"بابا فرید الدین گنج شکر" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م Shafizro (تبادلۂ خیال) کی ترامیم Ulubatli Hasan کی گذشتہ ترمیم کی جانب واپس پھیر دی گئیں۔
(ٹیگ: استرجع ردِّ ترمیم)
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8
(ٹیگ: ردِّ ترمیم)
سطر 4: سطر 4:


== خاندانی پس منظر ==
== خاندانی پس منظر ==
عظیم صوفی بزرگ اور شاعر بابا فرید الدین گنج شکر کا اصل نام مسعو د اور لقب فرید الدین تھا۔<ref>[http://www.ziaetaiba.com/ur/scholar/hazrat-baba-farid-ganj-shakar-history نام و لقب]</ref> آپ کی ولادت [[1173ء]] بمطابق 589ھ میں ہُوئی اور وصال[[1265ء]] بمطابق 666ھ میں ہوا۔ آپ کا خاندانی نام فرید الدین مسعود ہے اور والدہ کا نام قرسم خاتون ؒ اور والدمحترم قاضی جلال الدین ہیں۔ بابا فرید پانچ سال کی عمر میں یتیم ہو گئے تھے ۔<ref name="ishratiqbalwarsi.blogspot.com">[http://ishratiqbalwarsi.blogspot.com/2013/05/baba.fareed.html بابا فرید گنج شکر کیوں کہلائے۔ عاصِمہ شوکت ~ Ishrat Iqbal Warsi<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref>
عظیم صوفی بزرگ اور شاعر بابا فرید الدین گنج شکر کا اصل نام مسعو د اور لقب فرید الدین تھا۔<ref>{{Cite web |url=http://www.ziaetaiba.com/ur/scholar/hazrat-baba-farid-ganj-shakar-history |title=نام و لقب |access-date=2015-10-20 |archive-date=2015-10-22 |archive-url=https://web.archive.org/web/20151022201315/http://www.ziaetaiba.com/ur/scholar/hazrat-baba-farid-ganj-shakar-history |url-status=dead }}</ref> آپ کی ولادت [[1173ء]] بمطابق 589ھ میں ہُوئی اور وصال[[1265ء]] بمطابق 666ھ میں ہوا۔ آپ کا خاندانی نام فرید الدین مسعود ہے اور والدہ کا نام قرسم خاتون ؒ اور والدمحترم قاضی جلال الدین ہیں۔ بابا فرید پانچ سال کی عمر میں یتیم ہو گئے تھے ۔<ref name="ishratiqbalwarsi.blogspot.com">[http://ishratiqbalwarsi.blogspot.com/2013/05/baba.fareed.html بابا فرید گنج شکر کیوں کہلائے۔ عاصِمہ شوکت ~ Ishrat Iqbal Warsi<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref>
آپ بغیر کسی شک و شبہ کے پنجابی ادب کے پہلے اور پنجابی شاعری کی بُنیاد مانے جاتے ہیں۔ آپ کا شمار برصغیر کے مُشہور بزرگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اسلام کی شمع جلائی اور صرف ایک اللہ کی دُنیا کی پہچان کروائی۔ بابا فرید584/ 1173 میں [[ملتان]] کے ایک قصبے کھوتووال میں پیدا ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے آباء [[کابل]] کے فرخ شاہ کی اولاد میں سے تھے۔<ref>سیرالعارفین،مصنف حامد بن فضل اللہ جمالی،طبع 1311 ھ مطبوعہ رضوی دہلی</ref> کہتے ہیں کہ بابا فرید کے والد شیخ شعیب سلطان [[محمود غزنوی]] کے بھانجے تھے جو [[شہاب الدین غوری]] کے زمانے میں ملتان کے قصبہ کھوتووال میں آ کر آباد ہوئے۔ بعض روایات کے مطابق ان کے دادا ہجرت کر کے لاہور آئے اور اس کے بعد کچھ وقت قصور میں گزار کر کھوتوال چلے گئے۔
آپ بغیر کسی شک و شبہ کے پنجابی ادب کے پہلے اور پنجابی شاعری کی بُنیاد مانے جاتے ہیں۔ آپ کا شمار برصغیر کے مُشہور بزرگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اسلام کی شمع جلائی اور صرف ایک اللہ کی دُنیا کی پہچان کروائی۔ بابا فرید584/ 1173 میں [[ملتان]] کے ایک قصبے کھوتووال میں پیدا ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے آباء [[کابل]] کے فرخ شاہ کی اولاد میں سے تھے۔<ref>سیرالعارفین،مصنف حامد بن فضل اللہ جمالی،طبع 1311 ھ مطبوعہ رضوی دہلی</ref> کہتے ہیں کہ بابا فرید کے والد شیخ شعیب سلطان [[محمود غزنوی]] کے بھانجے تھے جو [[شہاب الدین غوری]] کے زمانے میں ملتان کے قصبہ کھوتووال میں آ کر آباد ہوئے۔ بعض روایات کے مطابق ان کے دادا ہجرت کر کے لاہور آئے اور اس کے بعد کچھ وقت قصور میں گزار کر کھوتوال چلے گئے۔



نسخہ بمطابق 20:26، 16 جنوری 2021ء

بابا فرید الدین گنج شکر
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1175ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملتان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1265ء (89–90 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پاکپتن   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت Jambudvīpa   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ خواجہ معین الدین چشتی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مصنف ،  شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان پنجابی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان پنجابی [2]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

شیخ العالم حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر بارہویں صدی کے مسلمان مبلغ اور صوفی بزرگ ہیں۔ ان کو قرون وسطی کے سب سے ممتاز اور قابل احترام صوفیا میں سے ایک کہا گیا ہے۔[3] ان کا مزار پاک پتن، پاکستان میں واقع ہے۔

خاندانی پس منظر

عظیم صوفی بزرگ اور شاعر بابا فرید الدین گنج شکر کا اصل نام مسعو د اور لقب فرید الدین تھا۔[4] آپ کی ولادت 1173ء بمطابق 589ھ میں ہُوئی اور وصال1265ء بمطابق 666ھ میں ہوا۔ آپ کا خاندانی نام فرید الدین مسعود ہے اور والدہ کا نام قرسم خاتون ؒ اور والدمحترم قاضی جلال الدین ہیں۔ بابا فرید پانچ سال کی عمر میں یتیم ہو گئے تھے ۔[5] آپ بغیر کسی شک و شبہ کے پنجابی ادب کے پہلے اور پنجابی شاعری کی بُنیاد مانے جاتے ہیں۔ آپ کا شمار برصغیر کے مُشہور بزرگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اسلام کی شمع جلائی اور صرف ایک اللہ کی دُنیا کی پہچان کروائی۔ بابا فرید584/ 1173 میں ملتان کے ایک قصبے کھوتووال میں پیدا ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے آباء کابل کے فرخ شاہ کی اولاد میں سے تھے۔[6] کہتے ہیں کہ بابا فرید کے والد شیخ شعیب سلطان محمود غزنوی کے بھانجے تھے جو شہاب الدین غوری کے زمانے میں ملتان کے قصبہ کھوتووال میں آ کر آباد ہوئے۔ بعض روایات کے مطابق ان کے دادا ہجرت کر کے لاہور آئے اور اس کے بعد کچھ وقت قصور میں گزار کر کھوتوال چلے گئے۔




گنج شکر کی وجہ تسمیہ

آپ کی والدہ ماجدہ قُرسم خاتون نے پہلی بار بابا فریدؒ کو نماز پڑھنے کی تلقین کی تو کچھ اِس طرح سے سمجھایا۔ کہ، جب چھوٹے بچے اللہ تعالیٰ کی نماز ادا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں شکر کا انعام دیتا ہے اور جب بڑے ہو جاتے ہیں تو دوسرے بڑے اور مزید انعامات دیے جاتے ہیں۔ بابا فرید الدین جب نمازپڑھتے۔ تو قرسم خاتون چپکے سے ان کے مصلے کے نیچے شکر کی پڑیاں رکھ دیتیں اور بابا فرید ؒ وہ شکر کی پڑیاں انعام میں پا کر بہت خوش ہوتے، یہ سلسلہ کافی عرصہ تک چلتا رہا۔ یہاں تک کہ ،، ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ قرسم خاتون شکرکی پڑیاں رکھنا بھول گئیں۔ تو اگلے دن اضطراب سے پوچھا کہ اے فرید الدین مسعود کیا آ پکو کل شکر کی پڑیاں مل گئی تھیں؟ تو بابا فرید نے ہاں میں جواب دیا! تو قرسم خاتون نے اللہ عزوجل کا شکر ادا کیا کہ ان کی لاج رہ گئی۔ اور اس بات پر خوشی بھی ہوئی کہ اللہ عزوجل کی طرف سے انعام دیا گیا تب انہوں نے بابا فریدؒ سے کہا کہ اے فرید الدین مسعود آپ تو واقعی گنج شکر ہیں۔[5] آپ کے گنج شکر کے ساتھ لقب ہونے میں چند اقوال نقل کیے جاتے ہیں۔منجملہ ان کے ایک یہ بھی ہے کہ آپ نے مجاہدہ کا ارادہ کیا۔شیخ نے بھوکا رہنا بتلایا۔آپ نے روزے شروع کر دیے۔تین دن بعد ایک شخص چند روٹیاں لے کر حاضر ہوا،آپ نے اس کو اشارہ غیبی سمجھ کر نوش فرمالیا۔کھانے کے بعد تھوڑی ہی دیر میں امتلا ہوا اور سب قے کے راستہ نکل گیا۔آپ نے اپنے شیخ سے یہ قصہ بیان کیا۔انہوں نے فرمایا کہ تین دن کے بعد تو کھایا پھر بھی شرابی کا کھانا کھایا۔حق تعالیٰ کا شکر ہے کہ وہ کھانا پیٹ میں نہ رہ سکا اب تین دن اور بھوکے رہو اور جو غیب سے آئے اس کو کھاؤ۔تین دن گزرنے کے بعد کچھ نہ آیا۔ضعف بیحد غالب ہو گیا۔شدت بھوک میں کچھ کنکریاں اٹھاکر منہ میں ڈال لیں وہ شکر بن گئیں۔شیخ نے یہ سمجھ کر کہ کہیں دھوکا نہ ہوا ان کو تھوک دیا۔تھوڑی دیر بعد پھر شدت بھوک سے مجبور ہوکر کنکریاں اٹھاکر منہ میں ڈالیں وہ بھی شکر بن گئیں۔ایسے ہی تین مرتبہ ہوا۔صبح کو حضرت شیخ سے عرض کیا۔حضرت نے فرمایا کہ بہتر کیا کیا وہ کھالیا۔اسی دن سے آپ کو گنج شکر کہنے لگے۔ [7]

ابتدائی تعلیم

بابا فرید ملتان میں منہاج الدین کی مسجد میں زیر تعلیم تھے جہاں ان کی ملاقات جناب بختیار کاکی اوشی سے ہوئی اور وہ ان کی ارادت میں چلے گئے۔ اپنے مرشد کے حکم پر بین الاقوامی اور سماجی تعلیم کے لیے قندھار اور دوسرے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد دلی پہنچ گئے۔

چشتیہ سربراہ

مرشد کی وفات پر ان کو چشتیہ سنگت کا سربراہ بنایا گیا۔ وہ معین الدین چشتی اور قطب الدین بختیار کاکی کے بعد اس کے تیسرے سربراہ تھے۔ اور حضرت محبوبِ الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء کے مرشد تھے۔ عظیم صوفی بزرگ تھے جنہوں نے جاگیر ہونے کے باوجود اجودھن (پاکپتن) جو اس وقت کفرستان تھا، قبرستان میں اگنے والی جھاڑی (کری) سے ڈیلے حاصل کر کے پانی میں ابال کر کھاتے لیکن کبھی کسی سے مستعار شے لے کر نہ کھائی۔ انہوں نے دیگر علما کرام، صوفیا کرام، مشائخ اور درویشوں کی طرح محبت، بھائی چارے، امن و امان اور باہمی میل جول کا درس دیا جس سے متاثر ہو کر لوگوں نے اسلام قبول کیا۔[8]

خلفاء

آپ کے مشہور خلفاء کے نام یہ ہیں۔ 1۔ حضرت علی احمد علاءالدین صابر کلیری 2۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء 3۔حضرت مولانا بدرالدین اسحاق رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین

دلی سے پاکپتن

کہا جاتا ہے کہ ان کو دلی کی شان و شوکت ہرگز پسند نہ تھی جس کی وجہ سے وہ پہلے ہانسی اور پھر اجودھن یا پاک پتن میں ڈیرہ نشین ہو گئے۔ لیکن کچھ روایات کے مطابق دلی اور اس کے گرد و نواح کی چشتیہ اشرافیہ ملتان کے ایک قصباتی نوجوان کو سربراہ ماننے کو تیار نہ تھی اور ان کے خلاف سازشیں ہو رہی تھیں جس کی وجہ سے وہ پاکپتن تشریف لے آئے۔ شاید دونوں باتیں ہی درست ہوں کہ ان کے خلاف سازشیں بھی ہو رہی ہوں اور ان کو اپنے دیس کی عوامی زندگی بھی پسند ہو۔ وہ کہتے ہیں :

فریدا برے دا بھلا کر غصہ من نہ ہنڈاء
دیہی روگ نہ لگئے، پلے سب کجھ پاء

(فریدا، برے کا بھلا کر تاکہ تمہارا دل غصے کے تصرف میں نہ چلا جائے، غصے کی نظر نہ ہو جائے۔ اگر تم جسم کو روگ نہیں لگانا چاہتے ہو تو سب غصے والی چیزیں سمیٹ لو)۔

پاکپتن اس زمانے میں تجارتی شاہراہ پر ایک اہم مقام تھا۔ دریائے ستلج کو یہیں سے پار کیا جاتا تھا۔ یہ بات حادثاتی نہیں ہے کہ پنجابی کے دوسرے کلاسیکی دانشوروں نے تجارتی مقامات پر زندگی گزاری جہاں ان کو دنیا کے بارے میں اطلاعات ملتی رہتی تھیں۔ بہت سی تاریخی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ بہت سے عالم دور دراز سے گرائمر اور زبان دانی کے مسائل حل کرانے کے لیے بابا فرید کے پاس پاکپتن آتے تھے۔

شاعری

ان کی شاعری میں فارسی، عربی، سنسکرت کے الفاظ ملتے ہیں۔ وہ پنجابی شاعری کے پہلے شاعر ہیں۔

قوالی

حضرت فرید الدین کے ہاں بغیر مزامیر کے قوالی سننے کا رواج تھا-

شادی

حامد بن فـضل جمالی کا کہنا ہے کہ بابا فرید نے پاکپتن میں ہی شادی کی حالانکہ بعض تاریخی حوالوں کے مطابق وہ دلی میں بادشاہ ناصرالدین محمود کے دربار میں گئے جہاں بادشاہ نے اپنی بیٹی ہزابارہ کی شادی ان سے کر دی۔ لیکن بعد میں ہونے والے واقعات سے پتا چلتا ہے کہ انہوں نے عوامی رنگ میں رہتے ہوئے اپنے طبقے میں ہی شادی کی تھی۔

سازشیں

پاکپتن کی عوامی زندگی بھی کوئی آسان نہ تھی کیونکہ وہاں بھی مذہب کا ٹھیکیدار ’قاضی‘ موجود تھا جو ہر طرح سے ان کو تکالیف پہنچانے پر تیار رہتا تھا۔ اس کے اکسانے پر لوگ آپ کی اولاد کو آزار پہنچاتے تھے لیکن بابا فرید کچھ زیادہ توجہ نہ دیتے تھے۔ قاضی کو اس پر بھی چین نہ آیا اور اس نے ملتان کے علما کو اطلاع دی اور سوال کیا کہ کیا یہ جائز ہے کہ ایک شخص جو اہلِ علم ہے خود کو درویش کہلوائے، ہمیشہ مسجد میں رہے اور وہاں گانا سنے اور رقص کرے۔ جب ان علما نے بھی کچھ نہ کیا تو قاضی نے کسی کو دے دلا کر تیار کیا کہ وہ بابا فرید کو دوران عبادت ختم کر دے لیکن اس کا یہ منصوبہ بھی ناکام ہو گیا۔

عام لوگوں سے محبت

اس مشکلات کے باوجود بابا فرید نے زندگی کو ذاتیات سے بالاتر ہو کر عوام کے دکھوں کے حوالے سے دیکھا۔ میں جانیا دکھ مجھی کو دکھ سبھائے جگ اچے چڑھ کے ویکھیا گھر گھر ایہو اگ (میں سمجھا تھا کہ دکھ صرف مجھے ہی ہے لیکن دکھ تو سارے جہان کو ہے۔ اوپر چڑھ کر دیکھا تو پتا چلا کہ گھرگھر یہی آگ سلگ رہی ہے۔ )

بابا فرید کی عوام کے ساتھ ذاتی اور نظریاتی دونوں ہی اعتبار سے محبت اور پیار تھا۔ وہ کہتے ہیں فریدا خالق خلق میں، خلق وسے رب مانہہ مندا کس نوں آکھیے، جاں تس بن کوئی نانہہ (فریدا خدا مخلوق میں اور مخلوق خدا میں جاگزین ہے۔ کس کو برا کہیں جب تمہارے بغیر کوئی نہیں ہے)۔ فریدا خاک نہ نندیے خاکو جیڈ نہ کوئے جیوندیاں پیراں تھلے، مویاں اپر ہوئے (فریدا خاک کی ناقدری نہ کرو کیونکہ زندگی میں پاؤں اس پر کھڑے ہوتے ہیں اور مرنے پر یہ اوپر سے ڈھانپتی ہے)۔

وفات

5 محرم الحرام 1265ء سن عیسوی بمطابق 666ھ 92 سال کی عمر میں وفات پائی۔ ان کا مزار شہنشاہ محمد بن تغلق نے تعمیر کروایا جو آپ کے مرید تھے انہوں نے خود ہی کہا تھا: کندھی اپر رکھڑا کچرک بنھے دھیر کچے بانڈھے رکھیے کچر تائیں نیر (دیوار پر اگا درخت کب تک حوصلہ مند رہے گا۔ کچے برتن میں کب تک پانی سنبھالا جا سکتا ہے)۔ حضور بابا صاحب نے سخت بے چینی اور تکلیف میں گزارا۔ مگر تمام نمازیں جماعت کے  ساتھ ادا کیں اور تمام وظائف بھی پورے کیے پھر عشاء کی نماز جماعت سے  پڑھ کر آپ پر بے ہوشی طاری ہو گئی ۔ کچھ دیر کے  بعد ہوش آیا تو آپ نے مولانا بدر الدین اسحاق سے  پوچھا کے  میں نے عشاء کی نماز پڑھ لی  ہے۔ مولانا بدر الدین اسحاق نے جواب دیا حضور عشاء کی نماز  وتر کے  ساتھ ادا کر چکے ہیں ۔ اس کے  بعد آپ پھر بے ہوش ہو گئے جب ہوش آیا تو فرمایا  کہ میں  دوسری مرتبہ نماز ادا کرو ں گا خدا جانے پھر یہ موقع ملے یا نہ  ملے۔ مولانا بدر الدین کہتے ہیں کہ اس رات آپ نے تین مرتبہ  نماز عشاء ادا کی۔  پھر آپ نے وضو کے  لیے پانی منگوایا۔ وضو کیا دو گانہ ادا فرمایا پھر سجدے میں چلے گئے اور سجدے میں ہی آہستہ آواز سے  یاحیی یا قیوم پڑھتے آپ واصل حق الحبیب ہو گئے ۔

اقوال زریں بابا فرید

  • انسانوں میں رذیل ترین وہ ہے جوکھانے پینے اورپہننے میں مشغول رہے۔
  • جوسچائی جھوٹ کے مشابہہ ہواسے اختیارمت کرو۔
  • نفس کواپنے مرتبہ کے لیے خوارنہ کرو۔
  • اگرتم بزرگوں کامرتبہ چاہتے ہوتوبادشاہوں کی اولادسے دوررہو۔
  • جب کوئی مومن بیمارہوتواسے معلوم ہوناچاہیے کہ یہ بیماری اس کے لیے رحمت ہے۔ جوگناہوں سے اس کوپاک کرتی ہے۔
  • دوریش فاقے سے مرجاتے ہیں مگرلذت نفس کے لیے قرض نہیں لیتے۔
  • جس دل میں اللہ کاذکرجاری رہتاہے وہ دل زندہ ہے اورشیطانی خواہشات اس پرغلبہ نہیں پاسکتیں۔
  • وہ شے بیچنے کی کوشش نہ کروجسے لوگ خریدنے کی خواہش نہ کریں۔
  • اچھائی کرنے کے لیے ہمیشہ کسی بہانے کی تلاش میں رہو۔
  • دوسروں سے اچھائی کرتے ہوئے سوچوکہ تم اپنی ذات سے اچھائی کر رہے ہو۔
  • ہرکسی کی روٹی نہ کھابلکہ ہرشخص کواپنی روٹی کھلا۔
  • وہ لوگ جودوسروں کے سہارے جینے کاارادہ رکھتے ہیں،وہ تساہل پرست،کم ظرف اورمایوس ہوتے ہیں۔
  • اطمینان قلب چاہتے ہوتوحسدسے دوررہو۔[9]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. ^ ا ب BnF catalogue général — اخذ شدہ بتاریخ: 7 جون 2021 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — ناشر: فرانس کا قومی کتب خانہ
  2. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb14639295m — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  3. K. A. Nizami, "The Life and Times of Shaikh Farid-u'd-Din Ganj-i-Shakar," in Babaji, ed. M. Ikram Chaghatai (Lahore: Sang-e-Meel Publications, 2006), p. 15
  4. "نام و لقب"۔ 22 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اکتوبر 2015 
  5. ^ ا ب بابا فرید گنج شکر کیوں کہلائے۔ عاصِمہ شوکت ~ Ishrat Iqbal Warsi
  6. سیرالعارفین،مصنف حامد بن فضل اللہ جمالی،طبع 1311 ھ مطبوعہ رضوی دہلی
  7. تاریخ مشائخ چشت http://www.elmedeen.com/read-book-5168&&page=179&viewer=text#page-185&viewer-text
  8. http://alqlm.org/xen/threads/بابا فرید الدین گنج شکر/
  9. Error - Forbidden