میثاق لکھنؤ
اکتوبر 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے درمیان ہونے والا سیاسی معاہدہ تھا۔
پس منظر
[ترمیم]غیر منقسم ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں معاہدہ لکھنؤ کو اس لیے اہمیت حاصل ہے کہ یہ معاہدہ آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے درمیان پہلا اور آخری سیاسی سمجھوتہ تھا ۔انگریز کے دور اقتدار میں اگر ہندوستانیوں کی سیاست کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہندوستانیوں کی ایک خاص تعداد اس مفروضے پر یقین رکھتے تھے اگر ہندو اور مسلمان متحد ہو جائیں تو برطانوی سامراجیت کا خاتمہ اور غلامی کی زنجیروں کو توڑنا ممکن ہے۔ مختلف رہنماؤں نے مختلف اوقات میں اس نظریے کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں بھی کی ہیں۔ ایک زمانے تک خود آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس میں ایسے رہنما موجود تھے جو اس خیال کے بہت بڑے مدعی تھے۔ مگر بیسویں صدی کے اوائل میں ہندوستان کے اندر اور ہندوستان سے باہر چند ایسے واقعات رونما ہوئے جن کی بنا پر ہندوستان کی سیاست کی کایہ پلٹ گئی اورہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت پیدا ہونے کے لیے حالات سازگار ہو ئے۔ مسلمانوں میں تیزی سے انگریز سرکار کے خلاف نفرت کا جذبہ پروان چڑھنے لگا۔ جس کی وجہ انگریز سرکار کی کچھ پالیسیاں تھیں۔تریپولی میں اٹلی کی کارروائی کی حمایت، کانپور میں بڑے پیمانے پر قتل عام اور بلقان کی جنگوں میں انگریز کی اسلام دشمن سرگرمیاں اور پالیسوں نے مخالفت کو مزید ہوا دی۔
ان کے علاوہ چند امور ایسے تھے جن پر آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے درمیان مکمل اتفاق رائے پایا جاتا تھا۔ ان میں سیکرٹری آف سٹیٹ آفتاب احمد رودینی بلوچ کی کونسل کو ختم کرانا، ایمپرئیل لیجسلٹیو کونسل اور بڑے بڑے صوبوں میں صوبائی لیجسلٹیو کونسلز کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ حق انتخاب کا دائرہ وسیع کرانا شامل ہیں۔
اسی سیاسی فضا میں پہلی جنگ عظیم شروع ہو گئی جس نے ہندو۔ مسلم اتحاد کے نظریے کو مزید تقویت پہنچائی۔ اب دونوں قومیں(ہندو اور مسلمان) اپنے مشترکہ دشمن انگریز کے خلاف بر سر پیکار ہوگئیں اور کوئی مؤثر اور مربوط لائحہ عمل اختیار کرنے کے لیے پر تول رہی تھیں۔
انہی حالات و واقعات میں بالآخر آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے درمیان فاصلے گھٹ گئے۔ نتیجے کے طور پر1915ء میں دونوں جماعتوں کے اجلاس ممبئی میں ایک ہی مقام پر منعقد ہوئے جہاں دونوں پارٹیوں کی طرف سے کمیٹیاں تشکیل دی گئیں تاکہ دونوں جماعتوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی اور مفاہمت کے کسی فارمولے پر باالمشافہ بات چیت ہو سکے ۔نومبر 1916ء میں ان کمیٹیوں کا ایک مشترکہ اجلاس لکھنؤ میں منعقد ہوا اس اجلاس میں کافی غور وخوص کے بعد ایک معاہدہ طے پایا ۔دسمبر 1916ء میں آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ دونوں نے اپنے اجلاس منعقدہ لکھنؤ میں اس معاہدے کی توثیق کر دی ۔
معاہدہ لکھنؤ
[ترمیم]غیر منقسم ہندوستان کی تاریخ میں معاہدہ لکھنؤ کو ایک اہم سیاسی دستاویز قرار د یا جا سکتا ہے۔ اس کے تحت آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنماؤں نے نہ صرف ایک دوسرے کے مؤقف کے جاننے اور برداشت کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ انھوں نے اپنے رویوں میں بھی خاصی لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔
اس معاہدے کی رو سے جن نکات پر اتفاق رائے کیا گیا ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
1۔ کانگریس نے مسلم لیگ کا مطالبہ برائے جداگانہ انتخاب تسلیم کر لیا۔
2۔ مرکزی قانون ساز اسمبلی میں مسلمانوں کے لیے ایک تہائی نشستیں مخصوص کرنے سے بھی کانگریس نے اتفاق کر لیا۔
3۔ ہندوؤں کو پنجاب اور بنگال میں توازن بخشا گیا۔ ان صوبوں میں ہندو نشستوں میں اضافے کے ساتھ مسلم لیگ نے اتفاق کر لیا ۔
4۔ جن جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت نہیں تھی وہاں مسلم نشستوں میں اضافہ کر دیا گیا۔ یعنی جن ریاستوں میں مسلمان اقلیت کے طور پر تھے وہاں مسلمانوں کی آبادی کی مناسبت سے نششتوں کا تعین کیا گیا۔
5۔ اس بات سے بھی اتفاق کیا گیا کہ کوئی ایسا بل یا قرارداد جس کے ذریعے اگر ایک قومیت متاثر ہو سکتی ہے اور اسی قومیت کے تین چوتھائی اراکین اس بل یا قرارداد کی مخالفت کرے تو ایسا کوئی مسودہ قانون کارروائی کے لیے کسی بھی اسمبلی میں پیش نہیں کیا جائے گا۔
تبصرہ
[ترمیم]معاہدہ لکھنؤ انگریز کی پالیسی “Divide and Rule”کے خلاف ایک مؤثر اور بہترین حکمتِ عملی تھی ہم اسے (Be united and get ruined the British Imperialism in India)کا نام دے سکتے ہیں۔ اس حکمتِ عملی کو اپنانے اور اسے عملی جامہ پہنانے میں جن زعماء نے بنیادی کردار ادا کیا ہے ان میں معمارِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا نام سرفہرست ہے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کو ان کی اپنی خدمات کے اعتراف کے طور پر Ambassador of Hindu Muslim unityکے خطابات سے نوازا گیا۔ علاوہ ازیں اس یادگار واقعے کی یاد میں آپ ہی کے نام پر بمبئی میں ’’جناح ہال‘‘ بھی تعمیر کیا گیا۔ یہ قائداعظم کی سیاسی زندگی کا پہلا دور تھا اس پہلے دور میں آپ ہندو، مسلم اتحاد کے داعی تھے۔ یہ معاہدہ آپ کی طرف سے ہندو مسلم اتحاد کا پہلا تجربہ تھا۔ لیکن بعد کے حالات و واقعات اور خاص کر ہندوؤں کے رویے نے آپ کو اس نظریے سے منحرف کر دیا۔
انجام
[ترمیم]معاہدہ لکھنؤ پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ اگر اس معاہدے کی شرائط پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ معاہدہ قائداعظم اور ان کے ساتھیوں کی ایک بہت بڑی سیاسی جیت تھی۔ کیونکہ اس کی رو سے انھوں نے نہ صرف مسلمانوں کو ایک علاحدہ اور کامل قوم منوایا بلکہ آل انڈیا مسلم لیگ کو مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت بھی تسلیم کروایا۔ انھوں نے مسلمانوں کے لیے اس معاہدے کے ذریعے ویٹو کا حق حاصل کیا وہ بلاشبہ ان کے بہترین مفاد میں تھا کیونکہ اس کے ذریعے وہ ہر ایسے بل کو ویٹو کر سکتے تھے جو ان کے مذہب، ثقافت یا روایات پر اثر انداز ہو سکتا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس معاہدے کی رو سے ہندوؤں کی کوشش یہ تھی کہ کسی طریقے سے مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان نفاق کے بیج بو دیے جائیں۔ ان کے خیال میں اس کا جو بھی نتیجہ برآمد ہوگا وہ ہندوؤں کے مفاد میں ہوگا لیکن جب پہلی جنگ عظیم کے بعد حالات تبدیل ہو گئے، تحریک ہجرت اور تحریک خلافت کے ذریعے انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان میں براہ راست تصادم کا آغاز ہوا تو اس صورتِ حال میں ہندوؤں کے لیے معاہدہ لکھنؤ کی اہمیت ختم ہو گئی اس لیے کانگریسی قیادت نے اس معاہدے کو پس پشت ڈال دیا۔