مندرجات کا رخ کریں

اڈيشا

متناسقات: 20°16′N 85°49′E / 20.27°N 85.82°E / 20.27; 85.82
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ریاست
سرکاری نام
ہر سطر دائیں سے بائیں: کونارک سوریا مندر، جگن ناتھ مندر، دیومالی، راورکیلا اسٹیل پلانٹ، مہاندی، سملی پال نیشنل پارک، چیلیکا جھیل، رتناگری، سرنگوں بملیشور مندر، سِشوپال گڑھ
ترانہ: بندے اتکلہ جنانی
(مجھے تم سے پیار ہے، اے ماں اتکل!)
Location of اڈيشا
متناسقات (بھوبنیشور): 20°16′N 85°49′E / 20.27°N 85.82°E / 20.27; 85.82
ملک بھارت
ریاست1 اپریل 1936؛ 88 سال قبل (1936-04-01)
(یوم اڈیشا)
دار الحکومت
سب سے بڑا شہر
بھوبنیشور[2]
اضلاع30
حکومت
 • مجلسحکومت اڈیشا
 • گورنررگھوور داس
 • وزیر اعلیموہن چرن مانجھی (بی جے پی)
 • مقننہیک ایوانی (147 نشستیں)
 • پارلیمانی حلقہلوک سبھا (21 نشستیں)
راجیہ سبھا (10 نشستیں)
 • ہائی کورٹاڈیشا ہائی کورٹ
رقبہ
 • کل155,707 کلومیٹر2 (60,119 میل مربع)
رقبہ درجہ8 ویں
بلندی[3]900 میل (3,000 فٹ)
بلند ترین  پیمائش (دیومالی[4])1,672 میل (5,486 فٹ)
پست ترین  پیمائش (خلیج بنگال)−1 میل (−3 فٹ)
آبادی (2011ء)
 • کل41,974,218[1]
 • درجہ11ویں
نام آبادیاڈیا
خام ملکی پیداوار (جی ڈی پی) (2019–20)[5]
 • کل533,822 کروڑ (امریکی $75 بلین)
 • فی کس116,614 (امریکی $1,600)
منطقۂ وقتبھارتی معیاری وقت (آئی ایس ٹی) (UTC+05:30)
آیزو 3166 رمزآیزو 3166-2:IN
ایچ ڈی آئی (2018ء)Increase 0.606[6]
درمیانہ · 32واں
شرح خواندگی73.45%[7]
سرکاری زبانانگریزی، اڈیہ[8]
ویب سائٹwww.odisha.gov.in

اڈیشا (انگریزی: Odisha،[9] مقامی: [oɽiˈsaː] ( سنیے)، (سابق نام: اڑیسہ [10]) بھارت کی ایک ریاست، جو مشرقی بھارت میں واقع ہے۔ یہ رقبہ کے لحاظ سے بھارت کی آٹھویں اور آبادی کے لحاظ سے گیارھویں بڑی ریاست ہے۔ نیز اس ریاست میں بھارت کے درج فہرست قبائل کی تیسری بڑی آبادی ہے۔[11] اس کی سرحدیں شمال میں مغربی بنگال کے بعض حصوں اور جھارکھنڈ سے، مغرب میں چھتیس گڑھ سے اور جنوب میں آندھرا پردیش سے ملتی ہیں۔ اڈیشا کی ساحلی پٹی خلیج بنگال پر 485 کلومیٹر (1,591,000 فٹ) طویل ہے۔[12] اس علاقہ کو اتکلہ یا اتکل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور بھارت کے قومی ترانہ جن گن من میں اس کا ذکر ملتا ہے۔[13] اڈیشا کی زبان اڈیہ ہے جو بھارت کی کلاسیکی زبانوں میں سے ایک ہے۔[14]

کلنگ کی قدیم سلطنت – جس پر موریا شہنشاہ اشوک نے حملہ کیا تھا (اور بعد میں بادشاہ کھارویلا نے اسے دوبارہ حاصل کر لیا تھا) – 261 قبل مسیح میں کلنگا جنگ کا نتیجہ تھی جو دور جدید کے اڈیشا کی سرحدوں سے متصل ہے۔[15] بھارت کی برطانوی حکومت نے اڈیشا کی نئی سرحدوں کی حدبندی اس وقت کی، جب یکم اپریل 1936ء کو صوبہ اڑیسہ کا قیام عمل میں آیا، اس میں اڈیہ بولنے والے صوبجات بہار و اڑیسہ کے اضلاع شامل تھے۔[15] اسی بنا پر یہاں یکم اپریل کا دن اُتکلہ دیبسہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔[16] کٹک کو اننتھ ورمن چوڈا گنگا نے ت 1135ء میں اس خطہ کا دار الحکومت بنایا تھا،[17] جس کے بعد 1948ء تک انگریزوں کے دور میں یہ شہر بہت سارے حکمرانوں کے دار الحکومت کے طور پر استعمال ہوتا رہا اور بعد ازاں بھونیشور اڈیشا کا دار الحکومت بن گیا۔[18] اڈیشا کی معیشت ؛ مجموعی ملکی پیداوار میں 5.33₹ لاکھ کروڑ (75$ ارب امریکی ڈالر ) کی ہے اور یوں معیشت میں؛ بھارت کی سولھویں سب سے بڑی ریاست ہے اور فی کس خام ملکی پیداوار 116,614₹ (1,600 ارب امریکی ڈالر) ہے۔[5] (2018ء) کے حساب سے انسانی ترقیاتی اشاریہ میں اڈیشا بتیسویں نمبر پر ہے۔ [19]

اشتقاقیات

[ترمیم]

لفظ اڈیشا (ଓଡ଼ିଶା) قدیم پراکرت لفظ "اوڈا وِسَیا" سے ماخوذ ہے جیسا کہ راجیندر چولا اول کے تروملائی لکھاوٹ میں ہے، جس کی تاریخ 1025ء ہے۔ [20] سارلا داس؛ جنھوں نے 15 ویں صدی میں مہابھارت کا اڈیہ زبان میں ترجمہ کیا تھا، نے اس خطہ اوڈر راشٹر کو اڈیشا کہا ہے۔ پوری میں مندروں کی دیواروں پر گجاپتی سلطنت (67-1435ء) کے کپیلیندر دیو کے نقشے؛ اس خطہ کو اڈیشا یا اڈیشا راجیہ کہتے ہیں۔ [21]

2011ء میں ریاست کا نام اڑیسہ سے تبدیل کرکے اڈیشا کر دیا گیا تھا اور اس کی زبان کا نام اڑیا سے اڈیا کر دیا گیا تھا۔ اڑیسہ نام کی تبدیلی بل 2010ء اور پارلیمنٹ میں آئینى (113 ویں ترمیم) بل 2010ء کی منظوری سے ایک مختصر بحث و مباحثہ کے بعد ایوانِ زیریں لوک سبھا نے 9 نومبر 2010ء کو بل اور ترمیم منظور کی۔ [22] 24 مارچ 2011ء کو پارلیمان کے ايوانِ بالا راجیہ سبھا نے بھی اس بل اور ترمیم کو منظور کیا۔ [23] نام کی تبدیلی ہندی کے سابق نام उड़ीसा اور انگریزی کے سابق نام Orissa کو اڈیہ ہجہ اور اس کے تلفظ کے مطابق اڈیشا Odisha کرنے کے لیے کی گئی تھی۔[24]

تاریخ

[ترمیم]
لنگ راج مندر کو سوما ومشی مہاراج ججتی کیشری نے تعمیر کروایا تھا

خطہ میں مختلف مقامات پر ابتدائی قدیم سنگی دور سے پہلے کے ملنے والے اچیلین ادوات دریافت ہوئے ہیں، جس سے انسانوں کے ذریعہ ابتدائی آباد کاری کا اشارہ ملتا ہے۔ [25] کلنگ کا ذکر قدیم متون جیسے مہابھارت، وایو پران اور مہا گووند ستنت میں کیا گیا ہے۔ [26][27] مہا بھارت میں اڈیشا کے سابر قوم کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔ [28][29] بودھیانوں نے کلنگ کا تذکرہ کیا ہے؛ کیوں کہ ابھی تک وہ ویدک روایات سے متاثر نہیں ہوا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں زیادہ تر قبائلی روایات پر عمل کیا جاتا ہے۔[30]

اودے گری پہاڑیوں میں واقع ہاتھی گومپھا۔ اس کی تعمیر 150 ق م ہوئی تھی
جنگ کلنگ کی یاد میں اسی مقام پر دھولی میں شانتی استوپ تعمیر کیا گیا۔ یہ جنگ 206 ق م واقع ہوئی تھی

موریا خاندان کے اشوک نے 261 قبل مسیح میں خونی جنگ کلنگ میں کلنگ کو فتح کیا،[31] جب کہ اس کے دور حکومت کا آٹھواں سال تھا۔[32] اس کی اپنے فرامین کے مطابق؛ اس جنگ میں تقریباً ایک لاکھ افراد مارے گئے، ڈیڑھ لاکھ پکڑے گئے اور مزید لوگ متاثر ہوئے تھے۔[31] کہا جاتا ہے کہ جنگ کے نتیجہ میں ہونے والی خوں ریزی اور مصائب نے اشوکا کو گہرا متاثر کیا۔ وہ ایک امن پسند ہو گیا اور بدھ مت میں مذہب تبدیل کرلی۔[32][33]

تقریباً 150 قبل مسیح میں شہنشاہ کھارویلا نے، جو ممکنہ طور پر باختر کے ڈیمیٹریس اول کا ہم عصر تھا،[34] برصغیر پاک و ہند کا ایک بڑا حصہ فتح کر لیا۔ کھارویلا ایک جین حکمران تھا۔ انھوں نے اودے گری پہاڑی کے اوپر مٹھ بھی تعمیر کی۔[35] اس کے بعد اس علاقے پر دیگر بادشاہوں، جیسے سمدر گپت اور ششانک کی حکومت تھی۔[36] [37] یہ ہرش کی سلطنت کا بھی ایک حصہ تھا۔[38]

اڈیشا کا شہر برہم پور چوتھی صدی عیسوی کے اختتامی برسوں کے دوران میں پوراواؤں کا دار الحکومت رہا تھا۔ تقریباً تیسری صدی عیسوی میں پورا واس کے بارے میں کچھ بھی نہیں سنا گیا؛ کیوں کہ یودھیا جمہوریہ نے ان کا قبضہ کر لیا تھا اور اس کے نتیجے میں وہ موریاؤں کے سامنے پیش ہو گئے تھے۔ چوتھی صدی عیسوی کے اختتام پر ہی انھوں نے تقریباً 700 سالوں کے بعد برہم پور میں شاہی حکومت قائم کی۔

بعد میں سوماومشی خاندان کے بادشاہوں نے اس خطہ کو متحد کرنا شروع کیا۔ یایاٹی دوم کے دور تک تقریباً 1025 عیسوی میں انھوں نے اس خطہ کو ایک ہی ریاست میں ضم کیا تھا۔ یایاٹی دوم نے بھوبنیشور میں لنگ راج مندر تعمیر کیا تھا۔[15] ان کی جگہ مشرقی گنگا خاندان نے لے لی۔ اس خاندان کے قابل ذکر حکمران اننتھ ورمن چوڈا گنگا تھا، جس نے پوری میں (تقریباً سنہ 1135ء) میں موجودہ جگن ناتھ مندر اور نرسنگھا دیو اول کی (تقریباً 1250ء میں) تعمیر کردہ کونارک مندر دوبارہ تعمیر کیے تھے۔[39][40]

مشرقی گنگا خاندان کے بعد گجاپتی سلطنت آئی، جس نے 1568ء تک اس خطہ کے شاہی بنگالہ میں انضمام کے خلاف مزاحمت کی؛ یہاں تک کہ اس کو شاہی بنگالہ نے فتح کر لیا۔[41] مکند دیو جسے کلنگ کا آخری آزاد بادشاہ سمجھا جاتا ہے، شکست کھا گیا اور ایک باغی رام چندر بھنج کی لڑائی میں مارا گیا۔ خود رام چندر بھنج کو بایزید خان کرانی نے قتل کیا تھا۔[42] 1591ء میں بہار کے اس وقت کے گورنر مان سنگھ اول نے بنگال کے کرانیوں سے اڈیشا لینے کے لیے ایک فوج کی قیادت کی۔ وہ معاہدے پر راضی ہو گئے؛ کیوں کہ ان کے رہنما قطلو خان ​​لوہانی کا حال ہی میں انتقال ہو گیا تھا۔ لیکن پھر انھوں نے پوری کے ہیکل قصبہ پر حملہ کرکے معاہدہ توڑا۔ مان سنگھ اول کی 1592ء میں واپسی ہوئی اور اس نے دوبارہ اس خطے کو پر سکون بنایا۔[43]

1751ء میں نواب بنگال علی وردی خان نے اس علاقہ کو مرہٹہ سلطنت کے حوالے کر دیا۔ [15]

1760ء تک دوسری کارناٹِک جنگ کے نتیجہ میں برطانویوں نے اڈیشا کے جنوبی ساحلوں پر مشتمل شمالی حلقوں پر قبضہ کر لیا تھا اور آہستہ آہستہ انھیں مدراس پریزیڈنسی میں شامل کر لیا تھا۔[44] 1803ء میں انگریزوں نے دوسری اینگلو مراٹھا دوسری اینگلو مرہٹہ جنگ کے دوران اڈیشا کے پوری-کٹک خطے سے مرہٹوں کو بے دخل کر دیا۔ اڈیشا کے شمالی اور مغربی اضلاع کو بنگال پریزیڈنسی میں شامل کیا گیا۔[45]

1866ء میں اڈیشا کی قحط سالی کے نتیجہ میں 10 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔[46] اس کے بعد بڑے پیمانہ پر آبپاشی کے منصوبے شروع کیے گئے۔[47] 1903ء میں اڈیہ بولنے والے علاقوں کو ایک ریاست میں متحد کرنے کے مطالبہ میں اتکل سمیلنی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی تھی۔[48] 1 اپریل (بقول دیگر: 1 اگست[49]) 1912ء کو صوبہ بہار اور اڑیسہ تشکیل پایا۔[50] یکم اپریل 1936ء کو صوبجات بہار و اڑیسہ کو الگ الگ دو صوبوں میں تقسیم کیا گیا۔[51]

اڑیسہ کا نیا صوبہ؛ بھارت میں انگریزوں کی حکمرانی کے دوران؛ لسانی بنیادوں پر معرض وجود میں آیا، سر جون آسٹن ہوبیک پہلے گورنر کے طور پر مقرر کیے گئے۔[51][52] تحریک آزادی ہند کے بعد 15 اگست 1947ء کو 27 نوابی ریاستوں نے (جو اس وقت اڈیشا کے الگ الگ اضلاع ہیں) اڈیشا میں شامل ہونے کے لیے اس دستاویز پر دستخط کیے۔[53] مشرقی ریاستوں کا اتحاد کے ٹوٹنے کے بعد 1948ء میں نوابی ریاستوں کی ایک جماعت اڈیشا کی سب سے بڑی معاون ریاستیں؛ اڈیشا میں شامل ہو گئیں۔[54]

جغرافیہ

[ترمیم]
کٹک کے نزدیک دریائے مہاندی

اڈیشا میں 17.780 اور 22.730 عرض بلد اور 81.37 اور 87.53 طول بلد کے درمیان ہے۔ ریاست کا کل رقبہ 155،707 (ایک لاکھ پچپن ہزار، سات سو سات) مربع کلومیٹر ہے، جو بھارت کے کل رقبہ کا 4.87 فی صد ہے اور اس ریاست میں 450 کلومیٹر کا ساحل ہے۔[55] ریاست کے مشرقی حصہ میں ساحلی پٹی ہے۔ یہ شمال میں دریائے سبرنا ریکھا سے لے کر جنوب میں دریائے رشیکولیا تک پھیلا ہوا ہے۔ چیلیکا جھیل؛ ساحلی میدانی علاقوں کا ایک حصہ ہے۔ میدانی علاقے خلیج بنگال میں بہنے والے چھ بڑی دریاؤں؛ سبرنا ریکھا، بدھ بلنگا، بیترنی، برہمنی، مہاندی اور رشیکولیا کے ذریعہ جمع ہونے والی کیچڑوں سے بھرے ہوتے ہیں۔[55] سینٹرل رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سی آر آر آئی)؛ جو ادارہ برائے خوراک و زراعت سے تسلیم شدہ رائس جین بینک اور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ہے، کٹک میں مہاندی کے کنارے پر واقع ہے۔[56] اڈیشا میں پوری اور بھدرک کے مابین؛ سمندر کا تھوڑا سا پھیلا ہوا حصہ نکلتا ہے، جس سے (سی آر آر آئی کو) کسی بھی طوفانی سرگرمی کا خطرہ ہوتا ہے۔[57]

مہاندی دہانہ کا سیٹلائٹ منظر

ریاست کا تین چوتھائی حصہ پہاڑی سلسلوں میں ڈھکا ہوا ہے۔ ندیوں کے ذریعہ ان میں گہری اور وسیع وادیاں بنائی گئی ہیں۔ ان وادیوں میں زرخیز مٹی ہے اور گنجان آباد ہیں۔ اڈیشا میں سطح مرتفع اور کوہسار (بلند پہاڑیاں) بھی ہیں، جو سطح مرتفع سے کم بلندی پر ہیں۔[55] ریاست کا سب سے اونچا مقام؛ کوراپٹ ضلع میں واقع دیومالی پہاڑ ہے، جو 1،672 میٹر پر ہے۔ کچھ دوسری بلند چوٹیاں ہیں: سنکارام (1،620 میٹر) ، گولیکوڈا (1،617 میٹر) اور یندریکا (1،582 میٹر)۔[58]

بحالی

[ترمیم]

اڈیشا میں مشرقی پاکستان کے بے گھر افراد کی بحالی کی گئی ہے 31 اکتوبر 1958 تک اڈیشا میں 876 خاندانوں کی بحالی کی گئی ہے۔[59]

آب و ہوا

[ترمیم]

ریاست چار موسمیاتی موسموں کا تجربہ کرتی ہے: موسم سرما (جنوری تا فروری)، بارش سے پہلے کا موسم (مارچ تا مئی)، جنوب مغربی بارش کا موسم (جون تا ستمبر) اور شمال مشرقی بارش کا موسم (اکتوبر تا دسمبر)۔ تاہم مقامی طور پر سال کو چھ روایتی موسموں میں تقسیم کیا گیا ہے: گرِشما (موسمِ گرما)، برسا (برسات کا موسم)، شرِتا (خزاں)، ہیمنتا (شبنم)، شیتا (سردیوں کا موسم) اور بسنتا (بہار)۔[55]

منتخب موسمی سٹیشنوں کا اوسط درجہ حرارت اور بارش[60]
بھوبنیشور
(1952–2000ء)
بالاسور
(1901–2000ء)
گوپالپور
(1901–2000ء)
سمبلپور
(1901–2000ء)
زیادہ سے زیادہ (سیلسیس) کم سے کم (سیلسیس) بارش (ملی میٹر) زیادہ سے زیادہ (سیلسیس) کم سے کم (سیلسیس) بارش (ملی میٹر) زیادہ سے زیادہ (سیلسیس) کم سے کم (سیلسیس) بارش (ملی میٹر) زیادہ سے زیادہ (سیلسیس) کم سے کم (سیلسیس) بارش (ملی میٹر)
جنوری 28.5 15.5 13.1 27.0 13.9 17.0 27.2 16.9 11.0 27.6 12.6 14.2
فروری 31.6 18.6 25.5 29.5 16.7 36.3 28.9 19.5 23.6 30.1 15.1 28.0
مارچ 35.1 22.3 25.2 33.7 21.0 39.4 30.7 22.6 18.1 35.0 19.0 20.9
اپریل 37.2 25.1 30.8 36.0 24.4 54.8 31.2 25.0 20.3 39.3 23.5 14.2
مئی 37.5 26.5 68.2 36.1 26.0 108.6 32.4 26.7 53.8 41.4 27.0 22.7
جون 35.2 26.1 204.9 34.2 26.2 233.4 32.3 26.8 138.1 36.9 26.7 218.9
جولائی 32.0 25.2 326.2 31.8 25.8 297.9 31.0 26.1 174.6 31.1 24.9 459.0
اگست 31.6 25.1 366.8 31.4 25.8 318.3 31.2 25.9 195.9 30.7 24.8 487.5
ستمبر 31.9 24.8 256.3 31.7 25.5 275.8 31.7 25.7 192.0 31.7 24.6 243.5
اکتوبر 31.7 23.0 190.7 31.3 23.0 184.0 31.4 23.8 237.8 31.7 21.8 56.6
نومبر 30.2 18.8 41.7 29.2 17.8 41.6 29.5 19.7 95.3 29.4 16.2 17.6
دسمبر 28.3 15.2 4.9 26.9 13.7 6.5 27.4 16.4 11.4 27.2 12.1 4.8

حیاتیاتی تنوع

[ترمیم]

2012ء میں فاریسٹ سروے آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق؛ اڈیشا میں 48،903 مربع کلومیٹر جنگلات ہیں، جو ریاست کے کل رقبے کا 31.41 فی صد ہیں۔ جنگلات میں درجہ بندی کی گئی ہے: گھنے جنگل (7,060 مربع کلومیٹر)، درمیانے گھنے جنگل (21,366 مربع کلومیٹر)، کھلے جنگل (بغیر بند چھتری والے جنگل؛ 20,477 مربع کلومیٹر) اور جھاڑیوں والا جنگل (4,734 مربع کلومیٹر)۔ ریاست میں بانس کے جنگلات (10،518 مربع کلومیٹر ) اور چمرنگ (221 مربع کلومیٹر ) بھی ہیں۔ ریاست؛ لکڑیوں کی غیر قانونی برآمد، کان کَنی، صنعت کاری اور چرنے چرانے سے اپنے جنگلات کھو رہی ہے۔ تحفظ اور باز جنگل کاری کے سلسلے میں کوششیں ہو رہی ہیں۔[61]

آب و ہوا اور اچھی بارش کی وجہ سے اڈیشا کے سدا بہار اور نم جنگل؛ جنگلی آرکڈ کے لیے مناسب رہائش گاہ ہیں۔ ریاست سے 130 کے قریب اقسام کی اطلاع ملی ہے۔[62] ان میں سے 97 تنہا میوربھنج ضلع میں پائے جاتے ہیں۔ نندن کانن چڑیا گھر کا آرکڈ ہاؤس؛ ان میں سے کچھ قسموں کی میزبانی کرتا ہے۔[63]

سملی پال نیشنل پارک ایک محفوظ پناہ گاہ علاقہ اور میوربھنج ضلع کے شمالی حصہ کے 2،750 مربع کلومیٹر رقبہ میں پھیلا ہوا ٹائیگر ریزرو (شیروں کی پناہ گاہ) ہے۔ اس میں درختوں کی 1078 اقسام ہیں، جن میں 94 آرکڈ شامل ہیں۔ سال درخت وہاں درختوں کی بنیادی نوع ہے۔ اس پارک میں 55 ممالیہ جانور ہیں، جن میں بھونکنے والا ہرن، بنگالی باگھ، عام لنگور، چوسنگا ہرن، بھارتی گور، بھارتی ہاتھی، بھارتی دیو گلہری، بھارتی چیتا، جنگلی بلی، سمبر ہرن اور جنگلی سور شامل ہیں۔ اس پارک میں پرندوں کی 304 اقسام ہیں، جیسے عام پہاڑی مینا، ہندوستانی سرمئی ہارن بل، ہندوستانی کثیر رنگی ہارن بل اور مالابار کثیر رنگی ہارن بل۔ اس میں 60 قسم کے رینگنے والے جانور بھی موجود ہیں، ان میں کنگ کوبرا، بینڈڈ کریٹ اور ٹرائکیرینیٹ پہاڑی کچھوا شامل ہیں۔ قریبی رام تیرتھا میں انڈس مگر مچھ پالنے کا پروگرام بھی ہے۔[64] چندکا ہاتھی پناہ گاہ (ہاتھیوں کا ایک محفوظ مقام) دار الحکومت بھوبنیشور کے قریب 190 مربع کلومیٹر محفوظ علاقہ ہے۔ تاہم شہری توسیع اور زیادہ چرنے سے جنگلات کم ہو گئے ہیں اور ہاتھیوں کے ریوڑ کو ہجرت پر مجبور کر رہے ہیں۔ 2002ء میں تقریباً 80 ہاتھی تھے۔ لیکن 2012ء تک ان کی تعداد کم ہوکر 20 ہو گئی تھی۔ بہت سارے جانور باربرا ریزرو جنگل، چیلیکا، نیاگڑھ ضلع اور آٹھ گڑھ کی طرف ہجرت کر چکے ہیں۔ کچھ ہاتھی دیہاتیوں کے ساتھ تنازعات میں ہلاک ہو گئے ہیں، جب کہ کچھ ہجرت کے دوران میں بجلی کی لائنوں سے بجلی گرنے یا ٹرینوں کی زد میں آنے سے انتقال کرگئے ہیں۔ محفوظ علاقے کے باہر وہ غیر قانونی شکاریوں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔[65][66] ہاتھیوں کے علاوہ، اس مقام پر ہندوستانی چیتے، جنگلى بلیاں اور چیتل (چیتے دار ہرن) بھی رہتے ہیں۔[67]

کیندراپاڑہ کا بھیتر کنیکا نیشنل پارک؛ 650 پر کلومیٹر پر محیط ہے، جس میں سے 150 مربع کلومیٹر چمرنگ ہیں۔ چمرنگ؛ ایک جھاڑی یا چھوٹا درخت ہے، جو ساحلی نمکین یا کھارے پانی میں اگتا ہے۔ بھیتر کنیکا کا گہیر ماتھا ساحل؛ زیتونی سمندری کچھووں کے لیے دنیا کا سب سے بڑا گھونسلا ہے۔[68] ریاست میں کچھی کے لیے گھونسلے کے دیگر بڑے میدان گنجام ضلع میں رشیکولیا[69] اور دیوی ندی کا دہانہ ہیں۔[70] بھیتر کنیکا پناہ گاہ؛ کھارے پانی کے مگرمچھوں کی بڑی آبادی کے لیے بھی جانا جاتا ہے،[71] سردیوں کے موسم میں اس پناہ گاہ میں مہاجر پرندے بھی جاتے ہیں۔ پناہ گاہ میں پائے جانے والے پرندوں کی انواع میں سیاہ تاج پوش رات کا بگلا، سارس، سرمئی بگلا، ہندوستانی کارمورنٹ، سیاہ سر والا آئبس، جامنی بگلا اور سارس کونج شامل ہیں۔[72] اس خطہ میں ممکنہ طور پر خطرے سے دوچار گھوڑے کی نعل کی شکل کا کیکڑا بھی پایا جاتا ہے۔[73]

چیلیکا جھیل؛ اڈیشا کے مشرقی ساحل پر ایک کھارے پانی والا ساحلی جھیل ہے، جس کا رقبہ 1،105 مربع کلومیٹر ہے۔ یہ 35 کلومیٹر طویل تنگ آبی گذر گاہ کے ذریعہ خلیج بنگال سے منسلک ہے اور مہاندی دہانہ کا ایک حصہ ہے۔ خشک موسم میں بہاؤ؛ نمکین پانی لے آتے ہیں۔ بارش کے موسم میں نالے میں گرنے والی ندیوں کی نمکینی میں کمی آجاتی ہے۔[74] بحیرہ قزوین، جھیل بیکال، روس کے دیگر حصوں، وسطی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا، لداخ اور ہمالیہ کے مقامات سے پرندے؛ سردیوں میں اس جھیل کو ہجرت کرکے آتے ہیں۔[75] نشان زد پرندوں میں یوریشیائی جنگلی بطخ، پنٹیل، دھاری دار سر والا قاز، سرمئی پیروں والا قاز، فلیمنگو، میلارڈ اور دیوہیکل بگلا موجود ہیں۔[76][77] کھاڑی میں خطرے سے دوچار اراوڈی ڈالفن کی ایک چھوٹی سی آبادی بھی ہے۔[78] ریاست کے سواحل میں بدون مہیپر سوس، بوٹلنوز ڈالفن، ہمپ بیک ڈالفن اور اسپنر ڈالفن بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔[79]

سات پاڑہ؛ چلیکا جھیل اور خلیج بنگال کے قریبی شمال مشرقی سرے سے قریب واقع ہے۔ یہ مقام قدرتی مسکن میں ڈالفن پائے جانے کے لیے مشہور ہے۔ ڈالفن دیکھنے کے لیے راستے میں ایک چھوٹا جزیرہ ہے، جہاں سیاح اکثر تھوڑا سا وقفہ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ جزیرہ چھوٹے چھوٹے کیکڑوں کا گھر بھی ہے۔[80][81]

2016ء میں کی گئی مردم شماری کے مطابق؛ ریاست میں 2000 کے قریب ہاتھی ہیں۔ [82]

سیاست و حکومت

[ترمیم]
بھونیشور میں اڈیشا اسٹیٹ سکریٹیریٹ کی عمارت

تمام بھارتی ریاستوں پر عالمی حق رائے دہی پر مبنی ایک پارلیمانی نظام کی حکومت ہوتی ہے۔[84][85]

اڈیشا کی سیاست میں سرگرم مرکزی پارٹیاں: بیجو جنتا دل، انڈین نیشنل کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی ہیں۔ 2019ء میں اڈیشا کے انتخابات کے بعد؛ نوین پٹنایک کی زیر قیادت؛ بیجو جنتا دل مسلسل چھٹی بار اقتدار میں رہی، نوین پٹنایک سنہ 2000ء کے بعد سے اڈیشا کے 14 ویں وزیر اعلیٰ ہیں۔[86]

قانون ساز اسمبلی

[ترمیم]

اڈیشا میں یک ایوانی مقننہ ہے۔[87] اڈیشا قانون ساز اسمبلی میں 147 منتخب ارکان،[86] اور خصوصی عہدہ دار جیسے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر شامل ہیں، جو ارکان کے ذریعہ منتخب ہوتے ہیں۔ اسمبلی اجلاسوں کی صدارت اسپیکر کے ذریعہ ہوتی ہے یا اسپیکر کی غیر موجودگی میں ڈپٹی اسپیکر کے ذریعہ ہوتی ہے۔[88] انتظامی اختیارات وزیر اعلی کی ماتحت وزرا کی کونسل کے پاس ہوتے ہیں، اگرچہ حکومت کا اعزازی سربراہ؛ گورنر اڈیشا ہوتا ہے۔ گورنر کا تقرر؛ صدر بھارت کرتا ہے۔ قانون ساز اسمبلی میں اکثریت کے ساتھ پارٹی یا اتحاد کا لیڈر؛ گورنر کی طرف سے وزیر اعلیٰ کے طور پر مقرر کیا جاتا ہے اور وزرا کی کونسل؛ گورنر کی طرف سے وزیر اعلیٰ کے مشورے پر مقرر کی جاتی ہے۔ وزرا کی کونسل قانون ساز اسمبلی کو رپورٹ کرتی ہے۔[89] منتخب ہونے والے 147 نمائندوں کو ارکانِ قانون ساز اسمبلی یا ایم ایل اے کہا جاتا ہے۔ ایک ایم ایل اے گورنر کے ذریعہ اینگلو انڈین برادری سے نامزد کیا جا سکتا ہے۔[90] عہدہ کی مدت پانچ سال کے لیے ہے، جب کہ مدت پوری ہونے سے پہلے اسمبلی تحلیل نہیں ہوجاتی ہے۔[88]

عدليہ، اڈیشا ہائی کورٹ پر مشتمل ہے، جو کٹک میں واقع ہے اور نچلی عدالتوں کا ایک نظام ہے۔

ذیلی تقسیم

[ترمیم]

اڈیشا کو 30 اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان 30 اضلاع کو اپنی حکمرانی کو ہموار کرنے کے لیے تین مختلف محصولات ڈویژنوں کے تحت رکھا گیا ہے۔ یہ ڈویژنیں شمالی، وسطی اور جنوبی ہیں، جن کا صدر مقام بالترتیب سمبلپور، کٹک اور برہم پور میں ہے۔ ہر ذیلی تقسیم؛ دس اضلاع پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کا انتظامی سربراہ بطورِ محصول ایک ڈویژنل کمشنر (آر ڈی سی) ہوتا ہے۔[91] انتظامی درجہ بندی میں آر ڈی سی کی پوزیشن ضلعی انتظامیہ اور ریاستی سکریٹریٹ کے درمیان ہے۔[92] ڈویژنل کمشنرز بورڈ آف ریونیو کو رپورٹ کرتے ہیں، جس کی سربراہی انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس (آئی اے ایس) کے ایک سینئر افسر کے ذریعہ ہوتی ہے۔[91]

اڈیشا کے اضلاع کا نقشہ
ڈویژن کے لحاظ سے اضلاع کی فہرست[93]
شمالی ڈویژن (صدر مقام - سمبلپور) مرکزی ڈویژن (صدر مقام - کٹک) جنوبی ڈویژن (صدر مقام - برہم پور)

ہر ضلع پر کلکٹر اور ضلعی مجسٹریٹ حکومت کرتا ہے، جو آئی اے ایس کے ذریعے مقرر ہوتا ہے۔[94][95] کلکٹر اور ضلعی مجسٹریٹ ضلع میں محصول وصولی اور امن و امان برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ ہر ضلع کو "سَب ڈویژنوں" میں تقسیم کیا جاتا ہے، ہر ایک "س‍‍َب کلکٹر" اور "سَب ڈویژن"؛ "مجسٹریٹ" کے زیرِ انتظام ہوتا ہے۔ سب ڈویژنوں کو مزید تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ تحصیلوں کی سربراہی؛ تحصیلدار کرتے ہیں۔ اڈیشا میں 58 سب ڈویژنز، 317 تحصیل اور 314 بلاک ہیں۔[93] بلاکس پنچایتوں اور ٹاؤن میونسپلٹی پر مشتمل ہوتے ہیں۔

ریاست کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہر بھوبنیشور ہے۔ دوسرے بڑے شہر کٹک، راورکیلا، برہم پور اور سمبلپور ہیں۔ اڈیشا کے میونسپل کارپوریشنز میں بھوبنیشور، کٹک، برہم پور، سمبلپور اور راورکیلا شامل ہیں۔

اڈیشا کی دیگر بلدیات میں انگول، بلانگیر، بالاسور، بربل، برگڑھ، باریپادا، بیل پہاڑ، بھدرک، بھوانی پٹنہ، بیرمتر پور، بودھ گڑھ، برجراج نگر، بیاسانگر، چھترپور، دیباگڑھ، ڈھینکانال ضلع، گوپالپور، گنو پور، ہنجلی کٹ، جگت سنگھ پور، جاجپور، جے پور، جھارسگوڈا، جوڑا، کیندرا پاڑہ، کیندوجھر، کھوردا، کونارک، کوراپوٹ، ملکان گری، نبرنگپور، نیاگڑھ، نواپاڑہ، پارادیپ، پارالاکھیمنڈی، پھول بانی، پوری، راجگانگ پور، رایگڑا، سونپور، سندرگڑھ، تالچیر، ٹٹلاگڑھ اور عمر کوٹ شامل ہیں۔

 
اڈیشا کے بڑے شہر یا ٹاؤن
مردم شماری، 2011ء کے مطابق
درجہ ضلع آبادی
بھوبنیشور
بھوبنیشور
کٹک
کٹک
1 بھوبنیشور کھوردا 881,988 راورکیلا
راورکیلا
برہم پور
برہم پور
2 کٹک کٹک 658,986
3 راورکیلا سندرگڑھ 552,970
4 برہم پور گنجام 355,823
5 سمبلپور سمبلپور 270,331
6 پوری پوری 201,026
7 بالاسور بالاسور 144,373
8 بھدرک بھدرک 121,338
9 باریپادا میوربھنج 116,874
10 بلانگیر بلانگیر 98,238

معاون اختیارات پنچایتوں کے نام سے جانے جاتے ہیں، جن کے لیے بلدیاتی انتخابات باقاعدگی سے منعقد ہوتے ہیں، دیہی علاقوں میں مقامی امور پر حکومت کرتے ہیں۔

معیشت

[ترمیم]

وسیع-اقتصادی رجحان

[ترمیم]

اڈیشا مستحکم اقتصادی ترقی کا سامنا کر رہا ہے۔ ریاست کی مجموعی گھریلو مصنوعات میں متاثر کن نمو کی اطلاع وزارت شماریات و نفاذ لائحہ عمل (منسٹری آف اسٹیٹکٹس اینڈ پروگرام امپلیمنٹیشن) نے دی ہے۔ اڈیشا کی شرحِ نمو؛ قومی اوسط سے زیادہ ہے۔[96] مرکزی حکومت کی شہری ترقی کی وزارت نے حال ہی میں 20 شہروں کے ناموں کا اعلان کیا ہے جو اسمارٹ شہروں کے طور پر تیار کیے جائیں گے۔ ریاستی دار الحکومت بھوبنیشور جنوری 2016ء میں جاری کردہ اسمارٹ شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر تھا، جو بھارتی حکومت کا پالتو منصوبہ ہے۔ اس اعلان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے پانچ سالوں میں 508.02 ارب روپیوں کی منظوری بھی دی گئی ہے۔[97]

صنعتی ترقی

[ترمیم]
کیندوجھر ضلع میں لوہے کی ایک بارودی سرنگ۔
راورکیلا اسٹیل پلانٹ

اڈیشا میں قدرتی وسائل اور ایک بڑی ساحلی پٹی ہے۔ اڈیشا سرمایہ کاری کی تجاویز کے ساتھ بیرون ملک سرمایہ کاروں کے لیے سب سے پسندیدہ منزل بن کر ابھری ہے۔[98] یہاں بھارت کے کوئلہ کا پانچواں حصہ، اس کے لوہے کا ایک چوتھائی، اس کے باکسائٹ ذخائر کا ایک تہائی اور زیادہ تر کرومائٹ موجود ہے۔

راورکیلا اسٹیل پلانٹ[99] ؛ بھارت میں عوامی شعبہ میں پہلا مربوط کارخانۂ فولاد تھا، جو جرمنی کے اشتراک سے تعمیر کیا گیا تھا۔

آرسیلر مِتّل نے ایک اور بڑے منصوبۂ فولاد میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا ہے۔ ایک روسی بڑی "میگنیٹوگورسک آئرن اینڈ اسٹیل کمپنی" (ایم ایم کے) نے بھی اڈیشا میں بھی 10 میگا ٹن کارخانۂ فولاد لگانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ بندھ باہال، اڈیشا میں کوئلے کی کھلی ہوئی کانوں کا ایک بڑا علاقہ ہے۔ ریاست؛ الومینیم اور کوئلہ پر مبنی بجلی گھروں، پیٹرو کیمیکلز اور انفارمیشن ٹکنالوجی میں بھی بے مثال سرمایہ کاری کی طرف رغبت کر رہی ہے۔ بجلی کی پیداوار میں ریلائنس پاور (انیل امبانی گروپ) جھارسگوڈا ضلع کے ہِرما میں 13 بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا پاور پلانٹ لگا رہا ہے۔[100]

2009ء میں کارپوریٹ سرمایہ کاری پر ایسوچیم (اے ایس ایس او سی ایچ اے ایم) انویسٹمنٹ میٹر (اے آئی ایم) کے مطالعہ کے تجزیہ کے مطابق اڈیشا دوسرے نمبر پر گجرات پہلے اور آندھرا پردیش تیسرے نمبر پر تھی۔ ملک میں کل سرمایہ کاری میں اڈیشا کا حصہ 12.6 فیصد تھا۔اسے گذشتہ سال کے دوران؛ 2،00،846 کروڑ کی مالیت کی سرمایہ کاری کی تجویز موصول ہوئی تھی۔ اسٹیل اور پاور ان شعبوں میں شامل تھے، جنھوں نے ریاست میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی۔[101]

نقل و حمل

[ترمیم]

اڈیشا میں سڑکیں، ریلوے، ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں کا نیٹ ورک موجود ہے۔ بھوبنیشور باقی ہندوستان کے ساتھ ہوائی، ریل اور سڑک کے ذریعہ اچھی طرح سے جڑا ہوا ہے۔ کچھ شاہراہیں "فور لینز (چار سڑکوں والی شاہراہوں)" تک پھیل رہی ہیں۔ [102] بھوبنیشور اور کٹک سے ملنے والی میٹرو ریل کے منصوبے بھی 30 کیلو میٹر کی علاقہ کے لیے شروع ہو چکے ہیں۔ [103]

فضائیہ

[ترمیم]
بیجو پٹنایک بین الاقوامی ہوائی اڈہ، بھونیشور

اڈیشا میں کل 2 زیر عمل ہوائی اڈے، 17 "ہوائی پٹی" اور 16 "ہیلی پیڈ" ہیں۔[104][105][106] جھارسگوڈا کے ہوائی اڈے کو مئی 2018ء میں ایک مکمل گھریلو ہوائی اڈے میں تبدیل کر دیا گیا۔[107] حکومت اڈیشا نے اندرونی اور بین ریاستی شہری ہوا بازی کو فروغ دینے کی کوشش میں انگول، دھامرا، کلنگانگر، پارادیپ اور رایگڑا میں پانچ گرین فیلڈ ہوائی اڈوں کا بھی منصوبہ بنایا ہے۔ بڑبل، گوپال،پور، جھارسگوڈا اور راورکیلا میں موجود ہوائی اڈوں کی بھی تجدید کی جانی تھی۔[108] دھامرا پورٹ کمپنی لمیٹیڈ؛ دھامرا بندرگاہ سے 20 کلومیٹر دور دھامرا ہوائی اڈا بنانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔[109] ایئر اڈیشا؛ اڈیشا کی واحد ایئر چارٹر کمپنی ہے، جو بھوبنیشور میں واقع ہے۔

بندرگاہیں

[ترمیم]
گوپالپور بندرگاہ
ایسٹ کوسٹ ریلوے کا صدر دفتر، بھوبنیشور

اڈیشا میں ساحل کا فاصلہ 485 کلومیٹر ہے۔ اس کی ایک بڑی بندرگاہ پارادیپ میں ہے اور کچھ معمولی بندرگاہیں بھی ہیں۔ جن میں سے کچھ یہ ہیں:[110][111]

ریلوے

[ترمیم]

اڈیشا کے بڑے شہر؛ بھارت کے تمام بڑے شہروں سے براہ راست روزانہ کی ٹرینوں اور ہفتہ وار ٹرینوں سے اچھی طرح جڑے ہوئے ہیں۔ اڈیشا میں زیادہ تر ریلوے نیٹ ورک مشرقی ساحلی ریلوے (ای سی او آر) کے دائرہ اختیار میں ہے، جس کا صدر دفتر بھوبنیشور میں ہے اور کچھ حصے جنوب مشرقی ریلوے زون اور جنوب مشرقی وسطی ریلوے زون کے تحت ہیں۔

آبادیات

[ترمیم]
تاریخی آبادی
سالآبادی±% پی.اے.
190110,302,917—    
191111,378,875+1.00%
192111,158,586−0.20%
193112,491,056+1.13%
194113,767,988+0.98%
195114,645,946+0.62%
196117,548,846+1.82%
197121,944,615+2.26%
198126,370,271+1.85%
199131,659,736+1.84%
200136,804,660+1.52%
201141,974,218+1.32%
ذریعہ:[112]
کوراپٹ، اڈیشا کے قبائلی لوگ

بھارت کی 2011ء کی مردم شماری کے مطابق؛ اڈیشا کی کل آبادی 41،974،218 ہے، جن میں 21،212،136 (%50.54) مرد اور 20،762،082 (%49.46) خواتین ہیں یا فی 1000 مرد 978 خواتین ہیں۔ یہ 2001ء کی آبادی کے مقابلہ میں 13.97 فیصد اضافہ کی نمائندگی کرتا ہے۔ آبادی کی کثافت 270 فی مربع کلومیٹر ہے۔[1]

2011ء کی مردم شماری کے مطابق؛ شرح خواندگی 73 فیصد تھی، 82 فیصد مرد اور 64 فیصد خواتین خواندہ تھے۔

2004ء-2005ء میں غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے لوگوں کا تناسب 57.15 فیصد تھا، جو بھارتی اوسط 26.10 فیصد سے تقریباً دگنا ہے۔ 2005ء سے ریاست نے غربت کی شرح میں ڈرامائی طور پر 24.6 فیصد پوائنٹس کی کمی کی ہے۔ موجودہ تخمینہ کے مطابق غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے لوگوں کا تناسب 32.6 فیصد تھا[113][114]

1996ء-2001ء کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست میں متوقع عمر 61.64 سال تھی جو سالوں کی قومی حیثیت سے زیادہ ہے۔ ریاست میں سالانہ شرح پیدائش 23.2 فی 1000 افراد، سالانہ شرح اموات 9.1 فی 1،000 افراد، بچوں کی شرح اموات 65 فی 1000 زندہ پیدائش اور زچگی شرح اموات 358 فی 1،000،000 زندہ پیدائش ہے۔ اڈیشا میں 2018ء کے مطابق انسانی ترقیاتی اشاریہ 0.606 ہے۔[115]

ضلع صدر دفاتر آبادی
(2011ء)
مرد عورتیں فیصد
دس سالہ
اضافہ %
(2001ء-11ء)
جنسی تناسب کثافت
(افراد
فی
مربع کیلومیٹر)
بچوں کی
آبادی
0 سے 6 سال کے
بچوں کا
جنسی
تناسب
شرح خواندگی
1 انگول ضلع انگول 1,271,703 654,898 616,805 11.55 942 199 145,690 884 78.96
2 بلانگیر ضلع بلانگیر 1,648,574 831,349 817,225 23.29 983 251 206,964 951 65.50
3 بالاسور ضلع بالاسور 2,317,419 1,184,371 1,133,048 14.47 957 609 274,432 941 80.66
4 برگڑھ ضلع برگڑھ 1,478,833 748,332 730,501 9.84 976 253 156,185 946 75.16
5 بھدرک ضلع بھدرک 1,506,522 760,591 745,931 12.95 981 601 176,793 931 83.25
6 بودھ ضلع بودھ گڑھ 439,917 220,993 218,924 17.82 991 142 59,094 975 72.51
7 کٹک ضلع کٹک 2,618,708 1,339,153 1,279,555 11.87 955 666 251,152 913 84.20
8 دیباگڑھ ضلع دیباگڑھ 312,164 158,017 154,147 13.88 976 106 38,621 917 73.07
9 ڈھینکانال ضلع ڈھینکانال، بھارت 1,192,948 612,597 580,351 11.82 947 268 132,647 870 79.41
10 گجپتی ضلع پارالاکھیمنڈی 575,880 282,041 293,839 10.99 1,042 133 82,777 964 54.29
11 گنجام ضلع چھترپور 3,520,151 1,777,324 1,742,827 11.37 981 429 397,920 899 71.88
12 ضلع جگت سنگھ پور جگت سنگھ پور 1,136,604 577,699 558,905 7.44 967 681 103,517 929 87.13
13 جاجپور ضلع جاجپور 1,826,275 926,058 900,217 12.43 972 630 207,310 921 80.44
14 جھارسگوڈا ضلع جھارسگوڈا 579,499 297,014 282,485 12.56 951 274 61,823 938 78.36
15 کلاہانڈی ضلع بھوانی پٹنہ 1,573,054 785,179 787,875 17.79 1,003 199 214,111 947 60.22
16 کندھمال ضلع پھول بانی 731,952 359,401 372,551 12.92 1,037 91 106,379 960 65.12
17 کیندرہ پاڑہ ضلع کیندرہ پاڑہ 1,439,891 717,695 722,196 10.59 1,006 545 153,443 921 85.93
18 کیندوجھر ضلع کیندوجھر 1,802,777 907,135 895,642 15.42 987 217 253,418 957 69.00
19 کھوردا ضلع کھوردا 2,246,341 1,166,949 1,079,392 19.65 925 799 222,275 910 87.51
20 کوراپٹ ضلع کوراپوٹ 1,376,934 677,864 699,070 16.63 1,031 156 215,518 970 49.87
21 ملکان گری ملکان گری 612,727 303,913 308,814 21.53 1,016 106 105,636 979 49.49
22 میوربھنج ضلع باریپادا 2,513,895 1,253,633 1,260,262 13.06 1,005 241 337,757 952 63.98
23 نبرنگپور ضلع نبرنگپور 1,218,762 604,046 614,716 18.81 1,018 230 201,901 988 48.20
24 نیاگڑھ ضلع نیاگڑھ 962,215 502,194 460,021 11.30 916 247 101,337 851 79.17
25 نواپاڑہ ضلع نواپاڑہ 606,490 300,307 306,183 14.28 1,020 157 84,893 971 58.20
26 پوری ضلع پوری، اڈیشا 1,697,983 865,209 832,774 13.00 963 488 164,388 924 85.37
27 رایگڑا ضلع رایگڑا 961,959 469,672 492,287 15.74 1,048 136 141,167 955 50.88
28 سمبلپور ضلع سمبلپور 1,044,410 529,424 514,986 12.24 973 158 112,946 931 76.91
29 سونپور ضلع سونپور، اڑیسہ 652,107 332,897 319,210 20.35 959 279 76,536 947 74.42
30 سندرگڑھ ضلع سندرگڑھ 2,080,664 1,055,723 1,024,941 13.66 971 214 249,020 937 74.13

مذہب

[ترمیم]

اڈیشا میں مذہب؛ باعتبار مردم شماری (2011 ء) [116]


اڈیشا کے مذاہب (2011)[117]

  ہندو مت (93.63%)
  مسیحیت (2.77%)
  اسلام (2.17%)
  سرنا دھرم (1.14%)
  سکھ مت (0.05%)
  بدھ مت (0.03%)
  جین مت (0.02%)
  دیگر (.19%)
گیتا گووندا

اڈیشا میں اکثریت (تقریباً %94[118]) ہندو ہیں اور ریاست میں ایک متناسب ثقافتی ورثہ بھی ہے۔ مثال کے طور پر اڈیشا میں متعدد ہندو شخصیات ہیں۔ سنت بھیما بھوئی؛ مہیما دھرم کا قائد تھا۔ سارلا داس ایک ہندو کھنڈایت؛ مہاکاوی مہابھارت کا اڈیہ میں ترجمہ کرنے والے تھے۔ چیتنیا داس؛ ایک بدھ مت - وشنو اور "نِرگُنا مہاتمَیا" کے مصنف تھے۔ جیدیو؛ "گیتا گووِندا" کے مصنف تھے۔

1948ء کے اڈیشا مندر اتھارٹی ایکٹ نے حکومت اڈیشا کو یہ اختیار دیا کہ وہ دلتوں سمیت تمام ہندؤوں کے لیے مندر کھولے۔[119]

شاید اڈیشا کا سب سے قدیم صحیفہ پوری مندر کا "مَڈلا پنجی" ہے، جو 1042ء کا مانا جاتا ہے۔ مشہور ہندو اڈیہ صحیفہ میں 16 ویں صدی کے جگن ناتھ داس کی بھاگوت شامل ہے۔[120] جدید دور میں مدھوسودن راؤ؛ اڈیہ کے ایک بڑے ادیب تھے، جو ایک برہمو سماج پسند تھے اور جنھوں نے 20 ویں صدی کے آغاز میں جدید اڈیہ ادب کی تشکیل کی۔[121]

2001ء کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق اڈیشا میں عیسائی آبادی تقریباً 2.8 فیصد ہے، جب کہ اڈیہ مسلمان %2.2 فیصد ہیں۔ سکھ، بدھ اور جین برادری مل کر آبادی کا 0.1 فی صد ہیں۔[118]

زبانیں

[ترمیم]


اڈیشا کی زبانیں (2011ء)[122]

  اڈیہ زبان (بشمول سمبلپوری) (81.32%)
  کُوئی (2.24%)
  سنتالی (2.06%)
  اردو (1.60%)
  تیلگو (1.59%)
  ہندی (1.23%)
  بنگالی (1.20%)
  دیگر (8.76%)
اڈیہ اور انگریزی میں دو لسانی سائن بورڈ

اڈیہ؛ اڈیشا کی سرکاری زبان ہے[123] اور یہ بھارت کی مردم شماری 2011ء کے مطابق؛ آبادی میں 82.7 فی صد بولی جاتی تھی۔[122] یہ بھارت کی کلاسیکی زبانوں میں سے ایک ہے۔ انگریزی ریاست اور ہندوستان کے اتحاد کے مابین خط کتابت کی سرکاری زبان ہے۔ عام بول چال والی اڈیہ یکساں نہیں ہیں؛ کیوں کہ ریاست بھر میں بولی جانے والی مختلف بولیاں مل سکتی ہیں۔ ریاست کے اندر پائی جانے والی کچھ بڑی بولیاں: "سمبلپوری"، "کٹکی"، "پوری"، "بالاسوری"، "گنجامی"، "دیسیہ" اور "پھولبانی" ہیں۔ اڈیہ کے علاوہ دوسری بڑی بھارتی زبانیں جیسے ہندی، تیلگو، اردو اور بنگالی بولنے والوں کی نمایاں آبادی بھی ریاست میں پائی جاتی ہیں۔[124]

مختلف آدی واسی برادریاں؛ جو زیادہ تر مغربی اڈیشا میں رہتی ہیں، ان کی اپنی زبانیں جنوبی ایشیائی اور دراوڑی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان میں سے کچھ آدی واسی زبانیں؛ سنتالی، کُوئی اور ہو ہیں۔ بیرونی لوگوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے رابطوں، نقل مکانی اور سماجی و اقتصادی وجوہات کی وجہ سے ان میں سے بہت سی مقامی زبانیں آہستہ آہستہ ناپید ہو رہی ہیں یا ناپید ہونے کے دہانے پر ہیں۔[125]

اڈیشا ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ؛ 1957ء میں اڈیہ زبان و ادب کو فعال طور پر ترقی دینے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ حکومت اڈیشا نے اڈیہ زبان و ادب کو فروغ دینے کے لیے 2018ء میں ایک پورٹل https://ova.gov.in/en شروع کیا۔

تعلیم

[ترمیم]
اتکل یونیورسٹی کا صدر دروازہ
ریوین شا یونیورسٹی، کٹک کا خوبصورت نظارہ

تعلیمی ادارے

[ترمیم]
  • انڈین انسٹیٹیوٹس آف ہینڈلوم ٹیکنالوجی (IIHT Bargarh)، برگڑھ
  • انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹورِزم اینڈ ٹریول مینیجمنٹ، بھوبنیشور (IITTM BBSR)
  • سی، وی، رمن گلوبل یونیورسٹی، بھوبنیشور (CVRGU)
  • ریجنل انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن، بھوبنیشور (RIE BBSR)
  • انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، بھوبنیشور (IIT BBS)
  • نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ریسرچ، بھوبنیشور (NISER)
  • نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، راورکیلا (NIT)
  • انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ، سمبلپور (IIM-SB)
  • انڈین انسٹیٹیوٹس آف سائنس ایجوکیشن اینڈ ریسرچ، برہم پور (IISER BPR)
  • آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، بھوبنیشور (AIIMS)
  • ویر سریندر سائی یونیورسٹی آف ٹکنالوجی، بُرلا، سمبلپور (VSSUT)
  • نیشنل لا یونیورسٹی، کٹک
  • انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، بھونیشور (IIIT)
  • برہم پور یونیورسٹی، برہم پور
  • بیجو پٹنائک یونیورسٹی آف ٹکنالوجی، برہم پور
  • اسپاٹ آٹونومس کالج، راورکیلا
  • بکسی جگ بندھو بدھیادھر کالج، بھونیشور
  • سینٹرل یونیورسٹی آف اڈیشا، کورا پوٹ
  • کالج آف ایگریکلچر، بھوانی پٹنہ
  • کالج آف بیسک سائنس اینڈ ہیومنٹیز، بھوبنیشور
  • کالج آف انجینئری اینڈ ٹیکنالوجی، بھوبنیشور
  • دھرنیدھار کالج، کیندوجھر
  • فقیر موہن یونیورسٹی، بالاسور
  • گنگا دھر مہر یونیورسٹی، سمبلپور
  • گورنمنٹ کالج آف انجینئری، کالا ہانڈی" بھوانی پٹنہ
  • ہائی ٹیک میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل، بھوبنیشور
  • اندرا گاندھی انسٹی ٹیوٹ، سارنگ
  • کلنگا انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل ٹکنالوجی یونیورسٹی، بھوبنیشور (KIIT University)
  • کھلّی کوٹ یونیورسٹی، برہم پور
  • مہاراجا کرشن چندر گجاپتی میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل، برہم پور
  • نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، برہم پور
  • نارتھ اڈیشا یونیورسٹی، باریپادا
  • اڈیشا اسٹیٹ اوپن یونیورسٹی، سمبلپور
  • اڈیشا انجینئرنگ کالج، بھوبنیشور
  • اڈیشا یونیورسٹی آف ایگریکلچر اینڈ ٹیکنالوجی، بھوبنیشور
  • پرلا مہاراجا انجنئیرنگ کالج، برہم پور
  • پرنا ناتھ آٹونومس کالج، کھوردا
  • راما دیوی ویمنز یونیورسٹی، بھوبنیشور
  • راونشا یونیورسٹی، کٹک
  • سمبلپور یونیورسٹی، سمبلپور
  • سمبلپور یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، سمبلپور
  • شری رام چندر بھنج میڈیکل کالج، کٹک
  • سکشا و انوساندھن یونیورسٹی، بھوبنیشور
  • اتکل یونیورسٹی، بھوبنیشور
  • اتکل یونیورسٹی آف کلچر، بھوبنیشور
  • ویر سریندر سائی انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اینڈ ریسرچ" (VIMSAR) بُرلا، سمبلپور
  • شاویر انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، بھوبنیشور
  • شاویر یونیورسٹی، بھوبنیشور
  • انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکسٹائل ٹکنالوجی، چودھوار، کٹک
  • انسٹی ٹیوٹ آف میتھمیٹکس اینڈ ایپلیکیشنز، بھوبنیشور
  • شری شری یونیورسٹی، کٹک
  • سنچُرین یونیورسٹی، جٹنی بھوبنیشور
  • اسٹیورٹ اسکول، بخشی بازار، کٹک
  • نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ریہابلوٹیشن ٹریننگ اینڈ، کٹک
  • نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سوشل ورک اینڈ سوشل سائنس، بھوبنیشور (NISWASS)
  • راجیندر نارائن یونیورسٹی، بلانگیر
  • کالا ہانڈی یونیورسٹی، بھوانی پٹنہ
  • بھیم بوئی میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل، بلانگیر
  • پنڈت رگوناتھ مُرمو میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل، باریپادا [126]
  • شہید لکشمن نایک میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل، کورا پوٹ[127]
  • نیس (نون انٹروسو انسپکشن سسٹمز) انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن، بھوبنیشور (NIIS Institute) [128]


اعلی تعلیم کے مختلف اداروں بالخصوص انجینئری کی ڈگری والے اداروں میں داخلہ؛ اڈیشا مشترکہ داخلہ امتحان کے ذریعہ ہوتا ہے، جو بیجو پٹنایک یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی (بی پی یو ٹی)، راورکیلا کے ذریعہ 2003ء سے لیا جاتا ہے، جہاں نشستوں کی اہلیت کے مطابق نشستیں فراہم کی جاتی ہیں۔[129] انجینئری کے بہت سارے انسٹی ٹیوٹ؛ جوائنٹ انٹری امتحان کے ذریعہ طلبہ کو داخلہ دیتے ہیں۔ میڈیکل کورس کے لیے اسی طرح کی قومی اہلیت کے ساتھ داخلہ امتحان ہوتا ہے۔

ثقافت

[ترمیم]
چھاو رقص

پکوان

[ترمیم]

اڈیشا میں صدیوں پر محیط ایک پاک روایت ہے۔ شری جگن ناتھ مندر، پوری کا باورچی خانہ دنیا میں سب سے بڑا باورچی ہے، جس میں 1،000 شیف (باورچی) ہر روز 10،000 سے زیادہ لوگوں کو کھانا کھلانے کے لیے تقریباً 752 لکڑی سے جلنے والے مٹی کے چولوں پر کام کرتے ہیں۔[130][131]

اڈیشا میں تیار کی گئی شیرہ سے بھری پہاڑہ رسگولہ پوری دنیا میں مشہور ہے۔[132] چھینا پوڑ اڈیشا کی ایک اور بڑی میٹھی ڈِش ہے، جس کی شروعات نیاگڑھ سے ہوئی ہے۔[133] دالما (دال اور منتخب سبزیوں کا مرکب) وسیع پیمانے پر مشہور پکوان ہے، جو گھی کے ساتھ بہتر طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

مغربی بنگال کے ساتھ مشہور مٹھائی کی اصل کے بارے میں طویل لڑائی کے بعد اڈیشا رسگولہ کو 29 جولائی 2019ء کو "جی آئی ٹیگ" دیا گیا۔[134]

رقص

[ترمیم]
اوڈیشی رقص

اڑیسی رقص اور موسیقی کلاسیکی آرٹ کی شکلیں ہے۔ اوڈیسی؛ آثار قدیمہ کے شواہد کی بنیاد پر بھارت میں قدیم زندہ بچ جانے والا رقص ہے۔[135] اوڈیسی کی 2،000 سال کی طویل غیر متزلزل روایت ہے اور اس کا ذکر؛ ممکنہ طور پر تحریری تقریباً 200 قبل مسیح سے بھرت مونی کے ناٹیہ شاستر میں ملتا ہے۔ تاہم برطانوی دور میں رقص کی شکل تقریباً معدوم ہو گئی تھی، صرف چند گرؤوں کے ذریعہ آزادی ہند کے بعد اسے زندہ کیا گیا۔

رقص کی مختلف اقسام میں گھمورا رقص، چھاؤ رقص، جھومیر، مہاری رقص، دلکھائی اور گوٹی پوا شامل ہیں۔

کھیل

[ترمیم]
بارابٹی اسٹیڈیم، کٹک

ریاست اڈیشا نے کھیلوں کے کئی بین الاقوامی مقابلوں کی میزبانی کی ہے، جن میں مردوں کا ہاکی عالمی کپ 2018ء بھی شامل ہے اور عورتوں کا ہاکی عالمی کپ فیفا انڈر 17، 2020ء بھی شامل ہے اور مردوں کا ہاکی عالمی کپ 2023ء کے لیے میچوں کی میزبانی کرے گا۔

کھیلوں کو فروغ دینے کے لیے بہت سارے اسٹیڈیم اور میدان دستیاب ہیں۔ کچھ مشہور اسٹیڈیم کے نام درج ذیل ہیں؛

  1. کلنگا اسٹیڈیم
  2. بارہ بٹی اسٹیڈیم
  3. جواہر لال نہرو انڈور اسٹیڈیم
  4. مشرقی ساحلی ریلوے اسٹیڈیم
  5. بیجو پٹنایک ہاکی اسٹیڈیم
  6. کے آئی آئی ٹی اسٹیڈیم
  7. برسا منڈا بین الاقوامی ہاکی اسٹیڈیم[136]

سیاحت

[ترمیم]

بھوبنیشور کے لنگ راج مندر میں 150-فٹ (46 میٹر) اونچا دیولا (مندروں کے اوپر کا گنبد نما حصہ) ہے، جب کہ جگن ناتھ مندر، پوری تقریباً 200 فٹ (61 میٹر) اونچائی پر ہے اور اسکائی لائن پر تسلط رکھتا ہے۔ کونارک، ضلع پوری میں کونارک سوریا مندر کا صرف ایک حصہ؛ جو مقدس سنہرے مثلث" کے سب سے بڑے مندروں میں موجود ہے اور یہ اب بھی حیرت زدہ ہے۔ یہ اڈیشا کی فنِ تعمیر میں ایک شاہکار کی حیثیت سے کھڑا ہے۔ "شکت ازم" کے سب سے زیادہ روحانی اظہارِ خیالات میں سے ایک سمجھا جانے والا سرلا مندر؛ ضلع جگت سنگھ پور میں ہے۔ یہ اڈیشا میں ایک سب سے پرجوش مقام اور سیاحوں کی ایک بڑی توجہ کا مرکز بھی ہے۔ گھٹگاؤں، کیندوجھر ضلع میں واقع ماں تارنی مندر بھی ایک مشہور زیارت گاہ ہے۔ ہر روز ہزاروں ناریل اپنی خواہشات کو پورا کرنے پر عقیدت مندوں کے ذریعہ ماں تارنی کو دیے جاتے ہیں۔ ہر روز ہزاروں ناریل ماں تارنی کو عقیدت مند اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے دیتے ہیں۔[137] اڈیشا کی مختلف ٹپوگرافی - جنگلی مشرقی گھاٹوں سے لے کر زرخیز دریا کے حوضوں تک - کمپیکٹ اور منفرد ماحولیاتی نظام کے ارتقا کے لیے مثالی ثابت ہوئی ہے۔ اس سے نباتات اور حیوانات کے خزانے پیدا ہوتے ہیں، جو پرندوں اور رینگنے والے جانوروں کی بہت سی ہجرت کرنے والی نسلوں کو دعوت دیتے ہیں۔بھیترکنیکا نیشنل پارک کیندرہ پاڑہ ضلع میں اپنے دوسرے بڑے چمرنگ ماحولیاتی نظام کے لیے مشہور ہے۔ چیلیکا جھیل میں پرندوں کی پناہ گاہ (ایشیا کی سب سے بڑی کھارے پانی کی جھیل) ہے۔ سملی پال نیشنل پارک، میوربھنج ضلع کا ٹائیگر ریزرو اور آبشاریں؛ سیاحت ِ اڈیشا کے زیر اہتمام ماحولیات اڈیشا میں سیاحت کا لازمی حصہ ہیں۔[138]

درنگبادی؛ کندھمال ضلع میں ایک پہاڑی اسٹیشن ہے۔ اسے موسمی مماثلت کی وجہ سے "کشمیرِ اڈیشا" کہا جاتا ہے۔ چاندی پور؛ بالاسور ضلع میں ایک پرسکون اور پرسکون مقام ہے، جو زیادہ تر سیاحوں کے ذریعہ دریافت نہیں کیا جاتا ہے۔ اس ساحل کی منفرد خصوصیت یہ ہے کہ جوار کی لہریں؛ 4 کلومیٹر تک کم ہوتی ہیں اور تال میل کے ساتھ غائب ہو جاتی ہیں۔

اڈیشا کے مغربی حصہ میں ہیراکود ڈیم سمبلپور ضلع میں دنیا کا سب سے لمبا مٹی کا ڈیم ہے۔ یہ ایشیا کی سب سے بڑی مصنوعی جھیل بھی بنتی ہے۔ ڈیبری گڑھ وائلڈ لائف سینکچوری ہیراکود ڈیم کے قریب واقع ہے۔ سملیسوری مندر؛ سمبلپور شہر کی ایک ہندو مندر ہے، جو "سمبلپور" کی صدارت کرنے والا دیوتا "سمَلیسوَری" کے نام سے جانا جاتا ہے، جو ریاستِ اڈیشا اور چھتیس گڑھ کے مغربی حصہ میں ایک مضبوط مذہبی قوت ہے۔ ہما کا جھکا ہوا مندر سمبلپور کے قریب واقع ہے۔ مندر ہندو دیوتا بیملیشور کے لیے وقف ہے۔ سری سری ہری شنکر دیوستھان؛ بلانگیر ضلع میں گندھاماردن پہاڑیوں کی ڈھلوانوں پر ایک مندر ہے۔ یہ فطرت کے مناظر اور دو ہندو معبودان وشنو اور شیو کے لیے مشہور ہے۔ گندھاماردن پہاڑیوں کے مخالف سمت میں سری نرسنگھ ناتھ کا مندر ہے، جو پیکمال، برگڑھ ضلع کے قریب گندھاماردن پہاڑی کے دامن میں واقع ہے۔


اڈیشا کے جنوبی حصے میں ضلع گنجام میں برہم پور شہر کے قریب واقع "رُشِکُلیہ ندی" کے کنارے میں "کُماری پہاڑیوں" پر واقع "تارا تَرینی مندر" ہے، جہاں چھاتی (پستان) کی عبادت گاہ (ستھنا پیٹھہ) اور آدی طاقت کے مظہر کے طور پر پوجا کی جاتی ہے۔ "تارا تارینی شکتی پیٹھہ"؛ دیوی کے قدیم ترین یاترا مراکز میں سے ایک ہے اور یہ بھارت میں چار بڑے قدیم تنتر پیٹھہ" اور شکتی پیٹھوں" میں سے ایک ہے۔ "دیومالی"؛ مشرقی گھاٹوں کی ایک پہاڑی چوٹی ہے۔ یہ "ضلع کورا پوٹ" میں واقع ہے۔ یہ چوٹی تقریباً 1,672 میٹر کی بلندی کے ساتھ، اڈیشا کی سب سے اونچی چوٹی ہے۔

ریاست میں غیر ملکی سیاحوں کی آمد کا حصہ پورے ہندوستان کی سطح پر غیر ملکی سیاحوں کی آمد کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔[139]

کھچنگ؛ سُکرُولی بلاک کے تحت ایک قدیم گاؤں ہے۔ سکرولی؛ بھارت کے اڈیشا کے ضلع میوربھنج کے مشہور مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ کِچَا کیشوَری مندر کا مقام ہے، جو کالے پتھر سے بنایا گیا ہے۔ کِھچِنگ؛ کرنجی سے 24 کلومیٹر مغرب میں اور کیندوجھر شہر سے تقریباً 50 کلومیٹر مشرق میں واقع ہے۔

"پوری بیچ" یا "گولڈن بیچ" بھارت کی ریاست اڈیشا ریاست میں پوری شہر کا ایک ساحل ہے۔ یہ خلیج بنگال کے کنارے ہے۔ یہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز اور ہندو مقدس جگہ ہونے کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ اور اسی شہر میں "جگن ناتھ مندر، پوری" واقع ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ^ ا ب "Population, Size and Decadal Change" [آبادی، حجم اور دہائی کی تبدیلی] (PDF)۔ بنیادی مردم شماری خلاصہ ڈیٹا کی جھلکیاں، بھارت میں مردم شماری۔ رجسٹرار جنرل اور مردم شماری کمشنر آف انڈیا۔ 2018۔ 19 اکتوبر 2019ء میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جون 2020ء 
  2. "Cities having population 1 lakh and above, Census 2011" [1 لاکھ اور اس سے زیادہ آبادی والے شہر، مردم شماری 2011ء] (PDF)۔ حکومت ہند۔ 25 نومبر 2014ء میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 فروری 2015ء 
  3. Socio-economic Profile of Rural India (series II).: Eastern India (Orissa, Jharkhand, West Bengal, Bihar and Uttar Pradesh) [دیہی ہند کا سماجی و اقتصادی نقشہ (سلسلہ II): مشرقی ہندوستان (اڑیسہ، جھارکھنڈ، مغربی بنگال، بہار اور اتر پردیش)]۔ دیہی ہندوستان کا سماجی و اقتصادی پروفائل۔ سینٹر فار رورل اسٹڈیز، ایل بی ایس نیشنل اکیڈمی آف ایڈمنسٹریشن، مسوری۔ 2011ء۔ صفحہ: 73۔ ISBN 978-81-8069-723-4۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-08-16ء 
  4. "Deomali Peak in Koraput India" [کوراپٹ، بھارت کی دیومالی چوٹی]۔ www.india9.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 مارچ 2023 
  5. ^ ا ب "Odisha Budget analysis" [اڈیشا بجٹ کا تجزیہ]۔ پی آر ایس انڈیا۔ 18 فروری 2020ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 ستمبر 2020ء 
  6. "Sub-national HDI – Subnational HDI – Global Data Lab" [ذیلی قومی ایچ ڈی آئی - سب نیشنل ایچ ڈی آئی - گلوبل ڈیٹا لیب]۔ globaldatalab.org۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2020 
  7. "State of Literacy" [خواندگی کی حالت] (PDF)۔ بھارت میں مردم شماری۔ صفحہ: 110۔ 6 جولائی 2015ء میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اگست 2015ء 
  8. "Report of the Commissioner for linguistic minorities: 47th report (July 2008 to June 2010)" [لسانی اقلیتوں کے لیے کمشنر کی رپورٹ: 47ویں رپورٹ (جولائی 2008ء تا جون 2010ء)] (PDF)۔ کمشنر برائے لسانی اقلیتیں، اقلیتی امور کی وزارت، حکومت ہند۔ صفحہ: 122–126۔ 13 مئی 2012ء میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 فروری 2012ء 
  9. "{{{1}}}"۔ لیکسو یوکے انگریزی لغت۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ این.ڈی. 
  10. ڈینیئل جونس (2003ء) [1917ء]۔ مدیران: پیٹر روچ، جیمز ہارٹ مین، جین سیٹر۔ English Pronouncing Dictionary [انگریزی تلفظ کی لغت]۔ کیمبرج: کیمبرج یونیورسٹی پریس۔ ISBN 3-12-539683-2 
  11. "ST & SC Development, Minorities & Backward Classes Welfare Department: Government of Odisha" [ایس ٹی اور ایس سی ڈیولپمنٹ، اقلیتی اور پسماندہ طبقات کی بہبود کا محکمہ: حکومت اڈیشا]۔ stscodisha.gov.in۔ 1 ستمبر 2018ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 دسمبر 2018ء 
  12. "Coastal security" [ساحلی حفاظت]۔ اڈیشا پولیس۔ 6 فروری 2015ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 فروری 2015ء 
  13. "The National Anthem of India" [بھارت کا قومی ترانہ] (PDF)۔ کولمبیا یونیورسٹی۔ 24 جنوری 2012ء میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 فروری 2015ء 
  14. "Cabinet approved Odia as Classical Language" [کابینہ نے اڈیا کو کلاسیکی زبان کے طور پر منظوری دی]۔ 21 فروری 2014ء۔ 25 فروری 2021ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اکتوبر 2020ء 
  15. ^ ا ب پ ت "Detail History of Orissa" [اڑیسہ کی تفصیلی تاریخ]۔ حکومت اڈیشا۔ 12 نومبر 2006ء میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  16. "Utkala Dibasa hails colours, flavours of Odisha" [اتکل دیوس اڈیشا کے رنگوں، ذائقوں کی تعریف کرتی ہے۔]۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 2 اپریل 2014ء۔ 8 جولائی 2015ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 فروری 2015ء 
  17. رابندر ناتھ چکرورتی (1985ء)۔ National Integration in Historical Perspective: A Cultural Regeneration in Eastern India [تاریخی تناظر میں قومی یکجہتی: مشرقی ہند میں ثقافتی تخلیق نو]۔ متل پبلیکیشنز۔ صفحہ: 17–۔ GGKEY:CNFHULBK119۔ 15 مئی 2013ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2012ء 
  18. روی کالیا (1994ء)۔ Bhubaneswar: From a Temple Town to a Capital City [بھوبنیشور: مندر کے شہر سے دار الحکومت تک]۔ ایس آئی یو پریس۔ صفحہ: 23۔ ISBN 978-0-8093-1876-6۔ 5 جنوری 2016ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 فروری 2015ء 
  19. "Sub-national HDI – Area Database" [ذیلی قومی ایچ ڈی آئی - ایریا ڈیٹا بیس]۔ گلوبل ڈیٹا لیب۔ انسٹی ٹیوٹ فار مینجمنٹ ریسرچ، ریڈباؤڈ یونیورسٹی۔ 23 ستمبر 2018ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 ستمبر 2018ء 
  20. C.B Patel (April 2010)۔ Origin and Evolution of the Name ODISA (PDF)۔ Bhubaneswar: I&PR Department, Government of Odisha۔ صفحہ: 28, 29, 30۔ 19 جون 2015 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جون 2015 
  21. Pritish Acharya (11 March 2008)۔ National Movement and Politics in Orissa, 1920–1929۔ SAGE Publications۔ صفحہ: 19۔ ISBN 978-81-321-0001-0۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  22. "Amid clash, House passes Bills to rename Orissa, its language"۔ دی ہندو۔ 9 November 2010۔ 17 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 فروری 2015 
  23. "Parliament passes bill to change Orissa's name"۔ این ڈی ٹی وی۔ 24 March 2011۔ 03 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 فروری 2015 
  24. "Orissa wants to change its name to Odisha"۔ ریڈف ڈاٹ کوم۔ 10 جون 2008۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جوں 2020 
  25. Amalananda Ghosh (1990)۔ An Encyclopaedia of Indian Archaeology۔ BRILL۔ صفحہ: 24۔ ISBN 9004092641۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اکتوبر 2012 
  26. Subodh Kapoor، مدیر (2004)۔ An Introduction to Epic Philosophy: Epic Period, History, Literature, Pantheon, Philosophy, Traditions, and Mythology, Volume 3۔ Genesis Publishing۔ صفحہ: 784۔ ISBN 9788177558814۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2012۔ Finally Srutayudha, a valiant hero, was son Varuna and of the river Parnasa. 
  27. Devendrakumar Rajaram Patil (1946)۔ Cultural History from the Vāyu Purāna۔ Motilal Banarsidass Pub.۔ صفحہ: 46۔ ISBN 9788120820852۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 نومبر 2015 
  28. "Dance bow (1965.3.5)"۔ Pitt Rivers Museum۔ 02 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 فروری 2015 
  29. Rabindra Nath Pati (1 January 2008)۔ Family Planning۔ APH Publishing۔ صفحہ: 97۔ ISBN 978-81-313-0352-8۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 فروری 2015 
  30. Suhas Chatterjee (1 January 1998)۔ Indian Civilization And Culture۔ M.D. Publications Pvt. Ltd.۔ صفحہ: 68۔ ISBN 978-81-7533-083-2۔ 15 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 فروری 2013 
  31. ^ ا ب Hermann Kulke، Dietmar Rothermund (2004)۔ A History of India۔ Routledge۔ صفحہ: 66۔ ISBN 9780415329194۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2012 
  32. ^ ا ب Mookerji Radhakumud (1995)۔ Asoka۔ Motilal Banarsidass۔ صفحہ: 214۔ ISBN 978-81-208-0582-8۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 اگست 2015 
  33. Sailendra Nath Sen (1 January 1999)۔ Ancient Indian History and Civilization۔ New Age International۔ صفحہ: 153۔ ISBN 978-81-224-1198-0۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 اگست 2015 
  34. Austin Patrick Olivelle Alma Cowden Madden Centennial Professor in Liberal Arts University of Texas (19 June 2006)۔ Between the Empires : Society in India 300 BCE to 400 CE: Society in India 300 BCE to 400 CE۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 78۔ ISBN 978-0-19-977507-1۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  35. Reddy (1 December 2006)۔ Indian Hist (Opt)۔ Tata McGraw-Hill Education۔ صفحہ: A254۔ ISBN 978-0-07-063577-7۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  36. Indian History۔ Allied Publishers۔ 1988۔ صفحہ: 74۔ ISBN 978-81-8424-568-4۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  37. Ronald M. Davidson (13 August 2013)۔ Indian Esoteric Buddhism: A Social History of the Tantric Movement۔ Columbia University Press۔ صفحہ: 60۔ ISBN 978-0-231-50102-6۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  38. R. C. Majumdar (1996)۔ Outline of the History of Kalinga۔ Asian Educational Services۔ صفحہ: 28۔ ISBN 978-81-206-1194-8۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  39. Roshen Dalal (18 April 2014)۔ The Religions of India: A Concise Guide to Nine Major Faiths۔ Penguin Books Limited۔ صفحہ: 559۔ ISBN 978-81-8475-396-7۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  40. Indian History۔ Tata McGraw-Hill Education۔ صفحہ: 2۔ ISBN 978-0-07-132923-1۔ 01 جنوری 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 مئی 2013 
  41. Sailendra Sen (2013)۔ A Textbook of Medieval Indian History۔ Primus Books۔ صفحہ: 121–122۔ ISBN 978-93-80607-34-4 
  42. Orissa General Knowledge۔ Bright Publications۔ صفحہ: 27۔ ISBN 978-81-7199-574-5۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  43. L.S.S. O'Malley (1 January 2007)۔ Bengal District Gazetteer : Puri۔ Concept Publishing Company۔ صفحہ: 33۔ ISBN 978-81-7268-138-8۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  44. Sailendra Nath Sen (2010)۔ An Advanced History of Modern India۔ Macmillan India۔ صفحہ: 32۔ ISBN 978-0-230-32885-3۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  45. Bandita Devi (January 1992)۔ Some Aspects of British Administration in Orissa, 1912–1936۔ Academic Foundation۔ صفحہ: 14۔ ISBN 978-81-7188-072-0۔ 21 دسمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 دسمبر 2016 
  46. William A. Dando (13 February 2012)۔ Food and Famine in the 21st Century [2 volumes]۔ ABC-CLIO۔ صفحہ: 47۔ ISBN 978-1-59884-731-4۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  47. J. K. Samal، Pradip Kumar Nayak (1 January 1996)۔ Makers of Modern Orissa: Contributions of Some Leading Personalities of Orissa in the 2nd Half of the 19th Century۔ Abhinav Publications۔ صفحہ: 32۔ ISBN 978-81-7017-322-9۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  48. K.S. Padhy (30 July 2011)۔ Indian Political Thought۔ PHI Learning Pvt. Ltd.۔ صفحہ: 287۔ ISBN 978-81-203-4305-4۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  49. ଇତିହାସ ଓ ରାଜନୀତି ବିଜ୍ଞାନ (ଶ୍ରେଣୀ ୧୦) [اڑیا تاریخ و سیاسی سائنس (دسویں کلاس)] (بزبان اڈیا) (2018ء ایڈیشن)۔ اڈیشا سرکار۔ صفحہ: 62، 69 
  50. Usha Jha (1 January 2003)۔ Land, Labour, and Power: Agrarian Crisis and the State in Bihar (1937–52)۔ Aakar Books۔ صفحہ: 246۔ ISBN 978-81-87879-07-7۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  51. ^ ا ب Bandita Devi (1 January 1992)۔ Some Aspects of British Administration in Orissa, 1912–1936۔ Academic Foundation۔ صفحہ: 214۔ ISBN 978-81-7188-072-0۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  52. "Hubback's memoirs: First Governor Of State Reserved Tone Of Mild Contempt For Indians"۔ ٹیلی گراف۔ 29 November 2010۔ 04 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  53. B. Krishna (2007)۔ India's Bismarck, Sardar Vallabhbhai Patel۔ Indus Source۔ صفحہ: 243–244۔ ISBN 978-81-88569-14-4۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  54. "Merger of the Princely States of Odisha – History of Odisha" (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 مئی 2020 
  55. ^ ا ب پ ت "Geography of Odisha"۔ Know India۔ حکومت ہند۔ 04 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2015 
  56. "Cuttack"۔ حکومت اڈیشا۔ 06 دسمبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 اگست 2015 
  57. Alakananda Dasgupta، Subhra Priyadarshini (29 May 2019)۔ "Why Odisha is a sitting duck for extreme cyclones"۔ Nature India۔ ISSN 1755-3180۔ doi:10.1038/nindia.2019.69 (غیر فعال 31 May 2021) 
  58. Socio-economic Profile of Rural India (series II).: Eastern India (Orissa, Jharkhand, West Bengal, Bihar and Uttar Pradesh)۔ Concept Publishing Company۔ 2011۔ صفحہ: 73۔ ISBN 978-81-8069-723-4۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 فروری 2015 
  59. https://eparlib.nic.in/bitstream/123456789/1589/1/lsd_02_06_17-11-1958.pdf page 46
  60. "Monthly mean maximum & minimum temperature and total rainfall based upon 1901–2000 data" (PDF)۔ India Meteorological Department۔ 13 اپریل 2015 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2015 
  61. "Study shows Odisha forest cover shrinking"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 16 February 2012۔ 17 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  62. Underutilized and Underexploited Horticultural Crops۔ New India Publishing۔ 1 January 2007۔ صفحہ: 116۔ ISBN 978-81-89422-60-8۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  63. "Orchid House a haven for nature lovers"۔ دی ٹیلی گراف (بھارت)۔ 23 August 2010۔ 05 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  64. "Similipal Tiger Reserve"۔ World Wide Fund for Nature, India۔ 05 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  65. "Banished from their homes"۔ The Pioneer۔ 29 August 2012۔ 04 ستمبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  66. "Away from home, Chandaka elephants face a wipeout"۔ دی نیو انڈین ایکسپریس۔ 23 August 2013۔ 05 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  67. Sharad Singh Negi (1 January 1993)۔ Biodiversity and Its Conservation in India۔ Indus Publishing۔ صفحہ: 242۔ ISBN 978-81-85182-88-9۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  68. Venkatesh Salagrama (2006)۔ Trends in Poverty and Livelihoods in Coastal Fishing Communities of Orissa State, India۔ Food & Agriculture Org.۔ صفحہ: 16–17۔ ISBN 978-92-5-105566-3۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  69. "Olive Ridley turtles begin mass nesting"۔ دی ہندو۔ 12 February 2014۔ 17 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  70. "Mass nesting of Olive Ridleys begins at Rushikulya beach"۔ دی ہندو۔ 15 March 2004۔ 17 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  71. "Bhitarkanika Park to be Closed for Crocodile Census"۔ دی نیو انڈین ایکسپریس۔ 3 December 2013۔ 05 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  72. "Bird Count Rises in Bhitarkanika"۔ دی نیو انڈین ایکسپریس۔ 14 September 2014۔ 05 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  73. "Concern over dwindling horseshoe crab population"۔ دی ہندو۔ 8 December 2013۔ 17 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  74. Pushpendra K. Agarwal، Vijay P. Singh (16 May 2007)۔ Hydrology and Water Resources of India۔ Springer Science & Business Media۔ صفحہ: 984۔ ISBN 978-1-4020-5180-7۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  75. "Number of birds visiting Chilika falls but new species found"۔ دی ہندو۔ 9 January 2013۔ 31 اگست 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  76. "Chilika registers sharp drop in winged visitors"۔ دی ہندو۔ 13 January 2014۔ 17 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  77. "Two new species of migratory birds sighted in Chilika Lake"۔ دی ہندو۔ 8 January 2013۔ 17 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  78. "Dolphin population on rise in Chilika Lake"۔ دی ہندو۔ 18 February 2010۔ 17 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  79. "Maiden Dolphin Census in State's Multiple Places on Cards"۔ دی نیو انڈین ایکسپریس۔ 20 جنوری 2015۔ 23 جنوری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  80. پریشیش رونگمی (14 ستمبر 2023ء)۔ "Empty beaches, dolphins and more at Odisha's Rajhans Island" [اڈیشا کے راج ہنس جزیرے پر خالی ساحل، ڈالفن اور بہت کچھ]۔ ٹائمز آف انڈیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اگست 2024ء 
  81. "Besides Satapada, Irrawaddy Dolphins sighted in new areas of Chilika lake" [سات پڈا کے علاوہ چلیکا جھیل کے نئے علاقوں میں اراوادی ڈالفن دیکھے گئے]۔ اڑیسہ پوسٹ (بزبان انگریزی)۔ 21 جنوری 2020ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اگست 2024 
  82. "Wildlife Census - Odisha Wildlife Organisation"۔ 19 اگست 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اگست 2021 
  83. P.K. Dash، Santilata Sahoo، Subhasisa Bal (2008)۔ "Ethnobotanical Studies on Orchids of Niyamgiri Hill Ranges, Orissa, India"۔ Ethnobotanical Leaflets (12): 70–78۔ 05 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2015 
  84. Chandan Sengupta، Stuart Corbridge (28 October 2013)۔ Democracy, Development and Decentralisation in India: Continuing Debates۔ Routledge۔ صفحہ: 8۔ ISBN 978-1-136-19848-9۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 فروری 2015 
  85. "Our Parliament" (PDF)۔ لوک سبھا۔ حکومت ہند۔ 03 فروری 2015 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 فروری 2015 
  86. ^ ا ب "BJD's landslide victory in Odisha, wins 20 of 21 Lok Sabha seats"۔ سی این این نیوز 18۔ 17 May 2014۔ 08 ستمبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2015 
  87. Ada W. Finifter۔ Political Science۔ FK Publications۔ صفحہ: 94۔ ISBN 978-81-89597-13-9۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 فروری 2015 
  88. ^ ا ب Rajesh Kumar۔ Universal's Guide to the Constitution of India۔ Universal Law Publishing۔ صفحہ: 107–110۔ ISBN 978-93-5035-011-9۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2015 
  89. Ramesh Kumar Arora، Rajni Goyal (1995)۔ Indian Public Administration: Institutions and Issues۔ New Age International۔ صفحہ: 205–207۔ ISBN 978-81-7328-068-9۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2015 
  90. Subhash Shukla (2008)۔ Issues in Indian Polity۔ Anamika Pub. & distributors۔ صفحہ: 99۔ ISBN 978-81-7975-217-3۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2015 
  91. ^ ا ب "About Department"۔ Revenue & Disaster Management Department, Government of Odisha۔ 06 دسمبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مارچ 2015 
  92. Laxmikanth۔ Governance in India۔ McGraw-Hill Education (India) Pvt Limited۔ صفحہ: 6–17۔ ISBN 978-0-07-107466-7۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مارچ 2015 
  93. ^ ا ب "Administrative Unit"۔ Revenue & Disaster Management Department, Government of Odisha۔ 21 اگست 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مارچ 2015 
  94. Siuli Sarkar (9 November 2009)۔ Public Administration in India۔ PHI Learning Pvt. Ltd.۔ صفحہ: 117۔ ISBN 978-81-203-3979-8۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اگست 2015 
  95. Public Administration Dictionary۔ Tata McGraw Hill Education۔ 2012۔ صفحہ: 263۔ ISBN 978-1-259-00382-0۔ 05 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اگست 2015 
  96. "GDP growth: Most states grew faster than national rate in 2012–13"۔ The Financial Express۔ 12 December 2013۔ 15 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 مئی 2012 
  97. "Bhubaneswar leads Govt's Smart City list, Rs 50,802 crore to be invested over five years"۔ The Indian Express۔ 29 January 2016۔ 18 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 مارچ 2016 
  98. "Indian states that attracted highest FDI"۔ Rediff۔ 29 August 2012۔ 08 اپریل 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اپریل 2014 
  99. "Rourkela Steel Plant"۔ Sail.co.in۔ 31 مئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 مئی 2012 
  100. "Reliance to invest Rs 60,000-cr for Orissa power plant"۔ dna۔ 03 ستمبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اگست 2014 
  101. "Gujarat, Odisha and Andhra top 3 Domestic Investment Destinations of 2009"۔ Assocham۔ 21 January 2010۔ 23 جولا‎ئی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولا‎ئی 2010 
  102. "Rourkela Steel Plant"۔ Sail.co.in۔ 31 مئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 مئی 2012 
  103. "Reliance to invest Rs 60,000-cr for Orissa power plant"۔ dna۔ 3 ستمبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اگست 2014 
  104. "Ten-year roadmap for State's civil aviation"۔ The Pioneer۔ India۔ 2012۔ 30 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اگست 2012۔ at present there are 17 airstrips and 16 helipads in Odisha, 
  105. "10-year roadmap set up to boost Odisha civil aviation"۔ odishanow.in۔ 2012۔ 15 اکتوبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اگست 2012۔ Odisha has 17 airstrips and 16 helipads. 
  106. "Odisha initiate steps for intra and inter state aviation facilities"۔ news.webindia123.com۔ 2012۔ 13 جنوری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اگست 2012۔ Odisha has 17 airstrips and 16 helipads 
  107. "J'suguda Airport fit for 320 Airbus flight"۔ The Pioneer۔ 2 August 2018۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 ستمبر 2018 
  108. "Odisha plans five new airports"۔ بزنس لائن۔ 14 August 2012۔ 03 نومبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2013 
  109. "Adani Group plans airport at Dhamra"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 13 November 2018۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2020 
  110. P. Division۔ INDIA 2019: A REFERENCE ANNUAL۔ Publications Division Ministry of Information & Broadcasting۔ صفحہ: 701۔ ISBN 978-81-230-3026-5۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولا‎ئی 2019 
  111. India. Parliament. Rajya Sabha (2012)۔ Parliamentary Debates: Official Report۔ Council of States Secretariat۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولا‎ئی 2019 
  112. Decadal Variation In Population Since 1901
  113. "India States Briefs – Odisha"۔ World Bank۔ 31 May 2016۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جولا‎ئی 2019 
  114. "NITI Aayog report: Odisha tops in poverty reduction rate among other states"۔ Pragativadi: Leading Odia Dailly۔ 30 July 2017۔ 12 جولا‎ئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جولا‎ئی 2019 
  115. "Sub-national HDI - Subnational HDI - Global Data Lab"۔ globaldatalab.org۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مارچ 2021 
  116. Decadal Variation In Population Since 1901
  117. "Population by religion community – 2011"۔ Census of India, 2011۔ The Registrar General & Census Commissioner, India۔ 25 اگست 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  118. ^ ا ب "Census of India – Socio-cultural aspects"۔ Government of India, Ministry of Home Affairs۔ 20 مئی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 مارچ 2011 
  119. P. 63 Case studies on human rights and fundamental freedoms: a world survey, Volume 4 By Willem Adriaan Veenhoven
  120. P. 77 Encyclopedia Americana, Volume 30 By Scholastic Library Publishing
  121. Madhusudan Rao By Jatindra Mohan Mohanty, Sahitya Akademi
  122. ^ ا ب "Language – India, States and Union Territories" (PDF)۔ Census of India 2011۔ Office of the Registrar General۔ صفحہ: 13–14۔ 14 نومبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جنوری 2019 
  123. ":: Law Department (Government of Odisha) ::"۔ lawodisha.gov.in۔ 02 مارچ 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اکتوبر 2019 
  124. B. P. Mahapatra (2002)۔ Linguistic Survey of India: Orissa۔ Kolkata, India: Language Division, Office of the Registrar General۔ صفحہ: 13–14۔ 13 نومبر 2013 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 فروری 2014 
  125. "Atlas of languages in danger | United Nations Educational, Scientific and Cultural Organization"۔ UNESCO۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اکتوبر 2019 
  126. "Pandit Raghunath Murmu Medical College & Hospital"۔ prmmchbaripada.in۔ 09 ستمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 ستمبر 2017 
  127. "SLN Medical College & Hospital"۔ slnmch.nic.in۔ 09 ستمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 ستمبر 2017 
  128. "آرکائیو کاپی"۔ 02 اپریل 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اپریل 2021 
  129. "Biju Patnaik University of Technology"۔ Bput.org۔ 05 دسمبر 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولا‎ئی 2010 
  130. National Association on Indian Affairs، American Association on Indian Affairs (1949)۔ Indian Affairs۔ 06 جون 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جون 2012 
  131. S.P. Sharma، Seema Gupta (3 October 2006)۔ Fairs & Festivals of India۔ Pustak Mahal۔ صفحہ: 103–۔ ISBN 978-81-223-0951-5۔ 08 جون 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جون 2012 
  132. Mitra Bishwabijoy (6 July 2015)۔ "Who invented the rasgulla?"۔ The Times of India۔ 09 جولا‎ئی 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 اگست 2015 
  133. "Chhenapoda"۔ Simply TADKA۔ 09 جنوری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 جنوری 2015 
  134. "Odisha Rasagola receives geographical indication tag; here's what it means"۔ www.businesstoday.in۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 نومبر 2019 
  135. "Odissi Kala Kendra"۔ odissi.itgo.com۔ 12 مئی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولا‎ئی 2010 
  136. Mohammad Suffian (February 16, 2021)۔ "Odisha CM Lays Foundation of India's Largest Hockey Stadium named after 'Birsa Munda' In Rourkela"۔ India Today 
  137. Ara Norenzayan (25 August 2013)۔ Big Gods: How Religion Transformed Cooperation and Conflict۔ Princeton University Press۔ صفحہ: 55–56۔ ISBN 978-1-4008-4832-4۔ 08 فروری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 دسمبر 2015 
  138. "MTN 82:9–10 Olive ridley tagged in Odisha recovered in the coastal waters of eastern Sri Lanka"۔ Seaturtle.org۔ 07 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جولا‎ئی 2010 
  139. "Odisha - Economic Survey 2014-15" (PDF)۔ 15 فروری 2017 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 فروری 2017 

بیرونی روابط

[ترمیم]
حکومت
عام معلومات