین اور یمامہ | |||||
24ھ – 27ھ | عثمان بن ابی العاص | 51ھ | عثمان بن ابی العاص، عمر بن خطاب کی وفات کے بعد بھی بحرین کے والی رہے، عثمان بن عفان نے انھیں عہدے پر برقرار رکھا، بعض روایات سے معلوم ہوتا کہ تقریباً 3 سال تک والی رہے؛ یعنی سنہ 27ھ تک۔[65] | ||
؟ - ؟ | مروان بن حکم | 65ھ | مروان بن حکم، عثمان بن عفان کی جانب سے بحرین کا عامل تھا۔[66] وكان كاتب ابن عمہ عثمان، وإليہ الخاتم۔[67] | ||
؟ - ؟ | عبد اللہ بن سوار عبدی | 47ھ | عثمان غنی نے انھیں بھی بحرین کا عامل بنایا تھا، عثمان غنی کی وفات تک بحرین کے والی رہے۔[66] | ||
یمن(صنعاء) | |||||
24ھ – 35ھ | یعلی بن امیہ | 38ھ | یعلی عمر بن خطاب کے زمانے سے عثمان بن عفان کی وفات تک صنعاء کے والی رپے۔[66] | ||
یمن(الجند) | |||||
24ھ – 35ھ | عبد اللہ بن ابی ربیعہ | 38ھ | یمن کے (مدينة الجند) کے والی تھے، عثمان بن عفان کی وفات تک لمبے عرصے تک والی رہے۔[66] | ||
بلادِ شام | |||||
24ھ – 35ھ | معاویہ بن ابو سفیان | 60ھ | عثمان بن عفان جب خلیفہ بنے تو معاویہ بن ابو سفیان شام کے اکثر حصوں کے والی تھے، عثمان غنی نے انھیں برقرار رکھا اور بعض دوسرے حصے بھی حوالے کر دیا۔ مثلاً: حمص اور فلسطین، اس طرح دو سال میں پورا شام معاویہ کی ولایت میں آ گیا اور اخیر تک باقی رہا۔[68] | ||
مصر | |||||
24ھ – 35ھ | عبد اللہ ابن سعد | 59ھ | فتح مکہ کے دن اسلام قبول کیا، عمر بن خطاب کے زمانے صعید کے والی تھے، پھر عثمان بن عفان نے انھیں پورے مصر کا والی بنا دیا، افریقا پر اسلامی محاذ میں شریک تھے، پھر جنگ مستول میں بھی شریک رہے۔[69] | ||
بصرہ | |||||
24ھ – 29ھ | ابو موسیٰ اشعری | 42ھ | عمر بن خطاب نے ان کے تعلق سے وصیت کر رکھی تھی کہ ان کے بعد کا خلیفہ انھیں چار سال تک برقرار رکھے گا، چنانچہ عثمان بن عفان کے عہد میں وہ بصرہ کے والی رہے اور وہاں نہروں اور آبپاشی کے انتظامات کیے، پھر 29ھ میں معزول کر دیا اور ان کی جگہ عبد اللہ بن عامر بن کریز کو والی بنا دیا۔[70] | ||
29ھ – 35ھ | عبد اللہ بن عامر بن کریز | 59ھ | قریشی صحابی ہیں، خراسان کی فتح میں شریک تھے، ابو موسیٰ اشعری کے بعدبصرہ کے والی تھے، معاویہ بن ابو سفیان کی بیٹی ہند سے شادی کی تھی۔[71] | ||
کوفہ | |||||
24ھ – 25ھ | سعد بن ابی وقاص | 55ھ | عثمان غنی نے مغیرہ ابن شعبہ کے کوفہ سے معزولی کے بعد، سعد بن ابی وقاص کو ان کی وجہ والی بنایا تھا۔[72] | ||
25ھ – 30ھ | ولید بن عقبہ | ؟ | صغار صحابہ میں سے تھے، عثمان غنی کے ماں شریک بھائی تھے، فتح مکہ کے دن اسلام قبول کیا، پیغمبر اسلام نے انھیں بنو مصطلق کے صدقات کا عامل بنایا تھا، عثمان غنی نے کوفہ کا والی مقرر کیا، شام کے جہاد میں شریک رہے، عثمان غنی کی وفات کے بعد خود معزول ہو گئے۔[73] | ||
30ھ – 35ھ | سعید بن العاص | 59ھ | صغار صحابہ میں سے تھے، محمد بن عبد اللہ کی وفات کے وقت نو سال کے تھے، عثمان غنی نے ولید بن عقبہ کے بعد انھیں کوفہ کا والی بنایا تھا، چند ماہ کم پانچ سال تک وہاں کے والی رہے، پھر وہاں کے لوگوں نے معزول کر کے نکال دیا اور ابو موسیٰ اشعری کو امیر بنانا چاہا، لیکن انھوں نے منع کیا اور عثمان غنی سے تجدید بیعت کرائی پھر والی بنے۔[74] | ||
35ھ | ابو موسیٰ اشعری | 42ھ | عثمان غنی نے ابو موسیٰ اشعری کو کوفہ کا والی بنایا اور سعید بن العاص کو اہل کوفہ کے اصرار پر معزول کر دیا، ابو موسیٰ نے اہل کوفہ کو خوب سمجھایا اور خطبہ دیا: «لوگوں! اس طرح کی حرکتوں سے باز آ جاؤ أيها الناس، جماعت کو لازم پکڑو، اطاعت کیا کرو، جلد بازی سے پرہیز کرو اور صبر سے کام لیا کرو۔ لوگوں نے کہا: آپ ہماری امامت کیجیے! فرمایا: ہرگز نہیں پہلے عثمان بن عفان کی سمع و طاعت کا عہد کرو، تب لوگوں نے تجدید بیعت کی اور سمع و طاعت کا اقرار کیا، » چنانچہ عثمان غنی کی وفات تک والی رہے۔[75] | ||
موصل | |||||
23ھ – 34ھ[58] | عرفجہ بن ہرثمہ بارقی | 34ھ | وفات سنہ 34ھ تک والی رہے۔ | ||
آرمینیا | |||||
؟ - ؟ | حبیب بن مسلمہ فہری | 42ھ | حبیب بن مسلمہ فہری آرمینیا جانے والے لشکر کے قائد تھے، آٹھ ہزار جنگجو ان کی قیادت میں تھے، آرمینیا کے کچھ علاقوں کو فتح بھی کیا، لیکن پھر رومی لشکر سے خطرہ محسوس ہوا، عثمان غنی سے مدد طلب کی، انھوں نے کوفہ سے چھ ہزار جنگجو روانہ کیا۔ لیکن دوسرے لشکر کے قائد سلمان بن ربیعہ باہلی اور حبیب بن مسلمہ کے درمیان میں اختلاف ہو گیا، عثمان غنی نے مصالحت کرائی اور سلمان بن ربیعہ کو فوج کا قائد مقرر کیا ان کی وفات کے بعد حبیب بن مسلمہ کو قائد بنایا۔[76] | ||
؟ - ؟ | سلمان بن ربیعہ باہلی | 28ھ یا 31ھ | آرمینیا کے لیے کوفہ سے جانے والے لشکر کے قائد تھے۔ کے لشکر کے قائد تھے۔ آرمینیا پھر بلاد الخزر تک فتح کرتے چلے گئے، لیکن وہاں معرکہ میں مارے گئے، عثمان غنی نے حبیب بن مسلمہ فہری کو دوبارہ آرمینیا کی قیادت کا حکم دیا۔[76] | ||
؟ - ؟ | حذیفہ بن یمان | 36ھ | عثمان غنی نے انھیں آرمینیا کا حبیب بن مسلمہ فہری کو جزیرہ فرات بھیجنے کے بعد والی بنایا تھا۔ تقریباً ایک سال تک والی رہے پھر معزول کر دیا۔[76] | ||
؟ - ؟ | مغیرہ ابن شعبہ | 50ھ | مغیرہ ابن شعبہ، حذیفہ بن یمان کے بعد آرمینیا کے والی بنے اور عثمان غنی کی وفات تک وہاں کے والی رہے۔[76] | ||
اصفہان | |||||
؟ - 35ھ | خالد بن غلاب | صحابی ہیں، عمر بن خطاب کے زمانے میں بیت المال کے ذمہ دار تھے، عثمان بن عفان کے زمانے میں اصفہان کے والی بنائے گئے، جب عثمان غنی کا مدینہ منورہ میں محاصرہ ہوا تو یہ مدد کے ارادے سے نکلے يريد نصرہ، راستے ہی میں تھے کہ شہادت کی خبر ملی پھر واپس ہو گئے۔[77] |
علی بن ابی طالب کے والیوں کی فہرست
[ترمیم]مدت ولایت | والی کا نام | سنہ وفات | مختصر تعارف | ||
---|---|---|---|---|---|
مکہ | |||||
اوائل خلافت، سنہ 36ھ | ابو قتادہ انصاری | 54ھ | انصاری صحابی ہیں، غزوہ احد اور غزوہ خندق اور اس کے بعد کی تمام جنگوں میں شریک تھے۔ علی بن ابی طالب نے انھیں مکہ کا والی بنایا تھا۔ سنہ 54ھ میں مدینہ منورہ میں وفات ہوئی۔[78] | ||
36ھ – 40ھ | قثم بن عباس | 55ھ | پیغمبر اسلام کے چچا زاد بھائی ہیں، شکل نبی سے بہت زیادہ ملتی جلتی تھی، علی بن ابی طالب نے مکہ اور طائف دونوں کا ایک ساتھ والی بنایا تھا، فتحِ سمرقند میں شریک تھے اور اسی میں شہید ہوئے۔ | ||
مدینہ | |||||
37ھ | سہل بن حنیف | 38ھ | عثمان بن حنیف کے بھائی تھے، غزوہ بدر سمیت دیگر غزوات میں شریک رہے، علی بن ابی طالب کے والیوں میں سے تھے، وفات کوفہ میں سنہ 38ھ ہوئی، علی المرتضی نے نماز جنازہ پڑھائی۔[79] | ||
37ھ - ؟ | تمام بن عباس | ؟ | پیغمبر اسلام کے چچا زاد بھائی تھے، علی بن ابی طالب نے مدینہ منورہ کا والی مقرر کیا تھا؛ جب علی المرتضی عراق گئے تو سہل بن حنیف کو مدینہ کا عامل بنایا پھر انھیں معزول کر کے تمام بن عباس کو والی بنایا، بعد میں انھیں بھی معزول کر دیا۔[80] | ||
؟ - 40ھ | ابو ایوب انصاری | 54ھ | علی بن ابی طالب نے تمام بن عباس کو معزول کرنے کے بعد انھیں والی بنایا اور یہ سنہ 40ھ تک والی رہے، جب مدینہ منورہ میں معاویہ بن ابو سفیان کی جانب سے شام سے بسر بن ارطات کی قیادت میں لشکر آیا، تو ابو ایوب انصاری مدینہ سے کوفہ علی بن ابی طالب کے پاس چلے گئے۔[81] | ||
بحرین وعمان | |||||
؟ - ؟ | عمر بن ابی سلمہ | 83ھ | علی بن ابی طالب مدینہ منورہ سے عراق کے سفر کے دوران میں انھیں بحرین کا والی بنایا تھا، کچھ عرصہ تک وہاں والی رہے پھر اپنی رفاقت کے لیے عراق بلا لیا۔[82] | ||
؟ - ؟ | قدامہ بن عجلان انصاری | ؟ | علی بن ابی طالب کے بحرین میں والی تھے، ان کے بارے میں معلومات مذکور نہیں ہیں[82] | ||
؟ - ؟ | نعمان بن عجلان انصاری | ؟ | علی بن ابی طالب کے بحرین میں والی تھے۔[82] | ||
؟ - ؟ | عبید اللہ بن عباس | ؟ | علی بن ابی طالب نے بحرین کا والی بنایا تھا جیسا کہ ابن جریر طبری نے بیان کیا ہے، اسی طرح یمن کے بھی والی تھے۔[82] | ||
یمن (صنعاء) | |||||
36ھ – 40ھ | عبید اللہ بن عباس | ؟ | علی بن ابی طالب نے صنعاء اور وہاں کے عاملوں کے والی تھے اور علی المرتضی کی شہادت تک والی رہے۔[83] | ||
یمن (الجند) | |||||
36ھ – 40ھ | سعید بن سعد | ؟ | سعد بن عبادہ کے بیٹے تھے، علی بن ابی طالب کے والیوں میں سے تھے۔[83] | ||
جزیرہ | |||||
؟ - 38ھ | مالک اشتر | 38ھ | جزیرہ کی ولایت علی بن ابی طالب اور معاویہ بن ابی سفیان کے درمیان متنازع تھی، لیکن علی المرتضی وہاں غلبہ پانے میں کامیاب رہے اور مالک اشتر کو وہاں کا والی بنایا، یہ وہاں کے سب سے مشہور اور بہترین منتظم والی تھے، بعد میں انھیں سنہ 38ھ میں مصر منتقل کر دیا۔[84] | ||
مصر | |||||
36ھ – 38ھ | قیس بن سعد | معاویہ کے اخیر زمانے میں | عثمان بن عفان کے عہد میں خلافت میں محمد بن ابی حذیفہ نے مصر کی ولایت پر غاصبانہ قبضہ کر لیا تھا، جب وہ مارا گیا تب علی المرتضی نے قیس بن سعد کو مصر کا والی بنا دیا۔[85] حتى كتب إليہ عليّ: «إني قد احتجت إلى قربك، فاستخلف على عملك وأقدم»، فكان ذلك بمثابة عزلہ۔[86] | ||
38ھ | مالک اشتر | 38ھ | مالک اشتر کو علی المرتضی نے جزیرہ سے منتقل کر کے مصر کا والی بنایا تھا لیکن وہ بحیرہ احمر ہی پہنچے تھے کہ وہاں سنہ 38ھ میں وفات پا گئے۔[87] | ||
38ھ | محمد بن ابی بکر | 38ھ | علی المرتضی نے انھیں مالک اشتر کے مرنے کے بعد مصر کا والی بنایا، [87] پھر معاویہ بن حُدیج نے عمرو ابن عاص کی قیادت میں مصر پر لشکر کشی کی اور حملہ کیا، ان کے اور محمد بن ابی بکر کے درمیان میں جم کر جنگ ہوئی یہاں تک کی محمد بن ابی بکر کو دردناک طریقہ سے قتل کیا گیا اور مصر سنہ 38ھ میں علی المرتضی کی حکومت سے نکل گیا اور معاویہ اس پر قابض ہو گئے۔[88] | ||
بصرہ | |||||
36ھ | عثمان بن حنیف | ؟ | علی بن ابی طالب نے عثمان بن حنیف کو بصرہ کا والی بنا کر بھیجا تھا، عثمان وہاں کچھ ہی عرصہ تک رہے کہطلحہ بن عبید اللہ، زبیر ابن عوام اور عائشہ بنت ابی بکر کے لشکر عثمان غنی کے قتل کے قصاص کا مطالبہ کرنے لگے اور پھر معاملات بگڑتے چلے گئے، عثمان بن حنیف وہاں سے علی المرتضی کے پاس آ گئے، ان کی ولایت ختم ہو گئی۔[89] | ||
36ھ – 39ھ | عبد اللہ بن عباس | 68ھ | جب علی بن ابی طالب نے بصرہ سے نکلنے کا ارادہ کیا تو وہاں عبد اللہ بن عباس کو وہاں بنا دیا اور زیاد بن ابی سفیان کو خراج وصولنے کا ذمہ دار بنا دیا۔[89] | ||
39ھ – 40ھ | ابو الاسود الدؤلی | 69ھ | تابعی ہیں، علی بن ابی طالب کے اصحاب میں سے تھے انھیں بصرہ کا والی بھی بنایا تھا، جنگ صفین، جنگ جمل اور خوارج کے ساتھ جنگوں میں شریک تھے۔ان کو نحو کا بانی اور موجد کہا جاتا ہے۔[90] | ||
کوفہ | |||||
36ھ | قرظہ بن کعب انصاری | ؟ | کوفہ کے والی ابو موسیٰ اشعری تھے، جنھیں علی المرتضی کی بیعت لینے کا ذمہ دار بنایا گیا تھا، لیکن وہ صلح چاہتے تھے، جنگ نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے علی المرتضی نے ان کی جگہ قرظہ بن کعب انصاری کو والی بنا دیا۔ پھر امیر المومنین جنگ جمل کے بعد خود کوفہ آ گئے اور اسے دار الخلافہ بنا لیا۔[91] | ||
موصل | |||||
36ھ – 38ھ[58] | مالک اشتر | 38ھ | علی بن ابی طالب نے انھیں موصل اور جزیرہ کا والی بنایا تھا، پھر اسے مصر منتقل کر دیا، لیکن وہاں پہنچنے سے پہلے وفات ہو گئی۔ | ||
فارس | |||||
36ھ – 37ھ | سہل بن حنیف | 37ھ | علی المرتضی نے انھیں فارس کا والی بنایا تھا، لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد اہل فارس نے ان کے خلاف بغاوت کر دی اور انھیں تقریباً سنہ 37 هـ میں وہاں سے نکال دیا۔[92] | ||
37ھ – 40ھ | زیاد بن ابی سفیان | 53ھ | علی بن ابی طالب نے ابن عباس کے مشورہ سے چار ہزار فوج کے ساتھ فارس بھیجا تھا تاکہ وہاں کے فتنہ کو ختم کریں، چنانچہ فتنے کو ختم کیا اور علی المرتضی کی شہادت تک وہاں کے والی رہے۔[93] | ||
خراسان | |||||
؟ - ؟ | عبد الرحمن بن اَبزی | ؟ | ابن اثیر جزری نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ علی المرتضی نے انھیں خراسان کا والی بنایا تھا، مدت ولایت معلوم نہیں ہے۔[94] | ||
؟ - ؟ | جعدہ بن ہبیرہ مخزومی | ؟ | پیغمبر اسلام کے پھوپھی زاد بھائی تھے، ان کی والدہ ام ہانی بنت ابی طالب تھیں، ان کے ماموں علی المرتضی نے انھیں خراسان کا والی بنایا تھا۔[95] | ||
سیستان | |||||
؟ - ؟ | عبد الرحمن بن جزء طائی | ؟ | علی بن ابی طالب نے انھیں سیستان کا والی بنا کر بھیجا تھا، لیکن حسکہ بن عتاب حبطی نامی عرب ڈاکو نے انھیں قتل کر دیا اور مال چھین لیا۔[96] | ||
؟ - 40ھ | ربعی بن کاس عنبری | ؟ | عبد الرحمن بن جزء طائی کے قتل کے بعد علی المرتضی نے ابن عباس کو خط لکھا اور دوسرے آدمی کا مطالبہ کیا، چنانچہ انھوں نے چار ہزار فوج کے ساتھ ربعی بن کاس عنبری کو بھیجا اور ان کے ساتھ حصین بن ابی الحر عنبری کو بھیجا۔ سیستان پہنچ کر حسکہ کو مارا اور شہر کو اپنے قبضہ میں کیا۔[97] | ||
آذربائیجان | |||||
؟ - ؟ | اشعث بن قیس | 40ھ | اشعث بن قیس آذربائیجان کے والی تھے، عثمان بن عفان کی وفات کے بعد علی بن ابی طالب نے لوگوں بیعت لینے کے لیے ان کو خط لکھا، بعد میں انھیں اپنے پاس کوفہ بلا لیا، ان کے ساتھ جنگوں میں شریک رہتے، جنگ صفین اور خوارج سے جنگ میں بھی شریک رہے، پھر انھیں آذربائیجان بھیج دیا اور ان کی ولایت میں آرمینیا کو بھی ضم کر دیا۔[98] | ||
؟ - ؟ | سعید بن ساریہ خزاعی | ؟ | علی بن ابی طالب کی فوج میں سے تھے، انھیں آذربائیجان کا والی بنایا تھا۔[99] | ||
؟ - 40ھ | قیس بن سعد | ؟ | قیس بن سعد کو آذربائیجان کی امارت کے لیے چالیس ہزار فوج کے ساتھ روانہ کیا تھا، سب نے علی بن ابی طالب کے لیے بیعت لی تھی۔[100] |
حسن بن علی کے والیوں کی فہرست
[ترمیم]علی بن ابی طالب کے اکثر والی بعض تبدیلیوں کے ساتھ اپنے عہدوں پر برقرار رہے۔[101]
مدت ولایت | والی کا نام | سنہ وفات | مختصر تعارف | ||
---|---|---|---|---|---|
بصرہ | |||||
40ھ | عبد اللہ بن حارث بن نوفل | 84ھ | بعض روایات کے مطابق عبد اللہ بن عباس نے اپنی جگہ عبد اللہ بن حارث بن نوفل کو بصرہ کو والی بنایا اور حجاز چلے گئے اور دیگر کہتے ہیں کہ وہ صلح تک اس پر قائم رہے۔[102][103] | ||
کوفہ | |||||
40ھ | مغیرہ بن نوفل | ؟ | صغار صحابہ میں سے تھے، 5ھ میں پیدا ہوئے۔ حسن بن علی کے زمانہ میں ہانی بن ہوذہ نخعی کی جگہ پر کوفہ کے والی بنائے گئے تھے، [104] اور حسن بن علی کے معاویہ بن ابو سفیان کو حکومت حوالگی تک رہے۔[105][106] | ||
فارس | |||||
40ھ | زیاد بن ابی سفیان | 53ھ | علی بن ابی طالب نے کچھ سرکشوں اور شرارت پسندوں کی تادیب کے لیے بھیجا تھا، انھوں نے ان سب کو سبق سکھایا اور خاتمہ کیا، پھر وہاں معاویہ بن ابو سفیان سے صلح تک والی رہے۔[107] | ||
آذربائیجان | |||||
40ھ | عبید اللہ بن عباس | 58ھ | ابن کثیر کہتے ہیں: «جب علی المرتضی فوت ہو گئے تو قیس بن سعد نے حسن بن علی سے اہل شام سے قتال کے لیے اصرار کیا، انھوں نے قیس کو آذربائیجان کی امارت سے معزول کر دیا اور ان کی جگہ عبید اللہ بن عباس کو بنا دیا»۔[100] |
مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ شاكر 2000, p. 39
- ↑ سحر علي محمد دعدع: تاريخ عصر الراشدين - المقرر 102113۔ جامعة أم القرى۔ آرکائیو شدہ 2012-10-06 بذریعہ وے بیک مشین
- ^ ا ب النظام الإداري والإقليمي في صدر الإسلام[مردہ ربط]۔ مجلة دعوة الحق، العدد 206. وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية المغربية۔ تاريخ الولوج 18-07-2013.
- ↑ راغب السرجاني (2006): الإدارة في الحضارة الإسلامية، قصة الإسلام (ویب)۔ تاريخ الولوج 18-07-2013. آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ islamstory.com (Error: unknown archive URL)
- ↑ راغب السرجاني (2006): إدارة عمر بن الخطاب۔ تاريخ الولوج 18-07-2013. آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ islamstory.com (Error: unknown archive URL)
- ↑ "الإصابة في تمييز الصحابة، لابن حجر العسقلاني، ترجمة عتاب بن أسيد الأموي، جـ4، صـ 356"۔ 23 اپریل 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اپریل 2020
- ↑ "الإصابة في تمييز الصحابة، لابن حجر العسقلاني، ترجمة عثمان بن أبي العاص، جـ4، صـ 373"۔ 17 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اپریل 2020
- ↑ سير أعلام النبلا، لشمس الدين الذهبي الصحابة رضوان اللہ عليهم، العلا بن الحضرمي، الجزء الأول، صـ 263: 266 آرکائیو شدہ 2016-02-22 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ معجم البلدان - الحموي - ج 2 - الصفحة 435، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ shiaonlinelibrary.com (Error: unknown archive URL)
- ↑ مختصر سيرة الرسول،
- ↑ كتاب القادسية ومعارك العراق، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ books.google.com.sa (Error: unknown archive URL)
- ↑ كتاب البلدان وفتوحها وأحكامها، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ books.google.com.sa (Error: unknown archive URL)
- ↑ المجلة التاريخية، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ books.google.com.sa (Error: unknown archive URL)
- ↑ كتاب فتوح البلدان، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ books.google.com.sa (Error: unknown archive URL)
- ↑ كتاب المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، المجلد 4، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ books.google.com.sa (Error: unknown archive URL)
- ↑ كتاب الحرب النفسية منذ بداية الدعوة الإسلامية حتى نهاية العصر الاموي، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ books.google.com.sa (Error: unknown archive URL)
- ↑ Book The Challenge to the Empires page 220، آرکائیو شدہ 2013-12-13 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ أسد الغابة - ابن الأثير - ج 1 - الصفحة 390، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ shiaonlinelibrary.com (Error: unknown archive URL)
- ↑ الولاية في عهد الخلفاء الراشدين، د۔ عبد العزيز بن إبراهيم العمري، طبعة دار إشبيلية، الطبعة الأولى، صـ 56
- ↑ الولاية في عهد الخلفاء الراشدين، د۔ عبد العزيز بن إبراهيم العمري، طبعة دار إشبيلية، الطبعة الأولى، صـ 59
- ↑ الطبقات الكبرى لابن سعد، الطبقة الرابعة ممن أسلم عند فتح مكة وما بعد ذلك، ومن بني مخزوم بن يقظة بن مرة بن كعب بن لؤي، المهاجر بن أبي أمية بن المغيرة، رقم الحديث: 10902 آرکائیو شدہ 2017-01-08 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ سير أعلام النبلا، شمس الدين الذهبي، الصحابة رضوان اللہ عليهم، جرير بن عبد اللہ، الجزء الثاني، صـ 531: 537 آرکائیو شدہ 2017-11-06 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ تجريد أسماء الصحابة، شمس الدین ذہبی، تصحيح صالحة عبد الحكيم شرف الدين، طبعة شرف الدين الكتبي، بومباي، الهند، 1970م، جـ 2، صـ 52
- ↑ الولاية في عهد الخلفاء الراشدين، د۔ عبد العزيز بن إبراهيم العمري، طبعة دار إشبيلية، الطبعة الأولى، صـ 90
- ↑ الولاية في عهد الخلفاء الراشدين، د۔ عبد العزيز بن إبراهيم العمري، طبعة دار إشبيلية، الطبعة الأولى، صـ 91
- ↑ "تهذيب الكمال للمزي، نافع بن عبد الحارث الخزاعي"۔ 05 اپریل 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اپریل 2020
- ↑ تاریخ الرسل والملوک جـ 5، صـ 42، تاریخ یعقوبی جـ 2، صـ 161
- ↑ "الإصابة في تمييز الصحابة، لابن حجر العسقلاني، ترجمة خالد بن العاص، جـ2، صـ 205"۔ 17 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اپریل 2020
- ↑ الولاية في عهد الخلفاء الراشدين، د۔ عبد العزيز بن إبراهيم العمري، طبعة دار إشبيلية، الطبعة الأولى، صـ 94
- ↑ "أسد الغابة في معرفة الصحابة، ترجمة سفيان بن عبد اللہ الثقفي، جـ 2، صـ 496"۔ 10 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اپریل 2020
- ↑ الولاية في عهد الخلفاء الراشدين، د۔ عبد العزيز بن إبراهيم العمري، طبعة دار إشبيلية، الطبعة الأولى، صـ 98
- ↑ فتوح البلدان، بلاذری، صـ 193
- ↑ الولاية في عهد الخلفاء الراشدين، د۔ عبد العزيز بن إبراهيم العمري، طبعة دار إشبيلية، الطبعة الأولى، صـ 99
- ↑ "أسد الغابة في معرفة الصحابة، لابن الأثير، ترجمة عياش بن أبي ثور، جـ 4، صـ 308"۔ 22 جولائی 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اپریل 2020
- ↑ "الإصابة في تمييز الصحابة، لابن حجر العسقلاني، ترجمة قدامة بن مظغون، جـ5، صـ 322"۔ 20 جولائی 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اپریل 2020
- ↑ الولاية في عهد الخلفاء الراشدين، د۔ عبد العزيز بن إبراهيم العمري، طبعة دار إشبيلية، الطبعة الأولى، صـ 101
- ↑ عمرو بن العاص۔ موقع قصة الإسلام، لراغب سرجانی۔ تاريخ النشر 14-08-2007. تاريخ الولوج 05-07-2012. آرکائیو شدہ 2017-01-10 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ "تاريخ خليفة بن خياط"۔ 05 اپریل 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اپریل 2020
- ↑ "تاريخ الرسل والملوك للطبري"۔ 17 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اپریل 2020
- ↑ "تاريخ ابن خلدون"۔ 17 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اپریل 2020
- ↑ "الكامل في التاريخ لابن الأثير"۔ 06 مارچ 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اپریل 2020
- ↑ فتح مصر للمؤرخ الفريد بتلر ص 196، النسخة الإنجليزية آرکائیو شدہ 2014-10-24 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ الكامل في التاريخ – المجلد الثاني، ابن اثیر جزری، ص567.
- ^ ا ب الولاية في عهد الخلفاء الراشدين، د۔ عبد العزيز بن إبراهيم العمري، طبعة دار إشبيلية، الطبعة الأولى، صـ 96
- ↑ "الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ترجمة يعلى بن أمية، جـ 4، صـ 147"۔ 17 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اپریل 2020
- ↑ "الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ترجمة عبد اللہ بن أبي ربيعة، جـ 3، صـ 31"۔ 31 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اپریل 2020
- ↑ سير أعلام النبلا، لشمس الدين الذهبي، ترجمة أبي عبيدة بن الجراح، على ويكي مصدر
- ↑ الولاية في عهد الخلفاء الراشدين، د۔ عبد العزيز بن إبراهيم العمري، طبعة دار إشبيلية، الطبعة الأولى، صـ 123، 124
- ↑ فصل الخطاب في سيرة ابن الخطاب أمير المؤمنين عمر بن الخطاب شخصيتہ وعصرہ، د۔علي محمد الصلابي، طبعة مكتبة الصحابة - الشارقة، 2002م، الفصل الخامس: فقہ عمر في التعامل مع الولاة، صـ 370
- ↑ الولاية في عهد الخلفاء الراشدين، د۔ عبد العزيز بن إبراهيم العمري، طبعة دار إشبيلية، الطبعة الأولى، صـ 129، 130
- ↑ "سعيد بن عامر، موقع قصة الإسلام، تاريخ الولوج 19 يوليو 2016"۔ 24 نومبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اپریل 2020
- ↑ "الإصابة في تمييز الصحابة، لابن حجر العسقلاني، ترجمة سعيد بن عمير بن خذيم، جـ3، صـ 92"۔ 31 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اپریل 2020
- ↑ ترجمة الصحابي شرحبيل بن حسنة رضي اللہ عنہ، شبكة الألوكة، تاريخ الولوج 19 يوليو 2016 آرکائیو شدہ 2017-05-27 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ الولاية في عهد الخلفاء الراشدين، د۔ عبد العزيز بن إبراهيم العمري، طبعة دار إشبيلية، الطبعة الأولى، صـ 138
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ فصل الخطاب في سيرة ابن الخطاب أمير المؤمنين عمر بن الخطاب شخصيتہ وعصرہ، د۔علي محمد الصلابي، طبعة مكتبة الصحابة - الشارقة، 2002م، الفصل الخامس: فقہ عمر في التعامل مع الولاة، صـ 371: 377
- ↑ "أسد الغابة في معرفة الصحابة، لابن الأثير، باب الشين، ترجمة شريح بن عامر"۔ 17 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اپریل 2020
- ↑ أسماء مدينة البصرة القديمة آرکائیو شدہ 2016-03-05 بذریعہ وے بیک مشین
- ^ ا ب پ ت ٹ ث موسوعة الموصل الحضارية - هاشم يحيى الملاح - ج 2 - الصفحة 30 آرکائیو شدہ 2019-12-15 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ "الإصابة في تمييز الصحابة، لابن حجر العسقلاني، جـ2، ص 377، ترجمة ربعي بن الأفكل العنبري، موقع صحابة رسولنا"۔ 15 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 ستمبر 2020
- ↑ "الإصابة في تمييز الصحابة، لابن حجر العسقلاني، ترجمة عبد اللہ بن المعتم العبسي، موقع صحابة رسولنا"۔ 17 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 ستمبر 2020
- ↑ "أسد الغابة في معرفة الصحابة، لابن الأثير، ترجمة عتبة بن فرقد السلمي، موقع صحابة رسولنا"۔ 31 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 ستمبر 2020
- ↑ تجريد أسماء الصحابة، شمس الدین ذہبی، تصحيح صالحة عبد الحكيم شرف الدين، طبعة شرف الدين الكتبي، بومباي، الهند، 1970م، جـ 1، صـ 393
- ↑ تجريد أسماء الصحابة، شمس الدین ذہبی، تصحيح صالحة عبد الحكيم شرف الدين، طبعة شرف الدين الكتبي، بومباي، الهند، 1970م، جـ 1، صـ 325
- ↑ الولاية في عهد الخلفاء الراشدين، د۔ عبد العزيز بن إبراهيم العمري، طبعة دار إشبيلية، الطبعة الأولى، صـ 226
- ↑ تيسير الكريم المنان في سيرة عثمان بن عفان رضي اللہ عنہ - شخصيتہ وعصرہ، د۔ علي محمد الصلابي، الفصل الخامس، مؤسسة الولاة في عهد عثمان، صـ 238 آرکائیو شدہ 2017-07-13 بذریعہ وے بیک مشین
- ^ ا ب پ ت تيسير الكريم المنان في سيرة عثمان بن عفان رضي اللہ عنہ - شخصيتہ وعصرہ، د۔ علي محمد الصلابي، الفصل الخامس، مؤسسة الولاة في عهد عثمان، صـ 239 آرکائیو شدہ 2017-07-13 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ سير أعلام النبلا، كبار التابعين، مروان بن الحكم، الجزء الثالث، صـ 477 آرکائیو شدہ 2017-07-14 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ تيسير الكريم المنان في سيرة عثمان بن عفان رضي اللہ عنہ - شخصيتہ وعصرہ، د۔ علي محمد الصلابي، الفصل الخامس، مؤسسة الولاة في عهد عثمان، صـ 240 آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ shamela.ws (Error: unknown archive URL) "آرکائیو کاپی"۔ 13 جولائی 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اپریل 2020
- ↑ سير أعلام النبلا، شمس الدين الذهبي، ترجمة عبد اللہ بن أبي السرح، الجزء الثالث، صـ 33: 35 آرکائیو شدہ 2017-07-22 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ تيسير الكريم المنان في سيرة عثمان بن عفان رضي اللہ عنہ - شخصيتہ وعصرہ، د۔ علي محمد الصلابي، الفصل الخامس، مؤسسة الولاة في عهد عثمان، صـ 243: 246 آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ shamela.ws (Error: unknown archive URL) "آرکائیو کاپی"۔ 13 جولائی 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اپریل 2020
- ↑ سير أعلام النبلا، شمس الدين الذهبي، ترجمة عبد اللہ بن عامر بن كريز، الجزء الثالث، صـ 18: 21 آرکائیو شدہ 2016-06-15 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ "تيسير الكريم المنان في سيرة عثمان بن عفان رضي اللہ عنہ - شخصيتہ وعصرہ، د۔ [[علي الصلابي|علي محمد الصلابي]]، الفصل الخامس، مؤسسة الولاة في عهد عثمان، صـ 246"۔ 26 مئی 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اپریل 2020
- ↑ سير أعلام النبلا، شمس الدين الذهبي، ترجمة الوليد بن عقبة، الجزء الثالث، صـ 414: 416 آرکائیو شدہ 2018-08-26 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ سير أعلام النبلا، شمس الدين الذهبي، ترجمة سعيد بن العاص، الجزء الثالث، صـ 445: 449 آرکائیو شدہ 2017-06-28 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ "تيسير الكريم المنان في سيرة عثمان بن عفان رضي اللہ عنہ - شخصيتہ وعصرہ، د۔ [[علي الصلابي|علي محمد الصلابي]]، الفصل الخامس، مؤسسة الولاة في عهد عثمان، صـ 249"۔ 26 مئی 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اپریل 2020
- ^ ا ب پ ت "تيسير الكريم المنان في سيرة عثمان بن عفان رضي اللہ عنہ - شخصيتہ وعصرہ، د۔ [[علي الصلابي|علي محمد الصلابي]]، الفصل الخامس، مؤسسة الولاة في عهد عثمان، صـ 241"۔ 26 مئی 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اپریل 2020
- ↑ "أسد الغابة في معرفة الصحابة، ابن الأثير، ترجمة خالد بن غلاب، موقع صحابة رسولنا"۔ 15 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اپریل 2020
- ↑ سير أعلام النبلا، الصحابة رضوان اللہ عليهم، أبو قتادة الأنصاري السلمي، جـ 2، صـ 449: 456 آرکائیو شدہ 2017-06-29 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ سير أعلام النبلا، الصحابة رضوان اللہ عليهم، سهل بن حنيف، جـ 2، صـ 325، 326 آرکائیو شدہ 2017-04-15 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ "الاستيعاب في معرفة الأصحاب، لأبي نعيم، ترجمة تمام بن العباس، موقع نداء الإيمان"۔ 06 مارچ 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 ستمبر 2020
- ↑ أسمى المطالب في سيرة أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي اللہ عنہ، د۔ علي محمد الصلابي، الفصل الخامس مؤسسة الولاية في عهد أمير المؤمنين علي، جـ 430، على المكتبة الشاملة آرکائیو شدہ 2017-01-08 بذریعہ وے بیک مشین
- ^ ا ب پ ت أسمى المطالب في سيرة أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي اللہ عنہ، د۔ علي محمد الصلابي، الفصل الخامس مؤسسة الولاية في عهد أمير المؤمنين علي، جـ 431، على المكتبة الشاملة آرکائیو شدہ 2017-01-08 بذریعہ وے بیک مشین
- ^ ا ب أسمى المطالب في سيرة أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي اللہ عنہ، د۔ علي محمد الصلابي، الفصل الخامس مؤسسة الولاية في عهد أمير المؤمنين علي، جـ 432، على المكتبة الشاملة آرکائیو شدہ 2017-01-08 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ أسمى المطالب في سيرة أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي اللہ عنہ، د۔ علي محمد الصلابي، الفصل الخامس مؤسسة الولاية في عهد أمير المؤمنين علي، جـ 436، على المكتبة الشاملة آرکائیو شدہ 2017-01-08 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ أسمى المطالب في سيرة أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي اللہ عنہ، د۔ علي محمد الصلابي، الفصل الخامس مؤسسة الولاية في عهد أمير المؤمنين علي، جـ 437، على المكتبة الشاملة آرکائیو شدہ 2017-01-08 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ الولاية في عهد الخلفاء الراشدين، د۔ عبد العزيز بن إبراهيم العمري، طبعة دار إشبيلية، الطبعة الأولى، صـ 330
- ^ ا ب أسمى المطالب في سيرة أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي اللہ عنہ، د۔ علي محمد الصلابي، الفصل الخامس مؤسسة الولاية في عهد أمير المؤمنين علي، جـ 443، على المكتبة الشاملة آرکائیو شدہ 2017-01-08 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ البداية والنهاية، لابن كثير الدمشقي، الجزء السابع، فصل: ثم دخلت سنة ثمان وثلاثين على ویکی ماخذ
- ^ ا ب أسمى المطالب في سيرة أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي اللہ عنہ، د۔ علي محمد الصلابي، الفصل الخامس مؤسسة الولاية في عهد أمير المؤمنين علي، جـ 450، على المكتبة الشاملة آرکائیو شدہ 2016-09-18 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ أبو الأسود الدؤلي أول من وضع علم النحو - القواعد النحوية في اللغة العربية آرکائیو شدہ 2016-06-20 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ الولاية في عهد الخلفاء الراشدين، د۔ عبد العزيز بن إبراهيم العمري، طبعة دار إشبيلية، الطبعة الأولى، صـ 337: 341
- ↑ أسمى المطالب في سيرة أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي اللہ عنہ، د۔ علي محمد الصلابي، الفصل الخامس مؤسسة الولاية في عهد أمير المؤمنين علي، جـ 459، على المكتبة الشاملة آرکائیو شدہ 2016-09-18 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ الولاية في عهد الخلفاء الراشدين، د۔ عبد العزيز بن إبراهيم العمري، طبعة دار إشبيلية، الطبعة الأولى، صـ 342، 343
- ↑ سير أعلام النبلا، ومن بقايا صغار الصحابة، عبد الرحمن بن أبزى الخزاعي، الجزء الثالث، صـ 202 آرکائیو شدہ 2016-11-09 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ مغاني الأخيار في شرح أسامي رجال معاني الآثار، لبدر الدين العيني، ترجمة جعدة بن هبيرة، على موقع الموسوعة الشاملة آرکائیو شدہ 2016-08-16 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ البلدان وفتوحها وأحكامها للبلاذري، كتاب فتوح البلدان البلاذري، سجستان وكابل، رقم الحديث: 561 آرکائیو شدہ 2016-08-22 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ نهاية الأرب في فنون الأدب، للنويري، فصل: أخبار الخوارج، على موقع الموسوعة الشاملة آرکائیو شدہ 2016-08-16 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ أسمى المطالب في سيرة أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي اللہ عنہ، د۔ علي محمد الصلابي، الفصل الخامس مؤسسة الولاية في عهد أمير المؤمنين علي، جـ 462، على المكتبة الشاملة آرکائیو شدہ 2016-09-18 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ "الإصابة في تمييز الصحابة، لابن حجر العسقلاني، ترجمة سعيد بن سارية"۔ 17 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اپریل 2020
- ^ ا ب ابن کثیر۔ المتوفى في سنة (774هـ) (1407هـ/1986م)۔ كتاب البداية والنهاية، الجزء الثامن۔ (على موقع المكتبة الشاملة)۔۔ بيروت-لبنان: دار الفكر۔ صفحہ: 14۔ 07 مئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ بلاذری۔ (المتوفى في سنة 279هـ)، تحقيق: سهيل زكار، ورياض الزركلي (1417هـ/1997م)۔ جمل من أنساب الأشراف، الجزء الرابع۔ (على موقع المكتبة الشاملة)۔ (الأولى ایڈیشن)۔ بيروت-لبنان: دار الفكر۔ صفحہ: 297۔ 07 اگست 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ ابن اثیر جزری۔ المتوفى في سنة (630هـ)، تحقيق: عمر عبد السلام تدمري (1417هـ/1997م)۔ الكامل في التاريخ، الجزء الثاني۔ (على موقع المكتبة الشاملة)۔ (الأولى ایڈیشن)۔ بيروت-لبنان: دار الكتاب العربي۔ صفحہ: 735۔ 31 مئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ ابن حجر عسقلانی۔ المتوفى في سنة (852هـ)، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود، وعلي محمد معوض (1415هـ)۔ كتاب الإصابة في تمييز الصحابة، الجزء الرابع۔ (على موقع المكتبة الشاملة)۔ (الأولى ایڈیشن)۔ بيروت-لبنان: دار الكتب العلمية۔ صفحہ: 129۔ 07 اگست 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ محمد باقر مجلسی۔ المتوفى في سنة (1111هـ) (1403هـ/1983م)۔ كتاب بحار الأنوار الجزء 44. (على موقع المكتبة الشيعية)۔ (الثانية ایڈیشن)۔ بيروت-لبنان: مؤسسة الوفاء۔ صفحہ: 51۔ 30 مئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ خلیفہ بن خیاط۔ (المتوفى في سنة 240هـ)، تحقيق: أكرم ضياء العمري (1397هـ)۔ تاريخ خليفة بن خياط۔ (على موقع المكتبة الشاملة)۔ (الثانية ایڈیشن)۔ دمشق-بيروت: دار القلم، مؤسسة الرسالة۔ صفحہ: 202۔ 02 مئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ إبراهيم بن محمد الثقفي۔ المتوفى في سنة (283هـ)، تحقيق: جلال الدين الحسيني الأرموي۔ كتاب الغارات، الجزء الأول۔ (على موقع المكتبة الشيعية)۔۔ صفحہ: 18۔ 07 اگست 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ مسعودی۔ المتوفى في سنة (346هـ)، تحقيق: كمال حسن مرعي (1425هـ/2005م)۔ مروج الذهب ومعادن الجوهر، الجزء الثالث۔ (الأولى ایڈیشن)۔ صيدا-بيروت (لبنان): المكتبة العصرية۔ صفحہ: 14-15