ہندوستانی صوبائی انتخابات، 1937ء
| |||||||||||||||||
1585 صوبائی نشستوں پر انتخاب لڑا گیا | |||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
| |||||||||||||||||
گول میز کانفرنس کی ناکامی کے بعد برطانوی پارلیمنٹ نے ہندوستان میں ایک حکومتی ڈھانچہ قائم کرنے کے لیے 4 اگست 1935ء کو ایک مسودۂ قانون کی منظوری دے دیدی۔ ہم اس کو ’’قانون ہند مجریہ 1935ء ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ اس قانون کے دو حصے تھے۔
1۔ وفاقی حصہ
2۔ صوبائی حصہ
قانون ہذا کے مطابق مرکزی سطح پر تمام صوبوں اور ریاستوں کے باہمی اشتراک سے ایک آل انڈیا فیڈریشن کا قیام عمل میں لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ جبکہ باہمی صوبائی سطحوں پر 1919ء کی اصلاحات کی رو سے رائج الوقت دو عملی نظام حکومت کو ذمہ دار حکومت سے تبدیل کر دیا گیا۔ اڑیسہ کو ایک نیا صوبہ بنا یا گیا۔ صوبہ سرحد کو مکمل طور پر صوبے کا درجہ دیا گیا۔
رد عمل
[ترمیم]جہاں تک اس قانون کے وفاقی حصے کا تعلق تھا، آل انڈیا نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ دونوں سیاسی جماعتوں نے اسے مسترد کر دیا اور ریاستوں کی طرف سے بھی اس پر کافی اعتراضات کیے گئے۔
دوسری طرف اس قانون کے صوبائی حصہ کو مسلم لیگ اور کانگریس دونوں نے قبول کر لیا، جس کے تحت جنوری 1937ء میں ہندوستان کے کل گیارہ صوبوں میں انتخابات منعقد ہوئے۔ نتائج کے مطابق کانگریس کو پانچ صوبوں (مدراس، متحدہ صوبہ جات، مرکزی صوبہ جات بہار اور اڑیسہ) میں قطعی اکثریت حاصل ہو گئی۔ کانگریس کی لیڈر شپ نے ان صوبوں میں مخلوط حکومت بنانے سے انکار کر دیا اور اس طرح ان صوبوں میں واحد پارٹی کانگریس کی حکومتیں تشکیل دی گئیں۔ چند دنوں بعد کانگریسی رہنماؤں نے بمبئی اور سرحد میں بھی چند اقلیتی پارٹیوں کی مدد سے حکومتیں قائم کر لیں۔ اس طرح کانگریس نے ہندوستان کے کل گیارہ صوبوں میں سے سات صوبوں میں اپنی وزارتیں قائم کر لیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان انتخابات کے دوران کانگریس کے صدر پنڈت جواہر لعل نہرو نے دعوی کیا تھا کہ ہندوستان میں صرف دو قوتیں ہیں، ایک انگریز سرکار اور دوسری آل انڈیا نیشنل کانگریس۔ اس پر قائد اعظم نے نہرو کو چیلنج کرتے ہوئے یاد دلایا کہ ایک تیسری قوت بھی موجود ہے اور اس تیسری قوت کا نام مسلمان ہے، جسے کوئی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔
کانگریسی وزارتوں کی کارکردگی
[ترمیم]قانون مجریہ 1935ء کے تحت قائم ہونے والی کانگریسی وزارتوں کو سوا دو سال تک کام کرنے کا موقع ملا۔ نومبر 1939ء میں کانگریس اور انگریز کے درمیان دوسری جنگ عظیم میں ہندوستان کی شمولیت کے سوال پر اختلافات کی وجہ سے وزارتوں کو مجبوراً مستعفی ہونا پڑا۔ مسلم لیگ نے قائد اعظم محمد علی جناح کی ہدایت پر 22 دسمبر 1939ء کو یوم نجات منایا۔
انتخابات 1937ء اور ان کے نتیجے میں قائم ہونے والی کانگریسی وزارتوں کی کارکردگی نے مسلم لیگ کی سیاست کا محور تبدیل کرکے رکھ دیا۔ پہلے مغل دربار کے دوران اور بعد میں ہندوستان میں انگریزوں کی آمد کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ ہندوؤں کو اقتدار نصیب ہوا۔ انھوں نے اپنی ذہنیت، سیاست، تنگ نظری اور انتہا پسندی کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ بلکہ مستقبل کے لیے اپنے عزائم کا اظہار بھی کیا۔۔ انھوں نے کونسے کونسے اقدامات کیے ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
1۔ صوبائی قانون ساز مجلسوں میں کارروائی کا آغاز بندے ماترے سے ہوتا تھا۔ یہ بات مسلمان اراکین کے لیے قابل قبول نہ تھی۔
2۔ تمام تعلیمی اداروں میں دن کا آغاز بندے ماترم سے ہوتا جس سے مسلمان طلبہ میں بے چینی اور اضطراب پھیل گیا
3۔ گائے کا ذبیحہ ممنوع قرار دیا گیا۔
4۔ دورانِ اذان مساجد کے سامنے متعصب ہندوؤں نے ڈھول باجے بجانے کا نیا طریقہ اپنایا۔
5۔ مسلمانوں کو کانگریس میں شامل کرنے کے لیے ملک گیر سطح پر تحریک شروع کر دی گئی۔
ان وجوہات کی بنا پر مسلمانانِ ہند بوکھلا گئے ان کو نہ صرف اپنا جداگانہ تشخص خطرے میں نظر آنے لگا بلکہ ایسے حالات پیدا کیے جا رہے تھے۔ جہاں ان کو ان کے دیرینہ غلاموں کی غلامی قبول کرنے کے لیے بھی مجبور کیا جا رہا تھا۔ جس کے لیے مسلمان کسی بھی قیمت پر راضی نہیں تھے۔ سچ پوچھیے تو 1937ء کے انتخابات مسلمانوں کے لیے ایک تازیانے سے کم نہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تین صوبوں کے وزراء اعلی پنجاب سکندر حیات خان، بنگال کے فضل الحق اور آسام کے سر سعد اللہ خان بیک وقت مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور انھوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کو اپنا رہنما تسلیم کرتے ہوئے آپ کے مشن پر لبیک کہا۔ ان کی آمد سے مسلم لیگ ایک ناقابل شکست قوت بن کر سامنے آئی۔ 1937ء کے انتخابات کے تجربے سے گزرنے کے بعد مسلم زعماء جان گئے کہ ہندوستان میں محض ان کے حقوق کا تحفظ کانی نہیں ہے بلکہ مکمل حق خود ارادیت اُن کے خدشات اور احساس محرومیت کا مداوا کر سکتا ہے۔ اتنی بڑی تبدیلی کے بعد اب آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنما اس قابل تھے کہ اپنی چونتیس سالہ سیاست کا ثمر مسلمانوں کے سامنے پیش کر سکے۔ یہ ثمر اور یہ منزل مقصود ہم قرارداد پاکستان کی صورت میں دیکھتے ہیں جس کی منظوری آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنے ستائیسویں سالانہ اجلاس جو مارچ 1940ء میں لاہور میں منعقد ہوا، میں دی۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرارداد پاکستان کے پس منظر میں جو سب سے بڑا اور فی الفور محرک ہے۔ وہ یہی 1937ء کے انتخابات اور کانگریسی وزارتیں ہیں۔
نتائج
[ترمیم]ان وزارتوں کی وجہ سے مسلم لیگ صحیح معنوں میں آل انڈیا مسلم لیگ بنی۔
ان وزارتوں کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح کو صحیح معنوں میں مسلمانوں کا ایک عظیم لیڈر بننے کا موقع ملا
ان انتخابات کے بعد ہی مسلمانوں نے ایک الگ وطن کے مطالبے کے لیے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے قراردادِ پاکستان منظور کی۔