"کاغذی کرنسی" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
39 مآخذ کو بحال کرکے 16 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8
9 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8
سطر 801: سطر 801:


مشہور ماہر معاشیات Ludwig von Mises (1881–1973) اپنی تصنیف Beware the Alchemists (دولت بنانے والوں سے ہوشیار)میں لکھتے ہیں کہ حکومت کو یہ حق ہے کہ وہ جسے چاہے گھوڑا کہے۔ وہ چوزے کو بھی گھوڑا کہہ سکتی ہے۔ اس وقت تو لوگ حکومت کو پاگل یا کرپٹ سمجھیں گے۔ لیکن تین صدیوں میں حکومتیں کاغذ کے ٹکڑے کو کرنسی باور کرانے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔ اور یہی مہنگائی کی اصل وجہ ہے۔<!-- If a judge were to say that whatever the government calls a horse is whatever the government calls a horse, and that the government has the right to call a chicken a horse, everybody would consider him either corrupt or insane. Yet in the course of a very long evolution, the government has converted the situation that the government must settle disputes concerning the meaning of "money" as referred to in contracts, into another situation. Over centuries many governments and many theories of law have brought about the doctrine that money, one side of most exchange agreements, is whatever the government calls money. The governments are pretending to have the right to do what this doctrine tells them, that is to declare anything, even a piece of paper, "money." And this is the root of the monetary problem.
مشہور ماہر معاشیات Ludwig von Mises (1881–1973) اپنی تصنیف Beware the Alchemists (دولت بنانے والوں سے ہوشیار)میں لکھتے ہیں کہ حکومت کو یہ حق ہے کہ وہ جسے چاہے گھوڑا کہے۔ وہ چوزے کو بھی گھوڑا کہہ سکتی ہے۔ اس وقت تو لوگ حکومت کو پاگل یا کرپٹ سمجھیں گے۔ لیکن تین صدیوں میں حکومتیں کاغذ کے ٹکڑے کو کرنسی باور کرانے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔ اور یہی مہنگائی کی اصل وجہ ہے۔<!-- If a judge were to say that whatever the government calls a horse is whatever the government calls a horse, and that the government has the right to call a chicken a horse, everybody would consider him either corrupt or insane. Yet in the course of a very long evolution, the government has converted the situation that the government must settle disputes concerning the meaning of "money" as referred to in contracts, into another situation. Over centuries many governments and many theories of law have brought about the doctrine that money, one side of most exchange agreements, is whatever the government calls money. The governments are pretending to have the right to do what this doctrine tells them, that is to declare anything, even a piece of paper, "money." And this is the root of the monetary problem.
--> <ref>[http://bmgbullionbars.com/the-federal-reserves-centennial-birthday-the-hundred-years-war-against-gold-and-economic-common-sense/ سونے اور اکنومک کومن سینس کے خلاف سو سالہ جنگ/]</ref>
--> <ref>{{Cite web |url=http://bmgbullionbars.com/the-federal-reserves-centennial-birthday-the-hundred-years-war-against-gold-and-economic-common-sense/ |title=سونے اور اکنومک کومن سینس کے خلاف سو سالہ جنگ/ |access-date=2014-11-02 |archive-date=2015-03-21 |archive-url=https://web.archive.org/web/20150321040506/http://bmgbullionbars.com/the-federal-reserves-centennial-birthday-the-hundred-years-war-against-gold-and-economic-common-sense/ |url-status=dead }}</ref>


{| class="wikitable"
{| class="wikitable"
سطر 844: سطر 844:
* مخفی [[انفلیشن ٹیکس]] کی وجہ سے بچت اپنی قوت خرید کھو دیتی ہے
* مخفی [[انفلیشن ٹیکس]] کی وجہ سے بچت اپنی قوت خرید کھو دیتی ہے
* دولت تخلیق ہونے سے عوام پر قرض چڑھتا ہے جس سے
* دولت تخلیق ہونے سے عوام پر قرض چڑھتا ہے جس سے
* آنے والی نسل پر بھی ٹیکس لگ جاتا ہے<ref>[http://www.goldcore.com/us/gold-blog/u-s-state-finances-lack-truth-and-integrity-volcker-warns پال واکر کا بیان]</ref>
* آنے والی نسل پر بھی ٹیکس لگ جاتا ہے<ref>{{Cite web |url=http://www.goldcore.com/us/gold-blog/u-s-state-finances-lack-truth-and-integrity-volcker-warns |title=پال واکر کا بیان |access-date=2015-06-11 |archive-date=2015-06-12 |archive-url=https://web.archive.org/web/20150612011330/http://www.goldcore.com/us/gold-blog/u-s-state-finances-lack-truth-and-integrity-volcker-warns/ |url-status=dead }}</ref>
|}
|}


سطر 1,903: سطر 1,903:
جرمنی میں جب 1933 میں [[نازی]] پارٹی الیکشن جیت کر حکومت میں آئی تو [[جرمنی]] کی [[معیشت]] بالکل تباہ و برباد ہو چکی تھی۔ 60 لاکھ لوگ بے روزگار تھے۔ [[پہلی جنگ عظیم]] میں شکست کے بعد جرمنی کو بھاری [[تاوان جنگ]] ادا کرنا پڑ رہا تھا۔ [[بیرونی سرمائیہ کاری]] کے امکانات بالکل صفر تھے۔ جرمنی کی ساری [[نوآبادی|نو آبادیاں]] اس سے چھین لی گئیں تھیں۔ صرف چند سالوں میں سوا دو لاکھ افراد [[خودکشی]] کر چکے تھے۔ صورت حال کچھ ایسی تھی کہ ہر جرمن فرد پر 6000 مارک کا قرضہ تھا جبکہ اس کی جیب میں 14 مارک بھی نہیں تھے۔<ref>[http://www.ihr.org/jhr/v12/v12p299_Degrelle.html INSTITUTE FOR HISTORICAL REVIEW]</ref> لیکن صرف چار سال میں [[ہٹلر]] نے جرمنی کو دوبارہ [[یورپ]] کی مضبوط ترین معیشت بنا دیا۔ اس وقت تک جرمنی نے بڑے پیمانے پر اسلحہ سازی بھی شروع نہیں کی تھی۔ 1935 سے ہٹلر نے پرائیوٹ بینکوں سے قرض لینے کی بجائے حکومت کی جانب سے خود کرنسی چھاپنی شروع کر دی جیسا کہ کمیونسٹ حکومتیں کرتی ہیں۔ ہٹلر کی یہ کرنسی MEFO bill کہلاتی تھی۔ 1945 تک جرمنی یہ کرنسی چھاپتا رہا جس کی پشت پر نہ کوئی [[سونا]] تھا نہ کوئی [[قرض]]۔ جس وقت [[امریکا]] اور دوسرے یورپی ممالک میں لاکھوں لوگ بے روزگار تھے، جرمنی میں بے روزگاری ختم ہو چکی تھی۔ معیشت مضبوط ہو چکی تھی۔ عالمی بینکاروں کی طرف سے لگائی جانے والی معاشی پابندیوں اور [[بائیکاٹ]] کے باوجود جرمنی [[بارٹر سسٹم]] کی مدد سے دوسرے ممالک سے تجارت بحال کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔<br/>
جرمنی میں جب 1933 میں [[نازی]] پارٹی الیکشن جیت کر حکومت میں آئی تو [[جرمنی]] کی [[معیشت]] بالکل تباہ و برباد ہو چکی تھی۔ 60 لاکھ لوگ بے روزگار تھے۔ [[پہلی جنگ عظیم]] میں شکست کے بعد جرمنی کو بھاری [[تاوان جنگ]] ادا کرنا پڑ رہا تھا۔ [[بیرونی سرمائیہ کاری]] کے امکانات بالکل صفر تھے۔ جرمنی کی ساری [[نوآبادی|نو آبادیاں]] اس سے چھین لی گئیں تھیں۔ صرف چند سالوں میں سوا دو لاکھ افراد [[خودکشی]] کر چکے تھے۔ صورت حال کچھ ایسی تھی کہ ہر جرمن فرد پر 6000 مارک کا قرضہ تھا جبکہ اس کی جیب میں 14 مارک بھی نہیں تھے۔<ref>[http://www.ihr.org/jhr/v12/v12p299_Degrelle.html INSTITUTE FOR HISTORICAL REVIEW]</ref> لیکن صرف چار سال میں [[ہٹلر]] نے جرمنی کو دوبارہ [[یورپ]] کی مضبوط ترین معیشت بنا دیا۔ اس وقت تک جرمنی نے بڑے پیمانے پر اسلحہ سازی بھی شروع نہیں کی تھی۔ 1935 سے ہٹلر نے پرائیوٹ بینکوں سے قرض لینے کی بجائے حکومت کی جانب سے خود کرنسی چھاپنی شروع کر دی جیسا کہ کمیونسٹ حکومتیں کرتی ہیں۔ ہٹلر کی یہ کرنسی MEFO bill کہلاتی تھی۔ 1945 تک جرمنی یہ کرنسی چھاپتا رہا جس کی پشت پر نہ کوئی [[سونا]] تھا نہ کوئی [[قرض]]۔ جس وقت [[امریکا]] اور دوسرے یورپی ممالک میں لاکھوں لوگ بے روزگار تھے، جرمنی میں بے روزگاری ختم ہو چکی تھی۔ معیشت مضبوط ہو چکی تھی۔ عالمی بینکاروں کی طرف سے لگائی جانے والی معاشی پابندیوں اور [[بائیکاٹ]] کے باوجود جرمنی [[بارٹر سسٹم]] کی مدد سے دوسرے ممالک سے تجارت بحال کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔<br/>
ایک طرف [[جرمنی]] میں کرنسی چھاپنے کا اختیار حکومت نے پرائیوٹ بینکوں سے چھین لیا تھا دوسری طرف [[جاپان]] میں بھی کرنسی حکومت چھاپ رہی تھی۔ اور ان دونوں ممالک میں ترقی کی رفتار نہایت تیز تھی<!-- During the 1931–41 period manufacturing output and industrial production increased by 140% and 136% respectively, while national income and Gross National Product (GNP) were up by 241% and 259% respectively. --> ۔<ref>[http://www.counter-currents.com/2011/08/breaking-the-bondage-of-interesta-right-answer-to-usury-part-4/ “Hidden Hand” behind wars and revolutions]</ref> یہ صورت حال مرکزی بینکاروں کی برداشت سے باہر تھی۔ اگر دوسرے ممالک کے عوام بھی حکومتی کرنسی چھاپنے کا مطالبہ کر دیتے تو بینکاروں کا صدیوں پرانا کھیل ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا۔ اس لیے جرمنی اور جاپان کے خلاف [[دوسری جنگ عظیم]] شروع کی گئی۔<ref>[http://www.webofdebt.com/articles/bankrupt-germany.php ہٹلر کا مالیاتی نظام]</ref> <!-- Hitler not only engaged in barter trade which meant no discount profits for bankers arranging bills of Exchange, but he even went so far as to declare that a country’s real wealth consisted in its ability to produce goods; nor, when men and material were available, would he ever allow lack of money to be an obstacle in the way of any project which he considered to be in his country’s interests. This was rank heresy in the eyes of the financiers of Britain and America, a heresy which, if allowed to spread, would blow the gaff on the whole financial racket.” --><ref name="A war of financiers and fools"/><br/>
ایک طرف [[جرمنی]] میں کرنسی چھاپنے کا اختیار حکومت نے پرائیوٹ بینکوں سے چھین لیا تھا دوسری طرف [[جاپان]] میں بھی کرنسی حکومت چھاپ رہی تھی۔ اور ان دونوں ممالک میں ترقی کی رفتار نہایت تیز تھی<!-- During the 1931–41 period manufacturing output and industrial production increased by 140% and 136% respectively, while national income and Gross National Product (GNP) were up by 241% and 259% respectively. --> ۔<ref>[http://www.counter-currents.com/2011/08/breaking-the-bondage-of-interesta-right-answer-to-usury-part-4/ “Hidden Hand” behind wars and revolutions]</ref> یہ صورت حال مرکزی بینکاروں کی برداشت سے باہر تھی۔ اگر دوسرے ممالک کے عوام بھی حکومتی کرنسی چھاپنے کا مطالبہ کر دیتے تو بینکاروں کا صدیوں پرانا کھیل ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا۔ اس لیے جرمنی اور جاپان کے خلاف [[دوسری جنگ عظیم]] شروع کی گئی۔<ref>[http://www.webofdebt.com/articles/bankrupt-germany.php ہٹلر کا مالیاتی نظام]</ref> <!-- Hitler not only engaged in barter trade which meant no discount profits for bankers arranging bills of Exchange, but he even went so far as to declare that a country’s real wealth consisted in its ability to produce goods; nor, when men and material were available, would he ever allow lack of money to be an obstacle in the way of any project which he considered to be in his country’s interests. This was rank heresy in the eyes of the financiers of Britain and America, a heresy which, if allowed to spread, would blow the gaff on the whole financial racket.” --><ref name="A war of financiers and fools"/><br/>
1945 میں [[دوسری جنگ عظیم|جنگ عظیم دوم]] میں [[جاپان]] کو ایٹمی ہتھیاروں سے شکست دینے کے بعد وہاں سب سے پہلا کام کاغذی کرنسی کی تخلیق کے بلا سودی بینکاری نظام کو "درست" کیا گیا تھا اور امریکا برطانیہ، اٹلی اور فرانس کی طرح پرائیوٹ سنٹرل بینک قائم کیا گیا تھا۔ اس جنگ سے پہلے جاپان کا سینٹرل بینک حکومتی ملکیت میں تھا اور نوٹ چھپنے پر حکومت کو نہ قرض لینا پڑتا تھا نہ سود دینا پڑتا تھا۔<ref>{{cite web |url=http://www.veteranstoday.com/2011/06/26/was-world-war-ii-fought-to-make-the-world-safe-for-usury/ |title=دوسری جنگ عظیم تو بینکاروں کی حفاظت کے لیے لڑی گئی تھی |author=<!-- Staff writer(s); no by-line. --> |date= |website=veteranstoday |publisher= |accessdate=}}</ref> 1940 میں ایک ڈالر 4.27 جاپانی ین کے برابر تھا۔ 1950 میں ایک ڈالر 361.1 ین کے برابر ہو چکا تھا۔<ref>[[فہرست تاریخی شرح مبادلہ بمقابلہ امریکی ڈالر|Tables of historical exchange rates to the United States dollar]]</ref>
1945 میں [[دوسری جنگ عظیم|جنگ عظیم دوم]] میں [[جاپان]] کو ایٹمی ہتھیاروں سے شکست دینے کے بعد وہاں سب سے پہلا کام کاغذی کرنسی کی تخلیق کے بلا سودی بینکاری نظام کو "درست" کیا گیا تھا اور امریکا برطانیہ، اٹلی اور فرانس کی طرح پرائیوٹ سنٹرل بینک قائم کیا گیا تھا۔ اس جنگ سے پہلے جاپان کا سینٹرل بینک حکومتی ملکیت میں تھا اور نوٹ چھپنے پر حکومت کو نہ قرض لینا پڑتا تھا نہ سود دینا پڑتا تھا۔<ref>{{cite web |url=http://www.veteranstoday.com/2011/06/26/was-world-war-ii-fought-to-make-the-world-safe-for-usury/ |title=دوسری جنگ عظیم تو بینکاروں کی حفاظت کے لیے لڑی گئی تھی |author=<!-- Staff writer(s); no by-line. --> |date= |website=veteranstoday |publisher= |accessdate= |archive-date=2013-05-27 |archive-url=https://web.archive.org/web/20130527220024/http://www.veteranstoday.com/2011/06/26/was-world-war-ii-fought-to-make-the-world-safe-for-usury/ |url-status=dead }}</ref> 1940 میں ایک ڈالر 4.27 جاپانی ین کے برابر تھا۔ 1950 میں ایک ڈالر 361.1 ین کے برابر ہو چکا تھا۔<ref>[[فہرست تاریخی شرح مبادلہ بمقابلہ امریکی ڈالر|Tables of historical exchange rates to the United States dollar]]</ref>


آج [[جاپان]] پر قرضے 23٫000 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں جو [[خام ملکی پیداوار|جی ڈی پی]] کا 245 فیصد ہیں۔<ref>{{cite news |title=Mr-Yen-cautions-on-Japans-unsafe-debt-trajectory |author= |url=http://www.telegraph.co.uk/finance/financialcrisis/9955287/Mr-Yen-cautions-on-Japans-unsafe-debt-trajectory.html |newspaper=ٹیکیگراف |date= |accessdate=}}</ref><br/>
آج [[جاپان]] پر قرضے 23٫000 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں جو [[خام ملکی پیداوار|جی ڈی پی]] کا 245 فیصد ہیں۔<ref>{{cite news |title=Mr-Yen-cautions-on-Japans-unsafe-debt-trajectory |author= |url=http://www.telegraph.co.uk/finance/financialcrisis/9955287/Mr-Yen-cautions-on-Japans-unsafe-debt-trajectory.html |newspaper=ٹیکیگراف |date= |accessdate=}}</ref><br/>
سطر 2,205: سطر 2,205:
[[فائل:St. Louis Adjusted Monetary Base for 100 years.png|تصغیر|400px|فیڈرل ریزرو کی سو سالہ 'بیلنس شیٹ']]
[[فائل:St. Louis Adjusted Monetary Base for 100 years.png|تصغیر|400px|فیڈرل ریزرو کی سو سالہ 'بیلنس شیٹ']]
یہ مرکزی بینک اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے [[فیڈرل ریزرو|وفاقی ذخائر]] کی [[شرح سود]] (Federal Fund Rate) میں اضافہ نہیں ہونے دے رہے جو [[ٹیلر کا اصول|ٹیلر کے اصول]] کے مطابق نوٹ زیادہ چھاپنے کا قدرتی نتیجہ ہوتا ہے۔ اندازہ ہے کہ امریکا میں5000 ارب ڈالر اس عرصہ میں [[مقداریہ سہل|مقداری تسہیل]] کے نام پر چھاپے گئے۔ یہ اتنی بڑی مقدار ہے کہ بچے بوڑھے سمیت ہر امریکی کو 17000 ڈالر دیے جا سکتے تھے<ref>{{cite web |url=http://www.theblaze.com/stories/is-gold-money-ron-paul-grills-bernanke-on-fed-policies/ |title=Bernanke-on-fed-policies |author=<!-- Staff writer(s); no by-line. --> |date= |website=theblaze |publisher= |accessdate=}}
یہ مرکزی بینک اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے [[فیڈرل ریزرو|وفاقی ذخائر]] کی [[شرح سود]] (Federal Fund Rate) میں اضافہ نہیں ہونے دے رہے جو [[ٹیلر کا اصول|ٹیلر کے اصول]] کے مطابق نوٹ زیادہ چھاپنے کا قدرتی نتیجہ ہوتا ہے۔ اندازہ ہے کہ امریکا میں5000 ارب ڈالر اس عرصہ میں [[مقداریہ سہل|مقداری تسہیل]] کے نام پر چھاپے گئے۔ یہ اتنی بڑی مقدار ہے کہ بچے بوڑھے سمیت ہر امریکی کو 17000 ڈالر دیے جا سکتے تھے<ref>{{cite web |url=http://www.theblaze.com/stories/is-gold-money-ron-paul-grills-bernanke-on-fed-policies/ |title=Bernanke-on-fed-policies |author=<!-- Staff writer(s); no by-line. --> |date= |website=theblaze |publisher= |accessdate=}}
اور اس طرح حاصل ہونے والا معیشت کو بڑھاوا زیادہ نمایاں بھی ہوتا۔</ref>۔ 85 ارب ڈالر ماہانہ کی رقم سے دو کروڑ لوگوں کو سالانہ 50٫000 ڈالرتنخواہ دے کر کوئی ملازمت دی جا سکتی ہے اور بے روزگاری بڑی آسانی سے ختم کی جا سکتی ہے مگر امریکا میں بے روزگاری میں پھر بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اتنی رقم سے امریکا کا ہر [[طالب علم]] چار سال یونیورسٹی میں پڑھ سکتا ہے یا دنیا سے بھوک 30 دفعہ ختم کی جا سکتی ہے۔ مگر یہ ساری رقم عوام تک نہیں پہنچ رہی بلکہ بینکاروں کو مزید امیر بنا رہی ہے۔<ref>[http://www.24hgold.com/english/news-gold-silver-gold-price-is-going-higher-whether-or-not-fed-tapers.aspx?article=4493362478G10020&redirect=false&contributor=Jason+Hamlin&mk=1 امریکا میں بے روزگاری 23 فیصد]</ref><ref>[http://www.washingtonsblog.com/2013/06/81-5-of-money-created-through-quantitative-easing-is-sitting-there-gathering-dust-instead-of-helping-the-economy.html تخلیق شدہ ڈالروں پر دھول جم رہی ہے]</ref>
اور اس طرح حاصل ہونے والا معیشت کو بڑھاوا زیادہ نمایاں بھی ہوتا۔</ref>۔ 85 ارب ڈالر ماہانہ کی رقم سے دو کروڑ لوگوں کو سالانہ 50٫000 ڈالرتنخواہ دے کر کوئی ملازمت دی جا سکتی ہے اور بے روزگاری بڑی آسانی سے ختم کی جا سکتی ہے مگر امریکا میں بے روزگاری میں پھر بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اتنی رقم سے امریکا کا ہر [[طالب علم]] چار سال یونیورسٹی میں پڑھ سکتا ہے یا دنیا سے بھوک 30 دفعہ ختم کی جا سکتی ہے۔ مگر یہ ساری رقم عوام تک نہیں پہنچ رہی بلکہ بینکاروں کو مزید امیر بنا رہی ہے۔<ref>[http://www.24hgold.com/english/news-gold-silver-gold-price-is-going-higher-whether-or-not-fed-tapers.aspx?article=4493362478G10020&redirect=false&contributor=Jason+Hamlin&mk=1 امریکا میں بے روزگاری 23 فیصد]</ref><ref>{{Cite web |url=http://www.washingtonsblog.com/2013/06/81-5-of-money-created-through-quantitative-easing-is-sitting-there-gathering-dust-instead-of-helping-the-economy.html |title=تخلیق شدہ ڈالروں پر دھول جم رہی ہے |access-date=2014-01-05 |archive-date=2013-12-23 |archive-url=https://web.archive.org/web/20131223195502/http://www.washingtonsblog.com/2013/06/81-5-of-money-created-through-quantitative-easing-is-sitting-there-gathering-dust-instead-of-helping-the-economy.html |url-status=dead }}</ref>
مرکزی بینکوں کا تخلیق کردہ یہ سرمائیہ صرف [[اسٹاک مارکیٹ]] میں تیزی لا رہا ہے۔<ref>[http://www.dollarsandsense.org/archives/2014/0514orr.html اسٹاک مارکیٹ یا کیسینو؟]</ref>
مرکزی بینکوں کا تخلیق کردہ یہ سرمائیہ صرف [[اسٹاک مارکیٹ]] میں تیزی لا رہا ہے۔<ref>[http://www.dollarsandsense.org/archives/2014/0514orr.html اسٹاک مارکیٹ یا کیسینو؟]</ref>
:"Central banks are ruling markets to a degree this generation has not seen."<ref>[http://ritholtz.com/2012/01/living-in-a-qe-world/ Living In A QE World]</ref><br>
:"Central banks are ruling markets to a degree this generation has not seen."<ref>[http://ritholtz.com/2012/01/living-in-a-qe-world/ Living In A QE World]</ref><br>
سطر 2,544: سطر 2,544:
* قرض لینے کے لیے وہ کرنسی بہترین ہے جس کی قدر وقت کے ساتھ گر رہی ہو۔(دیکھیے [[ایسگناٹ]]) اور بچت کرنے کے لیے وہ کرنسی بہترین ہے جس کی قدر بڑھ رہی ہو۔
* قرض لینے کے لیے وہ کرنسی بہترین ہے جس کی قدر وقت کے ساتھ گر رہی ہو۔(دیکھیے [[ایسگناٹ]]) اور بچت کرنے کے لیے وہ کرنسی بہترین ہے جس کی قدر بڑھ رہی ہو۔
* جب کوئی قوم ادائیگی کے وعدے کو ادائیگی سمجھنے لگے تو اُسے کوئی بھی زوال سے نہیں بچا سکتا۔ ادائیگی کا وعدہ ہارڈ کرنسی کا متبادل (money substitudes) ہوتا ہے جیسے کاغذی کرنسی، چیک، ڈرافٹ، پے آرڈر، بل آف ایکسچینج، [[بٹ کوئن|بٹ کوائن]] وغیرہ۔ [[سلطنت عثمانیہ]] اسی وجہ سے تباہ و برباد ہوئی۔<!-- If taxation is the expropriation of wealth by force, then inflation is its expropriation by fraud. -->
* جب کوئی قوم ادائیگی کے وعدے کو ادائیگی سمجھنے لگے تو اُسے کوئی بھی زوال سے نہیں بچا سکتا۔ ادائیگی کا وعدہ ہارڈ کرنسی کا متبادل (money substitudes) ہوتا ہے جیسے کاغذی کرنسی، چیک، ڈرافٹ، پے آرڈر، بل آف ایکسچینج، [[بٹ کوئن|بٹ کوائن]] وغیرہ۔ [[سلطنت عثمانیہ]] اسی وجہ سے تباہ و برباد ہوئی۔<!-- If taxation is the expropriation of wealth by force, then inflation is its expropriation by fraud. -->
* کرنسی قابل تخلیق نہیں ہونی چاہیے جیسے کہ سونا چاندی انسان کے لیے قابل تخلیق نہیں ہوتا۔ جب کرنسی قابل تخلیق ہوتی ہے (جیسے کہ کاغذی کرنسی یا الیکٹرونک کرنسی e-money ہوتی ہے) تو تخلیق کنندہ نہایت امیر اور طاقتور ہو جاتا ہے<!-- Print up money (or its digital substitutes and surrogates in more modern times) and you can have access to all the hard work of others who have invested in manufacturing and bringing to market all the goods and services you desire without having to undertake the reciprocal effort and work to make and trade an actual good or service to earn the money so as to honestly buy what you want from them. Some are so impolite as to refer to such monetary mischief as “fraud” and “theft.” --><ref>[http://www.zerohedge.com/news/2015-10-07/time-end-monetary-central-planning Money Creation as a Tool of Plunder]</ref> اور نہ صرف حکومت کے کنٹرول سے باہر ہو جاتا ہے بلکہ اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے بھی استعمال کرتا ہے (مثلاً جنگ<ref>[http://www.washingtonsblog.com/2015/02/america-war-93-time-222-239-years-since-1776.html America is the number 1 threat to peace.]</ref>)۔ قابل تخلیق کرنسی غریبوں کی دولت کو کرنسی تخلیق کرنے والے امیروں تک خاموشی سے منتقل کرنے کا موثر ترین حربہ ہے۔<ref>{{cite web |url=http://mpra.ub.uni-muenchen.de/27719/1/MPRA_paper_27719.pdf |title=غربت کی اصل وجہ |author=<!-- Staff writer(s); no by-line. --> |date= |website=mpra.ub.uni-muenchen.de |publisher= |accessdate=}}</ref>
* کرنسی قابل تخلیق نہیں ہونی چاہیے جیسے کہ سونا چاندی انسان کے لیے قابل تخلیق نہیں ہوتا۔ جب کرنسی قابل تخلیق ہوتی ہے (جیسے کہ کاغذی کرنسی یا الیکٹرونک کرنسی e-money ہوتی ہے) تو تخلیق کنندہ نہایت امیر اور طاقتور ہو جاتا ہے<!-- Print up money (or its digital substitutes and surrogates in more modern times) and you can have access to all the hard work of others who have invested in manufacturing and bringing to market all the goods and services you desire without having to undertake the reciprocal effort and work to make and trade an actual good or service to earn the money so as to honestly buy what you want from them. Some are so impolite as to refer to such monetary mischief as “fraud” and “theft.” --><ref>[http://www.zerohedge.com/news/2015-10-07/time-end-monetary-central-planning Money Creation as a Tool of Plunder]</ref> اور نہ صرف حکومت کے کنٹرول سے باہر ہو جاتا ہے بلکہ اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے بھی استعمال کرتا ہے (مثلاً جنگ<ref>{{Cite web |url=http://www.washingtonsblog.com/2015/02/america-war-93-time-222-239-years-since-1776.html |title=America is the number 1 threat to peace. |access-date=2016-08-07 |archive-date=2016-08-08 |archive-url=https://web.archive.org/web/20160808065847/http://www.washingtonsblog.com/2015/02/america-war-93-time-222-239-years-since-1776.html |url-status=dead }}</ref>)۔ قابل تخلیق کرنسی غریبوں کی دولت کو کرنسی تخلیق کرنے والے امیروں تک خاموشی سے منتقل کرنے کا موثر ترین حربہ ہے۔<ref>{{cite web |url=http://mpra.ub.uni-muenchen.de/27719/1/MPRA_paper_27719.pdf |title=غربت کی اصل وجہ |author=<!-- Staff writer(s); no by-line. --> |date= |website=mpra.ub.uni-muenchen.de |publisher= |accessdate=}}</ref>
:A fiat monetary system allows power and influence to fall into the hands of those who control the creation of new money, and to those who get to use the money or credit early in its circulation. The insidious and eventual cost falls on unidentified victims who are usually oblivious to the cause of their plight. This system of legalized plunder (though not constitutional) allows one group to benefit at the expense of another. An actual transfer of wealth goes from the poor and the middle class to those in privileged financial positions. Rep. Ron Paul, MD<ref>[http://www.lewrockwell.com/1970/01/ron-paul/paper-money-and-tyranny/ Paper money and tyranny by Rep. Ron Paul, MD]</ref>
:A fiat monetary system allows power and influence to fall into the hands of those who control the creation of new money, and to those who get to use the money or credit early in its circulation. The insidious and eventual cost falls on unidentified victims who are usually oblivious to the cause of their plight. This system of legalized plunder (though not constitutional) allows one group to benefit at the expense of another. An actual transfer of wealth goes from the poor and the middle class to those in privileged financial positions. Rep. Ron Paul, MD<ref>[http://www.lewrockwell.com/1970/01/ron-paul/paper-money-and-tyranny/ Paper money and tyranny by Rep. Ron Paul, MD]</ref>
* جب تجارتی توازن میں خسارہ ہوتا ہے تو کاغذی کرنسی کی قدر گرتی ہے۔ جب فوجی فتوحات میں اضافہ ہوتا ہے تو کاغذی کرنسی کی قدر بڑھتی ہے۔ چونکہ ریزرو کرنسی جاری کرنے والے ملک کو لازماً تجارتی خسارہ ہوتا ہے اس لیے اپنی کرنسی کی قدر بچانے کے لیے اُسے جنگ کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ (دیکھیے [[ٹریفن کا مخمصہ]])<!-- “America exists today to make war. How else do we interpret 19 straight years of war and no end in sight? It’s part of who we are. It’s part of what the American Empire is. We are going to lie, cheat and steal, as Pompeo is doing right now, as Trump is doing right now, as Esper is doing right now … and a host of other members of my political party, the Republicans, are doing right now. We are going to lie, cheat and steal to do whatever it is we have to do to continue this war complex. That’s the truth of it. And that’s the agony of it.”
* جب تجارتی توازن میں خسارہ ہوتا ہے تو کاغذی کرنسی کی قدر گرتی ہے۔ جب فوجی فتوحات میں اضافہ ہوتا ہے تو کاغذی کرنسی کی قدر بڑھتی ہے۔ چونکہ ریزرو کرنسی جاری کرنے والے ملک کو لازماً تجارتی خسارہ ہوتا ہے اس لیے اپنی کرنسی کی قدر بچانے کے لیے اُسے جنگ کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ (دیکھیے [[ٹریفن کا مخمصہ]])<!-- “America exists today to make war. How else do we interpret 19 straight years of war and no end in sight? It’s part of who we are. It’s part of what the American Empire is. We are going to lie, cheat and steal, as Pompeo is doing right now, as Trump is doing right now, as Esper is doing right now … and a host of other members of my political party, the Republicans, are doing right now. We are going to lie, cheat and steal to do whatever it is we have to do to continue this war complex. That’s the truth of it. And that’s the agony of it.”
سطر 2,683: سطر 2,683:
* [http://www.bibliotecapleyades.net/sociopolitica/esp_sociopol_cooper2a.htm کاغذی کرنسی: خاموش جنگ کا بے آواز ہتھیار] ( انگریزی میں )
* [http://www.bibliotecapleyades.net/sociopolitica/esp_sociopol_cooper2a.htm کاغذی کرنسی: خاموش جنگ کا بے آواز ہتھیار] ( انگریزی میں )
* [http://www.soilandhealth.org/03sov/0303critic/030317hudson/superimperialism.pdf امریکا کی مُفت خوری largest free lunch ever achieved in history]{{wayback|url=http://www.soilandhealth.org/03sov/0303critic/030317hudson/superimperialism.pdf |date=20130514131702 }} ( انگریزی میں )
* [http://www.soilandhealth.org/03sov/0303critic/030317hudson/superimperialism.pdf امریکا کی مُفت خوری largest free lunch ever achieved in history]{{wayback|url=http://www.soilandhealth.org/03sov/0303critic/030317hudson/superimperialism.pdf |date=20130514131702 }} ( انگریزی میں )
* [http://www.themoneymasters.com/wp-content/uploads/2009/12/ModernMoneyMechanics2.pdf Modern Money Mechanics] {{wayback|url=http://www.themoneymasters.com/wp-content/uploads/2009/12/ModernMoneyMechanics2.pdf |date=20111020165538 }} ( انگریزی میں )
* [http://www.themoneymasters.com/wp-content/uploads/2009/12/ModernMoneyMechanics2.pdf Modern Money Mechanics]{{wayback|url=http://www.themoneymasters.com/wp-content/uploads/2009/12/ModernMoneyMechanics2.pdf |date=20111020165538 }} ( انگریزی میں )
* [http://www.fdic.gov/bank/individual/failed/banklist.html چار سو بینکوں کی فہرست جو ستمبر 2000 کے بعد دیوالیہ ہوئے]
* [http://www.fdic.gov/bank/individual/failed/banklist.html چار سو بینکوں کی فہرست جو ستمبر 2000 کے بعد دیوالیہ ہوئے]
* [http://www.sbp.org.pk/m_policy/a_imf/2009/IntlMonetaryFund-16-Mar-09.pdf اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا آئی-ایم-ایف سے معاہدہ۔ 2009۔ ( انگریزی میں )]
* [http://www.sbp.org.pk/m_policy/a_imf/2009/IntlMonetaryFund-16-Mar-09.pdf اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا آئی-ایم-ایف سے معاہدہ۔ 2009۔ ( انگریزی میں )]

نسخہ بمطابق 17:36، 27 فروری 2021ء

اصطلاح term

زر کثیف
زر فرمان

Hard currency
Fiat currency

چند ممالک کے کچھ بڑی مالیت کے کاغذی نوٹ
کرنسی سے مراد ایسی چیز ہوتی ہے جس کے بدلے دوسری چیزیں خریدی یا بیچی جا سکیں۔ اور اگر یہ چیز کاغذ کی بنی ہو تو یہ کاغذی کرنسی کہلاتی ہے۔

ماضی میں کرنسی مختلف دھاتوں کی بنی ہوتی تھی اور اب بھی چھوٹی مالیت کے سِکّے دھاتوں سے ہی بنائے جاتے ہیں۔ کمپیوٹر کی ایجاد کے بعد کاغذی کرنسی بتدریج ڈیجیٹل کرنسی میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔

مذہب کی طرح کرنسی بھی انسان کو کنٹرول کرتی ہے۔ لیکن مذہب کے برعکس کرنسی حکومتوں کو بھی کنٹرول کرتی ہے۔[1]

ساڑھے تین سال کی مدت میں 5600 میل کا سفر طے کر کے جب مئی، 1275ء میں مارکو پولو پہلی دفعہ چین پہنچا تو چار چیزیں دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ یہ چیزیں تھیں: جلنے والا پتھر( کوئلہ)، نہ جلنے والے کپڑے کا دسترخوان (ایسبسٹوس) ،کاغذی کرنسی اور شاہی ڈاک کا نظام۔[2] مارکو پولو لکھتا ہے "آپ کہہ سکتے ہیں کہ ( قبلائ ) خان کو کیمیا گری ( یعنی سونا بنانے کے فن ) میں مہارت حاصل تھی۔ بغیر کسی خرچ کے خان ہر سال یہ دولت اتنی بڑی مقدار میں بنا لیتا تھا جو دنیا کے سارے خزانوں کے برابر ہوتی تھی۔[3] لیکن چین سے بھی پہلے کاغذی کرنسی جاپان میں استعمال ہوئی۔ جاپان میں یہ کاغذی کرنسی کسی بینک یا بادشاہ نے نہیں بلکہ پگوڈا نے جاری کی تھی۔
مارکوپولو وہ پہلا آدمی تھا جس نے چین میں سینٹرل بینکنگ سیکھی اور وینس واپس آ کریورپ والوں کو سیکھائی۔ اس طرح یورپ میں سینٹرل بینکنگ کا آغاز ہوا جو رفتہ رفتہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔[4][5][6][7]
کہا جاتا ہے کہ کاغذی کرنسی موجودہ دنیا کا سب سے بڑا دھوکا ہے۔ [8] [9] [10][11][12][13][14][15][16][17] جولائی، 2006ء کے ایک جریدہ وسہل بلور کے ایک مضمون کا عنوان ہے کہ ڈالر جاری کرنے والا امریکی سینٹرل بینک "فیڈرل ریزرو اس صدی کا سب سے بڑا دھوکا ہے"۔[18][19][20] مشہور برطانوی ماہر معاشیات جان مینارڈ کینز نے کہا تھا کہ مسلسل نوٹ چھاپ کر حکومت نہایت خاموشی اور رازداری سے اپنے عوام کی دولت کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیتی ہے۔ یہ طریقہ اکثریت کو غریب بنا دیتا ہے مگر چند لوگ امیر ہو جاتے ہیں۔[21] 1927ء میں بینک آف انگلینڈ کے گورنر جوسیہ سٹیمپ ( جو انگلستان کا دوسرا امیر ترین فرد تھا ) نے کہا تھا کہ"جدید بینکاری نظام بغیر کسی خرچ کے رقم (کرنسی) بناتا ہے۔ یہ غالباً آج تک بنائی گئی سب سے بڑی شعبدہ بازی ہے۔ بینک مالکان پوری دنیا کے مالک ہیں۔ اگر یہ دنیا ان سے چھن بھی جائے لیکن ان کے پاس کرنسی بنانے کا اختیار باقی رہے تو وہ ایک جنبش قلم سے اتنی کرنسی بنا لیں گے کہ دوبارہ دنیا خرید لیں۔.. اگر تم چاہتے ہو کہ بینک مالکان کی غلامی کرتے رہو اور اپنی غلامی کی قیمت بھی ادا کرتے رہو تو بینک مالکان کو کرنسی بنانے دو اور قرضے کنٹرول کرنے دو۔[22][23] بنجمن ڈی اسرائیلی نے کہا تھا کہ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ ملک کے عوام بینکاری اور مالیاتی نظام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے کیونکہ اگر وہ یہ سب کچھ جانتے تو مجھے یقین ہے کہ کل صبح سے پہلے بغاوت ہو جاتی۔[23] روتھسچائلڈ نے 1838 میں کہا تھا کہ مجھے کسی ملک کی کرنسی کنٹرول کرنے دو۔ پھر مجھے پروا نہیں کہ قانون کون بناتا ہے۔[24]

زر

کسی زمانے میں کوڑی بطور رقم استعمال ہوتی تھی

روپیہ، پیسہ، نقدی، رقم سکّہ یا کرنسی سے مراد ایک ایسی چیز ہوتی ہے جس کے بدلے

  • دوسری چیز خریدی یا بیچی جا سکے۔
  • خدمت خریدی یا بیچی جا سکے۔ (خدمت کا معاوضہ، اجرت، مزدوری، تنخواہ، فیس، کمیشن ادا کیا جا سکے۔)
  • کرایہ، قرض، بھتہ اور محصول دیا اور لیا جا سکے۔
  • تحفہ، رشوت، چندہ، خیرات وغیرہ دی اور لی جا سکے۔
  • خون بہا اور مہر ادا کیا جا سکے۔[25]
  • بچت کی جا سکے۔ یہ وہ واحد شرط ہے جو بہت کم کرنسیوں میں ممکن ہوتی ہے۔

کرنسی کو زر یا زرمبادلہ بھی کہتے ہیں۔ روپیہ کی ایجاد سے پہلے لین دین اور تجارت "چیز کے بدلے چیز" (یعنی بارٹر نظام) کے تحت ہوتی تھی مثلاً گندم کی کچھ بوریوں کے عوض ایک گائے خریدی جا سکتی تھی۔ اسی طرح خدمت کے بدلے خدمت یا کوئی چیز ادا کی جاتی تھی۔ لیکن گندم اور گائے کی صورت میں لمبی مدت کے لیے بچت ممکن نہیں ہوتی۔ اس لیے کسی دوسری کرنسی کی ضرورت موجود تھی جس میں بچت بھی آسان ہو۔

کرنسی کی خوبیاں

ہر کرنسی میں چار خوبیاں ہونی چاہئیں:

  • فوری لین دین کی صلاحیت یعنی وسیلۂ مبادلہ; کرنسی میں یہ صلاحیت لوگوں کے اعتبار سے آتی ہے جو ماضی کے تجربات پر منحصر ہوتا ہے۔[26]
  • بچت کی صورت میں قدر کی برقراری یعنی Store of value; کاغذی کرنسی مبادلے کی صلاحیت تو رکھتی ہے مگر قدر کی برقراری نہیں رکھتی ( یعنی وقت گزرنے کے ساتھ اس کی قوت خرید کم ہوتی چلی جاتی ہے)۔ اس کے برعکس سونا قدر کی برقراری تو بہت اچھی رکھتا ہے مگر چھوٹے لین دین کے لیے مناسب نہیں ہے۔
  • منتقلی یا نقل و حمل کی آسانی; مکان اور زمین، اثاثہ تو ہوتے ہیں مگر غیر منقولہ ہونے کی وجہ سے کرنسی نہیں بن سکتے جبکہ الیکٹرونک کرنسی صرف منتقلی کی آسانی کی وجہ سے مقبول ہوتی جا رہی ہے۔ ماضی میں مویشیوں کو بطور کرنسی صرف اس لیے استعمال کرتے تھے کہ انہیں ضرورت کی جگہ پر ہانک کر منتقل کرنا آسان اور کم خرچ ہوتا تھا۔ دوسرے الفاظ میں کرنسی قوت خرید کو منتقل اور موخّر کرنے کا ذریعہ ہے۔ (Money is a transmitter of value through space and time)
  • کرنسی قابل تقسیم ہونی چاہیے; اگر سونے کے ایک ٹکڑے کے دس حصے کر دیے جائیں تو یہ دس ٹکڑے مل کرلگ بھگ اسی قیمت کے ہوں گے۔ لیکن اگر کسی قالین یا ہیرے کے دس ٹکڑے کر دیے جائیں تو ان ٹکڑوں کی مجموعی قیمت بری طرح گر جائے گی۔

روپیہ، ڈالر یا کسی بھی کرنسی کو اگرچہ تبادلے کا وسیلہ (Medium of Exchange) سمجھا جاتا ہے مگر کرنسی محض ایک خیال کا نام ہے جس پر سب کو اعتبار ہو (Money is an Idea, backed by confidence)۔ لوگوں کا یہ اعتبار ہی کاغذ، پلاسٹک، دھات یا کریڈٹ کارڈ کو کرنسی کا درجہ دیتا ہے۔[27]
مالیات کی زبان میں کرنسی کو اکثر circulating medium کہا جاتا ہے۔ کاغذی کرنسی گردشی قرضوں کی ایک قسم ہوتی ہے۔

"paper money – privately-produced circulating debt"[28]

فروری 2010ء میں امریکی فیڈرل ریزرو کے چیرمین بن برنانکے نے سینٹ کی فائینینس کمیٹی کے سامنے یہ بیان دیا تھا کہ "کرنسی محض بے معنی سماجی رواج ہے"[29] جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کاغذی کرنسی کا رواج قانونی جبر کے ذریعے نافذکیا گیا۔[30] قانونی اعتبار سے کرنسی دو طرح کی ہوتی ہیں۔

  • ایسی کرنسی جسے قبول کرنے سے انکار کیا جا سکے مثلاً بینک کا چیک یا انعامی بونڈ
  • ایسی کرنسی جسے قبول کرنے سے انکار کرنا جرم ہو۔ ایسی کرنسی "لیگل ٹینڈر" کہلاتی ہے۔ فرانس میں کاغذی کرنسی کو 10 اپریل 1717ء میں لیگل ٹینڈر قرار دیا گیا۔۔[31] اگلے سال یہ برطانیہ میں لیگل ٹینڈر بنی۔ ہندوستانی چاندی کا روپیہ 1818ء میں قانونی ٹینڈربنا۔[32] بینک آف انگلینڈ کے جاری کردہ نوٹوں کو 1833ء میں لیگل ٹینڈر قرار دیا گیا۔[5]

Money is a social construct....a social tool that acts as an intermediary in transactions.[33]

جب سکے سونے چاندی کے وزن کے لحاظ سے ہوا کرتے تھے اس وقت کرنسی واقعی سماجی رواج (social construct) ہوا کرتی تھی۔ لیکن حکومت اور بینک کے گٹھ جوڑ سے بنی کاغذی یا ڈیجیٹل کرنسی سماجی بناوٹ کی بجائے قانونی مجبوری (legal construct) بن کر رہ گئی ہے۔

کرنسی ایک حق کا نام ہے۔ کرنسی کسی دوسرے سے کچھ طلب کرنے کا حق دیتی ہے۔
Money is a Right to demand something from someone else.[34]
کرنسی ایک حق ہے جبکہ قرض ایک ذمہ داری ہے۔
Money is a Right but Debt is a Duty.[35]

بغیر محنت کرنسی تخلیق کرنے کا حق صرف بینکوں کے پاس ہے۔ جبکہ محنت مشقت کر کے قرض ادا کرنے کی ذمہ داری صرف عوام کے کندھوں پر ہوتی ہے۔ اگر عوام قرض نہ لیں تو بھی انہیں حکومت کا لیا ہوا قرضہ بھرنا پڑتا ہے۔ حکومتی قرض وہ واحد قرض ہے جسے لینے والا کوئی اور ہوتا ہے اور بھرنے والا کوئی اور۔ حکومتی قرضوں نے اُن بچوں کو بھی مقروض بنا دیا ہے جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے۔[36]

کاغذی کرنسی زبردستی دیا جانے والا قرض ہے جو صرف حکومتی طاقت پر قائم ہے۔ کاغذی کرنسی بددیانتی، بدعنوانی اور فریب کا جال ہے جو مکاروں کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔
Fiat paper money exists only through the monopolistic force of the state. Paper money is dishonest, corrupt, deceitful, and is managed by a cartel.[37]
پاکستان پر کُل قرضوں کا بوجھ بلحاظ جی ڈی پی (فیصد)[38]
سال تناسب فیصد
مالی سال 2010ء
62.4
مالی سال 2011ء
60.1
مالی سال 2012ء
63.3
مالی سال 2013ء
63.9
مالی سال 2014ء
63.5
مالی سال 2015ء
63.3
مالی سال 2016ء
67.6
مالی سال 2017ء
67.0
مالی سال 2018ء
72.1
مالی سال 2019ء
87.9

کاغذی دولت کا دوہرا کردار

کرنسی چھاپنے والا شخص، ادارہ یا ملک ایک عجیب و غریب صلاحیت کا مالک بن جاتا ہے۔ وہ مارکیٹ سے کوئی بھی چیز خرید کر اسے کم قیمت میں فروخت کر سکتا ہے کیونکہ وہ اپنے نقصان کو نوٹ چھاپ کر پورا کر سکتا ہے۔ دنیا میں کوئی اور یہ کام نہیں کر سکتا۔ اس طرح وہ مارکیٹ میں کسی بھی چیز کی قیمت گرا سکتا ہے۔

“It’s a controlled market – this is not a free market! Energy is probably the most controlled market in the world, food being second.”[39]
The idea of colonising, to purchase, at a dearer rate, the tropical productions, is quite new.[40]

یہی وجہ ہے کہ تیسری دنیا کی پیداوار کی قیمت گرتی جا رہی ہے جبکہ کیپیٹلسٹ ممالک کی پیداوار مہنگی سے مہنگی تر ہوتی جا رہی ہیں۔ جب تک کرنسی سونے چاندی کے سکوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی تب تک یہ ممکن نہ تھا۔[41]
کرنسی تخلیق کرنے والا اسٹاک مارکیٹ میں کسی بھی شیئر کی قیمت گرا یا بڑھا سکتا ہے۔[42][43]

Central banks in the US, Japan, Europe, and elsewhere have enormous powers that they have used without batting an eye, rigging and manipulating markets, destroying livelihoods on one side and shifting enormous wealth to a small number of players on the other side.[44][45]

یہی وجہ ہے کہ جس ملک میں بھی کاغذی یا ڈیجیٹل کرنسی تخلیق کرنے والا سینٹرل بینک موجود ہوتا ہے وہاں اسٹاک مارکیٹ لازماً موجود ہوتی ہے۔

  • 9 اپریل 2020ء تک امریکی سینٹرل بینک کی بیلنس شیٹ ڈیجیٹل کرنسی تخلیق کر کے صرف ایک مہینے میں 4000 ارب ڈالر سے بڑھ کر 6000 ارب ڈالر ہو گئی ہے تاکہ اسٹاک اور بونڈ مارکیٹ کے ڈوبنے سے بچایا جا سکے۔
the Fed balance sheet which is now well above $6 trillion to make sure stocks and bonds don't crash.[46]

1919ء میں ہٹلر یہ جان کر سخت حیران ہوا تھا کہ اسٹاک ایکسچینج میں استعمال ہونے والے کیپیٹل (بینکنگ کریڈٹ) اور (معیشت کو) قرض دیے جانے والے کیپیٹل (تجارتی کریڈٹ) میں بڑا فرق ہے۔ اُسے سمجھ میں آ گیا تھا کہ بین الاقوامی سرمائے سے اپنے ملک کو بچانے کے لیے ملکی معیشت کو اسٹاک مارکیٹ سے الگ رکھنا پڑے گا۔ 1926ء میں اپنی خودنوشت[47] مائن کیمف (میری جدوجہد) میں وہ لکھتا ہے

"For the first time in my life I heard a discussion which dealt with the principles of stock exchange capital and capital "which was used for loan activities.[48]

عوام کی کرنسی اور بینک کی کرنسی (کریڈٹ) دو بالکل مختلف چیزیں ہوتی ہیں۔[49] عوام نوٹ یا سکے استعمال کرتے ہیں لیکن بینک کھاتہ کرنسی[50] (زر اعتبار) استعمال کرتے ہیں جیسے چیک، ڈرافٹ وغیرہ۔

Money is medium of exchange (for people) and a record of account (for bankers)۔ Demand (and thus value) for a money increases if it is easy to transfer with low transaction/storage costs, and have low risk and high returns (when invested)۔[51]

عوام کے لیے کرنسی تبادلے کا وسیلہ ہوتی ہے لیکن جاری کنندہ کے لیے کرنسی عوام کی دولت چوسنے کا آلہ ہوتی ہے۔[52][53]

کاغذی کرنسی کا جاری ہونا زبردستی قرضے کی بدترین مثال ہے۔ لینن
issuing of paper money constitutes the worst form of compulsory loan[54]

کاغذی دولت پوری دنیا کو کنٹرول کرنے کا ایک بہترین اوزار ہے۔

money as we know it is actually nothing but an illusion and is one of – if not the, biggest tools of control for the ruling elite of our world today.[55]
"مقروض آدمی با آسانی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ مقروض ملک بھی با آسانی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ قرض کا جال خفیہ ہوتا ہے اور اس مفروضے پر انحصار رکھتا ہے کہ یہ سب کی آزادانہ مرضی ہے جبکہ یہ سب (خود ساختہ) 'قانون' کے بوجھ تلے ہوتا ہے۔۔۔ قرض کی بنیاد پر کرنسی کے اجرا نے پچھلے ہزار سالوں میں معاشرت کو بالکل بدل ڈالا۔ اس نے زبردستی کی غلامی کو رضاکارانہ غلامی میں تبدیل کر دیا جس کا فائیدہ صرف چند بینکرز کو ہوتا ہے۔"
"A person in debt is a person controlled…A nation in debt is a nation controlled. The debt trap is especially insidious, and it relies on the illusion of free will combined with the full weight of ‘the law.’ ...the introduction of debt-based money was arguably the most course-altering invention of the past thousand years. It transformed millions of human slaves kept in check by threat of power and physical coercion (if not death) into billions of humans perfectly willing to hand over their labor to a very few elites at the top who did little to no work themselves."[56]

"دنیا میں درحقیقت صرف ایک حکومت ہے اور وہ سرمائے کی حکومت ہے۔ ہر حکومت جو کاغذی سرمائے کو اپنی معیشت میں داخل ہونے دیتی ہے وہ سرمائے کی حکومت کی غلام ہے۔"

Every nation that allows capital to flow into its economy is subservient to the Empire of Finance. Every nation with capital and debt markets exposed to (or dependent on) global financial flows is just another fiefdom in the Empire of Finance.[57]

ماضی کی کرنسیاں

ماضی میں بہت ساری مختلف اشیا رقم یا کرنسی کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہیں جن میں مختلف طرح کی سیپیاں، چاول، نمک، مصالحے، خوبصورت پتھر، اوزار، گھریلو جانور اور انسان (غلام، کنیز) شامل ہیں۔[58]

  • حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے زمانے تک چین میں چاقو کرنسی کی حیثیت رکھتا تھا۔
  • افریقہ میں ہاتھی کے دانت کرنسی کا درجہ رکھتے تھے۔
  • پہلی جنگ عظیم تک نمک اور بندوق کے کارتوس امریکا اور افریقہ کے بعض حصوں میں کرنسی کے طور پر استعمال ہوتے رہے۔
  • دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد آسٹریا میں فلیٹ کا ماہانہ کرایہ سگریٹ کے دو پیکٹ تھا۔[59]
  • جزائر فجی میں انیسویں صدی تک سفید حوت (sperm whale) کے دانت بطور کرنسی استعمال ہوتے تھے۔ ایک دانت کے بدلے ایک کشتی خریدی جا سکتی تھی یا خون بہا یا مہر ادا کیا جا سکتا تھا۔[60]
  • انگولا کی خانہ جنگی (1975ء سے 2002ء) کے دوران میں بیئر کی بوتلیں بطور کرنسی استعمال ہوئیں۔[61]
  • ایران میں کبھی کبھار ادائیگی زعفران کی شکل میں کی جاتی تھی۔
  • ماضی میں تمباکو، خشک مچھلی، چائے، چینی اور چمڑے کے ٹکڑے بطور کرنسی استعمال ہو چکے ہیں۔

تاریخ بتاتی ہے کہ

  • سونا بادشاہوں کی کرنسی رہا ہے۔
  • چاندی امرا اور شرفاء کی کرنسی ہوا کرتی تھی۔
  • چیز کے بدلے چیز کا نظام یعنی بارٹر سسٹم کسانوں اور مزدوروں کی کرنسی تھی اور
  • قرض غلاموں کی کرنسی ہوا کرتی تھی۔

ادائیگی کا وعدہ

ادائیگی کا التوا دولت سازی کے مترادف ہوتا ہے۔ بہت کم لوگ اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ ادائیگی کا وعدہ، خواہ زبانی ہی کیوں نہ ہو، کرنسی کے برابر ہوتا ہے، گرچہ کہ صرف دو آدمیوں کے درمیان میں ہوتا ہے۔ اور تحریری وعدہ تو کرنسی کی طرح زیر گردش (circulation) بھی آ سکتا ہے (جیسے حامل ٰہذا کو مطالبے پر ادا کروں گا)۔ دوسرے الفاظ میں قرض (کریڈٹ) بھی کرنسی ہی کی ایک قسم ہے۔[62] لیکن فوری ادائیگی (spot trade) کے برعکس قرضہ (ادائیگی کا وعدہ) ڈوب سکتا ہے۔

سونے چاندی یا دوسری دھاتوں کے ذریعہ کی جانے والی لین دین مقایضہ نظام (Barter System) ہی کی ایک شکل ہوتی ہے جس میں ادائیگی مکمل ہو جاتی ہے (یعنی قوت خرید منتقل ہوتی ہے)۔ کاغذی کرنسی سے کی جانے والی ادائیگی درحقیقت ادائیگی نہیں بلکہ محض آئندہ ادائیگی کا وعدہ ہوتی ہے جو کبھی پورا نہیں ہوتا۔ یعنی کاغذی کرنسی میں ادائیگی دراصل قرض کی منتقلی ہوتی ہے۔ اس قرض کی ادائیگی کا ضامن سینٹرل بینک ہوتا ہے جس کی پشت پناہی حکومت کرتی ہے۔ بینک کے قوانین ہر چند سال بعد تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن سونا ہزار سال بعد بھی تبدیل نہیں ہوتا۔

Gold thrives, paper dies.[63]

جب بارٹر سسٹم کے تحت لین دین ہوتی ہے تو خریدنے اور بیچنے والے کے درمیان میں کوئی بینکر نہیں ہوتا۔ لیکن جب کاغذی کرنسی کے تحت ادائیگی کی جاتی ہے تو نظر نہ آنے کے باوجود خریدنے اور بیچنے والے کے درمیان میں نہ صرف بینکر موجود ہوتا ہے بلکہ اپنے حصے کا منافع وصول بھی کرتا ہے۔ اگر جاپان قطر سے تیل خریدے اور ڈالر میں ادائیگی کرے تو امریکی بینکاروں کو اس سودے پر اپنے حصے کا منافع خودبخود مل جاتا ہے۔

دھاتی کرنسی یا بارٹر سسٹم کے ذریعے اجنبیوں کے درمیان میں بھی لین دین ہو سکتی ہے۔
قرض اور ادائیگی کے وعدے کے ذریعے اجنبی اُس وقت تک آپس میں خرید و فروخت نہیں کر سکتے جب تک درمیان میں کوئی ضامن نہ ہو۔ [64] یعنی اگر کرنسی ہارڈ ہو تو ضامن قدر کھو دیتا ہے۔ اس لیے سینٹرل بینک ہارڈ کرنسی کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام (capitalism) کی بنیاد امید ہے۔ امید کہ انویسٹر کو اپنی سرمایہ کاری پر زیادہ سود ملے گا۔[65] اور اسی امید پر ہی لوگ اپنی اصل دولت بینکاروں کے حوالے کر دیتے ہیں جو رقم بڑھا کر ادائیگی کا وعدہ کرتا ہے۔[66]

ہر پونزی اسکیم کا لازمی جز ادائیگی کا وعدہ ہوتا ہے (جو امید قائم رکھتا ہے)۔ اگر ادائیگی فوری ہو (یعنی spot trade) تو کوئی بھی پونزی اسکیم پنپ نہیں سکتی۔ ادائیگی کا وعدہ درحقیقت چور دروازہ کھلا رکھتا ہے۔

جب لگ بھگ 1440ء میں چھاپہ خانہ ایجاد ہوا تو پڑھے لکھے لوگوں نے کتابیں، رسالے، اخبارات وغیرہ لکھ کر کچھ پیسہ کمایا۔ لیکن چالاک لوگوں نے بونڈ، شیئر اور کرنسی چھاپ کر بے تحاشہ پیسہ بنایا۔ انیسویں صدی کے وسط میں جب ٹیلی گرافی ایجاد ہوئی تو لوگوں نے اسے خبریں بھیجنے کے لیے استعمال کیا۔ لیکن بینکوں نے ٹیلی گرافک ٹرانسفر کے ذریعے ساری دنیا کی دولت لوٹی۔ درحقیقت سمندروں کی تہ میں ہزاروں میل لمبی ٹیلی گرافی کی لائینیں بچھانے والے لوگ یہی بینکار تھے۔ 1870ء تک لندن سے بمبئی تک ٹیلی گراف لائن کام شروع کر چکی تھی جو صرف چند منٹ میں پیغام یا بینک ڈرافٹ (ادائیگی کا تحریری وعدہ) ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچا دیتی تھی۔[67] ٹیلی گرافک ٹرانسفر کی ایجاد سے پہلے شرح تبادلہ (exchange rate) طلب و رسد کے مطابق مارکیٹ میں طے ہوتی تھی۔ لیکن اس ایجاد نے یہ حق مارکیٹ سے چھین کر بینکاروں کے حوالے کر دیا اور مارکٹیں بینکاروں کے ماتحت ہو گئیں [68]۔ ٹیلی گرافی اپنی نئی اور ترقی یافتہ شکل میں آج بھی بینکوں کو حاکمیت عطا کرتی ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت SWIFT ہے جسے امریکا دوسرے ممالک کو دھمکی دینے کے لیے کھلم کھلا استعمال کرتا ہے۔
اگلے دور میں سینٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی (CBDC) بھی ایسا ہی کوئی گُل کھلائے گی۔

سکّوں کی تاریخ

آٹھویں صدی عیسوی سے قبل جاپان میں تیر کے سر، چاول اور سونے کا چورا رقم کے طور پر استعمال ہوتے تھے
قدیم چین کے سکے جن میں چوکور سوراخ ہوتا تھا اور چین میں یہ کیش کہلاتے تھے۔
600 سال قبل از مسیح استعمال ہونے والے سکے۔
300 سال قبل از مسیح کا سکندر اعظم کا سونے کا سکّہ
300 سال قبل از مسیح کا موریا سلطنت کا ہندوستانی چاندی کا روپیہ جو روپیہ روپا کہلاتا تھا۔
ابراهیم بن اغلب (800ء-812ء) اور عباسی خلیفہ مامون الرشید (813ء-832ء) کے دور کا چاندی کا درہم۔
قدیم روم میں استعمال ہونے والا چاندی کا سکہ جو دیناریس کہلاتا تھا
1540ء - 1545ء میں شیر شاہ سوری کا جاری کردہ سب سے پہلا روپیہ جو تقریباً ایک تولے چاندی کا بنا ہوا تھا اور تانبے کے بنے 40 پیسوں کے برابر تھا۔ اس وقت ایک روپے میں 8 من چاول بکتا تھا۔
1565-1575شہنشاہ اکبر کا جاری کردہ روپیہ جو ایک تولہ چاندی کا بنا ہوا تھا

پانچ ہزار سال قبل چاندی کے خام ڈلے بطور کرنسی استعمال ہوئے۔ هيرودوت کے مطابق سب سے پہلے ترکی کے صوبے مانیسہ کے ایک علاقے لیڈیا میں سونے اور چاندی پر مہر لگا کر سکّے بنانے کا کام 600 صدی قبل از مسیح شروع کیا گیا تھا۔ سکے بنانے سے تولنے کی ضرورت ختم ہو گئی اور محض گن کر کام چلایا جانے لگا۔ سکوں پر موجود مہر اس کے وزن اور خالصیت کی ضمانت ہوتی تھی۔[69]

تاریخی حقائق
  • قدیم چین کے سکّے گول ہوتے تھے جن میں چوکور سراخ ہوتا تھا جس کی مدد سے یہ ڈوری یا تار میں پروے جا سکتے تھے۔ چین میں یہ سکے کیش کہلاتے تھے۔
  • امریکی ڈالر بھی کسی زمانے میں چاندی کا سکہ ہوا کرتا تھا۔ اسی طرح برطانوی پاونڈ سے مراد ایک پاونڈ وزن کی چاندی (Sterling) ہوا کرتی تھی۔
  • اٹھارویں صدی میں ہسپانوی ڈالر یورپ امریکا اور مشرق بعید میں تجارت کے لیے بہت استعمال ہوتا تھا۔ یہ چاندی کا سکّہ تھا جس میں 25.56 گرام خالص چاندی ہوتی تھی۔ اسی کی طرز پر بعد میں امریکی ڈالر بنایا گیا تھا۔
  • پہلا امریکی ڈالر 1794ء میں بنایا گیا جس میں 89.25% چاندی (21.42 قیراط) اور 10.75% تانبہ ہوتا تھا۔
  • امریکا کے 1792ء کے سکوں سے متعلق قانون کے مطابق ایک امریکی ڈالر کے سکے میں 24.1 گرام خالص چاندی ہوتی تھی۔ 1792ء سے 1873ء تک سونا چاندی سے 15 گنا مہنگا ہوتا تھا۔[70] امریکا کی دریافت کے بعد جیسے جیسے چاندی کی نئی کانیں دریافت ہوتی چلی گئیں چاندی کی قیمت گرتی چلی گئی۔ اب سونا چاندی سے 70 گنا سے زیادہ مہنگا ہے۔
  • سنہ 1900ء میں امریکا میں طلائی معیار (گولڈ اسٹینڈرڈ) کا قانون لاگو ہوا جس پر صدر ولیم میک کنلے کے دستخط تھے۔ اس قانون کے تحت صرف سونا کرنسی قرار پایا اور چاندی سے سونے کا تبادلہ روک دیا گیا کیونکہ چاندی کی قیمتیں گر رہی تھیں اور چاندی کی دستیابی بڑھنے کی وجہ سے بڑے بینکوں کے لیے چاندی پر اجارہ داری برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا تھا اور کاغذی کرنسی کے رواج کو مستحکم کرنے کی ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہو پا رہی تھیں۔ اس قانون کے مطابق 20.67 ڈالر ایک ٹرائے اونس (31.1 گرام) سونے کے برابر قرار پائے۔ 25 اپریل 1933ء کو امریکا اور کینیڈا نے معیار سونا ترک کر دیا کیونکہ اس سال امریکا میں عوام پہ سونا رکھنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
  • پہلے سکّے اپنی اصل مالیت کے ہوا کرتے تھے یعنی ان میں جتنے کی دھات ہوتی تھی اتنی ہی قدر ان پر لکھی ہوتی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ سکّے جاری کرنے والی حکومتیں کم قیمت کی دھات پر زیادہ قدر لکھنے لگیں۔ آج کل سِکّوں پر لکھی ہوئی قدر ان کی اصل قیمت سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے سکے ٹوکن منی کہلاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک یورو کے سکے میں موجود دھات کی قیمت ایک یورو کا بیسواں حصہ ہوتی ہے۔
  • اگر کسی وجہ سے سکّوں پر لکھی ہوئی رقم دھات کی مالیت سے کم ہو جائے تو لوگ سکّے پگھلا کر استعمال کی دوسری دھاتی چیزیں بنا لیتے ہیں۔ 1917ء میں ہندوستانی روپیہ پگھلا کر لوگوں نے بڑی مقدار میں چاندی اسمگل کی۔
  • 1947ء میں جب آزادی برطانوی ہند عمل میں آئی تو پاکستانی کرنسی کا وجود نہ تھا اس لیے برطانوی ہند کے روپیہ پر پاکستان کی مہر لگا کر استعمال کیا گیا۔[71] 1948ء میں پاکستان نے اپنی کاغذی کرنسی چھاپی اور دھاتی سکّے بھی جاری کیے۔ اس وقت ایک روپیہ میں سولہ آنے ہوتے تھے اور ہر آنے میں چار پیسے۔ ایک پیسہ تین پائ کے برابر تھا یعنی ایک روپے میں 64 پیسے یا 192 پائی ہوتی تھیں۔

سکّے

ہزاروں سال پہلے جو (barley) رقم کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ مگر ایسی چیزوں کو رقم کے طور پر استعمال کرنے میں یہ خرابی تھی کہ انہیں عرصے تک محفوظ نہیں رکھا جا سکتا تھا اس لیے دھاتوں کا رقم کے طور پر استعمال شروع ہوا جو لمبے عرصے تک محفوظ رکھی جا سکتی تھیں۔ سونے میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ یہ موسمی حالات سے خراب نہیں ہوتا ( جیسے زنگ لگنا ) اور یہ کمیاب بھی ہے۔ اسی وجہ سے دنیا بھر میں اسے دولت کو ذخیرہ کرنے کے لیے (یعنی بچت کرنے کے لیے) چُنا گیا۔

کرنسی بننے کے لیے ایسی چیز موزوں ہوتی ہے جو پائیدار ہو، کمیاب ہو، ضخیم نہ ہو (تاکہ با آسانی منتقل کی جا سکے)[72]، کھرے کھوٹے کی شناخت آسان ہو اور قابل تقسیم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلی کچھ صدیوں میں سونے چاندی تانبے کانسی وغیرہ کے سکّے استعمال ہوتے رہے جبکہ ہیرا کبھی کرنسی نہیں بن سکا۔ دھاتوں کی اپنی قیمت ہوتی ہے اور ایسے سکّے کو پگھلا کر دھات دوبارہ حاصل کی جا سکتی ہے۔ ایسے سکّے نہ کسی حکومتی یا ادارتی سرپرستی کے محتاج ہوتے ہیں نہ کسی سرحد کے پابند۔ یہ زرِ کثیف یعنی ہارڈ کرنسی کہلاتے ہیں۔ اس کے برعکس کاغذی کرنسی کی اپنی کوئی قیمت نہیں ہوتی بلکہ یہ حکومت کی سرپرستی کی وجہ سے وہ قدر رکھتی ہے جو اس پر لکھی ہوتی ہے۔[73] یہ زرِ فرمان یعنی fiat کرنسی کہلاتی ہے اور جیسے ہی حکومتی سرپرستی ختم ہوتی ہے یہ کاغذ کے ڈھیر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

بنگلہ دیش کے قیام کے وقت وہاں پاکستانی کرنسی رائج تھی جو اپنی قدر کھو چکی تھی۔ اسی طرح صدام حسین کے ہاتھوں سقوط کویت کے بعد کویتی دینار کی قدر آسمان سے زمین پر آ گئی تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہر کاغذی کرنسی کے پیچھے ایک فوجی طاقت کتنی ضروری ہے۔

8 نومبر 2016 کو نریندر مودی کے بھارت میں 500 اور 1000 کے نوٹوں کے اسقاط زر کے اعلان سے ہندوستان میں زیر گردش 86 فیصد کرنسی محض چند گھنٹوں میں کاغذی ردی میں تبدیل ہو گئی تھی۔ اگر ہندوستان کی کرنسی ماضی کی طرح سونے چاندی کے سکوں پر مشتمل ہوتی تو عوام اپنی ہی حکومت کے ہاتھوں یوں ذلیل و خوار نہ ہوتے۔ دیکھیے کیش کے خلاف جنگ

  • آج بھی بھارت کا کاغذی روپیہ نیپال اور بھوٹان میں چلتا ہے کیونکہ نیپال اور بھوٹان کے مقابلے میں بھارت کہیں زیادہ بڑا ملک ہے اور اس وجہ سے اس کی کرنسی زیادہ اعتبار رکھتی ہے۔ مضبوط فوجی طاقت کاغذی کرنسی کو بھی مستحکم کرتی ہے۔ نیپال اور بھوٹان کی کرنسی بھارت میں نہیں چلتی۔
  • 1791ء سے 1857ء تک ہسپانیہ کا سکّہ متحدہ امریکا میں قانونی سکّے کے طور پر چلتا تھا کیونکہ یہ چاندی کا بنا ہوا تھا اور اپنی قدر خود رکھتا تھا۔
  • 1959ء تک دبئی اور قطر کی سرکاری کرنسی ہندوستانی روپیہ تھی جو چاندی کا بنا ہوا ہوتا تھا۔

عالمی کرنسی کی تاریخ

دنیا میں ہمیشہ طاقتور ترین فوجی طاقت کا سکہ مقبول ترین سکہ رہا۔

  • 1450 سے 1530 تک عالمی تجارت پہ پرتگال کا سکّہ چھایا رہا۔
  • 1530 سے 1640 تک عالمی تجارت پہ ہسپانیہ کا سکّہ حاوی رہا۔
  • 1640 سے 1720 تک عالمی تجارت ولندیزی سکّے کے زیر اثر رہی۔
  • 1720 سے 1815 تک فرانس کے سکّے کی حکومت رہی۔ 1815 میں فرانس کے بادشاہ نپولین کو شکست ہوئی۔
  • 1815 سے 1920 تک برطانوی پاونڈ حکمرانی کرتا رہا۔
  • 1920 سے اب تک امریکی ڈالر نے راج کیا لیکن اب اس کی مقبولیت تیزی سے گرتی جا رہی ہے۔[74][75] ماضی کی کرنسیوں کے برخلاف یہ چاندی کی نہیں بلکہ کاغذ کی کرنسی ہے اور محض امریکی حکومت پر اعتماد اور اس کی فوجی دھونس پر قائم ہے۔[76][77][78]

بینک نوٹ

1892 کی Imperial Ottoman Bank کی ایک تصویر۔ قسطنطنیہ کے اس بینک میں محافظوں کی نگرانی میں 13 ٹن سونے کے سکے منتقل کیے جا رہے ہیں۔ بینک نے افریقہ کی سونے کی کانوں کے یورپی شئیر بیچنا شروع کیے۔ صرف 3 سال بعد یہاں بینک رن ہوا اور لوگوں کا خطیر سرمائیہ ڈوب گیا جبکہ بینک مالکان نے خوب خوب کمایا۔
مردے کی روح کو رقم پہنچانے کے لیے چین میں تدفین کے موقع پر ایسے نوٹ جلائے جاتے ہیں۔ اس نوٹ کی مالیت اگرچہ ایک ارب ہے مگر یہ بہت سَستا ملتا ہے۔ اس پر دوزخ کے داروغہ کی تصویر بنی ہوئی ہے۔
دسمبر 1930۔ اپنے پیسے واپس لینے کے لیے بینکِ آف یونائیٹڈ اسٹیٹ کے باہر مجمع لگا ہے۔
لوگ 500 اور 1000 کے نوٹوں کو تبدیل کروانے کے لیے بینک کے باہر قطار میں کھڑے ہیں۔ کولکاتہ، 10 نومبر 2016ء

سکّوں کے نظام سے دنیا کا روزمرہ کا کاروبار نہایت کامیابی سے چل رہا تھا مگر اس میں یہ خرابی تھی کہ بہت زیادہ مقدار میں سکّوں کی نقل و حمل مشکل ہو جاتی تھی۔ وزنی اور ضخیم ہونے کی وجہ سے بڑی رقوم چور ڈاکووں کی نظروں میں آ جاتی تھیں اور سرمایہ داروں کی مشکلات کا سبب بنتی تھیں۔ اس کا قابل قبول حل یہ نکالا گیا کہ سکّوں کی شکل میں یہ رقم کسی ایسے قابل اعتماد شخص کی تحویل میں دے دی جائے جو قابل بھروسا بھی ہو اور اس رقم کی حفاظت بھی کر سکے۔ ایسا شخص عام طور پر ایک امیر سونار ہوتا تھا جو ایک بہت بڑی اور بھاری بھرکم تجوری کا مالک بھی ہوتا تھا اور اس کی حفاظت کے لیے مناسب تعداد میں محافظ بھی رکھتا تھا۔ اس شخص سے اس جمع شدہ رقم کی حاصل کردہ رسید (نوٹ) کی نقل و حمل آسان بھی ہوتی تھی اور مخفی بھی۔[79] سونار کی ان رسیدوں پر بھی ادائیگی کا ایسا ہی وعدہ لکھا ہوتا تھا جیسے اب بھی بہت سے بینک نوٹوں پر لکھا ہوتا ہے۔ اگر ایسا شخص بہت ہی معتبر ہوتا تھا تو اس کی جاری کردہ رسید کو علاقے کے بہت سے لوگ سکّوں کے عوض قبول کر لیتے تھے اور ضرورت پڑنے پر وہی رسید دکھا کر اس سونار سے اپنے سکّے وصول کر لیتے تھے۔[80] اس زمانے میں سنار لوگوں سے رقم کی حفاظت کرنے کا معاوضہ وصول کیا کرتے تھے۔ اس طرح رسید کے طور پر کاغذی کرنسی (بینک نوٹ) کا قیام عمل میں آیا جبکہ سنار معتبر ادارے کے طور پر بینکوں میں تبدیل ہو گئے۔[81] ایسی رسیدیں زر نمائندہ کہلاتی ہیں کیونکہ ان کی پشت پناہی کے لیے بینکوں میں اتنا ہی سونا موجود ہوتا ہے جتنی رسیدیں بینک جاری کرتا ہے۔ ایسے بینکوں میں کبھی 'بینک رن' نہیں ہوتا۔[82]

اس نمائندہ کاغذی کرنسی کا تصور نیا نہیں تھا بلکہ ہزاروں سال پہلے بھی موجود تھا۔ جاپان اور آس پاس کے علاقوں میں مذہبی عبادت گاہوں (پگوڈا) میں اناج ذخیرہ کرنے کے بڑے بڑے گودام موجود ہوا کرتے تھے جن میں لوگ اپنا اناج جمع کرکے کاغذی رسید حاصل کر لیتے تھے اور پھر منڈی میں لین دین کے لیے ان ہی رسیدوں کا آپس میں تبادلہ کر لیتے تھے۔ پگوڈا میں اناج جمع کرانے والے کو بھی اجرت ادا کرنی پڑتی تھی۔

شروع شروع میں تو بینک اتنی ہی رسیدیں جاری کرتے رہے جتنی رقوم دھاتی سکّوں کی شکل میں ان کے پاس جمع کی جاتی تھیں مگر بعد میں جب لوگوں کا اعتماد ان رسیدوں پر بڑھتا چلا گیا اور بینک سے اپنے سکّے طلب کرنے کا رجحان کم ہوتا چلا گیا تو بینک اپنے پاس جمع شدہ دھات سے زیادہ مالیت کی رسیدیں جاری کرنے لگے جو ان کی اپنی اضافی آمدنی بن جاتی تھیں۔[62] اس طرح ماضی میں بینکوں نے خوب خوب لُوٹا اور مناسب وقت آنے پر وہ ساری دولت سمیٹ کر منظر عام سے غائب ہو گئے۔ امریکا کی تاریخ ایسے بینک فراڈوں سے بھری پڑی ہے (11 دسمبر 1930 کو نیویارک کا تیسرا سب سے بڑا بینک، بینک آف یونائیٹڈ اسٹیٹ، بند ہو گیا۔ اگلے سال ستمبر اکتوبر کے دو مہینوں میں 800 مزید بینک بند ہوئے۔[83])۔ صرف بینکوں نے ہی نہیں بلکہ حکومتوں نے بھی عوام اور دوسرے ممالک کی حکومتوں کو خوب اُلّو بنایا۔ اس کی تازہ ترین مثال پہلے تو حکومت امریکا کا 24 جون 1968 کو سلور سرٹیفیکٹ کے بدلے چاندی واپس کرنے سے انکار کرنا اور پھر اگست 1971 میں 35 ڈالر میں ایک اونس سونا واپس کرنے کے وعدے سے مُکرنا تھا۔

پاکستانی کاغذی کرنسی پر تحریر وعدہ
بینک دولت پاکستان ایک ہزار روپیہ حامل ٰہذا کو مطالبے پر ادا کرے گا (اس عبارت سے تو یوں لگتا ہے جیسے ابھی ادائیگی مکمل نہیں ہوئی)
پاکستان کے ہزار روپیہ کے بینک نوٹ پر لکھے اس وعدے کا مطلب یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کاغذ کی اس رسید یا نوٹ کے بدلے چاندی کے 1000 روپے ادا کرے گا۔ چاندی کا روپیہ پاکستان بنتے وقت رائج تھا۔ لیکن اب لوگ بھی چاندی کا روپیہ بھول چکے ہیں اور اسٹیٹ بینک بھی چاندی کے سکّے کی ادائیگی نہیں کر سکتا۔ پاکستان کا 1948ء کا بنا ہوا ایک روپے کا دھاتی سکّہ اگرچہ ماضی کے دھاتی روپے کی طرح چاندی کا ہی سمجھا جاتا تھا مگر درحقیقت وہ نکّل کا بنا ہوا تھا اور وزن میں ایک تولے سے قدرے کم، 11.1 گرام کا تھا۔ لفظ روپیہ سنسکرت زبان کے لفظ روپا سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں چاندی۔

لین دین (بزنس)

تجارتی دولت سے مراد وہ چیزیں ہوتی ہیں جن کی لین دین (خرید و فروخت) کی جاسکتی ہے۔ تجارتی دولت میں ڈاکو اور بینک ہمیشہ دلچسپی رکھتے ہیں۔

صرف تین طرح کی چیزوں کا لین دین کیا جا سکتا ہے۔

  1. مادی اشیاء
  2. محنت مزدوری، مہارت اور وقت
  3. حق (جیسے کاپی رائٹ، پرمٹ، لائسنس، کاغذی کرنسی کے بدلے سونا چاندی طلب کرنے کا حق، نوٹ چھاپنے کا حق وغیرہ)

اس طرح 6 طرح کے تبادلے ممکن ہو جاتے ہیں۔

  1. مادی اشیاء کا مادی اشیاء سے (مثلاً پیسے دے کر کوئی چیز خریدنا)
  2. مادی اشیاء کا محنت مزدوری سے (مثلاً تنخواہ، ڈاکٹر، وکیل یا استاد کی فیس)
  3. مادی اشیاء کا کسی حق سے (مثلاً طوائف کی آمدنی)
  4. ایک طرح کی محنت کا دوسری طرح کی محنت سے (مثلاً درزی موچی کے کپڑے سی دے اور جواباً موچی درزی کے لیے جوتے بنا دے)
  5. کسی محنت کا کسی حق سے (مثلاً پینشن)
  6. ایک طرح کے حق کا کسی دوسری طرح کے حق سے۔ (مثلاً نوٹ لیکر ڈرافٹ دینا)

بینک صرف دو طرح کے تبادلے کرتے ہیں۔ مادی اشیاء کا کسی حق سے اور ایک طرح کے حق کا کسی دوسری طرح کے حق سے ۔

Banking consists exclusively of the Exchanges of Money for Credit, and of Credit for Credit[35]
Bank Notes, Bills of Exchange, &c.، which are mere Rights, or Credit[35]

ہندوستان اور کاغذی کرنسی

ہزاروں سال سے کرنسی سونے چاندی کے سکّوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی کیونکہ لوگ اپنی مرضی کی چیز بطور کرنسی استعمال کرنے کا حق رکھتے تھے۔ لیکن بعد میں حکومتیں قانون بنا کر لوگوں کو مخصوص کرنسی استعمال کرنے پر مجبور کرنے لگیں۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

دورانیہ ہندوستانی نظام کرنسی[84]
1835ء سے 1897ء سلور اسٹینڈرڈ
1898ء سے 1917ء گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ
1917ء سے 1927ء مینیجڈ ایکسچینج
1927ء سے 1931ء گولڈ بُلین اسٹینڈرڈ
1931ء سے 1947ء اسٹرلنگ ایکسچینج اسٹینڈرڈ
1850 سے 1900ء تک ہندوستانی روپے کا ایکسچینج ریٹ (نیلی لکیر) اور ایک روپے کے سکے میں موجود چاندی کی اصل قیمت (لال لکیر)۔ اگر کسی موقع پر لال لکیر نیلی لکیر سے اوپر چلی جائے تو لوگ سکے پگھلا کر چاندی بیچنا شروع کر دیتے ہیں جیسا کہ چین میں 1935ء میں ہوا تھا۔ اس کے برعکس جب لمبے عرصے تک نیلی لکیر لال لکیر سے بہت اوپر رہتی ہے تو لوگوں کا کاغذی کرنسی پر اعتماد بڑھ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرکزی بینکار سونے چاندی کی قیمت گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔

جب بینکاری کو عروج ہوا تو بینکوں کو اندازہ ہوا کہ کاغذی کرنسی کے رواج کو فروغ دینے سے بینکوں کو کس قدر زیادہ منافع ہو سکتا ہے۔ مرکزی بینک چونکہ سونا اور چاندی بنا نہیں سکتے اس لیے وہ سونے چاندی سے بنی کرنسی کو کنٹرول بھی نہیں کر سکتے۔ اسی وجہ سے مرکزی بینک سونے چاندی کو بطور کرنسی استعمال کرنے کے سخت خلاف ہوتے ہیں۔ مرکزی بینک ہمیشہ ایک ایسی کرنسی چاہتے ہیں جسے وہ پوری طرح کنٹرول کر سکیں تاکہ بے حد امیر اور طاقتور بن سکیں اور یہ کرنسی صرف کاغذی کرنسی ہو سکتی تھی کیونکہ کاغذی کرنسی جتنی چاہیں اتنی چھاپی جا سکتی ہے۔ اس طرح دولت تخلیق کرنے کا اختیار بینکاروں کے ہاتھ میں آ جاتا ہے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ برطانیہ میں تو بادشاہ نے قانون بنا کر لوگوں کو بینک آف انگلینڈ کی چھاپی ہوئی کاغذی کرنسی استعمال کرنے پر مجبور کر دیا تھا جو بعد میں وہاں پوری طرح رائج بھی ہو گئی تھی لیکن دنیا کے کئی ممالک میں کاغذی کرنسی مقبول نہ ہو سکی کیونکہ وہاں لوگ سونے چاندی پر زیادہ اعتبار کرتے تھے اور کاغذی نوٹ کو شک کی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ اس میں چین، ہندوستان اور امریکا بھی شامل تھے۔ برطانیہ میں بینک آف انگلینڈ کی کاغذی کرنسی کو 1718 سے "لیگل ٹینڈر" (قانونی کرنسی) کا درجہ حاصل تھا۔[85] ان بینکوں نے بہت آہستہ آہستہ لوگوں کو کاغذی کرنسی کے استعمال کی عادت ڈال دی اور مختلف مواقع پر ایسے قوانین نافذ کروائے جو لوگوں کو کاغذی کرنسی استعمال کرنے پر مجبور کریں۔ مختلف طلائی معیار (گولڈ اسٹینڈرڈ) اِن ہی قوانین کی مثالیں ہیں۔

دورانیہ کاغذی کرنسی کا جاری کنندہ [86]
1770ء سے 1861 تک پرائیوٹ بینک
1861ء سے 1919ء تک حکومت برطانوی ہند
1919ء سے 1935ء تک حکومت برطانوی ہند
1935ء سے اب تک ریزرو بینک آف انڈیا

جب انگریز ہندوستان آیا تو یہاں کی دولت لوٹنے کے لیے کاغذی نوٹ کو رواج دینے کی کوشش میں لگ گیا۔ ہندوستان باقی دنیا کو بہت زیادہ مالیت کا سامان تجارت برآمد کرتا تھا جبکہ درآمدات کم تھیں۔ یعنی تجارت کا توازن ہندوستان کے حق میں تھا۔ انگریز کو اس مال کے بدلے ہندوستان کے لوگوں کو سونا یا چاندی ادا کرنی پڑتی تھی جو وہ نہیں دینا چاہتا تھا۔[87] انگریزوں کی خواہش تھی کہ اگر ہندوستان میں بھی کاغذی نوٹ کا رواج پڑ جائے تو صرف کاغذ چھاپ چھاپ کر مال خریدا جا سکتا ہے۔ اس وقت ہندوستانیوں کو بینکاری اور کاغذی نوٹوں کا بالکل تجربہ نہیں تھا جبکہ انگریز اس میں ماہر تھا۔ ہندوستان کے لوگوں کو بینکاری کی عادت ڈالنے کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانے سے ہی ڈاک خانوں میں پوسٹل سیونگ بینک بنائے گئے جن سے متوسط اور نچلے طبقے کے پاس محفوظ سونا چاندی بٹورنا ممکن ہو گیا۔ 1879 میں ان پوسٹل سیونگ بینکوں کی جانب سے 4 فیصد سے زیادہ سود دیا جاتا تھا جو بعد میں کم ہوتا چلا گیا۔ اس زمانے میں افراط زر بہت کم ہونے کی وجہ سے یہ ایک معقول منافع تھا۔

1841 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا جاری کردہ گولڈ مہر۔ اس پر فارسی میں ایک اشرفی لکھا ہے۔ جب انگریز ہندوستان میں آیا تھا تو سونا ہندوستانیوں کے پاس تھا اور کاغذی کرنسی انگریزوں کے پاس تھی۔ جب انگریز یہاں سے گیا تو سونا انگریزوں کے پاس تھا اور کاغذی کرنسی ہندوستانیوں کے پاس تھی۔

سلور اسٹینڈرڈ

انگریز چونکہ ہندوستان سے سونا بٹورنا چاہتا تھا اس لیے اس نے صرف چاندی کے روپے کو سرکاری کرنسی قرار دیا حالانکہ اس وقت برطانیہ میں گولڈ اسٹینڈرڈ نافذ تھا۔ 1835 میں انہوں نے معیارِ نقرہ کا قانون (سلور اسٹینڈرڈ) نافذ کیا جس کے مطابق چاندی کا روپیہ سرکاری سکّہ بن گیا۔ یہ سکّہ پہلے ہی سے بمبئی اور مدراس میں رائج تھا۔ سونے اور چاندی کے ان سکوں کا وزن ایک تولہ یعنی 180 گرین (grain) ہوتا تھا اور یہ 22 قیراط کے ہوتے تھے یعنی ان میں خالص چاندی کی مقدار 165 گرین تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے جاری کردہ ان چاندی کے سکوں نے (جن پر مغل بادشاہ کا نام نہیں لکھا گیا تھا) جلد ہی مقبولیت حاصل کر لی اور پہلے سے رائج دو درجن طرح کے چاندی کے روپے معدوم ہو گئے۔[88] حکومت عوام سے سونے کا سکّہ قبول تو کر لیتی تھی مگر عوام کو سونا دینے کی پابند نہیں تھی۔ اسی قانون میں اشرفی (گولڈ مُہر) کی قیمت 15 چاندی کے روپے کے برابرطے کی گئی مگر پھر بھی اس قانون کا نام گولڈ اسٹینڈرڈ نہیں رکھا گیا۔ یہ بات بڑی حیران کن ہے جس قانون نے چاندی کو کرنسی قرار دیا اسی قانون نے عوام کو ٹکسالوں سے سونے کے سکے بنوانے کی اجازت بھی دی۔[89] اس قانون کے ذریعے لوگوں کی توجہ چاندی پر مرکوز کروا کر انگریز حکومت نے بڑی مالیت میں زیر گردش سونے کے سکے اپنے پاس ذخیرہ کر لیے جو بعد میں انگلستان بھجوا دیے گئے۔

فائل:Howsilverwaskilled.jpg
1894 میں امریکا میں چھپنے والا ایک کارٹون جس میں بتایا گیا ہے کہ چاندی کو قانون کے ذریعے قتل کیا گیا۔

اس وقت کاغذی کرنسی "پریزیڈنسی بینک آف بنگال" جاری کرتا تھا۔ در حقیقت یہ بینک 1809 سے کاغذی کرنسی جاری کر رہا تھا مگر وہ ہندوستان میں مقبول نہیں ہو رہی تھی اور قانونی کرنسی کا درجہ نہیں رکھتی تھی۔ بمبئی میں کاغذی کرنسی 1840 میں اور مدراس میں 1843 میں جاری کی گئی۔ اس وقت ایک علاقے کی کاغذی کرنسی دوسرے علاقے میں نہیں چلتی تھی لیکن حکومتِ ہند اپنے کرنسی نوٹ قبول کر لیتی تھی خواہ وہ کسی بھی علاقے سے جاری کیے گئے ہوں۔ 1903ء میں پہلی دفعہ تجرباتی طور پر 5 روپے کے نوٹ کو (جو سب سے چھوٹا نوٹ تھا) پورے ہندوستان میں عوام کے لیے قابل قبول بنایا گیا۔ پھر 1910ء سے دس روپے اور پچاس روپے کا نوٹ بھی پورے ہندوستان میں قبول کیا جانے لگا۔ 1911ء میں سو روپے کا نوٹ بھی ہر علاقے میں چلنے لگا۔[90] اُسی وقت سے ہی عالمی بینکاروں کی خواہش ہے کہ پوری دنیا میں ایک ہی کرنسی رائج ہو جائے مگر یورپ کے علاوہ کہیں کامیابی نہیں ملی ہے۔ یورپ کے بھی سارے ممالک یورو اپنانے پر آمادہ نہیں ہیں۔

سنہ پاونڈ کا ایکسچینج ریٹ 24 قیراط سونے کی قیمت
1781 10 روپے کا ایک پاونڈ 15.93 روپیہ فی تولہ 4.25 پاونڈ فی اونس
1835 10 روپے کا ایک پاونڈ 15.93 روپیہ فی تولہ 4.25 پاونڈ فی اونس
نومبر 1864 10 روپے کا ایک پاونڈ 15.93 روپیہ فی تولہ 4.25 پاونڈ فی اونس
26 جون 1893 15 روپے کا ایک پاونڈ 23.90 روپیہ فی تولہ 4.25 پاونڈ فی اونس
1917 10 روپے کا ایک پاونڈ 15.93 روپیہ فی تولہ 4.25 پاونڈ فی اونس
1927 ساڑھے 13 روپے کا ایک پاونڈ 4.25 پاونڈ فی اونس
ستمبر 1931 32 روپیہ فی تولہ 4.25 پاونڈ فی اونس

1861ء میں ہندوستان میں کاغذی کرنسی کا قانون بنا جو یکم مارچ 1862ء سے نافذ ہوا[86]۔ اس قانون کے ذریعے دوسرے بینکوں کا کاغذی نوٹ چھاپنے کا اختیار ختم کر دیا گیا اور اب یہ حق حکومت کے پاس آ گیا[91] اور ہندوستانی حکومت مارچ 1935 تک نوٹ چھاپتی رہی۔ 1861ء کےاس قانون کے تحت عوام کو اجازت تھی کہ وہ اپنا سونا یا چاندی حکومت کے حوالے کر کے کاغذی روپے حاصل کر سکتے ہیں مگر کسی نے بھی سونا نہ دیا اور لوگ صرف چاندی کے عوض کاغذی کرنسی لیتے تھے۔ 37 سال بعد 1898ء میں جب چاندی کی قیمت سونے کے مقابلے میں بڑھی تو لوگوں نے پہلی دفعہ سونے کے بدلے نوٹ حاصل کرنے شروع کیے۔ صرف دو سالوں میں ہندوستانی حکومت نے 'کرنسی ریزرو' میں 100 ٹن سے زیادہ سونا جمع کر لیا۔ حکومت نے 1898ء میں نیا قانون بنایا کہ لندن میں سونا جمع کروانے پر ہندوستان میں نوٹ مل سکتے ہیں۔ لوگوں نے اس طرح سوا دو کروڑ روپے (15 لاکھ پاونڈ) لندن میں جمع کروائے۔ لیکن صرف دس مہینوں میں لوگوں نے لندن سے اپنا سونا وصول کر لیا اور یہ سلسلہ بند ہو گیا۔
پہلی اپریل 1935 سے نوٹ چھاپنے کا اختیار نئے بنے ریزرو بینک آف انڈیا کو بخش دیا گیا جو ایک نجی مرکزی بینک تھا اور عملی طور پر بینک آف انگلینڈ کی ہندوستانی شاخ تھا۔[92] اس کے بعد ہندوستان کی برطانوی حکومت کے پاس صرف ایک روپے کے نوٹ چھاپنے کا اختیار باقی رہا۔

چاندی کا روپیہ بنانے میں برطانوی حکومت کو 42 فیصد منافع (Seigniorage) ہوتا تھا۔ 1913 میں جان مینارڈ کینز نے لکھا کہ یہ روپیہ بینک نوٹ ہی تھا مگر کاغذ کی بجائے چاندی پر چھاپا جاتا تھا۔ لیکن صرف 4 سال بعد پہلی جنگ عظیم کے دوران میں چاندی مہنگی ہو جانے کی وجہ سے صورت حال بالکل بدل چکی تھی۔
1848ء سے 1855ء کے درمیان میں امریکا میں کیلیفورنیا کے مقام سے 2200 ٹن سونا نکالا گیا جس سے سونے کی قیمتیں عارضی طور پر گر گئیں۔ دوسرے ممالک میں بھی سونے کی کانیں دریافت ہوئیں اور صرف 20 سالوں میں (1851ء سے 1870ء کے درمیان) دنیا میں اتنا سونا نکلا جتنا پچھلے 350 سالوں میں نکلا تھا[93]۔ اس طرح سونے کی دستیابی دوگنی ہو گئی۔ لیکن بعد کے سالوں میں چاندی کی بے شمار کانیں دریافت ہوئیں۔ 1873 سے چاندی کی قیمت گرنے لگی کیونکہ جرمنی اور امریکا نے بھی گولڈ اسٹینڈرڈاپنا لیا تھا اور بطور کرنسی چاندی ترک کر دی تھی۔ 1892 میں امریکا نے چاندی کا قانونی کرنسی کا درجہ ختم کر کے صرف سونے کو قانونی کرنسی قرار دیا۔ اس کے پیچھے بینک آف انگلینڈ کا ہاتھ تھا۔

انڈیا کونسل بل

انگریز دونوں ہاتھوں سے ہندوستان کا سونا تو لوٹ ہی رہا تھا مگر تجارتی سامان کے بدلے بھی ہندوستان کو چاندی دینے پر آمادہ نہیں تھا۔ 1875ء سے انگریزوں نے ہندوستان کا تجارتی سامان چاندی کی بجائے کونسل بل (Council Bill) ادا کر کے خریدنا شروع کیا جو بینک ڈرافٹ کی ایک شکل تھا اور اس کی قیمت گھٹتی بڑھتی رہتی تھی۔ اس طرح نہ صرف کاغذ چھاپ چھاپ کر ہندوستان اور چین سے تجارتی مال خریدا جانے لگا بلکہ چاندی کی قیمت گرانا بھی ممکن ہو گیا۔

If, therefore, the India Council in London should not step in to sell bills on India, the merchants and bankers (of England) would have to send silver (to India) to make good the (trade) balances. Thus a channel for the outflow of silver was stopped, in 1875, by the India Council in London[94]

1913ء میں جان مینارڈ کینز نے اپنی کتاب "Indian Currency And Finance" میں لکھا کہ انڈیا کی برطانوی حکومت کو کونسل بل کے نظام کی حاکمانہ نوعیت سے شرح تبادلہ پر حاوی ہونے میں بڑی سہولت ملی۔

the policy of the Government of India is facilitated by the commanding influence which the system of Council Bills gives it over the exchange market.[95]

اگرچہ تاریخ میں یہی بتایا جاتا ہے کہ جرمنی کے سلور اسٹینڈرڈ ترک کرنے اور چاندی کی نئی کانیں دریافت ہونے کی وجہ سے چاندی کی قیمتیں گرنے لگیں تھیں لیکن درحقیقت چاندی کی قیمت گرنے کی سب سے بڑی وجہ برطانیہ سے کونسل بل کا اجرا تھی۔

The great importance of these (Council) Bills, however, is the effect they have on the Market Price of Silver : and they have in fact been one of the most potent factors in recent years in causing the diminution in the Value of Silver as compared to Gold.[96]

چاندی کی قیمت گرنے سے مشرقی ممالک کا تجارتی سامان مغربی ممالک کے لیے انتہائی سستا ہو جاتا تھا۔ اس طرح مشرق کی خوشحالی مغرب کو منتقل ہونے لگی۔

The Indian and Chinese products for which silver is paid were and are, since 1873–74, very low in price, and it there fore takes less silver to purchase a larger quantity of Eastern commodities. Now, on taking the several agents into united consideration, it will certainly not seem very mysterious why silver should not only have fallen in price[94]
""جتنے زیادہ کونسل بل چھپتے تھے، چاندی کی قیمت اتنی ہی گرتی تھی۔ اس لیے لندن کی انڈیا کونسل کو ہر سال پچھلے سال سے زیادہ کونسل بل چھاپنے پڑتے تھے تاکہ لندن میں سونے کی فراہمی میں کمی نہ آئے۔ اس طرح (چاندی استعمال کرنے والے ملک) انڈیا پر ٹیکس بڑھ جاتا تھا"
"The more India Council Bills are sold, the more the Diminution in the Value of Silver is increased : and as the Council must sell a sufficient quantity to produce the required amount in Gold : a still larger amount must be sold to make up for their diminished Value : and consequently the heavier is the taxation on the people of India to meet the deficiency."[96]

1877 میں ایک مصنف J. S. Moore نے لکھا کہ "ایشیا تو اس وقت بھی تجارتی ممالک پر مشتمل تھا جب یورپ بالکل اجاڑ تھا" ...."عظیم قوموں کے پاس اپنا خزانہ بھرنے کے دو ہی طریقے ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ قرضے دو۔ اور دوسرا اور زیادہ آسان طریقہ یہ ہے کہ کاغذی کرنسی میں زبردستی قرضے دو۔"

“the great nations had recourse to two expedients for replenishing their exchequers, - first, loans, and, second, the more convenient forced loans of paper money۔”[94]
"قرض مستقبل کی آمدنی آج ہی خرچ کروانے کا نام ہے۔ اس طرح مستقبل میں خرچ کرنے کی قابلیت کم ہو جاتی ہے۔ سود کی ادائیگی مقروض کو زندہ کھا جاتی ہے۔"[97]
"بینک آف انگلینڈ کا منصوبہ بڑا واضح تھا کہ نوآبادیوں کو قرض کے انبار میں ڈبو دو"
The plan of the Bank of England was clearly to try and drown the colonies in a mountain of debt[98]

1888ء میں کسی مصنف نے لکھا کہ

"چاندی کی قیمت کا انحصار ان کونسل بل پر تھا۔ جب بھی بینک آف انگلینڈ چاندی کی قیمت گرانا چاہتا تھا تو وہ کونسل بل کی قیمت گرا دیتا تھا۔ اگر کوئی اور چاندی ہندوستان بھیجنے کی کوشش کرتا تھا تو بینک آف انگلینڈ کونسل بل کی قیمت بڑھا دیتا تھا جس کی وجہ سے چاندی ہندوستان کی نسبت لندن میں زیادہ مہنگی ہو جاتی تھی۔ بہت سارے لوگوں نے چاندی ایشیا بھیجنے کی کوشش کری اور ناکام رہے اور آخر کار اپنے ارادوں سے دست بردار ہو گئے کیونکہ بینک آف انگلینڈ سے مقابلہ کرنا ممکن نہ تھا۔[99]
"کونسل بل سسٹم نے ہندوستان سے وصول ہونے والے ٹیکس اور تجارتی منافع کو (بیرون ملک) منتقل کرنے کے میکینزم کو یکسر بدل ڈالا۔"
the international transfer mechanism for Indian revenue and trade surpluses was also fundamentally altered by the growth of the Council Bill system. [100]

1859ء سے 1898ء کے دوران میں ہندوستانی حکومت ہر سال اوسطاً ساڑھے 13 کروڑ روپے برطانیہ بھیجتی رہی جس میں سے دس کروڑ روپے ہوم چارجیز کی مد میں ہوتے تھے۔ ٹیلی گرافی کی لائن بن جانے سے 1872ء سے 1893ء تک ہندوستان کو ہونے والے تجارتی منافع (55 کروڑ پاونڈ) کے نصف سے زیادہ سونے چاندی کی بجائے کونسل بل کی شکل میں ادا کیا جانے لگا۔[101]

دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا نے عالمی مالیاتی برتری برطانیہ سے چھین لی۔ اب یہی کام امریکا انجام دے رہا ہے۔

"1899ء میں برطانیہ اپنی برآمدات سے ہونے والے منافع کا 5 گنا کاغذی دولت (capital) ایکسپورٹ کر کے کما رہا تھا۔ 1968ء میں امریکا اپنی برآمدات سے ہونے والے منافع کا 6 گنا کاغذی دولت ایکسپورٹ کر کے کما رہا تھا۔"
Already in 1899, Great Britain’s income from the export of capital was five times as great as the income from foreign trade. In 1968 the income of the USA from the export of capital was six times greater than income from foreign trade.[102]
"دنیا کو دوہرے معیار پر چلایا جا رہا ہے کیونکہ امریکی تجارتی خسارے کے باوجود امریکی حکومت کی مالیاتی پالیسی چلانے کے لیے زبردستی دوسرے ملکوں کو قرضے دینا امریکا کی مفت خوری کا سبب ہے۔"
The world has come to operate on a double standard as the U.S. payments deficit provides a Free Lunch in the form of compulsory foreign loans to finance U.S. Government policy.[103]
"طفیلی لیتا ہے مگر دیتا کچھ نہیں ہے۔ لینے دینے میں وہ برابری نہیں کرتا۔..وہ مال کے بدلے مال نہیں دیتا۔ وہ کرنسی کا تبادلہ کرتا ہے۔"
The parasite takes without giving. It makes an unequal exchange....He does not barter; he exchanges money.[104]
مختلف ممالک سے کاغذی دولت (کیپیٹل) کی ایکسپورٹ (ارب فرانک میں)[102]
سن عیسوی برطانیہ فرانس جرمنی متحدہ امریکا دوسرے ممالک پوری دنیا
1862ء 3.6 - - - - 3.6
1872ء 15 10 - - - 25
1902ء 62 27-37 12.5 3.5 - 105-115
1914ء 93 44 31 18.1 39 225.1
1929ء 94.1 18.1 5.7 79.8 51.7 248.4
1968ء 106.8 55.1 53.6 346.5 126.1 688.1
سو سالوں میں کاغذی دولت کی ایکسپورٹ میں لگ بھگ 200 گنا اضافہ ہوا

ٹکسالوں کی بندش

1892ء میں ہندوستان میں چاندی کی صورت حال[93]
چاندی کی مقدار چاندی کی شکل
ایک ارب 70 کروڑ روپے زیر گردش روپے کے سکے
40 کروڑ روپے بچت کیے گئے سکے (زیر گردش کے علاوہ)
3 ارب روپے چاندی کے بسکٹ، سلاخیں (رینی) اور زیورات
1892ء میں ہندوستان کی کل چاندی=55٫000 ٹن (پونے دو ارب اونس)

کاغذی کرنسی کو فروغ دینے کے لیے 26 جون، 1893ء میں ہندوستان کی برطانوی حکومت نے چاندی کا سکّہ بنانے والی ساری ٹکسالیں عوام کے لیے بند کروا دیں تاکہ نہ چاندی کا سکہ مناسب مقدار میں دستیاب ہو نہ لوگ اسے استعمال کر سکیں۔ سونے کا سکہ (اشرفی) انگریز پہلے ہی سمیٹ کر غائب کر چکا تھا۔ اب ہندوستان میں لوگوں کے پاس لین دین کے لیے کاغذی کرنسی استعمال کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا[93]۔ اس طرح 1835ء میں سرکار کا بنایا ہوا سلور اسٹینڈرڈ 1893ء میں بحقِ کاغذی کرنسی ختم کر دیا گیا۔ اس کے باوجود عوام میں سونے اور چاندی کے سکوں کی طلب برقرار رہی۔ حکومت کی طرف سے کئی بار یہ عندیہ دیا گیا کہ حکومت چاندی کا سکہ بحال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے مگر اس پر عمل نہ کیا گیا۔
جس دن ٹکسالوں کی بندش کا قانون نافذ ہوا اُسی دن حکومت نے اعلان کیا کہ اگر کوئی سونے میں ادائیگی کرے تو اُسے کاغذی نوٹ کی بجائے چاندی کے روپے مل سکتے ہیں۔[105] یعنی ہندوستانیوں کو سونے کے بدلے چاندی مل سکتی ہے مگر چاندی کے بدلے سونا نہیں مل سکتا۔
ٹکسالوں کی بندش سے پہلے ٹکسالیں 2 فیصد اجرت کے عوض عوام سے چاندی لے کر اسے سکوں میں تبدیل کر دیا کر تی تھیں اور اسے Free silver کہتے تھے کیونکہ سکے بنوانے کی کوئی حد مقرر نہ تھی[93]۔ بندش کے بعد یہ سہولت عوام سے چھین لی گئی لیکن حکومت کے پاس یہ حق برقرار رہا۔ جب تک عوام کو حکومت کی ٹکسالوں سے چاندی کے سکے بنوانے کی سہولت دستیاب تھی اس وقت تک عوام کا بھی کرنسی کے معاملات میں عمل دخل تھا۔ یہ سہولت ختم ہونے کے بعد کرنسی کے معاملات پر حکومت پوری طرح قابض ہو گئی اور عوام بے بس ہو گئے۔ اس طرح حکومت کا چاندی کی قیمت گرانا ممکن ہو گیا۔ درحقیقت عوام کے لیے ٹکسالیں بند کر کے حکومتوں نے آزاد منڈی (فری مارکیٹ اکنومی) کی پشت میں چُھرا گھونپ دیا۔

ہندوستان میں 1892 ء سے کاغذی نوٹ کا ارتقا[93]
سن عیسوی کاغذی نوٹ کی مالیت
1892ء 25 کروڑ روپے
1913ء 70 کروڑ روپے
1919ء 120 کروڑ روپے[106]
1939ء 179 کروڑ روپے [86]
1945ء 1152 کروڑ روپے

جب تک حکومتی ٹکسالیں عوام کو سکے بنوانے کی سہولت دیتی ہیں اس وقت تک حکومت کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ سکے میں سونے یا چاندی کی مقدار کم کر سکے۔ لیکن جب عوام سے یہ سہولت چھن جاتی ہے تو حکومت کے لیے یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ وہ سکے میں قیمتی دھات کی مقدار کم کر دے۔ اس طرح سکے کی گراوٹ (devalue) کر کے حکومت اپنے عوام کی کچھ دولت اپنی جیب میں منتقل کر لیتی ہے۔

ٹکسالوں کی بندش کی وجہ سے چاندی کے روپے کی دستیابی کم ہو گئی اور اس کے نتیجے میں پاونڈ کے مقابلے میں روپیہ مہنگا ہونے لگا۔ اس طرح ہندوستانی مال برطانیہ کے لیے مہنگا ہونے لگا۔ ایک روپیہ جو 1894ء میں 13 پینس کا تھا، 1898ء میں 16 پینس کے برابر ہو چکا تھا۔ روپے کی قدر گرانے کے لیے 1898ء تک سابقہ پانچ سالوں میں حکومت نے صرف 4 کروڑ چاندی کے روپے جاری کیے تھے۔[105] لیکن اس طرح مسئلہ حل نہیں ہو پا رہا تھا۔ اس لیے کرنسی کے قحط (starving the currency) کی پالیسی ترک کرنی پڑی اور 1899ء سے 1907ء کے دوران میں حکومت ہند کو ایک ارب 20 کروڑ چاندی کے روپے جاری کرنے پڑے تھے۔ لیکن 1908ء میں پہلی دفعہ لنڈسے اسکیم پر عمل کرتے ہوئے حکومت نے ریورس کونسل بل جاری کیے جس کے بعد نئے چاندی کے سکے جاری کرنے کی ضرورت یکدم ختم ہو گئی اور پہلی جنگ عظیم شروع ہونے تک حکومت صرف پرانے سکے پگھلاتی رہی۔ 1913 تک حکومت 70 کروڑ کاغذی روپے جاری کرنے میں کامیاب ہو چکی تھی جو کُل زیر گردش کرنسی کا لگ بھگ چوتھائی حصہ بنتا تھا۔

ٹکسالوں کی بندش کے بعد ہندوستان میں سونے کی پیداوار[105]
سن عیسوی کتنے تولے سونا کانوں سے نکلا
1893ء 552195 تولے
1894ء 559904 تولے
1895ء 667113 تولے
1896ء 858525 تولے (دس ٹن)
1897ء 1039633 تولے
1898ء 1112569 تولے


1893ء میں ٹکسالوں کی بندش سے پہلے کے دس سالوں میں ہندوستان میں بالعموم خوشحالی رہی تھی۔ لیکن ٹکسالوں کی بندش کے بعد کے دس سال میں غربت اچانک بڑھ گئی اور ملک پے درپے آفتوں کا شکار ہوتا رہا۔ 1896، 1897 اور 1899ء میں ہندوستان کو شدید قحط کا سامنا کرنا پڑا۔(جرمنی، آسٹریا اور روس میں بھی عوام کو ٹکسالوں کی بندش کے بعد ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔)[105] صحت کمزور ہونے کی وجہ سے 15 لاکھ لوگ طاعون سے مر گئے۔ بخار، قحط اور ہیضے سے مرنے والوں کی تعداد تو اس بھی زیادہ تھی۔ (اس وقت ہندوستان کی کُل آبادی 30 کروڑ سے بھی کم تھی۔) اگرچہ ظاہری طور پر 1898ء میں فاولر کمیٹی ( Fowler Report) نے چاندی کی کرنسی کی مخالفت کری تھی (جیسا کہ نام سے ظاہر ہے۔ فاولر کے معنی ہیں صیاد، چڑی مار) لیکن یہ عوام کو گمراہ کرنے کے لیے عمداً جھوٹ تھا کیونکہ عملاً حکومت ہند نے اس کے عین برعکس کام کیا۔ چاندی کے سکے کا اجرا جو 1893ء سے ختم کر دیا گیا تھا اسے 1899ء سے دوبارہ جاری کرنا شروع کر دیا۔ جب حکومت نے چاندی کے روپے کے سکے بڑی مقدار میں جاری کرنے شروع کیے تو 1902ء تک ہندوستان کی خوشحالی دوبارہ واپس آ چکی تھی۔[107] عوام کو الّو بنانے کے لیے فاولر کمیٹی کی سفارش پر 15 ستمبر 1899ء میں حکومت نے قانون بھی بنایا کہ برطانوی سونے کے سکے (سوورین) بغیر کسی حد کے ہندوستان میں ہی بنائے جائینگے مگر اس قانون پر کبھی عمل نہ ہوا۔[105] یہ سب کاغذی کرنسی کے رواج کو مستحکم کرنے کے لیے ڈراما تھا۔

پوسٹ کارڈ پر چھپی ممبئی کی ٹکسال کی تصویر
سنہ(ء) چاندی کی قیمت۔ پنس فی اونس
1871 60.5 پنس
1892–1893 40 پنس(3 شلنگ 4 پنس)
1893–1894 33.3 پنس
1894–1895 29 پنس
1895–1896 30 پنس(2 شلنگ 6 پنس)
ستمبر 1917 55 پنس
دسمبر 1919 79 پنس[106]

پہلی جنگ عظیم شروع ہوتے ہی ہندوستان میں لوگوں کا کاغذی کرنسی پر شک بڑھ گیا اور اگست 1914 میں صرف چار دنوں میں حکومت کو کاغذی نوٹوں کے بدلے 20 لاکھ پاونڈ (3 کروڑ روپے) کی مالیت کے سونے کے سکے عوام کو ادا کرنے پڑے۔ اس کے بعد سونے میں ادائیگی روک دی گئی لیکن چاندی کی ادائیگی جاری رہی۔ صرف پانچ سالوں میں حکومت ہند کو دوسرے ممالک سے 53 کروڑ اونس (16600 ٹن) چاندی خریدنی پڑی اور دیڑھ ارب چاندی کے روپے جاری کرنے پڑے۔ کاغذی کرنسی کو مزید مقبول بنانے اور چاندی پر سے بوجھ ہٹانے کے لیے 1917 میں حکومت ہند نے ایک روپے اور ڈھائی روپے کے نوٹ جاری کیے۔ اس سے پہلے سب سے چھوٹا نوٹ پانچ روپے کا تھا۔ ستمبر 1917 میں چاندی کی قیمت (جو 1893 سے 34 پنس فی اونس سے کم رہی تھی) بڑھ کر 55 پنس فی اونس ہو گئی اور لوگوں نے سکے پگھلا کر چاندی کے برتن اور زیورات بنانے شروع کر دیے۔ 1835 سے اِس وقت تک پانچ ارب (یعنی 60 ہزار ٹن) چاندی کے سکے بنائے جا چکے تھے جن کے پگھلا دیے جانے کا خطرہ موجود تھا۔ اس لیے حکومت کو مجبوراً ہندوستانی روپے کی قیمت میں اضافہ کرنا پڑا اور اس طرح ایک پاونڈ 15 روپے سے گر کر 10 روپے کے برابر ہو گیا۔[108] 23 اپریل 1918 کو امریکی حکومت نے Pittman Act بنا کر امریکی عوام کی تقریباً 52 کروڑ اونس چاندی ضبط کر لی (بہ عوض کاغذی کرنسی) اور اسے ہندوستان بھیج دیا تاکہ ہندوستان میں کاغذی نوٹ کی چاندی کے روپے میں تبدیلی کا عمل (convertibility) متاثر نہ ہو اور کاغذی کرنسی کی ساکھ بہتر ہوتی جائے ۔

ہندوستانی کرنسی- لاکھ روپے [109]
کل کرنسی میں کاغذی کرنسی کی فیصد مقدار کتنے کاغذی روپے گردش میں تھے کتنے چاندی کے روپے گردش میں تھے کتنے نئے چاندی کے روپے جاری ہوئے مالی سال
16 2379 12859 1360 1900–1901
16 2424 12649 204 1901–1902
19 2887 12428 60 1902–1903
19 3154 13565 1142 1903–1904
19 3373 14247 688 1904–1905
20 3790 15569 1611 1905–1906
19 4120 17241 2288 1906–1907
18 3865 17592 1548 1907–1908
20 3923 16075 2 1908–1909
21 4651 17242 8 1909–1910
21 4568 17404 -42 1910–1911
22 5324 18441 -7 1911–1912
سال چاندی کی سالانہ اوسط قیمت[110])
US$/ozt
سونے کی سالانہ اوسط قیمت[111])
US$/ozt
چاندی کے مقابلے سونے کی قیمت
ratio
بازیاب شدہ چاندی کے عالمی ذخائر۔ ٹن میں[112]
1840 1.29 20 15.5 N/A
1900 0.64 20 31.9 N/A
1920 0.65 20 31.6 N/A
1940 0.34 33 97.3 N/A
1960 0.91 35 38.6 N/A
1970 1.63 35 22.0 N/A
1980 16.39 612 37.4 N/A
1990 4.06 383 94.3 N/A
2000 4.95 279 56.4 420٫000
2005 7.31 444 60.8 570٫000
2009 14.67 972 66.3 400٫000
2010 20.19 1٫225 60.7 510٫000
2011 35.12 1٫572 44.7 530٫000
2012 31.15 1٫669 53.6 540٫000
2013 23.79 1411 59.6 520٫000
2014 19.08 1266 65.2 520٫000
2015 15.68 1160 74.5 570٫000
2016 17.18 1253 72.9

برطانیہ میں 1821 سے سونے کے سکّے قانونی کرنسی کا درجہ رکھتے تھے۔ امریکا آسٹریلیا اور کینیڈا میں بھی یہ بہت مقبول تھے۔ فرانس اور جرمنی کی جنگ (1870–1871) میں فرانس کی شکست کے بعد جرمنی نے فرانس سے تاوان جنگ 5 ارب فرانک کا لگ بھگ 20 فیصد (تقریباً 325 ٹن) سونے کی شکل میں وصول کیا اور اپنی کرنسی کو چاندی سے ہٹا کر سونے کی کرنسی اختیار کی کیونکہ چاندی کی مقبولیت گِرانی تھی۔ لیکن اسی دوران میں ہندوستان میں برطانوی راج صدیوں سے رائج سونے کی کرنسی ہٹا کر چاندی کی اور پھر کاغذ کی کرنسی نافذ کرنے میں مصروف رہا۔ جولائی 1926 میں حکومت ہی کے بنائے ہوئے Hilton Young Commission نے بھی ہندوستان میں حقیقی گولڈ اسٹینڈرڈ کی سفارش کی مگر حکومت نے نظر انداز کر دی۔

ٹکسالوں کی بندش
سن عیسوی ملک
1871ء جرمنی
1873ء ہالینڈ
1873ء متحدہ امریکا
1878ء آسٹریا
1893ء روس
1893ء انڈیا
1935ء چین

چاندی کی کرنسی کی موجودگی میں مرکزی بینکاروں کو کاغذی کرنسی کا رواج عام کرنے میں سخت دشواری کا سامنا تھا۔ بینکار جانتے تھے کہ صدیوں سے لوگ چاندی میں بچت کرتے آئے ہیں۔ 1869 میں بیرون الفانسو ڈی روتھشیلڈ نے کہا تھا کہ "ہمیں چاندی کی کرنسی کو مکمل طور پر ختم کرنا پڑے گا تاکہ دنیا کے سرمائے (capital) کا بڑا حصہ برباد کیا جا سکے۔ یہ بہت بڑی تباہی ہو گی۔"[113] اس کے بعد جرمنی میں چاندی کی ٹکسالیں 1871 میں بند کی گئیں۔ امریکا میں یہ 1873 میں بند ہوئیں جس کے بعد 1874 سے چاندی کی قیمت گرنا شروع ہوئی۔ 1879 میں یورپ میں Latin Monetary Union نے بھی چاندی کی آخری ٹکسال بند کر دی اور اسی سال امریکا میں حکومت نے کاغذی کرنسی کے بدلے چاندی کی بجائے سونا واپس کرنا شروع کیا۔ ہندوستان میں چاندی کی ٹکسالوں کو 1893 میں بند کیا گیا۔ چین نے چاندی کی ٹکسالیں بند کرنے سے انکار کر دیا اور وہاں چاندی کی ٹکسالیں 1935 تک سکے بناتی رہیں۔ 1879 سے 1935 تک چاندی کی قیمت سونے کے مقابلے میں پانچ گنا کم ہو گئی۔[114] غالباً چاندی کی قیمت گرنے کی سب سے اہم وجہ لندن سے انڈیا اور چین تک ٹیلی گرافی کی لائن کا پہنچنا تھا جس نے بینک آف انگلینڈ کو انڈیا اور چین کی مارکیٹ میں ہیراپھیری کا موقع فراہم کر دیا تھا۔ چاندی کی قیمت گرنے سے انگلینڈ واضح طور پر منافع میں رہا جبکہ انڈیا اور چین کنگال ہو گئے۔[115]

"One last point on Silver… It has been one of--if not the—most manipulated markets in the world for many, many years."[116]

چاندی کی کرنسی کو ختم کر کے کاغذ کو کرنسی بنانے میں ایک خفیہ تنظیم The Pilgrims Society نے نہایت اہم کردار ادا کیا تھا۔[117]
ہندوستان میں سونے چاندی کی طلب بہت زیادہ تھی۔ ہندوستان کی برطانوی حکومت نے روپے کی قیمت 16 پنس (یعنی 15 روپے کا ایک پاونڈ) پر برقرار رکھنے کا ایک نیا طریقہ دریافت کیا جس میں سونا درآمد یا برآمد نہیں کرنا پڑتا تھا۔ روپے کی قیمت کو بڑھنے سے روکنے کے لیے حکومت کونسل بل (بینک ڈرافٹ) فروخت کرتی تھی اور روپے کی قیمت گرنے سے روکنے کے لیے ریورس کونسل بل بیچتی تھی۔ ریورس کونسل بل پہلی دفعہ 6 مہینے کی مدت کے لیے بیچے گئے جب 1908 میں قحط کی وجہ سے حالات خراب ہوئے۔ اس دوران میں 80 لاکھ پاونڈ (12 کروڑ روپے) کے ریورس کونسل بل بکے۔ دوسری دفعہ جنگ عظیم اول کی وجہ سے اگست 1914ء سے جنوری 1915 کے درمیان میں 90 لاکھ پاونڈ (ساڑھے 13 کروڑ روپے) کے ریورس کونسل بل بیچنے پڑے جس سے عوام کا کاغذی کرنسی پر اعتماد بڑھا۔[93] کونسل بل کی قیمت گھٹا بڑھا کر برطانیہ چاندی کی قیمت گرانے میں کامیاب ہو جاتا تھا[99] ۔ اس طرح خطیر تجارتی منافع کے باوجود ہندوستان غریب ہوتا رہا جبکہ خطیر تجارتی خسارے کے باوجودبرطانیہ امیر ہوتا رہا۔ 1851 سے 1938 کے درمیان میں صرف دو سال ایسے گزرے تھے جب ہندوستان کو تجاتی خسارہ رہا تھا۔ یہ پہلی جنگ عظیم کے اختتام کے بعد اپریل 1920 سے مارچ 1922 کا عرصہ تھا۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد 1932 میں ہندوستان کی برطانوی حکومت نے ہندوستان کی ساری چاندی جمع کر کے یک لخت بین الاقوامی مارکیٹ میں چھوڑ دی جس سے چاندی کی قیمت بہت گر گئی۔ [118] لیکن چین نے پھر بھی نہ سلور اسٹینڈرڈ ترک کیا نہ کاغذی کرنسی اپنائی۔ اس پر امریکا نے مہنگے داموں (کاغذی سلور سرٹیفیکٹ کے عوض) بڑی مقدار میں چاندی خریدنے کا قانون (Silver Purchase Act, 1934) بنایا۔ اس کے نتیجے میں چین کے چاندی کے سکے پگھلانا یا اسمگل کرنا بڑا منافع بخش کاروبار بن گیا۔ جب چین میں چاندی کی شدید قلت ہو گئی تو چین کو بھی ٹکسالیں بند کرنے پر مجبور کیا جا سکا۔

جب پہلی ستمبر 1939ء میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو ہندوستان میں وہ بینک رن دیکھنے میں نہیں آیا جو پہلی جنگ عظیم شروع ہونے پر ہوا تھا۔ یعنی اس وقت تک لوگوں کا کاغذی کرنسی پر سے شک دور ہو چکا تھا۔ ہندوستان کی زمین تو بہت پہلے ہی گوروں کے قبضے میں آ چکی تھی۔ اب ہندوستانیوں کے ذہن بھی قبضے میں آ گئے۔ اب پہلی دفعہ اس بات کے آثار واضح ہونے لگے کہ ہندوستان کو آزادی بھی دے دی جائے جبکہ اس ملک کا غلام نوآبادی (کالونی) کا درجہ بھی جوں کا توں برقرار رہے۔

گولڈ اسٹینڈرڈ

گولڈ اسٹینڈرڈ سے مراد ایسی کاغذی کرنسی تھی جسے پہلے ہی سے طے شدہ مقدارکے سونے میں تبدیل کیا جا سکے۔[119] لوگوں کو پوری آزادی ہوتی تھی کہ جب چاہیں کاغذی کرنسی کے بدلے بینکوں سے سونے کے سکوں کی لین دین کر سکیں۔[120] دوسرے الفاظ میں گولڈ اسٹینڈرڈ مالیاتی نظام کی ایک قسم تھی جس میں ایک کاغذی روپیہ،(یا ڈالر، پاونڈ وغیرہ) سونے کی ایک مخصوص مقدار کی نمائندگی کیا کرتا تھا اور سونے کے سکے میں تبدیل (convert) کیا جا سکتا تھا۔[121] یعنی کاغذی روپیہ سونے کے سکے کی رسید یا ٹوکن کی حیثیت رکھتا تھا نہ کہ fiat کرنسی کی۔
گولڈ اسٹینڈرڈ کا قانون مرکزی بینکوں کی جانب سے ان سونے کے سکّوں کی بجائے کاغذی کرنسی کا استعمال زیادہ سے زیادہ قابل قبول بنانے کی غالباً پہلی اور بڑی حد تک کامیاب کوشش تھی۔ لوگ یہ سمجھ کر کاغذی کرنسی قبول کرنے لگے کہ اس کے بدلے جب چاہیں بینک سے سونے کے سکّے حاصل کر سکتے ہیں۔

"کرنسی اور متبادل کرنسی الگ الگ چیزیں ہیں۔ ہم فی ایٹ کرنسی کو کرنسی کے متبادل کے طور پر استعمال کرتے ہیں"
"There is a difference between money and money substitutes. We use these fiat currencies … as a money substitute."[122]
"کرنسی دراصل سونے کا حکومتی متبادل ہے۔ لیکن اصل کرنسی سونا ہے۔"
A currency is a government substitute for money. But gold is money.[123]
"روٹی وصول کرنے کا پروانہ خریدا اور بیچا جا سکتا ہے مگر یہ روٹی سے بہتر نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ روٹی کی جگہ استعمال نہیں ہو سکتا۔ مگر رقم وصول کرنے کا پروانہ رقم کی جگہ استعمال ہو سکتا ہے۔.. کریڈٹ رقم وصول کرنے کا پروانہ ہوتا ہے اور رقم چیزیں وصول کرنے کا پروانہ ہوتی ہے۔"
an Order to receive bread may be bought and sold, but it cannot supersede bread, because it cannot serve as food. An order for such things can never serve as a substitute for the things themselves. But an Order to pay Money can serve as a substitute for Money....Credit is an Order to pay Money, and Money is an Order to pay Goods.[35]
گولڈ اسٹینڈرڈ کب نافذ ہوا [124]
ملک سال
برطانیہ 1821
جرمنی 1871
سوئیڈن 1873
فرانس 1874
بیلجیئم 1874
اٹلی 1874
سوئیزرلینڈ 1874
ہولینڈ 1875
آسٹریا 1892
جاپان 1897
روس 1898
امریکا (عملاً) 1873
امریکا (قانوناً) 1900

گولڈ اسٹینڈرڈ کی اقسام

لگ بھگ 500 سال قبل تک گولڈ اسٹینڈرڈ سے مراد وہ قوانین ہوتے تھے جو سونے کے سکے کا صرف وزن اور خالصیت (قیراط) بیان کرتے تھے۔ لیکن بعد میں گولڈ اسٹینڈرڈ کے نام سے ایسے قوانین بنائے جانے لگے جو کاغذی کرنسی کو سونے کا متبادل قرار دیتے تھے۔

  • طلائی نقدی معیار: (Gold specie standard) اسے کلاسیکی گولڈ اسٹینڈرڈ بھی کہتے ہیں۔ اس میں ایک کاغذی روپیہ ایک چاندی کے روپے کے برابر ہوتا تھا اور 15 چاندی کے روپے ایک سونے کے سکّے (طلائی مہر یا اشرفی) کے برابر تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برطانوی ہندوستان میں صرف سونے چاندی تانبے وغیرہ کے سکّے چلتے تھے اور انگریز حکومت کاغذی کرنسی کا رواج شروع کر رہی تھی۔ کاغذی کرنسی پہ اعتبار بڑھانے کے لیے شروع شروع میں تو لوگوں کو بینک سے کاغذی روپیہ کے بدلے سونا یا چاندی دے دی جاتی تھی مگر رفتہ رفتہ یہ مشکل تر ہوتا چلا گیا اور بالآخیر بالکل ہی ختم ہو گیا۔ برطانیہ میں یہ نظام 1821 سے پہلی جنگ عظیم (اگست 1914) تک چلا۔ ایک پونڈ اسٹرلنگ 113 گرین (grain) سونے کی نمائیندگی کرتا تھا اور ایک امریکی ڈالر 23.22 گرین سونے کے برابر تھا۔ 1914 میں امریکا میں فیڈرل ریزرو کے آغاز کے بعد کلاسیکی گولڈ اسٹینڈرڈ کا خاتمہ ہو گیا۔

کلاسیکی گولڈ اسٹینڈرڈ میں مندرجہ ذیل چھ خوبیاں موجود تھیں جو رفتہ رفتہ ختم ہوتی چلی گئیں اور گولڈ اسٹینڈرڈ محض فراڈ بن کر رہ گیا۔

  1. کاغذی کرنسی کا تعلق سونے کے طے شدہ وزن سے تھا۔
  2. سونے کے سکے گردش میں تھے۔
  3. کاغذی کرنسی سونے کے سکّوں میں با آسانی تبدیل کی جا سکتی تھی۔
  4. دوسرے سکے (مثلاً چاندی کے سکے) سونے کے سکوں کے ماتحت تھے۔
  5. سونے کے سکے پگھلانے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔
  6. سونے کی کسی بھی شکل میں درآمد اور برآمد پر کوئی پابندی یا ٹیکس نہیں تھا۔[124]

ہندوستان میں قانون تو گولڈ اسٹینڈرڈ جیسا بنا تھا لیکن چند سالوں بعد ہی عملی طور پر "گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ" رواج دے دیا گیا اور حقیقی گولڈ اسٹینڈرڈ کے تقاضے کبھی بھی پورے نہ ہو سکے۔[106] حقیقی طلائی معیار میں سونا چاندی بغیر کسی روک ٹوک کے عوام کی دسترس میں ہوتا ہے کیونکہ سونے چاندی کے سکے گردش میں ہوتے ہیں۔ برطانیہ میں طلائی معیار کا قانون 1816ء میں بنا تھا جس کے بعد اگلے سال سونے کا سکہ "سوورین" (sovereign) جاری کیا گیا جو 22 قیراط سونے سے بنا تھا اور اس میں 7.322 گرام خالص سونا ہوتا تھا۔ یہ ایک پاونڈ یعنی 20 چاندی کے شلنگ کے برابر تھا۔ ان نئے سکوں نے پرانے سونے کے سکے "گنی" (Guinea) کی جگہ لی۔ نومبر 1864ء میں سوورین کی قیمت 10 ہندوستانی روپے کے مساوی قرار دی گئی تھی۔ (یعنی سوورین کی شکل میں 24 قیراط سونے کی قیمت لگ بھگ 15.93 روپیہ فی تولہ تھی )۔ 26 جون 1893ء کو Lord Herschell کی سفارش پر سوورین کی قیمت بڑھا کر 15 روپے قرار دی گئی (یعنی لگ بھگ 24 روپے فی تولہ) اور ٹکسالیں بند کر دی گئیں۔ اس طرح ایک سوورین ایک اشرفی (گولڈ مُہر) کے برابر ہو گیا حالانکہ سوورین کے مقابلے میں اشرفی میں خالص سونے کی مقدار لگ بھگ 45 فیصد زیادہ تھی۔ اس طرح شرح تبادلہ کنٹرول کر کے ہندوستان کو سرکاری سطح پر لُوٹنا قانونی ہو گیا۔

The sovereign became equivalent to just fifteen rupees, which was precisely the same rate at which the gold mohur used to exchange for (silver) rupees[105]
  • طلائی تبدل معیار: (Gold exchange standard)۔ اپنے نام کی مماثلت کے باوجود گولڈ اسٹینڈرڈ اور گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن دونوں ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں یعنی قابل تخلیق کرنسی کو رائج کرنا۔ گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ کے نظام میں صرف امریکا اور برطانیہ کو “ریزرو ممالک“ کا درجہ دیا گیا جن کے لیے سونے کا ذخیرہ رکھنا “ضروری“ تھا جبکہ باقی ممالک کے لیے کاغذی ڈالر یا پاونڈ کا ذخیرہ سونے کے ذخیرے کے مساوی قرار دیا گیا[125] وجہ یہ بتائی گئی کہ دنیا میں اتنا سونا دستیاب نہیں ہے کہ ہر ملک کا سینٹرل بینک اپنا سونے کا ذخیرہ بنا سکے۔[126]
    اس حکمت عملی کو “سونے کی کفایت شعاری“ بتایا گیا۔(دیکھیے لنڈسے اسکیم)

طلب و رسد (demand & supply) کے قانون کے تحت دستیابی کم ہونے کی وجہ سے سونے کی قیمت بڑھ جانی چاہئیے تھی لیکن ایسا نہ ہونے دیا گیا۔

1926ء میں ہلٹن ینگ کمیشن نے اعتراف کیا کہ "اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ محض ایک ملک (برطانیہ) کی کرنسی پر انحصار کرنا ہندوستان کے لیے سخت نقصان دہ ہے خواہ پاونڈ کتنا ہی مستحکم اور سونے سے جڑا ہو"

there is undoubted disadvantage for India in dependence on the currency of a single country, however stable and firmly linked to gold[127]

گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ کے نظام میں سونے چاندی کے سکّے گردش میں نہیں ہوتے تھے اور حکومت اس بات کی ضمانت دیتی تھی کہ کاغذی روپیہ کے بدلے ایک مقررہ مقدار میں سونا یا چاندی دی جائے گی جو حکومت (یا مرکزی بینک) کے پاس محفوظ رکھی ہوتی تھی۔ اس زمانے میں لوگوں کا بینک سے کاغذی روپیہ کے بدلے سونا یا چاندی حاصل کرنا بہت مشکل بنا دیا گیا تھا۔ اب سونا چاندی عوام کی دسترس سے نکل گیا تھا کیونکہ اب بینک کی روک ٹوک درمیان میں آ گئی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس ضمانت کی آڑ میں امریکا اور برطانیہ کے مَرکزی بینکوں نے دنیا بھر کے عوام کا سونا چاندی بڑی مقدار میں ہڑپ کر لیا۔ ہندوستان کی برطانوی حکومت نے اس دوران میں بڑی مقدار میں سونا ہندوستان سے انگلستان بھیجا اور اس طرح ہندوستان میں سونے کی قلّت پیدا ہو گئی تھی جس کو چھپانے کے لیے اصلی سکّوں کی جگہ کاغذی کرنسی کو ہی قانونی کرنسی قرار دیا گیا۔ ہندوستان میں گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ 1898ء میں Fowler Report کے بعد باضابطہ طور پر نافذ کیا گیا اور ایک ہندوستانی روپیہ ایک شلنگ اور چار پینس (1s 4d) کے برابر قرار دیا گیا۔ یہ درحقیقت اسٹرلنگ ایکسچینج اسٹینڈرڈ تھا۔ جان مینارڈ کینز اپنی کتاب "انڈین کرنسی اینڈ فائیننس" میں لکھتا ہے کہ مالی سال 1900-1901ء میں حکومت ہند نے عوام کو سونے کا برطانوی ایک پاونڈ کا سکہ sovereign چاندی کے 15 روپے کے عوض جاری کرنا شروع کیا۔ ایک سال میں £6,750,000 کے سکے جاری کیے گئے لیکن توقع کے خلاف ان کی نصف مقدار بھی لوٹ کر بینکوں یا ٹریزری میں واپس نہیں آئی اور یہ تجربہ بری طرح ناکام رہا۔

1845 سے 2013 تک مرکزی بینکوں کے پاس کُل سونا (میٹرک ٹن میں)۔ جیسے جیسے کاغذی کرنسی کا رواج بڑھتا چلا گیا عوام کے پاس موجود سونے کے سکے مرکزی بینکوں کی تجوریوں میں منتقل ہوتے چلے گئے۔ عالمی جنگوں اور گریٹ ڈپریشن کے دوران میں بھی مرکزی بینکوں کا سونا بڑھتا ہی رہا۔ 1965 میں یہ مقدار لگ بھگ 38500 ٹن تھی۔1875 میں امریکی بینکوں کے پاس کل سونا محض 50 ٹن تھا۔

برطانیہ میں اس نظام کو لانے کی وجہ یہ تھی کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ پہ 85 کروڑ پاونڈ کا قرضہ چڑھ چکا تھا اور حکومت کے اخراجات کا 40 فیصد سود ادا کرنے پر خرچ ہوتا تھا۔ (سو سال بعد آج برطانیہ پہ 31 ارب پاونڈ کا قرضہ ہے)۔ برطانیہ میں یہ نظام صرف 6 سال (1925 سے 1931 تک) چل سکا کیونکہ یورپی ممالک نے برطانیہ سے سونا خریدنا شروع کر دیا اور برطانوی سونے کے ذخائر میں تیزی سے کمی آنے لگی۔ مئی 1931 میں آسٹریا کے سب سے بڑے بینک میں بینک رن ہوا اور وہ بینک فیل ہو گیا۔ یہ بینک رن اسی سال جرمنی اور برطانیہ تک پہنچ گیا۔ 19 ستمبر 1931 میں برطانیہ نے یہ نظام ختم کر دیا جس سے برطانوی پاونڈ کی قیمت بڑی تیزی سے گری۔ چونکہ ہندوستانی روپیہ پاونڈ سے منسلک تھا اس لیے روپے کی قدر بھی بہت کم ہو گئی اور برطانیہ کے جرم کی ساری سزا ہندوستان کو بھگتنی پڑی۔ صرف تین چار مہینوں میں ہندوستان میں سونے کی قیمت 45 فیصد اضافہ کے بعد لگ بھگ 32 روپے تولہ ہو گئی۔ یہ سب مرکزی بینکوں کی جانب سے ذخیرہ شدہ سونے کی مالیت سے کہیں زیادہ نوٹ چھاپنے کا نتیجہ تھا۔ اس سارے بحران میں مرکزی بینکوں نے خوب خوب کمایا۔

A gold standard puts the requirements for the quantity of money in circulation entirely in the hands of the market, to which the central bank mechanically responds. A gold exchange standard allows a lending central bank to inflate its money supply through inward investment, and a borrowing central bank to inflate its money supply on the presumption the monetary substitutes borrowed to back it are monetary units of gold....So, by lending their monetary units, the creditor nations achieved finance for their own governments, as well as providing capital for foreign central banks. It was seen to be a win-win for all the central banks involved.[128]

جیمز ریکارڈز اپنی کتاب “کرنسی کی موت“ (The Death of Money)[129] میں گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ کے بارے میں لکھتے ہیں:[130] گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ ایک جانب حقیقی گولڈ اسٹینڈرڈ کی سنہری نقل تھا تو دوسری جانب ایک بہت ہی بڑا فراڈ بھی تھا۔

"مالیاتی نظام کی جڑیں کھوکھلی ہیں۔ کرنسی چھاپنے کی کوئی حد نہیں ہے۔ قرضے جاری کرنے کی کوئی حد نہیں ہے۔"
"There is no anchor to the system. There is no limit on money printing. There is no limit on debt creation."[131]

مالیات کی دنیا میں مبہم اور ذو معنی اصطلاحات کا استعمال بہت عام ہے۔[35] گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ میں لفظ ایکسچینج سے مراد بل آف ایکسچینج[132] تھا جو ایک بینک ڈرافٹ ہوتا تھا اور اس زمانے میں بین الاقوامی ادائیگیوں میں بہت استعمال ہوتا تھا۔[133] گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ کا لب لباب یہ تھا کہ سونے کے بدلے کاغذ لے لو۔ عوام کو اگرچہ کاغذی رسید کے بدلے سونا نہیں دیا جاتا تھا مگر اب بھی عوام کا سونے پر حق تسلیم کیا جاتا تھا۔

  • طلائی سلاخ معیار: (Gold bullion standard) اس نظام میں عام آدمی کے لیے کاغذی کرنسی کے بدلے بینک سے سونے کا سکہ لینے کا حق ہی ختم کر دیا گیا۔ صرف چند امیر لوگوں کے پاس یہ حق باقی رہ گیا جو دوسرے ممالک سے تجارت کرتے تھے اور یک مشت 400 اونس (لگ بھگ ساڑھے بارہ کلو) کی سونے کی اینٹ خرید سکتے تھے۔ اس نظام کو پہلی دفعہ رکارڈو نے تجویز کیا تھا مگر ان تجاویز پر عمل اس کی موت کے سو سال بعد ہوا۔


حکومت برطانوی ہند نے عوام سے سونا خریدنے کی کم از کم حد 40 تولے رکھی تھی مگر عوام کو سونا بیچنے کی کم از کم حد 400 اونس یعنی 1069 تولے مقرر کی تھی۔[86]
بعد میں ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر بننے والے سر چنتا من راو دیشمکھ نے ہندوستان میں برطانوی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ "ایسی اصلاحات کے بعد انڈیا آفس اس طرح کا نا ممکن کاروبار ہو سکنے کے بارے میں اندھا ہے اور بے چارے مالیاتی حکام کو اسمبلی میں کھڑے ہو کر اُن پالیسیوں کا دفاع کرنا پڑتا ہے جنہیں وہ خود بھی غلط سمجھتے ہیں اور جن کے نقصانات بڑے واضح ہوتے ہیں"۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اپریل 1931 سے مارچ 1941 تک ہندوستان کی برطانوی حکومت نے 1337.5 ٹن سونا برطانیہ بھیجا جس کی اُس وقت مالیت 375 کروڑ روپے تھی۔ اُس وقت اس سونے کی اوسط قیمت 33 روپے فی تولہ سے بھی کم تھی۔ اس سونے سے بینک آف انگلینڈ کو سونے کا ذخیرہ بنانے میں بڑی مدد ملی۔[106] اگر آج کے سونے کے نرخ سے دیکھا جائے تو یہ 50 ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کا سونا تھا۔ 1900ء میں سیکریٹری آف اسٹیٹ کی ہدایت پر Gold Standard Reserve کا سارا سونا پہلے ہی ہندوستان سے لندن منتقل کیا جا چکا تھا۔

مشہور ماہر معاشیات Ludwig von Mises (1881–1973) اپنی تصنیف Beware the Alchemists (دولت بنانے والوں سے ہوشیار)میں لکھتے ہیں کہ حکومت کو یہ حق ہے کہ وہ جسے چاہے گھوڑا کہے۔ وہ چوزے کو بھی گھوڑا کہہ سکتی ہے۔ اس وقت تو لوگ حکومت کو پاگل یا کرپٹ سمجھیں گے۔ لیکن تین صدیوں میں حکومتیں کاغذ کے ٹکڑے کو کرنسی باور کرانے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔ اور یہی مہنگائی کی اصل وجہ ہے۔ [134]

کرنسی کا رتبہ مالیاتی نظام فوائد نقصانات[135][136]
بہترین ہارڈ کرنسی“ یعنی جب اصل مالیت

کے دھاتی سکے زیر گردش ہوں

  • Honest money۔ کوئی تخلیق نہیں کر سکتا
  • بین الاقوامی کرنسی
  • فکسڈ ایکسچینج ریٹ
  • بچت کی برقراری
  • آنے والی نسل پر کوئی ٹیکس نہیں ہوتا
  • نہ بینک رن ممکن ہوتا ہے، نہ سینٹرل بینک کی ضرورت ہوتی ہے[137]
  • عوام کے لیے بہترین، بینکاروں اور حکومت کے لیے بد ترین کرنسی
  • نقل و حمل کی مشکلات
  • کھرے کھوٹے کی پہچان کی مشکلات
اچھی “گولڈ اسٹینڈرڈ“ یعنی ایسی کاغذی کرنسی

جو طے شدہ سونے میں تبدیل کی جا سکے[138]

  • نقل و حمل اور استعمال میں آسانی
  • ہمیشہ جاری کنندہ کی جانب سے بہت زیادہ چھاپی گئی اور پہلے افراط زر اورپھر مکمل تباہی سے دوچار ہوئی
  • جاری کنندہ کے فراڈ کی وجہ سے بینک رن ممکن ہوتا ہے
خراب حکومت کی جانب سے چھپنے والی Fiat کرنسی (جیسے چین کی کاغذی کرنسی) [139] (fiat money)
  • دولت تخلیق ہونے سے عوام پر قرض نہیں چڑھتا
  • بینک رن ممکن نہیں ہوتا کیونکہ بے حساب تخلیق کی جا سکتی ہے
  • حکومت کے لیے بہترین کرنسی
بدترین نجی بینکوں کی جانب سے جاری ہونے والی Fiat کرنسی (جیسے ڈالر، پاونڈ، یورو) (debt money)
  • بینکاروں کے لیے بہترین، عوام کے لیے بدترین کرنسی
  • بینک رن ممکن نہیں ہوتا کیونکہ بے حساب تخلیق کی جا سکتی ہے
  • مخفی انفلیشن ٹیکس کی وجہ سے بچت اپنی قوت خرید کھو دیتی ہے
  • دولت تخلیق ہونے سے عوام پر قرض چڑھتا ہے جس سے
  • آنے والی نسل پر بھی ٹیکس لگ جاتا ہے[140]

"چونکہ سونا دیانت دار کرنسی ہے اس لیے بد دیانت لوگ اسے ناپسند کرتے ہیں۔"

"Because gold is honest money, it is disliked by dishonest men"[141] Dr. Ron Paul

"مہنگائی اور مالیاتی عدم استحکام کی سب سے بڑی وجہ بددیانت کرنسی ہے- یہ حکومتی اہلکاروں کوخسارہ اور قرض بڑھانے کے قابل بناتی ہے۔"

"The largest contributor to inflation and financial turmoil is dishonest money – enabling bureaucrats to run perpetual government deficits and pile up the federal debt. "[142]

اپنی کتاب A Tract on Monetary Reform میں جان مینارڈ کینز نے لکھا تھا "حکومت جو بھی خرچے کرتی ہے اس کا بل (ملکی یا غیر ملکی) عوام بھرتے ہیں۔ صریح خسارہ کوئی چیز نہیں ہوتی۔"

“What a government spends the public pays for. There is no such thing as an uncovered deficit.”
گولڈ اسٹینڈرڈ کی موت [143]
برطانیہ 1931ء
متحدہ امریکا 1933ء
کینیڈا 1933ء
فرانس 1936ء
پوری دنیا (نکسن شاک) 1971ء

گریشام کا قانون

Gresham's law معیشت کا ایک بنیادی اصول ہے جو بتاتا ہے کہ اچھی (مہنگی) کرنسی ہمیشہ بُری (سستی) کرنسی سے شکست کھا جاتی ہے۔(Bad money drives out good, because good and bad coin cannot circulate together)۔ یہی اصول بتاتا ہے کہ سونے یا چاندی کی کرنسی اور کاغذی کرنسی ہمیشہ ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔[144] آسان الفاظ میں گریشام کے قانون کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ جب حکومت منتقلی کے قابل کسی چیز کی قیمت کم مقرر کرتی ہے تو ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کی وجہ سے وہ چیز مارکیٹ سے غائب ہو جاتی ہے اور جب حکومت اُس چیز کی قیمت زیادہ مقرر کرتی ہے تو مارکیٹ میں اُس چیز کی بھرمار ہو جاتی ہے۔[120] ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ قیمت طے کرنا مارکیٹ کا کام ہے، حکومت کا نہیں۔

چونکہ کرنسی کی شکست ملک کی شکست ہوتی ہے اس لیے دوسرے الفاظ میں اگر کسی ملک میں اچھی کرنسی (مثلاً ہارڈ کرنسی) رائج ہو اور پڑوس کے ملک میں کاغذی کرنسی رائج ہو تو ہارڈکرنسی والے ملک کی شکست یقینی ہے (مثلاً سلطنت عثمانیہ اور یورپ)۔ اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ پہلے گولڈ اسٹینڈرڈ نے ہارڈ کرنسی کو مات دی۔ پھر فی ایٹ کرنسی نے گولڈ اسٹینڈرڈ کو اُکھاڑ پھینکا۔ اس کے بعد debt money نے فی ایٹ منی کو شکست دی۔ اور اگر مستقبل میں debt money سے بھی بدتر کوئی کرنسی ایجاد ہو گئی تو وہ دنیا بھر میں چھا جائے گی مثلاً ڈیجیٹل کرنسی یا بٹ کوائن یا سینٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی (CBDC)۔ (دیکھیے کیش کے خلاف جنگ)

گریشام کے اصول سے فائیدہ اٹھانے کی بہترین مثال 1935ء میں واضح ہوئی جب امریکا نے قانون (Silver Purchase Act 1934) بنا کر چاندی کی قیمت بڑھا دی کیونکہ امریکا کو ادائیگی کاغذی کرنسی میں کرنی تھی۔ چین اور میکسیکو چاندی کی قیمت نہ بڑھا سکے۔ اس کے نتیجے میں چین، میکسیکو اور دیگر کئی ممالک میں لوگوں نے چاندی کے سکے پگھلا کر امریکا اسمگل کر دیے۔ سکوں کی شدید قلت کی وجہ سے چین کو سلور اسٹینڈرڈ ترک کر کے کاغذی کرنسی اپنانی پڑی۔ اگر چین پہلے ہی سے اپنی کاغذی کرنسی جاری کر چکا ہوتا تو کاغذی کرنسی میں چاندی کی قیمت بڑھا دیتا اور اپنی چاندی سے محروم ہونے سے بچ جاتا۔

گریشام کے اصول کو موثّر بننے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت دو قانون بنائے۔

  • گھٹیا کرنسی کو لیگل ٹینڈر (قانونی کرنسی) کا درجہ حاصل ہو۔
  • گھٹیا کرنسی اور بہتر کرنسی کے درمیان میں فکسڈ ایکسچینج ریٹ ہو۔[145]

گولڈ اسٹینڈرڈ کے قوانین درحقیقت ان ہی دونوں شرائط کو پورا کرتے ہیں۔ بریٹن ووڈز کانفرنس (1944) کے ذریعے یہ ہی دونوں قوانین عالمی سطح پر نافذ کیے گئے تھے۔

گریشام کا قانون صرف اُسی صورت میں فیل ہو سکتا ہے جب دنیا بھر کے عوام کاغذی کرنسی یا ڈیجیٹل کرنسی قبول کرنے سے انکار کر دیں اور دیانت دار کرنسی (honest money) کا مطالبہ کریں جو ایسے دھاتی سکوں پر مشتمل ہوتی ہے کہ سکہ پگھلانے سے بھی اس کی قیمت کم نہیں ہوتی۔

امریکا اور گولڈ اسٹینڈرڈ

ابتدا میں جب امریکی کالونیوں نے کاغذی کرنسی چھاپنے کی کوشش کی تو برطانیہ نے 1751, 1764 اور 1773 میں "کرنسی ایکٹ" بنا کر انہیں روکا۔[146] جب 1775ء میں امریکی انقلاب کی جنگ شروع ہوئی تو 13 ریاستوں کی امریکی کانگریس نے پہلی دفعہ نوٹ چھاپنے کی اجازت دی۔ یہ نوٹ 'کونٹینینٹل کرنسی' کہلاتے تھے۔ انقلاب کے دوران 241,552,780 ڈالر چھاپے گئے۔ صرف دو سالوں میں مہنگائی پانچ گنا بڑھ گئی۔[147]
برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد امریکا میں دو دھاتی نظام (bimetallic standard) قائم کیا گیا یعنی 1792ء سے ڈالر کی قیمت سونے اور چاندی دونوں کے وزن اور خالصیت (قیراط) کے لحاظ سے بیان کی جا سکتی تھی اور ڈالر کا سکہ سونے کا بھی ہوتا تھا اور چاندی کا بھی۔ 1789 کے آئین کے پہلے آرٹیکل کی دسویں شق میں بالکل واضح کر دیا گیا تھا کہ کرنسی صرف سونے اور چاندی کی ہو گی۔ (آج کا کاغذی ڈالر غیر آئینی کرنسی ہے۔)[148] چودھویں شق میں واضح لکھا تھا کہ حکومت کی ٹکسالیں عوام کے سونے چاندی کو بغیر کسی اجرت کے سکوں میں تبدیل کر دیا کریں گی جسے free coinage کہا جاتا تھا۔ گیارہویں شق میں سونے کو چاندی سے 15 گنا مہنگا قرار دیا گیا تھا جو ایک بہت بڑی غلطی تھی کیونکہ قیمتیں وقت کے ساتھ تبدیل ہو جاتی ہیں۔( قیمت طے کرنا مارکیٹ کا کام ہے، حکومت کا نہیں۔)[149]

اس وقت امریکا میں چاندی کی قیمت 1.293 ڈالر فی اونس تھی اور قانوناً سونا چاندی سے 15 گنا مہنگا تھا۔ لیکن اس وقت باقی دنیا میں سونا چاندی سے پندرہ کی بجائے ساڑھے پندرہ گنا مہنگا تھا۔ دوسرے الفاظ میں امریکا میں سونا باقی دنیا سے سستا تھا اور اسی وجہ سے سونے کے امریکی ڈالر کا سکہ بڑی مقدار میں دوسرے ممالک میں چلا گیا اور امریکا میں عملاً چاندی کے ڈالر کا سکہ گردش میں رہا۔[150]
اس خامی کو دور کرنے کے لیے 1834 میں امریکی سونے کے ڈالر کے سکے میں سونے کی مقدار گھٹا دی گئی اور اب یہ سکہ چاندی سے 16 گنا مہنگا کر دیا گیا۔ اب چونکہ چاندی کا ڈالر سستا ہو گیا تھا اس لیے امریکا سے چاندی باہر جانے لگی اور سونا واپس آنے لگا۔ امریکا میں سونے کی نئی کانیں بھی دریافت ہوئیں اور سونے کی فراوانی مزید بڑھ گئی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب چاندی کے سکے بالکل ہی نایاب ہو گئے۔ نوبت یہاں تک آ گئی کہ دکان دار ریزگاری واپس کرنے سے قاصر ہو گئے۔
اس مشکل کو دور کرنے کے لیے 1853 میں چاندی کے ایسے سکے جاری کیے گئے جن میں چاندی تو کم ہوتی تھی مگر ان پر قدر زیادہ لکھی ہوتی تھی تاکہ ریزگاری بھی واپس کی جا سکے اور سکہ اسمگل ہو کر ملک سے باہر بھی نہ جائے۔ ایسے سکے ٹوکن منی کہلاتے ہیں اور دھاتی ہونے کے باوجود fiat کرنسی ہوتے ہیں۔
1859 میں نیواڈا، امریکا میں ایک چاندی کی بہت بڑی کان Comstock Lode دریافت ہوئی جہاں سے 1874 تک بڑی مقدار میں چاندی نکالی گئی۔

امریکا کی سول وار 1861ء سے 1865ء تک جاری رہی جس میں 6 لاکھ 25 ہزار لوگ مارے گئے[151]۔ 1862ء میں ابراہم لنکن کی حکومت نے ایسی کاغذی کرنسی جاری کی جس کی پشت پناہی کے لیے نہ سونا ہوتا تھا نہ چاندی۔ یہ "گرین بیک" کہلاتی تھی۔ یورپی بینکار اس پر سخت مضطرب ہوئے اور انہوں نے اپنے امریکی بینکار دوستوں کو Hazard Circular نامی مراسلے میں لکھا کہ"غلاموں کے مالک کو اپنے مزدوروں کی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے، جبکہ انگلینڈ کا "یورپی منصوبہ" یہ ہے کہ کیپیٹل (کاغذی کرنسی) کے ذریعے تنخواہیں کنٹرول کر کے مزدوروں کو کنٹرول کیا جائے (اور یہ غلام اپنی دیکھ بھال خود کریں)۔ یہ کرنسی کو کنٹرول کر کے کیا جا سکتا ہے۔ جنگ کے ذریعے کیپیٹلسٹ بہت بڑا قرضہ دے سکتے ہیں پھر اس قرض کو کرنسی کی مقدار کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ اس کے لیے حکومتی بونڈز کو بینکاری کی بنیاد بنانا چاہیے۔...اور کسی بھی صورت میں گرین بیک کو بطور کرنسی زیر گردش نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہم اسے کنٹرول نہیں کر سکتے"۔[152] اسی سال امریکا میں پہلی دفعہ انکم ٹیکس عارضی طور پر نافذ کیا گیا۔

برطانیہ 1819 میں،[153] کینیڈا 1853 میں اور نیو فاونڈ لینڈ 1865 میں [154] گولڈ اسٹینڈرڈ اپنا چکے تھے۔ جرمنی نے 1871 میں گولڈ اسٹینڈرڈ اپنا لیا تھا۔ امریکا میں 1873 میں سکوں سے متعلق قانون میں ترمیم کر کے چاندی کا لفظ ہٹا دیا گیا اور عملاً گولڈ اسٹینڈرڈ اپنا لیا گیا جسے عوام نے crime of 1873 کا نام دیا۔ (اور جسے عین سو سال بعد ترک کر دیا گیا)۔ اس قانون سے امریکا میں سرکاری سطح پر دو دھاتی نظام کا خاتمہ ہو گیا۔

جب بھی اثاثوں سے زیادہ کرنسی چھپتی ہے نتیجہ معاشی بحران ہوتا ہے۔ 4 اکتوبر 1873۔ نیویارک سٹی میں ہونے والے ایک "بینک رن" کی یاد گار تصویر۔
امریکا کی جن ریاستوں میں کاغذی کرنسی پہلے مستحکم ہوئی وہاں افریقی غلاموں کو پہلے آزادی ملی۔ 1861ء تک امریکا کی جنوبی ریاستوں میں 30 لاکھ افریقی غلام تھے۔[155] 1863ء میں امریکی حکومت نے کاغذی کرنسی کا کنٹرول مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ 1865ء تک پورے امریکا میں غلامی پر پابندی لگ گئی۔[156]

1862ء سے پہلے ہارڈ کرنسی کے اُس دور میں بھی امریکا میں سونے چاندی کے سکوں کے ساتھ ساتھ کاغذی نوٹ بھی بڑی مقدار میں گردش کرتے رہے۔ ان نوٹوں کی حیثیت سونے چاندی کی رسید یا representative money جیسی تھی۔ یہ نوٹ بہت سے مختلف پرائیوٹ بینکوں کی طرف سے بھی جاری ہوتے تھے اور حکومت کے محکمہ خزانہ کی طرف سے بھی لیکن ان میں سے کسی کو بھی لیگل ٹینڈر کی حیثیت حاصل نہ تھی۔ 8000 سے زیادہ مختلف نجی بینک کاغذی کرنسی جاری کرتے تھے۔ 25 فروری 1863ء کو صدر ابراہم لنکن نے نیشنل کرنسی ایکٹ منظور کیا جس کے بعد بینکوں کا یہ اختیار ختم ہو گیا اور اب یہ حق صرف حکومت کے پاس آ گیا ۔[157] ہندوستان کی برطانوی حکومت نے یہی کام 1861ء میں کیا تھا۔ عوامی مزاحمت سے بچنے کے لیے ہندوستان کی حکومت نے یہ قانون 1857ء کی بغاوت کے بعد کیے جانے والے قتل عام کی آڑ میں بنایا تھا جس میں 12 لاکھ ہندوستانیوں کو پھانسی دے دی گئی تھی۔[158] امریکا میں بھی یہ قانون امریکی خانہ جنگی کی ہلاکتوں کی آڑ میں بنایا گیا۔

1879ء میں امریکا بظاہر دوبارہ دھاتی کرنسی پر واپس آ گیا لیکن اس دفعہ چاندی کو کرنسی نہیں قرار دیا گیا بلکہ صرف سونے کو کرنسی قرار دیا گیا۔ عوام کو کاغذی نوٹوں کے بدلے سونے کے سکے دیے جانے لگے جس سے عوام کا کاغذی کرنسی پر اعتبار بحال ہو گیا اور اکثریت نے کاغذی نوٹوں کو ہی استعمال کرنے کو ترجیح دی۔ عوام کا بڑی شدت سے اصرار رہا کہ چاندی کو بھی کرنسی بنایا جائے مگر 1900ء میں دوبارہ صرف سونے کو ہی قانوناً کرنسی قرار دیا گیا۔
اس زمانے میں "بینک رن" بہت عام تھے اس لیے 1913ء میں فیڈرل ریزرو سسٹم بنایا گیا تاکہ چیک اور نوٹ کے بدلے عوام کو سونے چاندی کی ادائیگی کو یقینی بنایا جا سکے لیکن جو کچھ ہوا وہ اس کے عین برعکس تھا۔ 1933ء میں امریکی عوام سے سونا رکھنے کا حق ہی چھین لیا گیا اور ان کا سونا ضبط کر لیا گیا (بہ عوض کاغذی کرنسی)۔[159]

"جب قانونی طور پر سونا رکھا ہی نہیں جا سکتا تو کاغذی نوٹ کے بدلے کیسے طلب کیا جا سکتا ہے؟"
After all, if gold can’t be legally owned, it can’t be legally redeemed.[160]

1934ء میں سلور پرچیز ایکٹ بنا کر چاندی بھی بحساب پچاس سینٹ فی اونس ضبط کر لی گئی۔ سونا جو چاندی سے 16 گنا مہنگا ہوا کرتا تھا اب 27 گنا مہنگا کر دیا گیا۔

"And, the manipulation of the price of silver forced China, which was on the silver standard, into a depression, opening the door for the communists."[161]

جس طرح 1918ء میں امریکا میں بننے والے پِٹ مین ایکٹ (Pittman Act) نے ہندوستان میں ڈگمگاتی ہوئی کاغذی کرنسی کو نہایت مضبوط سہارا مہیا کیا تھا بالکل اُسی طرح 19 جون 1934ء کے امریکا کے سلور پرچیز ایکٹ نے چین کی کمر توڑ دی[162] کیونکہ چین میں چاندی کے سکے زیر گردش تھے جنہیں اب امریکا کاغذی سلور سرٹیفیکٹ چھاپ کر مہنگے داموں خرید رہا تھا۔ 1929 کے گریٹ ڈپریشن میں چین ترقی کرتا رہا مگر 1934ء اور 1935ء میں سکوں کی شدید قلت کی وجہ سے چین میں سخت کساد بازاری چھائی رہی جس کی وجہ سے نومبر 1935 میں چین کو بھی سلور اسٹینڈرڈ ترک کرنا پڑا۔ اب دنیا بھر میں کاغذی کرنسی کی راہ بالکل ہموار ہو گئی۔ اس قانون کی آڑ میں امریکا نے دنیا بھر کی چاندی کا بہت بڑا حصہ صرف کاغذ کے ٹکڑوں (سلور سرٹیفیکٹ) کے عوض ہتھیا لیا۔ اس طرح لگ بھگ 44 ہزار ٹن چاندی امریکا کو مفت مل گئی۔ 24 جون 1968ء کو امریکا سلور سرٹیفیکٹ کے بدلے چاندی واپس دینے کے وعدے سے صاف مُکر گیا۔

the effects of the Treasury's heavy purchases of silver were to denude China of its chief circulating medium because the American program made silver coin in China more valuable as export bullion than as currency, China left the silver standard and introduced a managed currency.[163]

1933ء میں پہلے امریکا اور پھر برطانیہ کاغذی ٹکڑوں کے عوض لوگوں کا سونا پہلے ہی ہتھیا چکے تھے۔[164]

سونا کب ضبط ہوا[165][166][167]
سن عیسوی سربراہ حکومت ملک کا نام
1918ء لینن روس
1933ء فرینکلن ڈی روزویلٹ متحدہ امریکا
1935ء مسولینی اٹلی
1935ء ہٹلر جرمنی
1948ء چیانگ کائی شیک چین[168]

1934 سے 1965 تک امریکا میں داخلی سطح پر سلور اسٹینڈرڈ اور خارجی سطح پر گولڈ اسٹینڈرڈ نافذ رہا۔ 1934 سے 1973 تک گولڈ اسٹینڈرڈ کے نام پر جو سسٹم چلانے کی کوشش کی گئی وہ ہرگز گولڈ اسٹینڈرڈ نہ تھا۔[169]
امریکا میں 1930 تک سونے کے سکے زیر گردش رہے جبکہ چاندی کے سکے 1970 تک گردش میں تھے۔[170]
چین اس خطرے سے آگاہ ہے کہ ماضی کے سلور پرچیز ایکٹ کی طرح امریکا کسی دن اچانک گولڈ پرچیز ایکٹ بنا کر سونے کی قیمت کئی گنا بڑھا دے گا اور ڈالر کو سونے سے دوبارہ منسلک کر دے گا۔[171][172] اس دفعہ امریکا مفت میں سونا تو نہیں ہتھیا سکے گا مگر اپنے قرضوں (ٹریژری بل) کے بوجھ میں بہت بڑی کمی لا سکے گا جو اس کی معیشت کو مفلوج کر چکے ہیں۔ نقصان ان ملکوں کا ہو گا جو ڈالر یا ٹریژری بل کے خریدار ہیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ چین خود گولڈ پرچیز ایکٹ بنا کر مہنگے داموں سونا خریدنا شروع کر دے[173] تاکہ اس کی کرنسی کو ریزرو کرنسی کا درجہ حاصل ہو جائے۔

"Beijing must realize that the U.S. could surprise the world with a unilateral gold revaluation... and the new dollar is pegged to the gold."[174]

امریکا میں 173 سالوں تک ڈالر سونے یا چاندی میں تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ 1965 کے بعد سے ڈالرصرف ایک حساب کی اکائی (unit of account) بن کر رہ گیا ہے۔[175]

عرصہ امریکی ڈالر کی قانونی شکل
1792 سے 1873 چاندی کا ڈالر جو سونے سے منسلک تھا
1873 سے 1934 کاغذی ڈالر جو سونے سے منسلک تھا
1934 سے 1965 کاغذی ڈالر جو چاندی سے منسلک تھا
1965 سے اب تک کاغذی/ڈیجیٹل ڈالر جو فوجی دھونس سے منسلک ہے[176][177]
سن عیسوی کمپنی مارکیٹ کیپیٹلائزیشن[178]
1781ء بینک آف نارتھ امریکا دس لاکھ ڈالر
1791ء بینک آف دا یونائیٹڈ اسٹیٹ ایک کروڑ ڈالر
1878ء نیویارک سینٹرل ریل روڈ دس کروڑ ڈالر
1924ء AT&T ایک ارب ڈالر
1955ء جنرل موٹرز دس ارب ڈالر
1995ء جنرل الیکٹرک سو ارب ڈالر
2018ء ایپل ہزار ارب ڈالر

انگلینڈ اور گولڈ اسٹینڈرڈ

انگلینڈ کے سنار لوگوں کے سونے کی حفاظت کرنے کی ہزار سالہ شہرت رکھتے تھے۔ ان کی جاری کردہ رسیدیں ان کے علاقے کی کرنسی بن جاتی تھیں۔ وہ فریکشنل ریزرو بینکنگ کے سارے گُر جانتے تھے۔ سب سے پہلے انہوں نے یہ راز جان لیا کہ اگر چاندی کا کرنسی کا درجہ ختم کر دیا جائے تو سونے کی بجائے سونے کی رسید سے ہی کام چل سکتا ہے کیونکہ چاندی روزمرہ کی لین دین میں استعمال ہونے والی دھاتی کرنسی ہے جبکہ سونے کا سکہ کبھی کبھار ہی استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح ہارڈ کرنسی کی جگہ کاغذی کرنسی کا نظام لایا جا سکتا ہے جس سے ان کی دولت اور اقتدار میں بے انتہا اضافہ ہو سکتا ہے۔

1694ء میں بینک آف انگلینڈ بنا۔ لگ بھگ 1750ء تک پورے انگلینڈ میں سونے چاندی کے سکوں کی بجائے بینک آف انگلینڈ کی کاغذی کرنسی چھا چکی تھی۔[5] یہ وہ زمانہ تھا جب یورپ کے باہر کے لوگ کاغذی کرنسی سے بالکل واقف نہ تھے۔ اسی زمانے میں ایسٹ انڈیا کمپنیوں نے خوب ترقی کری۔

1780 سے انگلینڈ میں سکوں کی قلت بڑھتی چلی گئی جس سے کاغذی کرنسی کو پھلنے پھولنے کا خوب موقع ملا۔ نپولین کی جنگوں کی وجہ سے سکوں کی قلت میں اور بھی اضافہ ہوا۔ 1796 سے برطانوی ٹکسالوں نے سکے ڈھالنے بالکل بند کر دیے اور اگلے 20 سالوں تک یہ کام بند رہا۔[179]

انگلینڈ میں 1377 سے 1816 تک سونا چاندی سے 16 گنا مہنگا ہوا کرتا تھا[180] جبکہ اس وقت فرانس (جو اس زمانے میں سپر پاور تھا) اور باقی یورپ میں سونا چاندی سے ساڑھے پندرہ گنا مہنگا تھا۔ اس طرح سونا انگلینڈ آنے لگا اور چاندی باہر جانے لگی۔ 1816 تک بینک آف انگلینڈ اتنا سونا جمع کر چکا تھا کہ اس نے دنیا میں سب سے پہلے گولڈ اسٹینڈرڈ نافذ کر لیا اور اس طرح قانونی طور پر چاندی کا کرنسی کا درجہ ختم کر دیا۔ یہ بینکار اس راز سے اچھی طرح واقف تھے کہ گولڈ اسٹینڈرڈ آخر کار کاغذی اسٹینڈرڈ میں تبدیل ہو جاتا ہے (دیکھیے گریشام کا قانون)۔

"گولڈ اسٹینڈرڈ کے بعد فی ایٹ کرنسی کا مرحلہ آتا ہے"
"The gold standard is one step to fiat"[181]

انگلینڈ نے سونے کے مقابلے میں چاندی میں لیے گئے قرض پر شرح سود بڑھا دی جس سے دوسرے ممالک جو چاندی کے اسٹینڈرڈ پر تھے ان پر بھی گولڈ اسٹینڈرڈ اپنانے اور چاندی کو ترک کرنے کے لیے دباو بڑھ گیا ورنہ ان کی تجارت متاثر ہوتی۔ 1815 میں فرانس کی واٹر لو میں شکست کے بعد انگلینڈ کو کرنسی کے معاملات میں واضح برتری حاصل ہو گَئی اور وہ ساری دنیا کو قرضے جاری کرنے کی پوزیشن میں آ گیا۔ اس طرح تجارتی خسارے کے دنوں میں بھی انگلینڈ کاغذی کرنسی (کیپیٹل) ایکسپورٹ کر کے سونا حاصل کرتا رہا۔

1844 میں حکومت برطانیہ نے Bank Charter Act 1844 منظور کیا جس سے بینکوں کی بے تحاشہ کرنسی نوٹ چھاپنے کی آزادی ختم ہو گئی۔ لیکن بینکوں نے فوراً اس قانون کا توڑ دریافت کر لیا اور چیک اور ڈرافٹ کے ذریعے تخلیق دولت کا کام جاری رکھا جو اس قانون کی زد میں نہیں آتا تھا۔[5]

1834 سے 1914 تک ایک برٹش پاونڈ 4.867 امریکی ڈالر کے برابر تھا۔ 1914 میں امریکا میں فیڈرل ریزرو بننے سے دنیا بھر کو قرض دینے کا حق انگلینڈ کے ہاتھ سے نکل کر امریکا کے ہاتھ میں چلا گیا اور 1933 تک پاونڈ کی قیمت گر کر 2.214 ڈالر رہ گئی جو اگست 2008 کو محض 1.853 ڈالر ہو گئی۔[182] Brexit کے بعد پاونڈ کی قیمت میں مزید کمی آئی اور 21 دسمبر 2016 کو ایک پاونڈ محض 1.24 ڈالر کے برابر تھا۔

کاغذی دولت (کیپیٹل) اور صنعتی ترقی
صنعتی انقلاب دورانیہ عرصہ ایجادیں[183][184]
ایجادوں کا پہلا دور 1785ء سے 1845ء تک 60 سال کپڑا سازی، لوہا سازی، بحری طاقتیں
ایجادوں کا دوسرا دور 1845ء سے 1900ء تک 55 سال بھاپ کے انجن، اسٹیل سازی، ریلوے، ٹیلی گرافی
ایجادوں کا تیسرا دور 1900ء سے 1950ء تک 50 سال بجلی، کیمیکل، پٹرول/ڈیزل انجن، ٹیلی فون
ایجادوں کا چوتھا دور 1950ء سے 1990ء تک 40 سال پیٹروکیمیکل، الیکٹرونکس، فضائی سفر
ایجادوں کا پانچواں دور 1990ء سے 2020ء تک 30 سال کمپیوٹر، سافٹ ویئر، نیٹ ورکنگ، غیر مرکزی میڈیا، عالمی نگرانی

افراط زر

کب کون سی کرنسی ڈوب گئی[185]
سنہ ملک کا نام
2016 وینیزویلا
2009 شمالی کوریا
2008 زمبابوے
2002 ارجنٹینا
1996 بلغاریہ
1994 یوگوسلاویہ
1994 برازیل
1992 سویت یونین
1991 پولینڈ
1990 نکاراگوا
1982 میکسیکو
1955 چین
1949 تائیوان
1946 ہنگری
1944 یونان
1923 جرمنی
1865 متحدہ امریکا
زمبابوے میں اتنے زیادہ نوٹ چھاپے گئے کہ سنہ 2008 میں 100 ارب ڈالر میں صرف تین انڈے خریدے جا سکتے تھے
1993ء کا یوگوسلاویہ کا بینک نوٹ جس کی مالیت 5 کھرب دینار ہے۔

کاغذی کرنسی پہلے تو حکومت کے پاس موجود سونے چاندی کی مالیت کے برابر مقدار میں چھاپی جاتی تھی لیکن 1971 میں بریٹن ووڈ معاہدہ ٹوٹنے کے بعد ایسی کوئی روک ٹوک باقی نہیں رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرنسی کنٹرول کرنے والے ادارے اور حکومتیں اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ کرنسی چھاپنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کرنسی زیادہ چھاپی جائے تو افراط زر کی وجہ سے اس کی قدر لامحالہ کم ہو جاتی ہے ( یعنی اس کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے) اس طرح لوگوں کا اور باقی دنیا کا اعتبار اس کرنسی پر کم ہونے لگتا ہے۔ جو کرنسی چھاپنے والے ادارے یا حکومت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے کیونکہ لوگ اب دوسری کرنسی کی طرف رجوع کرنے لگتے ہیں۔ اس لیے حکومتیں ایک حد سے زیادہ کرنسی نہیں چھاپ پاتیں۔ اس کی مثال سونے کا انڈا دینے والی مرغی کی طرح ہے جسے ذبح نہ کرنا ہی سود مند رہتا ہے۔ لیکن تھوڑی تھوڑی مقدار میں بھی مسلسل کاغذی کرنسی چھپتے رہنے سے اس کرنسی کی قوت خرید کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس کے بر عکس دھاتی کرنسی کی قدر وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اسی لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اپنے رکن ممالک کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی کرنسی کو سونے سے منسلک نہ کریں۔[186] اگر کوئی کرنسی سونے سے منسلک ہو گی تو آئی-ایم-ایف کے لیے اس کی شرح تبادلہ اپنی مرضی کے مطابق کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا۔

"ڈالر کی کل مقدار کا نصف سے زیادہ متحدہ امریکا سے باہر کے ممالک میں ہے۔ جب ہم ڈالر چھاپتے ہیں تو ہم دوسرے ممالک کی قوت خرید چُرا لیتے ہیں جو متحدہ امریکا کو منتقل ہو جاتی ہے۔ ہمیں یہ حق حاصل ہے اور ہم نے اسے بیجا استعمال کیا ہے۔"[187]
افراط زر دن دھاڑے ڈکیتی ہے۔ یہ سوشل پالیسی نہیں ہے۔
Inflation is not a social policy. It is daylight robbery...[188]
ایک امریکی ڈالر کی قیمت پاکستانی روپے میں
سن عیسوی کتنے پاکستانی روپے سربراہ حکومت
1950ء 3.3 پاکستانی روپے لیاقت علی خان
1960ء 4.7 پاکستانی روپے ایوب خان
1970ء 4.7 پاکستانی روپے یحییٰ خان
1980ء 9.9 پاکستانی روپے ضیاء الحق
1990ء 21 پاکستانی روپے غلام اسحاق خان
1995ء 31 پاکستانی روپے فاروق لغاری
2000ء 53 پاکستانی روپے محمد رفیق تارڑ
2005ء 59 پاکستانی روپے پرویز مشرف
2010ء 85 پاکستانی روپے آصف علی زرداری
2015ء 102 پاکستانی روپے نواز شریف
2020ء 167 پاکستانی روپے عمران خان

پچھلی دہائی میں زمبابوے کی حکومت نے اپنی بقا کے لیے بے تحاشہ کاغذی کرنسی چھاپ کر اپنی آمدنی میں اضافہ کیا۔ اس کے نتیجہ میں 2008 میں زمبابوے کے 1200 ارب ڈالر صرف ایک برطانوی پاونڈ کے برابر رہ گئے۔ اس قدر افراط زر کی وجہ سے زمبابوے میں شرح سود %800 تک جا پہنچی تھی۔[189] کاغذی نوٹوں کی بے تحاشہ چھپائی کے نتیجے میں زمبابوے کی اسٹاک مارکیٹ تیزی سے اوپر جانے لگی۔ آئے دن اسٹاک کی قیمت ڈبل ہو جاتی تھی۔[190] لیکن فروری 2018 میں وینیزویلا کی کرنسی عوام نے ردّی کی طرح سڑک پر پھینکنا شروع کر دی۔[191] نومبر 2016ء میں ایک امریکی ڈالر 1500 وینیزویلا کے بولیور کے برابر تھا۔ صرف دیڑھ سال بعد 8 جون 2018ء کو ایک امریکی ڈالر کی قیمت 23 لاکھ بولیور کے برابر پہنچ چکی تھی یعنی ڈالر اس عرصہ میں 1533 گنا مہنگا ہو گیا تھا۔[192]

کاغذی کرنسی کا کمال یہ ہے کہ کسی کو اپنی بڑھتی ہوئی غربت کا احساس نہیں ہوتا۔[193] اگر کسی مزدور کی تنخواہ پانچ فیصد کم کر دی جائے تو اسے شدید اعتراض ہوتا ہے۔ لیکن جب افراط زر کی وجہ سے اس کی تنخواہ کی قوت خرید دس فیصد کم ہو جاتی ہے تو وہ اتنا اعتراض نہیں کرتا۔[194] جتنے سالوں میں کسی کی تنخواہ دوگنی ہوتی ہے اتنی ہی مدت میں سونے کی قیمت ( اور مہنگائی ) تین گنی ہو چکی ہوتی ہے۔[195][196]
پچھلے 255 سالوں میں قیمتیں دوگنی ہونے میں ابتدائی 185 سال لگے حالانکہ اس عرصے میں دنیا کو دو جنگ عظیم بھی جھیلنا پڑیں۔ لیکن بریٹن ووڈز کے معاہدے کے بعد کے 70 سالوں میں قیمتیں 50 گنا بڑھ گئیں۔[197]
1930 تک سونے کی قیمت تقریباً 20 ڈالر فی اونس تھی۔ یہ قیمت پچھلے دیڑھ سو سال سے برقرار تھی۔ اتنے لمبے عرصہ تک قیمت مستقل رہنے کی وجہ یہی تھی کہ ڈالر کاغذی نہیں بلکہ دھاتی تھا۔ برطانیہ میں عام استعمال کی اشیاء کی قیمت ستروھیں صدی سے 1914 تک مستحکم تھی۔ [198] قیمتوں کا بڑھنا کاغذی کرنسی کا لازمی جُز ہے۔ 1717 سے 1945 تک یعنی سوا دو سو سال تک برطانیہ میں سونے کی سرکاری قیمت 4.25 پاونڈ فی اونس تھی۔ بریٹن ووڈ کے معاہدے کے بعد برطانیہ میں سونے کی سرکاری قیمت ختم کر دی گئی۔ 1927 میں ایک برطانوی پونڈ کی قیمت ساڑھے تیرہ ہندوستانی روپے تھی۔ 1925 میں ہندوستان میں سونے کی قیمت لگ بھگ 26 روپیہ فی تولہ تھی۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل یہ 30 روپیہ فی تولہ تھی۔ اس وقت ایک عام فوجی سپاہی کی تنخواہ 60 روپے ہوا کرتی تھی۔[199]

2 فیصد سالانہ افراط زر کے نتیجے میں مہنگای
کتنے سالوں بعد مہنگائی کتنی ہو جاتی ہے
35 دو گنا
70 چارگنا
105 آٹھ گنا
140 سولہ گنا
350 ہزار گنا
500 بیس ہزار گنا

علا الدین خلجی کے دور حکومت (1296–1316 عیسوی) میں ہر چیز کی قیمت پر انتہائی سختی سے کنٹرول رکھا جاتا تھا۔ اس زمانے میں ایک عام فوجی سپاہی کی تنخواہ لگ بھگ 20 تنکا ماہانہ ہوا کرتی تھی جبکہ ایک تنکے میں 10 من چاول بکتا تھا۔ اس وقت کا ایک تنکہ بعد کے شیر شاہ سوری (دورِ حکومت 1540ء سے 1545ء تک) کے ایک روپیہ کے بالکل برابر تھا۔[200]
1871 میں چاول دیڑھ روپے من تھا جو 1893 میں دو روپے من ہو چکا تھا۔[201] 1947 میں پاکستان میں ایک امریکی ڈالر لگ بھگ تین روپے کا تھا جبکہ سونا 80 روپے تولہ تھا۔ 1965 میں سونے کی قیمت 127 روپیہ فی تولہ تھی۔

مختلف کرنسی کے سالانہ افراط زر

سونا ایک غیر علانیہ بین الا اقوامی زرِ کثیف (ہارڈ کرنسی) ہے۔ اس کی قیمت کے بڑھنے سے کسی ملک کی کاغذی کرنسی میں ہونے والے افراط زر (مہنگائی) کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ جنوری 2021ء تک پچھلے 20 سالوں میں امریکی ڈالر میں سونے کی قیمت میں ہونے والا اضافہ لگ بھگ 6 گنا ہے جبکہ اسی عرصہ میں چاندی کی قیمت میں ہونے والا اضافہ لگ بھگ 4.7 گنا ہے۔[202] 9 جولائی 2020ء تک سونے کی قیمت میں ہونے والا سالانہ فیصد اضافہ مختلف کرنسی میں مندرجہ ذیل ہے۔

سونے کی قیمت میں سالانہ اضافہ[203]
سن عیسوی امریکی ڈالر $ آسٹریلوی ڈالر کینیڈین ڈالر سوئس فرانک چینی یوان یورو € برطانوی پاونڈ £ ہندوستانی روپیہ ₹ جاپانی ین ¥
2005 20.0% 28.9% 15.4% 37.8% 17.0% 36.8% 33.0% 24.2% 37.6%
2006 23.0% 13.7% 23.0% 14.1% 19.1% 10.6% 8.1% 20.9% 24.3%
2007 30.9% 18.3% 12.1% 21.7% 22.3% 18.4% 29.2% 16.5% 22.9%
2008 5.6% 31.3% 30.1% -0.1% -2.4% 10.5% 43.2% 28.8% -14.4%
2009 23.4% -3.0% 5.9% 20.1% 23.6% 20.7% 12.7% 19.3% 26.8%
2010 29.5% 13.5% 22.3% 16.7% 24.9% 38.8% 34.3% 23.7% 13.0%
2011 10.1% 10.2% 13.5% 11.2% 5.9% 14.2% 10.5% 31.1% 4.5%
2012 7.0% 5.4% 4.3% 4.2% 6.2% 4.9% 2.2% 10.3% 20.7%
2013 -28.3% -16.2% -23.0% -30.1% -30.2% -31.2% -29.4% -18.7% -12.8%
2014 -1.5% 7.7% 7.9% 9.9% 1.2% 12.1% 5.0% 0.8% 12.3%
2015 -10.4% 0.4% 7.5% -9.9% -6.2% -0.3% -5.2% -5.9% -10.1%
2016 9.1% 10.5% 5.9% 10.8% 16.8% 12.4% 30.2% 11.9% 5.8%
2017 13.6% 4.6% 6.0% 8.1% 6.4% -1.0% 3.2% 6.4% 8.9%
2018 -2.1% 8.5% 6.3% -1.2% 3.5% 2.7% 3.8% 6.6% -4.7%
2019 18.9% 19.3% 13.0% 17.1% 20.3% 22.7% 14.2% 21.6% 17.7%
2020 19.1% 19.8% 23.9% 15.5% 19.8% 17.9% 25.3% 25.4% 17.7%
اوسط سالانہ اضافہ 10.5% 10.8% 10.9% 9.1% 9.3% 11.9% 13.8% 13.9% 10.6%

اگر پہلی جنوری 2001 سے پہلی جنوری 2014 تک کی سونے کی قیمتوں کا جائیزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے پچھلے تیرہ سالوں میں پاکستانی کرنسی کی قیمت میں ساڑھے سات گنا اور ہندوستانی کرنسی کی قیمت میں پانچ گنا کمی آئی ہے جبکہ اسی دوران میں ایران میں مہنگائی لگ بھگ 60 گنا بڑھ چکی ہے۔[204]

مہنگائی ملک اور کرنسی
88584% کونگو کا فرانک
65789% برما کا کیات
33787% لائبیریا کا ڈالر
5856% ایران کا ریال
3720% مالاوی کا کواچہ
3123% ساو توم کا ڈوبرا
1996% گنی کا فرانک
1309% گمبیا کا دلاسی
1021% ڈومینیکا کا پیسو
1005% شام کا پاونڈ
973% جمیکا کا ڈالر
948% برونڈی کا فرانک
947% ہئیتی کا گورڈے
901% ایتھوپیا کا بِر
764% نکاراگوا کا قرطبہ
755% مصر کا پاونڈ
751% پاکستان کا روپیہ
666% سری لنکا کا روپیہ
622% انڈونیشیا کا روپیہ
542% بنگلہ دیش کا ٹکا
501% نیپال کا روپیہ
496% ہندوستان کا روپیہ
336% بحرین کا دینار
332% جاپان کا ین
319% امریکی ڈالر
319% اومان کا ریال
319% سعودی عرب کا ریال
319% قطر کا ریال
308% برطانیہ کا پاونڈ
288% کویت کا دینار
250% اسرائیل کا شیکل
208% کینیڈا کا ڈالر
207% آسٹریلیا کا ڈالر
206% چین کا یوان
206% یورو
135% سوئیزر لینڈ کا فرانک
16% سونا بہ نسبت چاندی

تاریخ کے بد ترین افراط زر

اگر کرنسی دھاتی ہو اور سکّے اپنی مالیت خود رکھتے ہوں تو افراط زر ناممکن ہو جاتا ہے۔ دھاتی کرنسی میں افراط زر صرف اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب اس دھات کی اتنی بڑی کان دریافت ہو جائے کہ دنیا بھر کی ضرورت سے زیادہ ہو کیونکہ دھاتی کرنسی عالمی قبولیت رکھتی ہے۔ اس کے برعکس کاغذی کرنسی چھاپ کے حکومتیں اپنی آمدنی تو بڑھا لیتی ہیں لیکن اپنے عوام کو غریب بنا دیتی ہیں۔ اس طرح وہ اپنے عوام سے خفیہ طور پر انفلیشن ٹیکس وصول کرتی ہیں۔ 1945–46 میں ہنگری میں اتنی زیادہ کاغذی کرنسی چھاپی گئی کہ ہر چیز کی قیمت اربوں کھربوں پینگو تک جا پہنچی۔ حکومت نے ایسے کرنسی نوٹ جاری کیے جن پر مالیت نہیں لکھی ہوتی تھی اور روزانہ صبح ریڈیو پر اعلان ہوتا تھا کہ آج اس کی مالیت کیا ہو گی۔ 18 اگست 1946 کو پرانی کرنسی پینگو کی جگہ نئی کرنسی فورنٹ جاری کی گئی۔ ایک فورنٹ 400٫000٫000٫000٫000٫000٫000٫000٫000٫000 پینگو کے برابر تھا (یعنی 400 ارب ارب ارب پینگو کے برابر)۔

جرمنی میں ایک سونے کے مارک کے سکّے کی قیمت (کاغذی مارک میں)

1919ء میں ایک امریکی ڈالر 9 جرمن مارک کے برابر تھا۔ 28 جون 1919ء کو معاہدۂ ورسائے (Treaty of Versailles) طے پایا۔ صرف چار سال بعد نومبر 1923 میں ایک ڈالر 4200 ارب کاغذی مارک کے برابر ہو چکا تھا[125]۔ ایک ڈبل روٹی کی قیمت 400 ارب مارک ہو چکی تھی۔ [205] لیکن یہ زوال صرف کاغذی مارک پر آیا تھا۔ سونے کے مارک کے سکّے کی قوت خرید میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ 15 نومبر 1923 کو جرمنی میں نئی کرنسی رینٹن مارک جاری کی گئی۔ ایک نیا مارک پرانے 1000 ارب مارک کے برابر قرار دیا گیا۔ پرانا مارک پیپیر مارک کہلاتا تھا۔

جرمنی اکتوبر 1923۔ ایک میلین مارک کے نوٹ جس کی سادہ پشت کو ردّی کاغذ کی طرح لکھنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

1990ء میں USSR میں انفلیشن اور پھر ہائپرانفلیشن آیا جس کے بعد اگست 1991ء میں سویت اتحاد توڑنا پڑا۔[206]
اسی طرح ترکی میں نوٹوں پر سے صفر کم کرنے کے لیے یکم جنوری 2005 کو نیا ٹرکش لیرا جاری کیا گیا۔ ایک نیا ٹرکش لیرا 1٫000٫000 پرانے ٹرکش لیرا کے برابر مقرر کیا گیا۔ 10 اگست 2018ء کو ٹرکش لیرا کی قیمت صرف ایک دن میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں 20 فیصد گر گئی۔

13 جولائی 1931۔ برلن میں ایک بینک رن۔
تاریخ کے بد ترین ماہانہ افراط زر [207]
ملک کرنسی کا نام بد ترین مہینہ ماہوار افراط زر روزانہ افراط زر قیمتیں دوگنی ہونے کی مدت
ہنگری ہنگری کا پینگو جولائی 1946 4.19 × 1016 % 207.19% 15 گھنٹے
زمبابوے زمبارے ڈالر نومبر 2008 7.96 × 1010 % 98.01% 24.7 گھنٹے
یوگوسلاویہ یوگوسلاو دینار جنوری 1994 3.13 × 108 % 64.63% 1.4 دن
جرمنی جرمن پیپیرمارک اکتوبر 1923 29٫500% 20.87% 3.7 دن
یونان یونانی دراچمہ اکتوبر 1944 13٫800% 17.84% 4.3 دن
تائیوان قدیم تائیوان ڈالر مئی 1949 2٫178% 10.98% 6.7 دن

سونے چاندی کی قیمت کا اتار چڑھاو

منڈی کی دوسری ساری چیزوں کی طرح سونے چاندی کی قیمت بھی طلب و رسد کے قانون کے مطابق ہونی چاہیے۔ جب بھی بینکوں اور بچت اسکیموں کی شرح سود میں کمی آتی ہے تو سونے کی قیمت بڑھنے لگتی ہے کیونکہ اگر خاطر خواہ منافع کی امید نہ رہے تو لوگ افراط زر کے نقصان سے بچنے کے لیے اپنی جمع پونجی سونے کی شکل میں رکھنا پسند کرتے ہیں جسے صدیوں سے "محفوظ جنت" تصوّر کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر بہت سارے لوگ اپنی کاغذی کرنسی کے بدلے سونا لے لیں گے تو کاغذی کرنسی کی وقعت میں کمی آجائے گی اور سونے کی قیمت چڑھ جائے گی[208][209] اس لیے بڑے بڑے مرکزی بینک سونے چاندی کی قیمت گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔[210] [211][212][213][214][215][216][217][218]
انڈریو میگاری[219] نامی ایک سونے کے تاجر نے 29 مارچ 2010 کو ریڈیو پر ایک انٹرویو دیا جو اپریل 2010 کو نشر ہوا۔ اس میں اس نے انکشاف کیا کہ فیڈرل ریزرو کی ہدایت پر کس طرح جے پی مارگن چیز اور ایچ ایس بی چیز سونے کی قیمتیں گرانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ اس سے پہلے 3 فروری 2010 کو انڈریو میگاری نے کموڈٹی فیوچر ایکسچینج کمیشن کو بتا دیا تھا کہ چاندی کی قیمت کس طرح تبدیل کی جائے گی اور دو دن بعد بالکل ویسا ہی ہوا۔ جس دن یہ معلوم ہوا کہ یہ راز انڈریو میگاری نے فاش کیے ہیں اس کے دوسرے دن یعنی 26 مارچ 2010 کو ایک تیز رفتار گاڑی نے انڈریو میگاری اور اس کی بیوی کو ٹکر ماری اور فرار ہو گئی۔ لندن کی پولیس ہیلی کاپٹر سے پیچھا کر کے اس ڈرائیور کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئی مگر بعد میں اس کا نام ظاہر کیے بغیر اسے برائے نام سزا دیکر چھوڑ دیا گیا۔ انڈریو میگاری کا خیال ہے کہ یہ اسے قتل کرنے کی ناکام کوشش تھی۔

1970 میں چاندی کی قیمت 1.63 ڈالر اور سونے کی قیمت 35 ڈالر فی اونس تھی۔ جنوری 1980 میں چاندی کی قیمت بڑھ کر لگ بھگ 50 ڈالر فی اونس ہو گئی تھی اور کاغذی کرنسی پر لوگوں کا اعتماد ڈگمگانے والا تھا۔ سونے کی قیمت بھی صرف دیڑھ مہینے میں دگنی ہو کر 850 ڈالر فی اونس تک پہنچ گئی تھی۔[220] کاغذی کرنسی کا مستقبل بچانے کے لیے فیڈرل ریزرو نے کساد بازاری کے باوجود شرح سود بڑھا کر 20 فیصد کر دی (جو کبھی تاریخ میں نہیں رہی) اور نیویارک مرکنٹائل ایکسچینج سے نئے قاعدے قانون نافذ کروائے۔ اس کے نتیجے میں چاندی کے بڑے تاجر (Hunt Brothers) دیوالیہ ہو گئے لیکن دو مہینوں میں چاندی کی قیمتیں 80 فیصد تک گر گئیں۔ اس کے بعد دوبارہ کسی ایسے گولڈ رن سے بچنے کے لیے عالمی سطح پر سونے کی لیزنگ شروع کی گئی تاکہ سونے کی قیمتیں کنٹرول کی جا سکیں[221]۔ 1990 کی دہائی میں سونے کی قیمتیں گرنے کی وجہ یہی سونے کی لیزنگ تھی۔ اس کی وجہ سے سونا برآمد کرنے والے ممالک (جنوبی افریقا، چین اور روس) بڑے خسارے میں رہے۔[222] اپریل 2013 سے سونے کی قیمت اچانک گرنے کی وجہ کومیکس میں کاغذی سونے کے کنٹریکٹ (Gold Future) کی بڑے پیمانے پر فروخت تھی جو امریکا کی جے پی مورگن سیکوریٹیز اور HSBC سیکوریٹیز نے بیچے تھے۔[223] اسی طرح 28 نومبر 2014 کو نیویارک کومیکس میں 50 ٹن کاغذی سونے کے کنٹریکٹ یک لخت بیچ کر قیمت گرائی گئی تھی۔[224]خیال رہے کہ سونے کی لیزنگ کا عمل انتہائی خفیہ طریقے سے انجام پاتا ہے۔ [225]

امریکی فیڈرل ریزرو کے بارہویں اور مشہور چیر مین مسٹر ووکر (Mr. Volcker) نے ایک دفعہ کہا تھا کہ "سونا میرا دشمن ہے اور میں ہمیشہ نظر رکھتا ہوں کہ میرا دشمن کیا کر رہا ہے"۔[226] َ[227] مسٹر ووکر 1979 سے 1987 تک فیڈرل ریزرو کا چیرمین رہا تھا اور 1980 میں سونے کی بے قابو ہوتی ہوئی قیمتوں کو لگام دینے میں اس کا بڑا ہاتھ تھا۔ 1971 میں جب وہ ٹریژری کا انڈر سیکریٹری تھا اس وقت اُس نے بریٹن ووڈز کا معاہدہ توڑنے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا اور اسے اس پر فخر تھا۔[228]

ڈچ سینٹرل بینک 1993ء سے سونا بیچ رہا تھا اور اس نے 1100 ٹن سونا بیچا۔[229] 1997ء میں جب سونے کی قیمتیں بہت گری ہوئی تھیں سوئیزرلینڈ نے اپنے 2600 ٹن سونے میں سے 1400 ٹن سونا بیچنے کا ارادہ ظاہر کیا جسے 2004 تک مکمل کر لیا۔[230][231] اس سے سونے کی قیمت گر کر 309 ڈالر فی اونس رہ گئی۔ اسی دوران میں برطانیہ نے اعلان کیا کہ وہ 415 ٹن سونا 1999–2000 کے دوران میں بیچے گا۔ اسی عرصے میں آئی ایم ایف نے بھی 435 ٹن سونا بیچا۔ اس طرح اگست 1999ء میں سونے کی قیمت مزید گر کر $251.70 تک آ گئی[232] جو پچھلے 22 سالوں کی کم ترین قیمت تھی۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بینکاروں نے افریقہ میں سونے کی کانیں کوڑیوں کے داموں خرید لیں۔ شبہ کیا جاتا ہے کہ مرکزی بینکوں کی طرف سے بیچا جانے والا بیشتر سونا مرکزی بینک کے ہی مالکان نجی حیثیت سے خرید لیتے ہیں۔ لندن بُلین مارکیٹ کچھ اس طرح کام کرتی ہے کہ عام طور پر خریدار کی شناخت ممکن نہیں ہوتی۔[233] مغرب کے بڑے سینٹرل بینک جب بھی سونا خریدتے ہیں تو نہایت خاموشی سے خریدتے ہیں۔ لیکن جب سونا بیچتے ہیں تو سال بھر پہلے سے زور و شور سے اس کا چرچا شروع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے اصل فروخت سے پہلے ہی سونے کی قیمت گر جاتی ہے۔ اور اُن کے سونا بیچنے کا ہدف بھی یہی ہوتا ہے کہ قیمت گرائی جا سکے۔

"several central bankers have admitted, a rising Gold price reflects an increasing lack of confidence in the (paper currency) system and specifically in the dollar."[234]
دورانیہ آئی ایم ایف نے کتنا سونا بیچا؟[235][236] کس نے خریدا؟
1970–1971 "جتنا سونا جنوبی افریقا سے خریدا تھا“
1976–1980 50 میلین اونس ( یعنی 1555ٹن)
1999–2000 14 میلین اونس ( یعنی 435 ٹن)
2009–2010 13 میلین اونس ( یعنی 403 ٹن) 200 ٹن انڈیا نے خریدا
10 ٹن سری لنکا نے خریدا
10 ٹن بنگلہ دیش نے خریدا
2 ٹن ماریشیئس نے خریدا
آئی ایم ایف کے پاس اب بھی 2814 ٹن سونا بچا ہوا ہے
1970 میں جنوبی افریقہ نے 1000 ٹن سے زیادہ سونا کانوں سے نکالا۔[237]

سن 2012 تک پچھلے پونے تین سالوں میں سنٹرل بینکوں نے 1100 ٹن سونا خریدا جبکہ اس سے پہلے کے تین سالوں میں انہوں نے 1143 ٹن سونا بیچا تھا۔ روس اور چین کئی سالوں سے سونا جمع کر رہے ہیں۔ 1911 میں میکسیکو نے 100 ٹن سونا خریدا۔ 2012 تک چین کے عوام نے پچھلے پانچ سالوں میں 4800 ٹن سونا سکوں اور بسکٹ (پانسا) کی شکل میں خریدا۔ 2013 میں چین نے 2200 ٹن سونا خریدا۔[238] چین اب دنیا میں سب سے زیادہ سونا کانوں سے نکالتا ہے مگر ایک تولہ بھی بیچنے کو تیار نہیں۔ 2018ء میں انڈیا نے 40 ٹن سے زیادہ سونا خریدا۔[239] سونے کی اس طرح خریداری مغربی ممالک کے لیے ایک بڑا درد سر بن گئی ہے کیونکہ یہ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ کاغذی کرنسی پر اعتبار نہ کرنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ مشرقی ممالک کا کاغذی کرنسی پر اعتبار تھا جس نے انیسویں اور بیسویں صدی میں مغربی ممالک کو فوجی و تجارتی برتری اور خوشحالی عطا کی تھی۔[240] ماضی کے نظام اس لیے کام کرتے رہے کہ لوگوں کو قانون پر اعتبار تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ لیکن اب یہ مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے کہ طاقتور لوگوں کی بدعنوانیوں کو نظر انداز کیا جائے۔

Historically, the system works because people have confidence in the rules and believe they are treated the same as anybody else. But it’s getting harder and harder to ignore the stories of powerful people cheating the system for their own gain.[241]

"دھوکا بازی پر مبنی فی ایٹ کرنسی کے نظام کو سلامت رکھنے کے لیے سونے کی قیمت گرانا انتہائی ضروری ہے"

Please keep in mind that the control of the gold price by the deep state financial elite is not some parlor game that they play for their enjoyment; it is an absolutely critical requirement in keeping the fraudulent fiat currency counterfeiting scheme from collapsing.[242]

سونے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو گرانے کے لیے دنیا بھر کے سینٹرل بینکوں کا باہمی تعاون ستمبر 2011ء میں کامیاب ہوا جب سوئیزرلینڈ کے سینٹرل بینک نے فرانک کو یورو سے منسلک کیا۔

In fact, all the major central banks have been working in concert since the day they broke the gold bull market back in September 2011, when the Swiss National Bank pegged the Franc to the euro which began the era of coordinated central bank policy.[243]

سونے کی قیمت گرانے میں بڑے بینکوں کے کردار کو کئی دہائیوں سے conspiracy theory کہہ کر مسترد کر دیا جاتا تھا۔ لیکن الزام ثابت ہو جانے کے بعد 23 ستمبر 2020ء میں امریکی عدالت میں جے پی مورگن نے جرم تسلیم کر لیا اور عدالت نے ایک ارب ڈالر جرمانہ کیا۔[244] ڈوئیچے بینک پچھلے دس سالوں میں مختلف ممالک میں 20 ارب ڈالر جرمانہ ادا کر چکا ہے۔[245]

بریٹن وڈز کا معاہدہ

جب کوئی ایک ملک کسی دوسرے ملک کی کاغذی کرنسی پر کنٹرول حاصل کر لیتا ہے تو وہ بڑے پوشیدہ طریقے سے اُس دوسرے ملک کی معیشت، صنعت، تجارت اور دولت پرحاوی ہو جاتا ہے۔ بریٹن اوڈز سسٹم بنانے کا اصل مقصد بھی اسی طرح سے دنیا بھر پر امریکی بینکاروں کی حکمرانی قائم کرنا تھا۔ جس سال بریٹن ووڈز کا معاہدہ طے پایا اسی سال معاہدے سے پہلے ماہر معاشیات Friedrich Hayek (جسے 1974 میں نوبل انعام ملا) نے اپنی کتاب "غلام مملیکت کا رستہ" (The Road to Serfdom) میں لکھا :

"سارے لوگوں پر جو حاکمیت معاشی کنٹرول عطا کرتا ہے اس کی سب سے بہترین مثال فورین ایکسچینج کے شعبہ میں واضح ہے۔ جب (مارکیٹ کی بجائے) ریاست فورین ایکسچینج (کا ریٹ) کنٹرول کرنا شروع کرتی ہے تو شروع میں تو کسی کی ذاتی زندگی پر کوئی اثر پڑتا محسوس نہیں ہوتا اور زیادہ تر لوگ اسے بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں۔ لیکن بہت سے یورپی ممالک کے تجربات کے بعد دانشوروں نے اس طرز عمل کو مکمل عالمی حاکمیت (totalitarianism) کی جانب فیصلہ کن پیشرفت قرار دیا ہے۔ یہ درحقیقت سارے لوگوں کو ریاست کی مطلق العنانی کے حوالے کر دینا ہے۔ یہ فرار ہونے کے سارے راستے بند کر دیتا ہے، نہ صرف امیروں کے بلکہ ہر کسی کے ۔[246]"

بریٹن وڈز کانفرنس سے پہلے خود کینیز نے فریڈرک ہائیک کو خط لکھ کر کہا کہ میں اخلاقی طور پر تمہاری ہر بات سے اتفاق کرتا ہوں لیکن تم یہ توقع مت رکھنا کہ میں (سب کے سامنے) تمہاری ہر بات تسلیم بھی کر لوں گا۔[247] ایک اور ماہر معاشیات Henry Hazlitt نے بھی اسی زمانے میں کہہ دیا تھا کہ بریٹن وڈز سسٹم فیل ہو جائے گا۔[248]

بریٹن ووڈز کا ماونٹ واشنگٹن ہوٹل جہاں 1944 میں بریٹن ووڈز کا عالمی معاہدہ طے ہوا۔
سن 1900 سے امریکی سونے کے ذخائر اور سونے کی قیمت۔ 1950 سے امریکی سونے کے ذخائر میں تیزی سے کمی آنے لگی اور 1970 تک امریکا اپنا 60 فیصد سونا کھو چکا تھا۔ اپنا سونا بچانے کے لیے اس نے بریٹن ووڈ کا معاہدہ توڑ دیا جس کی وجہ سے سونے کی قیمت بڑھنا شروع ہو گئی۔ 1976 میں آئی ایم ایف نے 777 ٹن سونا بیچا جس سے قیمت تھوڑی سی کم ہوئی۔[249] 1999–2000 میں آئی ایم ایف نے اسی مقصد سے مزید 435 ٹن سونا بیچا۔[250]

دوسری جنگ عظیم تک دنیا بھر کے عوام میں کاغذی کرنسی کا رواج مستحکم ہو چکا تھا لیکن مشکل یہ تھی کہ مرکزی بینک آپس میں کس طرح لین دین (بزنس) کریں۔ کوئی بھی مرکزی بینک کسی دوسرے مرکزی بینک کی چھاپی ہوئی کاغذی کرنسی قبول کرنے کو تیار نہیں تھا اور سونے کا مطالبہ کرتا تھا۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے دوسری جنگ عظیم کے دوران میں جولائی 1944 میں بریٹن ووڈز، نیو ہیمپشائر، امریکا کے مقام پر ایک کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس کانفرنس کے نتیجے میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (المعروف آئی-ایم-ایف) اور ورلڈ بینک وجود میں آئے۔ اس کانفرنس میں 44 اتحادی ممالک کے 730 مندوبین نے شرکت کی تھی جس میں روس بھی شامل تھا مگر جاپان شامل نہیں تھا۔ اس کے ایک سال بعد ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا گیا۔
اس کانفرنس کے انعقاد کے وقت دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کے پاس موجود کل سونے کا %75 امریکا کے پاس تھا۔

اس کانفرنس کے دوران میں ہندوستان کے مندوب نے سوال پوچھا کہ gold convertible exchange سے کیا مراد لیا جائے گا۔ اس کا گول مول جواب دیا گیا کہ امریکی ڈالر سے جتنا چاہیں سونا خریدا جا سکتا ہے اس لیے اس ایکسچینج سے ڈالر ہی مراد لیا جائے۔[251] روسی وفد اگرچہ مذاکرات میں شامل تھا مگر اس نے اس معاہدے کی توثیق سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ ادارے (ورلڈ بینک، آئی ایم ایف) وال اسٹریٹ کی شاخیں ہیں۔

اس معاہدے کے مطابق 35 امریکی ڈالر ایک اونس سونے کے برابر طے پائے تھے اور امریکا 35 ڈالر کے عوض اتنا سونا دینے کا پابند تھا۔ دنیا کی دیگر کرنسیوں کی قیمت امریکی ڈالر کے حساب سے طے ہوتی تھی۔ اس معاہدے میں بڑی چالاکی سے سونے چاندی کی بجائے ڈالر کو کرنسی کا معیار مقرر کیا گیا یعنی سونے کی بجائے معیار سونا کی آڑ میں "معیار ڈالر" لایا گیا [252]۔
اس کانفرنس کے معاہدے کا مسودہ انگریز ماہر معاشیات جان مینارڈ کینز نے بنایا تھا جو بینک آف انگلینڈ کا ڈائریکٹر تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ ایک ہی عالمی کرنسی (بینکور) ہو جو نہ سونے سے منسلک ہو نہ سیاسی دباو کے تحت آئے مگر وہ مندوبین کو اس پر قائل نہ کر سکا۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کینیز اپنے آقاوں کے لیے کام کر رہا تھا۔ دو سال بعد اس کا انتقال ہو گیا۔[253]
خود کینیز کے مطابق بریٹن وڈز کا یہ معاہدہ گولڈ اسٹینڈرڈ کا عین اُلٹ تھا۔ فرانسیسی صدر ڈیگال کے مشیر Jacques Rueff کے مطابق بریٹن وڈز کا یہ گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ "مغربی ممالک کا مالیاتی گناہ" تھا۔ اُس نے دس سال پہلے یہ پیشنگوئی کر دی تھی کہ یہ سسٹم چل نہیں سکتاَ۔[254]

اس معاہدے کے بعد دوسرے ممالک اپنی کرنسی کو امریکی ڈالر سے ایک مقررہ نسبت پر رکھنے پر مجبور ہو گئے چاہے اس کے لیے انہیں ڈالر خریدنے پڑیں یا بیچنے۔ اس اسکیم کی خاص بات یہ تھی کہ اب دنیا بھر میں کاغذی ڈالر زیر گردش آنے والا تھا۔[255][256] اس معاہدے سے امریکی بینکاروں کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائ میں آ گیا۔ اس معاہدے کے ذریعے دنیا بھر کے ممالک نے نادانستہ طور پر اپنی اپنی کرنسی کے کنٹرول سے رضا کارانہ دستبرداری منظور کر لی تھی۔ پہلے جو کچھ فوجی طاقت سے چھینا جاتا تھا اب وہ سب کچھ شرح تبادلہ کا کھیل بن گیا کیونکہ سونے کی رکاوٹ درمیان میں سے ہٹ چکی تھی۔

"یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ اس وقت کسی نے نہیں دیکھا کہ ورلڈ بینک کی آڑ میں (سارے ملکوں کی) حاکمیت منتقل ہو رہی ہے۔"
It is perhaps strange that almost no one at the time saw the transfer of power that was concealed under the grand term “World Bank”[257]

اس معاہدے نے غلامی کی ایک نئی قسم کی بنیاد رکھی جو پہلے ہارڈ کرنسی کے دور میں ممکن نہ تھی۔ اس نئی قسم کی غلامی میں انسان غلام نہیں ہوتے بلکہ ان کی کرنسی غلام ہوتی ہے۔ اور جب کرنسی غلام ہوتی ہے تو پوری معیشت غلام ہوتی ہے۔ قابل تخلیق کرنسی اپنے تخلیق کنندہ کے کنٹرول میں ہوتی ہے لیکن سونے چاندی کی کرنسی کبھی کنٹرول نہیں کی جا سکتی (کیونکہ تخلیق نہیں کی جا سکتی)۔ بریٹن وڈز کے معاہدے نے پوری دنیا کو امریکی بینکاروں کا معاشی غلام بنا دیا۔ غالباً دوسری جنگ عظیم شروع کرنے کا اصل مقصد بھی یہی سب کچھ حاصل کرنا تھا۔

"(کاغذی) کرنسی غلامی کی ایک نئی قسم ہے جوپہلے والی غلامی سے یوں مختلف ہے کہ یہ غیر ذاتیاتی ہے۔ اس نئی قسم میں آقا اور غلام کبھی آمنے سامنے نہیں آتے۔" (اور اس وجہ سے غلام کبھی بغاوت نہیں کر سکتے کیونکہ انہیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کس سے لڑنا ہے۔)[258]
money is a new form of slavery, and distinguishable from the old simply by the fact that it is impersonal – that there is no human relation between master and slave. Leo Tolstoy [259]

امریکا کی آکوپائی وال اسٹریٹ (Occupy Wall Street- 2011) اور فرانس کی یلو ویسٹ (yellow vest-2019) تحریکیں صرف اس لیے ناکام ہوئی ہیں کہ مظاہرین کو معلوم ہی نہیں تھا کہ ان کے مسائل کی وجہ کرنسی کی تخلیق ہے۔[260][193]

آسٹریلیا کے وزیر محنت Eddie Ward نے بریٹن اووڈز کی سازش کے بارے میں جو کچھ کہا تھا وہ سب کچھ آنے والے سالوں میں بالکل سچ ثابت ہوا۔

"مجھے یقین ہے کہ پرائیوٹ عالمی بینکار بریٹن اووڈز معاہدے کے ذریعے پوری دنیا پر اپنی ایسی مکمل اور خوفناک ڈکٹیٹر شپ قائم کرنا چاہتے ہیں جس کا ہٹلر نے کبھی خواب بھی نہ دیکھا ہو گا۔ یہ وحشیانہ طریقے سے چھوٹے ممالک کو غلام بنا دے گی اور ہر حکومت ان بینکاروں کی دلال بن جائے گی۔ عالمی مالیاتی اداروں کا گٹھ جوڑ بے روزگاری، غلامی، غربت، ذلت اور مالیاتی تباہی میں اضافہ کرے گا۔ اس لیے ہم آزادی پسند آسٹریلویوں کو اس منصوبے کو نا منظور کر دینا چاہیے۔"
I am convinced that the Bretton Woods Agreement will enthrone a world dictatorship of private finance more complete and terrible than any Hitlerite dream. It … quite blatantly sets up controls which will reduce the smaller nations to vassal states and make every government the mouthpiece and tool of International Finance …۔ World collaboration of private financial institutions can only mean more unemployment, slavery, misery, degradation and financial destruction. Therefore, as freedom loving Australians, we should reject this infamous proposal.[257]
"مغربی ممالک نے، جو اپنی نوآبادیاں کھو چکے تھے، بریٹن وڈز کانفرنس میں ایسے ادارتی انتظامات کیے کہ نئے ابھرنے والے ممالک پر ان کی حاکمیت اوران کا استحصال جاری رہے۔ تیسری دنیا کے ممالک نہ اُس مشاورت میں حصہ دار تھے نہ ہی نتائج سے کوئی فائدہ حاصل کر سکے۔ اس کی بجائے انہیں بہت کچھ کھو کر یہ حوصلہ شکن حقیقت پتہ چلی کہ یہ نظام تو اُن کے ہی خلاف بنایا گیا تھا اور یہ بات یقینی بنا دی گئی تھی کہ وہ ہمیشہ صنعتی ممالک کی طاقتوں کے زیر اثر رہیں۔ اگرچہ کہ کچھ معمولی تبدیلیاں کی جا چکی ہیں مگر آج تک کلیدی اداروں مثلاً آئی ایم ایف میں ووٹ کی طاقت وہی ہے جو 1940 اور 1950 کی دہائی میں تھی"۔
At the Bretton Woods conference, the Western nations, having lost their empires, made institutional arrangement for continuing their domination and exploitation of the newly emerging nations. The Third World itself was not a party to the negotiations nor has it benefited from the results. Instead, it has discovered, to its cost and dismay, that the system was designed to discriminate against it and to ensure its dependence on the established power blocs in the industrialized countries. To this day, even though there have been some minor changes, the voting power in key institutions like the IMF reflects the world of the 1940s and 1950s.[261]

اس معاہدے کے بعد اب چونکہ نوآبادیاتی نظام کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی اس لیے دنیا کی ساری کالونیوں کو آزاد کر دیا گیا اورمزاحمتی لیڈروں کو اقتدار سونپ دیا گیا۔ برصغیر کی آزادی گاندھی کا کارنامہ نہیں تھی[262] بلکہ بریٹن ووڈز معاہدے کا خاموش نتیجہ تھی۔

"روائیتی نوآبادیاتی نظام کو 1940 سے 1960 کی دہائیوں میں توڑ دیا گیا۔ اس کے بعد دنیا کی مالیاتی طاقتوں (سینٹرل بینکرز) نے سیاسی کنٹرول کی بجائے مالیاتی کنٹرول اختیار کیا"۔
traditional model of colonialism was forcibly dismantled in the 1940s-1960s.
In response, global financial powers sought financial control rather than political control.[263]
"یقیناً امریکا ان ممالک کو اپنی کولونی (نوآبادی) نہیں کہتا۔ وہ کہتا ہے کہ ہم نے انہیں آزاد کیا۔ جس کا مطلب ہے کہ یہ ممالک امریکا کے شکاری کیپیٹلزم کی کولونییاں ہیں جیسے پورٹے ریکو یا عراق۔"
Sure, America didn’t call countries it’s colonies — it said (LOL) that it “liberated” them. What that means is that they effectively became colonies of American style predatory capitalism (take a look at Puerto Rico — or Iraq.)[264]
سیاسی آزادی دی گئی مگر اقتصادی آزادی بالکل نہیں ملی۔
In the case of the post-war world, the deliverance of political freedom among the “former British Empire” was never accompanied by an ounce of economic freedom to give that liberation any meaning.[265]

اس معاہدے کی کامیابی کا میڈیا میں بڑے زور و شور سے چرچا کیا گیا لیکن تصویر کا صحیح رُخ آج تک چھپایا جاتا ہے۔ اور جس بات کا چرچا نہیں کیا گیا وہ یہ تھی کہ 35 ڈالر میں ایک اونس سونا خریدنے کا حق عوام کو نہیں دیا گیا تھا بلکہ یہ حق امریکا کی طرف سے صرف اور صرف دوسرے ممالک کے سینٹرل بینکوں کو دیا گیا تھا۔ گویا عوام کے لیے صرف کاغذی کرنسی اور امیروں کے لیے سونے کی کرنسی طے پائی۔ اُس وقت امریکی عوام کو سونا رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ چین میں بھی 1950 سے 2003 تک عوام پر خام سونا رکھنے کی پابندی تھی۔ [266] ہندوستان کی برطانوی حکومت اور آزادی کے بعد مورار جی دیسائی نے ہندوستان میں سونے کی درآمد کو روکے رکھا۔ اور اسی وجہ سے بریٹن اوڈز کا معاہدہ لگ بھگ دو دہائیوں تک چل سکا۔

"اس احسان پر تو ماونٹ رشمور پر مورار جی دیسائی کا مجسمہ بن جانا چاہیے تھا"[267]

1971 میں ویتنام کی جنگ کی وجہ سے امریکی معیشت سخت دباو کا شکار تھی اور افراط زر تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ اپریل 1971 میں جرمنی نے امریکی دباؤ میں آ کر پانچ ارب ڈالر خریدے تا کہ امریکی ڈالر کو سہارا مل سکے۔ اس وقت 5 ارب ڈالر 4400 ٹن سونے کے مساوی تھے۔ اگر جرمنی نے ڈالر کی بجائے امریکا سے سونا طلب کیا ہوتا تو امریکی مالیاتی نظام کی کمر ٹوٹ جاتی۔ مزید امریکی دباو سے جان چھڑانے کے لیے صرف ایک مہینے بعد 10 مئی 1971 کو جرمنی نے بریٹن ووڈ معاہدے سے ناتا توڑ لیا کیونکہ وہ گرتے ہوئے امریکی ڈالر کی وجہ سے اپنے جرمن مارک کی قیمت مزید نہیں گرانا چاہتا تھا۔ اس کے صرف تین مہینوں بعد جرمنی کی معیشت میں بہتری آ گئی اور ڈالر کے مقابلے میں مارک کی قیمت %7.5 بڑھ گئی۔ امریکی ڈالر کی گرتی ہوئی قیمت دیکھتے ہوئے دوسرے ممالک نے امریکا سے سونے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ سویزر لینڈ نے جولائی 1971 میں پانچ کروڑ ڈالر کا 44 ٹن سونا امریکا سے وصول کیا۔ امریکا نے سفارتی دباو ڈال کر دوسرے ممالک کو سونا طلب کرنے سے روکنا چاہا [268] مگر Jacques Rueff کے مشورے پر فرانس نے جارحانہ انداز اپناتے ہوئے 19.1 کروڑ ڈالر امریکا سے 170ٹن سونے میں تبدیل کروائے۔ اس طرح امریکا اور فرانس کے تعلقات خراب ہو گئے جو آج تک بہتر نہ ہو سکے۔ 9 اگست 1971ء کو سوئزرلینڈ نے بھی بریٹن ووڈ معاہدے سے ناتا توڑ لیا۔[269] 12 اگست 1971ء کو برطانیہ نے بھی 75 کروڑ ڈالر کے 660 ٹن سونے کا مطالبہ کر دیا۔ اس وقت امریکا کو روزانہ 100 ٹن سونے کی ادائیگی کرنی پڑ رہی تھی۔[120]
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت امریکا اپنے پاس موجود سونے سے تین گنا زیادہ ڈالر چھاپ چکا تھا۔ حقیقی اعداد و شمار اس سے بھی زیادہ رہے ہوں گے۔[253]
1971 تک امریکا کے پاس موجود سونے کی مالیت صرف 15 ارب ڈالر تھی جبکہ دوسرے ممالک کے پاس 50 ارب امریکی ڈالر کے ذخائر جمع ہو چکے تھے۔[270] اگر سارے قرضے شامل کر کے حساب لگایا جائے تو اس وقت امریکا ہر ایک ڈالر کے سونے کے عوض 44 ڈالر کا مقروض ہو چکا تھا۔[271]
15 اگست 1971 کو امریکا اپنے بریٹن ووڈز کے وعدے سے یک طرفہ مکر گیا جسے نکسن دھچکا (نکسن شاک) کہتے ہیں۔ امریکی صدر نکسن نے اعلان کیا کہ اب امریکا ڈالر کے بدلے سونا نہیں دے گا۔[272][273] جان پرکنز کے مطابق اس سازش کا ماسٹر مائنڈ George Schultz تھا۔[274] اس وقت تک امریکا کاغذی ڈالر چھاپ چھاپ کر اس کے بدلے عربوں سے اتنا تیل خرید چکا تھا کہ عرب اگر ڈالر کے بدلے سونے کا مطالبہ کر دیتے تو امریکا اپنا پورا سونا دے کر بھی یہ قرض نہ چکا سکتا تھا۔ 1971 کے اس امریکی اعلان سے عربوں کے اربوں ڈالر کاغذی ردّی میں تبدیل ہو گئے۔ قانون قدرت یہ ہے کہ ایک کا نقصان کسی دوسرے کا فائدہ ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والے اس نقصان کا سارہ فائدہ امریکا کو ہوا۔ John Perkins کے بیان کے مطابق اس وقت امریکا دیوالیہ (bankrupt) ہو چکا تھا۔[275] اگرچہ امریکا جاپان کو اپنی کولونی نہیں کہتا مگر 16 اور 17 اگست 1971ء میں جاپان کے سینٹرل بینک نے 1.3 ارب ڈالر خریدے تاکہ گرتے ہوئے ڈالر کو سہارا مل سکے مگر ایسا ہو نہ سکا۔[276]
کرنسی کا سونے سے تعلق ٹوٹنے سے سینٹرل بینکاروں کا صدیوں پرانا سپنا پورا ہو گیا اور وہ کرنسی چھاپنے کی محدود حد سے بالکل آزاد ہو گئے۔ اب وہ دنیا کے امیر ترین آدمی بن گئے۔

صرف ایک رات میں دنیا بھر میں بریٹن ووڈز معاہدے کے تحت قائم شدہ فکسڈ ایکسچینج ریٹ فلوٹننگ ایکسچینج ریٹ میں تبدیل ہو گیا۔
"Overnight, money worldwide became free-floating"[277]
یہ پوری دنیا کے ساتھ عظیم ترین دھوکا تھا خاص طور پر غریب ترقی پزیر ممالک کے ساتھ۔ اور یہ فراڈ اب بھی جاری ہے۔[267]
It was a gigantic fraud on the world – especially the poor, developing countries. And the fraud continues.

بریٹن ووڈز کے معاہدے کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے امریکی صدر نکسن نے اگرچہ اپنی تقریر میں کہا تھا کہ یہ ایک عارضی اقدام ہے اور یہ کہ آپکے ڈالروں کی قوت خرید کل بھی اُتنی ہی ہو گی جتنی آج ہے لیکن وقت نے ثابت کر دیا کہ یہ صرف ایک اور سفید جھوٹ تھا۔[278][279] اپنی دوسری مدت کا الیکشن شاندار طریقے سے جیتنے کے باوجود نکسن امریکا کا وہ واحد صدر ہے جسے استعفا دینا پڑا (واٹرگیٹ اسکینڈل کی وجہ سے)۔

ڈالر سے سونے کا تعلق ٹوٹنے کے بعد 1972 میں جب ایران اور سعودی عرب نے اپنے ڈالروں سے امریکی کمپنیاں خریدنے کا ارادہ ظاہر کیا تو امریکی حکام نے دھمکی دی پیار سے سمجھایا کہ امریکا اسے اقدام جنگ سمجھے گا۔[280] حالانکہ پہلی جنگ عظیم کے بعد خود امریکا نے بڑے پیمانے پر جرمن کمپنیاں خریدی تھیں۔

1971ء کے بعد زندگی کا ہر ہر پہلو ہمیشہ کے لیے بدل گیا۔
all aspects of life as we know it changed materially and permanently in the early 1970s.[281]

بریٹن ووڈز کا معاہدہ ٹوٹنے کے بعد ہر ملک کو اپنی مرضی کے مطابق کاغذی کرنسی چھاپنے کا اختیار مل گیا۔ امیر ممالک نے فوراً بہت بڑی مقدار میں کاغذی کرنسی چھاپی[282][283] اور مختلف ترقیاتی منصوبوں کے بہانے غریب ممالک کو قرض دے دی جسے اب وہ کئی نسلوں تک نہیں اتار سکتے۔[284] سونے کی رکاوٹ ہٹتے ہی مغربی ممالک کی بے تحاشہ کرنسی کی تخلیق کی وجہ سے 1970ء کی دہائی میں stagflation آیا لیکن طالب علموں کو یہی پڑھایا گیا کہ یہ سب تیل کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے ہوا تھا[285]۔ کرنسی کی گرتی ہوئی قیمت کی وجہ سے سونا مہنگا ہونے لگا جسے روکنے کے لیے شرح سود بڑھانی پڑی جو 20 فیصد تک پہنچ گئی۔ غریب ممالک کو زبردستی دیے جانے والے ان قرضوں کے معاہدے میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ قرضوں پر سود امریکا میں رائج شرح سود سے ایک فیصد زیادہ ہو گا۔ اس سے غریب ممالک کے لیے قسطیں ادا کرنا انتہائی مشکل ہو گیا اور وہاں غربت مزید بڑھ گئی۔ لیکن نوٹ چھاپ کر قرض دینے والے ممالک قسطیں وصول کر کے خوشحال ہوتے رہے۔
1971 کے بعد ہارڈ کرنسی یا زر کثیف کا دور ختم ہو گیا اور زر فرمان (Fiat currency) نے مستقل جگہ بنا لی۔ لیکن ان 27 سالوں میں امریکا کا کاغذی ڈالر بین الاقوامی کرنسی بن چکا تھا۔ امریکی بینکار 1944 میں بریٹن ووڈز کے معاہدے میں جو کچھ حاصل نہیں کر سکے تھے وہ اب بڑی حد تک انہیں حاصل ہو گیا۔ سوئزر لینڈ وہ آخری ملک تھا جس نے سنہ 2000 میں اپنی کاغذی کرنسی کا سونے سے ناتا توڑا۔

"1971 کے بعد دنیا نے گویا ہمیں اجازت دے دی کہ ہم جتنا چاہیں اتنا سونا پرنٹننگ پریس سے بنا لیں۔ یہ ایک مکمل فراڈ تھا"
until the closing of the gold window by Nixon in 1971. A total fiat currency - the dollar - was unleashed on the world with this event, and the US became the biggest beneficiary by assuming the role of managing the world reserve currency. For decades this well served America’s interests since it was equivalent to the world permitting us to create as much “gold” as we wanted. The system was totally fraudulent since it was imaginary money and we owned the printing press.[248]
"بریٹن اوڈز کا معاہدہ ٹوٹنے کے بعد صحیح معنوں میں مالیاتی سلطنت کا آغاز ہوا اور امریکی ڈالر کی بالادستی قائم ہوئی اور ہم کاغذی کرنسی کے عہد میں داخل ہوئے۔ امریکی ڈالر کی پُشت پناہی کے لیے کوئی قیمتی دھات نہیں ہے۔ امریکی ڈالر صرف حکومتی قرض کو بنیاد بنا کر چھاپے جاتے ہیں۔ امریکا ڈالر چھاپ کر پوری دنیا سے منافع وصول کر لیتا ہے۔"
Since that day [dissolution of Bretton Woods], a true financial empire has emerged, the US dollar’s hegemony has been established, and we have entered a true paper currency era. There is no precious metal behind the US dollar. The government’s credit is the sole support for the US dollar. The US makes a profit from the whole world. This means that the Americans can obtain material wealth from the world by printing a piece of green paper.[286]

بریٹن وڈز کا معاہدہ ٹوٹنے کے بعد امریکی ایما پر Smithsonian معاہدہ طے پایا جس کے مطابق کرنسیوں کا فکسڈ ایکسچینج ریٹ مقررکیا گیا جو سونے کی قیمت سے بالکل آزاد تھا۔ 18 دسمبر 1971 کو امریکی صدر نکسن نے اسے "دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا مالیاتی معاہدہ" قرار دیا۔ مگر لگ بھگ صرف ایک سال بعد ہی یہ معاہدہ بھی پاش پاش ہو گیا۔[268]

اس کے بعد ستمبر 1976 میں جمیکا معاہدے (The Jamaica Agreement) میں یہ طے پایا کہ سونے کا تعلق کرنسی یا ایس ڈی آر سے نہیں رکھا جائے گا۔ اس کے باوجود سوئزر لینڈ کو اپنی کرنسی کا سونے سے تعلق ختم کرنے میں 24 سال لگے۔[285] کرنسی کا سونے سے تعلق ٹوٹنے سے "منی مارکیٹ فنڈز" وجود میں آئے اور شیڈو بینکنگ کا آغاز ہوا۔ چونکہ شیڈو بینک کو کھاتے داروں کی ضرورت نہیں ہوتی اس لیے ان پر حکومت کی نگرانی بہت نرم ہوتی ہے۔[287]
جب تک کرنسی کا سونے سے تعلق برقرار تھا اس وقت تک حکومتی قرضوں (ٹریژری بونڈز) پر سٹے بازی (speculation) بالکل نہیں ہوا کرتی تھی۔ کرنسی کا سونے سے تعلق ٹوٹنے کے بعد بونڈز میں سٹے بازی بے انتہا بڑھ گئی جس کا خمیازہ محنت کشوں کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔[288] ڈیری ویٹو مارکیٹ بونڈز پر سٹے بازی کی بنیادپر قائم ہے ۔2003ء میں وارن بوفے نے ڈیری ویٹو کو 'بے انتہا تباہی پھیلانے والے مالیاتی ہتھیار'( "financial weapons of mass destruction") قرار دیا تھا۔ 2008ء کے مالیاتی انہدام کے آغاز کی وجہ یہی ڈیری ویٹو مارکیٹ تھی۔ ڈیری ویٹو مارکیٹ کی غیر شفافیت کی وجہ سے بڑے بینک اپنی مرضی سے اس کی قیمت طے کرتے ہیں۔[289] ڈیری ویٹیو مارکیٹ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے جب حکومتی بونڈز پر شرح سود منفی ہو جاتی ہے اس وقت بھی ڈیری ویٹیو مارکیٹ میں معمولی منافع ممکن ہوتا ہے۔[290] 15 اکتوبر 2020ء کو آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر Kristalina Georgieva نے بیان دیا ہے کہ ہمیں ایک نئے بریٹن وڈز معاہدے کی ضرورت ہے۔[291] آسان الفاظ میں اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ پرانی گائے کا دودھ ختم ہو رہا ہے۔ ہمیں اب نئی گائے کی ضرورت ہے۔[292]

بریٹن ووڈز پر مزید دیکھیے:

آقا کرنسی اور غلام کرنسی

جب ہندوستان پر برطانیہ کا راج تھا تو اگرچہ ہندوستان میں مقامی کرنسی روپیہ ہی تھی لیکن یہ پاونڈ اسٹرلنگ کی غلام تھی۔ برطانوی حکومت اپنی مرضی سے شرح تبادلہ مقرر کرتی تھی اور ہندوستانی تاجر اسے قبول کرنے پر مجبور تھے حالانکہ شرح تبادلہ مارکیٹ میں ڈیمانڈ اور سپلائی کے اصول سے طے ہونی چاہیے۔ اسکاٹ لینڈ [293][294] اور آئر لینڈ میں بھی ایسی ہی صورت حال تھی۔ اسی طرح فرانس کے زیر تسلط نوآبادیوں (کالونیوں )میں فرنچ فرانک آقا کرنسی کی حیثیت رکھتا تھا۔ [295]

Of course, there are alternatives to a currency union. Sterlingisation either with or without a Currency board. Your central bank governor, Brian Honohan, published definitive analysis of the latter in a seminal paper in 1994, where he examined the role of a “local (slave) currency [maintained] at a fixed rate of exchange against a foreign (master) currency”.[296]
not all economies and currencies are created equal[297]

1913ء میں جان مینارڈ کینز نے لکھا تھا کہ "ہماری گولڈ ریزرو کی پالیسی بنیادی طور پر آمرانہ ہے۔"(یعنی ڈیمانڈ اور سپلائی کے قدرتی قانون کے ماتحت نہیں ہے۔)

"Our gold reserve policy is mainly dictated"

بریٹن اوڈز کا معاہدہ درحقیقت اُس وقت کے ہندوستانی کرنسی نظام کی عین نقل تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ پاونڈ کی جگہ ڈالر نے لے لی تھی اور اب صرف ہندوستان کی بجائے پوری دنیا کا استحصال ہونا تھا۔[267]
چونکہ برطانیہ اپنی کرنسی کی برتری (monetary hegemony) کھونے پر خوش نہیں تھا اس لیے اس معاہدے میں پاونڈ کو مارکیٹ ریٹ سے زیادہ ریٹ عطا کیا گیا (ایک پاونڈ برابر 4.86 امریکی ڈالر)۔ دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں برطانیہ امریکا کا اتنا مقروض ہو چکا تھا کہ اسے امریکی ہدایات ماننی پڑیں۔ لیکن برطانوی پاونڈ کا یہ مصنوعی ریٹ صرف 5 سالوں میں 30% گر گیا۔[298]
بریٹن اوڈز کے معاہدے کے بعد ڈالر آقا کرنسی بن گیا تھا اور ساری دنیا کی کرنسیاں اس کی غلام بن کر رہ گئی تھیں(جسے اُس زمانے میںBenign neglect کہا جاتا تھا)۔[299] 1960 کی دھا ئی میں فرانس کے فائیننس منسٹر گسکارڈنے اسے حد سے زیادہ مراعات (exorbitant privilege) کہہ کر تنقید کری [300] جبکہ امریکا کی ٹریژری کے سیکریٹری جوہن کونالی کا کہنا تھا کہ ‘the dollar is our currency and your problem’۔[301] اس اختلاف کی وجہ سے 1966ء میں فرانس نے NATO سے علیحدگی اختیار کر لی[302] لیکن لیبیا کے معمر قذافی کے خلاف جنگ کی خاطر 2009ء میں دوبارہ ناٹو میں شریک ہو گیا۔[303]
بین الاقوامی تجارت میں آقا کرنسی کو ہمیشہ واضح برتری حاصل ہوتی ہے۔[304] آقا کرنسی کو ہی ریزرو کرنسی کا درجہ حاصل ہوتا ہے اور اسے جاری کرنے والا ملک تجارتی خسارے کے باوجود بھی درآمدات جاری رکھ سکتا ہے۔

"NAFTA اور ورلڈ ٹریڈ ارگنائزیشن فری ٹریڈ کو بڑھاوا نہیں دیتے بلکہ عالمی حکمرانی اور کیپیٹل ازم کو فروغ دیتے ہیں"
" NAFTA and the WTO promote world government and crony capitalism, not free markets."[305]
"آقا کرنسی کا مطلب ہے کہ ہوا میں سے کرنسی تخلیق کرنا اور اس سے ہر شے خرید لینا۔ کیا اس سے بڑا جادو بھی کوئی ہو سکتا ہے؟"
Generating currency out of thin air and trading it for tangible goods is the definition of hegemony. Is there is any greater magic power than that?[306]
"سارے ملکوں کو کچھ ایکسپورٹ کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ کچھ امپورٹ بھی کر سکیں۔ لیکن جو ملک عالمی کرنسی جاری کرتا ہے وہ لین دین کے اس بنیادی اصول سے مستثنیٰ ہوتا ہے۔"
"While other countries have to export in order to pay for their imports, the sovereign who emits a global currency is exempt from adhering to the most fundamental law of economic exchange."[307]
بنیادی طور پر وہ ممالک جنہیں تجارتی خسارہ رہتا ہے جیسے امریکا، کرنسی یا ٹریژری بونڈز چھاپ کردوسرے ممالک سے سامان تجارت خرید لیتے ہیں۔
Basically, countries such as the United States that run trade deficits, exchange fiat money or Treasuries for goods from other countries.[308]
اس نظام نے ہمیں اس قابل بنا دیا کہ ہم اپنے کاغذی ڈالر کو مہنگا کر کے ایکسپورٹ کریں اور دنیا بھر کا سامان تجارت نہایت سستا خرید لیں۔
This arrangement permitted us to “export” our inflated dollars and buy cheap imported goods from overseas.[248]

1966ء میں ایلن گرین اسپان (جو 1887ء سے 2006ء تک فیڈرل ریزرو کا چیرمین رہا تھا) نے کہا تھا کہ “تجارتی خسارے کے باوجود اخراجات میں اضافہ ہونا دراصل دوسروں کی دولت پر قبضہ کرنا ہے۔ سونا اس خفیہ طریقہ کار کے آڑے آتا ہے“۔ یورپی ممالک نے اپنی اس مشکل کا حل یہ نکالا کہ ڈالر سے سونا خریدنا شروع کر دیا جس پر امریکا کو آخیر کار گھٹنے ٹیک دینے پڑے۔
1971ء میں جب امریکا نے اپنے تیزی سے سکڑتے ہوئے سونے کے ذخیرے کو بچانے کے لیے خود ہی بریٹن اوڈز کا یہ سسٹم توڑا تو اسے چند دوسری بڑی کرنسیوں کو بھی اپنی حکمرانی میں شریک کرنا پڑا۔ اس طرح SDR وجود میں آیا جس نے کرنسی کے ذریعے ہونی والی عالمی لوٹ کھسوٹ میں بڑے کھلاڑیوں کا حصہ طے کر دیا۔ اس کے بعد ان ممالک نے حکومتی سطح پر سونا خریدنا بند کر دیا۔[309] ایس ڈی آر ڈالر کی مدد سے آج کی آقا کرنسی ہے اور حکومتوں کی سطح پر استعمال ہوتی ہے مگر عوام کی سطح پربالکل استعمال نہیں ہوتی۔ دو ڈھائی سو سال قبل یورپ میں کاغذی کرنسی بھی حکومتوں کی سطح پر استعمال ہوتی تھی جبکہ عوام ہارڈ کرنسی استعمال کرتے تھے۔ خیال رہے کہ ایس ڈی آر کی لین دین آئی ایم ایف میں خفیہ طریقے سے انجام پاتی ہے۔[131]
بریٹن ووڈز کا معاہدہ توڑنے سے پہلے امریکا نے چھ بڑے صنعتی ملکوں سے یہ وعدہ لیا تھا کہ یہ ممالک بیرونی ممالک سے سونا نہیں خریدیں گے تاکہ سونے کی قیمتوں کو بڑھنے سے روکا جا سکے۔[310]
1971ء میں ڈالر کا سونے سے ربط ٹوٹنے کے بعد ڈالر کی عالمی طلب تیزی سے گر رہی تھی۔ ڈالر کی عالمی مانگ بڑھانے کے لیے سعودی عرب کو ہدایت کی تھی کہ تیل صرف ڈالر کے عوض فروخت ہو گا اور حکومتی اخراجات کے بعد بچنے والے ڈالر صرف امریکی بینکوں میں سرمائیہ کاری کیے جائیں گے (Petrodollar Recycling system) تاکہ سعودی عرب بھی سونا نہ خریدے۔[311] [312] اگر سعودی عرب آمادہ نہ ہوتا تو سعودی عرب پر حملے اور قبضے کا منصوبہ تیار تھا۔[313] اگر قیمت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو دنیا میں ہر سال جتنا سونا نکلتا ہے اس کا دس گنا تیل نکلتا ہے۔[314] لیکن تیل اُسی سال استعمال ہو کر ختم ہو جاتا ہے جبکہ سونا ہزار سال بعد بھی زیر گردش رہتا ہے۔
اس طرح پیٹرو ڈالر کی مدد سے گولڈ اسٹینڈرڈ کی جگہ عملی طور پر بلیک گولڈ اسٹینڈرڈ یعنی کروڈ آئیل اسٹینڈرڈ اپنایا گیا۔
1977ء تک بیرون ملک ڈالر کی مانگ اتنی کم ہو چکی تھی کہ امریکی ٹریژری کو سوئیس فرانک میں بونڈز جاری کرنے پڑے جو "کارٹر بونڈز" کہلاتے تھے۔[315] بیرون ملک ڈالر کی مانگ مزید بڑھانے کے لیے 1981 میں شکاگو مرکنٹائل ایکسچینج (CME) میں یورو ڈالر فیوچر کونٹریکٹ کا کاروبار شروع کیا گیا جو ایک کیش سیٹیلڈ ڈیریویٹو ہے اور LIBOR (لندن انٹر بینک آفرڈ ریٹ) پر انحصار رکھتا ہے۔[316] خیال رہے کہ LIBOR کے متعدد اسکینڈل فاش ہونے پر برطانیہ اعلان کر چکا ہے کہ LIBOR کو 2021ء تک بتدریج ختم کر دیا جائے گا۔ LIBOR ختم ہونے سے دنیا بھر میں 400,000 ارب امریکی ڈالر کی مالیت کے مالیاتی اثاثے متاثر ہوں گے۔[317][318]

آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ڈبلو ٹی او (WTO) جیسے عالمی مالیاتی ادارے بریٹن اوڈز سسٹم کو چلانے کے لیے بنائے گئے تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بریٹن اوڈز سسٹم ٹوٹنے کے بعد ان اداروں کو بھی توڑ دیا جاتا۔[319] مگر تیسری دنیا کی دولت چوسنے والے یہ نجی ادارے کرنسی چھاپ چھاپ کر روزبروز طاقتور ہوتے چلے گئے۔ آئی ایم ایف میں امریکا وہ واحد ملک ہے جس کے پاس ویٹو کا اختیار ہے۔ عالمی مالیاتی اثاثوں کی منتقلی کا 80 فیصد ڈالر کی شکل میں ہوتا ہے اور SWIFT (Society for Worldwide Interbank Financial Telecommunication) کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ اگرچہ SWIFT کا مرکزی دفتر برسلز (بلجئیم) میں واقع ہے مگر اس پر امریکا کا مکمل کنٹرول ہے۔[320]

"The U.S. uses its influence at SWIFT, the central nervous system of global money transfer message traffic, to cut off nations it considers to be threats. From a financial perspective, this is like cutting off oxygen to a patient in the intensive care unit. Russia understands its vulnerability to U.S. domination and wants to reduce that vulnerability. Now Russia has created an alternative to SWIFT."

2016 میں سویفٹ کی شہرت اس وقت متاثر ہوئی جب کسی ہیکر نے بنگلہ دیش کے اکاونٹ سے ہیک کر کے دس کروڑ ڈالر چُرا لیے۔

چونکہ امریکا کسی بھی ملک پر تجارتی پابندیاں عائید کرنے کے لیے SWIFT کو استعمال کرتا ہے اس لیے روس نے کسی ایسے خطرے سے بچنے کے لیے اپنا الگ متبادل SWIFT نظام بنا کر تیار رکھا ہے جو عالمی سطح پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔[321]
روس کے کئی بینکوں نے چین کا سویفٹ سسٹم (China International Payments System) استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔[322] اکتوبر 2019ء سے ترکی نے روس کا سویفٹ سسٹم استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔[323]
اگست 2018ء میں جرمنی نے بھی مطالبہ کر دیا ہے کہ امریکی ڈالر کی بالادستی کے خلاف ایک الگ یورپی مونیٹری فنڈ ہونا چاہیے اور اس کا اپنا آزادانہ سویفٹ سسٹم ہونا چاہیے۔[324] 31 جنوری 2019ء کو فرانس نے سوئفٹ کا متبادل INSTEX پیش کر دیا ہے تاکہ یورپی ممالک امریکی پابندیوں کے باوجود ایران سے تجارت جاری رکھ سکیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اقدامات امریکا کے دشمنوں کی بجائے دوست کر رہے ہیں۔[325]یکم اپریل 2020ء سے انسٹیکس کی مدد سے یورپ اور ایران باہمی تجارت شروع کر چکے ہیں۔[326]

2011ء کے اختتام پر دنیا بھر میں ریزرو کرنسی کی مقدار 12000 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی تھی۔[327] 1971ء تک کرنسی کا سونے سے ربط قائم تھا اور اُس وقت یہ مقدار ہزار گنا کم تھی۔

متحدہ امریکا تاریخ کی پہلی سلطنت ہے جو عالمی سطح پر قائم ہے اور پہلی سلطنت ہے جو براہ راست فوجی طاقت کی بجائے معاشی (مراد کرنسی کی) طاقت پر قائم ہے۔
the first truly global empire, and the first empire based on indirect economic rather than direct military power. [328]
"امریکا ڈالر چھاپ کر قرضوں کی شکل میں ایکسپورٹ کرتا ہے اور پھر انہیں واپس امریکا لے آتا ہے۔ امریکا کی تین بڑی منڈیاں ہیں، کموڈٹی مارکیٹ، ٹریژری بونڈ مارکیٹ اور اسٹاک مارکیٹ۔ اس طرح امریکا کو افراط زر کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور منافع ہوتا ہے۔ امریکا مالیاتی سلطنت بن چکا ہے۔"
If they export dollars to the world, the whole world is helping the US deal with its inflation.... By issuing debt, the US brings a large amount of dollars from overseas back to the US’s three big markets: the commodity market, the Treasury Bills market, and the stock market. The US repeats this cycle to make money: printing money, exporting money overseas, and bringing money back. The US has become a financial empire.[329]
کرنسی عوام کی معاشی حالت
سونے چاندی کے سکے معاشی آزادی
کاغذی کرنسی آدھی غلامی
کیش لیس اکنومی مکمل غلامی[330][331]
قابل تخلیق کرنسی منسلک وعدہ[332]
امریکی ڈالر (1971ء سے قبل) “I owe you something”
امریکی ڈالر (1971ء کے بعد) “I owe you nothing”
یورو “we owe you nothing”
بٹ کوائن (کرپٹوکرنسی) “no one owes you nothing.”

ایس ڈی آر یعنی Special drawing rights میں چار کرنسیاں شامل تھیں۔ امریکی ڈالر کا حصہ 41.9 فیصد، یورو کا حصہ 37.4 فیصد، پاونڈ اسٹرلنگ کا حصہ 11.3 فیصد اور جاپانی ین کا حصہ 9.4 فیصد تھا۔ آخری تینوں کرنسیاں بہت بڑی حد تک ڈالرکی دوست کرنسیاں ہیں۔ بین الاقوامی تجارت میں چین کا بہت بڑا حصہ ہے مگر پھربھی چینی یوان کا ایس ڈی آر میں کوئی حصہ نہیں تھا۔۔[333] لیکن جب چین نے بھی بڑی مقدار میں سونا خریدنا شروع کر دیا تو 30 نومبر 2015 کو آئی ایم ایف نے یوان کو ایس ڈی آر میں شامل کرنے کا اعلان کر دیا جس پر عمل درآمد یکم اکتوبر 2016 کو ہوا[334] یوان کا حصہ 10.92 فیصد ہے یعنی اسے پاونڈ اسٹرلنگ اور جاپانی ین سے بڑی کرنسی مانا گیا ہے۔[335]
اکتوبر 2016ء کے بعد چین نے بھی حکومتی سطح پر سونا خریدنا بند کر دیا۔ [336]

روس کی کرنسی روبل “ڈالر دشمن“ کرنسی ہے اور ایس ڈی آر کا حصہ نہیں بن سکتی۔

ڈالر کا کبھی سونے چاندی سے تعلق ہوا کرتا تھا۔ جب 1969 میں ایس ڈی آر پہلی دفعہ متعارف کیا گیا تو یہ بھی 0.888671 گرام سونے کے برابر تھا جو اس وقت ایک ڈالر کا ہوتا تھا۔ 1974 میں ایس ڈی آر کا تعلق سونے سے ختم کر کے 16 کرنسیوں کی باسکٹ سے کر دیا گیا۔[337] 1981 میں اس باسکٹ سے 11 کرنسیاں نکال دی گئیں اور صرف پانچ باقی بچیں۔1999 میں یورو بننے کے بعد جرمن مارک اور فرانسیسی فرانک کی جگہ یورو کو مل گئی۔ اب ایس ڈی آر صرف آئی ایم ایف کے ارکان ممالک کے “اعتبار“ پر انحصار رکھتا ہے۔[338][339]
ڈالر پر تھوڑا بہت امریکی حکومت کا عمل دخل ہے۔ لیکن ایس ڈی آر مکمل طور پر نجی ادارے کی جاری کردہ بین الاقوامی کرنسی ہے۔
آئی ایم ایف نے 1981 تک صرف 21.4 ارب ایس ڈی آر جاری کیے تھے۔2008 کے بڑے مالی بحران کے بعد 182.7 ارب ایس ڈی آر تخلیق کر کے مالی بحران کو سنبھالا دیا۔
اس کے جواب میں چین، روس، ہندوستان، میکسیکو اور ترکی نے بڑی مقدار میں سونا خریدنا شروع کر دیا ہے۔ چین کا تسلیم شدہ سونا 1٫823.3ٹن ہے مگر ماہرین کا خیال ہے کہ چین کے پاس کم از کم اس کا دُگنا سونا ہے ۔[340][341]

چار ممالک (امریکا، جرمنی، فرانس، اٹالی) اور آئی ایم ایف مل کر دنیا بھر کے بینکوں کے دوتہائی سونے کے مالک ہیں۔ انگریزی کہاوت ہے کہ جو سونے کا مالک ہوتا ہے وہی قانون بناتا ہے۔ (he who owns the gold make the rules) اور جو قانون بناتا ہے وہی اصل حکمران ہوتا ہے۔

اگر یونان کے لوگ اس بات سے واقف ہوتے کہ “کرنسی یونین“ دراصل ایک پھندا ہے [342] اور یورو میں شریک نہ ہوئے ہوتے[343] تو آج اتنی ابتر حالت میں نہ ہوتے۔

Greece has no sovereignty left to speak of, despite the fact that it is guaranteed it in EU law. .... they are turned from sovereign citizens of their countries into lost souls in debt prisons.[344]
"financial decentralization is the best way for nations to protect their own sovereign interests."[345]

جو کچھ آج یونان میں ہوا وہ کل بہت سے دوسرے ملکوں میں بھی ہونے والا ہے[346]

"آج کے دور میں آزادانہ حکومت صرف پریوں کی کہانی ہے جو عوام الناس کو حقیقت سے بے خبر رکھنے کے لیے سنائی جاتی ہے تاکہ بینک اور کارپوریشن کے مالکان عوام کا استحصال کر سکیں"
"Corporations and banks are not limited by national borders, and neither are the oligarchs who own them. Nations and governments don’t exist anymore. Not in the sense that they used to, anyway. The notion of meaningfully separate, sovereign governments is at this time a fairy tale told to the masses to keep us from realizing that we’re all being thrown into the gears of an exploitative threshing machine that only exists to feed the avaricious agendas of a few ruling elites."[347]

فرانس نے اپنی سابقہ 14 افریقی نوآبادیوں کو مشترکہ کرنسی CFA franc کی مدد سے آج بھی اسی طرح جکڑ رکھا ہے جیسے نام نہاد آزادی سے پہلے جکڑا ہوا تھا۔[348]

"ہم اپنی عالمی سیاسی طاقت زمین پر زبردستی قبضہ کر کے نہیں بڑھاتے۔ ہم اپنی طاقت بڑھانے کے لیے معاہدے کرتے ہیں، اتحاد بناتے ہیں، نگرانی کے نظام، تجارت اورکارپوریشن کے معاہدے کرتے ہیں، خفیہ معاہدے طے پاتے ہیں اور اہم ترین جگہ پر دہشت گردی سے نمٹنے کے بہانے قبضہ کرتے ہیں۔ مہذب لوگوں کی طرح۔"
"We don’t expand our geopolitical power by blatant land grabs, we expand it with treaties, alliances, intelligence/surveillance deals, trade agreements, corporate contracts, secret pacts, and occupations of key strategic locations under the pretense of fighting terrorism. Like civilized people."[347]

1980 کی دہائی میں جاپان تیزی سے ترقی کر رہا تھا اور امریکا کو خطرہ ہونے لگا تھا کہ کہیں جاپان انڈسٹریل سُپر پاور نہ بن جائے۔ 1985 میں امریکا نے G5 ممالک کے ساتھ پلازا ایکورڈ (Plaza Accord) کا معاہدہ کیا۔ اس کے بعد جاپان کی معیشت ڈوبتی چلی گئی اور آج تک نہ سنبھل سکی۔[349] [350]

"امیر ترین طبقہ خفیہ طریقے سے ڈالر کی جگہ ایس ڈی آر کو عالمی ریزرو کرنسی بنانے میں مصروف ہے۔ اگلا مالیاتی بحران انہیں اپنے ہدف کے اور نزدیک لے آئے گا"
"Elites are working behind the scenes to ultimately replace the dollar with SDRs as the leading reserve currency. A new crisis will bring that goal one step closer to reality.[351]

ایس ڈی آر کی تفصیلات کے لیے دیکھیے آئی ایم ایف اور ٹریفن کا مخمصہ

جولائی 2015 تک سونے کا ذخیرہ رکھنے والے ممالک اور ادارے[352][353][354]
رتبہ ملک/ادارہ سونے کی مقدار
(ٹن)
زر مبادلہ کا حصہ جو
سونے کی شکل میں ہے
1  ریاستہائے متحدہ 8٫133.5 74%
2  جرمنی 3٫383.4 68%
3 آئی ایم ایف 2٫814.0 N.A
4  اطالیہ 2٫451.8 67%
5  فرانس 2٫435.4 65%
6  چین 1٫677 1%
7  روس 1٫250.3 13%
8  سویٹزرلینڈ 1٫040.0 7%
9  جاپان 765.2 2%
10  نیدرلینڈز 612.5 57%
11  بھارت 557.7 6%
12  ترکیہ[355] 513.0 16%
13 یورپی سینٹرل بینک 504.8 26%
14  تائیوان 423.6 4%
15  پرتگال 382.5 69%
16  وینیزویلا 367.6 69%
17  سعودی عرب 322.9 2%
18  مملکت متحدہ 310.3 10%
19  لبنان 286.8 21%
20  ہسپانیہ 281.6 19%

استحصال

"تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ کاغذی دولت (کیپیٹل) بدترین استحصال کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔ یورپ کے انڈیا، افریقہ اور جنوبی امریکا سے تعلقات اس کی واضح مثالیں ہیں۔ کاغذی دولت بے شمار موقعوں پر دوسرے ممالک کی ساری دولت ہتھیانے، انہیں معاشی طور پر کمزور کرنے اور ذلیل کرنے کے لیے استعمال کی گئی۔ خطرہ اس وقت اور بھی بڑھ جاتا ہے جب بہت منظم لوگ ایسے ممالک کے لوگوں سے ملتے ہیں جو کم تعلیم یافتہ اور کم ذہین ہوں۔"

But history shows that capital may be used for purposes of exploitation in the worst sense of the word. European relations with India in earlier times, and in more recent years with parts of Africa and South America, are particularly flagrant examples.
Capital has been employed in numerous instances to drain countries of their resources, to weaken them economically, and to degrade them morally. The danger is especially great when highly organised communities are brought into contact with primitive peoples of lower education and intelligence.[356]

تخلیقِ دولت

امریکی حکومت نے 1933ء تک 15 ٹن سونے سے 20 ڈالر کے یہ سکے بناے مگر جاری نہیں کیے اور انہیں دوبارہ پگھلا کر سونے کی اینٹوں میں تبدیل کر دیا
کیا دولت تخلیق بھی کی جا سکتی ہے؟ اس کا جواب ہے ہاں۔

بلا شُبہ سونا تخلیق نہیں کیا جا سکتا نہ چاندی تانبہ پیتل اور کانسی۔ مگر محنت کر کے اچھی فصل حاصل کی جا سکتی ہے جسے دھاتی کرنسی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح محنت کر کے ٹیکنالوجی (ٹیکنولوجی) میں ترقی کر کے ایسی اشیاء بنائ جا سکتی ہیں جو منڈی میں اچھی قیمت دے جائیں۔ محنت کر کے سونے چاندی وغیرہ کی کانوں سے دولت حاصل کی جا سکتی ہے۔ یعنی دولت محنت سے تخلیق ہوتی ہے[357] اور محنت کرنے والے مزدور ہی ہمیشہ سے دولت کے تخلیق کرنے والے رہے تھے کیونکہ ان کی محنت سے ہی خام مال قابل استعمال چیز کی شکل پاتا ہے اور استعمال کی جگہ تک پہنچتا ہے۔[358] دولت سے جو بھی چیز خریدی جاتی ہے اس پر کوئی محنت کر چکا ہوتا ہے۔ مزدور کے لیے دولت خون پسینے کی کمائ یا خون جگر کی کمائی ہے۔ مگر ڈالر چھاپنے میں کوئی خاص محنت صرف نہیں ہوتی اور چھاپنے والوں کو یہ دولت بغیر محنت کے مل جاتی ہے۔ یعنی ہوا میں سے دولت تخلیق کی جا سکتی ہے۔[359] محنت کر کے دولت حاصل کرنا دولت کمانا کہلاتا ہے اور یہ حق ہر ایک کو حاصل ہے۔ مگر بغیر محنت کے دولت تخلیق کرنے کا نا جائز حق محض چند لوگوں کو حاصل ہے جو بے حد امیر ہو چکے ہیں۔ یہ لوگ مرکزی بینکوں کے مالکان ہیں۔[360][361]
آج کل مہذبانہ زبان میں تخلیقِ دولت کو فریکشنل ریزرو بینکنگ کہا جاتا ہے۔[362]

تقریباً سو سال پہلے کسی مصنف نے بینک مالکان کے بارے میں لکھا تھا کہ (دنیا میں) "جتنا سونا ہے اس سے زیادہ کرنسی ہے اور جتنی کرنسی ہے اُس سے زیادہ دولت ہے۔ سونا کرنسی کی بنیاد ہے۔ کرنسی دولت کو منتقل کرتی ہے۔ جو کوئی بھی کرنسی کو تخلیق کرتا ہے وہ دنیا بھر کی دولت کی منتقلی کو کنٹرول کرتا ہے۔"(مثلاً بذریعہ ٹیلی گرافک ٹرانسفر، SWIFT, INSTEX وغیرہ)[363]

"اگر آپ دوسروں کی دولت کنٹرول کر سکتے ہیں تو جلد ہی آپ اس دولت کے مالک بھی بن سکتے ہیں"
"Controlled assets are a step away from being owned.[364]"
آئی ایم ایف کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ کاغذی کرنسی کی ایجاد سے پہلے ہندوستان اور چین دنیا کے امیر ترین ممالک تھے۔[365]
2016ء کے اختتام پر صورت حال
خطہ بینکوں کے اثاثے[366] ملکی آمدنی (GDP)[367] عالمی آبادی میں حصہ[368]
چین 33٫000 ارب ڈالر 21٫300 ارب ڈالر 18.5 %
یورو زون 31٫000 ارب ڈالر 19٫200 ارب ڈالر 6.7 %
امریکا 16٫000 ارب ڈالر 18٫600 ارب ڈالر 4.3 %
جاپان 7٫000 ارب ڈالر 4٫900 ارب ڈالر 1.7 %
اس گراف سے ظاہر ہوتا ہے کہ 28 سالوں میں 80 فیصد غریب اور متوسط طبقہ لوگوں کی حقیقی آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے جبکہ ایک فیصد امیر ترین لوگوں کی آمدنی پانچ گنا بڑھ چکی ہے۔[369]

اگر دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پچھلے دو ہزار سالوں میں اٹھارہ سو سالوں تک دنیا کا سب سے امیر ملک ہندوستان رہا ہے[370][371][372] اس کے بعد چین کا نمبر آتا تھا۔ ان ممالک میں محنت کرنے کے بھر پور مواقع موجود تھے اور خطیر مقدار میں پیداوار ہوتی تھیں۔[373] ان ممالک کا تجارتی سامان دنیا کے دور دراز علاقوں تک پہنچتا تھا۔ لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب کرنسی دھاتی ہوتی تھی اور مرکزی بینکوں کا عالمی گروہ موجود نہیں تھا۔ کاغذی کرنسی کے نظام نے محنت کرنے والوں کو افراط زر اور شرح تبادلہ کی شعبدہ بازی کی وجہ سے نہایت غریب کر دیا ہے۔ جبکہ کاغذی کرنسی چھاپنے والے اور اس کے سہارے شرح تبادلہ کنٹرول کرنے والے ممالک نہایت ہی امیر ہو گئے ہیں۔ یہ تیسری دنیا سے دولت کی منتقلی تھی جس نے مغربی ممالک کو خوشحالی عطا کی۔[374][375] [376]

1883ء میں کسی مصنف نے لکھا کہ علم کو طاقت کہا جاتا تھا لیکن دراصل علم دولت ہے۔ ترکی، شام، مصر اور شمالی افریقہ کے ساحلی علاقے امیر ترین علاقوں میں شمار ہوتے تھے لیکن اب ان کا حال قابل رحم ہے کیونکہ ان کے پاس علم کی کمی تھی۔[96] اس کے بعد ہندوستان اور چین کا بھی یہی حال ہوا۔ حقیقت یہ تھی کہ انہیں یورپ میں تیزی سے ترقی کرتی کاغذی کرنسی کی اصلیت کا علم نہ تھا۔

"اگر تمہیں خبر نہیں ہے کہ کریڈٹ (جاری کرنا) دولت حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے تو تم بالکل جاہل ہو۔"
If you were ignorant of this that Credit is the greatest Capital of all towards the acquisition of Wealth, you would be utterly ignorant.[377]

گوروں کی جاری کردہ یہ کاغذی دولت (کرنسی، ڈرافٹ، چیک، قرضہ، بل آف ایکسچینج، بونڈز، شیئرز وغیرہ) بے خبر تیسری دنیا کو کسی دیمک کی طرح چاٹ رہی تھی جبکہ گورا اس نئی دولت کے بل پر پوری دنیا کو غلام بنانے میں مصروف تھا۔

دیکھیے

” Does no one think it strange that the bankrupt Western nations, with their hopelessly crippled economies, and near-zero interest rates have (supposedly) the world’s “strongest currencies,” while the healthy and productive nations of Asia, South America, and elsewhere all have “weak currencies,” despite much higher interest rates? Not in the feeble world of the mainstream media.

Why is such serial currency manipulation completely censored by the corporate media propaganda machine? It is because if you manipulate the exchange rate of a currency higher, the price of everything else dominated in that currency automatically goes lower. Via the one tool of currency manipulation, these economic terrorists can literally destroy economies, and simultaneously move any and all prices.[378]

For nearly one hundreds years Western societies have thus enjoyed unprecedentedly high standards-of-living. This needless-to-say came at a great cost to the rest of the world.

A glaringly obvious and yet a mostly overlooked absurdity in global financial matters is the inability of nation-states to print their own currency based on their own economic forecasts and financial formulas. The sovereign right to independent print money has almost exclusively been relegated to Western institutions. This Western right to create money out of thin air and lend it to developing nations at interest lies at the very root of their power and influence. You take this right away from them, you take away their power and influence.[379]

rigging of the colony’s monetary system (which led to a period of prolonged instability through the interwar years)....Colonial India was the site of numerous failed and successful experiments that have a bearing on a substantial body of our theoretical and practical knowledge of currency and exchange rates and central banking, but (the author) Sunderland makes no attempt to examine this side of the story.[380]

یکم جنوری 1974ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے بینکوں کو نیشنالائز کر لیا[381] جسے عالمی بینکار کنٹرول کرتے تھے۔ عالمی بینکاروں کو للکارنے کی وجہ سے بھٹو کو 4 اپریل 1979ء کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔

"پھر ہم تمہیں ایک دہشتناک مثال بنا دیں گے" ہنری کسنگر
"Then we will make a horrible example of you!" (Henry Kissinger)[382]

اپنے دور اقتدار کے آخری حصہ میں جب صدر پرویز مشرف نے پاکستانی کرنسی خود چھاپ کر حکومتی اخراجات پورے کرنے شروع کیے تو انہیں آئی ایم ایف کی شدید ناراضی کا سامنا کرنا پڑا اور اگست 2008ء میں اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔

1997ء میں ایک سازش کے تحت ملیشیا کی کرنسی رنگٹ کی قدر اچانک گر کر تقریباً آدھی رہ گئی۔[383][384] اس پر ملیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ سارے اسلامی ممالک سونے کا دینار خود بنائیں اور آپس کی لین دین کے لیے امریکی ڈالر کی بجائے سونے کا دینار استعمال کریں۔ مہاتیر محمد نے اعلان کیا تھا کہ 2003 کے وسط تک وہ یہ دینار جاری کر دیں گے۔ ظاہر ہے کہ اگر ایسی سونے کی کرنسی میں لین دین کا رواج آ گیا تو شرح تبادلہ کی ضرورت ختم ہو جائے گی جس پر مغربی ممالک کی ثروت کا انحصار ہے۔ اس لیے 2003 میں مہاتیر محمد کو 22 سالہ وزارتِ اعظمی سے ہٹا کر عبداللہ احمد بداوی کو وزیر اعظم بنایا گیا جس نے ملکی سطح پر دینار جاری ہونے رکوا دیے۔ ملیشیا کی ایک اسٹیٹ کیلانتن نے پھر بھی 20 ستمبر 2006 کو سونے کے دینار جاری کیے جن کا وزن 4.25 گرام ہے اور یہ 22 قیراط سونے سے بنے ہوئے ہیں۔
صدام حسین نے بھی ایسی ہی جسارت کی تھی۔ 2000ء میں اس نے یہ کوشش کی تھی کہ عراق کو تیل کا معاوضہ امریکی ڈالر کی بجائے کسی اور کرنسی میں دیا جائے۔ َ[227] یہ امریکی ڈالر کی مقبولیت پر براہ راست وار تھا۔ اس کا یہ ناقابل معافی جرم آخر کار اسے لے ڈوبا۔
لیبیا کے معمر قذافی نے صدام حسین کے انجام سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور 2009ء میں افریقہ میں تجارت کے لیے سونے کا دینار نافذ کرنے کا ارادہ کیا[385] اس لیے اس کا بھی وہی حشر کرنا پڑا۔[386][387][388] 2007 سے ایران نے بھی اپنے تیل کی قیمت امریکی ڈالر میں وصول کرنا بند کر دی ہے[389][390] ایران یہ واضح کر چکا ہے کہ ہم پر حملہ ہونے کی صورت میں اسرائیل بھی میدان جنگ بن جائے گا۔[391]
ستمبر 2017ء میں وینیزویلا نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ وہ تیل کی قیمت ڈالر میں قبول نہیں کرے گا۔[392]
روسی صدر پیوٹن نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ 2018ء سے روس کی کسی بندرگاہ پر ڈالر وصول نہیں کیے جائینگے۔[393]

اگر آج بھی کاغذی کرنسی کی جگہ سونے چاندی کو خرید و فروخت کے لیے کرنسی کی طرح استعمال کیا جائے تو ہندوستان، چین اور تیل پیدا کرنے والے ممالک شائید امیر ترین ممالک بن جائیں۔ اس لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اس بات کا سب سے بڑا مخالف ہے۔ خیال رہے کہ آئی-ایم-ایف (بین الاقوامی مالیاتی فنڈ) ایک نجی ادارہ ہے اور کسی حکومت کے ماتحت نہیں ہے۔
پاکستان کے پاس لگ بھگ 65 ٹن سونا ہے اور پاکستان پر آئی-ایم-ایف کا شدید دباو ہے کہ یہ سونا بیچ کر کاغذی فورین ریزرو میں اضافہ کیا جائے جبکہ اس وقت زیادہ تر ممالک اپنے سونے کے ذخیرے میں اضافہ کرنے میں مصروف ہیں۔ اب تک پاکستان اپنا سونا بیچنے پر آمادہ نہیں ہوا ہے۔[394] پاکستان اپنے بجٹ کا 52 فیصد قرضوں کے سود کی ادائیگی پر خرچ کرتا ہے۔[395]
ہٹلر نے بڑے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ (اگر کرنسی آزاد ہو تو)کسی ملک کی دولت وہ سونا چاندی یا فورین ریزرو نہیں ہوتا جو مرکزی بینکوں کی تجوریوں میں بند پڑا ہوتا ہے یا مرکزی بینکوں کی ضمانت سے جاری ہوتا ہے۔ کسی ملک کی اصل دولت اس ملک کی پیداواری صلاحیت ہے۔ ملکی کرنسی کی قوت خرید اس وقت بڑھتی ہے جب تک پیداوار میں اضافہ ہوتا رہے۔ اور اس وقت گرتی ہے جب پیداوار میں کمی آتی ہے۔[396]
اگرچہ ہٹلر کو ہر لحاظ سے قابل تنقید سمجھا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ آج دنیا بھر کی حکومتیں ہٹلر کے معاشی پروگرام پر عمل پیرا ہیں۔ [397]

بریٹن اوڈز سسٹم بنا کر ڈالر نے دوسری کرنسیوں کی آزادی چھین لی۔ اگر ہندوستان کی کرنسی آزاد ہوتی تو اپنی کثیر پیداواری صلاحیت کی وجہ سے آج ہندوستان بھی ایک امیر ملک ہوتا۔ چین کی ترقی کی یہی وجہ ہے کہ چین اپنی کرنسی خود کنٹرول کرتا ہے۔

The United States, the world's largest economy in nominal terms, is approximately 25 percent of خام عالمی پیداوار، while the seven largest economies, including the European Union, compose 75 percent of the total.
دنیا کی تین چوتھائی آمدنی (جی ڈی پی) سات ممالک کو میسر ہے۔
امریکی منقولہ دولت بشمول قرض ارب ڈالر[398]
سونا [399] 291
کرنسی 1٫360
بینک اکاونٹ 10٫000
شیئر (اسٹاک) 20٫000
ٹریژری بونڈ 38٫000
Derivatives 220٫000
ڈیری ویٹو ایکسپوزر[400]
بینک مقدار
جے پی موگن چیز 48,000 ارب ڈالر
سٹی گروپ 47,000 ارب ڈالر
گولڈمین سیکس 42,000 ارب ڈالر
عالمی دولت
مثال مالیت[401]
دنیا کی ساری کرپٹوکرنسیاں 173 ارب ڈالر
دنیا بھر کی چاندی( 571,000 ٹن)[402] 312 ارب ڈالر
ایپل کمپنی 807 ارب ڈالر
دنیا کے 50 امیر ترین افراد 1900 ارب ڈالر
کیلیفورنیا کی جی ڈی پی 2900 ارب ڈالر
فیڈرل ریزرو کی بیلنس شیٹ 4500 ارب ڈالر
دنیا بھر کے سکے اور بینک نوٹ 7600 ارب ڈالر
دنیا بھر کا سونا (187,200 ٹن) 7700 ارب ڈالر
دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹ 73,000 ارب ڈالر
دنیا بھر کے قرضے 215,000 ارب ڈالر
دنیا بھر کی قابل استعمال جائیدادیں 217,000 ارب ڈالر
دنیا بھر کے ڈیریویٹو 1,200,000 ارب ڈالر (تخمیناً)


ٹائم میگزین کے مالک Marc Benioff نے 3 اکتوبر 2019ء کو ایک بیان دیا جس میں کہا کہ مجھے پوارا یقین ہے کہ ملٹن فرائڈمین کا دولت تخلیق کرنے والا کیپیٹلزم اب مر چکا ہے اور کوئی نیا نظام آنے والا ہے۔[403]

عالمی قرضے (یکم دسمبر 2019ء تک)
شعبہ قرضہ (ہزار ارب ڈالر)[404]
گھریلو 47.9
نون فائنینشیئل کارپوریشن 75.7
حکومتیں 70.0
فائنینشیئل کارپوریشن 61.7

گروس ورلڈ پروڈکٹ

اسے دنیا بھر کی پیداوار کے برابر مانا جاتا ہے کیونکہ تمام ملکوں کی کل ایکسپورٹ دوسرے تمام ملکوں کی کل امپورٹ کے عین برابر ہوتی ہے۔ اسے گلوبل جی ڈی پی یا ورلڈ جی ڈی پی بھی کہتے ہیں۔

سال گلوبل جی ڈی پی۔

ارب ڈالر[405]

2010 65٫339
2011 72٫423
2012 73٫777
2013 75٫467
2014 77٫269
2015 73٫507 تخمیناً
2016 76٫321 تخمیناً

ان اعداد سے پتہ چلتا ہے کہ صرف امریکا کی ڈیری ویٹو مارکیٹ پوری دنیا کی مجموعی پیداوار کا تین گنا ہو چکی ہے۔[406]

عالمی جی ڈی پی کی تقسیم، 1989[407]
آبادی کا حصہ آمدنی
امیر ترین 20% افراد 82.70%
دوسرے درجے کے 20% افراد 11.75%
تیسرے درجے کے 20% افراد 2.30%
چوتھے درجے کے 20% افراد 1.85%
غریب ترین 20% افراد 1.40%

کاغذی کرنسی اور جنگیں

"چونکہ روس کے برخلاف امریکا نے اسلحہ سازی نجی کمپنیوں کے حوالے کر دی ہے جو میدان جنگ میں کسی حد تک ذاتی فوج بھی استعمال کرتے ہیں اس لیے دوسرے ممالک پر حملے اور فوجی قبضے سے امریکی سرمائیہ کاروں کو منافع ہوتا ہے۔"
Because America (unlike Russia) privatized the weapons-industry (and even privatizes to mercenaries some of its battlefield killing and dying), there are, in America, profits for investors to make in invasions and in military occupations of foreign countries[408]
"جنگ کے زمانے میں ہارڈ کرنسی ترک کرنی پڑتی ہے کیونکہ کرنسی کی گراوٹ بیشتر جنگوں کا لازمی جُز ہے۔"
Hard money regimes are abandoned in wartime, because the debasement of money is a prerequisite of most wars.[37]
"ابتدا میں بننے والے سینٹرل بینکوں کو بڑی جلدی معلوم ہو گیا کہ کریڈٹ کا جاری ہونا یا روک دیا جانا طے کرتا ہے کہ جنگ کون جیتے گا۔" کوئی بھی جیتے، کریڈٹ مہیا کرنے والے بینکار ہمیشہ منافع میں رہتے ہیں۔
It did not take long for these nascent central bankers to realize the power that the extension or withholding of credit and setting of interest rates granted to those in control of credit... the power this credit held would be tantamount to the power to choose winners and losers in war[409][410]
"یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ساری جنگیں ہمیشہ بینکاروں کی جنگیں ہوتی ہیں۔"
It is important to remember that all wars are invariably banker wars[411][412]
دنیا کی سب سے بڑی اسلحہ ساز کمپنیاں
کمپنی کا نام ملک[413]
Lockheed_Martin امریکا
Northrop Grumman امریکا
Boeing امریکا
Raytheon امریکا

1913 میں امریکا میں فیڈرل ریزرو کے قیام سے آٹھ بینکار خاندانوں کا امریکی حکومت سے گٹھ جوڑ ہو گیا۔ اب یہ بینکار اپنے غیر ملکی نادہندگان کے خلاف امریکی افواج استعمال کرنے کی پوزیشن میں آ چکے تھے۔ مورگن، چیز اور سٹی بینک اب بین الاقوامی قرض جاری کرنے والے ادارے میں تبدیل ہو گئے۔[414] اب یہ بالکل واضح ہو چکا ہے کہ دونوں بڑی عالمی جنگوں کا مقصد برٹش پاونڈ کو بین الاقوامی ریزرو کرنسی کے درجے سے اکھاڑ پھینکنا تھا۔[298][415] پہلی جنگ عظیم کے دوران میں ڈالر بین الاقوامی کرنسی کے میدان میں پاونڈ کا حریف بن کر اترا اور پاونڈ کمزور ہوتا چلا گیا جبکہ ڈالر مضبوط ہوتا رہا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ڈالر نے پاونڈ کو پوری طرح برطرف کر دیا۔[197][416]

جرمنی میں جب 1933 میں نازی پارٹی الیکشن جیت کر حکومت میں آئی تو جرمنی کی معیشت بالکل تباہ و برباد ہو چکی تھی۔ 60 لاکھ لوگ بے روزگار تھے۔ پہلی جنگ عظیم میں شکست کے بعد جرمنی کو بھاری تاوان جنگ ادا کرنا پڑ رہا تھا۔ بیرونی سرمائیہ کاری کے امکانات بالکل صفر تھے۔ جرمنی کی ساری نو آبادیاں اس سے چھین لی گئیں تھیں۔ صرف چند سالوں میں سوا دو لاکھ افراد خودکشی کر چکے تھے۔ صورت حال کچھ ایسی تھی کہ ہر جرمن فرد پر 6000 مارک کا قرضہ تھا جبکہ اس کی جیب میں 14 مارک بھی نہیں تھے۔[417] لیکن صرف چار سال میں ہٹلر نے جرمنی کو دوبارہ یورپ کی مضبوط ترین معیشت بنا دیا۔ اس وقت تک جرمنی نے بڑے پیمانے پر اسلحہ سازی بھی شروع نہیں کی تھی۔ 1935 سے ہٹلر نے پرائیوٹ بینکوں سے قرض لینے کی بجائے حکومت کی جانب سے خود کرنسی چھاپنی شروع کر دی جیسا کہ کمیونسٹ حکومتیں کرتی ہیں۔ ہٹلر کی یہ کرنسی MEFO bill کہلاتی تھی۔ 1945 تک جرمنی یہ کرنسی چھاپتا رہا جس کی پشت پر نہ کوئی سونا تھا نہ کوئی قرض۔ جس وقت امریکا اور دوسرے یورپی ممالک میں لاکھوں لوگ بے روزگار تھے، جرمنی میں بے روزگاری ختم ہو چکی تھی۔ معیشت مضبوط ہو چکی تھی۔ عالمی بینکاروں کی طرف سے لگائی جانے والی معاشی پابندیوں اور بائیکاٹ کے باوجود جرمنی بارٹر سسٹم کی مدد سے دوسرے ممالک سے تجارت بحال کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔
ایک طرف جرمنی میں کرنسی چھاپنے کا اختیار حکومت نے پرائیوٹ بینکوں سے چھین لیا تھا دوسری طرف جاپان میں بھی کرنسی حکومت چھاپ رہی تھی۔ اور ان دونوں ممالک میں ترقی کی رفتار نہایت تیز تھی ۔[418] یہ صورت حال مرکزی بینکاروں کی برداشت سے باہر تھی۔ اگر دوسرے ممالک کے عوام بھی حکومتی کرنسی چھاپنے کا مطالبہ کر دیتے تو بینکاروں کا صدیوں پرانا کھیل ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا۔ اس لیے جرمنی اور جاپان کے خلاف دوسری جنگ عظیم شروع کی گئی۔[419] [396]
1945 میں جنگ عظیم دوم میں جاپان کو ایٹمی ہتھیاروں سے شکست دینے کے بعد وہاں سب سے پہلا کام کاغذی کرنسی کی تخلیق کے بلا سودی بینکاری نظام کو "درست" کیا گیا تھا اور امریکا برطانیہ، اٹلی اور فرانس کی طرح پرائیوٹ سنٹرل بینک قائم کیا گیا تھا۔ اس جنگ سے پہلے جاپان کا سینٹرل بینک حکومتی ملکیت میں تھا اور نوٹ چھپنے پر حکومت کو نہ قرض لینا پڑتا تھا نہ سود دینا پڑتا تھا۔[420] 1940 میں ایک ڈالر 4.27 جاپانی ین کے برابر تھا۔ 1950 میں ایک ڈالر 361.1 ین کے برابر ہو چکا تھا۔[421]

آج جاپان پر قرضے 23٫000 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں جو جی ڈی پی کا 245 فیصد ہیں۔[422]
اسی طرح دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کو شکست دینے کے بعد امریکا وہاں اپنا کرنسی کا نظام لانا چاہتا تھا مگر روس آڑے آ گیا۔ اس لیے امریکا برطانیہ اور فرانس کے زیر کنٹرول جرمن علاقوں میں فیڈرل ریزرو کی طرز پر ایک نیا سنٹرل بینک Bank deutscher Länder بنایا گیا اور نئی کرنسی ڈوئچے مارک نافذ کی گئی[423] جبکہ روس نے اپنے زیر کنٹرول جرمن علاقے میں اپنی کرنسی نافذ کی۔[424] اگر روس امریکا کا کرنسی پلان مان لیتا تو شائید نہ جرمنی دو حصوں میں تقسیم ہوتا نہ سرد جنگ شروع ہوتی۔[425]

سوئیزرلینڈ کے سونے کا ذخیرہ۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران میں سوئیزرلینڈ کے ایک طرف جرمنی اور اس کے حامی تھے اور دوسری جانب اتحادی افواج۔ اس لحاظ سے سوئیزرلینڈ کو تو محاذ جنگ ہونا چاہیے تھا۔ مگر جب سارا یورپ جنگ کی آگ میں جل رہا تھا اس وقت سوئیزرلینڈ میں نہ صرف کوئی جنگ نہ ہوئی بلکہ وہ دونوں متحارب فوجوں کو سامان جنگ بھی فروخت کرتا رہا۔ جنگ کے دوران میں امریکا، برطانیہ، کینیڈا، جرمنی، اٹلی اور فرانس نے سوئیس نیشنل بینک کو 3.8 ارب سوئیس فرانک کا سونا بیچا یعنی لگ بھگ 784.4 ٹن۔[426] بیسل، سوئیزرلینڈ میں بینک فار انٹرنیشنل سیٹلمنٹ کا مرکزی دفتر تھا جو سارے بڑے مرکزی بینکوں کا محور تھا اور یہ بینک ہی دونوں طرف کی فوجوں کو سامان جنگ کی خریداری کے لیے کاغذی سرمایہ سود پر فراہم کر رہے تھے۔ 1940 سے 1950 کے دوران میں امریکا اور فرانس پر قرضے 600 گنا بڑھے جبکہ جاپان پر 1348 گنا بڑھے۔ اس طرح مرکزی بینکوں کا منافع بھی خوب بڑھا[427][428] اسی طرح پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں امریکا، جو ایک مقروض ملک تھا، وہ 1919ء تک نوٹ چھاپ چھاپ کر قرضہ دینے والا سب سے بڑا ملک بن چکا تھا۔ پہلی جنگ عظیم شروع ہونے کے بعد ایک سال کے اندر امریکی ایکسپورٹ میں تین گنا اضافہ ہو چکا تھا اور امریکی تجارتی منافع تاریخ میں پہلی بار ایک ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا تھا۔ خیال رہے کہ امریکا اپنے اتحادیوں کو اسلحہ اور دیگر سامان کاغذی کرنسی کی بجائے سونے چاندی کے عوض بیچ رہا تھا۔[429] اس طرح بڑی مقدار میں سونا یورپ سے امریکا منتقل ہوا۔

7 اکتوبر 2001 میں افغانستان میں جنگ شروع ہوئی۔ جنگ جب عروج پر تھی اس وقت بون جرمنی میں مغربی مرکزی بینکوں کے ایک اجلاس میں افغانستان کے لیے ایک نئی کاغذی کرنسی تجویز کی گئی اور صرف تین مہینوں کے اندر افغانستان میں ایک نیا مرکزی بینک بنا کر 2 جنوری 2002 تک اس نئی کرنسی کو پوری طرح نافذ کر دیا گیا۔ اسی طرح 20 مارچ 2003 کو عراق کی جنگ شروع ہوئی اور ایک سال کے اندر اندر عراق میں نیا مرکزی بینک بنا دیا گیا اور نئی کاغذی کرنسی نافذ کر دی گئی۔[430] یہی سب کچھ لیبیا میں بھی ہوا۔ لیبیا میں 1956 سے مرکزی بینک حکومت کی ملکیت میں تھا۔ جاہل "انقلابیوں" نے محض چند ہفتوں میں نیا مرکزی بینک بنا دیا جو نجی تھا اور امریکی فیڈرل ریزرو کے مالکان کی ملکیت میں تھا۔ لیبیا کے پاس 150 ٹن سونا تھا جو جنگ کے بعد غائب ہے۔[431][432] [433] [434] کرنل قذافی کے پاس 6 ارب امریکی ڈالر تھے جن کا جنگ بعد کوئی اتا پتہ نہیں ہے۔[435] جنگ اور کاغذی کرنسی کا یہ رشتہ بہت پرانا ہے۔[436][437] اگلا ہدف ایران اور شمالی کوریا ہوں گے تاکہ وہاں بھی کرنسی پر مغربی بینکار اپنا تسلط قائم کر سکیں۔[438]
چین کا سنٹرل بینک (پیپلز بینک آف چائنا) پرائیوٹ نہیں بلکہ حکومتی ملکیت میں ہے اور چین کو کرنسی چھپنے پر نہ قرض لینا پڑتا ہے اور نہ سود دینا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے چین پر آج کوئی قرضہ نہیں ہے اور اس کی معیشت ترقی کر رہی ہے۔ اگر چین آئی ایم ایف کا مقروض ہوتا تو اسے بھی کئی ناجاِئز شرائط قبول کرنی پڑتیں۔ چین اپنی کرنسی کو float کرنے کا بھی شدت سے مخالف ہے کیونکہ بہت سے ممالک یہ غلطی کر کے کنگال ہو چکے ہیں۔[439] اگر چین کے پاس جوہری ہتھیار نہ ہوتے تو عالمی بینکار چین کو بھی کسی تیسری عالمگیر جنگ برپا کر کے اسی طرح تہس نہس کر دیتے جس طرح کرنسی چھاپنے کے جرم میں دوسری جنگ عظیم میں جرمنی اور جاپان کو کیا گیا تھا۔
امریکی بحریہ کے اعلیٰ ترین میجر جنرل اسمیڈلے بٹلر کو بحریہ کی تاریخ میں سب سے زیادہ اعزازات ملے۔ اس نے 1935 میں ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھاWar Is a Racket۔ وہ لکھتا ہے "جنگ صرف ایک ریکٹ ہوتی ہے۔ ریکٹ سے مراد ایسی چیز ہوتی ہے جو ویسا نہیں ہوتی جیسا کہ اکثریت سمجھ رہی ہوتی ہے۔ صرف اندر کے چند لوگوں کو ہی پتہ ہوتا ہے کہ دراصل کیا ہو رہا ہے۔ جنگ صرف اس لیے کی جاتی ہے تاکہ اُن چند لوگوں کو فائدہ پہنچے اگرچہ کہ اس میں لاکھوں لوگوں کا نقصان ہوتا ہے۔[440] وہ لکھتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم سے ان چند لوگوں کو 16,000 ارب ڈالر کا منافع ہوا۔[441] جبکہ جنگ، قحط، بیماری اور سردی کی وجہ سے 20 کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔

"1919ء کے معاہدۂ ورسائے سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم قومیت کی خاطر نہیں تھی بلکہ سلطنت اور حاکمیت کی خاطر تھی۔"
the پہلی جنگ عظیم کے اتحادی–German Treaty of Versailles (1919) as proofs that empire and hegemony—not nationalism—were the economic motivations for the First World War.[442]
"جنگ بزنس کے لیے بڑی اچھی چیز ہے اور عالمی جنگ تو اور بھی بہتر ہوتی ہے"۔[443]
War is also very good for business, and a world war is even better for business.
ملک کا نام سینٹرل بینک کا نام کب شروع ہوا جنگ سے تعلق[444]
سوئیڈن Sverige Riksbank 1688 جنگ کے دوران میں بنا
انگلینڈ Bank of England 1694 جنگ کے دوران میں بنا
فرانس Banque de France 1800 جنگ کے دوران میں بنا
فن لینڈ Bank of Finland 1811 جنگ کے دوران میں بنا
نیدرلینڈ Nederlandsche Bank 1814 جنگ کے دوران میں بنا
آسٹریا Austrian National Bank 1816 جنگ کے فوراً بعد بنا
ناروے Norges Bank 1816 جنگ کے فوراً بعد بنا
ڈنمارک Danmarks Nationalbank 1818 جنگ کے فوراً بعد بنا
پرتگال Banco de Portugal 1846 جنگ کے دوران میں بنا
بیلجیئم Belgian National Bank 1850
اسپین Banco de Espan˜a 1874
جرمنی Reichsbank 1876 جنگ کے بعد بنا
جاپان Bank of Japan 1882
اٹلی Banca D’Italia 1893
امریکا فیڈرل ریزرو 1913 پہلی جنگ عظیم سے فوراً پہلے بنا
پوری دنیا آئی ایم ایف 1946 دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد بنا

امریکا کے چوتھے صدر جیمز میڈیسن نے کہا تھا کہ "تاریخ میں محفوظ ہے کہ منی چینجروں نے کرنسی کو کنٹرول کر کے حکومت پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے ہر طرح کا ظلم، سازش، دھوکا اور پُر تشدد کاروائ کا استعمال کیا ہے"

"History records that the money changers have used every form of abuse, intrigue, deceit, and violent means possible to maintain their control over governments by controlling money and its issuance."

President James Madison

"دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکی کارپوریشنوں کے مالکان نے یہ سبق سیکھا کہ کاغذی کرنسی کے دور میں جتنا پیسہ جنگ سے بن سکتا ہے اتنا امن سے نہیں بن سکتا بشرطیکہ حکومت کا تعاون حاصل ہو۔"
During the Second World War, the wealthy owners and top managers of the big corporations learned a very important lesson: during a war there is money to be made, lots of money. In other words, the arduous task of maximizing profits – the key activity within the capitalist American economy – can be absolved much more efficiently through war than through peace; however, the benevolent cooperation of the state is required.[445]

کاغذی کرنسی اور غربت

امریکا کے تیسرے صدر تھامس جیفرسن نے1788ء میں کاغذی کرنسی کے بارے میں کہا تھا کہ یہ محض غربت ہے، یہ صرف رقم کا بھوت ہے رقم نہیں ہے۔

Paper is poverty... it is only the ghost of money, and not money itself

— 

امریکا کے ساتویں صدر اینڈریو جیکسن نے فروری 1834 میں ایک تقریر کے دوران میں کہا تھا "میں بڑے غور سے مشاہدہ کر رہا ہوں کہ بینک آف یونایٹڈ اسٹیٹ کیا کر رہا ہے۔ میرے آدمی کافی عرصے سے تم پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اب میں قائل ہو چکا ہوں کہ تم لوگوں نے بینک میں جمع شدہ رقم سے اشیاء خور و نوش پر سٹہ کھیلا۔ جب تم جیتے تو تم نے منافع آپس میں بانٹ لیا۔ اور جب تمہیں نقصان ہوا تو تم نے اسے بینک کے کھاتے میں ڈال دیا۔ تم مجھے بتاتے ہو کہ اگر میں تمہارے بینک کا سرکاری اجازت نامہ منسوخ کر دوں تو دس ہزار گھرانے برباد ہو جائینگے۔ معززین، ہو سکتا ہے یہ درست ہو لیکن یہ تمہارا گناہ ہے۔ اور اگر میں نے تمہیں اسی طرح کام کرنے دیا تو تم لوگ پچاس ہزار خاندان تباہ کر دو گے اور یہ میرا گناہ ہو گا۔ تم لوگ زہریلے سانپوں اور چوروں کا گروہ ہو اور میں تمہیں ہر حال میں ختم کر کے رہوں گا"[447] اگرچہ کانگریس نے بینک آف یونایٹڈ اسٹیٹ کی دوبارہ بحالی کا بل منظور کر لیا تھا مگر بعد میں اینڈریو جیکسن نے اسے ویٹو کر دیا تھا۔ 30 جنوری 1835 کو اینڈریو جیکسن پر قاتلانہ حملہ ہوا لیکن اس پر چلائی گئی دونوں گولیاں اسے نہیں لگیں۔

امریکا کے بیسویں صدر جیمز گارفیلڈ نے کہا تھا کہ جو کوئی بھی کسی ملک میں کرنسی کو کنٹرول کرتا ہے وہ دراصل ساری معیشت اور ساری صنعت کا مالک ہوتا ہے۔ اس صدر کو صدارت کے ساتویں مہینے میں 2 جولائی 1881 کو گولی مار دی گئی تھی۔ کوئی بھی حکومت زرِ کثیف (hard currency) کو پوری طرح کنٹرول نہیں کر سکتی جبکہ کاغذی کرنسی کو کنٹرول کرنا نہایت آسان ہوتا ہے۔

کاغذی کرنسی نے تقسیم دولت کا توازن انتہائ حد تک بگاڑ کر غربت کو تیزی سے دنیا بھر میں پھیلا دیا ہے۔[448] دولت بڑی سرعت سے محض چند لوگوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہوتی جا رہی ہے اور طبقۂ وسطیٰ (مِڈل کلاس) سکڑتا جا رہا ہے۔[449] امریکا کے سولہویں صدر ابراہم لنکن نے 21 نومبر 1864ء کو اپنے ایک خط میں عین اسی بات کی واضح پیشنگوئ کی تھی۔

"میں دیکھ رہا ہوں کہ عنقریب ایک بڑا بحران آنے والا ہے جو مجھے پریشان کر دیتا ہے اور میں اپنے ملک کی حفاظت کے خیال سے لرزنے لگتا ہوں.... کارپوریشنوں کو بادشاہت مل گئی ہے اور اعلیٰ سطح پر کرپشن آنے والی ہے۔ اور دولت کی طاقت (رشوت) لوگوں کی سوچ پرحاوی ہو کر اپنا راج جاری رکھنے کی پوری کوشش کرے گی یہاں تک کہ ساری دولت چند ہاتھوں میں سمٹ جائے اورجمہوریت تباہ ہو جائے۔ " چند ہی مہینوں بعد 1865ء میں ابراہم لنکن کو گولی مار دی گئی۔

— 

"I see in the near future a crisis approaching that unnerves me, and causes me to tremble for the safety of our country. Corporations have been enthroned, an era of corruption will follow, and the money power of the country will endeavor to prolong its reign by working upon the prejudices of the people, until the wealth is aggregated in a few hands, and the republic is destroyed.

— 

مارکو پولو نے کاغذی کرنسی کے بارے میں لکھا تھا کہ چین کی سلطنت کے بہترین خاندان تباہ و برباد ہو گئے اور عوام کے معاملات کنٹرول کرنے والے نئے لوگ آ گئے اور ملک قتل و غارت گری، جنگ اور انتشار کا شکار ہو گیا۔[451] چند صدیوں کے بعد کاغذی کرنسی کی وجہ سے ہندوستان، چین، ترکی، شام ،مصر اور تیسری دنیا کے دیگر خوشحال ممالک اسی طرح تباہ و برباد ہو گئے اور دنیا کے معاملات کنٹرول کرنے والے نئے لوگ (آئی ایم ایف، ورلڈ بینک) آ گئے۔

"یہ نہایت حیرانی کی بات ہے کہ ذہین لوگ کرنسی کے بارے میں اتنے بے خبر اور بے حس ہیں کہ انہوں نے زیادہ تر ممالک میں کئی صدیوں سے اس ظالمانہ نظام کو اپنے استحصال کی اجازت دی۔"
Bankers debt based money doesn’t serve local cities. Bankers debt- based interest bearing money doesn’t really save anyone but the bankers. This system is designed to oppress the poor, destroy the middle class, and keep everyone but themselves —the owners of the national bank —poor and in debt forever. The bankers’ money system does a very good job at this. It is amazing that intelligent people are so ignorant and apathetic about money that they have allowed the system to oppress them for hundreds of years in most countries.[452]
پچھلی دہائی میں غربت کی سب سے بڑی وجہ (دنیا بھر کے) سینٹرل بینکرز کا 30,000 ارب ڈالر تخلیق کرنا ہے۔
the biggest source of global inequality for the past decade: central banks that have injected over $30 trillion in liquidity in the past ten years (from 2010 to 2020)[453]

کاغذی کرنسی اور آزادی

بنیادی طور پر آزادی کی دو قسمیں ہوتی ہیں: معاشرتی اور معاشیاتی (یعنی اقتصادی)۔[454]
ہاورڈ بوفے (وارن بوفے کا باپ) امریکی کانگریس کا رکن تھا۔ 1948ء میں اس نے لکھا "کیا کاغذی کرنسی کا آزادی سے کوئی تعلق ہے؟ بظاہر کرنسی کا تعلق معاشیات سے ہے جبکہ آزادی کی نعمت سیاست سے وابستہ ہوتی ہے۔ لیکن جب ہم تاریخ دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ لینن، روزویلٹ، ہٹلر اور مسولینی نے عوام پر سونا رکھنے کی پابندی لگائی تھی۔ اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ سونے کے بغیر انسان اپنی بقا اور دوسرے مقامات پر منتقلی کے لیے سیاست دانوں کی مرضی کا محتاج ہو جاتا ہے"۔[165]

جہاں بھی پارلیمانی حکومت ہوتی ہے وہاں کرنسی کنٹرول کرنے والے بادشاہ ہوتے ہیں۔۔۔ ذلت آمیز غربت اور حد سے زیادہ امیری دونوں ساتھ موجود ہوتے ہیں۔
Wherever there is Parliamentary Government, the Money power rules....abject poverty, and flaunting wealth are always found together.[455]

کرنسی تخلیق کرنے والے اور کرنسی استعمال کرنے والے میں وہی رشتہ ہوتا ہے جو آقا اور غلام میں ہوتا ہے۔[41][456]

میرا خیال ہے کہ ہمارا موجودہ کیپیٹل ازم کا سسٹم درحقیقت غلامی کا دوسرا نام ہے۔
“I believe our current system of capitalism is slavery by another name...”[457]

ہارڈ کرنسی سے فی ایٹ کرنسی تک

تاریخ کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ سونے چاندی کے سکوں پر مشتمل کرنسی کے رواج کو ختم کر کے کاغذ کو کرنسی بنانے کے لیے بتدریج یہ مراحل اختیار کیے گئے تھے۔[268]

  • لیگل ٹینڈر (قانونی کرنسی) کے قوانین بنائے گئے۔ یہ درحقیقت price control کی ابتدا تھی۔
  • mintage monopoly یعنی ٹکسالوں پر اجارہ داری اختیار کی گئی۔ اس طرح کرنسی پر سے عوام کا عمل دخل ختم کر دیا گیا۔
  • یونٹ آف اکاونٹ (unit of account) اختیار کیا گیا یعنی سکوں کے وزن کی بجائے ایک نام (روپیہ، ڈالر یا پاونڈ) کو معیار مقرر کیا گیا۔
  • دو دھاتی نظام نافذ کیا گیا۔ یعنی متوازی نظام کی بجائے ان کی نسبت مقرر کر دی گئی جو بعد میں لازماً ناکام ہوجاتی ہے۔
  • مقرر نسبت ناکام ہونے پر گولڈ اسٹینڈرڈ اپنایا گیا اور چاندی ترک کر دی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ کاغذی رسید کو بھی معروف کیا گیا۔
  • سونے کو بھی ترک کر دیا گیا یعنی رسید کے بدلے سونا واپس کرنا (convertibility) ختم کر دیا گیا۔ اب کاغذی رسید ہی کرنسی کہلائی۔

امریکی ڈالر اور فیڈرل ریزرو

1694 سے پہلے انگلستان میں اپنے پاس جمع شدہ سونے سے زیادہ کی رسیدیں ( نوٹ ) چھاپنا (یعنی فریکشنل ریزرو بینکنگ) قانوناً جرم تھا۔ فرانس سے جنگ کی وجہ سے بادشاہ ولیم آف آرینج شدید مالی مشکلات کا شکار تھا۔ چند امیر سناروں نے بادشاہ کو 12 لاکھ پاونڈ کی خطیر رقم 8 فیصد سود پر اس شرط کے ساتھ قرض دینے کا وعدہ کیا کہ انہیں اپنے پاس جمع شدہ سونے سے زیادہ مالیت کی رسیدیں ( نوٹ ) چھاپنے کا حق دیا جائے۔ اس طرح 1694 میں ولیم پیٹرسن کو بینک آف انگلینڈ بنانے کی اجازت ملی۔ یہ حکومت کی طرف سے جعلی نوٹ چھاپنے کا پہلا اجازت نامہ تھا۔ اسی طرز پہ مئی 1716میں فرانس میں جنرل بینک اور دسمبر 1913 میں امریکا میں فیڈرل ریزرو (سینٹرل بینک) بنایا گیا۔

دنیا کے تقریباً ہر چھوٹے ملک میں وہاں کی کاغذی کرنسی وہیں کی حکومت جاری کرتی تھی تاکہ حکومتی آمدنی میں اضافہ ہو مگر حیرت کی بات ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی کاغذی کرنسی یعنی امریکی ڈالر امریکی حکومت جاری نہیں کرتی بلکہ یہ ایک نجی ادارے کی طرف سے جاری ہوتا ہے۔ فیڈرل ریزرو کو عام طور پر حکومتی ادارہ سمجھا جاتا ہے جبکہ حقیقتاً یہ ایک نجی ادارہ ہے جو ڈالر چھاپ کر حکومت امریکا کو نہ صرف قرض دیتا ہے بلکہ اس پر سود بھی وصول کرتا ہے۔[458] اپنی بے تحاشہ دولت کے باعث یہودیوں کا یہ ادارہ امریکی حکومت پر حکومت کرتا ہے۔[459][460][461] [462][463]

"there is no other agency of government which can overrule actions that we take" Alan Greenspan[464]

اس ادارے کے پس پردہ روتھشیلڈ خاندان کی دولت کا اندازہ پانچ ہزار ارب ڈالر ہے جبکہ دنیا کے امیر ترین سمجھے جانے والے شخص بل گیٹس کی دولت صرف چالیس ارب ڈالر ہے۔[465] اپنے نام فیڈرل ریزرو کے برعکس یہ ادارہ نہ تو فیڈرل ہے اور نہ ہی ریزرو۔[466]

مرکزی بینک جمہوری حکومت کی مدد سے عوام کو لوٹتے ہیں۔ بادشاہ مرکزی بینکوں کو کاغذی کرنسی چھاپنے نہیں دیتا اس لیے مرکزی بینک بادشاہت کے سخت دشمن ہوتے ہیں۔[467]
ایک مضحکہ خیز کارٹون جو 1797 میں جیمز گلرے نے کاغذی کرنسی کے خلاف بنایا تھا۔ نوٹوں کے کپڑے پہنے خزانے پر بیٹھی خاتون سے مراد بینک آف انگلینڈ ہے جبکہ مرد ولیم پٹ ہے جو اس وقت برطانیہ کا وزیر اعظم تھا۔

امریکی صدر تھامس جیفرسن نے کہا تھا کہ "میرے خیال میں بینکاری کے ادارے ہماری آزادی کے لیے زیادہ خطرناک ہیں بہ نسبت سر پہ کھڑی (دشمن کی) فوج کے"[468][469]
بینک آف انگلینڈ کے مالک ناتھن روتھشیلڈ کا کہنا تھا کہ مجھے کوئی پروا نہیں کہ انگلستان کے تخت پر کون سا پُتلا بیٹھا سلطنت چلا رہا ہے۔....جو برطانیہ کی کرنسی کو کنٹرول کرتا ہے وہی برطانوی سلطنت کو کنٹرول کرتا ہے اور یہ کرنسی میں کنٹرول کرتا ہوں۔[470] امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ہنری کیسنگر کا کہنا تھا کہ جو خوراک کو کنٹرول کرتا ہے وہ لوگوں کو کنٹرول کرتا ہے، جو توانائی کو کنٹرول کرتا ہے وہ سارے براعظموں کو کنٹرول کرتا ہے اور جو کرنسی کو کنٹرول کرتا ہے وہ پوری دنیا کو کنٹرول کرتا ہے۔[471]

صدر کینیڈی نے فیڈرل ریزرو کی اس اجارہ داری کو محسوس کر کے اس کے خلاف اقدام اٹھانے کی کوشش کی تھی۔ اس نے 4 جون 1963 کو ایک فرمان[472] جاری کیا تھا جس کے مطابق امریکی حکومت اپنے پاس موجود چاندی کے عوض خود امریکی ڈالر چھاپہ کرے گی۔ امریکا کے ڈالر چھاپنے والے نجی ادارے کے کرتا دھرتاوں نے فوراً خطرہ بھانپ لیا اور 22 نومبر 1963 کو صدر کینڈی کو اس جسارت پر قتل کروا دیا گیا۔[473][474][475][476][477] قتل سے صرف چھ دن پہلے صدر کینیڈی نے محکمہ خزانہ کو امریکی ڈالر چھاپنے کاحکم دیا تھا۔[478] اس وقت پاکستانی نوٹوں کی طرح امریکی ڈالر پر بھی ادائیگی کا وعدہ لکھا ہوتا تھا۔ صدر کینیڈی کے قتل کے صرف چار دن بعد فیڈرل ریزرو نے جو نوٹ جاری کیے ان پر ایسا کوئی وعدہ نہ تھا۔ صدر کینیڈی کے قاتل لی ہاروے اوسوالڈ کو جیک روبی نے سرعام قتل کر دیا اور بعد میں خود جیل میں بیمار ہو کر مرگیا۔( یا شائید زہر دے دیا گیا)

صدر کینیڈی کا وہ فرمان 9 ستمبر 1987 تک قانون کا حصہ رہا مگر اس پر عمل نہ ہوا۔ اس کے بعد صدر رونالڈ ریگن نے اسے منسوخ کر دیا۔ صدر کینیڈی کے قتل سے لگ بھگ سو سال پہلے مقبول امریکی صدر ابراہم لنکن کو 14 اپریل 1865 کو بھی اسی وجہ سے گولی مار دی گئی تھی کہ اس نے کاغذی نوٹ چھاپنے کا اختیار نجی بینکوں سے لیکر حکومت کے محکمہ خزانہ کو دے دیا تھا۔[479]

ماضی میں لوگ کاغذی کرنسی کو کئی بار ڈوبتا دیکھ چکے تھے اور اس پر اتنا اعتبار نہیں کرتے تھے۔[480] لوگوں کو کاغذی کرنسی کی طرف راغب کرنے کے لیے با قاعدہ قوانین بنائے گئے جن کے مطابق کاغذی نوٹ وصول کرنے سے انکار کرنا یعنی دھاتی سکے طلب کرنا جرم قرار دیا گیا تھا۔[481] لگ بھگ ساڑھے سات سو سال قبل قبلائی خان نے بھی چین میں اپنی کاغذی کرنسی نافذ کرنے کے لیے ایسا ہی قانون بنایا تھا کہ جو کوئی بھی اس کے ملک میں یہ کرنسی قبول کرنے سے انکار کرے گا اسے قتل کر دیا جائے گا۔[85] امریکا کے اس متنازع قانون کو آٹھ سال بعد ہی 1870 میں چیف جسٹس سالمن چیز نے امریکی آئین کے خلاف قرار دیا۔ امریکی صدر الیسیز گرانٹ نے اسی دن دو نئے جج بھرتی کیے جنہوں نے مخالفت میں ووٹ دے کر چیف جسٹس کے فیصلے کو پلٹ دیا۔[482]

1930 میں امریکی معیشت سخت کساد بازاری کا شکار تھی۔ فیڈرل ریزرو نے کرنسی کی فراہمی بڑھانے کی بجائے کم کر دی تھی۔ ڈالر کی گرتی ہوئی قیمت دیکھتے ہوئے بینکوں سے کاغذی کرنسی کے بدلے اپنا سونا چاندی واپس لینے کا رجحان آہستہ آہستہ بڑھتا جا رہا تھا۔ امریکی صدر روزویلٹ، جو ایک بینکار خاندان سے تعلق رکھتا تھا، نے 4 مارچ 1933 کو امریکا میں اپنی صدارت کا آغاز کیا اور دوسرے ہی دن سے 9 دنوں کے لیے بینک کی تعطیلات کا اعلان کیا تا کہ لوگ فیڈرل ریزرو سے اپنا سونا نہ نکلوا سکیں۔ صدر روزویلٹ سونے کی قیمت بڑھانا چاہتا تھا لیکن اس طرح سارا منافع عوام کی جیب میں چلا جاتا اور حکومت کو کچھ نہ ملتا۔[483] اس لیے 5 اپریل 1933 کو، یعنی صرف ایک مہینے بعد روزویلٹ نے ایک صدارتی فرمان[484] جاری کیا جس کے تحت امریکی شہریوں کو 100 ڈالر سے زیادہ مالیت کا سونا رکھنے پر پابندی عائید ہو گئی اور وہ اپنا زائد سونا فیڈرل ریزرو (جو ایک پرائیوٹ ادارہ ہے) کو ایک مہینے کے اندر اندر بحساب 20.67 کاغذی ڈالر فی ٹرائے اونس بیچنے پر مجبور ہو گئے۔ خلاف ورزی کی سزا دس ہزار ڈالر جرمانہ یا / اور دس سال قید تھی۔ اس زمانے کے دس ہزار ڈالر مئی ء2011 کے حساب سے سوا سات لاکھ ڈالر کے برابر تھے (بلحاظ سونے کی قیمت)۔ اس زمانے میں امریکا میں سونے کے سکّے چلتے تھے جنہیں لوگوں سے لے کر فیڈرل ریزرو نے کاغذ کے نوٹ تھما دیے۔ جب لوگوں کا سونا ہتھیا لیا گیا تو اگلے سال سونے کی سرکاری قیمت 20.67 سے بڑھا کر 35 ڈالر فی اونس کر دی گئی۔ ایک اندازے کے مطابق اس طرح 8000 ٹن سونا لوگوں سے چھن گیا[485]۔ اس کے چند دن بعد 23 مئی 1933 کو کانگرس کے ایک رکن مک فیڈن نے فیڈرل ریزرو اور محکمہ خزانہ کے کئی اعلیٰ عہدیداران کے خلاف اربوں ڈالر کے غبن کے الزامات عائد کیے لیکن معاملہ دبا دیا گیا اور ان الزامات کا آج تک جواب نہیں دیا گیا ہے۔[478] میک فیڈن پر دو بار قاتلانہ حملہ ہوا مگر وہ بچ نکلا۔ 1936 میں وہ پراسرار موت مارا گیا۔

8 نومبر 2002 کو فیڈرل ریزرو کے گورنر بن برنانکے نے جامعہ شکاگو میں ایک تقریر کے دوران یہ تسلیم کیا کہ 1930 کے کساد عظیم کی اصل وجہ فیڈرل ریزرو تھا۔[486]

31 دسمبر 1974 کو امریکیوں کو سونا رکھنے کی اجازت دوبارہ دے دی گئی۔[487] اس کے ساتھ ہی کومکس (Comex) میں کاغذی سونے (گولڈ فیوچر) کے کاروبار کا آغاز ہوا۔[488] سونے کی قیمت گرانے کے میکینزم میں کاغذی سونے کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔[489]

فیڈرل ریزرو کے پاس موجود 8133.5 ٹن سونے کی پچھلے کئی سال سے کوئی قابل اعتبار جانچ پڑتال نہیں ہوئی ہے۔[490][491][492] اس میں سے 7,715 ٹن فورٹ ناکس میں رکھا ہوا ہے اور 418 ٹن نیویارک کے فیڈرل ریزرو میں موجود ہے۔[493]

یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اس سونے کے مالکان کون کون ہیں۔[494] کہا جاتا ہے کہ فیڈرل ریزرو میں موجود 5890 ٹن سونے میں سے 93 فیصد سونا غیر ملکیوں کا ہے۔ اسی طرح بینک آف انگلینڈ کے 5130 ٹن سونے کا صرف 6 فیصد برطانوی حکومت کی ملکیت ہے۔[495] جرمنی کا 1500 ٹن سونا فیڈرل ریزرو کے پاس بطور امانت رکھا ہوا ہے جسے اب فیڈرل ریزرو واپس کرنے پر آمادہ نہیں۔[496] اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ چین کا بھی کم از کم 600 ٹن سونا فیڈرل ریزرو کے پاس محفوظ ہے۔[357] خیال رہے کہ نیویارک کا فیڈرل ریزرو بڑی مقدار میں سونا رکھوانے والوں سے کوئی فیس نہیں لیتا لیکن بعد میں انہیں اپنے سونے کی پڑتال کی اجازت بھی نہیں دیتا۔[497]
اسی طرح جب 2018ء میں وینیزویلا نے بینک آف انگلینڈ سے اپنا 14 ٹن سونا واپس طلب کیا تو بینک نے انکار کر دیا۔[498]

1981ء میں امریکی صدر رونالڈ ریگن نے ایک گولڈ کمیشن تشکیل دیا تاکہ معلوم ہو سکے کہ امریکی حکومت کے پاس کتنا سونا موجود ہے۔ اس کمیشن نے تحقیقات کر کے بتایا کہ امریکی حکومت کے پاس کوئی سونا نہیں ہے۔ فورٹ نوکس میں محفوظ سونا تو فیڈرل ریزرو کے پاس رہن رکھا گیا ہے جو قرضہ واپس کرنے پر ہی ملے گا۔ [499] شبہ کیا جاتا ہے کہ مرکزی بینکوں کے پاس اب اتنا سونا نہیں بچا ہے جتنا کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں۔[500][501][502][503] فیڈرل ریزرو پہلے تو ہر سال ایسے اعداد و شمار جاری کرتا تھا جس سے پتہ چل سکے کہ اس نے کتنے ڈالر چھاپے ہیں۔ اگرچہ کہ یہ اعداد و شمار کبھی بھی شک و شبہ سے بالاتر نہیں رہے لیکن اب اس ادارے نے اعداد و شمار جاری کرنے سے ہی صاف انکار کر دیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہماری مرضی ہم جتنے چاہیں ڈالر چھاپیں۔ تم کون ہوتے ہو پوچھنے والے؟[504] شائید اسی وجہ سے اب تک کرنسی نوٹوں پر بار کوڈ (Barcode) نہیں ڈالا گیا۔
2007 کے بعد جب فیڈرل ریزرو کے اکاونٹ سے 9000 ارب ڈالر غائب ہوئے تو امریکی حکومت کوئی تفتیش نہیں کر سکی۔[505]

سنہ جاری شدہ امریکی ڈالر M3
ارب ڈالر میں
امریکی حکومت پر قرضہ
ارب ڈالر میں[506]
1960 315.2 290.2
1970 677.1 389.2
1980 1995.5 930.2
1990 4154.6 3233.3
2000 7,117.7 5,674.2
2005 10٫191.4 8٫170.4
2007 اعداد جاری نہیں کیے گئے 10٫245.2
2010 اعداد جاری نہیں کیے گئے 14٫025
16 نومبر2011 اعداد جاری نہیں کیے گئے 15٫000
17 اکتوبر 2013 اعداد جاری نہیں کیے گئے 17٫040
3 فروری2016 اعداد جاری نہیں کیے گئے 19٫000
13 ستمبر 2017 اعداد جاری نہیں کیے گئے 20٫166
20 مارچ 2018 اعداد جاری نہیں کیے گئے 21٫036
12 فروری 2019 اعداد جاری نہیں کیے گئے 22,000
یکم نومبر 2019 اعداد جاری نہیں کیے گئے 23,000
5 ستمبر 2020 اعداد جاری نہیں کیے گئے 26,700
متحدہ امریکہ میں رائج مختلف شرح سود

ستمبر 2017ء تک پچھلے 88 سالوں میں امریکی حکومت پر قرضوں میں 1200 گنا اضافہ ہوا۔

جب تک کرنسی سونے چاندی کے سکوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی اس وقت تک کسی ایک کی بچت کسی دوسرے کا قرض بنتی تھی۔ قابل تخلیق کرنسی نے ہزاروں سال پرانا یہ اصول توڑ دیا ہے۔ اب فریکشنل ریزرو بینکنگ کی مدد سے بینک کرنسی تخلیق کر کے قرضے جاری کرتے ہیں۔

"جتنا امریکا قرض لیتا ہے اتنی بچت تو پوری دنیا میں نہیں ہوتی"
U.S. Borrowing Faster Than the World Saves[507]

فیڈرل ریزرو کے پاس موجود 8133.5 ٹن سونے کی کل مالیت 291.3 ارب ڈالر ہے (30 ستمبر 2015 کی قیمت) جبکہ صرف چین کے عوام کے پاس 1850 ارب ڈالر کے مساوی رقم بینکوں کے سیونگ اکاونٹ میں جمع ہو چکی ہے۔[508] کاغذی کرنسی کی گرتی ہوئی قوت خرید اور بڑھتے ہوئے عدم اعتماد کی وجہ سے اگر چینی عوام اپنی بچت کا صرف پانچواں حصہ سونے کی شکل میں محفوظ کرنے کا فیصلہ کریں تو امریکا اور برطانیہ کے سینٹرل بینک بالکل کنگال ہو جائیں گے۔
امریکی حکومت نے 8 جنوری 1835ء میں اپنے اوپر واجب الادا سارا قرضہ اتار کر حساب بےباق کر دیا تھا۔ لیکن اگلے 174 سالوں میں یعنی 2009ء تک امریکی حکومت پر 11000 ارب ڈالر کا قرض دوبارہ چڑھ چکا تھا۔ اور اس کے بعد صرف دس سالوں میں یہ قرض دو گنا ہو کر 22000 ارب ڈالر سے زیادہ ہو گیا[509] (یعنی ہر امریکی شہری پر 67,000 ڈالر کا قرض) جو عوام اور ان کے بچوں نے ٹیکس کی صورت میں ادا کرنا ہے۔ جب کرنسی سونے چاندی کے سکوں پر مشتمل ہوتی ہے تو بینکوں کے لیے ناممکن ہو جاتا ہے کہ وہ حکومت اور عوام پر اتنا قرضہ چڑھا سکیں لیکن قابل تخلیق کرنسی نے حکومت اور عوام دونوں کو سینٹرل بینک کے مالکان کے ہاتھوں یرغمال بنا دیا ہے۔ اگر اندرونی قرضے (جیسے میڈیک ایڈ، میڈیکیئر، سوشل سیکیورٹی) بھی شامل کر کے حساب لگایا جائے تو قرض کی یہ رقم 77٫000 ارب ڈالر سے تجاوز کر جاتی ہے۔[510][511] صاف ظاہر ہے کہ امریکی حکومت کبھی بھی یہ قرض ادا نہیں کر سکتی (قرض کبھی مزید قرض سے ادا نہیں ہوتا[512][513])۔ اور نہ ہی فیڈرل ریزرو کبھی اتنی رقم کا مالک رہا تھا جو اس نے قرض دی ہے۔ فیڈرل ریزرو نے یہ ساری رقم چھاپ کر قرض دی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر فیڈرل ریزرو یہ ساری رقم چھاپ سکتا ہے تو امریکی حکومت خود کیوں نہیں چھاپ لیتی؟ اگر حکومت خود چھاپے تو نہ قرض ادا کرنا پڑے گا نہ سود دینا پڑے گا۔ اس کی وجہ سو سال پرانا اور دھوکے سے بنایا گیا ایک غلط قانون ہے جس کے مطابق صرف فیڈرل ریزرو کو کرنسی چھاپنے کا اختیار دیا گیا ہے(دیکھیے جزیرہ جیکل کا عفریت) اور جو کوئی بھی اس قانون کی منسوخی کی بات کرتا ہے اسے ہمیشہ کے لیے خاموش کرا دیا جاتا ہے۔ ایسے ہی کالے قوانین برطانیہ فرانس اور اٹلی میں بھی پہلے ہی سے موجود ہیں جو صرف پرائیوٹ سینٹرل بینکوں کو نوٹ چھاپنے کا حق دیتے ہیں۔ کیپیٹل ازم اور جمہوریت میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔[514] کیمونسٹ حکومتیں پرائیوٹ سینٹرل بینک کو کرنسی چھاپنے نہیں دیتیں اور اپنی کرنسی خود چھاپتی ہیں۔

متحدہ امریکا پر 2000 ارب ڈالر کا قرضہ چڑھنے میں 210 سال لگے۔ اس کے بعد (13 جون 2020ء تک) صرف دو مہینے اور دو دنوں میں مزید 2000 ارب ڈالر قرض لیے گئے (اور کل قرضہ 26,000 ارب ڈالر سے زیادہ ہو گیا)۔ (اگر 2000 ارب ڈالر پوری دنیا کی آبادی میں تقسیم کیے جائیں تو بچے بوڑھے سمیت ہر مرد عورت کے حصے میں 30،000 پاکستانی روپے آئیں گے۔ ریزرو کرنسی کا درجہ رکھنے کی وجہ سے جتنے ڈالر امریکا چھاپتا ہے اُتنی دولت دنیا بھر سے امریکا منتقل ہوتی ہے۔)
Peter Schiff tweeted: It took the nation 210 years to run the National Debt up to $2 trillion. It took exactly 2 months and 2 days to add the most recent $2 trillion.[515]

امریکی حکومت نے 2013ء میں اپنے اس سارے قرضوں پر 2.4 فیصد سود ادا کیا ہے یعنی 416 ارب ڈالر عوام سے بطور اضافی ٹیکس وصول کر کے فیڈرل ریزرو کے مالکان کو بطور ذاتی منافع ادا کیا ہے جبکہ اسی سال ڈیفنس کا بجٹ 640 ارب ڈالر تھا۔۔[516] یعنی اگر یہ صرف نوٹ چھاپنے کا معاوضہ ہے تو پھر یہ کروڑوں گنا زیادہ ہے۔ خیال رہے کہ 416 ارب ڈالر کی رقم پاکستان کے 2012–2013 کے بجٹ کا 6 گنا ہے۔[517] اس طرح عوام کی دولت کو امیر بینکاروں تک منتقل کرنے میں جمہوری حکومت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اگر سینٹرل بینک سرکاری ملکیت میں ہوں تو عوام اس اضافی ٹیکس سے با آسانی بچ سکتے ہیں۔
It is a conspiracy between the U.S. Treasury and the Federal Reserve to defraud the general public.[518]

فیڈرل ریزرو کا کہنا ہے کہ اب اس کے پاس جمع شدہ سونے کی مالیت کے اعتبار سے ڈالر چھاپنے کی ضرورت نہیں رہی ہے بلکہ وہ اقتصادی سرگرمی کے لحاظ سے ڈالر چھاپ رہا ہے۔
ڈالر چھاپ چھاپ کر ہوتی یہ عیاشی دیکھ کر یورپ والوں کو بھی مزے لوٹنے کا خیال آیا۔[311] چونکہ یورپ کا کوئی ملک اتنا مضبوط نہیں تھا کہ اکیلا امریکی ڈالر کا مقابلہ کر سکے اس لیے انہوں نے مل کر یورو جاری کیا جس کے بعد ڈالر کی اجارہ داری میں قدرے زوال آیا۔ یورو کو اصل سہارا جرمنی کے مضبوط مارک سے ملا ہے۔ یورپ کے صرف دو ممالک (ناروے اور برطانیہ) خاطر خواہ مقدار میں خام تیل کی پیداوار رکھتے ہیں اور ان دونوں ممالک نے یورو کرنسی نہیں اپنائی۔

مختلف عالمی کرنسیوں کی مقدار (فیصدمیں)۔

مقداری تسہیل (Quantitative Easing)

نوٹ چھپنے سے معیشت کے مختلف حصوں پر مختلف اثرات۔[519] رئیل ایسیٹ پرائیس (اسٹاک، پلاٹ) سے امیروں کی آمدنی ظاہر ہوتی ہے۔ کنزیومر پرائیس لیول غریبوں کے اخراجاتِ زندگی ظاہر کرتا ہے۔

2007 سے شروع ہونے والے زبردست مالی بحران[520] نے امریکا اور یورپ کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور ان ممالک کی معیشتوں کے بالکل بیٹھ جانے کا خطرہ ہو گیا ہے۔[521] ڈر اس بات کا بھی ہے کہ لوگوں کا کاغذی کرنسی سے اعتبار ہی نہ اٹھ جائے جیسا کہ سونے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے اندازہ ہو رہا ہے۔ ستمبر 2008 کے وسط میں امریکا کے 13 بڑے مالیاتی اداروں میں سے 12ادارے صرف دو ہفتوں میں ڈوبنے کے نزدیک پہنچ چکے تھے۔[522] حالانکہ صرف ایک سال پہلے فیڈرل ریزرو کے گورنر بن برنانکے نے بیان دیا تھا کہ رہن اور قرض کی کنگالی (mortgage defaults) سے امریکی معیشت کو کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے۔[523] اس بدترین بحران کے بعد امریکا میں فیڈرل ریزرو، انگلستان میں بینک آف انگلینڈ، یورپ میں یورپی مرکزی بینک، جاپان میں بینک آف جاپان اور چین میں پیپلز بینک آف چائنا [524] نے کاغذی کرنسی بڑی مقدار میں چھاپ کر قرض دینا اور دوسرے بینکوں سے مال خریدنا شروع کر دیا ہے تا کہ زیر گردش نوٹوں کی تعداد میں اضافہ ہو اور معیشت رواں رہے۔[525] اس حکمت عملی کو نوٹ چھپائی کی بجائے "مقداری تسہیل" (QE) [526][527] قرار دیا گیا ہے۔[528][529] زیر گردش نوٹوں کی تعداد (لیکویڈیٹی liquidity) میں اضافہ مالیاتی منڈیوں کے لیے shock absorber کا کام کرتا ہے لیکن حقیقی منڈیوں کو سخت نقصان پہنچاتا ہے۔[530] مقداری تسہیل دراصل منفی شرح سود کا متبادل ہوتی ہے۔

When accounting for quantitative easing, the"shadow" Fed Fund rate was actually negative from 2009 to 2015[531]

"جب حکومتی قرضے اور ڈالر دونوں ڈوبنے لگیں تو وہ واحد چیز جو شیئر مارکیٹ کو بچا سکتی ہے وہ مقداری تسہیل ہے"

[532] When Bonds & The Dollar Sink, The Only Thing That Can Save Stocks Is QE
مقداری تسہیل (حالیہ نوٹ چھپائی)[533]
ملک کب شروع ہوئی کب ختم ہوئی[534] امریکا میں کتنے ڈالر چھپے
جاپان 2001ء ابھی جاری ہے
متحدہ امریکا (پہلی) 25 نومبر 2008ء 31 مارچ 2010ء 200 ارب ڈالر
متحدہ امریکا (دوسری) 13 نومبر 2010ء 29 جون 2012ء 550 ارب ڈالر
متحدہ امریکا (تیسری) 13 ستمبر 2012ء 29 اکتوبر 2014ء 1663 ارب ڈالر
یورپی سینٹرل بینک 2015ء ابھی جاری ہے
متحدہ امریکا ('Not QE') ستمبر 2019ء اگلی QE میں ڈھل گئی
متحدہ امریکا (QE infinity) 16 مارچ 2020ء[535]
جب اسٹاک مارکیٹ 40 فیصد ڈوب گئی
ابھی جاری ہے 2409 ارب ڈالر

امریکا میں پہلی مقداری تسہیل نومبر 2008 سے مئی 2010 تک جاری رہی۔ دوسری مقداری تسہیل نومبر 2010 سے جون 2011 تک جاری رہی۔ تیسری مقداری تسہیل 13 ستمبر 2012 سے شروع کی گئی ہے جس میں شروع میں ہر ماہ 40 ارب ڈالر چھاپے گئے لیکن بعد میں ہر ماہ 85 ارب ڈالر چھاپے جانے لگے۔[536] یعنی ہر گھنٹے میں ساڑھے گیارہ کروڑ ڈالر۔ یہ مقدار دنیا بھر میں ہر گھنٹے میں بازیاب ہونے والے سونے کی مالیت سے دس گنا زیادہ ہے۔ دنیا کی دوسری کاغذی کرنسیاں اس کے علاوہ ہیں۔ دسمبر 2008 سے دسمبر 2013 تک کے پانچ سالوں میں دنیا بھر میں کاغذی کرنسی میں ہونے والا اضافہ 35 فیصد سے زیادہ ہے۔[537] امریکا میں تیسری مقداری تسہیل 29 اکتوبر 2014 تک جاری رہی ۔

فیڈرل ریزرو کی سو سالہ 'بیلنس شیٹ'

یہ مرکزی بینک اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے وفاقی ذخائر کی شرح سود (Federal Fund Rate) میں اضافہ نہیں ہونے دے رہے جو ٹیلر کے اصول کے مطابق نوٹ زیادہ چھاپنے کا قدرتی نتیجہ ہوتا ہے۔ اندازہ ہے کہ امریکا میں5000 ارب ڈالر اس عرصہ میں مقداری تسہیل کے نام پر چھاپے گئے۔ یہ اتنی بڑی مقدار ہے کہ بچے بوڑھے سمیت ہر امریکی کو 17000 ڈالر دیے جا سکتے تھے[538]۔ 85 ارب ڈالر ماہانہ کی رقم سے دو کروڑ لوگوں کو سالانہ 50٫000 ڈالرتنخواہ دے کر کوئی ملازمت دی جا سکتی ہے اور بے روزگاری بڑی آسانی سے ختم کی جا سکتی ہے مگر امریکا میں بے روزگاری میں پھر بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اتنی رقم سے امریکا کا ہر طالب علم چار سال یونیورسٹی میں پڑھ سکتا ہے یا دنیا سے بھوک 30 دفعہ ختم کی جا سکتی ہے۔ مگر یہ ساری رقم عوام تک نہیں پہنچ رہی بلکہ بینکاروں کو مزید امیر بنا رہی ہے۔[539][540] مرکزی بینکوں کا تخلیق کردہ یہ سرمائیہ صرف اسٹاک مارکیٹ میں تیزی لا رہا ہے۔[541]

"Central banks are ruling markets to a degree this generation has not seen."[542]

قانون کے مطابق متحدہ امریکا میں کسی کمپنی کو اجازت نہیں تھی کہ وہ اپنے ہی جاری کردہ شیئر (اسٹاک) خود ہی خرید لے کیونکہ اس طرح وہ اپنے شیئر کی قیمت بڑھا سکتی ہے۔ لیکن 1982ء میں یہ قانون ختم کر دیا گیا۔ 2008ء کے مالی بحران (کساد بازاری) کے بعد امریکا کی کمپنیوں نے دس سال میں 5000 ارب ڈالر سے خود اپنے شیئر خریدے اور بظاہر اسٹاک مارکیٹ کو مندی بچایا۔ [543][544] [545] نوٹ چھاپ کر سرمائیہ معیشت کو مہیا کرنے کی بجائے مالیاتی منڈیوں کو مہیا کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے گاڑی چلانے کے لیے پٹرول ٹینکی کی بجائے ریڈی ایٹر میں ڈالا جائے۔[546]

"بینک یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ کھاتے داروں کی جمع کرائی ہوئی رقم سے قرضے جاری کرتے ہیں۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ 90 فیصد قرض دی جانے والی رقم صرف کھاتہ کرنسی سے تخلیق ہوتی ہے۔"
"today about 90% of all the money is accounting money, created by loans the banks make to enterprises and private citizens. Pretending that banks use deposits to make loans, is not true.” [547]

اگر جی ڈی پی کی بجائے وصول ہونے والے ٹیکس سے موازنہ کیا جائے تو جاپان کے قرضے جی ڈی پی کا 9 گنا،یونان کے 5 گنا اور امریکا کے 4 گنا ہو چکے ہیں۔[548]

"Centrals banks have become the world’s largest investors, mostly with printed money. This is inflating global asset prices at an unprecedent rate. Negative bond yields are just one consequence of this financial distortion."[549]
“Dark Money” Runs the World[550]

منطقی بات یہ ہے کہ اگر زبوں حال معیشت کے لیے مقداری تسہیل اتنی ہی کارآمد چیز ہے تو اسے مستقل بنیادوں پر کیوں نہیں اپنا لیا جاتا؟ صرف برے وقت میں ہی کیوں اس سے استفادہ کیا جاتا ہے؟ وجہ صاف ہے کہ مقداری تسہیل سے ملنے والا سہارا عارضی ہوتا ہے اور بعد میں اس کی قیمت زبردست افراط زر ( مہنگائ ) کی شکل میں چکانی پڑتی ہے۔[551][552]

QE is a stagflation machine[553]
تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی ملک نے بجٹ کا بڑا خسارہ نوٹ چھاپ کر پورا کیا اور پھر مہنگائی سے بچ سکا۔
Never in history has a country that financed big budget deficits with large amounts of central-bank money avoided inflation. Allen Meltzer, May of 2014[554]

نجی شعبے کے قرض نہ لینے کے باوجود امریکا قانونی ضرورت سے 15 گنا زیادہ اور جاپان 26 گنا زیادہ ریزرو بنا چکا ہے۔ [555] سوئزرلینڈ کا مرکزی بینک SNB ایک نجی ادارہ ہے اور اس کی بیلینس شیٹ جو 2008ء میں لگ بھگ 100 ارب فرانک تھی وہ 2017ء میں 800 ارب فرانک ہو چکی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ بینک دنیا کی سب سے زیادہ منافع کمانے والی کمپنی ہے اور ایپل کمپنی کے 2 ارب 80 کروڑ ڈالر کے شیئرز کی مالک ہے[556] سن 2008ء میں دنیا کے 6 بڑے مرکزی بینکوں کی آمدنی عالمی جی ڈی پی کا 17 فیصد تھی۔ 2018ء میں یہ 40 فیصد ہو چکی ہے۔[557] دنیا کے بڑے بڑے مرکزی بینکوں کے مالکان حکومتوں کی مدد سے عوام کو نچوڑ رہے ہیں۔[430][558][559]

"یہ جاپان یورپ اور برطانیہ کے سینٹرل بینکوں پر امریکی بالا دستی ہے جس نے امریکی پونزی اسکیم کو سہار رکھا ہے۔ جس دن کوئی سینٹرل بینک ڈالر کو سہارا دینا بند کر دے گا اس دن سارا پول کھل جائے گا"

"It is Washington’s hegemony over Japan, Europe, and the UK that protects the American Ponzi scheme. The moment one of these central banks ceases to support the dollar, the others would follow, and the Ponzi scheme would unravel."[560] نوبل انعام یافتہ امریکی ماہر معاشیات ملٹن فریڈمین کا کہنا تھا کہ آج کا ناقابل حل معاشی مسئلہ یہ ہے کہ فیڈرل ریزرو سے کیسے جان چھڑائ جائے۔

ایک بہت بڑے بینکار کا کہنا ہے کہ مقداری تسہیل صرف اس وقت کارآمد ہو سکتی ہے جب دنیا کا صرف ایک ملک اسے اپنائے۔ لیکن جب بہت سارے ممالک مقداری تسہیل شروع کر دیں تو اسے کرنسیوں کی جنگ یا beggar thy neighbor پالیسی کہا جاتا ہے۔

"quantitative easing only works when you're the only country doing it."

مقداری تسہیل کے موجد پروفیسر رچرڈ ورنر کا بیان ہے کہ سینٹرل بینک جان بوجھ کر اپنے ملک میں غربت بڑھاتے ہیں تاکہ اُن قانونی اور معاشی تبدیلیوں کا جواز بن سکے جو غیر ملکیوں کو ملک لوٹنے دیں۔

"central banks intentionally impoverish their host countries to justify economic and legal changes which allow looting by foreign interests."[561]
"نتیجہ:سینٹرل بینکنگ کا میکینزم قصداً بربادی ہے۔ اور اس بربادی کا انجام عالمی حکمرانی ہے۔ فی الحال اس مقصد کو تدریسی لبادے میں چھپایا گیا ہے۔ لیکن طویل مدتی منصوبہ جو اب تیزی سے واضح ہو رہا ہے وہ ظالمانہ طریقے سے سات ارب لوگوں کی زندگی کو نچوڑ کر اعلیٰ طبقے کے مٹھی بھر لوگوں کو فائیدہ پہنچانا ہے۔"
"Conclusion: The mechanism of central banking is purposeful ruin. The end-result of this ruin is global governance. In the short-term this goal is disguised by an academic patina. But the long-term goal, an increasingly apparent one, is a brutal restructuring of the lives of seven billion people to benefit a handful of elite controllers."[562]
"نوٹ چھاپنا دراصل جعلسازی ہے اوراس کا شکار بننے والے اس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ وہ مزید امیر ہو رہے ہیں۔"
In fact, counterfeiting can create in its very victims the blissful illusion of unparalleled prosperity...Counterfeiting is evidently but another name for inflation...Inflation, therefore, lowers the general standard of living in the very course of creating a tinsel atmosphere of "prosperity."[268]
"ہر بحران کی وجہ کرنسی کی بے لاگ تخلیق ہوتی ہے۔"
The artificial creation of money without any support is always behind every crisis.[563]

جب کوئی شخص نوٹ چھاپتا ہے تو اسے جعلسازی کہا جاتا ہے۔ مگر جب سینٹرل بینک نوٹ چھاپتا ہے تواسے دولت کی توسیع (monetary expansion) کہا جاتا ہے جو درحقیقت ایک مخفی ٹیکس ہے۔

"تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی ملک کی معیشت اس لیے فیل ہوئی کیونکہ اس کی کرنسی بہت مضبوط تھی۔ یہ تصور کہ کرنسی کمزور ہونی چاہیے بالکل نامعقول ہے۔ یہ تصور صرف وہ لوگ بنا سکتے ہیں جو منصوبہ بندی کے تحت زوال کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔"
“Never in the course of history has a country’s economy failed because its currency was too strong…The view that a weak currency is desirable is so absurd that it could only have been devised to serve the political agenda of those engineering the descent.[564]
"لوگوں کا یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ قرضہ دولت نہیں ہوتا اور کاغذ کرنسی نہیں ہوتا"
It will be necessary that the people learn, or relearn, that debt is not wealth, paper is not money....The ability of the special interests to influence legislation to benefit from the distribution of newly created money, is legendary. [248]
کاغذ کرنسی نہیں ہوتا، یہ فراڈ ہے۔
"“Paper is not money, it’s fraud"..

... The Federal Reserve is the engine that drives the most powerful government in the history of the world."[565]

قرض دینے کا بنیادی راز یہ ہے کہ قرضہ اس طرح دیا جائے کہ وہ اس وقت تک ادا نہ کیا جا سکے جب تک کہ نیا قرض نہ لیا جائے۔
The true secret of money-lending is to lend in such a way that the debt can never be repaid except by contracting a new debt. That can only be accomplished if the price-level remains free to rise or fall as we may determine.[62]

فروری 2020ء کے اختتام پر دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹیں ڈوبنا شروع ہو گئیں۔ اگرچہ الزام کورونا وائرس پر لگایا گیا لیکن اس کی وجہ مالیاتی نظام کی بنیادی کمزوری تھی۔ اس بحران سے نمٹنے کے لیے فیڈرل ریزرو نے صرف ایک مہینے میں 2000 ارب ڈالر سے زیادہ رقم تخلیق کری۔ یہ رفتار سابقہ تین QE میں تخلیق کی جانے والی رقم سے کہیں زیادہ ہے۔ فیڈرل ریزرو کی بیلنس شیٹ اب 6100 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔[566]

جون 2020ء تک کی بیلینس شیٹ[567]
سینٹرل بینک ملکی جی ڈی پی سے تناسب
یورپی سینٹرل بینک جی ڈی پی کا 52 فیصد
امریکی فیڈرل ریزرو جی ڈی پی کا 32.6 فیصد
بینک آف انگلینڈ جی ڈی پی کا 31.1 فیصد
سینٹرل بینک آف جاپان جی ڈی پی کا 117 فیصد

غیر مُنصفانہ تقسیم

رکارڈ کینٹیلون (Richard Cantillon) وہ پہلا آدمی تھا جس نے 300 سال پہلے لکھا کہ کرنسی اور شیئر تخلیق کرنے سے دولت تخلیق نہیں ہوتی۔ کرنسی اور شیئر تخلیق کرنے سے کسی کی دولت کرنسی اور شیئر کے تخلیق کنندہ کو منتقل ہوتی ہے۔[568] وہ لکھتا ہے کہ جب کاغذی کرنسی چھپتی ہے تو وہ لوگ زیادہ فائیدے میں رہتے ہیں جنہیں یہ کرنسی پہلے دستیاب ہوتی ہے جبکہ وہ لوگ نقصان میں رہتے ہیں جن تک یہ کرنسی دیر سے پہنچتی ہے۔ اس طرح غریب کی دولت امیر بینکاروں کو منتقل ہوتی ہے۔[569][570]

Unjust redistribution (Cantillon effect): the effect describes the fact that newly created money is neither uniformly nor simultaneously distributed in the population. Monetary expansion is therefore never neutral. There is a permanent transfer of wealth from later to earlier receivers of new money.[571][572]

فیڈرل ریزرو کے سابقہ گورنر بن برنانکے نے اپنے مقالے میں لکھا تھا کہ افراط زر سے غریب کی دولت منتقل ہوتی ہے۔

Ben Bernanke warned of this when he wrote that inflation “induces redistribution of wealth” to the detriment of “less sophisticated investors” (Inflation Targeting, p.17)۔

دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی بنیادی وجہ اسٹاک (شیئرز) کی قیمتوں کا بڑھنا ہے جو مونیٹری پالیسی کا نتیجہ ہے۔[573]

rising equity prices have been a key driver of inequality... this suggests that monetary policy may have added to inequality to the extent that it has boosted equity prices.[574]

"توقع کے مطابق اسٹاک (شیئر) کی قیمتوں کے بڑھنے سے غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔[575] لیکن مالیاتی ماہرین معاشیات ہمیشہ اسے نظرانداز کرتے رہے اور آج بھی کرتے ہیں۔"

the correlation between asset prices and income inequality has been, as expected, very strong....However, most monetary economists ignored — and continue to ignore — asset-price inflation and do not see it as a consequence of an inflated money supply.[576][193]


آج بھی 99 فیصد عام لوگوں کی دولت بڑے خفیہ طریقے سے چوٹی کے ایک فیصد بینکاروں اور سیاسی لیڈروں کو منتقل ہو رہی ہے۔ ٹیکس اصلاحات اس بدتری کا بڑا سبب ہیں۔

“The share of the top 1 per cent of the population in the United States has grown steadily in recent years. In 2016 they owned 38.6 per cent of total wealth. In relation to both wealth and income the share of the bottom 90 per cent has fallen in most of the past 25 years. The tax reform will worsen this situation and ensure that the United States remains the most unequal society in the developed world. “[577]

بچت کی معاشی طاقت ختم ہو چکی ہے۔۔۔ نوٹ چھپائی کے ذریعے عام لوگوں اور پیداواری طبقے کی آمدنی اور دولت تیزی سے حکومت، بینک اور ان کے من پسند قرض داروں کو منتقل ہو رہی ہے۔

savings as an economic force have virtually disappeared....Predominantly at the expense of ordinary people, wealth and real income have been increasingly transferred from productive individuals to governments, the banks and their favoured borrowers through monetary debasement.[578]

سوئزرلینڈ کے ایک بینک کریڈٹ سوئیس کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں دولت کی تقسیم بگڑتی جا رہی ہے۔ دنیا کے امیر ترین ایک فیصد لوگ دنیا بھر کی نصف سے زیادہ دولت کے مالک بن چکے ہیں جبکہ باقی 99 فیصد آبادی نصف سے کم دولت کی مالک ہے۔ دنیا میں صرف 123٫800 لوگ ایسے ہیں جن میں سے ہر ایک 5 کروڑ ڈالر سے زائد کا مالک ہے اور ان میں سے نصف امریکا میں رہتے ہیں۔ دنیا میں 5200 افراد ایسے ہیں جن کی انفرادی دولت 50 کروڑ ڈالر سے زیادہ ہے۔[579] یہ لوگ حکومتوں اور عالمی اداروں کو کنٹرول کرتے ہیں۔

A new report issued by the Swiss bank Credit Suisse finds that global wealth inequality continues to worsen and has reached a new milestone, with the top 1 percent owning more of the world’s assets than the bottom 99 percent combined.


"دنیا میں صرف آٹھ افراد ایسے بھی ہیں جن کی مجموعی دولت دنیا کے 3 ارب 60 کروڑ لوگوں کی دولت کے مساوی ہے (یعنی دنیا کی نصف آبادی کی دولت کے برابر ہے)۔ یہ سب کچھ اتفاقی طور پر نہیں ہوا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بیشتر لوگ نہیں سمجھتے کہ موجودہ مالیاتی نظام عین اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔"
Eight men own the same wealth as the 3.6 billion people who make up the poorest half of humanity, according to a new report published by Oxfam ....This didn’t happen by accident. Sadly, most people don’t even understand that this is literally what our system was designed to do.[580]
دنیا کے بالغ افراد۔ فیصد دنیا کی کل دولت میں ان کا حصہ۔[581]
غریب ترین افراد 71% ہیں ان کے پاس صرف 3% دولت ہے
غریب افراد 21% ہیں ان کے پاس 12.5% دولت ہے
امیر افراد 7.4% ہیں ان کے پاس 39.4% دولت ہے
امیر ترین افراد صرف 0.7% ہیں ان کے پاس 45.2% دولت ہے

"کرنسی کی تخلیق اورتقسیم کا موجودہ نظام انتہائی غیر منصفانہ ہے اور امیروں کو مزید امیر جبکہ غریبوں کو مزید غریب بناتا ہے۔ جب تک کرنسی کی تخلیق اور تقسیم کا نظام نہیں بدلے گا اس وقت تک کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔"

If We Don't Change the Way Money Is Created and Distributed, We Change Nothing...the money system itself is the source of inequality[582]
دنیا کے امیر ترین اعشاریہ ایک فیصد افراد کی دولت دنیا کے 90 فیصد غریب لوگوں کی دولت کے برابر ہے۔[583]

"بڑے بینک اور اُن کی بنائی ہوئی مالیاتی انڈسٹری آج کے معاشرے میں ناانصافی کی بنیادی وجہ ہے۔ چاہے یہ معاشرتی مساوات ہو یا آپ کی ملازمت اور ریٹائرمنٹ کے تحفظ کا مسئلہ ہو، آپکی روزمرہ کی زندگی ہو یا آپ پر لاگو قوانین کی دیانتداری ہو- ہماری قسمت اب ان بینکاروں کے کنٹرول میں ہے۔"

"the financial industry – with the big banks at its core – as the root cause of injustice in today's society." Whether it's social equity, the security of your job or retirement, your day-to-day existence, or the fairness of the laws we live under – our fate is currently in the hands of the banks."[584]
"یہ صرف بڑے لوگوں کا کلب ہے۔ آپ کا داخلہ ممنوع ہے۔"
George Carlin - It's a big club and you ain't in it[585]

مقداری تسہیل یا آخری حربہ؟

اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ کبھی کرنسی چھاپنے والے مرکزی بینکوں کو یہ اندازہ ہو جائے کہ صورت حال بے قابو ہونے والی ہے اور ان کی کرنسی ڈوبنے والی ہے تو وہ کیا کریں گے؟ ظاہر ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ کرنسی چھاپ کر اور عوام کی بے خبری کا فائیدہ اٹھا کر اُس کرنسی کو اثاثوں میں تبدیل کر لیں گے تاکہ بحران گزرنے کے بعدجو بھی نیا مالیاتی نظام آئے، اپنے اثاثوں کی مدد سے وہ اُس نئے نظام پر بھی حاوی ہو سکیں۔[586] اور اِس وقت مقداری تسہیل کے نام پر عین یہی عمل جاری ہے۔[587][588]

once the inflationary boom is triggered by credit expansion through monetary inflation by the banking system, the bust is inevitable.[589]
آج حد سے زیادہ کرنسی کی تخلیق 150 سالوں کی مالیاتی ناکامی کا نتیجہ ہے۔ اگلا انتظامی اور مالیاتی بحران غالباً کریڈٹ اور فی ایٹ کرنسی کا خاتمہ کر دے گا۔
Today, we face infinite monetary inflation as a final solution to 150 years of monetary failures. The coming systemic and monetary collapse will probably mark the end of cycles of bank credit expansion as we know it, and the final collapse of fiat currencies.[590]

جاپان کا مرکزی بینک آدھا جاپان خرید چکا ہے اور باقی حصہ بھی خریدنا چاہتا ہے۔

The Bank of Japan by now owns half the country, and they just want to do more.[591]

امریکی مرکزی بینک (فیڈرل ریزرو) بھی تیزی کے ساتھ جائداد خرید رہا ہے۔

According to Bloomberg, the Fed is now the world’s largest investor and holds about one-third of all bonds backed by US home mortgages.[592]

یورپی سینٹرل بینک بھی محسوس کر رہا ہے کہ اب مونیٹری پالیسی کا اختتام نزدیک ہے۔۔۔۔حقیقتاً ہو یہ رہا ہے کہ یورپی سینٹرل بینک دھڑا دھڑ نوٹ چھاپ کر یورپی ریاستوں کی دولت چوس رہا ہے۔

even the ECB feel we’re nearing the end game in terms of the limits of monetary policy....all that’s really happening is the ECB printing lots of money for European states to fiscally juice their economies[593]

2008ء میں وقوع پزیر ہونے والے مالیاتی بحران کی ایک بڑی وجہ 'شیڈو بینکنگ' تھی۔ ستمبر 2019ء میں فیڈرل ریزرو نے محسوس کر لیا کہ دوبارہ ویسا ہی بحران ہونے والا ہے اور دنیا کے بڑے Hedge Funds اب ڈوبنے کے نزدیک ہیں۔[594] اسے روکنے کے لیے 17 ستمبر 2019ء سے فیڈرل ریزرو نے تاریخ کا سب سے بڑا repo آپریشن (ری پرچیز ایگریمنٹ rehypothecation) شروع کر دیا اور 24 ستمبر 2019ء سے 14 دنوں کے term repo کا بھی آغاز کیا۔ فیڈرل ریزرو نے اگرچہ یہ دعویٰ کیا کہ یہ چوتھی مقداری تسہیل (QE4) نہیں ہے مگر اپنی بیلنس شیٹ میں اضافہ کرنا شروع کر دیا۔[595] فیڈرل ریزرو نے یہ بتانے سے صاف انکار کر دیا ہے کہ کرنسی چھاپ کر کن بینکوں کو دی جا رہی ہے۔[596] شبہ کیا جاتا ہے کہ یہ کرنسی جرمنی کے سب سے بڑے بینک ڈوئیچے کو بچانے کے لیے خرچ ہو رہی ہے۔ 2007ء کے بعد ڈوئیچے بینک کی مارکیٹ ویلو 90 فیصد گر چکی ہے۔[597]

کورونا کی وبا کے بہانے صرف چار مہینوں (مارچ تا جون 2020ء) میں امریکی حکومت نے 3000 ارب ڈالر قرض لیے۔[598] کس مائی کے لعل کے پاس اتنا پیسہ تھا کہ وہ یہ قرض دے سکے؟ نہیں جناب۔ یہ ڈالر تخلیق کر کے قرض دیے گئے ہیں۔ اگر کاغذ کی بجائے ڈالر ماضی کی طرح دھاتی ہوتا تو امریکا کا باجا بج چکا ہوتا۔[599]
امیروں کو کرنسی مفت مل رہی ہے جبکہ غریبوں کو بالکل نہیں مل رہی۔۔۔ زیادہ تر لوگوں کو کیپیٹل ازم سے فائیدہ نہیں پہنچ رہا۔
money is essentially free for those who have money and creditworthiness, it is essentially unavailable to those who don’t have money and creditworthiness,...the system of making capitalism work well for most people is broken.[600]
مبارک ہو امریکیو، تمہیں تمہارے منتخب کردہ سیاست دانوں کی مدد سے چند گمنام بینکروں کو بیچ دیا گیا ہے۔
So congratulations America, you were just bought by a group of anonymous bankers with your own elected politicians making it possible.[601]

روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کے بیان کے مطابق امریکی ڈالر اب ڈوبنے کے نزدیک ہے۔

US Dollar Will Collapse Soon.[602]

کرنسی کی بےتحاشہ تخلیق اور حد سے زیادہ کریڈٹ کا جاری ہونا آگے چل کر جنگ اور انقلاب کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس کے بعد نیا ورلڈ آرڈر بنتا ہے۔[603] اسی لیے پہلے سے ہی عالمی پیمانے پر لوک ڈاون جیسی غیر منصفانہ پالیسیاں اپنائی جا رہی ہیں تاکہ عوام پہ سخت کنٹرول باقی رہے۔[598] [604] [605]

کرنسی بطور ہتھیار

قابل تخلیق کرنسی صرف استحصال کا بہترین اوزار ہی نہیں بلکہ ایک مہلک ہتھیار بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

پہلے غلہ کی قلت قحط کا سبب بنتی تھی۔ کاغذی کرنسی کے دور میں افراط کے باوجود قحط آتا ہے۔ یہ قحط نہیں غربت ہے۔

the issue and destruction of money by the money-lender is not a service, but a weapon which can be and has been used to perpetuate poverty amidst abundance,[606]
"امریکا کا سب سے طاقتور ہتھیار گولی نہیں چلاتا، نہ اُڑتا ہے نہ پھٹتا ہے۔ یہ نہ آبدوز ہے نہ ہوائی جہاز ہے، نہ ٹینک ہے نہ لیزر۔ امریکا کا سب سے طاقتور جنگی ہتھیار آج ڈالر ہے۔ امریکا اسے مہارت سے استعمال کرتے ہوئے دوستوں کو نوازتا ہے اور دشمنوں کو سزا دیتا ہے۔۔۔ دنیا بھر کی بچت کا 60 فیصد، عالمی ادائیگیوں کا 80 فیصد اور تیل کی عالمی خریداری کا لگ بھگ سو فیصد امریکی ڈالر کی صورت میں انجام پاتا ہے۔"
America’s most powerful weapon of war does not shoot, fly or explode. It’s not a submarine, plane, tank or laser. America’s most powerful strategic weapon today is the dollar.The U.S. uses the dollar strategically to reward friends and punish enemies....The dollar constitutes about 60% of global reserves, 80% of global payments and almost 100% of global oil transactions.[607]


ایک امریکی ڈالر کا ترکی کے لیرا سے ایکسچینج ریٹ[608]
سال شرح تبادلہ
2005
1.344
2006
1.428
2007
1.303
2008
1.302
2009
1.550
2010
1.503
2011
1.675
2012
1.796
2013
1.904
2014
2.189
2015
2.720
2016
3.020
2017
3.648
2018اگست
6.1
2020اکتوبر
8.36
کرنسی کرائیسس
علاقہ دورانیہ
یورپ 1992–1993
لاطینی امریکا 1994–1995
ایشیا 1997–1998
روس 1998
ارجنٹینا 1999–2002
وینیزویلا 2015–2018
ترکی 2018-2020


  • ستمبر 1992 میں برطانوی پاونڈ پر ہونے والے ایک حملے کے نتیجے میں 17 ستمبر 1992 کو بینک آف انگلینڈ کو کرنسی peg توڑنا پڑ گیا جس کی وجہ سے پاونڈ ڈالر کے مقابلے میں 25% گر گیا۔ اس حملے کا الزام جارج سوروس پر لگایا جاتا ہے جس نے ایک دن میں ایک ارب ڈالر منافع کمایا۔[609]
  • 1994 میں میکسیکو کی کرنسی پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں پیسو کی قدر آدھی رہ گئی اور ملک میں شرح سود 80 فیصد تک جا پہنچی۔
  • ارجنٹینا کی کرنسی پر بھی حملہ کیا گیا مگر ارجنٹینا اپنا کرنسی پیگ بچانے میں کامیاب رہا۔ لیکن اسے بھاری قرضے لینے پڑے جس کے نتیجے میں 2018ء میں اس کی کرنسی ڈوب گئی اور شرح سود 60 فیصد تک جا پہنچی۔[610]
  • 2 جولائی 1997 کو تھائی لینڈ کو ایسے ہی کرنسی حملے کے نتیجے میں کرنسی پیگ توڑنا پڑ گیا۔ جنوری 1998 تک تھائی کرنسی بھات کی قدر ڈالر کے مقابلے میں 120 فیصد گر چکی تھی۔[611]
  • جون 1997 سے جون 1998 کے دوران میں انڈونیشیا، فلیپائن، تائیوان، کوریا، ملیشیا اور ہندوستان کی کرنسیوں کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا۔ چین کی مداخلت کی وجہ سے ہانگ کانگ کا ڈالر گرنے سے بچ گیا۔[612]

اس بات کا امکان بڑھتا جا رہا ہے کہ "Soroi" کا اب سعودی عرب،عمان اور بحرین کی کرنسی پر حملہ ہو گا تاکہ ان کا ڈالر سے پیگ ٹوٹ جائے۔

"معاشی مشکلات کسی ملک کوکمزور اورغیر مستحکم بھی کر سکتی ہیں اور اس کی سیاست کو تباہ بھی کر سکتی ہیں اور اس کی کرنسی پر حملہ کر کے ایسا بحران پیدا کیا جا سکتا ہے۔
کرنسی توپ یا بم کی طرح نہیں ہوتی مگر بعض حالات میں یہ انتہائی کارآمد ہتھیار ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ سستی ہونے کے باوجود نہایت موثر ہوتی ہے اور یہ دشمن کو اس حد تک کمزور یا معذور کر سکتی ہے کہ اپنی حفاظت کرنا تو درکنار، وہ اپنے معمول کے کام بھی انجام نہ دے سکے۔
عین صحیح وقت پر کرنسی کا حملہ کسی ملک کو تباہی کی طرف دھکیل سکتا ہے یا پہلے سے نرغے میں آئے دشمن کو مزید کمزور کر سکتا ہے۔ اگرچہ کرنسی کا کوئی بھی حملہ انتشار پیدا کر سکتا ہے لیکن یہ کسی کمزور اور ترقی پزیر معیشت والے ملک کی بقا کا مسئلہ بھی بن سکتا ہے۔"
A state may be compromised, destabilized, weakened, or even politically devastated by economic hardship, and an attack on its currency is one means of creating such turmoil....
Currency is not like guns and bombs, but it can be an extremely useful weapon in certain circumstances. It is efficient and comparatively inexpensive, and it can weaken or cripple a targeted state in its ability to function, much less to maintain its own security.
A currency attack at the precisely right (or wrong) moment may help push a state in a destructive direction, or may weaken an opponent already besieged.
While any currency attack might be disruptive, in a vulnerable, emerging economy one could threaten a country's security.[613]

امریکا کا یہ پرانا حربہ رہا ہے کہ وہ پہلے ترقی پزیر منڈیوں میں ڈالر کی مقدار میں اضافہ کر دیتا ہے اور پھر بعد میں ڈالر کی مقدار کم کر کے منڈیوں کو ڈبو دیتا ہے۔ اس طرح اسے مہنگے اثاثے کوڑیوں کے دام مل جاتے ہیں۔(دیکھیے ادائیگی کا وعدہ)

Yet money is power, and some critics allege the US has long manipulated the USD global liquidity cycle to first flood EM with liquidity, and then take advantage of the inevitable cyclical liquidity retreat to pick up assets at pennies on the dollar. Does it want to give that up?[614]
"کسی بھی بین الاقوامی بینک کو امریکی حکومت بلیک میل کر سکتی ہے تاکہ وہ امریکی حکومت کے احکامات مانے کیونکہ امریکا میں بینکنگ کی اجازت کا لائسنس منسوخ کرنا یا امریکی ڈالر میں کاروبار سے روکنا اس بینک کو دیوالیہ کر سکتا ہے۔ اور جس کے پاس یہ طاقت ہو کہ وہ بڑے ممالک کے بڑے بینکوں کو کنگال کر سکے وہ ان بڑے ممالک کی حکومت پر بھی حاکمیت رکھتا ہے۔" سوئزرلینڈ کے سب سے پرانے بینک Wegelin کی مثال بالکل واضح ہے۔ FATCA (Foreign Account Tax Compliance Act) وہ قانون ہے جو دنیا بھر کے بینکوں کو امریکا کا مالیاتی جاسوس بنا دیتا ہے۔ چونکہ امریکا خود اپنے بینکوں کو اس قانون سے آزاد قرار دیتا ہے اس لیے دنیا بھر کا کالا دھن (بلیک منی) اب صرف امریکا میں چھپانا ممکن رہ گیا ہے۔[615]

Every internationally active bank can be blackmailed by the U.S. government into following their orders, since revoking their license to do business in the U.S. or in dollar basically amounts to shutting them down.... If you have the power to bankrupt the largest banks even of large countries, you have power over their governments, too.[616]

کالے دھن کی امریکی ڈالر میں منتقلی کی وجہ سے ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے جبکہ ترقی پزیر ممالک کی کرنسیاں گر رہی ہیں۔ 16 اگست 2018ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹر پر پیغام دیا:

"آج جس طرح ڈالر میں پیسہ آ رہا ہے اس طرح پہلے کبھی نہیں آیا"
"Money is pouring into our cherished DOLLAR like rarely before."[617]

امریکا کی صدام حسین سے جنگ کے دوران امریکا نے عراق میں لگ بھگ 3 کروڑ ایسے کرنسی نوٹ ہوائی جہازوں سے گرائے جن کے ایک جانب عراقی کرنسی چھپی ہوتی تھی اور دوسری جانب عربی زبان میں پروپیگینڈا۔ اس عبارت میں لکھا ہوتا تھا کہ اس نوٹ بردار فوجی کو ہتھیار ڈالنے کے لیے امریکی افواج خوش آمدید کہے گی اور جینیوا کنونشن کے تحت کوئی گزند نہیں پہنچائے گی۔ اس پروپیگینڈے کے نتیجے میں محض چند دنوں میں ہزاروں عراقی فوجیوں نے امریکا کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ ایسا ہی نفسیاتی جنگی حربہ امریکا ویتنام میں بھی استعمال کر چکا ہے۔[618] افغانستان کی جنگ کے بارے میں جنرل ڈے وڈ پیٹریاس کا کہنا تھا کہ کرنسی میرا سب سے اہم ہتھیار ہے۔

کاغذی کرنسی کا انجام

مشہور فرانسیسی فلاسفر وولٹیر کا کہنا تھا کہ کاغذی دولت انجام کار اپنی اصلی قدر تک پہنچتی ہے جو صفر ہے۔[619] دنیا کی 775 کاغذی کرنسیوں میں سے 599 ڈوب چکی ہیں۔[620][621]

"تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی کوئی ملک اپنے قرضوں کا سود ادا کرنے کے قابل نہیں رہا تو اندازے لگا لیے گئے کہ اس کی کرنسی اب ڈوبنے والی ہے۔ ایسے موقع پر حکومت کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ مشکلات سے بچنے یا ٹالنے کے لیے اور بھی زیادہ کرنسی چھاپی جائے۔ اس سے صورت حال مزید خراب ہو جاتی ہے۔
قرض جتنا زیادہ ہوتا ہے اتنی ہی زیادہ کرنسی چھاپنی پڑتی ہے۔ اور جتنی زیادہ کرنسی چھپتی ہے ہائیپر انفلیشن کا خطرہ اتنا ہی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ کوئی بھی حکومت ہائیپر انفلیشن سے نہیں نمٹ سکتی۔ ایک دفعہ یہ شروع ہو جائے تو تیزی سے بڑھتا ہے اور انجام ہمیشہ تباہی ہوتا ہے۔"
Historically, when a nation’s debt exceeds its ability to repay even the interest, it can be assumed that the currency will collapse. Typically, governments exacerbate the situation by printing large amounts of currency notes in an effort to inflate the problem away, or at least postpone it.
The greater the level of debt, the more dramatic the inflation must be to counter it. The more dramatic the inflation, the greater the danger that hyperinflation will take place. No government has ever been able to control hyperinflation. If it occurs, it does so quickly and always ends with a crash.[622]

سن 2008 میں آئس لینڈ کا سینٹرل بینک فیل ہو گیا جس کے نتیجے میں امریکا اور یورپ میں ایک بڑا مالیاتی بحران آیا۔ بحران سے محض چند دن پہلے امریکی ٹریژری کے سیکریٹری پالسن نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ہماری معیشت کی بنیاد بہت مضبوط ہے۔ 2010 میں آئرلینڈ اور 2013 میں قبرص کے سینٹرل بینک فیل ہو گئے۔ فیل ہونے سے کچھ ہی دن قبل حکام نے stress tests کے بعد انہیں محفوظ قرار دیا تھا۔[623]
دسمبر 2014 کے وسط میں روس کے سینٹرل بینک نے اچانک اپنی شرح سود 10.5 سے بڑھا کر 17 فیصد کر دی۔ سوئزرلینڈ کے سینٹرل بینک نے کئی یقین دہانیوں کے باوجود کہ وہ کرنسی peg نہیں ٹوٹنے دے گا، 15 جنوری 2015ء کو اچانک کرنسی پیگ توڑ دیا جس سے فرانک کی قیمت یکدم بڑھ گئی جس کی وجہ سے ہنگری اور آسٹریا کے بہت سے لوگ اپنے گھر کے قرضے کی قسطیں چُکانے کے قابل نہ رہے کیونکہ ان کا قرض سوئس فرانک میں لیا گیا تھا۔ 6 اپریل 2017ء کو چیک ریپبلک (Czech Republic) کے سینٹرل بینک نے اپنا کرنسی پیگ توڑ دیا جس سے کرونا کی قیمت یکدم بڑھ گئی۔ چین کے سینٹرل بینک نے 2015 میں اپنی کرنسی کی قیمت غیر متوقع طور پر 3 فیصد گرا دی۔ فیڈرل ریزرو نے 9 سالوں کے بعد آخر کار 16 دسمبر، 2015ء کو شرح سود میں اضافہ کیا مگر صرف 0.25 فیصد۔ جون 2014سے یورپیئن سینٹرل بینک نے شرح سود منفی کر رکھی ہے۔[624] ڈنمارک اور سوئزرلینڈ میں بھی شرح سود منفی ہو چکی ہے۔سوئیڈن نے 12 فروری 2015 کو شرح سود منفی کر دی اور 18 مارچ 2015 کو شرح سود منفی 0.1 سے گرا کر منفی 0.25 فیصد کر دی۔۔[625] جنوبی افریقا کے سینٹرل بینک نے تسلیم کر لیا ہے کہ وہ کرنسیوں کی جنگ (currency war) میں بے بس ہو چکا ہے۔ وینیزویلا میں آئی ایم ایف کے مطابق صرف 2015 میں 159 فیصد افراط زر ہوا[626] 17 فروری 2016 کو وینیزویلا میں پٹرول کی قیمت میں 60 گنا اضافہ کر دیا گیا۔ وہاں پٹرول کی سابقہ قیمت پچھلے 20 سال سے برقرار تھی۔ وینیزویلا میں اب خوراک کے لیے بڑے پیمانے پر فسادات پھوٹ پڑے ہیں۔ وینیزویلا نے دس سال پہلے نہ صرف آئی ایم ایف سے اپنے روابط ختم کر دیے تھے [627] بلکہ اپنا سارا سونا ( 365 ٹن) بھی مغربی ممالک کے بینکوں سے نکلوا کر اپنی سرزمین پر منتقل کر لیا تھا۔ ایسے ناقابل معافی جرائم کی سزا تو اسے ہر صورت میں ملنی ہی تھی۔
جرمنی کے ڈوئیچے بینک کے پاس 55 ارب یورو کے derivatives جمع ہو چکے ہیں جو جرمنی کی جی ڈی پی سے بھی 20 گنا زیادہ ہیں۔ اگر یہ بینک فیل ہوتا ہے تو حکومت کے لیے اسے بیل آوٹ کرنا ناممکن ہے۔[628] 30 جون 2016 کو آئی ایم ایف نے ڈوئچے بینک کو مالیاتی نظام کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔

Deutsche Bank appears to be the most important net contributor to systemic risks, followed by HSBC and Credit Suisse. Financial Times, 6/30/2016

ڈوئیچے بینک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا بینک ہے جو کالے دھن کو سفید کرتا ہے۔[629]
ڈوئیچے بینک کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے ستمبر 2019ء میں یورپیئن سینٹرل بینک (ECB) نے نئے قاعدے قانون جاری کیے ہیں جو ڈوئیچے بینک کو استثنا عطا کرتے ہیں۔ [630] تاریخ بتاتی ہے کہ 1922–1923 کے دوران میں جرمنی کے بونڈ پر منافع منفی ہو گیا تھا۔ اس کے فوراً بعد جرمنی میں بد ترین افراط زر آیا تھا اور چیزوں کی قیمت کروڑوں گنا مہنگی ہو گئی تھی۔

The last time the German bond slipped into negative return was between 1922 and 1923. At that time in Germany succumbed to hyperinflation[631]

یہ صورت حال ظاہر کرتی ہے کہ اب کنٹرول مرکزی بینکوں کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے[632] ۔[633] 2008-2009ء کے بحران کو گزرے 8 سال ہو چکے ہیں اور اب بھی دنیا بھر کے سینٹرل بینک ہر مہینے 200 ارب ڈالر چھاپ رہے ہیں۔[634]
2009ء سے اب تک 12000 ارب ڈالر کے مساوی رقم چھاپی جا چکی ہے۔[635][636] اگر اتنی ساری رقم چھاپی جا سکتی ہے تو پھر عوام سے ٹیکس لینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟[637][638][639] [640]

"کسی معیشت میں بینکوں کی بالا دستی صرف اس وقت تک برقرار رہ سکتی ہے جب تک معیشت کو بڑی مقدار میں قرضے دیے جا سکیں"۔ (اور جب بھی جنگ ہوتی ہے تو قرضوں کی طلب میں ہزاروں گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔)
Banks are dominant forces in an economy only when that economy is creating an unhealthy amount of credit.

29 جنوری، 2016ء کو جاپان کے مرکزی بینک نے بھی شرح سود گرا کر منفی 0.1 فیصد کر دی ہے حالانکہ صرف آٹھ دن پہلے اس نے پارلیمنٹ میں بیان دیا تھا کہ ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔[641] اس طرح دنیا کی 20 فیصد جی ڈی پی اب ایسے سینٹرل بینکوں کے کنٹرول میں ہے جہاں شرح سود منفی ہو چکی ہے۔[642] سنہ 2008 میں ڈوبنے سے پہلے بیئر اسٹرن، مورگن اسٹنلے اور لہیمن بردارز جیسے عظیم بینک بھی اسی طرح جھوٹ بولتے رہے تھے۔[643] لگزمبرگ کے وزیر اعلیٰ اور یورپی یونین کے پرانے لیڈر Jean-Claude Juncker نے واضح بیان دیا تھا کہ "جب معاملہ سنگین ہو تو جھوٹ بولنا پڑتا ہے"۔
"When it becomes serious, you have to lie"[644]
یونان کی حکومت نے 2009ء میں تسلیم کر لیا تھا کہ وہ کئی سالوں سے جھوٹا بجٹ خسارہ ظاہر کر رہی تھی۔[645]

پچھلے چند سالوں میں کینیڈا، قبرص، نیوزی لینڈ، امریکا اور برطانیہ نے ایسے قوانین بنائے ہیں جو بینکوں کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ اپنے کھاتے داروں کی جمع شدہ رقم منجمد کر دیں اور پھر ضبط کر لیں۔ حال ہی میں جرمنی نے بھی ایسے قوانین منظور کر لیے ہیں۔[646]

10 اپریل 2016 کو آسٹریا کے ایک بینک Heta Asset Resolution AG نے اپنے سینیئر کھاتے داروں کے اکاونٹ سے 54 فیصد کٹوتی (bail in) کا اعلان کیا ہے تا کہ بینک کو درپیش 8.5 ارب ڈالر کے خسارے کا ازالہ کیا جا سکے۔[647] جون 2016 میں جب بیلجیئم کا آپٹما بینک فیل ہوا تو نہ میڈیا میں کوئی خبر آئی نہ بیلجیئم کے ریگولیٹر اور ECB کی ویب سائٹ پر اس کا تذکرہ ہوا۔[648]
3 مئی 2017ء کو پورٹے ریکو (Puerto Rico) نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ پورٹے ریکو 34 لاکھ کی آبادی رکھنے والا امریکی حکومت کے ماتحت علاقہ ہے جس پر 74 ارب ڈالر کا قرضہ اور 49 ارب ڈالر کے پینشن واجبات ہیں۔ یہ امریکی تاریخ کی سب سے بڑی میونسپل بینک رپٹسی (bankruptcy) ہے۔ پورٹے ریکو کی بیشتر آبادی نہایت غریب ہے مگر اوسطاً ہر فرد پر 15٫637 ڈالر کا قرضہ واجب الادا ہے جو امریکا کی 50 ریاستوں کے اوسط سے دس گنا زیادہ ہے۔[649]

Puerto Rico's crisis shows that large governments can reach a point of no return, endangering investment principal.[650]

7 جون 2017ء کو اسپین کے چھٹے سب سے بڑے بینک Banco Popular کو دیوالیہ قرار دے دیا گیا جس کی وجہ سے شیئر ہولڈروں کو شدید نقصان برداشت کرنا پڑا۔[651] 23 جون 2017 کو اٹلی کے دو بڑے بینکوں (Veneto Banca اور Banca Popolare di Vicenza) کو کنگال قرار دے دیا گیا حالانکہ صرف چند دنوں پہلے اٹلی کے وزیر معیشت Pier Carlo Padoan نے یقین دھانی کرائی تھی کہ ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ان دونوں بینکوں پر مجموعی طور پر 60 ارب یورو کے واجبات ہیں۔[652] 29 اگست 2017ء کو روس کا چوتھا سب سے بڑا بینک (Otkritie Bank) ڈوب گیا جسے سینٹرل بینک آف رشیا نے بیل آوٹ کر دیا۔[653] اس کے صرف تین ہفتوں بعد روس کا ایک دوسرا بینک (B&N Bank) بھی دیوالیہ ہو گیا۔[654] 2017ء کے اختتام تک روس کے سینٹرل بینک نے انہیں 15 کھرب روبل (25 ارب ڈالر) فراہم کیے مگر انہیں اب بھی مزید 10 کھرب روبل کی ضرورت ہے۔[655] 25 ستمبر 2018 کو اپنے شیئر ہولڈروں سے فراڈ کرنے کے جرم میں امریکا کے بینک Bankrate Inc. کے چیف فائینینشیئل آفیسر Edward DiMaria کو عدالت نے دس سال قید اور دو کروڑ ڈالر جرمانے کی سزا سنائی۔[656]
21 فروری 2020ء کو امریکی عدالت نے Wells Fargo بینک پر تین ارب ڈالر کا جرمانہ کیا۔[657] یہ امریکا کا چوتھا سب سے بڑا بینک ہے۔[658]
5 مارچ 2020ء کو انڈیا کی حکومت نے ملک کے چوتھے سب سے بڑے نجی بینک 'یس بینک' کو اپنی تحویل میں لے لیا کیونکہ شیڈو بینکنگ بحران کا خطرہ بڑھ رہا تھا۔ اس بینک کے کھاتے دار اب 50 ہزار روپے سے زیادہ کی رقم نہیں نکال سکتے۔ انڈیا کی حکومت 2018ء میں IL&FS کو اور 2019ء میں دیوان ہاوسنگ فائنینس کارپوریشن کو کنگالی سے بچانے کے لیے اسی طرح کی مداخلت کر چکی ہے۔[659]

سبق

  • کرنسی (یا کریڈٹ یا بٹ کوائن) تخلیق کرنے کی صلاحیت درحقیقت جبری غلامی کو رضا کارانہ غلامی (نوکری) میں تبدیل کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔[660] فریکشنل ریزرو بینکنگ اور شیئرز کا اجرا کرنسی تخلیق کرنے کے قانونی طریقے ہیں۔
  • “گولڈ اسٹینڈرڈ“ سے مراد سونے کی کرنسی نہیں تھی بلکہ کاغذی کرنسی تھی۔ ایسی کاغذی کرنسی جسے طے شدہ سونے کی مقدار میں تبدیل کیا جا سکے۔ [661] جاری کنندہ کا یہ وعدہ ہمیشہ جھوٹا ثابت ہوا۔[662]
“paper promises." These promises are never fully honored[663]
  • جب تک کرنسی سونے سے منسلک تھی اس وقت تک کریڈٹ کارڈ اور car loan کا وجود نہ تھا۔[664]
  • اگر کوئی مُلک اپنی کرنسی کنٹرول نہیں کر سکتا تو وہ کسی طرح بھی اپنی معیشت (اکنومی) کو کنٹرول نہیں کر سکتا۔[606][514]
  • قرض لینے کے لیے وہ کرنسی بہترین ہے جس کی قدر وقت کے ساتھ گر رہی ہو۔(دیکھیے ایسگناٹ) اور بچت کرنے کے لیے وہ کرنسی بہترین ہے جس کی قدر بڑھ رہی ہو۔
  • جب کوئی قوم ادائیگی کے وعدے کو ادائیگی سمجھنے لگے تو اُسے کوئی بھی زوال سے نہیں بچا سکتا۔ ادائیگی کا وعدہ ہارڈ کرنسی کا متبادل (money substitudes) ہوتا ہے جیسے کاغذی کرنسی، چیک، ڈرافٹ، پے آرڈر، بل آف ایکسچینج، بٹ کوائن وغیرہ۔ سلطنت عثمانیہ اسی وجہ سے تباہ و برباد ہوئی۔
  • کرنسی قابل تخلیق نہیں ہونی چاہیے جیسے کہ سونا چاندی انسان کے لیے قابل تخلیق نہیں ہوتا۔ جب کرنسی قابل تخلیق ہوتی ہے (جیسے کہ کاغذی کرنسی یا الیکٹرونک کرنسی e-money ہوتی ہے) تو تخلیق کنندہ نہایت امیر اور طاقتور ہو جاتا ہے[665] اور نہ صرف حکومت کے کنٹرول سے باہر ہو جاتا ہے بلکہ اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے بھی استعمال کرتا ہے (مثلاً جنگ[666])۔ قابل تخلیق کرنسی غریبوں کی دولت کو کرنسی تخلیق کرنے والے امیروں تک خاموشی سے منتقل کرنے کا موثر ترین حربہ ہے۔[667]
A fiat monetary system allows power and influence to fall into the hands of those who control the creation of new money, and to those who get to use the money or credit early in its circulation. The insidious and eventual cost falls on unidentified victims who are usually oblivious to the cause of their plight. This system of legalized plunder (though not constitutional) allows one group to benefit at the expense of another. An actual transfer of wealth goes from the poor and the middle class to those in privileged financial positions. Rep. Ron Paul, MD[668]
  • جب تجارتی توازن میں خسارہ ہوتا ہے تو کاغذی کرنسی کی قدر گرتی ہے۔ جب فوجی فتوحات میں اضافہ ہوتا ہے تو کاغذی کرنسی کی قدر بڑھتی ہے۔ چونکہ ریزرو کرنسی جاری کرنے والے ملک کو لازماً تجارتی خسارہ ہوتا ہے اس لیے اپنی کرنسی کی قدر بچانے کے لیے اُسے جنگ کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ (دیکھیے ٹریفن کا مخمصہ)[669][670]
  • یورپ میں پہلے کاغذی کرنسی (اور بل آف ایکسچینج) کا انقلاب آیا جس کی دولت بعد میں صنعتی انقلاب کی وجہ بنی۔[671] (1784ء تک کاغذی کرنسی کی مقدار 60 لاکھ تھی جو صرف 8 سال بعد دُگنی ہو چکی تھی۔[96])
the evidence indicates that the supply of high-powered money started to grow at an accelerated rate at some point after 1630. Equally important was the emergence of nonmetallic money as a means of exchange. Here one should count as money not only the notes issued by the bank of Stockholm, the Bank of England, and the American Colonies, but also bills of exchange which were increasingly made negotiable. The latter, especially, provided a true source of “inside money," making the money supply more responsive to the needs of the economy.[672]
  • دنیا بھر کی کانیں اتنی دولت پیدا نہیں کرتیں جتنی چند مرکزی بینکار اپنے صوابدیدی اختیارات سے پیدا کرتے ہیں۔[35] ان نجی بینکاروں کو یہ اختیارات (حق) جمہوری حکومت عطا کرتی ہے۔[673]
"ہماری جمہوریت ہمیں نہیں بلکہ ہمارے لیڈروں اور امیر ترین لوگوں کو خوش کرنے کے لیے قائم ہے۔ اور یہ شائید اس وقت تک ہمیں سمجھ میں نہیں آئے گا جب تک بہت دیر ہو چکی ہو گی۔"
Our so-called democracies exist to please our leaders and elites, not ourselves. And we’re unlikely to figure that one out until it’s way too late.[674]
بینکاروں اور سٹہ بازوں کی حکومت کو جمہوریت کا نام دیا گیا ہے۔
The rule of the financiers and the speculators is called Democracy.[606]
  • اسٹاک مارکیٹ، بونڈ مارکیٹ، ڈیری ویٹو مارکیٹ اور فورین ایکسچینج مارکیٹ کاغذی کرنسی کی پیداوار ہیں[675] اور یہ معیشت میں کسی قابل استعمال چیز کا اضافہ نہیں کرتیں۔[676] جب کاغذی کرنسی نہیں تھی تو اسٹاک مارکیٹیں بھی نہیں تھیں۔ یہ محنت کرنے والوں کی کمائی محنت نہ کرنے والوں کو منتقل کرتی ہیں[677]۔ ناقابل تخلیق ہارڈ کرنسی میں اسٹاک مارکیٹ اور بونڈ مارکیٹ پنپ نہیں سکتیں۔[678]
فورین ایکسچینج مارکیٹ دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ یہاں روزانہ ہونے والی خرید و فروخت کا حجم 5000 ارب ڈالر سے زیادہ کا ہوتا ہے۔[679][680]
اس کے برعکس پوری دنیا میں ایک سال میں بکنے والے 35 ارب بیرل معدنی تیل کی قیمت صرف 1750 ارب ڈالر ہوتی ہے۔[681]
the people who earn the most money are not only not adding value to society, they’re in fact parasites feeding off the general public.[682]
جنس عالمی کاروبار کا روزانہ حجم[683]
معدنی تیل (پیٹرولیئم) 7 ارب ڈالر
اسٹاک (شیئر) 270 ارب ڈالر
بونڈ (قرضے) 835 ارب ڈالر
کرنسی (فورین ایکسچینج) 6,600 ارب ڈالر[684]
  • متحدہ امریکا میں 2010ء میں ڈیموکریٹ پارٹی کی حکومت نے Dodd-Frank Consumer Protection Act نامی قانون بنایا جو کنزیومر کو کوئی تحفظ نہیں دیتا بلکہ فورین ایکسچینج (فوریکس) کی مارکیٹ میں صرف بڑے بینکوں کی اجارہ داری کو یقینی بناتا ہے۔ اس قانون کی وجہ سے فوریکس کا کاروبار کرنے والے چھوٹے تاجر لازماً نقصان اٹھاتے ہیں۔
They legislated criminality.[685]
It’s fundamentally rigged against a small player[686]
  • کاغذی سرمائے کی ایکسپورٹ نئے نوآبادی نظام کا بنیادی ہتھیار ہے۔[687]
The export of capital is a primary economic tool utilized by neocolonialism.
  • ہارڈ کرنسی (Hard currency) کے نظام میں سرمایہ محنت اور بچت سے تخلیق ہوتا تھا۔ فی ایٹ کرنسی (زر فرمان) کے نظام میں سرمایہ مرکزی بینک کے صوابدیدی اختیارات سے تخلیق ہوتا ہے اور capital کہلاتا ہے۔ مرکزی بینکار ہی کیپیٹل ازم کے موجد ہیں۔[688][689] کموڈٹی کے مقابلے میں کیپیٹل تخلیق کرنا اور ایکسپورٹ کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ کیپیٹل مارکیٹ نوآبادیاتی نظام کا نیا روپ ہے۔
Even when the imperialist powers abandoned classical colonialism, they opted for the way of colonization through the export of capital.[690]
  • جو ملک اپنی کرنسی کا کنٹرول کھو بیٹھتا ہے وہ اپنی حاکمیت (sovereignty) بھی کھو دیتا ہے (مثلاً یونان)۔ بادشاہ اور ڈکٹیٹر اپنی کرنسی کا کنٹرول کبھی کھونا نہیں چاہتے اس وجہ سے سینٹرل بینکرز ان کے دشمن بن جاتے ہیں[691] جبکہ جمہوری حکمران کم مدتی ہوتے ہیں اور اپنی کرنسی کا کنٹرول غیر ملکی عالمی بینکاروں کو بیچنے پر با آسانی تیار ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بینکار اور ان کے ماتحت میڈیا جمہوریت کے قصیدے گاتا ہے اور آمروں کو بُرا کہتا ہے۔[692] تاریخ بتاتی ہے کہ جمہوریت میں غربت بڑھتی ہے اور امیر غریب کی خلیج اور وسیع تر ہو جاتی ہے۔[693]
"We were making it wider" (Henry Paulson, 74th United States Secretary of the Treasury)[694][695]
  • ہارڈ کرنسی (زر کثیف) کا نظام شفاف ہوتا ہے۔ Fiat کرنسی (زر فرمان) کا نظام جان بوجھ کر نہایت پیچیدہ اور غیر شفاف بنایا گیا ہے۔ زر فرمان درحقیقت ایک پونزی اسکیم ہے۔ مالیات کی دنیا میں ہر مہینے چند نئی اصطلاحات کا اضافہ ہو جاتا ہے جن کا مطلب پوری طرح سمجھتے سمجھتے لوگوں کو کئی سال لگ جاتے ہیں۔
"جب کرنسی سے متعلق قوانین غیر واضح ہوں اور بار بار تبدیل ہوتے رہیں تو ایسی کرنسی پنپ نہیں سکتی"
money cannot manage itself under unstable and unclear terms. (Walter Bagehot)[696]
  • سینٹرل بینکنگ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جو قرض لے کر سب سے طاقتور فوج بنا سکتا ہے اُسے قرض واپس کرنے کی کبھی ضرورت نہیں پڑتی۔ متحدہ امریکا کا فوجی بجٹ چین، انڈیا، روس، سعودی عرب، فرانس، جرمنی، برطانیہ، جاپان، جنوبی کوریا اور برازیل کے مجموعی بجٹ کے برابر ہے۔[697]
  • ہارڈ کرنسی کے پیچھے کوئی دھونس دھمکی نہیں ہوتی اس لیے یہ دائمی ہوتی ہے۔ زر فرمان کے پیچھے ہمیشہ فوجی طاقت ہوتی ہے اس لیے یہ عارضی ہوتی ہے کیونکہ ہر فوج کو کبھی نہ کبھی زوال آتا ہے۔
  • ہارڈ کرنسی کا نظام مرکزی بینکوں کو مفلس اور عوام الناس کو خوشحال بناتا ہے۔ زر فرمان (فی ایٹ کرنسی) کا نظام مرکزی بینکوں کے مالکان کو کھرب پتی بنا چکا ہے جبکہ آج کا مزدور اپنے دادا پردادا سے دگنا زیادہ کام کر کے بھی بدحال رہتا ہے۔[698] اگر آپ اپنے دشمن کو کنگال کر دیتے ہیں تو وہ آپ کا دشمن نہیں رہتا۔ وہ آپ کا نوکر بن جاتا ہے۔
  • محنت محدود حد تک کی جا سکتی ہے جبکہ کرنسی لامحدود حد تک تخلیق کی جا سکتی ہے۔ محنت کبھی قابلِ تخلیق کرنسی کو شکست نہیں دے سکتی۔
Our Time/Labor Is Finite, But Money Is Infinite...Once we understand this mechanism, we understand that labor can never get ahead.[699]
  • زر فرمان کی وجہ سے جدید بینکاری نظام بچت کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور قرض اور قرض در قرض کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ صرف امریکا کے اندرونی اور بیرونی قرضے 60٫000 ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکے ہیں۔[700][701][702][703]
  • اپریل 2018ء تک پوری دنیا پر قرضوں کی کل مقدار 247 ہزار ارب ڈالر ہو چکی تھی۔[704] اگر اس رقم کو دنیا کی کل آبادی (سات ارب) سے تقسیم کیا جائے تو دنیا کے ہر جوان بچے بوڑھے پر 33٫000 ڈالر کا قرضہ چڑھ چکا ہے جو اس کی اولادوں نے ادا کرنا ہے۔ یہ رقم پوری دنیا کی GDP کا لگ بھگ سوا تین گنا (325%) ہے۔[705]
  • کاغذی کرنسی (زر فرمان) میں کی جانے والی بچت افراط زر کی وجہ سے تیزی سے سکڑتی جاتی ہے یعنی اس کی قوت خرید گرتی جاتی ہے۔ ہارڈ کرنسی کے نظام میں بچت کی قوت خرید وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہارڈ کرنسی قدر کی برقراری (store of value) ہے جبکہ کاغذی کرنسی قدر کی چوری (steal of value) ہے۔ یہی قدر کی چوری آج دنیا بھر میں تیزی سے بڑھتی ہوئی غربت کی بنیادی وجہ ہے۔[460]
  • ہارڈ کرنسی کا مطلب آزادی ہے۔ کاغذی کرنسی کا مطلب غلامی ہے۔ (اگرچہ ڈالر، پاونڈ، یورو اور ین کو اکثر ہارڈ کرنسی بتایا جاتا ہے مگر یہ کاغذی کرنسیاں ہیں)
honest money and freedom are inseparable, as Mr. Greenspan argued, and paper money leads to tyranny"[706]
  • اگر کرنسی hard ہو تو بھی بینک فریکشنل ریزرو بینکنگ کے ذریعے قرض دے کر اپنے کھاتوں میں حقیقی اثاثوں سے زیادہ مالیت کے اثاثے دکھا سکتے ہیں۔ اگر فریکشنل ریزرو کی حد 20 فیصد ہو تو جمع شدہ اثاثے پانچ گنا زیادہ تک ظاہر کیے جا سکتے ہیں۔ اس طرح فرضی دولت پر بھی حقیقی منافع کمایا جا سکتا ہے۔ فریکشنل ریزرو کو 'money multiplier' بھی کہتے ہیں۔
  • یہ غلط ہے کہ عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ حکومت کے تین اہم ستون ہوتے ہیں۔ حکومت کا ایک چوتھا ستون بھی ہوتا ہے جو ان تینوں ستونوں کو کنٹرول کرتا ہے اور وہ ہے کرنسی۔ اس لیے کرنسی کا کنٹرول حکومت کے پاس ہونا چاہیے۔ ترقی یافتہ ممالک میں حقیقت اس کے برعکس ہے۔[13]
  • گزشتہ تین سو سالوں میں ہر سامراجی طاقت (imperial power) درحقیقت ایک طاقتور کاغذی کرنسی سے مسلح تھی جبکہ ان کا شکار بننے والے ممالک اس مہلک ہتھیار سے محروم تھے۔ اگر گوروں کی آمد سے قبل ہندوستان بھی ایک منظم بینکنگ سسٹم اور کاغذی کرنسی بنا چکا ہوتا تو ہرگز بھی برطانوی کالونی نہ بنتا۔
"To preserve power, a sovereign needs not only to have an army but even more so issue a currency."[348]
"دنیا پر حکمرانی کے لیے صرف فوج کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ کریڈٹ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔"[707]
  • جو پوری دنیا کو قرضے دے سکتا ہے وہ پوری دنیا پر حکمرانی کر سکتا ہے۔[708]
  • اپنی ملکیت میں موجود اثاثوں سے زیادہ قرض دینے کی صلاحیت درحقیقت دولت تخلیق کرنے کی صلاحیت ہے (خواہ یہ قرضے بغیر سود کے ہی کیوں نہ ہوں)۔ یہی چیز فریکشنل ریزرو بینکنگ ہے۔[709]
  • جو دولت تخلیق کر سکتا ہے وہ عالمی منڈی میں کسی بھی چیز کی قیمت گرا سکتا ہے (یا بڑھا سکتا ہے) کیونکہ وہ گھاٹے کا سودا بھی باآسانی کر سکتا ہے۔[710][711][712] کاغذی کرنسی یا ڈیجیٹل کرنسی کے نظام میں “فری مارکیٹ اکنومی“ ممکن نہیں۔ مارکیٹ فورس نامی کوئی چیز اب باقی نہیں رہی۔ اب صرف سینٹرل بینک فورس کا راج ہے۔[713]
we have not had anything even remotely resembling free markets for more than a century.[714]
"We have a dual system. Free markets for the poor and state socialism for the rich."نوم چومسکی[715]
...Thus, there is no real “market force” anymore – “just central banker force”.[716]
  • ہارڈ کرنسی کے زمانے میں جنگیں ملک اور حکومت پر قبضہ کرنے کے لیے لڑی جاتی تھیں۔ کاغذی کرنسی کے دور میں جنگیں سینٹرل بینک پر قبضہ کرنے کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ بریٹن ووڈز کے معاہدے کے بعد دنیا بھر سے نوآبادیاتی نظام (Colonialism) کا یک لخت خاتمہ اسی وجہ سے ہوا۔ کاغذی کرنسی کے نظام سے ہزاروں میل دور سے غلاموں کی دولت چوسنا ممکن ہو گیا ہے۔
In this new form of corporate colonialism currency is used as the weapon in the war to control the world [717][288]
  • بہت بڑے پیمانے پر آزادی سلب کرنے کی جتنی صلاحیت بینکنگ سسٹم میں ہے اتنی کسی اور میں نہیں۔ اگر کرنسی سونے چاندی پر مشتمل ہوتی (یعنی قابل تخلیق نہ ہوتی) تو بینکوں میں یہ طاقت نہ ہوتی۔
The value of advocating for decentralized and physical alternatives to the banking system may not be easily grasped by the activists of today, but few other things have the potential to erode freedom on such a massive scale.[718]
"In the last few decades, the role of central bankers changed from bit players in the economic realm to all-powerful stars on the global stage."[719]
  • بینکاری نظام پر ضرب لگانے کے خواہش مند لیڈر مروا دیے جاتے ہیں۔[720][721]
  • ترقی یافتہ ممالک میں بھی جمہوری حکومتیں عوام سے زیادہ مرکزی بینکوں کے مفادات کا خیال رکھتی ہیں۔[722] پہلی دنیا (کیپیٹلسٹ ممالک) میں کرنسی تخلیق کرنے کا اختیار پرائیوٹ بینکوں کے ہاتھ میں ہوتاہے اور جمہوری حکومت پر قرضہ بڑھتا چلا جاتا ہے جس کا سود بلآخیر عوام کو بھرنا پڑتا ہے۔ دوسری دنیا (کیمونسٹ ممالک) میں کرنسی تخلیق کرنے کا اختیار براہ راست حکومت کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور حکومت نہ مقروض ہوتی جاتی ہے نہ اس کے عوام کو سود ادا کرنا پڑتا ہے۔ تیسری دنیا میں وہ ممالک شامل ہیں جو کرنسی وار کے گیم سے پوری طرح واقف نہیں ہیں۔ یہ پہلی دونوں دنیا کے لیے شکار گاہیں ہیں۔
  • جنگ عظیم اول اور دوم نے کاغذی کرنسی کو بڑا دوام بخشا اور اس طرح مرکزی بینکوں کی طاقت اور اقتدار میں بے پناہ اضافہ ہوا۔
Money is the most important fuel for war and war is one of the great sources of debt imposed upon nations.[723]
  • پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں جو حقیقتاً جیتا وہ امریکی ڈالر تھا اور جو ہارا وہ برطانوی پاونڈ اسٹرلنگ تھا۔[724] دوسری جنگ عظیم کے دو حریف کاغذی کرنسی اور سونے کی کرنسی تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں امریکی کاغذی ڈالر جیتا اور دنیا بھر سے سونے یا چاندی کا سکہ معدوم ہو گیا۔
  • یورپ کی سب سے بڑی مالیاتی ایجاد یہ تھی کہ 1960 کی دہائی میں حکومتوں کو مالیاتی مارکیٹ (monetary market) سے بالکل جدا کر دیا جس سے بینکوں کو بڑی آزادی ملی۔ یہ صحیح معنوں میں گلوبلائزیشن کی ابتدا تھی۔[725]
“Globalism” is not simply international trade or commerce. Globalism is global governance. Governance is rule.[726]
Actual free trade is a good thing, unequivocally. Unfortunately, the globalization of the past four or five decades hasn’t been free trade.[727]
  • غریب کبھی امیر پر حکمرانی نہیں کر سکتا۔ [728] کاغذی کرنسی نے سینٹرل بینکرز کو دنیا کے امیر ترین افراد بنا دیا ہے۔ اب یہ دنیا کے پس پردہ حکمران ہیں۔[729][730] ہر جمہوریت کی آڑ میں کوئی ڈکٹیٹر چُھپا ہوتا ہے[731][732] (جیسے آئی ایم ایف)۔ برطانیہ پر دو سو سالوں سے بینک آف انگلینڈ کی حکومت رہی ہے۔[606] وہاں بادشاہ یا ملکہ محض نمائیشی ہوتے ہیں۔
Where democracy had not fallen to dictatorship, it fell to the IMF[733]
When the system is rigged, "democracy" is just another public-relations screen to mask the unsavory reality of Oligarchy.[734]
“The shadow government controls the deep state and manipulates our elected government behind the scenes” [735]
  • نظر آنے والا ڈکٹیٹر مار دیا جاتا ہے، لیکن جمہوریت کی آڑ میں چھپا ڈکٹیٹر آزادی سے حکومت کرتا ہے۔
[736] Dictators in open control get assasinated, but dictators hidden behind democracy rule freely
  • لا علمی ہمیشہ غلامی کی طرف لے جاتی ہے (ignorance is the surest path to slavery)۔ کاغذی کرنسی کی حقیقت سے لاعلمی بہت سے ممالک کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا غلام بنا چکی ہے۔
"دور جدید میں غلام زنجیروں میں نہیں بلکہ قرضوں میں جکڑے جاتے ہیں۔"
"Modern slaves are not in chains, they are in debt.—Anonymous"[737]

مشہور ماہر معاشیات جان مینارڈ کینز کا کہنا تھا کہ کاغذی کرنسی میں پوشیدہ عیاری اور مکاری کو دس لاکھ لوگوں میں ایک آدمی بھی سمجھ نہیں پاتا۔

“There is no subtler, no surer means of overturning the existing basis of society than to debauch the currency. The process engages all the hidden forces of economic law on the side of destruction, and does it in a manner which not one man in a million is able to diagnose.
Indeed, the world is ruled by little else. Practical men, ...... are usually slaves of some defunct economist.

– John Maynard Keynes[738]

“(کاغذی) دولت کی طاقت نہ صرف حکمرانی اور غلام بنانے کی سب سے بڑی طاقت ہے بلکہ یہ دنیا کی بد ترین نا انصافی اور دھوکا دہی کی طاقت بھی ہے۔ یہ کروڑوں لوگوں کو سخت مشقت کرنے پر مجبور کر دیتی ہے، غربت پھیلاتی ہے اور محرومیاں بڑھاتی ہے جبکہ انہیں اپنی مصیبتوں کی اصل وجہ کبھی سمجھ نہیں آتی۔ ان لوگوں کی خاموش رضامندی کی وجہ سے ان کی کمائی کا بڑا حصہ نہایت رازداری کے ساتھ ان مرکزی بینکاروں کو منتقل ہو جاتا ہے جنہوں نے کوئی محنت نہیں کی ہوتی۔ دولت کی اسی طاقت نے ہمارے استادوں کو بھی دھوکے میں مبتلا کر رکھا ہے۔“
This money power is not only the most governing and influential, but it is also the most unjust and deceitful of all earthly powers. It entails upon millions excessive toil, poverty and want, while it keeps them ignorant of the cause of their sufierings ; for, with their tacit consent, it silently transfers a large share of their earnings into the hands of others, who have never lifted a finger to perform any productive labor. The same power has grossly deceived our public teachers[739]

مشہور جرمن فلسفی گوئٹے نے دو سو سال پہلے کہا تھا کہ “بد ترین غلامی وہ ہے جس میں غلاموں کو خوش فہمی ہو کہ وہ آزاد ہیں“۔[740]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. Money is the lifeblood of the powerful and the chains and key to human enslavement
  2. "Marco Polo and His Travels" 
  3. "daily reckoning" 
  4. The Historical Evolution of Central Banking by Stefano Ugolini
  5. ^ ا ب پ ت History Of Fractional Reserve Banking Which Became Model For The Federal Reserve System, The Unbroken Record Of Fraud, Booms,Busts, Economic Chaos
  6. William N. Goetzmann، K. Geert Rouwenhorst (1 August 2005)۔ The Origins of Value: The Financial Innovations that Created Modern Capital Markets۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 94۔ ISBN 978-0-19-517571-4۔ The Mongols adopted the Jin and Song practice of issuing paper money, and the earliest European account of paper money is the detailed description given by Marco Polo, who claimed to have served at the court of the Yuan dynasty rulers. 
  7. Marco Polo (1818)۔ The Travels of Marco Polo, a Venetian, in the Thirteenth Century: Being a Description, by that Early Traveller, of Remarkable Places and Things, in the Eastern Parts of the World۔ صفحہ: 353–355۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 ستمبر 2012 
  8. Welcome to the Crazed, Frantic Demise of Finance Capitalism
  9. Six Central Banks & The Ponzi Scheme That Will Bankrupt The World
  10. The Four Dimensions Of The Fake Money Order
  11. "An Empire of Fraud and Deception"۔ 18 اپریل 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اگست 2013 
  12. "جعلی دولت"۔ businessinsider۔ 13 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  13. ^ ا ب "چند بینکار خاندان جو پوری دنیا کو کنٹرول کرتے ہیں"۔ wordpress 
  14. "the money masters"۔ themoneymasters۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  15. "paper money is fraud"۔ blogspot 
  16. "paper money is fraud"۔ facebook 
  17. "paper money is fraud"۔ ecclesia 
  18. "فیڈرل ریزرو: صدی کا سب سے بڑا فراڈ"۔ 2006 
  19. "فیڈرل ریزرو: صدی کا سب سے بڑا فراڈ"۔ 2006 
  20. The Federal Counterfeiter
  21. John Maynard Keynes (1920)۔ Economic Consequences of the Peace۔ Gutenberg 
  22. "بینکاری کے خفیہ راز" 
  23. ^ ا ب "united earth"۔ 29 اگست 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  24. "Infamous Quote from Mayer Amschel Rothschild"۔ liberty-tree.ca 
  25. "اسلام کا نظریہ زر اور کاغذی کرنسی کی حقیقت۔ اردو میں"۔ mohaddis۔ 13 اگست 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  26. "THE EVOLUTION OF CASH" (PDF)۔ 22 فروری 2017 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 جنوری 2017 
  27. "دولت"۔ relfe۔ 04 مئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  28. Mysteries of Money
  29. Money Is Just Mutually Shared Illusion
  30. Why Do People Assign Value To Paper Money?
  31. John Law and the Système of 1720
  32. Currency Arrangements and Banking Legislation in the Arabian Peninsula[مردہ ربط]
  33. What is Money?
  34. THE THEORY AND PRACTICE OF BANKING, 1883
  35. ^ ا ب پ ت ٹ ث THE THEORY AND PRACTICE OF BANKING, 1883
  36. “Before the leaves fall from the trees”
  37. ^ ا ب Debt without consent: The tragedy of monopolized fiat money
  38. Pakistan Government Debt to GDP 1994-2019 Data[مردہ ربط]
  39. The World of Central Banker Asset Price Manipulation
  40. Zachary Macaulay - 1827 - ‎Antislavery movements
  41. ^ ا ب Corporations are currency issuers, governments are not, distinction between a currency user and a currency issuer.
  42. Central Banks Buying Stocks Have Rigged US Stock Market Beyond Recovery
  43. That is the reason the Plunge Protection Team (PPT) was created in 1987.
  44. Central banks are 'rigging and manipulating markets'-Business insider
  45. The Three Pillars
  46. This Curve Will Never Flatten Again: Fed Balance Sheet Hits $6.1 Trillion, Up $2 Trillion In 1 Month
  47. ہٹلر کی خود نوشت
  48. The Great Story Never Told
  49. The Birth and Death of Money
  50. The Theory of Value and Surplus Value
  51. Why Don't the U.S. Dollar and Bitcoin Drop to Their Tangible Value, i.e. Zero?
  52. The Monetary Elite Vs. Gold's Honest Discipline By Vincent R. LoCascio
  53. THE DOCTRINE OF MONEY by McNair Wilson
  54. Inflation as a Tool of the Radical Left
  55. the illuminati and money
  56. The End Of Our Empire Approaches
  57. There Is Only One Empire: Finance
  58. "وہ 20 چیزیں جو رقم کے طور پر استعمال ہوتی تھیں"۔ smosh۔ 10 جنوری 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  59. "PEINA"۔ angelfire 
  60. Larry Allen (1999)۔ The encyclopedia of money۔ ABC-CLIO۔ ISBN 1-57607-037-9 
  61. جنگ اور معیشت کی تاریخ
  62. ^ ا ب پ Promise To Pay by Dr. R. McNair Wilson 1934
  63. Consequences of Ignoring Economic Reality Are Dangerous
  64. gold is a barrier to debasement of fiat currencies
  65. Fed Will Raise Rates This Year to Save Capitalism
  66. خاموش جنگ کا بے آواز ہتھیار
  67. The world's first hack: the telegraph and the invention of privacy
  68. From Drafts to Checks: The Evolution of Correspondent Banking Networks and the Formation of the Modern U.S. Payments System, 1850-1914 by John A. James & David F. Weiman
  69. The Puzzle of Electrum Coin
  70. "ریزرو بینک آف انڈیا کی تاریخ" (PDF) 
  71. Journey of Pakistan Currency
  72. The Invention of Paper Money
  73. Does money means currency?[مردہ ربط]
  74. Bye, Bye Dollar – Buy, Buy Gold
  75. "You're Not Losing Your Mind... Everyone Else Is"
  76. مائیکل شومین (2009)۔ "کیا ڈالر ایک سست موت مر رہا ہے"۔ ٹائم ڈاٹ کام 
  77. "امریکی حکومت مر رہی ہے"۔ درحقیقت کیا ہوا 
  78. "بین الاقوامی زرمبادلہ کے طور پر ڈالر کی جگہ دوسری کرنسی متعارف کروانے کی ضرورت ہے"۔ معاشی تباہی۔ 29 اپریل 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  79. Money in the Western Legal Tradition: Middle Ages to Bretton Woods
  80. Bank of England History – Intriguing History
  81. what is jokingly called the economy
  82. Honest Money
  83. "انجیل پر یقین کرنے والے"۔ biblebelievers.org.au 
  84. History of Indian Currency: 5 Periods
  85. ^ ا ب کرنسی کے بدلتے روپ
  86. ^ ا ب پ ت History of the Paper Currency in India: 3 Periods
  87. From Trade To Territory
  88. مشرق میں بینکنگ کے سو سال
  89. History And Problems Of Indian Currency 1835 1949
  90. Indian Currency and Finance by John Maynard Keynes
  91. "British India Issues"۔ rbi.org.in۔ ریزرو بینک آف انڈیا 
  92. "Currnecy FAQ's"۔ rbi.org.in۔ ریزرو بینک آف انڈیا 
  93. ^ ا ب پ ت ٹ ث Dickson H Leavens (1939)۔ "Silver Money" (PDF)۔ cowles.yale.edu 
  94. ^ ا ب پ The silver question
  95. INDIAN CURRENCY AND FINANCE BY JOHN MAYNARD KEYNES
  96. ^ ا ب پ ت The Theory and Practice of Banking, By Henry Dunning Macleod, 1883
  97. What Have the "Experts" Gotten Right? In the Real Economy, They're 0 for 5
  98. The Occult Connection II: The Hidden Race
  99. ^ ا ب William M. Stewart, 1888
  100. The Economy of Modern India, 1860–1970, Part 3, Volume 3 By B. R. Tomlinson
  101. The Economy of Modern India, 1860-1970
  102. ^ ا ب EXPORT OF CAPITAL
  103. "امریکا کی مُفت خوری largest free lunch ever achieved in history" (PDF)۔ 14 مئی 2013 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 نومبر 2014 
  104. Parasite Logic
  105. ^ ا ب پ ت ٹ ث Indian Currency Problems of the Last Decade by Andrew, A. Piatt
  106. ^ ا ب پ ت "pdf:ریزرو بینک آف انڈیا کی یاد داشت" (PDF)۔ rbidocs.rbi.org.in 
  107. Modern India, by William Eleroy Curtis-1904
  108. پہلی جنگ عظیم کے ہندوستانی کرنسی پر اثرات
  109. Indian Currency and Finance by John Maynard Keynes
  110. "London Fix Historical Silver" 
  111. "London Fix Historical Gold" 
  112. "Silver Statistics and Information"۔ USGS 
  113. "چاندی کی دانستہ تباہی"۔ 22 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اگست 2014 
  114. "چاندی کے قتل عمد کا کبھی پوسٹ مارٹم نہیں ہوا۔"۔ 12 ستمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 جولا‎ئی 2014 
  115. Crossed Wires
  116. Can Silver Break Its Chains?
  117. "The Pilgrims Society"۔ 07 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 مارچ 2016 
  118. Silver Fundamentals
  119. Uneasy Money: The Anatomy of a Misconception
  120. ^ ا ب پ Keith Weiner۔ "Monetary Metals" 
  121. "گولڈ اسٹینڈرڈ"۔ wiki.mises.org 
  122. Expect A Paper Currency Collapse
  123. Doug Casey On Why Gold Is Money
  124. ^ ا ب "Rise and fall of the Gold Standard"۔ 04 مئی 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2014 
  125. ^ ا ب Evolution of International Monetary Systems
  126. [Routledge Encyclopedia of International Political Economy page 623]
  127. REPORT OF THE ROYAL COMMISSION ON INDIAN CURRENCY AND FINANCE, ستمبر، 1926
  128. Why A Dollar Collapse Is Inevitable
  129. THE COMING COLLAPSE OF THE INTERNATIONAL MONETARY SYSTEM
  130. کرنسی کی موت۔ جیمز رِکارڈز
  131. ^ ا ب As The Currency Reset Begins - Get Gold As It Is "Where The Whole World Is Heading"
  132. Bills of Exchange Act 1882
  133. انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا[مردہ ربط]
  134. "سونے اور اکنومک کومن سینس کے خلاف سو سالہ جنگ/"۔ 21 مارچ 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 نومبر 2014 
  135. a financial black hole
  136. Fiat Money Is "A Large-Scale Fraud System"
  137. The Classical Gold Standard: Some Lessons for Today
  138. Nine Phases of Monetary Breakdown
  139. The astounding rise of China's currency
  140. "پال واکر کا بیان"۔ 12 جون 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جون 2015 
  141. The Case for Gold: A Minority Report of the U.S. Gold Commission
  142. Mises Wire
  143. Globalisation: the rise and fall of an idea that swept the world | World news | The Guardian
  144. Parlimentary Debates 1826
  145. You can fool some people all the time
  146. Early American currency
  147. https://www.zerohedge.com/political/was-american-revolution-mistake
  148. Real High Crimes And Misdemeanors
  149. Keith Weiner۔ "Monetary Metals" 
  150. Gresham’s law-Encyclopaedia Britanica
  151. A Brief Overview of the American Civil War
  152. "Debt Slavery" Replaces Physical Slavery
  153. THE CONCISE ENCYCLOPEDIA OF ECONOMICS
  154. en:Coinage Act of 1873
  155. "Recapitulation of the Tables of Population, Nativity, and Occupation" (PDF)۔ U.S. Census Bureau۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اکتوبر 2010 
  156. Thirteenth Amendment to the United States Constitution
  157. 8 Things You May Not Know About American Money
  158. بہادر شاہ ظفر
  159. Nixon Closed the Gold Window and All I Got Was This Lousy National Debt
  160. 38 Incredible Facts About The Modern U.S. Dollar
  161. President Franklin D. Roosevelt: Architect of Monetary Madness and a U.S. Debt Default
  162. Franklin D. Roosevelt, Silver, and China
  163. Demonetization and Dehoarding of Chinese Silver
  164. بین الاقوامی مالیاتی نظام میں روپے اور دولت کی قانونی چوری[مردہ ربط]
  165. ^ ا ب Buffett, Zimbabwe, & What You Must Know About 'Zeros' In The Years Ahead
  166. Gold & Silver Confiscation: Can the Government Seize Assets?
  167. Is it illegal to own gold?
  168. Hyperinflation in Civil War China
  169. کانگریس کی تحقیقاتی رپورٹ
  170. The Emperor Has No Clothes بادشاہ ننگا ہے
  171. Pimco Economist Has A Stunning Proposal To Save The Economy: The Fed Should Buy Gold
  172. Zero interest rates and “gold back dollar” can not co-exist.
  173. A collapsing dollar and China’s monetary strategy
  174. Gold To Be Revalued In New ‘De Facto’ Gold Standard
  175. Inside Look-Elliott wave
  176. Charles Hugh Smith Fears "Catastrophic Drop", Financial Markets "Definitely Destabilizing"
  177. Michael Hudson: De-Dollarizing The American Financial Empire
  178. The Road To A Trillion Dollars
  179. People Money: The Promise of Regional Currencies
  180. سونے اور چاندی کی تاریخ
  181. Silver Moves to China
  182. History of Monetary Imperialism
  183. Schumpeter's long waves of innovation
  184. Kondratiev wave
  185. Paper money is just a ‘receipt’ or ‘certificate’
  186. Economic Slavery of The Modern World
  187. Mike Maloney: “One Hell Of A Crisis”-Crashing stocks, bonds, real estate & currency all at once?
  188. Inflation is not a social policy. It is daylight robbery.
  189. "زمبابوے میں شرح سود 800 فیصد"۔ ٹیلیگراف 
  190. [1]
  191. روزنامہ پاکستان
  192. Venezuela’s Bolivar Surges Past 2,000,000 VEF/USD
  193. ^ ا ب پ The Fed's Only Choice – Exacerbate The Wealth Gap, Or Else...
  194. An Interview with Michael Hudson, author of Super Imperialism
  195. The Death of Money by James Rickards (Summary)
  196. Is The Federal Reserve 'Public Enemy Number One'?
  197. ^ ا ب The Dollar Will Die with a Whimper, Not a Bang
  198. سونا کاغذی کرنسی کے زہر کا تریاق ہے۔
  199. "دوبارہ جائزہ"۔ 2ndlook.wordpress.com 
  200. علاو الدین خلجی کے زمانے میں قیمتیں
  201. India Essays on Economy Governance and Religion in the 19th Century
  202. gold price
  203. "gold price"۔ goldprice.org۔ July 9th, 2020 
  204. دنیا کی 120 کرنسیوں کا گرنا
  205. برٹش میوزیم
  206. My personal story from the collapse of the Soviet Union
  207. "pdf" (PDF)۔ cato.org۔ CATO 
  208. It's Not A "Conspiracy Theory": Here's How Central Banks Actively Suppress The Price Of Gold
  209. demonetising gold to preserve the fiat monetary system
  210. Is the COMEX Rigged?
  211. کیا یہ سچ ہے[مردہ ربط]
  212. The Big Reset, In Gold We Trust
  213. IN GOLD WE TRUST
  214. ڈوئیچے بینک کا لندن بلین مارکیٹ سے استعفاء
  215. "مرکزی بینک اور سونے کی لیزنگ"۔ whiskeyandgunpowder 
  216. "gold-price-manipulation-exposed"۔ goldstockbull 
  217. مرکزی بینکوں کا سونے کی قیمت گرانا یوٹیوب پر
  218. "کیا گورڈن براون نے بینکوں کو سہارا دینے کے لیے برطانیہ کا سونا سستی ترین قیمت پر بیچا؟"۔ zerohedge 
  219. "Andrew McGuire, whistle-blower on market manipulation, injured in hit-and-run accident"۔ sott.net 
  220. THE CANARY IN THE GOLD MINE
  221. "How the Fed Controlled the Price of Gold From 1982 Until 1995"۔ 13 نومبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 فروری 2021 
  222. سونے کی لیزنگ۔
  223. THE BIG RESET
  224. سونے کی قیمت کون گرا رہا ہے؟
  225. Bank of England Gold Vaults Bled 1500 Tonnes of Gold over 2013–2016
  226. "فیڈ چیرمین کا بیان کہ سونا سینٹرل بینکوں کا دشمن ہے۔"۔ 15 دسمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مئی 2014 
  227. ^ ا ب Ian Gordon (مارچ 10, 2014)۔ "کاغذی کرنسی کی موت"۔ Gold Eagle۔ اخذ شدہ بتاریخ Dec 17, 2014 
  228. پال ووکر۔ انگریزی ویکیپیڈیا پر
  229. "Europe Has Been Preparing a Global Gold Standard Since the 1970s"۔ 20 جولا‎ئی 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جولا‎ئی 2020 
  230. بی بی سی نیوز
  231. سوئیس سونے کی صورت حال
  232. Destruction of a Billionaire (4 of 4)
  233. Dr. Carroll Quigley۔ "Tragedy and Hope"۔ womensgroup.org 
  234. Manipulation of Gold & Silver by Bullion Banks
  235. IMF Gold Sales History
  236. Gold in the IMF
  237. GoldCore
  238. 2013 میں چین نے 2200 ٹن سونا خریدا
  239. Central Banks' Gold-Buying Spree Reaches 50-Year High
  240. Casualties of Credit: The English Financial Revolution, 1620–1720
  241. How markets are rigged against you
  242. Gold EFPs: Absolute Proof That Paper Gold Is A Fraud
  243. Not-So-Super-Mario Draghi's Day Of Reckoning Has Arrived
  244. JPMorgan Is Set to Pay $1 Billion in Record Spoofing Penalty
  245. The SEC Is Making Deutsche's CEO Personally Responsible For Bank's Crimes
  246. Nobel Prize winning economist Friedrich Hayek’s 1944 classic, The Road to Serfdom: غلامی کا رستہ
  247. Coincidence
  248. ^ ا ب پ ت Ron Paul۔ "What Has QE Wrought?" 
  249. سونا اور بیسویں صدی
  250. آئی ایم ایف کی ویب سائیٹ
  251. بریٹن ووڈز کا ایک جائیزہ
  252. What’s the Real Purpose of Money?
  253. ^ ا ب "Time:A brief history of Bretton Woods System"۔ ٹائم 
  254. THE MONETARY SIN OF THE WEST
  255. The Battle of Bretton Woods
  256. the hidden agenda of Bretton Woods[مردہ ربط]
  257. ^ ا ب "Banks and the New Slavery"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  258. The Politics of Debt-Serfs and Tax Donkeys: Our Only Choice Is the Least Bad Option
  259. "Global Financial System" 
  260. The Problem With the Global Education System, Part 1
  261. Social Change: An Anthology By Roxanne Friedenfels
  262. What were the compelling reasons for the British to free India (and other colonies) after the Second World War?
  263. Welcome To Neocolonialism, Exploited Peasants!
  264. The Price Of Empire
  265. From Dodgy Dossiers to the Sacking of Whitlam: The British Empire Stands Exposed
  266. ETF Daily News
  267. ^ ا ب پ Anuraag Sanghi (2008)۔ "جو بات وہ آپ کو کبھی نہیں بتائیں گے" 
  268. ^ ا ب پ ت What Has Government Done to Our Money
  269. Nixon Shock, The Reserve Currency Curse, And A Pending Dollar Crisis
  270. "بریٹن ووڈ کی موت کی وجہ"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  271. gold versus fractional reserve-Mises Org.
  272. "the-nixon-shock"۔ بزنس ویک میگزین 
  273. The Nixon shock after forty years: the import surcharge revisited
  274. For Victory Day: It’s Time to Think About Finally Winning WWII
  275. John Perkins (Middle East and Oil) Iraq Saudi-Arabia
  276. Nixon shock
  277. The End Of the (Monetary) World As We Know It
  278. امریکی صدر نکسن کی تقریر
  279. ویکیپیڈیا پر صدر نکسن کی اصل ویڈیو کو بلاک کر دیا گیا ہے۔ https:// کے بعد you کا اضافہ کریں اور دیکھیں۔[مردہ ربط]
  280. Michael Hudson (2003)۔ "Super Imperialism" (PDF)۔ 14 مئی 2013 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ 
  281. 1971ء جب سب کچھ بدل گیا۔
  282. The Money Trap: Escaping the Grip of Global Finance By R. Pringle
  283. The Nightmare Scenario
  284. Two Options: Reform the Economic System Now or the Populists Will
  285. ^ ا ب I. S. Gulati (1977)۔ Jamaica Agreement 1976 "INTERNATIONAL MONETARY REFORMS IN RETROSPECT AND PROSPECT" تحقق من قيمة |url= (معاونت)۔ Commonwealth Secretariat. Marlborough House.London SW1Y 5HX 
  286. From Dollar Hegemony To Global Warming: Globalization, Glyphosate, And Doctrines Of Consent
  287. After the Crisis: Planning a New Financial Structure- Learning from the Bank of Dad
  288. ^ ا ب Prof. Antal E. Fekete (فروری 1, 2004)۔ "THE PENTAGONAL MODEL OF CAPITAL MARKETS" (PDF)۔ GOLD STANDARD UNIVERSITY۔ 04 مارچ 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ 
  289. Why the Big Banks Are Terrified of Le Pen Winning in France (but not BREXIT or Trump)
  290. What Happens To Bond ETFs When Interest Rates Go Negative?
  291. A New Bretton Woods Moment, IMF
  292. Inflation: Your Role as a Milk Cow
  293. Google
  294. currency union means loss of powers
  295. The Concepts, Consequences, and Determinants of Currency Internationalization
  296. "Special Report- News & Views, July 2015."۔ 19 ستمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 دسمبر 2017 
  297. Rabobank: "This Is The Dynamic That Will Trigger The Next Round Of Global Turmoil Ahead"
  298. ^ ا ب "پاونڈ اسٹرلنگ کی موت" 
  299. Chapter 4. The money system today.
  300. How the Fed Fails
  301. The dying dollar
  302. Maybe Just A Coma? Russia Reacts To Macron's "Golden Words" About "Brain Dead" NATO
  303. France has de Gaulle to Withdraw from NATO
  304. master currencies are allowed to own slaves
  305. Tariffs Are Not the Answer Written by Ron Paul
  306. "کیا اس سے بڑا جادو بھی کوئی ہو سکتا ہے؟"۔ 15 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اپریل 2016 
  307. Why The Dollar Rules The World - And Why Its Reign Could End
  308. PAPER RESERVES IN CENTRAL BANKS
  309. The Bretton Woods System: A Failed Attempt
  310. The Gold-Drain-Demonetization Hoax
  311. ^ ا ب "Europe Has Been Preparing a Global Gold Standard Since the 1970s"۔ 20 جولا‎ئی 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جولا‎ئی 2020 
  312. The Burning Platform
  313. Cracks in Dollar Are Getting Larger[مردہ ربط]
  314. The Death Of The Petrodollar, And What Comes After
  315. Paul Volcker: The Last Of His Kind
  316. Introduction To Trading Eurodollar Futures
  317. With LIBOR Dead, $400 Trillion In Assets Are Stuck In Limbo
  318. Libor interest rate to be phased out after string of scandals
  319. Bretton Woods At 75: Has The System Reached Its Limits?
  320. The Next Empire
  321. By James Rickards, Posted October 6, 2017[مردہ ربط]
  322. The Beginning Of The End Of SWIFT: Russian Banks Join Chinese Alternative Global Payments System
  323. Turkey Joins Russia's Ruble-Based Alternative To SWIFT
  324. Germany Calls For Global Payment System Independent Of The US
  325. Trump To Unleash Hell On Europe: EU Announces Channel To Circumvent SWIFT And Iran Sanctions Is Now Operational
  326. Europe & Iran Complete First INSTEX Transaction, Dodging US Sanctions
  327. International Reserves of Countries Worldwide
  328. Trade Deficits And The American Empire
  329. The Financial War Escalates
  330. "Cashless society = TOTAL SLAVERY"۔ 28 فروری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اگست 2016 
  331. Sweden's 'Cash Rebellion' Fears "We Have No Weapon Fight Back...If Putin Invades"
  332. Three Faces of Bitcoin
  333. The yuan and the SDR (The Economist)
  334. China’s Monetary Ascension Is Paved with Gold
  335. آئی ایم ایف کی تصدیق
  336. Who Knew? German Central Bank Has Been Selling Gold For More Than A Decade
  337. Special drawing rights
  338. Deutsche Bank
  339. What Is An SDR And Will It Be The Next World Reserve Currency?
  340. China is hiding 9٫500 tons of gold
  341. China’s Plan to have an International Reserve Currency linked to Gold
  342. "Trap of monetary union" (PDF)۔ 04 مارچ 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جولا‎ئی 2015 
  343. joining the euro was a bad thing
  344. A country is either sovereign or it is not.
  345. Iran Sanctions: A Reminder Of How America Militarized The Financial System
  346. امیروں کی دولت میں اضافہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب غریبوں کی دولت میں کمی ہو
  347. ^ ا ب On The Syria Occupation And The New Face Of Imperialism
  348. ^ ا ب Paris - The Capital Of West & Central Africa
  349. Do You Remember The Plaza Accord?
  350. Europe: The Cracks Are Beginning To Show
  351. A New Global Debt Crisis Has Begun[مردہ ربط]
  352. Marcus Grubb (13 نومبر 2014)۔ "Gold Demand Trends" 
  353. "Top 40 reported official gold holdings (as at مارچ 2015)" is on the 24th page of the pdf file.
  354. "Latest World Official Gold Reserves" 
  355. Gold has been added to Turkey’s balance sheet as a result of a policy accepting gold in its reserve requirements from commercial banks.
  356. The Export of Capital. By CK HOBSON
  357. ^ ا ب Only labour can create wealth, Gold is condensed labour
  358. "معیشت کے طفیلی کیڑے"۔ endtheillusion.org 
  359. "پتلی ہوا میں سے دولت تخلیق کرنا" 
  360. دستاویزی فلم "دا منی ماسٹرز"
  361. For The First Time Ever, Wall Street Banks Top $100 Billion In Profit
  362. POLITICIAN FLIPS OUT AND EXPOSES CENTRAL BANKS SCAM
  363. کرنسی کا قحط
  364. When China Confiscates Gold- Get Silver like JPM
  365. Data table in Maddison A (2007)، Contours of the World Economy I-2030AD, Oxford University Press, ISBN 978-0-19-922720-4
  366. Financial Times
  367. What Is the World's Largest Economy?
  368. Population Comparison: China, EU, USA, and Japan
  369. Kenworthy, L (اگست 20, 2010)۔ "The best inequality graph, updated: Consider the Evidence"۔ lanekenworthy.net 
  370. انگریزوں کی آمد سے پہلے کا خوشحال برصغیر
  371. Estimated Indian gold reserves at 25٫000-30٫000 tons
  372. "ہندوستان: دنیا کی امیر ترین معاشیات"۔ wordpress 
  373. How is Asia's economic rise different from the rise of the West?
  374. The Rich Hold Assets, The Poor Have Debt
  375. The World of Currency Manipulation
  376. We're Living In The Age Of Capital Consumption
  377. LECTURES ON CREDIT AND BANKING BY HENRY DUNNING MACLEOD-1882
  378. currency manipulation
  379. Bretton woods enslavement
  380. Financing the Raj: The City of London and Colonial India, 1858–1940 by David Sutherland (review)
  381. Kazim Alam
  382. BUSINESS RECORDER
  383. The Legal Implications of Financial Sector Reform in Emerging Capital Markets. 1998, Rumu Sarkar
  384. The Wrong Medicine for Asia by Jeffrey Sachs
  385. Gold as currency is a weapon.
  386. ہلیری کلنٹن کی لیک شدہ ای میل
  387. "لیبیا پر جارحیت اور کرنل قذافی کا دینار جاری کرنے کا منصوبہ"۔ goldstockbull۔ 11 نومبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  388. "فسانے کی حقیقت" 
  389. "Iran presses ahead with dollar attack"۔ ٹیلیگراف۔ 12 فروری 2012ء 
  390. The Petro-Dollar Regime is Finished?
  391. رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران کا اعلیٰ حکام کے اجتماع سے خطاب
  392. Oil Rich Venezuela Stops Accepting Dollars
  393. Putin Orders End To US Dollar Trade At Russian Seaports
  394. اپنا سونا ہمیں بیچ دو۔ آئی ایم ایف کا پاکستان سے مطالبہ
  395. مڈویک میگزین، روزنامہ جنگ کراچی،4 تا 10 نومبر 2015ء
  396. ^ ا ب A war of financiers and fools
  397. Hitler's Economics
  398. The War on Cash
  399. Status Report of U.S. Government Gold Reserve ستمبر 30, 2015
  400. Standing At The Precipice Of A Financial Collapse: Time For A 21st Century Pecora Commission
  401. All of the World’s Money and Markets in One Visualization
  402. Silver reserves worldwide as of 2016, by country
  403. Startups ‘are staying private way too long’ says Salesforce founder Marc Benioff
  404. World Bank Warns "Wave Of Debt" Could Unleash Historic Crisis, Crush The Global Economy
  405. statista.com
  406. Fractional-Reserve Banking is Pure Fraud
  407. Human Development Report 1992, Chapter 3، اخذ شدہ بتاریخ 08 جولا‎ئی 2007 
  408. How The Military Controls America
  409. Physical Money & The Limits Of War
  410. The Victory Of Fiat Money, Endless Wars, & The Coming Age of Subjugation
  411. World War III Will Be An Economic War
  412. NATO Is A Goldmine For US Weapons' Industries
  413. THE U.S. DEFENSE INDUSTRY AND ARMS SALES
  414. Global Research
  415. The Guide To Real History
  416. Globalists Are Bringing Their One World Currency Plans Out Into The Open
  417. INSTITUTE FOR HISTORICAL REVIEW
  418. “Hidden Hand” behind wars and revolutions
  419. ہٹلر کا مالیاتی نظام
  420. "دوسری جنگ عظیم تو بینکاروں کی حفاظت کے لیے لڑی گئی تھی"۔ veteranstoday۔ 27 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  421. Tables of historical exchange rates to the United States dollar
  422. "Mr-Yen-cautions-on-Japans-unsafe-debt-trajectory"۔ ٹیکیگراف 
  423. The European Economy Since 1945: Coordinated Capitalism and Beyond
  424. "Cold War Museum"۔ 19 اپریل 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 دسمبر 2014 
  425. Wilfred Burchett, جرمنی کی تقسیم
  426. Final Report of the Independent Commission of Experts Switzerland – Second World War, page 243
  427. "The.History.of.the.Money.Changers"۔ iamthewitness 
  428. A Historical Perspective: The Banking Monopoly
  429. An Empire Self-Destructs
  430. ^ ا ب "غربت کی اصلی وجہ" (PDF) 
  431. "عالمی معیشت کو قذافی کے گولڈ دینار سے بچانا"۔ 05 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 ستمبر 2014 
  432. قذافی کے بعد لیبیا پر قیامت
  433. تیل کے بدلے سونا۔ قذافی کی موت کا سبب
  434. Grab a bucket, Rome is burning!
  435. Nearly $6 Billion Belonging To Dead Libyan Dictator Gaddafi Has Gone Missing
  436. "جنگ بینکاروں کے لیے منافع بخش ہوتی ہے"۔ 11 جولا‎ئی 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جون 2014 
  437. Ukraine's IMF Gold & The Gold Carry Trade
  438. ساری جنگیں بینکاروں کی جنگیں ہوتی ہیں
  439. قرض میں جکڑی غلام دنیا[مردہ ربط]
  440. Preemtive war is basically aggression.
  441. جنگ کی قیمت
  442. Christopher Read (2005) Lenin۔ London: Routledge. pp. 116–126
  443. تیسری جنگ عظیم
  444. Origins of Central Banking
  445. امریکا کو جنگ کی کیوں ضرورت ہے؟
  446. "کاغذی غربت"۔ blogspot 
  447. "AbolishFiatSlavery"۔ limewebs 
  448. Far from stimulation, this is daylight robbery
  449. "Coronacide"
  450. H Shaw (1950)۔ The Lincoln Encyclopedia (PDF)۔ Macmillan, NY 
  451. "زر فرمان"۔ dailyreckoning 
  452. Manual for Rebirthers By Fanny van Laere
  453. "A Crisis Like No Other": IMF Sees Even Deeper Global Recession, Warns Markets Disconnected From Reality
  454. Doug Casey on Whether Your Vote Can Prevent a Civil War?
  455. PROMISE TO PAY by ROBERT MCNAIR WILSON
  456. Money is the lifeblood of the powerful and the chains and key to human enslavement
  457. Democratic Rep.-elect Jamaal Bowman: 'Capitalism is slavery by another name'
  458. "غلامو جاگو"۔ whatreallyhappened۔ 20 جنوری 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  459. "بے ایمان میڈیا"۔ theunjustmedia 
  460. ^ ا ب "کاغذی کرنسی غلامی ہے"۔ blogspot 
  461. امریکی صدارتی امیدوار رون پول کا بیان[مردہ ربط]
  462. 9000 ارب ڈالر کی فیڈرل ریزرو سے چوری
  463. The Fed Will Continue Tightening Until Everything Breaks
  464. ہمارے فیصلوں کو کوئی مائی کا لال رد نہیں کر سکتا۔ ایلن گرین اسپان۔ صفحہ نمبر 136
  465. James Rickards۔ Currency Wars: The Making of the Next Global Crisis۔ Portfolio Trade۔ ISBN 978-1-59184-556-0 
  466. "the federal reserve neither truly federal nor a fullreserve"۔ financicles۔ 10 دسمبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  467. "ڈاکووں اور لٹیروں کا گروہ"۔ wordpress 
  468. "بینکنگ پر مشہور اقتباسات" 
  469. The Fed Dilemma
  470. "دنیا کی صحیح تاریخ"۔ trueworldhistory.info 
  471. "Dollar Imperialism"۔ 13 اکتوبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 ستمبر 2014 
  472. "Executive order 11110" 
  473. Who Killed President Kennedy And Why?
  474. "آٹھ خاندانوں کا بدمعاش گروہ" 
  475. "جھوٹ چوری اور دھوکوں کی تاریخ"۔ scionofzion 
  476. Every single day, the benefits of our labor are going to enrich somebody else.
  477. They Killed King for the Same Reason They Killed Kennedy
  478. ^ ا ب "monie"۔ biblebelievers.org.au 
  479. منی چینجروں کو عبادت گاہ سے جبراً باہر نکالنے کے چند ہی دنوں بعد حضرت عیسیٰ کو صلیب پر لٹکایا گیا
  480. IN GOD WE TRUST?/ IN GOLD WE TRUST
  481. "Legal-Tender-Act-1862"۔ britannica 
  482. "Legal Tender Cases – 79 U.S. 457 (1870)"۔ supreme.justia.com 
  483. Lies, Damned Lies, and Central Bank Forecasts
  484. "34 – Executive Order 6102"۔ ucsb.edu 
  485. "china-bullion-gold-silver-and-silk"۔ wordpress 
  486. "بن برنانکے کی تقریر"۔ federalreserve.gov 
  487. "سونے کی تاریخ" (PDF)۔ nma 
  488. It is what it is but it's not what it seems.
  489. "Michael J. Kosares"۔ 19 ستمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 دسمبر 2017 
  490. Audits Of US Monetary Gold Severely Lack Credibility
  491. "Ron Paul" 
  492. 1986 کے آڈٹ کے مطابق 7500 ٹن سونا تھا۔
  493. Deep Storage Reserves Summary
  494. دوسروں کے سونے سے سینٹرل بینکنگ
  495. 31 Incredible Facts About Gold
  496. فیڈرل ریزرو کا سونا ختم ہو گیا؟
  497. Did The Dutch Central Bank Lie About Its Gold Bar List?
  498. UK Blatantly Violates Norms Of Decent Behavior
  499. The history of Money
  500. یہ سونا خریدنے کا صحیح وقت ہے
  501. "کیا مرکزی بینکوں کے پاس واقعی سونا بچا ہے؟"۔ sprottglobal۔ 15 اکتوبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  502. "کاغذی سونے کا بند ٹوٹنے والا ہے"۔ 01 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  503. "وال اسٹریٹ ڈیلی- فورٹ نوکس/"۔ 19 فروری 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 مارچ 2014 
  504. Monetary Failure Is Becoming Inevitable
  505. 9 Trillion dollars missing from Federal Reserve
  506. "امریکی حکومت پر قرضوں کی تازہ ترین صورتحال" 
  507. Russia and Turkey Diversifying Into Gold As The U.S. Borrows Faster Than Entire World Saves
  508. پیپلز بینک آف چائینا کے گورنر Zhou Xiaochuan کا بیان
  509. Here's A Phrase You'll Never Hear Again In The USA
  510. Peter G. Peterson Foundation (اپریل 2010)۔ "Citizen's guide 2010: Figure 10 Page 16"۔ Peter G. Peterson Foundation [website]۔ Retrieved فروری 5, 2011.
  511. COVID-19 Is Not Even Close To America's Biggest Problem
  512. America's Fake-Money System: Honest Work For Dishonest Pay
  513. Von Greyerz: The World Will Never Be The Same
  514. ^ ا ب The Evolution Of Fiat Money (Part 3): Where Is This All Going? (Spoiler Alert - Nowhere Good!)
  515. Bitcoin Cash (BCH) Becoming Available for Everyday Use Like Daily Money
  516. Gold Market and the Interest Rate Trap
  517. امریکی قرضے۔ انگریزی ویکیپیڈیا پر
  518. Professor Antal E. Fekete
  519. Bank of England
  520. "Global Financial Crisis Timeline: 2007–2012"۔ usfn.org۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  521. 10 Years Ago Today Money Markets Seized Up, The ECB Bailed Out BNP Paribas, And The Crisis Started
  522. Bernanke: 2008 Meltdown Was Worse Than Great Depression
  523. The Global Economic & Financial Crisis: A Timeline
  524. Business Insider UK
  525. Global Economic Briefing: Central Bank Balance Sheets, February 23, 2018, Dr. Edward Yardeni
  526. "QE3: What is quantitative easing? And will it help the economy?"۔ بلاگ واشنگٹن پوسٹ 
  527. "یو ٹیوب پر اس فلم کو ایک سال میں تقریباً 50 لاکھ لوگوں نے دیکھا" 
  528. Will central banks survive?
  529. Von Greyerz: The 'Humpty-Dumpty' System Is Irreparable
  530. The Fed’s actions have not saved the little guy; they’ve skewered him.
  531. Shadow Fed Funds Rate
  532. When Bonds & The Dollar Sink, The Only Thing That Can Save Stocks Is QE
  533. Quantitative Easing Explained
  534. The Biggest Credit Impulse In History Leads To Some Very Awkward Questions
  535. Is The "Debt Chasm" Just Too Big For The Fed To Fill?
  536. "the-fed-should-stop-paying-banks-not-to-lend"۔ نیویارک ٹائمز 
  537. سی آئی اے۔ فیکٹ بُک
  538. "Bernanke-on-fed-policies"۔ theblaze  اور اس طرح حاصل ہونے والا معیشت کو بڑھاوا زیادہ نمایاں بھی ہوتا۔
  539. امریکا میں بے روزگاری 23 فیصد
  540. "تخلیق شدہ ڈالروں پر دھول جم رہی ہے"۔ 23 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 جنوری 2014 
  541. اسٹاک مارکیٹ یا کیسینو؟
  542. Living In A QE World
  543. An Interview With The Most Powerful Man On Wall Street
  544. Make Stock Buybacks Illegal?
  545. How Empires Fall: Moral Decay
  546. انسانی تاریخ کا سب سے بڑا ڈاکہ۔
  547. The "Vollgeld Initiative" - Switzerland's 'Once-In-A-Lifetime' Chance To Save The World
  548. "Rising Government Debt and the Next Global Recession"۔ 14 اگست 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مئی 2015 
  549. The Central Bank Bubble's Bursting: It Will Be Ugly
  550. Dark Money Runs the World[مردہ ربط]
  551. اگلے عالمی بحران کا بننا۔ جیمز ریکارڈز
  552. TOTAL CATASTROPHE OF THE CURRENCY SYSTEM
  553. Trader: "Modern Monetary Theory Is Coming... Ignoring It Would Be Foolish"
  554. "It Will All End Badly" - The Coming Economic End-Game
  555. The Price For QE Has Yet To Be Paid"
  556. دنیا کی سب سے زیادہ منافع کمانے والی کمپنی سوئس نیشنل بینک (SNB) ہے۔
  557. $21 Trillion And Rising: How Central Banks Are LBOing The World In One Stunning Chart
  558. "دنیا کے آٹھ سب سے بڑے مرکزی بینک اور انکا کاغذی کرنسی چھاپنا"۔ ritholtz 
  559. Nomi Prins: Collusion - Central Bank Money Rules The World
  560. Paul Craig Roberts: "How Long Can The Federal Reserve Stave Off The Inevitable?"
  561. Central Banks Are Trojan Horses, Looting Their Host Nations
  562. Negative Interest Rates: A Tax in Sheep’s Clothing …
  563. Daniel Lacalle, Mises Institute
  564. Cash Is No Longer King: The Phasing Out of Physical Money Has Begun
  565. South Carolina Bills Would Cut Taxes on Gold and Silver, Support Sound Money
  566. This Curve Will Never Flatten Again: Fed Balance Sheet Hits $6.1 Trillion, Up $2 Trillion In 1 Month
  567. The World Is Drowning In Debt
  568. MMT - Not Modern, Not About Money, & Not Really Much Of A Theory
  569. Two Percent For The One Percent
  570. The Hidden Link Between Fiat Money And The Increasing Appeal Of Socialism
  571. Unjust redistribution (Cantillon effect)
  572. The Federal Reserve & It’s Ongoing Destruction Of The Bottom 90%
  573. The U.S. Only Pretends to Have Free Markets
  574. Wealth inequality and monetary policy
  575. What Makes You Think the Stock Market Will Even Exist in 2024?
  576. How Central Banking Increased Inequality
  577. Where did the United States go off track?
  578. Coronavirus And Credit - A Perfect Storm
  579. 0.7% Of Adults Control $116.6 Trillion
  580. "The World Is Now $217,000,000,000,000 In Debt And The Global Elite Like It That Way"۔ 01 جولا‎ئی 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جولا‎ئی 2017 
  581. Top 1 percent own more than half of world’s wealth
  582. the money system itself is the source of inequality
  583. If We Don't Change The Way Money Is Created, Social Disorder Is Inevitable
  584. It's Time To Get Painfully Honest: Banks Are Evil
  585. George Carlin - It's a big club and you ain't in it. یوٹیوب پر ویڈیو
  586. "We're Living In A System Of The Banks, By The Banks, & For The Banks..."
  587. Bond Vigilantes
  588. Bloomberg
  589. "How inflationary banking creates economic depressions and recessions"۔ 25 جون 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 دسمبر 2016 
  590. 150 Years Of Bank Credit Expansion Is Near Its End
  591. Ilargi Meijer: "Our Economic Systems Have Been Destroyed By Our Central Bankers"
  592. Ron Paul Pans The Fed's "Brilliant Plan"... More Inflation And Higher Prices
  593. "Count Draghila": A Furious Germany Reacts To Draghi's Monetary "Horror"
  594. The Fed's "Not QE" And How We Are Playing It
  595. Mish: Pondering The Collapse Of The Entire Shadow Banking System
  596. Fed Will Not Disclose Which Banks Are Receiving Repo Cash For At Least Two Years
  597. Negative-Rates Bite: Bundesbank Fears Financial Stability Risks, Moody's Downgrades Outlook For German Banks
  598. ^ ا ب Rickards: Americans Should Fear The "Anarchy From Above"
  599. Mnuchin Begs For Coins Amid Shortage; Avoid Depositing These Pennies
  600. CEO of the world's biggest hedge fund, Ray Dalio
  601. "A Multitrillion Dollar Helicopter Credit Drop": How The Fed Turned $454 Billion Into $4.5 Trillion
  602. Vladimir Putin Sums Up The New World Order In 5 Words
  603. "Revolutions And Wars": What According To Ray Dalio Comes After "Printing Money"
  604. Planned in Advance by Central Banks – A 2020 System Reset
  605. Life Within The Matrix Is Our Future
  606. ^ ا ب پ ت Money Manipulation and Social Order by REV. DENIS FAHEY-1944
  607. The U.S. Dollar: A Victim of Its Own Successڈیلی اور ریکوننگ کے درمیان سے _ ہٹا کر سرچ کریں[مردہ ربط]
  608. "Exchange rates"۔ OECD 
  609. China Battles "Impossible Trinity"
  610. ‘Tipping Point’: These Are Some of The Worst Currencies Of 2018 - Thanks to the Fed
  611. The Transformation of Southeast Asian Economies By Teofilo C. Daquila
  612. An Attack on a Currency[مردہ ربط]
  613. Currency as a weapon: Blunt but Potent[مردہ ربط]
  614. Rabobank: Another Remarkable Day In What Is Clearly Fin-De-Regime
  615. Switzerland’s Struggle Against Fiscal Imperialism
  616. Raghuram Rajan- Reserve Bank of India’s IMF-Chicago Boy
  617. The Weaponization Of The Dollar
  618. 4 Totally Fake Currencies That Changed the Course of Real Wars
  619. تاریخ سے فرار ممکن نہیں۔ فی ایٹ کرنسی آخرکار ڈوب جاتی ہے۔
  620. "دھندلا ڈالر"۔ dollardaze.org۔ 13 نومبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  621. کاغذی کرنسی ڈوبنے والی ہے۔ اردو میں
  622. What Will Happen to You When the Dollar Collapses?
  623. stress tests merely hide that fact
  624. Key ECB interest rates
  625. The Economist
  626. "Venezuela struck by runaway Inflation"۔ 22 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2015 
  627. Hyperinflationary Collapse of Venezuela
  628. کیا ڈوئیچے بینک کی حالت زار کسی نئے بینک کرائسس کا اشارہ دے رہی ہے؟
  629. Maxine Waters: "Deutsche Bank Is Perhaps The Biggest Money Laundering Bank In The World"
  630. The Weird Obsessions Of Central Bankers, Part 1
  631. German 10-Year Yield Since 1807
  632. One by One the Central Banks Are Losing Control
  633. US Financial Conditions Easiest Since 2000 (Despite 5 Fed Rate Hikes)
  634. Are Central Banks Losing Control?
  635. Chris Martenson: "Why This Market Needs To Crash (And Likely Will)"
  636. central bank balance sheets have now grown to a record $15.1 trillion
  637. Atlas Is Shrugging
  638. If Deficits Are Good, Why Not Stop Taxation Altogether?
  639. The Creator Of The Bond Volatility Index Reveals When The Fed Will Finally Lose Control
  640. Blurring The Lines Between Debt And Money
  641. جب معاملہ سنگین ہو تو جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔
  642. شرح سود کا منفی ہو جانا سینٹرل بینکوں کی مایوسی کو ظاہر کرتا ہے
  643. Mutual Funds, ETFs at Risk of a Run
  644. Jean-Claude Juncker's most outrageous political quotations- THE TELEGRAPH
  645. How The Euro Enabled Europe's Debt Bubbles
  646. اگلے بحران میں کھاتے منجمد ہو جائیں گے
  647. First "Bail In" Under New European Rules
  648. It Begins: One European Bank Fails, Another One Needs An Urgent Cash Injection!
  649. How Much Does Puerto Rico Owe?
  650. Why you can't ignore Puerto Rico's bankruptcy
  651. “Bail-In” Era for Europe’s Banking Crisis Begins
  652. Two Italian Zombie Banks Toppled Friday Night
  653. Russian Central Bank Bails Out Otkritie Bank, Country's Largest Private Lender
  654. Russia central bank considering rescue of B&N Bank- FINANCIAL TIMES
  655. Russia Mulls Additional Trillion Ruble Bailout For Failing Banks
  656. Ex-Bankrate CFO Sentenced To 10 Years, $21 Million In Restitution For Accounting Fraud
  657. Wells Fargo to pay $3 billion to U.S.-Reuters
  658. Wells Fargo to pay $3 billion over fake account scandal
  659. Indian Government Nationalizes 4th Largest Bank As Shadow Banking Crisis Looms
  660. Forex Factory
  661. A Dictionary of Economics by John Black, Nigar Hashimzade, Gareth Myles
  662. the morgan report
  663. Is Blockchain A Gold & Silver Launchpad?
  664. Gundlach: "Intense" Downturn Means "Helicopter Money" Is Coming
  665. Money Creation as a Tool of Plunder
  666. "America is the number 1 threat to peace."۔ 08 اگست 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اگست 2016 
  667. "غربت کی اصل وجہ" (PDF)۔ mpra.ub.uni-muenchen.de 
  668. Paper money and tyranny by Rep. Ron Paul, MD
  669. Escobar Exposes America's Existential Battle To Stop Eurasian Integration
  670. How the US Wages War to Prop up the Dollar
  671. History of Financial Globalization, Overview
  672. The Economics of the Industrial Revolution edited by Joel Mokyr
  673. the true battlefield is the human mind; everything else is secondary.
  674. The Only Man In Europe Who Makes Any Sense
  675. Introduction to the Stock Market
  676. casino and the stock market : simple-closed systems
  677. In A Bubble Economy, Capital Goods Aren't Always A Good Thing
  678. THE GLOBAL FOREST FIRE IS HERE
  679. Why Brexit Makes Gold A Buy
  680. investopedia.com
  681. International Energy Agency
  682. Nobel Prize Winning Economist Angus Deaton
  683. The Single Most Important Chart in the World is Breaking Down
  684. Is The US Dollar Fading As The World's Dominant Currency?
  685. How the Democrats Ruined my life and made me a Libertarian
  686. "Fundamentally Rigged" - Runaway Algos Spark Chaos, Crackdown In World's Most Important Futures Market
  687. Export of capital
  688. کیپیٹل ازم کا باپ
  689. power to create the greatest fortunes ever known to mankind at will
  690. THE GENERAL CHARACTERISTICS OF IMPERIALISM
  691. I'm into hoarding by any means
  692. "Parasitocracy: government's wealth-transfers 'from the masses to the classes'۔"۔ 05 اگست 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اگست 2015 
  693. deeply undemocratic economic systems
  694. "We Made It Wider!" Hank Paulson Bursts Out Laughing When Asked About Wealth Inequality
  695. The Committee To Destroy The World: The Federal Reserve
  696. Walter Bagehot 1873, Lombard Street: A Description of the Money Market
  697. Warning, the U.S. is Becoming a Banana Republic
  698. Posts by SteveHanke
  699. Our Time/Labor Is Finite, But Money Is Infinite
  700. Phoenix Capital Research
  701. "this-collapse-will-be-very-frightening-because-once-the-credit-stops-the-economy-stops"۔ bullmarketthinking۔ 20 فروری 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  702. "State-Wrecked: The Corruption of Capitalism in America" 
  703. "جرمنی امریکا سے کیوں اپنا سونا واپس مانگ رہا ہے؟"۔ washingtonsblog۔ 13 اپریل 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  704. Market Crash? Another 'Red Card' For The Economy
  705. Global Debt Hits Record $233 Trillion, Up $16Tn In 9 Months
  706. Pillars of Prosperity: Free Markets, Honest Money, Private Property By Ron Paul
  707. The 5 Steps To World Domination
  708. An Interview with Michael Hudson, author of Super Imperialism
  709. "Fractional-Reserve Banking is Pure Fraud"۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 دسمبر 2015 
  710. "Economic Rape"۔ 17 جولا‎ئی 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 مارچ 2016 
  711. "Thanks to the fraud of "fractional-reserve banking""۔ 22 اگست 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 اگست 2015 
  712. مرکزی بینکوں کی حد سے زیادہ طاقت
  713. gold and economic freedom are inseparable
  714. "Something Larger Afoot"
  715. Keeping the Rabble in Line
  716. How QE Has Radically Changed The Nature Of The West's Financial System
  717. currency colonialism[مردہ ربط]
  718. Cash No Longer King: Europe Accelerates Move To Begin Elimination Of Paper Money
  719. The History (And Rising Power) Of Central Banks
  720. "The Grand Chess Board of World War III"۔ 03 مئی 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 مارچ 2016 
  721. "People Who Opposed the Central Banking Scheme"۔ 01 دسمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 نومبر 2016 
  722. The Federal Coup to Overthrow the States and Nix the 10th Amendment Is Underway
  723. Money is Slavery by Proxy
  724. The fate of the pound sterling
  725. The Common Market : Towards European Integration of Industrial and Financial Markets? (1958–1968) By Régine Perron
  726. Retired Green Beret Warns, Prepare For War: 'Globalism, Socialism, And Communism' Versus 'Freedom'
  727. A Trade War Off These Import Figures?
  728. The Eternal Relationship Between Gold And Global Crisis
  729. Krieger: "It's A Systemic Looting On A Massive Scale"
  730. A Farewell To Paper Money?
  731. Has America Become A Dictatorship Disguised As A Democracy?
  732. Democracy Is The Ideal Distraction
  733. How Liberal Democracy Promotes Inequality
  734. Our Hopelessly Dysfunctional Democracy
  735. High-Ranking CIA Agent Blows Whistle On The Deep State And Shadow Government
  736. Hitler and JFK make similar speeches.
  737. Total US Government Debt Is $200 Trillion - Debt Clock Ticking To Next Crisis
  738. The Economic Consequences of the Peace
  739. "بھولی بسری کتابیں"۔ 25 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2015 
  740. Goethe Predicted Dollar Slavery, in 1809

Helping website for urdu typing

بیرونی ربط