مندرجات کا رخ کریں

کولکاتا

متناسقات: 22°34′22″N 88°21′50″E / 22.57278°N 88.36389°E / 22.57278; 88.36389
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(کولکاتہ سے رجوع مکرر)


کلکتہ
Calcutta
میگا شہر
اوپر سے گھڑی وار: وکٹوریہ میموریل، سینٹ پال کیتھیڈرل، سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ، ہاوڑہ پل، سٹی ٹرام لائن، ودیاساگر پل
اوپر سے گھڑی وار: وکٹوریہ میموریل، سینٹ پال کیتھیڈرل، سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ، ہاوڑہ پل، سٹی ٹرام لائن، ودیاساگر پل
عرفیت: خوشی کا شہر
محلات کا شہر[1]
بھارت کا ثقافتی دار الحکومت[2][3][4][5][6]
کولکاتا Kolkata is located in مغربی بنگال
کولکاتا Kolkata
کولکاتا
Kolkata
کولکاتا Kolkata is located in ٰبھارت
کولکاتا Kolkata
کولکاتا
Kolkata
مغربی بنگال میں کولکاتا کا مقام
متناسقات: 22°34′22″N 88°21′50″E / 22.57278°N 88.36389°E / 22.57278; 88.36389
ملک بھارت
ریاستمغربی بنگال
ڈویژنپریزیڈینسی
ضلعکولکاتا[upper-alpha 1]
حکومت
 • قسممیئر کونسل
 • مجلسکے ایم سی
 • میئرسووان چیٹرجی[7]
 • شیرفرنجیت ملک[8]
 • پولیس کمشنرراجیو کمار[9]
رقبہ[10]
 • میگا شہر185.00 کلومیٹر2 (71.43 میل مربع)
 • میٹرو1,886.67 کلومیٹر2 (728.45 میل مربع)
بلندی9 میل (30 فٹ)
آبادی (2011)[10][11]
 • میگا شہر4,496,694
 • درجہساتواں
 • کثافت24,000/کلومیٹر2 (63,000/میل مربع)
 • میٹرو[12][13]14,112,536
14,617,882 (توسیعی شہری علاقہ)
 • میٹرو درجہتیسرا
نام آبادیکولکاتن
منطقۂ وقتبھارتی معیاری وقت (UTC+05:30)
ڈاک اشاریہ رمز700 001 تا 700 162
ٹیلی فون کوڈ+91-33
گاڑی کی نمبر پلیٹڈبلیو بی 01 تا ڈبلیو بی 10، ڈبلیو بی 19 تا ڈبلیو بی 22
اقوام متحدہ کوڈ برائے تجارت اور ٹرانسپورٹ مقاماتIN CCU
میٹرو جی ڈی پی$60 تا $150 بلین (مساوی قوت خرید)[14][15][16]
دفتری زبانبنگلہ[17]
ویب سائٹwww.kmcgov.in
  1. کولکاتا میٹروپولیٹن علاقے میں شمالی 24 پرگنہ، جنوبی 24 پرگنہ، ہاوڑہ ، ندیا اور ہوگلی اضلاع کے حصے شامل ہیں۔ ملاحظہ کریں: شہری ساخت۔

کَلکتہ یا کُلکتہ (انگریزی: Kolkata؛ (بنگالی: কলকাতা)‏؛بنگالی تلفظ: [kolkat̪a]) جس کا سرکاری نام سنہ 2001ء سے قبل کَلکتّہ (انگریزی: Calcutta؛ تلفظ: /kælˈkʌtə/) تھا (اردو میں معمولاً کلکتہ ہی کہتے ہیں)، بھارت کی ریاست مغربی بنگال کا دار الحکومت ہے جو دریائے ہوگلی کے مشرقی کنارے پر واقع ہے اور مشرقی بھارت کا اہم تجارتی، ثقافتی اور تعلیمی مرکز ہے۔ کلکتہ بندرگاہ بھارت کی قدیم ترین اور واحد اہم دریائی بندرگاہ ہے۔

2011ء میں شہر کی آبادی 4.5 ملین، جبکہ شہر اور اس کے مضافات کی آبادی 14.1 ملین تھی جو اسے بھارت کا تیسرا بڑا میٹروپولیٹن علاقہ بناتی ہے۔ کلکتہ میٹروپولیٹن علاقے کی معیشت کا حالیہ تخمینہ 60 تا 150 بلین امریکی ڈالر (مساوی قوتِ خرید خام ملکی پیداوار ) تھا، جو اسے ممبئی اور دہلی کے بعد بھارت کا تیسرا سب سے زیادہ پیداواری میٹروپولیٹن علاقہ بناتا ہے۔[14][15][16]

اپنے بہترین محل وقوع کی وجہ سے کلکتہ کو "مشرقی بھارت کا داخلی دروازہ" بھی کہا جاتا ہے۔ یہ نقل و حمل کا اہم مرکز، وسیع مارکیٹ تقسیم مرکز، تعلیمی مرکز، صنعتی مرکز اور تجارتی مرکز ہے۔ کلکتہ کے قریب دریائے ہوگلی کے دونوں کناروں پر بھارت کے زیادہ تر پٹ سن کے کارخانے واقع ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں موٹر گاڑیاں تیار کرنے کی صنعت، کپاس-کپڑے کی صنعت، کاغذ کی صنعت، مختلف قسم کی انجینئری کی صنعت، جوتوں کی صنعت، ہوزری صنعت اور چائے فروخت کے مراکز وغیرہ بھی موجود ہیں۔

سرکاری طور پر 1 جنوری، 2001ء کو اس شہر کا نام تبدیل کر کے اس کے بنگالی تلفظ پر کلکتہ رکھا گیا۔[18] لفظ کلکتہ بنگالی اصطلاح کُلِکَتَہ ((بنگالی: কলিকাতা)‏) تلفظ: [ˈkɔlikat̪a]) سے حاصل ہے جو انگریزوں کی آمد کے زمانہ میں اس جگہ پر موجود تین دیہاتوں میں سے ایک کا نام تھا۔ دیگر دو دیہات شوتنتی ((بنگالی: সুতানুটি)‏) اور گوبندپور ((بنگالی: গোবিন্দপুর)‏) تھے۔[19]

اس کا سابق نام انگریزی میں کیلکٹا (Calcutta) تھا لیکن بنگلہ بولنے والے اسے ہمیشہ کُلکتہ یا کُلکاتا ہی کہتے ہیں۔ ہندی اور اردو میں اسے کلکتہ (कलकत्ता) کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اس کے نام کی اصل کے بارے میں کئی طرح کی کہانیاں مشہور ہیں۔ سب سے زیادہ مقبول کہانی کے مطابق اس شہر کے نام ہندوؤں کی دیوی کالی کے نام سے ہے۔

  • تصور کیا جاتا ہے کہ اصطلاح کُلکَتہ ((بنگالی: কালীক্ষেত্র)‏) (کالی کھیترو: Kalikkhetrô) کی بگڑی ہوئی شکل ہے جس کے معنی کالی کا کھیت کے ہیں۔ جبکہ ایک اور خیال کے مطابق یہ (سنسکرت: कालीक्षेत्र، نقل حرفی: کالکشیتر، Kalakshetra) سے ہو سکتا ہے جس کے معنی کالی کا علاقہ کے ہیں۔
  • متبادل طور پر نام بنگالی اصطلاح (بنگالی: কিলকিলা)‏) (کلکیلا: kilkila) سے اخذ ہو سکتا ہے جس کے معنی ہموار علاقہ کے ہیں۔[20]
  • ایک اور نظریہ کے مطابق علاقے کچا چونا (quicklime) یا کولی چن [ˈkɔlitɕun] ((بنگالی: |কলি)‏) کی پیداوار اور ناریل کے ریشہ (coir or kata) تلفظ: [ˈkat̪a] ((بنگالی: কাতা)‏) کے لیے مشہور تھا اس لیے اسے کولی + کاتا کہا جانے لگا۔ تلفظ: [ˈkɔlikat̪a] ((بنگالی: কলিকাতা)‏)۔[20]

تاریخ

کلکتہ کے شمال میں 35 کلومیٹر (22 میل) کے فاصلے پر شمال میں چندرکیتوگڑھ کے آثار قدیمہ کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ یہ علاقہ دو ہزار سال قبل آباد تھا۔ [21][22] مہا بھارت میں بھی بنگال کے کچھ راجاؤں کا نام ہے جو کورو فوج کی جانب سے جنگ میں شامل ہوئے تھے۔ اس شہر کے وجود کا ذکر تجارتی بندرگاہ کے طور پر چین کے قدیم مسافروں کے سفرناموں اور فارسی تاجروں کی دستاویزات میں ملتا ہے۔ شہنشاہ اکبر کی محصول دستاویزات اور پندرہویں صدی کے ادب اور نظموں میں اس نام کا بار بار ذکر ملتا ہے۔

فورٹ ولیم، کلکتہ
گورنمنٹ ہاؤس، کلکتہ

1698ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک مقامی زمیندار خاندان ساورن رائے چودھری سے تین گاؤں (شوتنتی، کولیکاتا اور گوبندپور) حاصل کیے۔ اگلے سال کمپنی نے ان تین گاؤں کا ارتقا پریسیڈنسی سٹی کے طور پر شروع کر دیا۔ 1727ء میں مملکت برطانیہ عظمی کے بادشاہ جارج دوم کے حکم کے مطابق یہاں ایک شہری عدالت قائم کی گئی۔ کلکتہ میونسپل کارپوریشن قائم کی گئی اور پہلے میئر کا انتخاب ہوا۔ 1756ء میں بنگال کے نواب سراج الدولہ نے کلکتہ پر حملہ کرکے اسے فتح کر لیا اس نے اس کا نام علی نگر رکھا۔ لیکن سال بھر کے اندر ہی سراج الدولہ کی گرفت یہاں ڈھیلی پڑ گئی اور انگریزوں کا اس پر دوبارہ غلبہ ہو گیا۔ 1772ء میں وارن ہیسٹنگز نے اسے برطانوی راج کا ہندوستانی دار الحکومت بنا دیا۔ کچھ مورخ اس شہر کو ایک بڑے شہر کے طور پر 1698ء میں فورٹ ولیم کے قیام سے جوڑتے ہیں۔ 1911ء تک کلکتہ ہندوستان میں برطانوی راج کا دارالحکومت رہا۔

22 اکتوبر، 1764ء کو برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی اور نواب بنگال میر قاسم، نواب اودھ، مغل شہنشاہ شاہ عالم ثانی کے درمیان بکسر کے مقام پر جنگ ہوئی جسے بکسر کی لڑائی کہا جاتا ہے۔ اس میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو فتح حاصل ہوئی۔ 1757ء کے بعد سے اس شہر پر مکمل طور انگریزوں کا غلبہ ہو گیا اور 1850ء کے بعد سے اس شہر میں تیزی سے صنعتی ترقی ہونا شروع ہوئی خاص طور پر کپڑوں کے صنعت میں۔ 5 اکتوبر 1865ء کو سمندری طوفان (جس میں ساٹھ ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے) کی وجہ سے کلکتہ میں بری طرح تباہی ہونے کے باوجود کلکتہ صنعتی طور پر اگلے ڈیڈھ سو سالوں میں بڑھتا ہی رہا۔

1850ء کی دہائی تک کلکتہ دو علاقوں میں تقسیم ہو چکا تھا ایک گوروں کا شہر چورنگی اور ڈلہوزی اسکوائر جس میں بنیادی طور پر برطانوی مقیم تھے جبکہ دوسرا کالوں کا شہر جس میں مقامی لوگ آباد تھے۔

برطانیہ نے 1911ء میں دار الحکومت نئی دہلی منتقل کر دیا۔ [23] تاہم کلکتہ (کلکتہ) کا تحریک آزادی ہند میں مرکزی کردار رہا ۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران 1942ء اور 1944ء میں شہر اور اس بندرگاہ پر جاپانیوں نے کئی بار بمباری کی۔ [24][25] جنگ کے ساتھ فوجی، انتظامی اور قدرتی عوامل کے ایک مجموعہ کی وجہ 1943ء کے بنگال قحط کے دوران لاکھوں افراد ہلاک ہوئے۔ [26] 1946ء میں ایک مسلم ریاست کی تشکیل کے مطالبات پر فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں 4،000 سے زائد ہلاک ہوئے۔ [27][28][29] تقسیم ہند کی وجہ سے مزید فسادات ہوئے۔ مسلمانوں ایک کثیر تعداد مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) ہجرت کر گئی اور اس طرح مشرقی بنگال سے ہندو کلکتہ آ گئے۔ [30]

آج اس کی آبادی لگ بگ 1 کروڑ 40 لاکھ ہے۔ کولکتہ 1980ء سے قبل کلکتہ بھارت کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر تھا، لیکن اس کے بعد ممبئی نے اس کی جگہ لی۔

بابو ثقافت

برطانوی راج کے دوران جب کلکتہ ہندوستان کا دارالحکومت تھا، کلکتہ کو لندن کے بعد سلطنت برطانیہ کا دوسرا سب سے بڑا شہر سمجھا جاتا تھا۔ اس شہر کی شناخت محلات کا شہر، مشرق کا موتی وغیرہ کے طور پر تھی۔ اسی دوران بنگال اور خاص طور پر کلکتہ میں بابو ثقافت کا ارتقا ہوا جو برطانوی لبرل ازم اور بنگالی سماج میں بغاوت کا نتیجہ تھا۔ اس کی بنیادی وجہ بنگالی زمینداری رواج، ہندو مذہب کا متعصبانہ رویہ، سماجی، سیاسی اور اخلاقی اقدار میں تبدیلی تھی۔ اسی کشمکش کے نتیجہ میں کہ انگریزوں کے جدید تعلیمی اداروں میں پڑھے کچھ لوگوں نے بنگال کے معاشرے میں اصلاح پسند بحث کو جنم دیا۔ بنیادی طور پر بابو ان لوگوں کو کہا جاتا تھا جو مغربی طریقے کی تعلیم پاکر بھارتی اقدار کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے اور خود کو زیادہ سے زیادہ مغربی انداز میں ڈھالنے کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن لاکھ کوششوں کے باوجود جب انگریزوں کے درمیان ان کا فرق برقرار رہا تو اس کے برعکس نتائج بھی آئے، اسی قسم کے کچھ لوگوں نے نئی بحثوں کا آغاز کیا جو بنگال کے "حیات نو" (پنرجہرن) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے تحت بنگال میں سماجی، سیاسی اور مذہبی اصلاحات ہوئیں۔ بنگلہ ادب نے نئی ااونچائیوں چھوا جس کا اثر دیگر ہندوستانی برادریوں نے بھی اپنایا۔

معیشت

ساؤتھ سٹی مال

کلکتہ مشرقی اور شمال مشرقی بھارت کا بنیادی تجارتی اور مالیاتی مرکز ہے۔ [31] یہاں کلکتہ اسٹاک ایکسچینج بھی واقع ہے، جو بھارت کا دوسرا سب سے بڑا اسٹاک ایکسچینج ہے۔ [32][33] یہاں اہم تجارتی اور فوجی بندرگاہ بھی ہے، اس کے علاوہ اس علاقے کا واحد بین الاقوامی ہوائی اڈا بھی یہیں ہے۔ ہندوستان کے اہم تجارتی شہر کلکتہ کو آزادی بعد کچھ ابتدائی سالوں میں کساد بازاری کا سامنا رہا، جس کی بنیادی وجہ سیاسی عدم استحکام اور تجارتی یونینوں کا بڑھنا تھا۔ [34] 1960ء کی دہائی سے 1990ء کے دہائی کے وسط تک شہر کی معیشت مسلسل گرتی گئی جس کی وجہ یہاں پر بند یا منتقل ہوتے کارخانے اور کاروبار تھے۔ [34] بھارتی اقتصادی پالیسی کی اصلاحات کے عمل سے 1990ء کے دہائی میں شہر کے اقتصاد کو نئی سمت دی گئی، اس کے بعد پیداوار بھی بڑھی اور بے روزگار لوگوں کو کام بھی ملا۔ [35]

شہر کی افرادی قوت میں سرکاری اور نجی کمپنیوں کے ملازم ایک بڑا حصہ ہیں۔ یہاں بڑی تعداد میں غیر ہنر مند اور نیم ہنر مند کارکنان موجود ہیں۔ ماہر کاریگرں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو شہر کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے۔ شہر کی اقتصادی حالت کی بہتری میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی خدمات کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں یہاں سالانہ تقریباً 70 فیصد ترقی ہورہی ہے جو قومی اوسط دگنا ہے۔ [36] حالیہ برسوں میں یہاں تعمیرات اور ریئل اسٹیٹ کے شعبے میں بھی سرمایہ کار کافی دلچسبی لے رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے شہر میں کئی نئے منصوبوں کا آغاز ہوا ہے۔ [37] کلکتہ میں کئی بڑی بھارتی کارپوریشنز کے صنعتی یونٹس قائم ہیں، جن کے مصنوعات پٹ سن سے لے کر الیکٹرانک اشیا تک ہیں۔ کچھ قابل ذکر کمپنیاں جن کے صدر دفتر یہاں ہیں، آئی ٹی سی لمیٹڈ، باٹا ، برلا کارپوریشن، کول انڈیا لمیٹڈ، دامودر ویلی کارپوریشن، یونائیٹڈ بینک آف انڈیا، یوکو بینک اور الہ آباد بینک وغیرہ اہم ہیں۔ حال ہی میں حکومت ہند کی "مشرق دیکھو" (لک ایسٹ) پالیسی کی وجہ سے چین اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سے تجارتی روابط بڑھانے کی پالیسیوں کی وجہ سے یہاں کئی ممالک نے بھارتی بازار میں قدم کیا ہے۔ اسی وجہ سے کلکتہ میں سرمایہ کاری کرنے سے یہاں کی اقتصادیات میں خاصہ اضافہ ہوا ہے۔ [38][39]

جدید کولکاتا

جغرافیہ

دریائے ہوگلی، کلکتہ

کلکتہ مشرقی بھارت میں 22°34′22″N 88°21′50″E / 22.57278°N 88.36389°E / 22.57278; 88.36389 پر واقع ہے۔ شہر کے مشرق میں بنگلہ دیش اور بھارتی ریاست آسام، شمال میں سکم، مغرب میں بہار اور جھارکھنڈ جبکہ جنوب میں خلیج بنگال واقع ہے۔ شہر کی بلندی 1.5-9 میٹر (5-30 فٹ) ہے۔ [40] شہر دریائے ہوگلی کے کنارے شمال اور جنوب میں پھیلا ہوا ہے۔ شہر کا بہت سا حصہ ایک بڑی مرطوب زمینی علاقے تھا، جسے بھر کر شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کو بسایا گیا ہے۔ [41] ماندہ مرطوب زمین جسے اب ایسٹ کلکتہ ویٹ لینڈز کہتے ہیں، کو رامسر کنونشن کے تحت بین الاقوامی اہمیت کی مرطوب زمین قرار دیا گیا ہے۔ [42] دیگر سندھ و گنگ علاقوں کی طرح یہاں کی زمین بھی زرخیز ہے۔ بھارتی معیاری بیورو کے مطابق ایک سے لے کر چار کے پیمانے پر شہر زلزلہ زون تین کے اندر مضمر ہے۔ [43]

دریائے ہوگلی

دریائے ہوگلی جسے روایتی طور پر گنگا بھی کہا جاتا ہے بھارت کی ریاست مغربی بنگال میں دریائے گنگا کا ایک معاون دریا ہے جو تقریباً 260 کلومیٹر (160 میل) طویل ہے۔ [44] یہ ضلع مرشداباد کے مقام پر گنگا سے بطور نہر علاحدہ ہوتا ہے۔ کولکاتہ شہر دریائے ہوگلی کے کنارے بسا ہے۔[45] کلکتہ کے مقام پر اس پر دو پل واقع ہیں جن میں سے ایک مشہور زمانہ ہاوڑہ پل اور دوسرا ودیاساگر پل پل ہے۔

آب و ہوا

کلکتہ کی آب و ہوا استوائی نم-خشک ہے۔ یہ کوپین موسمیاتی درجہ بندی کے مطابق (Aw) کے زمرے میں آتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی رپورٹ کے مطابق یہ تیز ہواوں اور طوفان زون میں ہے اور اسے "بہت زیادہ نقصان کا خطرہ" لاحق ہے۔ [43]

درجہ حرارت

سالانہ اوسط درجہ حرارت 26.8 ° س (80 ° ف)؛ ماہانہ اوسط درجہ حرارت 1 9 ° س سے 30 ° س (67 ° ف. سے 86 ° ف) رہتا ہے۔ [46] موسم گرما گرم اور مرطوب رہتا ہے، جس سے کم درجہ حرارت 30 ڈگری کی دہائی میں رہتا ہے اور خشک عرصے میں یہ 40 ° س (104 ° ف) کو بھی پار کر جاتا ہے۔ ایسا عام طور پر مئی اور جون میں ہوتا ہے۔ [46] موسم سرما ڈھائی ماہ تک ہی رہتا ہے جس میں کم از کم درجہ حرارت 12 ° س سے 15 ° س (54 ° ف. - 57 ° ف) تک جاتا ہے۔ ایسا دسمبر سے فروری کے درمیان ہوتا ہے۔ [46] اکثر گرمیاں کے شروع میں دھول والی آندھیاں آتی ہیں جن کے ساتھ ہی تیز بارشیں ہوتی ہیں۔ یہ شہر کو شدید گرمی سے راحت دلاتی ہیں۔ اس بارشوں کو موسم کو کال بیساکھی (কালবৈশাখী) کہا جاتا ہے۔ [47]

برسات

کلکتہ میں برسات

خلیج بنگال کی جنوب مغربی شاخ کے مون سون کی بارشیں کلکتہ میں جون اور ستمبر کے درمیان خوب برستی ہیں، جو یہاں کی سالانہ بارش 1،800 ملی میٹر کا زیادہ تر حصہ ہوتی ہیں۔ سب سے زیادہ ماہانہ بارش جولائی اور اگست میں ہوتی ہے۔ شہر میں فی سال دھوپ کے 2،528 گھنٹے نکلتی ہے جس میں مارچ کا مہینا سب سے نمایاں ہوتا ہے۔ [48] کلکتہ کو کئی سمندری طوفانوں کا سامنا رہا ہے؛ 1737 اور 1864 میں آنے والے ان طوفانوں سے ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔ [49][50]

آب ہوا معلومات برائے کولکاتا (علی پور) 1971–1990
مہینا جنوری فروری مارچ اپریل مئی جون جولائی اگست ستمبر اکتوبر نومبر دسمبر سال
بلند ترین °س (°ف) 32.8
(91)
38.4
(101.1)
41.1
(106)
43.3
(109.9)
43.7
(110.7)
43.9
(111)
39.9
(103.8)
38.4
(101.1)
38.9
(102)
39.0
(102.2)
34.9
(94.8)
32.5
(90.5)
43.9
(111)
اوسط بلند °س (°ف) 26.4
(79.5)
29.1
(84.4)
33.5
(92.3)
35.3
(95.5)
35.4
(95.7)
34.0
(93.2)
32.3
(90.1)
32.1
(89.8)
32.4
(90.3)
32.3
(90.1)
30.3
(86.5)
27.0
(80.6)
31.7
(89.1)
یومیہ اوسط °س (°ف) 20.1
(68.2)
23.0
(73.4)
27.6
(81.7)
30.2
(86.4)
30.7
(87.3)
30.3
(86.5)
29.2
(84.6)
29.1
(84.4)
29.1
(84.4)
28.2
(82.8)
24.9
(76.8)
20.8
(69.4)
26.9
(80.4)
اوسط کم °س (°ف) 13.8
(56.8)
16.9
(62.4)
21.7
(71.1)
25.1
(77.2)
26.0
(78.8)
26.5
(79.7)
26.1
(79)
26.1
(79)
25.8
(78.4)
23.9
(75)
19.6
(67.3)
14.5
(58.1)
22.2
(72)
ریکارڈ کم °س (°ف) 6.7
(44.1)
7.2
(45)
10.0
(50)
16.1
(61)
17.9
(64.2)
20.4
(68.7)
20.6
(69.1)
22.6
(72.7)
20.6
(69.1)
17.2
(63)
10.6
(51.1)
7.2
(45)
6.7
(44.1)
اوسط بارش مم (انچ) 11
(0.43)
30
(1.18)
35
(1.38)
60
(2.36)
142
(5.59)
288
(11.34)
411
(16.18)
349
(13.74)
288
(11.34)
143
(5.63)
26
(1.02)
17
(0.67)
1,800
(70.87)
اوسط بارش ایام (≥ 1.0 mm) 1.2 2.2 3.0 4.8 8.7 14.7 20.5 20.2 15.7 8.1 1.5 0.9 101.5
اوسط اضافی رطوبت (%) 66 58 58 66 70 77 83 83 81 73 67 68 71
ماہانہ اوسط دھوپ ساعات 203.9 201.2 225.8 235.4 227.1 123.1 93.1 104.9 116.2 182.6 190.8 203.4 2,107.5
ماخذ#1: NOAA [51]
ماخذ #2: India Meteorological Department (record high and low up to 2010)[52]

ماحولیاتی مسائل

آلودگی کلکتہ میں ایک بڑی تشویش کا سبب ہے۔ 2008 کے مطابق سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کا سالانہ ار تکاز بھارت کے قومی ہوا معیار کے اندر تھی۔ لیکن قابل تنفس معلق ذرات کی سطح اعلیٰ تھی اور مسلسل پانچ سال سے بڑھتا ہوا رجحان اسموگ اور کہر کا باعث بنا ہے۔ [53][54] شہر میں شدید فضائی آلودگی سانس کی بیماریوں اورپھیپھڑوں کے کینسر میں اضافہ کی وجہ ہے۔ [55]

آبادیات

کلکتہ شہری بستگی آبادی میں اضافہ
مردم شماری کل
1981 9,194,000  —
1991 11,021,900 19.9%
2001 13,114,700 19.0%
2011ء بھارت میں مردم شماری 14,112,536 7.6%
ماخذ: آبادیات بھارت[12]
دیگر بشمول سکھ مت، بدھ مت اور دیگر مذاہب (0.03%)
کولکاتا میں مذہب[56]
مذہب فیصد
ہندو مت
  
76.51%
اسلام
  
20.60%
مسیحیت
  
0.88%
جین مت
  
0.47%
دیگر
  
1.54%

کلکتہ کا نام آبادی کلکتیا ہے۔ [57][58] 2001ء کی مردم شماری کے مطابق کلکتہ ضلع کا کل رقبہ 185 مربع کلومیٹر (71 مربع میل) اور اس کی آبادی 4,486,679 تھی [59] جبکہ اس کی کثافتِ آبادی 24.252 / مربع کلومیٹر (62،810 / مربع میل) تھی۔ [59] 2001ء کے مطابق شہری بستگی آبادی 14,112,536 نفوس پر مشتمل تھی۔ [12]

بنگالی ہندو کلکتہ کی آبادی کی اکثریت کی تشکیل دیتے ہیں جبکہ مارواڑی، بہاری اور مسلمان بڑی اقلیتیں ہیں۔ [60] کلکتہ کی چھوٹی برادریوں میں چینی، تامل، نیپالی، اوڈیشائی، تیلگو، آسامی، گجراتی، اینگلو انڈین، آرمینیائی، یونانی، تبتی، مہاراشٹری، کونکنی، ملیالی، پنجابی اور پارسی شامل ہیں۔ [61] آرمینیائی، یونانیوں، یہودیوں اور دیگر غیر ملکی نژاد گروہوں کی تعداد میں بیسویں صدیکے دوران کمی آئی ہے۔ [62] کلکتہ کی یہودی آبادی دوسری جنگ عظیم کے دوران 5،000 تھی لیکن آزادی ہند اور اسرائیل کی ریاست کے قیام کے بعد یہ کم ہو گئی۔ [63] 2013ء کے مطابق شہر میں صرف 25 یہودی آباد تھے۔ [64] بھارت کی واحد چائنا ٹاؤن مشرقی کلکتہ میں ہے۔ ایک وقت میں یہاں 20،000 نسلی چینی آباد تھے [62] تاہم 2009ء میں یہ کم ہو کر 2،000 رہ گئے۔ [62] چینی برادری روایتی طور پر مقامی دباغت کی صنعت اور چینی ریستورانوں میں کام کرتی تھی۔ [62][65]

حکومت اور عوامی خدمات

شہری انتظامیہ

کلکتہ کئی سرکاری ایجنسیوں کے زیر انتظام ہے۔ کلکتہ میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) شہر کی 15 بروز جو 141 وارڈوں میں منقسم ہیں کا انتظام سنبھالتی ہے۔[66] ہر وارڈ سے ایم سی کے لیے ایک کونسلر منتخب ہوتا ہے۔ ہر برو کے کونسلروں کی ایک کمیٹی ہوتی ہے جو وارڈوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں۔ برو کمیٹیوں کے ذریعے کارپوریشن (بلدیہ) شہری منصوبہ بندی، سڑکوں کی دیکھ بھال، حکومتی اسکولوں، ہسپتالوں اور میونسپل منڈیوں کا انتظام سنبھالتی ہے۔ [67] کے ایم سی کے فرائض میں پانی کی فراہمی، نکاسی آب اور سیوریج، صفائی، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، گلی، نظم روشنی اور عمارت ضابطہ بھی شامل ہیں۔ہیں۔ [67]

فوجی اور سفارتی ادارے

وزارت دفاع کے آرڈننس فیکٹریز بورڈ کے مطابق بھارتی فوج گارڈن ریچ شپ بلڈرز اینڈ انجینئرز اور مشرقی کمان کے صدردفاتر تمام شہر میں واقع ہیں۔ کلکتہ میں امریکی قونصلیٹ ریاستہائے متحدہ کا دوسرا قدیم ترین امریکی قونصلیٹ ہے جو 19 نومبر 1792ء سے قائم ہے۔ [68] یہ قونصلیٹ جنرل بہار، جھارکھنڈ، اوڈیشا، مغربی بنگال، سکم، آسام، میگھالیہ، تریپورہ، میزورم، منی پور، ناگالینڈ اور اروناچل پردیش کی ریاستوں کو خدمت فراہم کرتا ہے۔

نقل و حمل

کلکتہ میں نقل و حمل

کلکتہ کی عوامی ٹریفک کے لیے بنیادی طور بس، آٹورکشا، سائیکل رکشا، ٹرام اور میٹرو ریل سروس زیر استعمال ہیں۔ یہاں کے زیادہ تر لوگ بنیادی طور پر بسوں کو سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ یہاں سرکاری اور نجی کمپنیوں کی بسیں زیر استعمال ہیں۔ بھارت میں کلکتہ واحد شہر ہے، جہاں ٹرام سروس دستیاب ہے۔ مانسون کے وقت بھاری بارشوں کی وجہ سے کئی بار مقامی ٹریفک میں خلل پڑتا ہے۔ کلکتہ میں تقریباً تمام پیلی ٹیکسیاں ایمبیسیڈر ہی ہیں۔ کولکتہ کے علاوہ دیگر شہروں میں زیادہ تر ٹاٹا انڈکا یا فیئٹ ہی ٹیکسی کے طور پر چلتی ہیں۔ دیگر شہروں کی نسبت یہاں ذاتی گاڑی کافی کم ہیں۔ تاہم حال میں شہر میں نجی گاڑیوں کی رجسٹریشن میں کافی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ 2002ء کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سات سالوں میں گاڑیوں کی تعداد میں 44 فیصد اجافہ نظر آتا ہے۔ شہر کے آبادی کی کثافت کے تناسب سے سڑکیں محض 6 فیصد ہیں، جبکہ دہلی میں یہ 23 فیصد اور ممبئی میں 17 فیصد ہیں۔ یہی یہاں کے ٹریفک جام کی بنیادی وجہ ہے۔ [69] کلکتہ میٹرو اور بہت سے نئے فلائی اوورز اور نئی سڑکوں کی تعمیر نے شہر کو کافی راحت دی ہے۔

فضائی

نیتا جی سبھاش چندر بوس انٹرنیشنل ائیرپورٹ

نیتا جی سبھاش چندر بوس انٹرنیشنل ائیرپورٹ یا نیتا جی سبھاش چندر بوس بین الاقوامی ہوائی اڈا کلکتہ، مغربی بنگال، بھارت میں واقع ایک بین الاقوامی ہوائی اڈا ہے۔ یہ شہر کے مرکز سے تقریباً 17 کلومیٹر (11 میل) کے فاصلے پر ڈم ڈم میں واقع ہے۔ اس کا نام پہلے ڈم ڈم ایئر پورٹ تھا جسے بعد میں تحریک آزادی ہند کے ایک رہنما سبھاش چندر بوس کے نام پر تبدیل کر دیا گیا۔

ریل

کلکتہ مضافاتی ریلوے

کلکتہ بھارتی ریلوے کے سترہ علاقائی ڈویژنوں میں سے تین ریلوے زون کے ہیڈ کوارٹر کے طور پر کام کرتا ہے۔ [70] کلکتہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے ساتھ ریل اور سڑک کے ذریعے جڑا ہوا ہے۔ [71][72][73] کلکتہ میں ریلوے کے مندرجہ ذیل اسٹیشن ہیں۔

کلکتہ مضافاتی ریلوے

کلکتہ مضافاتی ریلوے ایک مضافاتی ریلوے نظام ہے جو کلکتہ اور اس کے مضافات کو خدمات فراہم کرتا ہے۔

کلکتہ میٹرو

کلکتہ میٹرو

کلکتہ میٹرو کلکتہ شہر میں ایک میٹرو ریل نظام ہے۔ 300 میٹرو خدمات روزانہ 650،000 سے زائد مسافروں کو خدمات فراہم کریں ہیں۔ یہ بھارت کا دوسرا مصروف ترین میٹرو نظام ہے۔ [74]

کلکتہ ٹرام

کلکتہ ٹرام

کلکتہ ٹرام بھارت کے شہر کلکتہ میں ایک ٹرام نظام ہے جو کلکتہ ٹرام ویز کمپنی (Calcutta Tramways Company) کے زیر انتظام ہے۔ یہ فی الحال بھارت میں واحد فعال ٹرام نیٹ ورک ہے، [75] اور ایشیا میں سب سے قدیم فعال برقی ٹرام ہے جو 1902ء کے بعد سے چل رہی ہے۔ [76]

کلکتہ بندرگاہ

کلکتہ بندرگاہ بھارت کے شہر کلکتہ میں ایک دریاَئی بندرگاہ ہے جو سمندر سے تقریباً 203 کلومیٹر (126 میل) کے فاصلے پر واقع ہے۔ [77] یہ بھارت کی سب سے قدیم عمل کاری بندرگاہ ہے جسے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے تعمیر کیا تھا۔

نگہداشت صحت

کلکتہ میڈیکل کالج

2011ء کے مطابق کلکتہ میں صحت کی دیکھ بھال کا نظام 48 سرکاری اسپتالوں پر مشتمل ہے جن میں زیادہ تر صحت اور خاندان فلاحی شعبہ، مغربی بنگال کی حکومت کے تحت اور 366 نجی طبی اداروں کے ہیں۔ [78] یہ مجموعی طور پر 27،687 ہسپتال بستر فراہم کرتے ہیں۔ [78] شہر میں ہر 10،000 افراد کے لیے، 61.7 ہسپتال بستر ہیں [79] جو قومی اوسط 9 ہسپتال بستر فی 10،000 افراد سے کہیں بہتر ہے۔ [80]

کلکتہ میٹروپولیٹن علاقہ میں دس میڈیکل اور ڈینٹل کالج موجود ہیں جو ریاست میں تیسرے درجے ریفرل ہسپتالوں کے طور پر کام کرتے ہیں۔ [81][82] کلکتہ میڈیکل کالج 1835ء میں قائم کیا گیا جو ایشیا میں پہلا جدید طب سکھانے والا ادارہ تھا۔ [83] تاہم یہ سہولیات شہر کی صحت کی دیکھ بھال کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ [84][85][86]

2005ء نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق کلکتہ کے گھرانوں کے کا صرف ایک چھوٹے تناسب کسی بھی صحت کی منصوبہ بندی یا صحت کی انشورنس کے تحت شامل تھا۔ [87]:41 کلکتہ میں شرح پیدائش 1.4 تھی جو سروے میں شامل آٹھ شہروں میں سب سے کم تھی۔ [87]:45

تعلیم

یونیورسٹی آف کلکتہ
مغربی بنگال قومی عدالتی سائنس یونیورسٹی

کلکتہ کے تعلیمی اارے ریاستی حکومتی اور نجی تنظیموں کے زیر انتظام ہیں جن میں سے کئی مذہبی ہیں۔ بنگالی اور انگریزی تدریس کی بنیادی زبانیں ہیں، اردو اور ہندی بھی زیر استعمال ہیں خاص طور پر مرکزی کلکتہ میں۔ [88][89]

کلکتہ میں یونیورسٹی آف کلکتہ سمیت کئی نامور تعلیمی ادارے اور کالج ہیں یہاں چار میڈیکل کالج بھی ہیں۔ اسی کی دہائی کے بعد کلکتہ کی تعلیمی حیثیت میں کمی ہوئی لیکن کلکتہ اب بھی تعلیمی ماحول کے لیے جانا جاتا ہے۔ کلکتہ یونیورسٹی، جادو پور یونیورسٹی، رویندر بھارتی یونیورسٹی، مغربی بنگال قومی عدالتی سائنس یونیورسٹی، نیتا جی سبھاش آزاد یونیورسٹی، بنگال انجینئری اور سائنس یونیورسٹی، مغربی بنگال صحت سائنس یونیورسٹی، مغربی بنگال ٹیکنیکل یونیورسٹی یونیورسٹی آف کلکتہ کے مختلف حصوں میں واقع ہیں۔

کلکتہ میں کئی اہم تحقیقی ادارے بھی موجود ہیں جیسے انڈین ایسوسی ایشن برائے سائنس کی کاشت (Indian Association for the Cultivation of Science)، انڈین انسٹی ٹیوٹ برائے کیمیائی حیاتیات (Indian Institute of Chemical Biology)، انڈین انسٹی ٹیوٹ برائے سائنس کی تعلیم اور تحقیق (Indian Institute of Science Education and Research)، بوس انسٹی ٹیوٹ (Bose Institute)، ساہا انسٹی ٹیوٹ برائے جوہری طبیعیات (Saha Institute of Nuclear Physics)، آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ برائے صحت و صفائی اور عوامی صحت (All India Institute of Hygiene and Public Health)، مرکزی شیشہ اور خزافی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (Central Glass and Ceramic Research Institute)، ایس این بوس قومی مرکز برائے بنیادی سائنسز (S.N. Bose National Centre for Basic Sciences)، انڈین انسٹی ٹیوٹ برائے سوشل ویلفیئر اور بزنس مینجمنٹ (Indian Institute of Social Welfare and Business Management)، نیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے دواسازی کی تعلیم اور تحقیق (National Institute of Pharmaceutical Education and Research)، متغیر توانائی سائکلوٹران سینٹر (Variable Energy Cyclotron Centre) اور انڈین سینٹر برائے خلائی طبیعیات (Indian Centre for Space Physics)۔

ثقافت

بھارتی عجائب گھر
بھارتی قومی کتب خانہ
رقص

کلکتہ کو طویل عرصے سے اس کی ادبی، انقلابی اور فنکارانہ ورثے کے لیے جانا جاتا ہے۔ ہندوستان کے سابق دار الحکومت رہنے کی وجہ سے یہ جدید ہندوستان کی ادبی اور فنکارانہ سوچ کا مرکز بنا۔ کلکتہ کے رہنے والوں میں بنیادی سطح پر ہمیشہ ہی فن اور ادب کے لیے خاص مقام رہا ہے۔ ہمیشہ نئے باصلاحیت افراد کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ان وجوہات کی وجہ سے کلکتہ کو بھارت کا ثقافتی دار الحکومت بھی کہا جاتا ہے جو مبالغہ آرائی نہیں ہو گی۔

کلکتہ کے خاص حصے جنہیں پارا کہا جاتا ہے، جس کے معنی قریبی علاقے ہیں۔ ہر پارا ایک کمیونٹی سینٹر کھیل کے مقامت وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ لوگوں میں یہاں فرصت کے وقت اڈا (یعنی آرام سے باتیں کرنا) میں اجلاس، بحثیں وغیرہ میں کبھی کبھار مسائل پر بات کرنے کی عادت ہے۔ یہ عادت ایک آزاد فکری گفتگو کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ [90]

کلکتہ میں بہت سی عمارتیں گوتھک، بروق، رومن اور ہند-اسلامی طرز تعمیر کی ہیں۔ برطانوی دور کی کئی عمارتیں اچھی طرح سے محفوظ ہیں اور اب انھیں ورثہ قرار دیا جا چکا ہے جبکہ بہت سی عمارتیں تباہی کے دہانے پر ہیں۔ 1814ء میں بنا بھارتی عجائب گھر کا شمار ایشیا کے قدیم عجائب گھروں میں ہوتا ہے۔ یہاں ہندوستانی تاریخ، قدرتی تاریخ اور ہندوستانی فنون کا حیرت انگیز مجموعہ موجود ہے۔ [91] وکٹوریہ میموریل کلکتہ کی بلا شبہ سب سے اہم یادگار ہے۔ یہاں کے عجائب گھر میں شہر کی تاریخ موجود ہے۔ یہاں کا بھارتی قومی کتب خانہ بھارت کا ایک اہم اور بڑا کتب خانہ ہے۔ فائن آرٹس اکیڈمی اور بہت سے دوسرے فن کے ادارے باقاعدہ فن پر مبنی نمائش منعقد کرتے رہتے ہیں۔

شہر میں تھیٹر اور اجتماعی تھیٹر آج بھی زندہ ہے۔ یہاں ہندی فلمیں اتنی ہی مقبول ہیں جتنی کہ بنگلہ فلمیں۔ یہاں کی فلمی صنعت کو ٹالووڈ نام دیا گیا ہے۔ یہاں کی فلمی صنعت ٹولی گنج میں واقع ہے۔ طویل عرصے موجود یہاں کی فلمی صنعت نے کئی مشہور فلم ڈائریکٹر جیسے ستیہ جیت رائے، مرنال سین، تپن سنہا بھارتی فلمی صنعت کو دیے ہیں۔

کلکتہ کے پکوان کے بنیادی اجزا چاول اور ماچھیر جھول جبکہ میٹھے میں رس گلہ اور مشٹی ڈوئی بہت مشہور ہیں۔ بنگالی لوگوں کی بنیادی غذا میں مچھلی پسندیدہ ترین ہے۔ [92][93]

بنگالی خواتین عام طور پر ساڑی پہنتی ہیں تاہم کم عمر خواتین میں شلوار قمیض اور مغربی لباس بھی مقبول ہو رہا ہے۔ گھریلو طور پر ساڑی پہننے کا ایک مخصوص انداز ہوتا ہے جو خاص بنگالی شناخت ہے۔ ساڑیوں میں یہاں کی بنگالی سوتی اور ریشمی ساڑیاں مشہور ہیں۔ مردوں میں اکثر مغربی پنٹ شرٹ ہی چلتے ہیں، مگر تہواروں اور خاص موقوں پر روایتی سوتی اور ریشمی کرتوں کو دھوتی کے ساتھ پہنا جاتا ہے۔ یہاں مردوں کا دھوتی کا سرے ہاتھ میں پکڑ کر چلنے کا رواج رہا ہے، جو ایک خاص بنگالی پہچان دیتا ہے۔ دھوتی عام طور پر سفید رنگ کی ہی ہوتی ہے۔

درگا پوجا کلکتہ کا سب سے زیادہ نمایاں اور چکاچوند کرنے والا جشن ہے۔ [94][95][96] یہ تہوار اکثر اکتوبر کے مہینے میں آتا ہے تاہم ہر چوتھے سال ستمبر میں بھی آ سکتا ہے۔ دیگر قابل ذکر تہواروں میں جگددھاتری پوجا، پولا بیاکھ، سرسوتی پوجا ، رتھ یاترا، پوش پربو، دیوالی، ہولی، کرشن جنم اشٹمی، مہا شواراتری، گنیش چترتھی، مکر سنکرانتیکرسمس اور عید، محرم وغیرہ اہم ہیں۔ ثقافتی تہواروں میں کلکتہ کتاب میلہ، کولکتہ فلم اتسو، ڈوور لین موسیقی تہوار اور نیشنل تھیٹر فیسٹیول آتے ہیں۔ شہر میں ہندوستانی کلاسیکی موسیقی اور بنگالی لوک گیت موسیقی کو بھی سراہا جاتا ہے۔

ذرائع ابلاغ

اخبار

آکاشوانی بھون،آل انڈیا ریڈیو کا صدر دفتر، کلکتہ

ہندوستان کا پہلا اخبار، بنگال گزٹ 1780ء میں کلکتہ سے شائع ہونا شروع ہوا۔ [97] بہت سے بنگلہ اخبار یہاں شائع ہوتے ہیں، جن میں آنند بازار پتریکا، آج کل، برتمان، سگنباد پرتیدن، گنیشکتی اور دیانک سٹیٹمن اہم ہیں۔ [98] دی سٹیٹسمین اور دی ٹیلی گراف کلکتہ سے شائع ہونے عالے دو بڑے انگریزی اخبارات ہیں۔ کلکتہ میں شائع اور فروخت ہونے والے دیگر مقبول انگریزی اخبارات میں ٹائمز آف آنڈیا، ہندوستان ٹائمز، دی ہندو، انڈین ایکسپریس اور ایشین ایج شامل ہیں۔ [98] مشرقی بھارت کا سب سے بڑا تجارتی مرکز ہونے کی وجہ سے کلکتہ میں اکنامک ٹائمز، فنانشل ایکسپریس، بزنس لائن اور بزنس سٹینڈرڈ سمیت کئی اعلی مالی روزنامے گردش میں ہیں۔ [98][99] مقامی زبانوں کے اخبارات جیسے ہندی، اردو، گجراتی، اڑیہ، پنجابی اور چینی مقامی اقلیتوں میں پڑھے جاتے ہیں۔ [62][98]

ریڈیو

آکاش وانی قومی سرکاری ریڈیو براڈکاسٹر شہر میں کئی اے ایم ریڈیو اسٹیشنوں سے نشریات کرتا ہے۔ [100] کلکتہ میں 12 مقامی ریڈیو اسٹیشن ایف ایم پر نشریات کرتے ہیں۔ [101]

ٹی وی

ٹاٹا انڈیکوم

بھارت کا سرکاری ٹیلی ویژن براڈکاسٹر، دوردرشن دو مفت چینلز پر نشریات کرتا ہے۔ [102] جبکہ بنگالی، ہندی، انگریزی اور دیگر علاقائی ٹیلی ویژن چینلز کیبل، براہ راست مصنوعی سیارہ نشریات یا انٹرنیٹ کے ذریعے قابل رسائی ہیں۔ [103][104][105]

مواصلات

کولکتہ میں سرکاری بی ایس این ایل اور نجی مواصلاتی کمپنیاں جیسے ووڈافون، ایئر ٹیل، ریلائنس کمیونی کیشنز، ٹاٹا انڈیکوم وغیرہ ٹیلی فون اور موبائل خدمات فراہم کرتے ہیں۔ شہر میں جی ایس ایم اور سی ڈی ایم اے دونوں قسم کی خدمات دستیاب ہیں۔ یہاں بی ایس این ایل، ٹاٹا کمیونی کیشنز، ایئر ٹیل اور ریلائنس کمیونی کیشنز کی طرف سے براڈبینڈ سروس بھی دستیاب ہے۔ ان کے علاوہ سفی اور الائنس بھی یہ سروس فراہم کرتے ہیں۔

کھیل

سالٹ لیک اسٹیڈیم, انڈین سپر لیگ کی افتتاحی تقریب
نیتا جی انڈور اسٹیڈیم

کلکتہ میں سب سے زیادہ مقبول کھیل فٹ بال اور کرکٹ ہیں۔ بھارت کے بیشتر حصوں کے برعکس یہاں کے رہائشیوں میں فٹ بال کے لیے اہم جذبہ ہے۔ [106] شہر بہترین قومی فٹ بال کلب جیسے موہن باگان اے سی، مشرقی بنگال ایف سی، پریاگ یونائٹڈ ایس سی اور محمڈن اسپورٹنگ کلب کا گھر ہے۔ [107][108] کلکتہ فٹ بال لیگ جو 1898ء میں شروع ہوئی ایشیا میں سب سے پرانی فٹ بال لیگ ہے۔ [109]

بھارت کے باقی حصوں کی طرح کرکٹ کلکتہ میں مقبول ہے اور شہر بھر کے میدانوں اور گلیوں میں کھیلا جاتا ہے۔ [110][111] انڈین پریمیئر لیگ میں کلکتہ کی ایک فرنچائز ہے جو کلکتہ نائٹ رائیڈرز ہے۔ بنگال کرکٹ ایسوسی ایشن جو مغربی بنگال میں کرکٹ کے انتظامی امور سنبھالتی ہے کلکتہ ہی میں واقع ہے۔ شہر میں بین محلہ یا بین کلب بنیادوں پر کھیلوں کے ٹورنامنٹ خاص کر کرکٹ، فٹ بال، بیڈمنٹن اور کیرم منعقد کیے جاتے ہیں۔ [112] میدان شہر میں ایک وسیع میدان ہے جو سب سے بڑا پارک ہے۔ یہاں کئی معمولی فٹ بال اور کرکٹ کلبوں اور کوچنگ اداروے موجود ہیں۔ [113]

ایڈن گارڈنز کی گنجائش 66،349 ہے۔ کرکٹ عالمی کپ 1987ء کی میزبانی اسی اسٹیڈیم نے کی تھی۔ یہ بنگال کرکٹ ٹیم اور کلکتہ نائٹ رائیڈرز کا گھر بھی ہے۔ سالٹ لیک اسٹیڈیم گنجائش کے لحاظ سے بھارت کا سب سے بڑا اسٹیڈیم ہے۔ کلکتہ کرکٹ اور فٹ بال کلب دنیا کا دوسرا سب سے پرانا کرکٹ کلب ہے۔ [114][115] نیتا جی انڈور اسٹیڈیم نے 1981ء ایشیائی باسکٹ بال چیمپئن شپ کے میزبان کے طور پر خدمات انجام دیں۔ شہر میں تین 18 ہول گالف کورس بھی ہیں۔ [116][117] کلکتہ پولو کلب دنیا میں سب سے قدیم موجودہ پولو کلب سمجھا جاتا ہے۔ [118][119][120]

سیاحت اور یادگاریں

وکٹوریہ میموریل
ناخدا مسجد
دکشن ایشور کالی مند

میدان اور فورٹ ولیم، دریائے ہوگلی کے قریب بھارت کے سب سے بڑے پارکوں میں سے ایک ہے۔یہ 3 مربع کلومیٹر کے علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ میدان کے مغرب میں فورٹ ولیم ہے۔ چونکہ فورٹ ولیم اب بھارتی فوج کے زیر استعمال ہے اس لیے یہاں داخل ہونے کے لیے خصوصی اجازت لینا پڑتی ہے۔

ایڈن گارڈنز کے ایک چھوٹے تالاب میں برما کا پگوڈا تعمیر کیا گیا ہے، جو اس باغ میں خاص توجہ کا مرکز ہے۔ یہ مقام مقامی لوگوں میں بہت مقبول ہے۔

وکٹوریہ میموریل 1906ء سے 1921ء کے درمیان تعمیر کیا گیا یہ برطانوی ملکہ وکٹوریہ کی ایک یادگار ہے۔ یادگار میں ایک شاندار عجائب گھر بھی ہے جہاں ملکہ کے پیانو اور سٹڈی ڈیسک سمیت 3000 سے زائد چیزیں رکھی گئی ہیں۔ یہ روزانہ صبح 10:00 بجے سے شام 4:30 بجے تک کھلتا ہے، پیر کو یہ بند رہتا ہے۔

سینٹ پال کیتھیڈرل تعمیرات کی ایک منفرد مثال ہے، اس کی رنگین شیشے کی کھڑکیاں اور گوتھک طرز تعمیر اس کا خاصہ ہیں۔ یہ روزانہ صبح 9:00 بجے سے دوپہر تک اور شام 3:00 بجے سے 6:00 بجے تک کھلتا ہے۔

ناخدا مسجد سرخ پتھر سے بنی ہوئی ہے۔ یہ ایک بڑی مسجد ہے جس کی تعمیر 1926ء میں ہوئی تھی۔ اس میں 10،000 افراد کی گنجائش ہے۔

ماربل پیلس ایم جی روڈ پر واقع کو اس محل کی خوبصورتی قابل دید ہے۔ 1800ء میں یہ محل ایک امیر بنگالی زمیندار کی رہائش تھا۔ یہاں کچھ خوبصورت مجسمے اور پینٹنگ ہیں۔ خوبصورت فانوس، یورپین اینٹیک، وینیٹین گلاس، پرانے پیانو اور چین کے بنے نیلے گلدان آپ کو اس وقت کے امیروں کی طرز زندگی کی جھلک دکھاتے ہیں۔

پارس ناتھ جین مندر 1867ء میں بنا۔ یہ مندر وینیٹین گلاس، پیرس کے فانوسوں، سونے کا ملممع چڑھا گنبد، رنگین شیشوں والی کھڑکیاں اور شیشے لگے کھبوں سے سجا ہے۔ یہ روزانہ صبح 6:00 بجے سے دوپہر تک اور شام 3:00 بجے سے 7:00 بجے تک کھلتا ہے۔

بیلور خانقاہ رام کرشن مشن کا ہیڈ کوارٹر ہے، اس کی تعمیر 1899ء میں سوامی وویکانند نے کی تھی، جو رام کرشن کے شاگرد تھے۔ یہ اکتوبر سے مارچ کے دوران صبح 6:30 بجے سے 11:30 بجے تک اور شام 3:30 بجے سے 6:00 بجے تک اور اپریل سے ستمبر تک یہ صبح 6:30 بجے سے 11:30 بجے تک اور شام 4:00 بجے سے 7:00 بجے تک کھلتا ہے۔

دکشن ایشور کالی مندر دریائے ہوگلی کے مشرقی ساحل پر واقع یہ ماں کالی کا مندر ہے جہاں شری رام کرشن پرہمنس ایک پادری تھے یہاں انھیں تمام مذاہب میں اتحاد لانے کی معرفت ہوئی۔ کالی مندر سڈر سٹریٹ سے 6 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ یہ صبح 3:00 بجے سے رات 8:00 بجے تک کھلتا ہے۔

مدر ٹریسا ہومز سینکڑوں بے گھروں غریبوں کا گھر ہے جو خود کو خدمت خلق کے لیے وقف کر دینے والی مسیحی راہبہ مدر ٹریسا کی کاوش ہے۔

بوٹینکل گارڈنز کئی ایکڑ میں پھیلا ایک سرسبز، پودوں کی نایاب قسموں، خوبصورت کھلے پھولوں، پرسکون ماحول فراہم کرتا ہے۔ یہاں قدرت کے ساتھ شام گزارنے کا ایک بہترین موقع ہے۔ دریا کے مغربی جانب واقع اس باغ میں دنیا کا دوسرا سب سے بڑا برگد کا درخت ہے، جو 10،000 مربع میٹر میں پھیلا ہوا ہے، اس کی تقریباً 420 شاخیں ہیں۔

سیاحتی اور دلچسبی کے مقامات

مذہبی عمارات

مساجد
گرجا گھر
مندر

دیگر عمارات

یادگاریں
طبی عمارات
پارک

کلکتہ کی شخصیات

ادب

رابندر ناتھ ٹیگور

شاعر

ناقد، فلسفی

اصلاح پسند

مدر ٹریسا

سائنس دان

نوبل انعام یافتہ

حریت پسند

سبھاش چندر بوس

فنون

سنیما

قابل ذکر اداکار

اشوک کمار

تھیٹر

موسیقی

موسیقار
بپی لہری
ہندوستانی کلاسیکی گلوکار
دیگر گلوکار
فائل:Kishorekumar.jpg
کشور کمار
دور حاضر بالی ووڈ موسیقار

کھیل

سوربھ گانگولی

حوالہ جات

  1. List of cities and towns in India by nicknames
  2. "Archived copy"۔ 3 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اپریل 2015 
  3. Culture of Kolkata
  4. "India: Calcutta, the capital of culture-Telegraph"۔ telegraph.co.uk۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جولائی 2016 
  5. "Kolkata remains cultural capital of India: Amitabh Bachchan – Latest News & Updates at Daily News & Analysis"۔ 10 نومبر 2012۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 نومبر 2016 
  6. Press Trust of India۔ "Foundation of Kolkata Museum of Modern Art laid"۔ business-standard.com۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جولائی 2016 
  7. "Sovan Chatterjee to be new Kolkata mayor"۔ Hindustan Times۔ New Delhi۔ 6 جون 2010۔ 19 جولائی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2011 
  8. "Ranjit the sheriff"۔ The Telegraph۔ 1 جنوری 2014۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جنوری 2014 
  9. "New CP reaches slain cop's house with job letter"۔ Times of India۔ 16 فروری 2013۔ 11 اپریل 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 فروری 2013 
  10. ^ ا ب "District Census Handbook – Kolkata" (PDF)۔ Census of India۔ The Registrar General & Census Commissioner۔ صفحہ: 43۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مئی 2016 
  11. "Kolkata Municipal Corporation Demographics"۔ Census of India۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 جون 2016 
  12. ^ ا ب پ "Urban agglomerations/cities having population 1 million and above" (PDF)۔ Provisional population totals, census of India 2011۔ Registrar General & Census Commissioner, India۔ 2011۔ 07 جنوری 2019 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جنوری 2012 
  13. "INDIA STATS : Million plus cities in India as per Census 2011"۔ Press Information Bureau, Mumbai۔ National Informatics Centre۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اگست 2015 
  14. ^ ا ب "Global city GDP 2014"۔ Brookings Institution۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 مئی 2015 
  15. ^ ا ب John Hawksworth، Thomas Hoehn، Anmol Tiwari (نومبر 2009)۔ "Which are the largest city economies in the world and how might this change by 2025?" (PDF)۔ پرائس واٹر ہاؤس کوپرز۔ 18 اپریل 2015 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2015 
  16. ^ ا ب "India's top 15 cities with the highest GDP Photos Yahoo! India Finance"۔ Yahoo! Finance۔ 28 ستمبر 2012۔ 9 اکتوبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مارچ 2017 
  17. "Report of the Commissioner for linguistic minorities: 47th report (جولائی 2008 to جون 2010)" (PDF)۔ Commissioner for Linguistic Minorities, Ministry of Minority Affairs, Government of India۔ صفحہ: 122–126۔ 07 جنوری 2019 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 فروری 2012 
  18. Kenny Easwaran۔ "The politics of name changes in India"۔ Open Computing Facility, University of California at Berkeley۔ 19 جولائی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جنوری 2012 
  19. Sanjoy Chakravorty (2000)۔ "From colonial city to global city? The far-from-complete spatial transformation of Calcutta"۔ $1 میں Peter Marcuse، Ronald van Kempen۔ Globalizing cities: a new spatial order?۔ Oxford, UK: Blackwell Publishing۔ صفحہ: 56–77۔ ISBN 0-631-21290-6 
  20. ^ ا ب S.N. Chatterjee (2008)۔ Water resources, conservation and management۔ New Delhi: Atlantic Publishers and Distributors۔ صفحہ: 85۔ ISBN 978-81-269-0868-4۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جنوری 2012 
  21. Upinder Singh (2008)۔ A history of ancient and early medieval India: from the Stone Age to the 12th century۔ New Delhi: Pearson Education۔ صفحہ: 395۔ ISBN 978-81-317-1677-9۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جنوری 2012 
  22. S. Das (15 جنوری 2003)۔ "Pre-Raj crown on Clive House: abode of historical riches to be museum"۔ دی ٹیلی گراف (بھارت)۔ Kolkata۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2006 
  23. Peter Hall (2002)۔ Cities of tomorrow۔ Oxford, UK: Blackwell Publishing۔ صفحہ: 198–206۔ ISBN 0-631-23252-4 
  24. K. Randhawa (15 September 2005)۔ "The bombing of Calcutta by the Japanese"۔ BBC۔ 04 فروری 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2006 
  25. "Pacific War timeline: New Zealanders in the Pacific War"۔ New Zealand Ministry for Culture and Heritage۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اکتوبر 2008 
  26. A Sen (1973)۔ "Poverty and famines"۔ Oxford, UK: Oxford University Press: 52–85۔ ISBN 0-19-828463-2 
  27. Burrows, Frederick (22 August 1946). A copy of a secret report written on 22 August 1946 to the Viceroy Lord Wavell, from Sir Frederick John Burrows, concerning the Calcutta riots. برٹش لائبریری. IOR: L/P&J/8/655 f.f. 95, 96–107. Archived from the original on 2019-01-07. https://web.archive.org/web/20190107040109/https://www.bl.uk/subjects/south-asia۔ اخذ کردہ بتاریخ 25 February 2012. 
  28. Suranjan Das (2000)۔ "The 1992 Calcutta Riot in Historical Continuum: A Relapse into 'Communal Fury'?"۔ Modern Asian Studies۔ Cambridge University Press۔ 34 (2): 281–306۔ ISSN 0026-749X۔ JSTOR 313064۔ doi:10.1017/S0026749X0000336X 
  29. H. S. Suhrawardy (1987)۔ "Direct action day"۔ $1 میں M. H. R. Talukdar۔ Memoirs of Huseyn Shaheed Suhrawardy۔ Dhaka, Bangladesh: The University Press۔ صفحہ: 55–56۔ ISBN 984-05-1087-8۔ 14 مارچ 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 مئی 2017 
  30. R Gandhi (1992)۔ Patel: a life۔ Ahmedabad, India: Navajivan۔ صفحہ: 497۔ ASIN B0006EYQ0A 
  31. Shashi Sahdev، Nilima Verma، مدیران (2008)۔ "Urban Land price Scenario- Kolkata − 2008"۔ Kolkata—an outline۔ Industry and Economic Planning۔ Town and Country Planning Organisation, Ministry of Urban Development, Government of India۔ 26 اپریل 2012 میں اصل (DOC) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 مئی 2017 
  32. "Genesis and growth of the Calcutta Stock Exchange"۔ Calcutta Stock Exchange Association۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2006 
  33. "Doing Business in India 2009"۔ عالمی بنک۔ 30 June 2009۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جنوری 2012 
  34. ^ ا ب "Kolkata"۔ Microsoft Encarta Online Encyclopedia۔ 2007۔ 28 اکتوبر 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اکتوبر 2007 
  35. Chakravorty S (2000). "From Colonial City to Global City? The Far-From-Complete Spatial Transformation of Calcutta" in (Marcuse & van Kempen 2000, pp. 56–77)
  36. Datta T (2006-03-22)۔ "Rising Kolkata's winners and losers"۔ BBC Radio 4's Crossing Continents۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2006 
  37. The Telegraph - Calcutta : Metro
  38. संबित साहा (2003-09-09)۔ "नाथू ला ट्रेड मे स्पर बिज़नेस इन एन-ई"۔ रीडिफ.कॉम۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2007 
  39. सी.राजा मोहन (2007-07-16)۔ "ए फ'ओरन पॉलिसी फॉर द ईस्ट"۔ द हिन्दू۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2007 
  40. "PIA01844: space radar image of Calcutta, West Bengal, India"۔ NASA۔ 15 April 1999۔ 09 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2012 
  41. "An Introduction"۔ History of Kolkata۔ Catchcal.com۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اگست 2007 
  42. S. Roy Chadhuri، A. R. Thakur (2006-07-25)۔ "Microbial genetic resource mapping of East Calcutta wetlands" (PDF)۔ Current Science۔ Indian Academy of Sciences۔ 91 (2): 212–217۔ 07 جنوری 2019 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 ستمبر 2007 
  43. ^ ا ب "Hazard profiles of Indian districts" (PDF)۔ National Capacity Building Project in Disaster Management۔ UNDP۔ 19 مئی 2006 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اگست 2006 
  44. Hugli River | river, India | Britannica.com
  45. "World Urbanization Prospects: The 2005 revision" (PDF) 
  46. ^ ا ب پ "Calcutta, India Travel Weather Averages (Weatherbase)"۔ 07 ستمبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 مئی 2017 
  47. "kal Baisakhi"۔ Glossary of Meteorology۔ American Meteorological Society۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 ستمبر 2006 
  48. "Calcutta: not 'the city of joy'"۔ Gaia: Environmental Information System۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2006 
  49. Roger Bilham (1994)۔ "The 1737 Calcutta earthquake and cyclone evaluated" (PDF)۔ Bulletin of the Seismological Society of America۔ 84 (5): 1650–57۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جولا‎ئی 2011 
  50. James Eardley Gastrell، Henry Francis Blanford (1866)۔ Report on the Calcutta cyclone of the 5th October 1864۔ Calcutta: O.T. Cutter, Military Orphan Press۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جولا‎ئی 2011 
  51. "Calcutta/Alipore Climate Normals 1971-1990"۔ National Oceanic and Atmospheric Administration۔ اخذ شدہ بتاریخ December 24, 2012 
  52. "Ever recorded Maximum and minimum temperatures upto 2010"۔ India Meteorological Department۔ 07 جنوری 2019 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ May 16, 2014 
  53. Central Pollution Control Board۔ "Annual report 2008–2009" (PDF)۔ Ministry of Environment and Forests, Government of India۔ صفحہ: 40۔ 07 جنوری 2019 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 فروری 2012 
  54. "Smog city chokes & grounds: foul air, moist and smoky"۔ The Telegraph۔ Kolkata۔ 30 October 2008۔ 04 جون 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اپریل 2011 
  55. Subir Bhaumik (17 May 2007)۔ "Oxygen supplies for India police"۔ BBC۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جون 2007 
  56. "Population by Religious Community"۔ Census of India۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مئی 2016  Click on arrow adjacent to state West Bengal so that a Microsoft excel document is downloaded with district wise population of different religious groups. Scroll down to Kolkata district in the document at row no. 1629.
  57. "Calcuttan"۔ dictionary.com۔ 03 مارچ 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 دسمبر 2011 
  58. Prithvijit (14 November 2011)۔ "Kolkatans relish a journey down familiar terrain"۔ Times of India۔ New Delhi۔ 09 جولا‎ئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 فروری 2012 
  59. ^ ا ب "Area, population, decennial growth rate and density for 2001 and 2011 at a glance for West Bengal and the districts: provisional population totals paper 1 of 2011: West Bengal"۔ Registrar General & Census Commissioner, India۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جنوری 2012 
  60. "Basic statistics of Kolkata"۔ Kolkata Municipal Corporation۔ 16 مئی 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 نومبر 2008 
  61. Himadri Banerjee، Nilanjana Gupta، Sipra Mukherjee، مدیران (2009)۔ Calcutta mosaic: essays and interviews on the minority communities of Calcutta۔ New Delhi: Anthem Press۔ ISBN 978-81-905835-5-8۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جنوری 2012 
  62. ^ ا ب پ ت ٹ Himadri Banerjee، Nilanjana Gupta، Sipra Mukherjee، مدیران (2009)۔ Calcutta mosaic: essays and interviews on the minority communities of Calcutta۔ New Delhi: Anthem Press۔ صفحہ: 9–10۔ ISBN 978-81-905835-5-8۔ 09 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جنوری 2012 
  63. Moni Basu (29 March 2010)۔ "Twilight comes for India's fading Jewish community"۔ CNN۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 فروری 2012 
  64. Zach Marks (24 October 2013)۔ "The Last Jews of Kolkata"۔ نیو یارک ٹائمز۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 مئی 2017 
  65. "Calcutta's Chinatown facing extinction over new rule"۔ Taipei Times۔ Taipei, Taiwan۔ 18 April 2011۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اپریل 2011 
  66. "Basic statistics of Kolkata"۔ Kolkata Municipal Corporation۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2012 
  67. ^ ا ب "KMC functions"۔ Kolkata Municipal Corporation۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 دسمبر 2011 
  68. "About the Consulate | Kolkata, India - Consulate General of the United States"۔ kolkata.usconsulate.gov۔ 25 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 دسمبر 2015 
  69. http://www.thehindubusinessline.com/2004/09/06/stories/2004090600791300.htm
  70. "Indian Railway's zones and their divisions with headquarters" (PDF)۔ Centre For Railway Information Systems, Indian Railways۔ 17 اپریل 2012 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 فروری 2012 
  71. "Kolkata-Dhaka bus service resumes"۔ Hindustan Times۔ New Delhi۔ IANS۔ 30 May 2008۔ 04 جنوری 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2011 
  72. "International bus service"۔ Bangladesh Road Transport Corporation۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2011 
  73. "Maitree Express" (PDF)۔ High Commission of India, Dhaka۔ 26 دسمبر 2011 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2011 
  74. "300 and more, metro services"۔ 11 September 2016۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  75. "Reaching India"۔ New Delhi: Times Internet Limited۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 فروری 2012 
  76. "Kolkata trams to get a GenX makeover"۔ 13 July 2012۔ 27 ستمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 مئی 2017 
  77. "Calcutta Port Trust - Brief History"۔ Calcutta Port Trust۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 فروری 2013 
  78. ^ ا ب "Medical institutions and sanctioned no. of beds in districts of West Bengal as on 30.11.2011" (PDF)۔ Department of Health & Family Welfare, Government of West Bengal۔ 07 جنوری 2019 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 مارچ 2012 
  79. The population (4,486,679) and hospital beds (27,687) have been used to derive this rate.
  80. "Hospital beds"۔ World Health Organistation۔ 09 جولا‎ئی 2012 میں اصل (XLS) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 جنوری 2012 
  81. Mansi Shah (2007)۔ "Waiting for health care: a survey of a public hospital in Kolkata" (PDF)۔ Centre for Civil Society۔ 13 اگست 2011 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 جنوری 2012 
  82. Zakir Husain، Saswata Ghosh، Bijoya Roy (July 2008)۔ "Socio economic profile of patients In Kolkata: a case study of RG Kar and AMRI" (PDF)۔ Institute of Development Studies, Kolkata۔ صفحہ: 19–20۔ 28 جون 2013 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 جنوری 2012 
  83. Dola Mitra (20 April 2005)۔ "Calcutta Medical College, Calcutta"۔ The Telegraph۔ Kolkata۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اکتوبر 2007 
  84. Prithvijit Mitra (9 April 2011)۔ "On hospital floor for 12 days"۔ Times of India۔ New Delhi۔ 10 جولا‎ئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 جنوری 2012 
  85. "Mamata inducts two new ministers"۔ Sify۔ 16 January 2012۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 جنوری 2012 
  86. "Kolkata woman gives birth on road, dies after no admission by hospitals"۔ Hindustan Times۔ New Delhi۔ 13 January 2012۔ 18 جنوری 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 جنوری 2012 
  87. ^ ا ب Kamla Gupta، Fred Arnold، H. Lhungdim (2009)۔ "Health and living conditions in eight Indian cities" (PDF)۔ National Family Health Survey (NFHS-3), India, 2005–06۔ Mumbai: International Institute for Population Sciences; Calverton, Maryland, US۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 فروری 2012 
  88. "Annual Report 2007––2008" (PDF)۔ Department of School Education, Government of West Bengal۔ صفحہ: 69۔ 07 جنوری 2019 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 دسمبر 2011 
  89. "List of schools in Kolkata"۔ West Bengal Board of Secondary Education۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 دسمبر 2011 
  90. The Chattering Masses - The New York Times
  91. http://www.indianmuseumkolkata.org/
  92. The Telegraph - Calcutta : Metro
  93. Durgapuja : Road side food vendors : puja fast food : Durga Puja Food
  94. 10 Famous Kolkata Durga Puja Pandals
  95. Kolkata Durga Puja: Latest News, Photos, Videos on Kolkata Durga Puja - NDTV.COM
  96. Top 20 Pandals to Visit During Durga Puja in Kolkata: Tour My India
  97. Ross Eaman (12 October 2009)۔ The A to Z of Journalism۔ Scarecrow Press۔ صفحہ: 86۔ ISBN 978-0-8108-7067-3۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 اگست 2013 
  98. ^ ا ب پ ت "Areawise analysis for the period July/December 2007 to January – June 2010"۔ Audit Bureau of Circulations۔ 7 جنوری 2019 میں اصل (XLS) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جون 2012  [مردہ ربط]
  99. "Business development mission to India 29 November – 5 December 2006" (PDF)۔ International Trade Administration۔ 07 جنوری 2019 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اکتوبر 2007 
  100. "Radio stations"۔ All India Radio۔ 05 دسمبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2011 
  101. "Radio stations in West Bengal, India"۔ Asiawaves۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2011 
  102. "Doordarshan"۔ Ministry of Broadcasting, Government of India۔ 17 جنوری 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جنوری 2012 
  103. "CalTel launches IPTV in Kolkata, invests Rs 700 cr in 07-08"۔ Outlook India۔ New Delhi۔ Press Trust of India۔ 1 February 2008۔ 02 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جنوری 2012 
  104. "CAS on brink of blackout"۔ Times of India۔ New Delhi۔ TNN۔ 14 August 2011۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جنوری 2012 
  105. "Direct-to-home comes home"۔ Times of India۔ New Delhi۔ TNN۔ 9 October 2003۔ 01 جولا‎ئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جنوری 2012 
  106. Varuni Khosla، Ravi Teja Sharma (13 June 2014)۔ "Forget cricket, football is catching fast in India"۔ The Economic Times۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 ستمبر 2014 
  107. "Mohun Bagan vs East Bengal: India's all-consuming rivalry"۔ FIFA۔ 22 نومبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2011 
  108. Soudhriti Bhabani (1 September 2011)۔ "Argentine football superstar Messi charms Kolkata"۔ India Today۔ Noida, India۔ 2012-06-13 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2011 
  109. "Football in Bengal"۔ Indian Football Association۔ 03 دسمبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2011 
  110. "What happened to para cricket?"۔ Times of India۔ New Delhi۔ TNN۔ 20 January 2002۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2011 
  111. "Para cricket tourney gets off to a cracking start"۔ Times of India۔ New Delhi۔ TNN۔ 22 January 2011۔ 07 جولا‎ئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2011 
  112. "Kolkata culture: Para"۔ Department of Tourism, Government of West Bengal۔ 21 دسمبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 دسمبر 2011 
  113. "FIFA president visits big three of Kolkata maidan"۔ The Hindu۔ Chennai۔ 16 April 2007۔ 29 جولا‎ئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 دسمبر 2011 
  114. Ashwin Desai (2000)۔ Blacks in whites: a century of cricket struggles in KwaZulu-Natal۔ Pietermaritzburg, South Africa: University of Natal Press۔ صفحہ: 38۔ ISBN 978-1-86914-025-0 
  115. Raju Mukherji (14 March 2005)۔ "Seven years? Head start"۔ The Telegraph۔ Kolkata۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2006 
  116. Michael K. Bohn (2008)۔ Money golf: 600 Years of bettin' on birdies۔ Dulles, Virginia, US: Potomac Books۔ صفحہ: 34۔ ISBN 978-1-59797-032-7 
  117. Michael V. Uschan (2000)۔ Golf۔ San Diego, US: Lucent Books۔ صفحہ: 16۔ ISBN 978-1-56006-744-3 
  118. Jaisal Singh (2007)۔ Polo in India۔ London: New Holland Publishers۔ صفحہ: 12۔ ISBN 978-1-84537-913-1 
  119. Joanna Jackson (2011)۔ A Year in the life of Windsor and Eton۔ London: Frances Lincoln۔ صفحہ: 80۔ ISBN 978-0-7112-2936-5 
  120. "History of polo"۔ Hurlingham Polo Association۔ 27 اپریل 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اگست 2007 

کتابیات

بیرونی روابط

دستاویزی فلمیں