"لکھنؤ" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
2 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8
سطر 104: سطر 104:
== آب و ہوا ==
== آب و ہوا ==
لکھنؤ کی آب و ہوا مرطوب ذیلی استوائی ہے، فروری کے وسط نومبر تک خشک سردی، اواخر مارچ سے جون تک موسم خشک گرم ہوتا ہے۔ برسات کا موسم جولائی سے ستمبر کے وسط تک ہوتا ہے۔
لکھنؤ کی آب و ہوا مرطوب ذیلی استوائی ہے، فروری کے وسط نومبر تک خشک سردی، اواخر مارچ سے جون تک موسم خشک گرم ہوتا ہے۔ برسات کا موسم جولائی سے ستمبر کے وسط تک ہوتا ہے۔
موسم سرما میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 25 ° س (77 ° ف) اور کم سے کم 7 ° س (45 ° ف) ہوتا ہے۔<ref>{{cite news|title=Lucknow Minimum Temperature |url=http://articles.timesofindia.indiatimes.com/2012-12-29/lucknow/36050401_1_minimum-temperature-maximum-temperature-celsius | work=دی ٹائمز آف انڈیا | date=29 Dec 2012}}</ref>
موسم سرما میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 25 ° س (77 ° ف) اور کم سے کم 7 ° س (45 ° ف) ہوتا ہے۔<ref>{{cite news |title=Lucknow Minimum Temperature |url=http://articles.timesofindia.indiatimes.com/2012-12-29/lucknow/36050401_1_minimum-temperature-maximum-temperature-celsius |work=دی ٹائمز آف انڈیا |date=29 Dec 2012 |access-date=2017-02-11 |archive-date=2013-01-01 |archive-url=https://web.archive.org/web/20130101083608/http://articles.timesofindia.indiatimes.com/2012-12-29/lucknow/36050401_1_minimum-temperature-maximum-temperature-celsius |url-status=dead }}</ref>
دھند اواخر جنوری سے وسط دسمبر میں بہت عام ہے۔ موسم گرما میں درجہ حرارت 45 ° س (113 ° ف) تا 40 ° س (104 ° ف) تک پہنچ جاتا ہے۔
دھند اواخر جنوری سے وسط دسمبر میں بہت عام ہے۔ موسم گرما میں درجہ حرارت 45 ° س (113 ° ف) تا 40 ° س (104 ° ف) تک پہنچ جاتا ہے۔


سطر 387: سطر 387:
حکومت اترپردیش کی نشست کے طور پر، لکھنؤ اترپردیش اسمبلی، الہ آباد ہائی کورٹ اور متعدد سرکاری محکموں اور ایجنسیوں کا مقام ہے۔<ref name="Government Departments">{{cite web|title=List of Central Government Departments|url=http://lucknow.nic.in/government-offices/cgon.htm|accessdate=27 اگست 2014|archiveurl=https://web.archive.org/web/20181226035635/https://lucknow.nic.in/government-offices/cgon.htm|archivedate=2018-12-26|url-status=dead}}</ref>
حکومت اترپردیش کی نشست کے طور پر، لکھنؤ اترپردیش اسمبلی، الہ آباد ہائی کورٹ اور متعدد سرکاری محکموں اور ایجنسیوں کا مقام ہے۔<ref name="Government Departments">{{cite web|title=List of Central Government Departments|url=http://lucknow.nic.in/government-offices/cgon.htm|accessdate=27 اگست 2014|archiveurl=https://web.archive.org/web/20181226035635/https://lucknow.nic.in/government-offices/cgon.htm|archivedate=2018-12-26|url-status=dead}}</ref>


1 مئی [[1963ء]] کے بعد سے لکھنؤ [[بھارتی فوج]] کی سینٹرل کمانڈ کا ہیڈکوارٹر ہے۔ جبکہ اس سے پہلے یہ مشرقی کمانڈ کا ہیڈکوارٹر تھا۔<ref name="TOI-2009-05-03">{{cite news | url=http://articles.timesofindia.indiatimes.com/2009-05-03/lucknow/28157520_1_ors-central-command-programmes | title=Central Command Raising Day concludes | work=دی ٹائمز آف انڈیا | date=3 مئی 2009<!-- ، 02.57am IST -->| accessdate=21 جون 2013}}</ref>
1 مئی [[1963ء]] کے بعد سے لکھنؤ [[بھارتی فوج]] کی سینٹرل کمانڈ کا ہیڈکوارٹر ہے۔ جبکہ اس سے پہلے یہ مشرقی کمانڈ کا ہیڈکوارٹر تھا۔<ref name="TOI-2009-05-03">{{cite news | url=http://articles.timesofindia.indiatimes.com/2009-05-03/lucknow/28157520_1_ors-central-command-programmes | title=Central Command Raising Day concludes | work=دی ٹائمز آف انڈیا | date=3 مئی 2009<!-- ، 02.57am IST --> | accessdate=21 جون 2013 | archive-date=2013-10-05 | archive-url=https://web.archive.org/web/20131005010528/http://articles.timesofindia.indiatimes.com/2009-05-03/lucknow/28157520_1_ors-central-command-programmes | url-status=dead }}</ref>


شہر سے لوک سبھا ([[بھارتی پارلیمان]]) کے ساتھ ساتھ اترپردیش ودھان سبھا (ریاستی اسمبلی) کے لیے بھی ارکان سے منتخب ہوتے ہیں۔ لکھنؤ میں دو [[بھارتی پارلیمان|لوک سبھا]] حلقے لکھنؤ اور موہن لال گنج اور نو ودھان سبھا حلقے ہیں۔ [[2008ء]] میں شہر میں 110 وارڈ تھے۔
شہر سے لوک سبھا ([[بھارتی پارلیمان]]) کے ساتھ ساتھ اترپردیش ودھان سبھا (ریاستی اسمبلی) کے لیے بھی ارکان سے منتخب ہوتے ہیں۔ لکھنؤ میں دو [[بھارتی پارلیمان|لوک سبھا]] حلقے لکھنؤ اور موہن لال گنج اور نو ودھان سبھا حلقے ہیں۔ [[2008ء]] میں شہر میں 110 وارڈ تھے۔

نسخہ بمطابق 08:17، 25 اپریل 2021ء


लखनऊ
اوپر سے گھڑی وار: بڑا امام باڑہ، چارباغ ریلوے اسٹیشن، رومی دروازہ، حضرت گنج، لا مارٹنیری اسکول، امبیڈکر میموریل پارک
عرفیت: نوابوں کا شہر ، بھارت کا سنہرا شہر قسطنطینیۂ مشرق، شیرازِ ہند
ملک بھارت
ریاستاتر پردیش
ضلعلکھنؤ
حکومت
 • قسممیئر کونسل
 • مجلسلکھنؤ شرکہ بلدیہ
 • میئرسنیکتا بھاٹیہ (بی جے پی)
 • کمیشنر لکھنؤ ڈویژنانیل گارگ
 • رکنِ پارلیمانراجناتھ سنگھ (بی جے پی)
رقبہ[1]
 • میٹرو2,528 کلومیٹر2 (976 میل مربع)
بلندی123 میل (404 فٹ)
آبادی (2015)[2]2,901,475
 • درجہ11th
 • میٹرو[3]4,588,455
نام آبادیلکھنوی، لکھنویٹ
منطقۂ وقتبھارتی معیاری وقت (UTC+5:30)
ڈاک اشاریہ رمز2260xx / 2270xx
ٹیلیفون کوڈ+91-522
گاڑی کی نمبر پلیٹUP 32
خام ملکی پیداوار$22 بلین[4]
جنسی تناسب915 /
ویب سائٹlucknow.nic.in

لکھنؤ (ہندی: लखनऊ‎) بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش کا دار الحکومت اور اردو کا قدیم گہوارہ ہے نیز اسے مشرقی تہذیب و تمدن کی آماجگاہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس شہر میں ضلع لکھنؤ اور لکھنؤ منڈل کا انتظامی صدر دفتر موجود ہے۔ لکھنؤ شہر اپنی نزاکت، تہذیب و تمدن، کثیر الثقافتی خوبیوں، دسہری آم کے باغوں اور چکن کی کڑھائی کے کام کے لیے معروف ہے۔ سنہ 2006ء میں اس کی آبادی 2،541،101 اور شرح خواندگی 68.63 فیصد تھی۔ حکومت ہند کی 2001ء کی مردم شماری، سماجی اقتصادی اشاریہ اور بنیادی سہولت اشاریہ کے مطابق ضلع لکھنؤ اقلیتوں کی گنجان آبادی والا ضلع ہے۔ کانپور کے بعد یہ شہر اتر پردیش کا سب سے بڑا شہری علاقہ ہے۔ شہر کے درمیان میں دریائے گومتی بہتا ہے جو لکھنؤ کی ثقافت کا بھی ایک حصہ ہے۔

لکھنؤ اس خطے میں واقع ہے جسے ماضی میں اودھ کہا جاتا تھا۔ لکھنؤ ہمیشہ سے ایک کثیر الثقافتی شہر رہا ہے۔ یہاں کے حکمرانوں اور نوابوں نے انسانی آداب، خوبصورت باغات، شاعری، موسیقی اور دیگر فنون لطیفہ کی خوب پزیرائی کی۔ لکھنؤ نوابوں کا شہر بھی کہلاتا ہے نیز اسے مشرق کا سنہری شہر اور شیراز ہند بھی کہتے ہیں۔ آج کا لکھنؤ ایک ترقی پزیر شہر ہے جس میں اقتصادی ترقی دکھائی دیتی ہے اور یہ بھارت کے تیزی سے بڑھ رہے بالائی غیر میٹرو پندرہ شہروں میں سے ایک ہے۔[5] لکھنؤ ہندی اور اردو ادب کے مراکز میں سے ایک ہے۔ یہاں زیادہ تر لوگ اردو بولتے ہیں۔ یہاں کا لکھنوی انداز گفتگو مشہور زمانہ ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ہندی اور انگریزی زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔

تاریخ

روشن الدولہ کوٹھی قیصر باغ سے لی گئی لکھنؤ کی تصویر، 1858ء

قدیم تاریخ اور اشتقاقیات

قدیم دور میں لکھنؤ مملکت کوسل کا حصہ تھا۔ قدیم ہندو روایتوں کے مطابق یہ یہ رام کی وراثت تھی جسے انہوں نے اپنے بھائی لکشمن کے لیے وقف کر دیا تھا۔ چنانچہ اس کو لكشماوتی، لكشم پور یا لکھن پور کے نام سے جانا گیا، جو بعد میں بدل کر لکھنؤ ہو گیا۔[6] یہاں سے ایودھیا 80 میل کی دوری پر واقع ہے۔ ایک اور روایت کے مطابق اس شہر کا نام "لكھن اهير" جو "لكھن قلعہ" کے اہم فنکار تھے، کے نام پر رکھا گیا۔ تاہم دلت لوگوں کا ماننا ہے کہ "لکھن پاسی" جو علاقے کا دلت حکمران تھا یہ اس کے نام سے منسوب ہے، جسے "لکھن پور" کہا جاتا تھا جو گیارہویں صدی میں بگڑ کر لکھنؤ ہو گیا۔[7][8] ایک اور مفروضہ کے تحت شہر کا نام دولت کی ہندو دیوی لکشمی کے نام پر ہے جو اصل میں "لکشمناوتی" سے "لکشمناوت" اور آخر کار لکھنؤ ہو گیا۔[9]

جدید تاریخ

1350ء کے بعد سے سلطنت دہلی، سلطنت جونپور، مغلیہ سلطنت اور نواب اودھ، برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی راج کے تحت لکھنؤ اودھ کا حصہ رہا ہے۔ جنگ آزادی ہند 1857ء کے دوران میں لکھنؤ بڑے مراکز میں سے ایک تھا۔ تحریک آزادی ہند میں بھی یہ ایک اہم شمالی ہندوستانی شہر کے طور پر ابھرا۔ 1719ء تک اودھ مغلیہ سلطنت کا ایک صوبہ تھا جس کا گورنر برہان الملک سعادت علی خان تھا جس نے لکھنؤ کے قریب فیض آباد کو اپنا مرکز بنایا۔[10]

تقریباً چوراسی سال (1394ء سے 1478ء) اودھ سلطنت جونپور کا حصہ رہا۔ 1555ء کے لگ بگ مغل شہنشاہ ہمایوں نے اسے مغلیہ سلطنت میں شامل کیا۔ شہنشاہ جہانگیر نے اسے ایک پسندیدہ شاہی افسر شیخ عبد الرحیم کو بطور ریاست عطا کیا۔ اس کے بعد یہ اس کی اولاد "شیخ زادوں" کے زیر رہا۔[11]

اودھ کے نوابوں نے لکھنؤ کو اپنا دار الحکومت بنایا۔ شہر شمالی ہندوستان کا ثقافتی دار الحکومت بنا۔ اس وقت کے نواب، عیاش اور شاہانہ طرز زندگی کے لیے مشہور ہوئے جو فن کے قدردان و سرپرست تھے۔ ان کے دور میں موسیقی اور رقص کو فروغ ملا، اس کے علاوہ انہوں نے متعدد یادگاریں بھی تعمیر کیں۔[13] ان میں بڑا امام باڑا، چھوٹا امام باڑا اور رومی دروازہ قابلِ ذکر ہیں۔ نوابوں کی خاص میراث میں خطے کی ہندو مسلم ثقافت کے میل جول کو گنگا جمنی تہذیب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔[14]

مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد علاقے میں کئی خود مختار ریاستیں قائم ہوئیں۔ اودھ کے تیسرے نواب شجاع الدولہ کی نواب بنگال کی میر قاسم کی مدد کرنے پر انگریزوں سے ٹھن گئی۔ بکسر کی لڑائی میں تقریباً شکست کھانے کے بعد بھاری تاوان کے علاوہ ریاست کچھ حصے بھی انگریزوں کے حوالے کرنا پڑے۔[15]

لکھنؤ کے موجودہ شکل کی بنیاد اودھ کے چوتھے نواب آصف الدولہ نے 1775ء میں رکھی۔ اس نے دار الحکومت فیض آباد سے لکھنؤ منتقل کیا اور اس کو ترقی دی۔[16] لیکن بعد کے نواب نااہل ثابت ہوئے۔ ان نوابوں کی نااہلی کے نتیجے میں آگے چل کر لارڈ ڈلہوزی نے اودھ کو بغیر جنگ کیے ہی حاصل کر کے سلطنت برطانیہ میں ملا لیا۔ 1850ء میں اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ نے برطانوی تابعداری قبول کر لی۔

جغرافیہ

لکھنؤ شہر کا نقشہ

دریائے گومتی لکھنؤ کی اہم جغرافیائی خصوصیات میں سے ہے۔ لکھنؤ میں سندھ و گنگ کا میدان واقع ہے اور بہت سے دیہی قصبوں اور دیہاتوں سے گھرا ہوا ہے جن میں ملیح آباد، کاکوری، موہن لال گنج، گوسین گنج، لکھنؤ، چینہٹ اور اتونجا شامل ہیں۔ مشرق میں بارہ بنکی اور بہرائچ ضلع، مغرب میں اناؤ ضلع، جنوب میں رائے بریلی ضلع جبکہ شمال میں ضلع سیتاپور اور ہردوئی ضلع واقع ہیں۔[17]

آب و ہوا

لکھنؤ کی آب و ہوا مرطوب ذیلی استوائی ہے، فروری کے وسط نومبر تک خشک سردی، اواخر مارچ سے جون تک موسم خشک گرم ہوتا ہے۔ برسات کا موسم جولائی سے ستمبر کے وسط تک ہوتا ہے۔ موسم سرما میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 25 ° س (77 ° ف) اور کم سے کم 7 ° س (45 ° ف) ہوتا ہے۔[18] دھند اواخر جنوری سے وسط دسمبر میں بہت عام ہے۔ موسم گرما میں درجہ حرارت 45 ° س (113 ° ف) تا 40 ° س (104 ° ف) تک پہنچ جاتا ہے۔

آب ہوا معلومات برائے لکھنؤ (چودھری چرن سنگھ بین الاقوامی ہوائی اڈا)
مہینا جنوری فروری مارچ اپریل مئی جون جولائی اگست ستمبر اکتوبر نومبر دسمبر سال
بلند ترین °س (°ف) 30.4
(86.7)
34.2
(93.6)
40.9
(105.6)
45.0
(113)
46.2
(115.2)
47.7
(117.9)
44.2
(111.6)
40.4
(104.7)
40.1
(104.2)
37.7
(99.9)
38.0
(100.4)
29.9
(85.8)
47.7
(117.9)
اوسط بلند °س (°ف) 22.5
(72.5)
25.8
(78.4)
32.0
(89.6)
38.0
(100.4)
40.0
(104)
38.4
(101.1)
33.9
(93)
33.2
(91.8)
33.1
(91.6)
32.8
(91)
29.2
(84.6)
24.6
(76.3)
32.0
(89.6)
اوسط کم °س (°ف) 7.5
(45.5)
9.8
(49.6)
14.5
(58.1)
20.5
(68.9)
24.6
(76.3)
26.7
(80.1)
26.0
(78.8)
25.6
(78.1)
24.1
(75.4)
19.1
(66.4)
12.8
(55)
8.4
(47.1)
18.3
(64.9)
ریکارڈ کم °س (°ف) −1.0
(30.2)
0.0
(32)
5.4
(41.7)
10.9
(51.6)
17.0
(62.6)
19.7
(67.5)
21.5
(70.7)
22.2
(72)
17.2
(63)
10.0
(50)
3.9
(39)
0.5
(32.9)
−1.0
(30.2)
اوسط بارش مم (انچ) 20.2
(0.795)
16.0
(0.63)
10.0
(0.394)
5.0
(0.197)
18.4
(0.724)
122.9
(4.839)
269.9
(10.626)
255.3
(10.051)
211.5
(8.327)
40.9
(1.61)
7.4
(0.291)
12.6
(0.496)
990.1
(38.98)
اوسط بارش ایام 1.5 1.5 1.0 0.6 1.6 5.4 12.0 11.6 8.6 1.7 0.5 0.8 46.8
ماخذ: India Meteorological Department (record high and low up to 2010)[19][20]

آبادیات

آبادی میں اضافہ 
مردم شماریآبادی
1871284,800
1881261,300-8.3%
1891273,0004.5%
1901264,000-3.3%
1911259,800-1.6%
1921240,600-7.4%
1931274,70014.2%
1941387,17740.9%
1951496,90028.3%
1961595,40019.8%
1971814,00036.7%
19811,007,60423.8%
19911,669,20465.7%
20012,245,50934.5%
20112,902,60129.3%
source:[21]
لکھنؤ میں مذہب (2011)[22][23]
مذہب فیصد
ہندو مت
  
75%
اسلام
  
22%
سکھ مت
  
0.56%
مسیحیت
  
0.7%
دیگر
  
1.34%

لکھنؤ میں شہری ہم بستگی کی آبادی 1981ء ایک ملین تھی۔ 2001ء کی مردم شماری کے تخمینے کے مطابق یہ 2.24 ملین تک بڑھ گئی۔ ان میں 60،000 افراد لکھنؤ چھاؤنی میں جبکہ 2.18 ملین لکھنؤ شہر میں آباد ہیں۔[24]

نقل و حمل

سڑکیں

لکھنؤ کی ایک سڑک

چار قومی شاہراہیں لکھنؤ کے حضرت گنج چوراہے سے شروع ہوتی ہیں، جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:[25]

شہر میں عوامی نقل و حمل کے لیے ٹیکسیاں، میٹرو بس، سائیکل رکشے اور آٹو رکشے دستیاب ہیں۔

اندرون شہر بسیں

لکھنؤ شہر کی بس سروس اترپردیش اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے زیر انتظام ہے۔ اس میں 9،500 کے مجموعی بیڑے سے 300 سی این جی بسوں موجود ہیں۔ شہر میں تقریباً 35 روٹ ہیں۔[26] چار بس ڈپو گومتی نگر، چار باغ، اموسی، دوبگگا میں موجود ہیں۔[27]

بین ریاستی بسیں

بین ریاستی بسیوں کا اڈا بھیم راؤ رام جی امبیڈکر بین ریاستی بس ٹرمینل لکھنؤ سے دیگر ریاستوں کو بس خدمات فراہم کرتا ہے جو نیشنل ہائی وے 25 پر واقع ہے۔ جبکہ قیصر باغ میں بھی ایک چھوٹا بس اڈا موجود ہے۔ اتر پردیش کے شہروں الٰہ آباد، وارانسی، جے پور، آگرہ، دہلی، گورکھپور کے لیے اترپردیش اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن بس سروس فراہم کرتا ہے، جبکہ دیگر ریاستوں کے لیے بین ریاستی بس سروس جے پور، نئی دہلی، گوالیار، بھرت پور، راجستھان، سنگرولی، فرید آباد، گرو گرام، دوسہ، اجمیر، دہرہ دون اور ہردوار کے لیے دستیاب ہے۔[28]

ریلوے

لکھنؤ جنکشن ریلوے اسٹیشن

لکھنؤ شہر کے کئی علاقوں میں متعدد ریلوے سٹیشن موجود ہیں۔ جن میں اہم لکھنؤ جنکشن ریلوے اسٹیشن اور لکھنؤ جنکشن ریلوے اسٹیشن ہیں۔ لکھنؤ شہر ایک اہم جنکشن ہے جو ملک اور ریاست کے شہروں کو ملاتا ہے مثلاً نئی دہلی، ممبئی، کولکاتا، چندی گڑھ، امرتسر، جموں، چینائی، حیدرآباد، دکن، بنگلور، احمد آباد، پونے، اندور، بھوپال، گوالیار، جبل پور، جے پور اور سیوان۔

شہر میں کل چودہ ریلوے سٹیشن ہیں جو براڈ گیج اور میٹر گیج سے دیگر اسٹیشنوں سے منسلک ہیں۔[29]

فضائی نقل و حمل

چودھری چرن سنگھ بین الاقوامی ہوائی اڈا

چودھری چرن سنگھ بین الاقوامی ہوائی اڈے کے ذریعے لکھنؤ نئی دہلی، پٹنہ، کولکاتا، ممبئی، بنگلور، احمد آباد، حیدرآباد، چینائی، گوہاٹی اور ملک کے دیگر بڑے شہروں سے براہ راست منسکک ہے۔

اس کے علاوہ یہاں سے بین الاقوامی پروازیں ابوظبی، دبئی، مسقط، شارجہ، سنگاپور، بینکاک، دمام اور جدہ جاتی ہیں۔[30]

میٹرو

لکھنؤ میٹرو اتر پردیش کے شہر لکھنؤ میں تعمیر کیا جانے والا کثیر نقل حمل (ماس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم) کا ایک نظام ہے۔ اس کی تعمیر کا آغاز27 ستمبر 2014ء کو ہوا۔[31]

سائکل سواری

لکھنؤ اتر پردیش کا سب سے زیادہ سائیکل دوستانہ شہروں میں سے ایک ہے۔ یہاں سائیکل سواری کے لیے خاص راستے موجود ہیں۔ ایمسٹرڈیم کی طرز پر اسے زیادہ سائیکل دوستانہ بنانے کے لیے نئی سائیکل راہیں شہر میں تعمیر کی جا رہی ہیں، جہاں سائیکل کرائے پر لینے کی سہولیات بھی موجود ہیں۔[32][33] 2015ء میں لکھنؤ میں لکھنؤ سائکلتھون (The Lucknow Cyclothon) نامی ایک قومی سطح سائیکلنگ ایونٹ کی میزبانی بھی کی۔[34]

فن تعمیر

رومی دروازہ

لکھنؤ کی عمارتیں مختلف طرز تعمیر کی ہیں جن میں برطانوی اور مغلیہ دور کی تعمیرات بہت شاندار ہیں۔ ان عمارتوں میں سے آدھی سے زیادہ شہر کے پرانے حصے میں واقع ہیں۔ اترپردیش کا محکمہ سیاحت مقبول یادگاروں کو سیاحوں کے لیے ایک "ثقافتی ورثہ واک" کے طور پر منظم کرتا ہے۔[35]

لکھنؤ کی اہم یادگار عمارتوں کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔

ثقافت

پان کی تھالی میں کتھا، چونا اور سپاری

لکھنؤ اپنی وراثت میں ملی ثقافت کو جدید طرز زندگی کے ساتھ بڑی خوبصورتی کے ساتھ ملائے ہوئے ہے۔ بھارت کے اہم شہروں میں گنے جانے والے لکھنؤ کی ثقافت میں جذبات کی گرماہٹ کے ساتھ اعلیٰ احساس اور محبت بھی شامل ہے۔ لکھنؤ کے معاشرے میں نوابوں کے وقت سے ہی پہلے آپ! والا انداز رچا بسا ہے۔ وقت کے ساتھ ہر طرف جدیدیت کا دور دورہ ہے تاہم اب بھی شہر کی آبادی کا ایک حصہ اپنی تہذیب کو سنبھالے ہوئے ہے۔ تہذیب یہاں دو بڑے مذاہب کے لوگوں کو ایک ثقافت سے باندھے ہوئے ہے۔ یہ ثقافت یہاں کے نوابوں کے دور سے چلی آ رہی ہے۔ لکھنوی پان یہاں کی ثقافت کا اٹوٹ حصہ ہے جس کے بغیر لکھنؤ نامکمل لگتا ہے۔

زبان اور شاعری

لکھنؤ میں ہندی اور اردو دونوں زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن اردو کو یہاں صدیوں سے خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ جب دہلی حالات اچھے نہ رہے تو بہت سے شاعروں نے لکھنؤ کا رخ کیا۔ تب سے اردو شاعری کے دو ٹھکانے ہو گئے، دہلی اور لکھنؤ۔ جبکہ دہلی صوفی شاعری اور لکھنؤ غزل، عیش و آرام اور عشقیہ شاعری کا مرکز بنا۔ نوابوں کے دورے میں اردو کی خصوصی نشو و نما ہوئی اور یہ بھارت کی تہذیب والی زبان کے طور پر ابھری۔ یہاں کے مشہور شاعروں میں حیدرعلی آتش، عامر مینائی، مرزا محمد ہادی رسوا، مصحفی، انشا، صفی لکھنوی، مير تقی میر شامل ہیں۔ لکھنؤ شیعہ ثقافت کے دنیا کے عظیم شہروں میں سے ایک ہے۔ میر انیس اور مرزا دبیر اردو مرثیہ گوئی کے لیے مشہور ہیں۔

رقص اور موسیقی

کتھک رقص

مشہور ہندوستانی رقص کتھک نے یہیں ترقی پائی۔ اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ کتھک کے بڑے پرستاروں میں سے تھے۔ لکھنؤ مشہور غزل گلوکاہ بیگم اختر کا بھی شہر رہا ہے۔ وہ غزل گائکی میں معروف تھیں اور اسے نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ لکھنؤ کی بھاتكھڈے موسیقی یونیورسٹی کا نام یہاں کے عظیم موسیقار پنڈت وشنو نارائن بھاتكھڈے کے نام پر رکھا ہوا ہے۔ سری لنکا، نیپال، بہت سے ایشیائی ممالک اور دنیا بھر سے طالبعلم یہاں رقص اور موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ لکھنؤ نے کئی گلوکار دیے ہیں جن میں سے نوشاد علی، طلعت محمود، انوپ جلوٹا اور بابا سہگل انتہائی اہم ہیں۔ لکھنؤ شہر برطانوی پاپ گلوکار كلف رچرڈ کا جائے پیدائش بھی ہے۔

فلم

جاوید اختر

لکھنؤ ہندی فلمی صنعت کا شروع سے ہی مرکز رہا ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ لکھنوی رابطے کے بغیر، بالی ووڈ کبھی اس بلندی پر نہیں آ پاتا جہاں وہ اب موجود ہے۔ اودھ سے بہت سکرپٹ مصنف اور نغمہ نگار ہیں، جیسے مجروح سلطان پوری، کیفی اعظمی، جاوید اختر، علی رضا، وجاہت مرزا (مدر انڈیا اور گنگا جمنا کے مصنف)، امرت لال ناگر، علی سردار جعفری اور کے پی سکسینہ جنہوں نے بھارتی فلم کو بلندی پر پہنچایا۔ لکھنؤ پر بہت سی مشہور فلمیں بنی ہیں جیسے ششی کپور کی جنون، مظفر علی کی امرا ؤ جان اور گمن، ستیہ جیت رائے کی شطرنج کے کھلاڑی اور اسماعیل مرچنٹ کی شیکسپیئر والا کی بھی جزوی شوٹنگ یہیں ہوئی تھی۔

بہو بیگم، محبوب کی مہندی، میرے حضور، چودھویں کا چاند، پاکیزہ، میں میری بیوی اور وہ، سحر، انور اور بہت سی ہندی فلمیں یا تو لکھنؤ میں بنی ہیں یا ان کا پس منظر لکھنؤ کا ہے۔ غدر فلم میں بھی پاکستان کے مناظر لکھنؤ میں فلمائے گئے ہیں۔ اس میں لال پل، لکھنؤ اور لا مارٹينير کالج کے مناظر ہیں۔

روایتی ملبوسات

گھاگرا

لکھنؤ اس گھاگروں لیے مشہور ہے۔ یہ خواتین کا ایک روایتی لباس ہے ابتدا اودھ کے نوابوں کے دور سے ہوئی۔[36]

چکن کی کڑھائی

چکن، یہاں کی کڑھائی کا بہترین نمونہ ہے اور لکھنوی زردوزی یہاں کی چھوٹی صنعت ہے جو کرتے اور ساڑیوں جیسے کپڑوں پر اپنا فن دکھاتے ہیں۔ اس صنعت کا زیادہ تر حصہ پرانے لکھنؤ کے چوک علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ یہاں کے بازار چکن کڑھائی کی دکانوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ اس ماہر اور مشہور کاریگروں میں استاد فیاض خاں اور حسن مرزا صاحب تھے۔

پکوان

اودھ کے علاقے کی اپنی ایک الگ خاص پہچان نوابی پکوان ہیں۔ اس میں مختلف طرح کی بریانی، کباب، قورما، نہاری، كلچے، شیر مال، زردہ، رومالی روٹی اور وركی پراٹھا اور روٹیاں وغیرہ، کاکوری کباب، گلاوٹی کباب، پتیلی کباب، بوٹی کباب، گھٹوا کباب اور شامی کباب اہم ہیں۔ شہر میں بہت سی جگہ یہ پکوان ملیں گے۔ یہ تمام طرح کے اور تمام بجٹ کے ہوں گے۔ جہاں ایک طرف 1805ء میں قائم کردہ رام آسرے حلوائی کی مکھن گلوری مشہور ہے، وہیں اکبری گیٹ پر ملنے والے حاجی مراد علی کے ٹنڈے کے کباب بھی کم مشہور نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر نوابی پكوانوں جیسے دمپخت، لچھے دار پیاز اور سبز چٹنی کے ساتھ سیخ کباب اور رومالی روٹی کا بھی جواب نہیں ہے۔ لکھنؤ کی چاٹ ہندوستان کی بہترین چاٹ میں سے ایک ہے اور کھانے کے آخر میں مشہور عالم لکھنؤ کے پان جن کا کوئی ثانی نہیں ہے۔

لکھنؤ میں روٹیوں کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں۔ ایسی ہی روٹیاں یہاں کے ایک پرانے بازار میں آج بھی ملتی ہیں، بلکہ یہ بازار روٹیوں کا بازار ہی ہے۔ اکبری گیٹ سے نکھاس چوکی کے پیچھے تک یہ بازار ہے، جہاں شیر مال، نان، خمیری روٹی، رومالی روٹی، كلچہ جیسی کئی دیگر طرح کی روٹیاں مل جائیں گی۔ پرانے لکھنؤ کے اس روٹی بازار میں مختلف قسم کی روٹیوں کی تقریباً 15 دکانیں ہیں جہاں صبح نو سے رات نو بجے تک گرم روٹی خریدی جا سکتی ہے۔ بہت سے پرانے نامی ہوٹل بھی اس گلی کے قریب ہیں، جہاں آپ کی من پسند روٹی کے ساتھ گوشت کے پکوان بھی ملتے ہیں۔

لکھنؤ کے پکوان

تہوار

لکھنؤ میں محرم کا جلوس

عام ہندوستانی تہوار مثلاً کرسمس، دیوالی، درگا پوجا، عید الفطر، عید الاضحی، ہولی، رکشا بندھن، دسہرہ [37] یہاں جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں۔ دیگر تہوار یا جلوسوں میں سے کچھ یہ ہیں:

لکھنؤ مہوتسو

لکھنؤ فیسٹیول ہر سال اتر پردیش

کے فن اور ثقافت کو ظاہر کرنے اور سیاحت کو فروغ دینے کے منظم کیا جاتا ہے۔[38][39]

لکھنؤ لٹریچر فیسٹیول

2013ء کے بعد یہ ہر سال نومبر کے مہینے میں منعقد کیا جانے والا ایک سالانہ ادبی میلا میں ہے۔[40]

محرم اور عاشورا

لکھنؤ اہل تشیع کا گڑھ ہے اور بھارت میں شیعہ ثقافت کے نمونے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ مسلمانوں اسلامی تقویم کے پہلے مہینے محرم اور عاشورا حسین ابن علی کی یاد میں مناتے ہیں۔[41]

چپ تعزیہ

اہل تشیع کے گیارہویں امام حسن بن علی عسکری کی وفات کے سوگ میں 8 ربیع الاول کو مذہبی جلوس کی صورت میں منایا جاتا ہے۔[42]

بڑا منگل

بڑا منگل یا ہنومان جینتی ایک تہوار ہے جو ہنومان کی پیدائش کی خوشی میں مئی کے مہینے میں پرانا مندر میں منایا جاتا ہے۔

معیار حیات

لکھنؤ کو ایل جی کارپوریشن اور آئی ایم آر بی انٹرنیشنل کے سروے کے مطابق چندی گڑھ کے بعد "بھارت کا دوسرا سب سے خوش شہر" قرار دیا گیا ہے۔ اس نئی دہلی، بنگلور اور چینائی سمیت بھارت کے دیگر میٹروپولیٹن علاقوں کے مقابلے میں لکھنؤ خوراک، ٹرانزٹ اور مجموعی طور پر شہری سکون میں بہتر پایا گیا ہے۔[43][44]

معیشت

ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز کیمپس، گومتی نگر

لکھنؤ شمالی بھارت کی ایک اہم مارکیٹ اور کمرشل شہر ہی نہیں، بلکہ مصنوعات اور خدمات کا ابھرتا ہوا مرکز بھی بنتا جا رہا ہے۔ اترپردیش ریاست کے دار الحکومت ہونے کی وجہ سے یہاں سرکاری اور نجی سیکٹر انٹرپرائز بہت زیادہ ہیں۔ لکھنؤ شہری ہم بستگی میں بڑی صنعتوں میں ایئروناٹکس، مشینی اوزار، کیمیکلز، فرنیچر اور چکن کڑھائی شامل ہیں۔[45]

لکھنؤ بھارت کے سب سے زیادہ خام ملکی پیداوار والی شہروں میں سے ایک ہے۔[46] لکھنؤ سافٹ ویئر اور آئی ٹی کا ایک بڑھتا ہوا آئی ٹی مرکز ہے اور شہر میں آئی ٹی کمپنیاں موجود ہیں۔ ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز گومتی نگر میں بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔[47] بہت سے مقامی آزاد مصدر ٹیکنالوجی کمپنیاں بھی موجود ہیں۔[48]

شہر میں ٹیکسٹائل کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے بھارتی حکومت 200 کروڑ روپے (2000 ملین روپے) مختص کیے ہیں تا کہ شہر میں ایک ٹیکسٹائل کے کاروبار کا کلسٹر قائم کیا جا سکے۔[49]

حکومت اور سیاست

اتر پردیش ودھان سبھا

حکومت اترپردیش کی نشست کے طور پر، لکھنؤ اترپردیش اسمبلی، الہ آباد ہائی کورٹ اور متعدد سرکاری محکموں اور ایجنسیوں کا مقام ہے۔[50]

1 مئی 1963ء کے بعد سے لکھنؤ بھارتی فوج کی سینٹرل کمانڈ کا ہیڈکوارٹر ہے۔ جبکہ اس سے پہلے یہ مشرقی کمانڈ کا ہیڈکوارٹر تھا۔[51]

شہر سے لوک سبھا (بھارتی پارلیمان) کے ساتھ ساتھ اترپردیش ودھان سبھا (ریاستی اسمبلی) کے لیے بھی ارکان سے منتخب ہوتے ہیں۔ لکھنؤ میں دو لوک سبھا حلقے لکھنؤ اور موہن لال گنج اور نو ودھان سبھا حلقے ہیں۔ 2008ء میں شہر میں 110 وارڈ تھے۔

وزارت شہری ہوابازی، حکومت ہند کے تحت بھارت کے ریلوے سیفٹی کمیشن کا ہیڈ آفس لکھنؤ میں واقع ہے۔[52]

تعلیم

لکھنؤ یونیورسٹی

لکھنؤ میں ملک کے بہت سے اعلیٰ تعلیمی اور تحقیقی ادارے موجود ہیں۔ ان میں سے کنگ جارج میڈیکل کالج اور بیربل ساہنی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اہم ہیں۔ لکھنؤ میں چھ جامعات ہیں:

اس کے علاوہ یہاں بہت سے اعلیٰ ثانوی تعلیمی ادارے، سرکاری اور نجی اسکول بھی موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ اہم سٹی مونٹیسری اسکول، لا مارٹنیری کالج، طے پوریا اسکول، كلون تالكے دارس کالج، ایما تھامسن اسکول، سینٹ فرانسس اسکول وغیرہ ہیں۔

ذرائع ابلاغ

لکھنؤ تاریخی طور پر صحافت کا ایک اہم مرکز رہا ہے۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا دوسری جنگ عظیم سے قبل شروع کیا جانے والا دی نیشنل ہیرالڈ لکھنؤ سے ہی شائع ہوتا تھا۔

شہر کے اہم انگریزی اخباروں میں دی ٹائمز آف انڈیا، ہندوستان ٹائمز، دی پائنیر اور انڈین ایکسپریس شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے روزنامے انگریزی، ہندی اور اردو زبانوں میں بھی شائع ہوتے ہیں۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا اور یونائیٹڈ نیوز آف انڈیا کے دفتر شہر میں موجود ہیں اور ملک کے تمام اہم اخباروں کے صحافی لکھنؤ میں موجود رہتے ہیں۔

ریڈیو

آل انڈیا ریڈیو کے ابتدائی اسٹیشنوں میں سے لکھنؤ میں قائم کیے گئے۔ یہاں میڈیم ویوز پر نشریات کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں ایف ایم نشریات بھی 2000ء میں شروع کی گئیں۔ شہر میں مندرجہ ذیل ریڈیو اسٹیشن چل رہے ہیں۔[53]

  • 91.1 میگا ہرٹز ریڈیو سٹی
  • 93.5 میگا ہرٹز ریڈ ایف ایم
  • 98.3 میگا ہرٹز ریڈیو مرچی
  • 100.7 میگا ہرٹز اے آئِ آر ایف ایم رین بو
  • 105.6 میگا ہرٹز گیانوانی ایجوکیشنل

انٹرنیٹ

شہر میں انٹرنیٹ کے لیے براڈ بینڈ انٹرنیٹ اور ویڈیو کانفرینسنگ کی سہولت دستیاب ہیں۔ گھریلو صارفین اور کارپوریٹ صارفین کے لیے اچھی رفتار کا براڈبینڈ انٹرنیٹ کنکشن دستیاب ہوتا ہے۔ شہر میں بہت سے انٹرنیٹ کیفے بھی موجود ہیں۔

کھیل

کے ڈی سنگھ بابو اسٹیڈیم، لکھنؤ

لکھنؤ بھارتی بیڈمنٹن ایسوسی ایشن کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ گومتی نگر میں واقع ہے۔ یہ 1934ء میں قائم کیا گیا تھا اور 1936ء سے ہندوستان میں قومی سطح کے ٹورنامنٹ کا انعقاد کراتا ہے۔ جونیئر سطح کے بیڈمنٹن کھلاڑیوں لکھنؤ میں ان کی تربیت کے بعد ا بنگلور بھیجا جاتا ہے۔[54][55]

دہائیوں سے لکھنؤ عظیم الشان شیش محل کرکٹ ٹورنامنٹ کی میزبانی کر رہا ہے۔ موجودہ دور میں کرکٹ، فٹ بال، بیڈمنٹن، گالف اور ہاکی شہر کے سب سے زیادہ مقبول کھیل ہیں۔ سید مودی گراں پری منعقدہ ایک بین الاقوامی بیڈمنٹن مقابلہ ہے۔

اہم کھیلوں کا مرکز کے ڈی سنگھ بابو اسٹیڈیم، لکھنؤ ہے۔ شہر کے دیگر اسٹیڈیموں میں دھیان چند آسٹروٹرف اسٹیڈیم، محمد شاہد سنٹیتھک ہاکی سٹیڈیم، ڈاکٹر اکھلیش داس گپتا اسٹیڈیم اور بابو بنارسی داس یو پی بیڈمنٹن اکیڈمی شامل ہیں۔[56]

سیاحتی اور تفریحی مقامات

بڑا امام باڑا
چھوٹا امام باڑا

شہر اور ارد گرد بہت قابل دید مقامات موجود ہیں۔ ان میں تاریخی مقامات، باغ، تفریح مقامات اور شاپنگ مال وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں کئی امام باڑے ہیں، ان میں بڑا امام باڑہ اور چھوٹا امام باڑا کافی اہم ہیں۔ مشہور بڑے امام باڑے کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت ہے۔ اس امام باڑے کی تعمیر نواب آصف الدولہ نے 1784ء میں کرواائی تھی۔ یہ بہت بڑا گنبد نما ہال ہے جو 50 میٹر طویل اور 15 میٹر بلند ہے۔ یہاں ایک منفرد بھول بھلیاں بھی موجود ہیں۔ اس امام باڑے میں ایکآصفی مسجد بھی ہے۔ مسجد کے احاطے کے صحن میں دو اونچے مينار ہیں۔ اس کے علاوہ چھوٹا امام باڑا جس کا اصلی نام حسین آباد امام باڑا ہے جسے 1838ء میں ریاست اودھ کے تیسرے نواب محمد علی شاہ نے تعمیر کروایا تھا۔

سعادت علی خان کا مقبرہ بیگم حضرت محل پارک کے قریب واقع ہے۔ اس کے ساتھ ہی خورشید زیدی کا مقبرہ بھی ہے۔ یہ مقبرہ اودھ فن تعمیر کا شاندار نمونہ ہے۔ مقبرہ کی شاندار چھت اور گنبد اس کی خاصیت ہیں۔ بڑے امام باڑے کے باہر ہی رومی دروازہ ہے۔ جامع مسجد حسین آباد امام باڑے کے مغربی سمت واقع ہے۔ اس مسجد کی تعمیر محمد شاہ نے شروع کی لیکن 1840ء میں اس کی موت کے بعد اس کی بیوی نے اسے مکمل کروایا۔ موتی محل دریائے گومتی کے کنارے پر بنی تین عمارتوں میں سے اہم ہے۔ اسے سعادت علی خاں نے بنوایا تھا۔

لکھنؤ ریزیڈینسی کی باقیات برطانوی دور کی واضح تصویر دکھاتے ہیں۔ جنگ آزادی ہند 1857ء کے وقت یہ ریزیڈینسی برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایجنٹ کے گھر تھا۔ یہ تاریخی عمارت حضرت گنج کے علاقے میں گورنر کی رہائش گاہ کے قریب ہے۔ لکھنؤ کا گھنٹہ گھر بھارت کا سب سے گھنٹہ گھر ہے۔

کوکریل فارست ایک پکنک کی جگہ ہے۔ یہاں مگر مچھوں اور کچھوں کی ایک محفوظ پناہ گاہ ہے۔ بنارسی باغ میں واقع ایک چڑیا گھر ہے، جس کا اصل نام پرنس آف ویلز وائلڈ لائف ریزرو ہے۔ مقامی لوگ اس چڑیا گھر کو بنارسی باغ کہتے ہیں۔ اس باغ میں ایک عجائب گھر بھی ہے۔

ان کے علاوہ رومی دروازہ، چھتر منزل، ہاتھی پارک، بدھ پارک، نیبو پارک میرین ڈرائیو اور اندرا گاندھی برج بھی قابل دید ہیں۔

اہم تاریخی مقامات کی فہرست

رومی دروازہ

حیوانیہ اور نباتیہ

لکھنؤ میں جنگل کا علاقہ 4.66 فیصد ہے۔ لکھنؤ روایتی طور پر لکھنوی آم (خاص طور پر دسہری آم)، خربوزہ اور قریبی علاقوں میں اگائے جا رہے اناج کی منڈی رہا ہے۔ یہاں کے مشہور ملیح آبادی دسہری آم کو جغرافیائی اشارے کا خصوصی قانونی درجہ حاصل ہو چکا ہے۔ ایک مختلف ذائقہ اور مہک کی وجہ دسہری آم کی دنیا بھر میں خاص پہچان بنی ہوئی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملیح آبادی دسہری آم تقریباً 6،253 ہیکٹر پر اگائے جاتے ہیں اور ان کی پیداوار 9 5،6583 9 ٹن ہے۔

گنے کے کھیت اور چینی کی ملیں بھی قریب ہی واقع ہیں۔ ان کی وجہ موہن میکنس بريوری جیسی کمپنیاں یہاں اپنی ملیں لگانے کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ موہن میکنس کا یونٹ 1855 میں قائم ہوا تھا۔ یہ ایشیا کی پہلی تجارتی بريوری تھی۔[57]

لکھنؤ چڑیا گھر ملک میں سب سے قدیم چڑیا گھروں میں سے ایک ہے جسے 1921ء میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ ایشیا اور دیگر براعظموں سے جانوروں کے ایک کثیر تعداد موجود ہے۔ شہر بھی ایک نباتیات باغ بھی ہے۔[58] اس میں اترپردیش اسٹیٹ میوزیم بھی واقع ہے۔[59]

لکھنؤ کے جڑواں شہر

ملک شہر ریاست / علاقہ
آسٹریلیا کا پرچم آسٹریلیا برسبین کوئنزلینڈ
کینیڈا کا پرچم کینیڈا مانٹریال کیوبیک

قابل ذکر شخصیات

فنون اور ثقافت

صوفی بزرگ

صوفی نظام الدین قادری گرداسپوری

شاعر، مصنفین اور صحافی

مير تقی میر

سیاست

بیگم حضرت محل

کھیل

مزید دیکھیے

بیرونی

مزید پڑھیے

  • Poorno Chunder Mookherji (1883)۔ The Pictorial Lucknow۔ P.C. Mookherji۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 فروری 2017 
  • Veena Talwar Oldenburg (1984)۔ The Making of Colonial Lucknow, 1856–1877۔ Princeton University Press۔ ISBN 978-0-691-06590-8۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 فروری 2017 
  • Violette Graff (13 نومبر 1997)۔ Lucknow : Memories of a City۔ Oxford University Press۔ ISBN 978-0-19-563790-8۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 فروری 2017 
  • Amaresh Misra (1998)۔ Lucknow, Fire of Grace: The Story of its Renaissance, Revolution and the Aftermath۔ HarperCollins Publishers India۔ ISBN 978-81-7223-288-7۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 فروری 2017 
  • Rosie Llewellyn-Jones، Ravi Kapoor (2003)۔ Lucknow, Then and Now۔ Marg Publications۔ ISBN 978-81-85026-61-9۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 فروری 2017 
  • Rosie Llewellyn-Jones (2006)۔ Lucknow: City of Illusion۔ Prestel Verlag۔ ISBN 978-3-7913-3130-0۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 فروری 2017 
  • Shamim A. Aarzoo (2014)۔ Discovering Lucknow۔ Lucknow Society۔ ISBN 978-81-928747-0-8۔ ASIN 8192874702 

حوالہ جات

  1. "Lucknow Pin Code list, Population density ،literacy rate and total Area with census 2011 details"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جولائی 2014 
  2. "Cities having population 1 lakh and above, Census 2011" (PDF)۔ The Registrar General & Census Commissioner, India۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جون 2014 
  3. "Population of Uttar Pradesh 2015"۔ IndiaOnlinePages۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 دسمبر 2015 
  4. "The top 15 Indian cities by GDP | India's top 15 cities with the highest GDP"۔ Yahoo! Finance۔ 28 ستمبر 2012۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اگست 2014 
  5. City Mayors: World's fastest growing urban areas (1)
  6. Philip Lutgendorf Professor of Hindi and Modern Indian Studies University of Iowa (13 دسمبر 2006)۔ Hanuman's Tale : The Messages of a Divine Monkey: The Messages of a Divine Monkey۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 245۔ ISBN 978-0-19-804220-4۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 فروری 2017 
  7. Veena Talwar Oldenburg (14 جولائی 2014)۔ The Making of Colonial Lucknow, 1856–1877۔ Princeton University Press۔ صفحہ: 6۔ ISBN 978-1-4008-5630-5۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 فروری 2017 
  8. P. Nas (1993)۔ Urban Symbolism۔ BRILL۔ صفحہ: 329۔ ISBN 90-04-09855-0۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 فروری 2017 
  9. Richard Stephen Charnock (1859)۔ Local Etymology: A Derivative Dictionary of Geographical Names۔ Houlston and Wright۔ صفحہ: 167–۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 فروری 2017 
  10. "Faizabad, Town, India"۔ Bartleby۔ The Columbia Encyclopaedia۔ 2 جون 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2014 
  11. "Introduction to Lucknow"۔ Lucknow۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اگست 2014 
  12. "history"۔ Lucknow.nic.in۔ 7 اپریل 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مارچ 2010 
  13. "Lucknow City"۔ Laxys۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اپریل 2012 
  14. Rana Safvi (15 جون 2014)۔ "Understanding Ganga-Jamuni Tehzeeb: How diverse is the "Indian multiculturalism""۔ DNA India۔ Mumbai: DNA Webdesk۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2014 
  15. "Shuja Ud Daula"۔ Lucknow۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اگست 2014 
  16. "Asaf Ud Daula"۔ Lucknow۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اگست 2014 
  17. "UNDP report" (PDF)۔ 22 جون 2006 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 ستمبر 2006 
  18. "Lucknow Minimum Temperature"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 29 Dec 2012۔ 01 جنوری 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 فروری 2017 
  19. "Lucknow Climate & Temperature"۔ India Meteorological Department۔ 10 دسمبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2015 
  20. "Ever recorded Maximum and minimum temperatures up to 2010" (PDF)۔ India Meteorological Department۔ مؤرشف من الأصل في 21 مئی 2013۔ اخذ شدہ بتاریخ اپریل 17, 2015 
  21. "Historical Census of India"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 فروری 2017 
  22. "District Census Handbook – Lucknow" (PDF)۔ Census of India۔ The Registrar General & Census Commissioner۔ صفحہ: 28۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 جون 2016 
  23. "C-1 Population By Religious Community"۔ Government of India, Ministry of Home Affairs۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2016  On this page, select "Uttar Pradesh" from the download menu. "Lucknow (M.Corp.)" is at line 890 of the excel file.
  24. "Lucknow pips Kanpur, emerges as most populous city in UP"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 6 اپریل 2011۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اپریل 2014 
  25. "National Highways of India"۔ Newkerala۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2014 
  26. "Study of Lucknow City (Final Report)" (PDF)۔ Teerthankar Mahaveer University۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اگست 2014 
  27. "Depots and Bus Stations"۔ UPSRTC۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2014 
  28. "Inter State Bus Terminal opened"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2014  الوسيط |archiveurl= و |archive-url= تكرر أكثر من مرة (معاونت); الوسيط |archivedate= و |archive-date= تكرر أكثر من مرة (معاونت);
  29. Lucknow Charbagh railway station#Railway stations in Lucknow
  30. "Chaudhary Charan Singh International Airport"۔ World Airport Codes۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اگست 2014 
  31. "Lucknow Metro construction begins, Akhilesh fulfils promise to father"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 28 ستمبر 2014۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 اکتوبر 2014 
  32. "Lucknow to get Amsterdam-inspired cycling tracks"۔ Times Of India۔ 2014-06-11۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 دسمبر 2014 
  33. "Noida, Agra and Lucknow to be cycle-friendly"۔ The Hindu۔ 2014-08-13۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 دسمبر 2014 
  34. "City hosts, cheers national level cycling event – دی ٹائمز آف انڈیا"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2015  الوسيط |archiveurl= و |archive-url= تكرر أكثر من مرة (معاونت); الوسيط |archivedate= و |archive-date= تكرر أكثر من مرة (معاونت)
  35. "::Uttar Pradesh Tourism, Official Website of Government of Uttar Pradesh, India ::"۔ UP Tourism۔ 20 جون 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اگست 2014 
  36. Yojana (بزبان انگریزی)۔ Publications Division, Ministry of Information and Broadcasting۔ 1962-01-01۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 فروری 2017 
  37. "Festivals in Lucknow"۔ Lucknow۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2014 
  38. "Lucknow Festival"۔ Incredible India۔ 03 ستمبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2014 
  39. "About Mahotsava"۔ Lucknow Mahotsav۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اگست 2014 
  40. "Lucknow Literature Festival™"۔ Lucknow Literature Festival™۔ 3 اکتوبر 2016  [مردہ ربط]
  41. "The Third Imam, Husayn Ibn 'Ali"۔ Al-Islam۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اگست 2014 
  42. "Chup Tazia" procession in Lucknow: A religious and cultural tradition"۔ twocircles۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2014 
  43. "Happiest city survey: What makes Lucknow India's second happiest city? – دی ٹائمز آف انڈیا"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جون 2015 
  44. "Lucknow ahead of Delhi, other metros on happiness quotient – دی ٹائمز آف انڈیا"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جون 2015 
  45. "Economical Report Of Lucknow" (PDF)۔ Department of Micro, Small and Medium Enterprises۔ Government of India۔ 19 مارچ 2015 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2014 
  46. "The top 15 Indian cities by GDP | India's top 15 cities with the highest GDP – Yahoo India Finance"۔ In.finance.yahoo.com۔ 2012-09-28۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جولا‎ئی 2015 
  47. "TCS News & Events: Press Release : Tata Consultancy Services Expands in Lucknow; New Facility Inaugurated"۔ Tata Consultancy Services۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 اگست 2014 
  48. Diksha P Gupta۔ ""We are where we are because of open source technology" – LINUX For You"۔ Linux For U۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 اگست 2014 
  49. PTI 10 Jul 2014, 12.47PM IST (10 جولائی 2014)۔ "Budget 2014: Rs 200 crore allocated to set up six textiles clusters – Economic Times"۔ Economic Times۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 اگست 2014 
  50. "List of Central Government Departments"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2014 
  51. "Central Command Raising Day concludes"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 3 مئی 2009۔ 05 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جون 2013 
  52. "Commission of Railway Safety۔" (Archive) Ministry of Civil Aviation۔ Retrieved 19 فروری 2012. "Ashok Marg, NE Railway compound, Lucknow- 226001." آرکائیو شدہ 29 اکتوبر 2012 بذریعہ وے بیک مشین
  53. India: FM Radio Stations
  54. Your Here۔ "The Official website of Badminton Association of India | BadmintonIndia.org"۔ badmintonindia.org۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2015 
  55. "Badminton Association of India Announce Rewards for Saina, Kashyap"۔ این ڈی ٹی وی۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا۔ 17 مارچ 2015۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 جولائی 2015 
  56. "DR Akhilesh Das Gupta Stadium, Faizabad Road, Lucknow | Outdoor Stadiums in Faizabad Road, Lucknow | buy tickets for venues"۔ Buzzintown۔ 23 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اگست 2014 
  57. Cheers! | Life and style | The Guardian
  58. "Botanic Garden Sikandar Bagh"۔ Visit Lucknow۔ Google Sites۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2014 
  59. Lonely Planet۔ "State Museum – Lonely Planet"۔ Lonely Planet۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2015