قریش
بنو قریش (عربی: قبیلہ قریش) | |
---|---|
بنو عدنان، بنی اسماعیل | |
مقام | مکہ، سعودى عرب |
آباو اجداد | النضر بن کنانہ |
مذہب | بت پرستی اور بعد میں اسلام |
قریش عرب کا ایک مشہور اور ذی عزت قبیلہ نیز اس کا کوئی فرد یا افراد۔ بنو قریش یا قریش مکہ کا ایک اہم ترین قبیلہ تھا۔ خاتم الانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا تعلق اسی قبیلے کی ایک شاخ بنو ھاشم سے تھا۔
وجہ تسمیہ
[ترمیم]قریش قبیلے کا نام قریش ہونے کے حوالے سے کئی روایات بیان کی جاتی ہیں جو درج ذیل ہیں۔
- حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جدِ امجد قصی ابن کلاب کی اولاد کو قریش کہا جاتا ہے۔ چونکہ قصی ابن کلاب نے اہل عرب کو ایک مرکز پر جمع کیا اس لیے وہ قریش کہلائے کیونکہ تقرش کا مطلب عربی میں جمع کرنے کے اور قصی عرب کو جمع کرنے والے تھے۔۔[1] تاریخ طبری کے مطابق قصی ابن کلاب وہ پہلے شخص ہیں جنہیں قریش کہا گیا۔[2] عبد الملک بن مروان کا کہنا ہے کہ قصی ابن کلاب سے پہلے کوئی قریش نہیں تھا۔[3] حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی نسل میں ایک شخص نضر بن کنانہ تھا اس کی اولاد کو قریش اس لیے کہتے ہیں کہ قریش کے معنی ایک جگہ جمع ہونے کے ہیں یہ بنی کنانہ حرم کی خدمت کی غرض سے سب ایک جگہ رہتے تھے اس واسطے ان کا لقب قریش ہو گیا۔ اگرچہ بنی کنانہ کے اس لقب قرار پانے کی اور وجوہات بھی ہیں لیکن صاحب قاموس نے اس وجہ کو مقدم رکھا ہے۔ تاریخ بخاری مستدرک ١؎ حاکم تیرے ابن مردویہ وغیرہ میں ام ہانی سے روایت ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قریش کی اس میں بڑی عزت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص سورۃ لا یلاف ان کے حق میں ایسی نازل فرمائی جس میں کسی دوسرے کا ذکر نہیں ہے حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ حاصل یہ ہے جس طرح اس سورۃ میں قریش کی عزت ہے۔[4]
- قبیلہ قریش کو قریش کہنے کی وجہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباؤاجداد میں ""فہر بن مالک "" نامی ایک شخص گذرے ہیں ان کا لقب قریش تھا ،، فہر بن مالک کو قریش اس لیے کہتے ہیں کہ قریش ایک سمندری جانور کا نام ہے جو بہت ہی طاقتور ہوتا ہے اور بقیہ جانوروں پہ غالب رہتا ہے ،، چونکہ فہر بن مالک اپنی شجاعت اور خدا داد طاقت کی بنا پہ تمام عرب قبائل پہ غالب تھے اس لیے ان کو قریش کہا جاتا ہے[5]۔
قریش کے سردار
[ترمیم]- ابو طالب (بنو ہاشم)
- اسد بن ہاشم (بنو ہاشم)
- عبد المطلب بن ہاشم (بنو ہاشم)
- ابو لہب (بنو ہاشم)
- عاص ابن وائل (بنو سہم)
- ابو جہل (بنو مخزوم)[6]
- ابو لہب (بنو ہاشم)
- ابو سفیان بن حرب (بنو امیہ)
- اخنس بن شریق (حلیف بنوعدی)[7]
- اسود بن مطلب (بنو اسد)
- حکیم بن حزام (بنو اسد)
- مطعم بن عدی (بنو نوفل)
- مغیرہ بن عبداللہ (بنو مخزوم)
- نبیحہ بن حجاج (بنو جمح)
- نذر بن حارث (بنو عبدالدار)
- سہیل بن عمرو (بنو عامر)[7]
- امیہ بن خلف (بنو جمح)[6]
- عقبہ بن معیط (بنو عبدالدار)
- عتبہ بن ربیعہ (بنو عبدالشمس)
شاخیں
[ترمیم]حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش سے قبل بھی عرب کے تمام قبیلوں میں خاندانِ قریش کو خاص امتیاز حاصل تھا۔ خانہ کعبہ جو تمام عرب کا دینی مرکز تھا اس کے متولی یہی قریش تھے اور مکہ مکرمہ کی ریاست بھی انہی سے متعلق تھی۔ قبیلہ قریش کی بڑی بڑی شاخیں مندرجہ ذیل تھیں:
ان کے علاوہ دیگر شاخیں بھی ہیں۔
ذمہ داریاں
[ترمیم]مکہ معظمہ کی تمام ذمہ داری کے عہدے انہی شاخوں میں بٹے ہوئے تھے ان عہدوں اور ان کے متعلقین کی تفصیل درج ذیل ہے:
1۔ سداتہ، یعنی کعبہ کی حفاظت اور اس کی خدمت، محافظ کعبہ ہی کے پاس کعبہ کی کنجی رہتی تھی اور وہی لوگوں کو اس کی زیارت کراتا تھا۔ یہ عہدہ بنی ہاشم کے خاندان میں تھا اور نبی عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش کے زمانہ میں آپ کے دادا عبد المطلب اس عہدے پر مقرر تھے ۔
2۔ سقایہ، یعنی پانی کا انتظام، مکہ معظمہ میں پانی کی قلت تھی اور موسم حج میں ہزا رہا زائرین کے جمع ہو جانے کی وجہ سے پانی کا خاص انتظام کیا جاتا تھا۔ اس کی صورت یہ تھی کہ چمڑے کے حوض بنوا کر انھیں صحنِ کعبہ میں رکھ دیا جاتا تھا اور اُس کے آس پاس کے پانی کے چشموں سے پانی منگوا کر انھیں بھر دیا جاتا تھا۔ جب تک چاہِ زمزم دوبارہ صاف نہ ہو گیا یہ دستور جاری رہا۔ سقایہ کی خدمت بنی ہاشم سے متعلق تھی۔
3۔ رفادہ زائرین، کعبہ کی مہمانداری کے لیے قریش کے تمام خاندان ایک قسم کا چندہ ادا کرتے تھے اس چندہ سے غریب زائرین کے کھانے پینے کا انتظام کیا جاتا تھا یہ خدمت پہلے بنی نوفل سے متعلق تھی پھر بنی ہاشم کے حصے میں آئی۔
4۔ عُقاب، یہ قریش کے قومی جھنڈے کا نام تھا جب لڑائی کا زمانہ ہوتا تھا تو اسے نکالا جاتا تھا اگر اتفاق رائے سے کوئی معزز شخص جھنڈا اُٹھانے کے لیے تجویز ہو گیا تب تو اسے دے دیا جاتا تھا ورنہ جھنڈے کا محافظ جو بنو امیہ کے خاندان میں سے ہوتا تھا، یہ خدمت انجام دیتا تھا۔
5۔ ندوہ، یہ مکہ کی قومی اسمبلی تھی۔ قریش مشورہ کرنے کے لیے یہیں جمع ہوتے تھے یہیں جنگ و صلح اور دوسرے بڑے بڑے معاملات کے فیصلے ہوتے تھے اور قریش کی شادیاں بھی یہیں ہوتی تھیں ( ندوہ ) کا انتظام بنی عبد الدار سے متعلق تھا۔
6۔ قیادہ، یعنی قافلہ کی راہنمائی، جس شخص سے یہ منصب متعلق ہوتا تھا اسے خاص معاملات میں مشورہ لیا جاتا تھا۔ قریش کسی معاملہ کا آخری فیصلہ کرنے سے پہلے مشیر کی رائے ضرور حاصل کر لیتے تھے۔ یہ منصب بنی اسد سے متعلق تھا۔
7۔ قبہ، جب مکہ والے لڑائی کے لیے نکلنے کا ارادہ کرتے تو ایک خیمہ نصب کیا جاتا اس خیمہ میں لڑائی کا سامان جمع کر دیا جاتا تھا۔ یہ ذمہ داری بھی قریش کے کسی خاندان سے متعلق ہوتی تھی۔
8۔ حکومہ، یعنی آپس کے لڑائی جھگڑوں کا فیصلہ کرنا ،
9۔ سفارہ، یعنی ایلچی گری، جب کسی دشمن قبیلہ سے صلح کی بات چیت ہوتی تو کسی سمجھ دار آدمی کو اس کام کے لیے مقرر کیا جاتا۔ ابتدا اسلام میں قریش کے آخری سفیر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ بن خطاب تھے۔
اس تفصیل سے معلوم ہو گیا کہ، قریش، عرب کا سب سے زیادہ معزز قبیلہ تھا۔ پھر قریش میں بھی بنی ہاشم کا خاندان سب سے زیادہ ممتاز تھا کیونکہ اکثر بڑے بڑے عہد انہی سے متعلق تھے۔
مزید دیکھیے
[ترمیم]بیرونی روابط
[ترمیم]- قبیلہ قریشآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ princeton.edu (Error: unknown archive URL)