پاکستان میں سیاحت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
شنگریلا استراحہ
عالمگیری دروازہ،قلعہ لاہور

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کو اللہ تعالی نے متنوع جغرافیہ اور انواع و اقسام کی آب و ہوا دی ہے۔ پاکستان میں مختلف لوگ،مختلف زبانیں اور علاقیں ہیں جو پاکستان کو بہت سے رنگوں کا گھر بنا دیتے ہیں۔ پاکستان میں ریگستان،سرسبز و شاداب علاقے،میدان،پہاڑ، جنگلات،سرداور گرم علاقے،خوبصورت جھیلیں،جزائر اور بہت کچھ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سال 2012 میں پاکستان نے اپنے طرف 1 ملین سیاحوں کو مائل کیا۔[1] امن و امان کے مسئلے کے وجہ سے پاکستان کی سیاحت بہت متاثر ہوئی لیکن اب حالات بڑی حد تک معمول پر آچکے ہیں اور اچھی خاصی تعداد میں لوگوں نے پاکستان کا رُخ کیا ہے۔

پاکستان میں سیاحت کو سب سے زیادہ فروغ 1970ء کی دہائی میں ملا جب ملک تیزی سے ترقی کر رہا تھا اور دیگر صنعتوں کی طرح سیاحت بھی اپنے عروج پر تھی بیرونی ممالک میں سے لاکھوں سیاح پاکستان آتے تھے۔ اس وقت پاکستان کے سب سے مقبول سیاحتی مقامات میں درہ خیبر،پشاور،کراچی،لاہور،سوات اور راولپنڈی جیسے علاقے شامل تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر خوبصورت علاقے بھی دنیا بھر میں متعارف ہوئے اور سیاحت تیزی سے بڑھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں سینکڑوں سیاحتی مقامات کی سیر کی جاتی ہے خاص کر پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں سیاحت اپنے عروج پر ہے۔ شمالی علاقوں میں آزاد کشمیر،گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا اور شمال مغربی پنجاب شامل ہیں۔ پاکستان کے شمالی حصے میں قدرت کے بے شمار نظارے موجود ہیں،اس کے ساتھ ساتھ مختلف قلعے،تاریخی مقامات،آثارقدیمہ،وادیاں،دریاں،ندیاں،جنگلات ،جھیلیں اور بہت کچھ موجود ہیں۔سکردو میں دیوسائی کا خوب صورت ٹھنڈا صحرا قدرت کی بے نظیر کاری گری ہے۔ پاکستان کے جنوبی علاقہ جات بھی سیاحوں کے لیے پرکشش ہیں۔ بلوچستان کے خوب صورت خشک پہاڑ،زیارت،کوئٹہ اور گوادر اپنی مثال آپ ہیں۔ سندھ کا ساحل سمندر،کراچی،مکلی کا قبرستان،گورکھ ہل اسٹیشن دادو،صحرائے تھر،موئن جو دڑو اور بہت سے شہر اور دیہات اپنی خوب صورتی اور تاریخی پس منظر کی وجہ سے سیاحت میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کا تاریخی شہر ملتان،بہاولپور کا صحرائے چولستان اور ضلع ڈیرہ غازی خان کا خوب صورت علاقہ فورٹ منرو بھی سیاحتی اہمیت کے حامل ہیں۔

سوات کا نیا سیاحتی مقام

دشت لیلیٰ ۔ جس پر جا کر چار اضلاع کی خوبصورتی کو دیگھا جا سکتا ہے

سوات۔دیر۔بونیر۔مالاکنڈ

عالمی ثقافتی ورثہ جات[ترمیم]

صفحہ ماڈیول:Location map/styles.css میں کوئی مواد نہیں ہے۔

پاکستان میں اس وقت چھ بڑے عالمی ثقافتی ورثہ مقامات ہیں۔ جو درج ذیل درج ہیں:

سیاحت بلحاظ صوبہ و علاقہ[ترمیم]

اسلام آباد وفاقی دار الحکومت[ترمیم]

راول جھیل ، وفاقی دارالحکومت،اسلام آباد
اسلام آباد گھڑی، وفاقی دارالحکومت،اسلام آباد
فیصل مسجد، وفاقی دارالحکومت،اسلام آباد

اسلام آباد جو پاکستان کے شمالی حصے میں واقع ہے اور پاکستان کا وفاقی دارالحکومت ہے،لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سے سیاحی مراکز کا گھر بھی ہے چند اہم درجہ ذیل ہیں:

بلوچستان[ترمیم]

گوادر ساحل،صوبہ بلوچستان

بلوچستان جو بلحاظ رقبہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے،بلوچستان ہر قسم کی قدرتی وسائل سے مالا مال ہے تاہم چونکہ یہ خطہ زیادہ تر خشک علاقے پر مشتمل ہے اس لیے سیاحت کے نظام کو زیادہ فروغ نہ مل سکا۔ بلوچستان کے چند اہم مقامات درجہ ذیل ہیں:

خیبر پختونخوا[ترمیم]

کمراٹ، صوبہ خیبر پختونخوا
کالام، صوبہ خیبر پختونخوا
ناران، صوبہ خیبر پختونخوا
سیف الملوک، صوبہ خیبر پختونخوا
کنڈول جھیل، صوبہ خیبر پختونخوا

پاکستان کے دیگر شمالی علاقہ جات کی طرح قدرت نے خیبر پختونخوا کے شمالی اور مشرقی حصے میں خوبصورت نظارے پیدا کیے ہیں۔ خیبر پختونخوا کا شمالی حصہ خوبصورت سرسبز وادیوں اور قدرتی خطوں پر مشتمل ہے جہاں لوگ سیر و تفریح کے لیے بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ پختونخوا میں بے شمار خوبصورت صحت افزا مقامات موجود ہیں جو نہ صرف ملک کے اندر سے بلکہ بیرونی ملک سیاحوں کے توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ پختونخوا میں بہت سے تاریخی عمارتیں،آثار قدیمہ،پہاڑ،کھیلوں کے میدانیں،جھیلیں،ندیاں،تعلیمی مراکز،عجائب گھر،سرسبز و شاداب وادیاں،وغیرہ موجود ہیں،چند یہ ہیں:

پنجاب[ترمیم]

مینار پاکستان،صوبہ پنجاب
مری،صوبہ پنجاب

پنجاب پاکستان کا ایک صوبہ ہے جو ملک کے شمال مشرقی حصے میں واقع ہے۔ بلحاظ آبادی سب سے بڑا صوبہ ہے۔ پنجاب میں سیاحت کے بہت سے خوبصورت مقامات موجود ہیں جن میں مری قابل ذکر قدرتی صحت افزا مقام ہے۔ صوبہ پنجاب بنیادی طور پر دو حصوں پر مشتمل ہے شمالی پنجاب اور اور جنوبی پنجاب۔ شمالی پنجاب میں قدرتی خطے پائے جاتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ملک کے بہت سے بڑے بڑے شہر بھی یہاں پر واقع ہیں جیسے لاہور،راولپنڈی،گوجرانوالہ،سرگودھا،فیصل آباد وغیرہ۔ پنجاب کی صوبائی سرحد گلگت بلتستان کے سوا تمام دیگر پاکستانی علاقوں اور صوبوں سے ملتی ہے۔ پنجاب کے شمال میں وفاقی دارالحکومت،اسلام آباد، شمال مغرب میں صوبہ خیبر پختونخوا ہے ،مغرب میں قبائلی علاقوں کا چھوٹا سا حصہ،جنوب میں صوبہ سندھ،جنوب مشرق میں بلوچستان ہے۔ پنجاب کا صوبائی دار الحکومت لاہور ہے جو برطانوی دور کے بڑے پنجاب کا بھی دار الحکومت رہاہے۔ پنجاب کی جغرافیہ میں سب سے خاص بات یہ ہے کہ پاکستان کے پانچوں بڑے دریاؤں کا گھر ہے۔ چند اہم مقامات درج ذیل ہیں:

سندھ[ترمیم]

مزار قائد،صوبہ سندھ
پاکستان قومی عجائب گھر،صوبہ سندھ
موئن جو دڑو،صوبہ سندھ
فیض محل،صوبہ سندھ

سندھ پاکستان کا ایک صوبہ ہے جو ملک کے جنوب مشرقی حصے میں واقع ہے۔ سندھ میں سیاحت کے بہت سے مقامات موجود ہیں جہاں سیاحوں کا آمد و رفت جاری رہتا ہے۔ خاص کر وادئ سندھ کی تہذیب کا زیادہ تر حصہ موجودہ سندھ میں ہی واقع ہے اس لیے اس تہذیب کے مختلف آثار قدیمہ مقامات سندھ میں موجود ہیں جن میں موئن جو دڑو قابل ذکر ہے۔ اس کے علاوہ ٹھٹھہ میں موجود جامع مسجد جس کی تعمیر مغل شہنشاہ شاہجہان نے کی تھی۔ اس کے علاوہ سندھ میں بہت سے مزارات بھی موجود ہیں جن میں سب سے زیادہ معروف مزار قائد ہے۔ سندھ میں سیاحوں کا سب سے زیادہ اہم مرکز موئن جو دڑو ہے،موئن جو دڑو جو وادئ سندھ کی تہذیب کا مرکز اور سب سے اہم مقام تھا، صوبہ سندھ میں لاڑکانہ شہر سے کچھ فاصلے پر واقع ہے۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ1921میں رائے بہادر دیا رام سہنی نے ہڑپا کے مقام پر نے قدیم تہذیب کے چند آثار پائے، اس کے ایک سال کے بعد اسی طرح کے آثار مسٹر آر ڈی بنرجی کو موہنجودڑو کی سر زمین میں ملے۔ اس کی اطلاع ہندوستانی محکمہ آثار قدیمہ کو ملے اور پھر محکمہ کے ڈائرکٹر جنرل سر جان مارشل نے دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے ان دونوں مقامات کی طرف طوجہ دی۔ چنانچہ رائے بہادر دیا رام سہنی، ڈئرکٹر ارنسٹ میکے اور محکمہ اثریات کے دیگر احکام کے تحت کھدائی کا کام شروع ہوا۔ تاہم کھدائی کا کام مکمل نہیں ہو سکا۔ وادی سندھ کی تہذیب کی بے نقابی اور تشریح شاید بیسویں صدی کا عظیم ترین عصریاتی واقعہ ہے۔ کیوں کہ اس تہذیب کی وسعت اور معنویت کو 1922 میں موہنجودڑو کی کھدائی سے پہلے سمجھا ہی نہ جاسکا۔ موہنجودڑو کے کھنڈر اور دیگر اہم اشیاء دوکری سے تقریبا نو میل کے فاصلے پر لاڑکانہ کی حدود میں واقع ہے۔ موئن جو دڑو لاڑکانہ سے تقریباََ بیس اور سکھر سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔، چند دیگر اہم مقامات درج ذیل ہیں:

آزاد کشمیر[ترمیم]

بنجوسہ جھیل،آزاد کشمیر
تولی پیر،آزاد کشمیر
جگران،آزاد کشمیر

کشمیر جو پاکستان کے شمالی حصے میں واقع ہے،پاکستان کے خوبصورت ترین خطوں میں سے ایک ہے۔ آزاد کشمیر زیادہ تر سرسبز وادیوں اور پہاڑوں پر مشتمل ہے اور قدرت نے خطے کو ہر قسم کے نظارے بخشے ہیں۔ کشمیر اپنی قدرتی خوبصورتی اور دلکش مناظر کی وجہ سے جانا جاتا ہے اور سیر و تفریح کے لیے لوگ بڑی تعداد میں آزاد کشمیر کا رُخ کرتے ہیں۔ اسی خوبصورت مناظر کی وجہ سے مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے کہا تھا کہ کشمیر زمین پر جنت ہے۔ آزاد کشمیر کے چند اہم سیاحتی مقامات درجہ ذیل ہیں:

گلگت بلتستان[ترمیم]

کے ٹو پہاڑی،صوبہ گلگت بلتستان
دیوسائی پارک،صوبہ گلگت بلتستان
بلتورو،صوبہ گلگت بلتستان

گلگت بلتستان پاکستان کی ایک انتظامی اکائی ہے جو ملک کے شمالی حصے میں واقع ہے۔گلگت بلتستان پاکستان کے خوبصورت ترین علاقوں میں سے ایک ہے جو زیادہ تر پہاڑی علاقہ ہے۔ گلگت بلتستان پاکستان میں سیاحت کا مرکز ہے خاص کر دنیا کا دوسرا بڑا پہاڑ کے ٹو بھی اسی خطے میں واقع ہے۔ اس کے علاوہ اس خطے میں مختلف جھیل،پہاڑ،وادیاں،ندیاں ،کھیل کے میدان،تاریخی عمارتیں،وغیرہ موجود ہیں۔ تاریخی طور پر یہ تین ریاستوں پر مشتمل تھا یعنی ہنزہ، گلگت اور بلتستان۔ 1848ء میں کشمیر کے ڈوگرہ سکھ راجا نے ان علاقوں پر بزور قبضہ کر لیا اور جب پاکستان آزاد ہوا تو اس وقت یہ علاقہ کشمیر کے زیرِ نگیں تھا۔ 1948ء میں اس علاقے کے لوگوں نے خود لڑ کر آزادی حاصل کی اور اپنی مرضی سے پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔ 2009ء میں اس علاقے ہو آزاد حیثیت دے کر پہلی دفعہ یہاں انتخابات کروائے گئے۔ گلگت بلتستان کی آبادی 11لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جبکہ اس کا کل رقبہ 72971مربع کلومیٹر ہے ‘ اردو کے علاوہ بلتی اور شینا یہاں کی مشہور زبانیں ہیں۔ اس خطے میں سات ہزار میٹر سے بلند 50 چوٹیاں واقع ہیں۔ دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم،ہمالیہ اور ہندوکش یہاں آکر ملتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو بھی اسی خطے میں واقع ہے۔ جب کہ دنیا کے تین سب سے بڑے گلیشئیر بھی اسی خطے میں واقع ہیں۔ گلگت بلتستان میں بہت سے سیاحتی مقامات ہیں،چند معروف مقامات درجہ ذیل ہیں:

مزید دیکھیے[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]

Pakistan سفری راہنما منجانب ویکی سفر

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "آرکائیو کاپی"۔ 03 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 مارچ 2015