ہندوؤں پر مظالم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ہندوؤں کو مذہبی ایذا رسانی کا تجربہ مذہب کی جبری تبدیلی، قتل عام، مندروں اور اُن کی درس گاہوں کو تباہ کرنے جیسے کاموں سے ہوا ہے۔ زمانہ جدیہ میں مسلم اکثریتی خطے جیسے کشمیر، پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان اور دوسرے ممالک میں بھی ہندو اس کا شکار نہیں ہوتے ہیں۔

قرونِ وسطی میں مسلم حکمرانوں سے ایذا رسانی[ترمیم]

مسلمانوں کی برصغیر ہند میں آمد آٹھوں صدی کے اوائل میں شروع ہوئی۔ خلافت امویہ کا دمشق کا گورنر حجاج بن یوسف نے دیبل سے کچھ لوگوں کی درخواست پر، جو وہاں قید کر لیے گئے تھے،محمد بن قاسم کو وہاں بھیجا۔ تاریخی دستاویز چچ نامہ کے مطابق وہاں بہت مندر ڈھائے گئے اور بڑے پیمانے پر مقامی سندھی لوگوں کا قتل عام ہوا۔

تاریخی طور پر برصغیر کے ایک حصے پر مسلم حکمرانی محمد بن قاسم سے سلطنت دہلی اور مغلیہ سلطنت پر رہی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ چھوٹی مسلم ریاستیں جیسے بہمنی سلطنت اور ٹیپو سلطان کی میسور کی ریاست بھی موجود تھیں۔ سندھ کی فتح کے بعد محمد بن قاسم نے ہندو، بدھ مت اہل کتاب اور غیر مسلم پر مذہبی آزادی کے لیے جزیہ لگایا جو مسلمانوں کے اگلے 800 سالوں تک حکمرانی کے لیے نہایت اہم ثابت ہوا۔

مورخ کشوری سرن لعل اپنی کتاب میں دعوی کرتا ہے 1000 سے 1500 عیسوی تک برصغیر کی آبادی بیس کڑوڑ سے سترہ کڑوڑ کم ہوئ۔ ایک اور تخمینہ کے مطابق آبادی بیس کڑوڑ سے کم ہو کر بارہ کڑوڑ ہو گئی تھی۔ تاہم عرفان حبیب اور سائمن ڈگبی نے ان تخمینہ پر اعتراض اٹھائے ہیں۔ ول ڈیورانٹ کے بقول فتح مسلم برصغیر کی تاریخ کا سب سے خونی حصہ ہے۔ حتی کے وہ ہندو جو مسلمان ہو گئے تھے ایذا رسانی سے محفوظ نہ رہے۔

محمود غزنوی[ترمیم]

سلطنت غزنویہ کا بادشاہ محمود غزنوینے گیارھوں صدی میں برصغیر پر سندھ و گنگ کا میدان میں حملہ کیا اور شبیہ شکنی کی وجہ سے بہت سے مندر توڑے اور بت شکن کہلایا۔ مورخ ال اُتابی کے مطابق، محمود کی مہمات اسلام کو پھیلانے کا جہاد اور بت پرستی کا خاتمہ تھا۔ اگرچہ محمود ذاتی طور پر ہندوں سے نفرت نہیں کرتا تھا، مگر مندروں کو گرانے کے بعد نوادرات کواپنے قبضے میں کر لیتا تھا۔ اُس نے 1026 میں دوسرے سومنات کے مندر پر حملہ کیا اور مشہور شیو کے مندر کو ڈھا دیا۔

سلطنت دہلی[ترمیم]

سلطنت دہلی تقریباً 320 سالوں تک قائم رہی۔ آس کا آغاز شہاب الدین غوری کی مہمات سے ہوا۔ سلطنت دہلی میں مسلمانوں اور ہندوں کے درمیان بہت تصادم ہوئے۔ مورخ مورخ ضیاء الدین برنی کی کتاب فتوی جہاںدری کے مطابق وہ ہندو جو مسلمان ہو گئے تھے ایذا رسانی سے محفوظ نہ رہے جو مسلم ذات برادری سے عیاں ہے۔

قطب الدین ایبک[ترمیم]

مسلم مورخ مولانہ حکیم سیدی عبدلحی نے خاندان غلاماں کے بادشاہ قطب الدین ایبک کے زمانے میں مذہبی تشد کے بارے میں لکھا ہے۔ اس نے دہلی میں پہلی مسجد قوة الإسلام 20 مندروں کے تباہ حال حصوں سے بنائی۔ بت شکنی اس دور میں بہت عام تھی۔

خلجی خاندان[ترمیم]

مذہبی ایزارسانی خلجی خاندان کے بادشاہ جلال الدین خلجی کے دور میں بھی جاری رہی۔ اُس کے جرنیلوں الغ خان، نصرت خان جلیسری، خسرو خان اور ملک کافور نے بہت سے غیر مسلم علاقوں پر حملے کیے انییں مارا اور لوٹا۔ ملک کافور کی قیادت میں 1309 اور 1311 میں تیں جنوبی ہند کی بادشاہت دولت آباد، وارنگل اور مدورئی میں دو مہمات کی گئیں جن میں ہزاروں لوگوں کی ہلاکت ہوئی اور بہت سے مندر تباہ ہوئے۔ اسی مہمات سے وارنگل کے مشہور کوہ نور ہیرا بھی لوٹا گیا۔

حوالہ جات[ترمیم]

  • Burjor Avari (2013)۔ Islamic Civilization in South Asia: A history of Muslim power and presence in the Indian subcontinent۔ Routledge۔ ISBN 978-0-415-58061-8 .
  • Rakesh Batabyal (2005)۔ Communalism in Bengal: From Famine To Noakhali, 1943-47۔ SAGE۔ ISBN 978-0-7619-3335-9۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مئی 2018 
  • Bidyut Chakrabarty (2004)۔ Partition of Bengal and Assam, 1932-1947۔ Routledge۔ ISBN 978-1-134-33275-5۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مئی 2018 
  • Joya Chatterji (2002)۔ Bengal Divided: Hindu Communalism and Partition, 1932-1947۔ Cambridge University Press۔ ISBN 978-0-521-52328-8۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مئی 2018 
  • Bashabi Fraser (2008)۔ Bengal Partition Stories: An Unclosed Chapter۔ Anthem Press۔ ISBN 978-1-84331-299-4۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مئی 2018 
  • Alan Machado Prabhu (1999)۔ Sarasvati's Children: A History of the Mangalorean Christians۔ I.J.A. Publications۔ ISBN 978-81-86778-25-8 .