سلیمان بن یسار

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سلیمان بن یسار
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 654ء (عمر 1369–1370 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رکن فقہائے سبعہ   ویکی ڈیٹا پر (P463) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سات فقہائے مدینہ

”سلیمان بن یسار“ آپ فقہائے سبعہ میں شمار ہوتے ہیں۔آپ نے 107ھ میں وفات پائی ۔

ولادت[ترمیم]

سلیمان بن یسار کی ولادت 34ھ -(654ء) ایرانی نژاد یسار کے ہاں عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت کے اواخر میں ہوئی۔ وہ ام المومنین سیدہ میمونہ ہلالیہ کے غلام تھے ۔ اس لیے ہلالی کہلاتے تھے۔ ابن حبان کہتے ہیں کہ سیدہ میمونہ نے سلیمان کی ولایت عبد اللہ بن عباس کو سونپ دی تھی۔

نام ونسب[ترمیم]

سلیمان نام، ابو تراب کنیت، ام المومنین حضرت میمونہ کی غلامی کا شرف رکھتے تھے۔ پھر انھوں نے ان کو مکاتب بنادیا تھا، اس غلامی نے سلیمان کو علم و عمل کی دولت سے مالا مال کر دیا تھا۔

حرم نبوی میں آمد ورفت[ترمیم]

حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی غلامی کے توسل سے سلیمان حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کی خدمت میں آتے جاتے تھے۔ اور وہ ان کی غلامی کے زمانہ تک ان سے پردہ نہ کرتی تھیں خود سلیمان کا بیان ہے کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہو کر بار یابی کی اجازت چاہی، آپ نے آواز پہچان کر فرمایا، تم نے آزادی کے متعلق جو طے کیا تھا،اسے پورا کیا، میں نے عرض کیا، ہاں لیکن ابھی تھوڑا سا باقی ہے، فرمایا تو اندر چلے آؤ، تم اس وقت تک غلام ہو جب تک تمھارے ذمہ کچھ بھی باقی ہے۔ [1]

فضل وکمال[ترمیم]

سلیمان اولاً خود ذاتی صلاحیت واستعداد کے لحاظ سے نہایت ذہین اور سمجھدار تھے [2] پھر انھیں ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی غلامی کے تعلق سے مدینہ میں رہنے والے صحابہ کرام کی صحبت سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا تھا۔ اس لیے وہ مدینہ میں رہنے والے صحابہ کرام کی صحبت سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا تھا، اس لیے وہ مدینہ کے ممتاز ترین علما میں ہو گئے۔ [3] امام نووی لکھتے ہیں کہ ان کی جلالت اور علمی کمال پر سب کا اتفاق ہے۔ [4]

قرآن[ترمیم]

اُن کو قرآن مجید، حدیث نبوی، فقہ ، جملہ علوم میں درک تھا۔ قرآن کے ممتاز قاریوں میں تھے۔ [5]

حدیث[ترمیم]

جس گھر کے وہ خادم تھے۔ وہ حدیث نبوی کا سرچشمہ تھا۔ اس لیے قدرۃ احادیث نبوی کا معتدبہ ذخیرہ اُن کے حصہ میں آیا تھا، علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ وہ عالی مرتبہ، رفیع المنزلت فقیہ اور کثیر الحدیث تھے۔ [6] انھوں نے حدیث میں ام المومنین عائشہ صدیقہ اور میمونہ رضی اللہ عنہما کے خرمن کمال سے زیادہ خوشہ چینی کی تھی۔ اُن کے علاوہ اکابر صحابہ میں زید بن ثابتؓ، عبداللہ بن عمرؓ، عبداللہ بن عباسؓ ، فضل ابن عباسؓ، ابوہریرہؓ، ابو سعید خدریؓ، مقداد بن اسود، عبداللہ بن حذافہ سہمی اور عام محدثین میں جعفر بن عمرو بن امیہ ضمری، عبداللہ بن حارث بن نوفل، عبدالرحمن بن جابر، عراک بن مالک، مالک بن عامر اصبحی وغیرہ سے فیضیاب ہوئے تھے۔ [7]

تلامذہ[ترمیم]

حدیث میں ان کے تلامذہ کا دائرہ نہایت وسیع تھا، بعض کے نام یہ ہیں۔ عمرو بن دينار و عبد اللہ بن دينار و عبد اللہ بن فضل ہاشمی و ابوزناد و بكير بن اشج و جعفر بن عبد اللہ بن حكم و سالم ابو نضر و صالح بن كيسان و عمرو بن ميمون و محمد بن ابی حرملہ و زہری و مكحول و نافع مولى ابن عمر و يحيى بن سعيد انصاری و يعلی بن حكيم و يونس بن سيف اور محدثین کی ایک جماعت سے. [8]

فقہ[ترمیم]

مگر ان کا خاص اورامتیازی فن فقہ تھا۔ اس میں وہ امامت اور اجتہاد کا درجہ رکھتے تھے، حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ فقیہ علم اور ائمہ اجتہاد میں تھے۔ [9] وہ مدینہ کے ان سات مشہور فقہا میں تھے، جو اس عہد کے امام فقہ مانے جاتے تھے۔ [10] مسائل طلاق کے خصوصیت کے ساتھ بڑے عالم تھے، قتادہ کا بیان ہے کہ میں ایک مرتبہ مدینہ گیا اور لوگوں سے پوچھا کہ یہاں طلاق کے مسائل کا سب سے بڑا عالم کون ہے،لوگوں نے سلیمان بن یسار کا نام بتایا۔ [11] بعض علما فقہ میں انھیں ان ائمہ پر جن کی علمی عظمت مسلم تھی ،ترجیح دیتے تھے؛چنانچہ محمد بن حنفیہ کے صاحبزادے حسن انھیں سعید بن مسیب سے زیادہ فہیم سمجھتے تھے،خود ابن مسیب ان کے اتنے معترف تھے کہ جب ان کے پاس کوئی مستفتی آتا تھا تو اسے سلیمان کے پاس بھیج دیتے تھے[12]اور فرماتے تھے موجودہ لوگوں میں سب سے بڑے عالم وہی ہیں۔ [13]

زہد وورع[ترمیم]

زہد وعبادت کے اعتبار سے بھی ممتاز شخصیت رکھتے تھے۔ ابوزرعہ کا بیان ہے کہ سلیمان بن یسار مدنی فاضل اور عبادت گزار تھے [14]عجلی ان کے فضائلِ علمی کے ساتھ ان کی عبادت وریاضت کی بھی شہادت دیتے ہیں۔ [15]

عفت[ترمیم]

بڑے عفیف و پاک دامن تھے، اگرچہ تابعین کی مقدس جماعت کے لیے عفت و پاک دامنی کوئی بڑا وصف نہیں ہے،لیکن ترغیبات اور آزمائش وامتحان کے موقع پر پورا اترنا ہر شخص کے لیے کمال ہے، سلیمان نہایت حسین و جمیل شخص تھے، ایک مرتبہ ایک عورت نے آپ کے گھر کے اندر آکر دام ڈالنا چاہا، آپ گھر سے نکل کر بھاگ گئے ۔ [16]

فقہائے سبعہ[ترمیم]

سلیمان مدینہ کے مفتی تھے اور ان کا شمار اس شہر کے فقہاے سبعہ میں ہوتا تھا۔ اس اعتبار سے ان کی نسبت مدنی تھی۔

کثیر الحدیث[ترمیم]

سلیمان کثیر الحدیث تھے۔ انھوں نے امہات المومنین سیدہ عائشہ،سیدہ ام سلمہ اورسیدہ میمونہ سے، جلیل القدر صحابہ جابر بن عبداﷲ،حسان بن ثابت ،حمزہ بن عمرو، رافع بن خدیج، زیدبن ثابت ،عبدﷲ بن حارث بن نوفل ،عبد اللہ بن عمر، مقداد بن اسود، ابو سعید خدری ،عبد اللہ بن عباس، ابو ہریرہ، مسعو د بن حکم، سے حدیث روایت کی ۔ ان سے حدیث رسول سیکھنے والوں میں یہ بڑے بڑے نام ہیں:ان کے بھائی عطا بن یسار، اسامہ بن زید، بکیر بن اشج شامل ہیں سلیمان بن یسار کو ثقہ اورحجت مانا جاتا تھا ۔ انتہائی خوبرو جوان تھے۔ ایک عورت نے ان کو بہکانے کی کوشش کی تو اسے گھر میں چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ وہ کہتی رہ گئی کہ میں تجھے رسوا کر دوں گی۔ حامل علم ہونے کے ساتھ سلیمان عابد وپرہیزگار بھی تھے۔ اکثر روزے سے رہتے۔ انھوں نے دمشق کا سفر بھی کیا اور یزید بن جابر کے مہمان ہوئے ۔

وفات[ترمیم]

سلیمان107ھ- (725ء) میں فوت ہوئے۔ اسی سال سعید بن مسیّب ،علی بن حسین ، زین العابدین اور ابوبکر بن عبد الرحمان مخزومی نے وفات پائی، اس لیے یہ عام الفقہا کے نام سے مشہور ہے۔،[17] [18] [19]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (ابن سعد:5/130)
  2. (تذکرۃ الحفاظ:1/79)
  3. (تہذیب الاسماء،جاول،قاول،ص238)
  4. (ایضاً:35)
  5. (تہذیب التہذیب:4/229)
  6. (ابن سعد :5/130)
  7. (تہذیب التہذیب:4/228)
  8. (ایضاً)
  9. (تذکرہ الحفاظ:1/79)
  10. (تہذیب الاسماء تذکرہ الحفاظ حوالۂ مذکور)
  11. (ابن خلکان:1/213)
  12. (ابن خلکان:1/213)
  13. (تذکرۃ الحفاظ:1/79)
  14. (شذرات الذہب :1/124)
  15. (تہذیب الاسماء،ج اول،ق اول،ص235)
  16. (تہذیب التہذیب:4/230)
  17. الاعلام خیر الدین زرکلی
  18. طبقات ابن سعد
  19. سیراعلام النبلاء،ذہبی