غزوہ ذی قرد
غزوہ ذی قرد | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
| |||||||
کمان دار اور رہنما | |||||||
سلمہ بن اکوع | Abdur Rahman Uyanah bin Hisn Al-Fazari | ||||||
طاقت | |||||||
500-700 Muslims assembled, only 8 sent[1] | 40 گھڑ سوار[1] | ||||||
ہلاکتیں اور نقصانات | |||||||
4 ہلاک[1] | 4 ہلاک[1] |
صلح حدیبیہ کے عہد کے بعد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے سب سے بڑے دشمن قریش کے مکر و فریب اور شر و عداوت سے مطمئن ہو چکے تھے کیونکہ یہ یہ عہد ہوا تھا کہ دس سال تک جنگ بند رہے گی۔ تب آپ اپنے سب سے شریر دشمن یہود کے طرف متوجہ ہوئے کیونکہ یہود ہر پل مسلمانوں کو ستانے میں کوئی کسر اٹھا نہ چھوڑتے، طتب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ یہود سے نمٹیں گے۔ یہودی خیبر اور اس کے شمال میں آباد تھے۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کی طرف نکلنے کی تیاری فرما رہے تھے کہ اس وقت ایک چھوٹا سا واقعہ درپیش ہوا جسے غزوۂ غابہ یا غزوہ ذی قرد کہا جاتاہے۔
تفصیل
[ترمیم]اس واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ محمدﷺ نے اپنے اونٹ احد کے اطراف میں غابہ کے اندر چرنے کے لیے بھیج رکھے۔ ساتھ میں آپ کا غلام رباح‘اونٹوں کا چرواہا اور سلمہ بن اکوع ( ایک مرد صحابی کا نام ) تھے۔ حضرت سلمہؓ کی ساتھ ابوطلحہؓ بھی تھے۔ اچانک عبد الرحمان بن عینہ فزاری نے اونٹوں پر چھاپہ مارا اور تمام اونٹ ہانک کر لے گیا۔ سلمہؓ نے اپنا گھوڑا رباح کو دیا کہ وہ جلدی جاکر مدینہ میں محمد ﷺ کو آگاہ کرے،اور سلمہ ؓ خود ایک ٹیلے پر کھڑے ہو گئے،اور تین بار بلند آواز سے پکارا ’’یا صباحاہ‘‘ (ہائے صبح کا حملہ)،پھر سلمہؓ حملہ آوروں کے پیچھے چل نکلے،وہ تیر برسا رہے تھے۔ اور سلمہؓ بن اکوع یہ رجز پڑھ رہے تھے:
خُذُھَا ،أنَا ابنُ اَکُوُعِ وَالیَومُ الرُّضَّعِ
یعنی ’’یہ لے! میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کا دن دودھ پینے والے کا دن ہے‘‘
اس کے بعد جناب سلمہ بن اکوعؓ دشمن کا پیچھا کرتے گئے،اور تیر برساتے رہے۔ آخرکار، جب دشمن یعنی عبد الرحمان بن عینہ فرازی ایک پہاڑ کے تنگ راستے میں داخل ہوا تو سلمہؓ پہاڑ کے اوپر چڑھ گئے اور عبد الرحمان بن عینہ پر پتھر لڑھکانے لگے۔ یوں اس نے تمام وہ اونٹ چھوڑدیے جو اس نے محمدﷺ کی چراگاہ سے ہنکا لایا تھا۔
اس کے باوجود بھی سلمہ بن اکوعؓ اس کا پیچھا کرتے رہے حتٰی کہ اس نے بوجھ کم کرنے کے لیے تیس چادریں اور تیس نیزے پھینک دیے۔ حضرت سلمہؓ ان پر بطور نشان تھوڑے تھوڑے پتھر ڈالتے گئے تاکہ ان کو پہچان لیا جائے۔
پھر وہ لوگ گھاٹی کے ایک تنگ موڑ پر بیٹھ گئے۔ سلمہؓ نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ کے شہسواردرختوں کے درمیان آ رہے ہیں۔ آگے جناب اخرمؓ‘پھر ابوقتادہؓ ،پھر مقدادؓ۔ پھر اخرم اور عبد الرحمان میں ٹکرار ہوئی۔ اخرمؓ نے عبد الرحمان کے گھوڑے کو زخمی کیا مگر عبد الرحمان نے واپس انھیں نیزہ مار کر شہید کر دیا اور ان کے گھوڑے پر پلٹ آیا لیکن اتنے میں ابوقتادہؓ عبد الرحمان کے سر پر جاپہنچے اور اسے نیزہ مار کر قتل کر دیا۔ دشمن کے باقی آدمی بھاگ کھڑے ہوئے۔ حضرت سلمہ بھی ان کے ساتھ پیدل دوڑ رہے تھے‘سورج ڈوبنے سے کچھ دیر پہلے دشمن ایک گھاٹی میں جا پہنچا جس میں ذی القرد نام کا چشمہ تھا۔ دشمن پیاسا تھا اور پانی پینا چاہتا تھا۔ لیکن سلمہؓ نے اسے تیر مار کر پرے (زخمی) کر دیا۔ رسولﷺ اور صحابہ دن ڈوبنے سے پہلے سلمہؓ کے پاس پہنچے۔ سلمہؓ نے فرمایا کہ یارسول اللہﷺ ! یہ سب پیاسے تھے۔ اگر آپ ہمیں سو آدمی دیدیں تو میں ان کے جانوروں سمیت ان کے گردنیں پکڑاؤ،آپﷺ نے فرمایا:
اکوع کے صاحبزادے (سلمہؓ)! تم قابو پاگئے اور اب نرمی کرو۔ اس وقت بنوغطفان میں ان کی مہمان نوازی کی جا رہی ہے۔
اس غزوے میں سلمہ بن اکوعؓ کو رسولﷺ نے پیدل اور سوار دونوں کا حصہ دیا اور عضباء اونٹنی پر ساتھ پیچھے بیٹھایا اور فرمایا: آج ہمارے بہترین سوار ابوقتادہؓ اور بہترین پیادہ سلمہؓ ہیں
یہ غزوہ آپﷺ کے خیبر روانگی سے صرف تین روز پہلے پیش آیا۔ اس غزوے کے دوران مدینہ کا انتظام آپﷺ نے ابن ام مکتوم کو سونپا اور پرچم (جھنڈا) حضرت مقدادؓ کو دیا۔
پچھلا غزوہ: بنی لحیان |
غزوات نبوی غزوہ ذی قرد |
اگلا غزوہ: غزوہ حدیبیہ |
حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب پ ت ٹ Watt, W. Montgomery (1956)۔ Muhammad at Medina۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 42۔ ISBN 978-0-19-577307-1۔
Then there was the raid on Muhammad's private herd of camels by 'Uyaynah b. Hisn al-Fazari, who was doubtless annoyed because Muhammad had broken off negotiations with him over the withdrawal of Ghatafan. The raid was a small affair. Only 40 enemy horsemen were involved, and the booty was only 20 milking camels; 8 Muslims pursued on horseback, recovered half the camels, and killed 4 of the raiders for the loss of i of their own number.
روابط خارجية في|title=
(معاونت) (free online) - ↑ Saifur Rahman Al Mubarakpuri (2002)، When the Moon Split، DarusSalam، صفحہ: 228، ISBN 978-9960-897-28-8