سریہ عبد اللہ بن انیس
Appearance
سریہ عبد اللہ بن انیس | |||
---|---|---|---|
عمومی معلومات | |||
| |||
متحارب گروہ | |||
مسلمان | مشرکین مکہ | ||
قائد | |||
عبداللہ بن انیس | خالد بن سفیان ہذلی | ||
قوت | |||
1 | نامعلوم | ||
نقصانات | |||
1 قتل | |||
درستی - ترمیم |
محرم 4 ہجری کی 4 تاریخ کو یہ خبر ملی کے خالد بن سفیان ہذلی مسلمانوں پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس سریہ کا مقصد اس لشکر کو تتربتر کرنا تھا، جو عرفہ کے مقام پر مسلمانوں سے جنگ کے لیے اکٹھا کیا جا رہا تھا۔
واقعات
[ترمیم]- محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نے عبد اللہ بن انیس رضی اللہ کو کارروائی کے لیے روانہ کیا انھوں نے حیلہ کرنے کی اجازت مانگی جوآپﷺ نے دے دی۔ جب عبد اللہ بن انیس رضی اللہ اپنی منزل پر پہنچے تو خالد بن سفیان اپنی بیوی کی صحبت میں تھا۔ استفسار کرنے پر آپ نے جواب دیا کہ میں بنی خزاعہ کا ایک قبائلی عرب ہوں۔ مجھے خبر ملی ہے کہ آپ مسلمانوں کے خلاف لشکر تشکیل دے رہیں ہیں۔ میں اسی سلسلہ میں آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں۔ خالد بن سفیان نے آپ پر بھروسا کر لیا مختلف باتیں کرتے رہے جب سارے لوگ چلے گئے تو خالد بن سفیان نے عبد اللہ بن انیس کو تنہائی میں کچھ بات کرنے کے لیے کہا خزاعی بھائی ادھر آؤ باتیں کرتے کافی رات ہو گئی جب سارے لوگ سو گئے تو خالد بن سفیان پر حملہ کرنے کا موقع ملا تو آپ نے اپنی تلوار سے اس کا سر قلم کر دیا۔ اور چپکے سے وہاں سے نکل گئے ایک غار میں چھپے رہے غار پر مکڑی کے جالے کی وجہ سے کوئی آپ تک نہ پہنچا جب
- عبد اللہ بن انیس رضی اللہ مدینہ سے 18 روز باہر رہ کر 23 محرم کو خالد بن سفیان کے سر کے ہمراہ واپس لوٹے۔ جب خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہوئے تو رسول اللہ نے فرمایا یہ چہرہ روشن ہو گیا سر آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انھیں ایک عصا مرحمت فرمایا اور فرمایا کہ یہ میرے اور تمھارے درمیان قیامت کے روز نشانی رہے گا۔ اسی عصا وجہ سے عبد اللہ بن انیس کو ذو المحضرہ کہا جاتا ہے [1][2]
ماقبل: سریہ ابو سلمہ مخزومی محرم 4 ہجری |
سرایا نبوی سریہ عبد اللہ بن انیس |
مابعد: سریہ منذر بن عمرو صفر 4 ہجری |