ابن ام مکتوم
ابن ام مکتوم | |
---|---|
(عربی میں: عبد الله بن أم مكتوم) | |
مزار عبد اللہ بن ام مکتوم
| |
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | مکہ |
وفات | سنہ 636 قادسیہ کی لڑائی |
وجۂ وفات | لڑائی میں مقتول |
شہریت | ![]() |
عارضہ | اندھا پن |
عملی زندگی | |
پیشہ | مؤذن |
شعبۂ عمل | دعوہ |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | قادسیہ کی لڑائی |
ترمیم ![]() |
عبد اللہ ابن ام مکتوم مسجدنبوی کے نائب مؤذن اور نابینا تھے
نام[ترمیم]
معروف صحابی، مؤرخین نے ان کا نام عبد اللہ اور عمر لکھا ہے۔ زیادہ تر اپنی کنیت ابن ام مکتوم سے متعارف ہیں۔ باپ کا نام قیس تھا۔ مادر زاد نابینا تھے۔
غزوہ تبوک کے موقع پرامام[ترمیم]
جب حضور غزوہ تبوک میں جانے لگے تو علی کو اہل مدینہ کی حفاظت پر اور عبد الله ابن مکتوم کو نماز کی جماعت کرانے پر مقرر فرمایا،[1]) ابتدائے بعثت میں مکہ میں اسلام قبول کیا۔
سورہ عبس کی وجہ نزول[ترمیم]
ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم روسائے قریش کو تبلیغ فرما رہے تھے کہ ابن اُم مکتوم آ گئے۔ وہ حضور سے کچھ عرض کرنا چاہتے تھے لیکن حضور قریش کو سمجھانے میں اتنا منہمک تھے کہ توجہ نہ دے سکے۔ اس پر سورہ عبس کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔ ان آیات کے نزول کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خاص طور پر ابنِ اُم مکتوم کا لحاظ فرماتے تھے۔ ہجرت کے بعد آپ بھی مدینہ منورہ چلے گئے۔ اور موذن کا عہدہ عطا ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب کبھی باہر تشریف لے جاتے تو اکثر امامت کا شرف ابنِ اُم مکتوم کو حاصل ہوتا۔ آپ قرآن مجید کے حافظ اور مدینہ منورہ میں لوگوں کو قرات سکھاتے تھے۔ آپ سے کئی احادیث منقول ہیں۔
وفات[ترمیم]
واقدی کے قول کے مطابق مدینہ منورہ میں وفات پائی۔ لیکن زبیر بن بکار کی روایت ہے کہ جنگ قادسیہ میں شہید ہوئے۔
ایک دن رسول اللہ ﷺ اپنی دو بیویوں ِ امِ سلمہ اور میمونہ کے پاس تشریف فرما تھے کہ اچانک عبد اللہ ابن مکتوم جو نابینا تھے آ گئے حضورصﷺ نے ان دونوں بیویوں سے فرمایا:کہ اِحْتَجِبَامِنْہُ ان سے پردہ کرو۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ یہ تو نابینا ہیں فرمایا تم تو نابینا نہیں ہو۔[2]