اسد امانت علی خان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اسد امانت علی خان
معلومات شخصیت
پیدائش 25 ستمبر 1955(1955-09-25)ء
لاہور، برطانوی ہندوستان (موجودہ پاکستان)
وفات اپریل 8، 2007(2007-04-08)ء
لندن، برطانیہ
وجہ وفات دورۂ قلب  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن مومن پورہ قبرستان  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قومیت پاکستان کا پرچمپاکستانی
عملی زندگی
پیشہ گلو کار  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ شہرت گلوکاری
کارہائے نمایاں
  • انشا جی اٹھو اب کوچ کرو
  • گھر واپس جب آؤ گے تم
  • کل چودھویں کی رات تھی
  • عمراں لنگھیاں پباں بھار
صنف کلاسیکی، غزل، نیم کلاسیکی، گیت، ٹھمری
اعزازات
صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

استاد اسد امانت علی خان (انگریزی: Asad Amanat Ali Khan)، (پیدائش: 25 ستمبر، 1955ء - وفات: 8 اپریل، 2007ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے پٹیالہ گھرانے کے نامور کلاسیکی گلوکار تھے۔

حالات زندگی[ترمیم]

اسد امانت علی خان 25 ستمبر، 1955ء کو لاہور، برطانوی ہندوستان (موجودہ پاکستان) میں پیدا ہوئے[1]۔ اسد امانت علی خان کا تعلق موسیقی کے مشہور پٹیالہ گھرانے سے تھا۔ انھوں نے موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد امانت علی خان اور دادااستاد اختر حسین خان سے حاصل کی۔ اسد امانت علی خان نے اپنے چچا استاد حامد علی خان کے ساتھ اپنی فنی زندگی کا آغاز کیا اور ان دونوں کی جوڑی نے کلاسیکی گائیکی کو ایک نئی جہت دی۔ 1974ء میں استاد امانت علی خان کی اچانک وفات کے بعد اسد امانت علی خان نے ان کے گائے ہوئے خوب صورت نغموں خصوصاً انشا جی اٹھو اب کوچ کرو سے اپنی شہرت کے سفر کا آغاز کیا۔ انھوں نے کلاسیکل، نیم کلاسیکل، گیت، غزلیں اور فلمی گانے گائے جو اپنے دلکشی اور سریلے پن کی وجہ سے زبان زد عام ہوئے۔ انھوں نے جن فلموں کو اپنی گائیکی سے سجایاان میں شمع محبت، سہیلی، انتخاب، شیشے کا گھر، زندگی، ابھی تو میں جوان ہوں ، ترانہ، آئی لو یو اور آندھی اور طوفان کے نام شامل ہیں۔ اسد امانت علی ایک بہت اچھے سوز خواں بھی تھے اور خصوصاً میر مونس لکھنوی کا سلام مجرئی خلق میں ان آنکھوں نے کیا کیا دیکھا پڑھنے میں اختصاص رکھتے تھے۔[2]

اعزازات[ترمیم]

حکومت پاکستان نے استاد اسد امانت علی خان کو ان کی فنی خدمات کے صلہ میں 2007ء کو صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔[2]

وفات[ترمیم]

اسد امانت علی خان 8 اپریل، 2007ء کو لندن، برطانیہ میں حرکت قلب بند ہونے سے وفات پاگئے۔ وہ لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔[1][2]

حوالہ جات[ترمیم]