قتیل شفائی
قتیل شفائی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 24 دسمبر 1919 ضلع ہری پور |
وفات | 11 جولائی 2001 (82 سال) لاہور |
شہریت | ![]() ![]() |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر، غنائی شاعر، نغمہ نگار، مصنف |
پیشہ ورانہ زبان | اردو[1] |
اعزازات | |
IMDB پر صفحات[2] | |
درستی - ترمیم ![]() |
قتیل شفائی قلمی نام. اصل نام اورنگزیب خان (پیدائش 24 دسمبر، 1919ء - وفات 11 جولائی، 2001ء) پاکستان کے ایک مشہور و معروف اردو شاعر تھے۔[3] قتیل شفائی خیبر پختونخوا ہری پورہزارہ میں پیدا ہوئے۔ اس کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کی۔ یہاں پر فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے اور انڈوپاک کی بے شمار فلموں کے لیے گیت لکھے۔[4]
ابتدائی زندگی اور کیرئر[ترمیم]
قتیل شفائی 1919ء میں برطانوی ہند (موجوہ پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ ان کا پیدائشی نام محمد اورنگ زیب تھا۔[5] ان کا خاندانی پس منظر ہندکوان ہے۔ انہوں نے 1938ء میں قتیل شفائی اپنا قلمی نام رکھا اور اردو دنیا میں اسی نام سے مشہور ہیں۔ اردو شاعری میں وہ قتیل تخلص کرتے ہیں۔ شفائی انہوں نے اپنے استاد حکیم محمد یحیی شفا کانپوری کے نام کی وجہ سے اپنے نام کے ساتھ لگایا۔[6] 1935ء میں ان کے والد کی وفات ہوئی اور ان پر اعلیٰ تعلیم چھوڑنے کا دباو بنا۔ انہوں نے کھیل کے سامان کی ایک دکان کھول لی مگر تجارت میں وہ ناکام رہے اور انہوں نے اپنے چھوٹے سے قصبے سے راولپنڈی منتقل ہونے کا فیصلہ کیا جہاں انہوں نے ایک ٹرانسپورٹ کمپنی کے لیے کام کرنا شراع کیا۔ بعد میں 1947ء میں انہوں نے پاکستانی سنیما میں قدم رکھا نغمہ لکھنے لگے۔[6] ان کے والد ایک تاجر تھے اور ان کے گھر میں شعر و شاعری کا کوئی رواج نہ تھا۔ ابتدا میں انہوں حکیم یحیی کو اپنا کلام دکھانا شروع کیا اور بعد میں احمد ندیم قاسمی سے اصلاح لینے لگے اور باقاعدہ ان کے شاگرد بن گئے۔ قاسمی ان کے دوست بھی تھے اور پڑوسی بھی۔[6]
فلمی دنیا[ترمیم]
1948ء میں ریلیز ہونے والی پاکستان کی پہلی فلم ’’تیری یاد‘‘ کی نغمہ نگاری سے ان کے فلمی سفر کا آغاز ہوا۔ جس کے بعد انہوں نے مجموعی طور پر 201 فلموں میں 900 سے زائد گیت تحریر کیے۔ وہ پاکستان کے واحد فلمی نغمہ نگار تھے جنہیں بھارتی فلموں کے لیے نغمہ نگاری کا اعزاز بھی حاصل ہوا تھا۔ انہوں نے کئی فلمیں بھی بنائیں جن میں پشتو فلم عجب خان آفریدی کے علاوہ ہندکو زبان میں بنائی جانے والی پہلی فلم ’’قصہ خوانی‘‘ شامل تھی۔ انہوں نے اردو میں بھی ایک فلم ’’اک لڑکی میرے گائوں کی‘‘ بنانی شروع کی تھی مگر یہ فلم مکمل نہ ہو سکی تھی۔ فلمی مصروفیات کے ساتھ ساتھ قتیل شفائی کا ادبی سفر بھی جاری رہا اپنی عمر کے آخری دور میں بہت مرتبہ ممبئی کا بھی سفر کیا اور ’سر‘، ’دیوانہ تیرے نام کا‘، ’بڑے دل والا‘ اور ’پھر تیری کہانی یاد آئی‘ جیسی بہت سی بھارتی فلموں کے لیے بھی عمدہ گیت لکھے۔
اُن کے گیتوں کی مجموعی تعداد ڈھائی ہزار سے زیادہ بنتی ہے، جن میں ’صدا ہوں اپنے پیار کی‘، ’اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں‘، ’یوں زندگی کی راہ سے ٹکرا گیا کوئی‘ کے ساتھ ساتھ ’یہ وادیاں، یہ پربتوں کی شاہزادیاں‘ جیسے زبان زدِ خاص و عام گیت بھی شامل ہیں۔ ان میں سے کئی گیتوں پر اُنہیں خصوصی اعزازات سے نوازا گیا
کلام کی خصوصیات[ترمیم]
قتیل شفائی نہایت ہی مقبول اور ہردلعزیز شاعر ہیں۔ ان کے لہجے کی سادگی و سچائی، عام فہم زبان کا استعمال اور عوام الناس کے جذبات و محسوسات کی خوبصورت ترجمانی ہی ان کی مقبولیت کا راز ہے۔ یوں تو انھوں مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی مگر ان کا اصل میدان غزل ہے۔ ان کی شاعری میں سماجی او رسیاسی شعور بھی موجود ہے۔ اور انھیں صف اول کے ترقی پسند شعرا میں اہم مقام حاصل ہے۔ فلمی نغمہ نگاری میں بھی انھوں نے ایک معتبر مقام حاصل کیا۔ ان کا کلام پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں میں یکساں طور پر مقبول ہے۔
نمونہ کلام[ترمیم]
بانٹ رہا تھا جب خدا سارے جہاں کی نعمتیں
اپنے خدا سے مانگ لی میں نے تیری وفا صنم‘
۔++++++
’حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گِرتا
ٹوٹے بھی جو تارہ تو زمیں پر نہیں گِرتا‘
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا
۔۔۔
’اے دِل کسی کی یاد میں
ہوتا ہے بے قرار کیوں‘
سنہ 1946میں نذیر احمد نےآپ کو لاہور بلایا اورماہنامہ ’ ادبِ لطیف‘ میں بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر کے کام کرنے کو کہا۔
’آ میرے پیار کی خوشبو
منزل پہ تجھے پہنچائے
آ میرے پیار کی خوشبو‘
ہفت روزہ اسٹار میں آپ کی پہلی غزل چھپی، اِس کے بعد آپ کو ایک فلم کے گیت لکھنے کو کہا گیا۔
آپ نے پہلی مرتبہ فلم ’تیری یاد‘ کے گیت لکھے۔ اِس کے بعد یہ سفر آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا۔
’حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں
اُن کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں‘
++++++++
وہ تیری بھی تو پہلی محبت نہ تھی قتیلؔ
پھر کیا ہوا اگر وہ بھی ہرجائی بن گیا
++++++++
آیا ہی تھا ابھی مرے لب پہ وفا کا نام
کچھ دوستوں نے ہاتھ میں پتھر اٹھا لیے
++++++++
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے، بغاوت نہیں کرتا
++++++++
اعزازت[ترمیم]
صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی 1994ء، آدم جی ادبی انعام، امیر خسرو ایورڈ، نقوش ایورڈ۔ نیز بھارت کی مگھد یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے ’’قتیل اور ان کے ادبی کارنامے‘‘ کے عنوان سے ان پر پی ایچ ڈی کی۔ صوبہ مہاراشٹر میں ان کی دو نظمیں شامل نصاب ہیں۔ علاوہ ازیں بہاولپور یونیورسٹی کی دو طالبات نے ایم اے کے لیے ان پر مقالہ تحریر کیا۔
فلمی نغمہ نگاری[ترمیم]
پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد سے نغمہ نگاری کا آغاز کیا۔ اڑھائی ہزار سے زائد نغمے لکھے۔ انہیں نیشنل فلم ایورڈ کے علاوہ دو طلائی تمغے اور بیس ایورڈ بھی دیے گئے۔
تصانیف[ترمیم]
|
کلیات[ترمیم]
- رنگ خوشبو روشنی (تین جلدیں)
وفات[ترمیم]
11 جولائی 2001ء کو قتیل شفائی لاہور میں وفات پاگئے اور علامہ اقبال ٹائون کے کریم بلاک کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئ
منسوبات[ترمیم]
لاہور جہاں رہتے تھے وہاں سے گزرنے والی شاہراہ کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا ہے جبکہ ہری پور میں ان کے رہائشی محلے کا نام محلہ قتیل شفائی رکھ دیا گیا،
حوالہ جات[ترمیم]
- ↑ Identifiants et Référentiels — اخذ شدہ بتاریخ: 5 مارچ 2020
- ↑ ربط : آئی ایم ڈی بی - آئی ڈی — اخذ شدہ بتاریخ: 2 اگست 2019
- ↑ http://www.screenindia.com/old/fullstory.php?content_id=12914
- ↑
- ↑ Poetry One website, Poetry of Qateel Shifai Retrieved 12 جون 2018
- ^ ا ب پ Profile of poet Qateel Shifai on rekhta.org website Retrieved 12 جون 2018
|
|
بیرونی روابط[ترمیم]
- 1919ء کی پیدائشیں
- 24 دسمبر کی پیدائشیں
- 2001ء کی وفیات
- 11 جولائی کی وفیات
- لاہور میں وفات پانے والی شخصیات
- تمغائے حسن کارکردگی وصول کنندگان
- نگار اعزاز جیتنے والی شخصیات
- آدم جی ادبی اعزار کے وصول کنندگان
- اردو شعرا
- پاکستانی اردو شعرا
- پاکستانی شعرا
- پاکستانی غنائی شعرا
- پاکستانی نغمہ نگار
- ترقی پسند شاعر
- ضلع ہری پور کی شخصیات
- لاہوری شخصیات
- ہندکو شخصیات