"سعودی عرب" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
24 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.9.2
سطر 247: سطر 247:
|- valign=top
|- valign=top
| nowrap align=right|[[حائل یونیورسٹی]]
| nowrap align=right|[[حائل یونیورسٹی]]
|[http://www.uoh.edu.sa/ www.uoh.edu.sa]
|[http://www.uoh.edu.sa/ www.uoh.edu.sa] {{wayback|url=http://www.uoh.edu.sa/ |date=20120605143053 }}
| align=center|[[2006ء|2006]] || [[حائل]]
| align=center|[[2006ء|2006]] || [[حائل]]
|- valign=top
|- valign=top
سطر 319: سطر 319:
|- valign=top
|- valign=top
| nowrap align=right|[[الیمامہ کالج]]
| nowrap align=right|[[الیمامہ کالج]]
|[http://www.alyamamah.edu.sa/ www.alyamamah.edu.sa]
|[http://www.alyamamah.edu.sa/ www.alyamamah.edu.sa] {{wayback|url=http://www.alyamamah.edu.sa/ |date=20030618091816 }}
| align=center|[[2004ء|2004]] || [[ریاض]]
| align=center|[[2004ء|2004]] || [[ریاض]]
|- valign=top
|- valign=top

نسخہ بمطابق 08:35، 20 اکتوبر 2022ء

مملکت سعودی عرب (عربی: المملكة العربية السعودية) جزیرہ نمائے عرب میں سب سے بڑا ملک ہے۔

جغرافیہ

شمال مغرب میں اس کی سرحد اردن، شمال میں عراق اور شمال مشرق میں کویت، قطر اور بحرین اور مشرق میں متحدہ عرب امارات، جنوب مشرق میں سلطنت عمان، جنوب میں یمن سے ملی ہوئی ہے جبکہ خلیج فارس اس کے شمال مشرق اور بحیرہ قلزم اس کے مغرب میں واقع ہے۔ یہ حرمین شریفین کی سرزمین کہلاتی ہے کیونکہ یہاں اسلام کے دو مقدس ترین مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ موجود ہیں۔

تاریخ

سعودی ریاست کا ظہور تقریباً 1750ء میں عرب کے وسط سے شروع ہوا جب ایک مقامی رہنما محمد بن سعود معروف اسلامی شخصیت اورمحمد بن عبدالوہاب کے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھرے۔

سعودی ریاست مختلف ادوار میں

اگلے ڈیڑھ سو سال میں آل سعود کی قسمت کا ستارہ طلوع و غروب ہوتا رہا جس کے دوران میں جزیرہ نما عرب پر تسلط کے لیے ان کے مصر، سلطنت عثمانیہ اور دیگر عرب خاندانوں سے تصادم ہوئے۔ بعد ازاں سعودی ریاست کا باقاعدہ قیام شاہ عبدالعزیز السعود کے ہاتھوں عمل میں آیا۔

1902ء میں عبدالعزیز نے حریف آل رشید سے ریاض شہر چھین لیا اور اسے آل سعود کا دار الحکومت قرار دیا۔ اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انہوں نے 1913ء سے 1926ء کے دوران میں الاحساء، قطیف، نجد کے باقی علاقوں اور حجاز (جس میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے شہر شامل تھے) پر بھی قبضہ کر لیا۔ 8 جنوری 1926ء کو عبدالعزیز ابن سعود حجاز کے بادشاہ قرار پائے۔ 29 جنوری 1927ء کو انہوں نے شاہ نجد کا خطاب حاصل کیا۔ 20 مئی 1927ء کو معاہدہ جدہ کے مطابق برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں (جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے) پر عبدالعزیز ابن سعودکی حکومت کو تسلیم کر لیا۔ 1932ء میں برطانیہ کی رضامندی حاصل ہونے پر مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے مملکت سعودی عرب رکھ دیا گیا۔مارچ 1938ء میں تیل کی دریافت نے ملک کو معاشی طور پر زبردست استحکام بخشا اور مملکت میں خوشحالی کا دور دورہ ہو گیا۔

آل سعود

سعودی عرب عالم اسلام کی سب سے بڑی مملکت سمجھی جاتی ہے۔ اس مملکت کے بانی یوں تو شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود ہیں جو 15 جنوری 1877ء کو پیدا ہوئے تھے مگر اس سلطنت کے قیام کی جدوجہد کا آغاز 18 ویں صدی میں ہوا تھا جب 1725ء میں آل سعود کے سربراہ امیر سعود بن محمد بن مقرن کی وفات ہوئی۔

اس زمانے میں نجد میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں اور ہر ریاست کا الگ الگ حکمران ہوتا تھا۔ امیر سعود بن محمد کے چار صاحبزادے تھے جنھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ نجد میں سعودی سلطنت قائم کریں گے۔

امیر سعود بن محمد کے سب سے بڑے صاحبزادے کا نام محمد بن سعود تھا۔ وہ درعیہ کے حکمران بنے اور انھوں نے شیخ محمد بن عبدالوہاب کی مدد سے درعیہ میں اپنی حکومت قائم کی اور آہستہ آہستہ اسے مستحکم کرنا شروع کیا۔

محمد بن سعود اور شیخ محمد عبدالوہاب کے درمیان 1745ء میں ایک تاریخی ملاقات ہوئی جس میں دونوں نے عہد کیا کہ اگر کسی وقت محمد بن سعود نجد و حجاز میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تو وہاں شیخ محمد بن عبدالوہاب کے عقائد کو رائج کریں گے۔

1765ء میں شہزادہ محمد اور 1791ء میں شیخ محمد بن عبدالوہاب کی وفات ہو گئی۔ اس وقت تک جزیرہ نما عرب کے بیشتر علاقے پر آل سعود کی حکمرانی قائم ہو چکی تھی۔

شہزادہ محمد کے بعد امام عبدالعزیز علاقے کے حکمران بنے مگر 1803ء میں انھیں قتل کر دیا گیا۔ امام عبدالعزیز کے بعد ان کے بیٹے سعود حکمران بنے جو 1814ء میں وفات پا گئے۔

سعود کے بیٹے عبداللہ ایک بڑے عالم دین بھی تھے۔ ان کے دور حکمرانی میں ان کے علاقے کا ایک بڑا حصہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا اور درعیہ سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں آ گیا۔

امام عبداللہ قیدی بنا لیے گئے اور انھیں استنبول لے جا کر سزائے موت دے دی گئی۔

مگر جلد ہی ان کے بھائی مشاری بن سعود اپنی حکومت واپس لینے میں کامیاب ہو گئے مگر وہ زیادہ عرصے تک حکمرانی نہ کر سکے اور ان کا علاقہ دوبارہ سلطنت عثمانیہ کے قبضے میں چلا گیا۔

اس کے بعد اُن کا بھتیجا شہزادہ ترکی بن عبداللہ ریاض پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا، جس پر وہ 1824ء سے 1835ء تک برسراقتدار رہے۔

اگلی کئی دہائیوں تک آل سعود کی قسمت کا ستارہ طلوع و غروب ہوتا رہا اور جزیرہ نما عرب پر تسلط کے لیے مصر سلطنت عثمانیہ اور دیگر عرب قبائل میں تصادم ہوتے رہے۔ آل سعود کے ایک حکمران امام عبدالرحمن تھے، جو 1889ء میں بیعت لینے میں کامیاب ہوئے۔

امام عبدالرحمن کے بیٹے شہزادہ عبدالعزیز ایک مہم جُو شخصیت تھے اور 1900ء میں انھوں نے اپنے والد کی زندگی میں ہی ان کی کھوئی ہوئی سلطنت واپس لینے اور اسے وسعت دینے کی کوششیں شروع کر دیں

1902ء میں انھوں نے ریاض شہر پر قبضہ کیا اور اسے آل سعود کا دارالحکومت قرار دیا۔

اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انھوں نے الاحسائی، قطیف اور نجد کے متعدد علاقوں پر قبضہ کر لیا۔

سلطنت عثمانیہ کے آخری دور میں حجاز پر (جس میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے علاقے شامل تھے) شریف مکہ حسین کی حکمرانی تھی، جنھوں نے 5 جون 1916ء کو ترکی کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔

حسین کو نہ صرف عربوں کے مختلف قبائل کی بلکہ برطانیہ کی تائید بھی حاصل تھی۔

7 جون 1916 کو شریف مکہ حسین نے حجاز کی آزادی کا اعلان کیا۔

21 جون کو مکہ پر ان کا قبضہ مکمل ہوا اور 29 اکتوبر کو انھوں نے پورے عرب کا حکمران ہونے کا باضابطہ اعلان کر دیا۔ ساتھ ہی انھوں نے تمام عربوں کو دعوت دی کہ وہ ترکوں کے خلاف جنگ کا اعلان کریں۔ 15 دسمبر 1916ء کو حکومت برطانیہ نے حسین کو شاہ حجاز تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔

اسی دوران امیر عبدالعزیز ابن عبدالرحمن آل سعود نے مشرقی عرب کا ایک بڑا حصہ مسخر کر لیا اور 26 دسمبر 1915ء کو برطانیہ کے ساتھ دوستی کا ایک معاہدہ بھی کر لیا۔

5 ستمبر 1924ء کو انھوں نے حجاز کو بھی فتح کر لیا۔

عوام نے امیر عبدالعزیز کا ساتھ دیا اور شریف مکہ شاہ حسین نے حکومت سے دست بردار ہو کر اپنے بیٹے علی کو شاہ حجاز بنا دیا۔ مگر امیر عبدالعزیز کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی کے باعث انھیں بھی اپنا تخت چھوڑنا پڑا۔

13 اکتوبر 1924 کو شاہ عبدالعزیز نے مکہ معظمہ پر بھی قبضہ کر لیا۔

5 دسمبر 1925ء کو انھوں نے مدینہ کا اقتدار حاصل کر لیا۔ 19 نومبر 1925ء کو شریف مکہ علی نے اقتدار سے مکمل دستبرداری کا اعلان کیا اور یوں جدہ پر بھی آل سعود کا قبضہ ہو گیا۔ آٹھ جنوری 1926ء کو شاہ حجاز عبدالعزیز ابن عبدالرحمن آل سعود نے ایک خصوصی تقریب میں مملکت نجد و حجاز کے مکمل اختیارات سنبھالنے کا اعلان کر دیا۔

20 مئی 1927ء کو برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں پر جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے عبدالعزیز ابن سعود کی حکمرانی کو تسلیم کر لیا۔ 23 ستمبر 1932ء کو شاہ عبدالعزیز ابن سعود نے مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے ’المملکتہ العربیتہ السعودیہ‘ رکھنے کا اعلان کر دیا۔

شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود نے جلد ہی اپنی مملکت کو اسلامی رنگ میں ڈھال دیا۔

دوسری جانب ان کی خوش قسمتی سے سعودی عرب میں تیل کے ذخائر کی نشاندہی ہوئی۔ سنہ 1933ء میں شاہ عبدالعزیز نے کیلیفورنیا پٹرولیم کمپنی کے ساتھ تیل نکالنے کا معاہدہ کیا۔

ابتدائی چند برس جدوجہد میں بسر ہوئے مگر 1938ء میں جب کیلیفورنیا پٹرولیم کمپنی کے ماہرین ناکام ہو کر ملک لوٹنے ہی والے تھے کہ اچانک ایک کنویں سے خزانہ ابل پڑا اور اتنا تیل نکلا کہ جس پر وہ ماہرین خود بھی دنگ رہ گئے۔

یہ واقعہ نہ صرف سعودی حکمرانوں اور کیلیفورنیا کمپنی کے لیے حیران کُن تھا بلکہ پورے جزیرہ نما عرب کے لیے ایک معجزہ تھا۔ تیل کی دریافت نے سعودی عرب کو معاشی طور پر زبردست استحکام بخشا اور مملکت میں خوشحالی کا دور دورہ ہو گیا۔

9 نومبر 1953ء کو شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود وفات پا گئے۔

سیاست

خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز

سعودی عرب کی حکومت کا بنیادی ادارہ آل سعود کی بادشاہت ہے۔ 1992ء میں اختیار کیے گئے بنیادی قوانین کے مطابق سعودی عرب پر پہلے بادشاہ عبدالعزیز ابن سعود کی اولاد حکمرانی کرے گی اور قرآن ملک کا آئین اور شریعت حکومت کی بنیاد ہے۔

ملک میں کوئی تسلیم شدہ سیاسی جماعت ہے نہ ہی انتخابات ہوتے ہیں البتہ 2005ء میں مقامی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ بادشاہ کے اختیارات شرعی قوانین اور سعودی روایات کے اندر محدود ہیں۔ علاوہ ازیں اسے سعودی شاہی خاندان، علماء اور سعودی معاشرے کے دیگر اہم عناصر کا اتفاق بھی چاہیے۔ سعودی عرب دنیا بھر میں مساجد اور قرآن اسکولوں کے قیام کے ذریعے اسلام کی ترویج کرتی ہے۔ شاہی خاندان کے اہم ارکان علما کی منظوری سے شاہی خاندان میں کسی ایک شخص کو بادشاہ منتخب کرتے ہیں۔

قانون سازی وزراء کی کونسل عمل میں لاتی ہے جو لازمی طور پر شریعت اسلامی سے مطابقت رکھتی ہو۔ عدالت شرعی نظام کی پابند ہیں جن کے قاضیوں کا تقرر اعلیٰ عدالتی کونسل کی سفارش پر بادشاہ عمل میں لاتا ہے۔

صوبے

سعودی عرب کو انتظامی لحاظ سے تیرہ علاقوں یا صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جن کو عربی زبان میں مناطق (عربی واحد: منطقہ) کہتے ہیں۔ سعودی نقشہ میں صوبے نمبر زد ہیں اور خانہ معلومات میں ان کے بارے میں معلومات درج کی گئي ہیں۔

نمبر شمار صوبہ رقبہ (مربع کلومیٹر) آبادی (1999ء)
1 الباحہ (Al Bahah) 15,000 459,200
2 الحدود الشماليہ (Al Hudud ash Shamaliyah) 127,000 237,100
3 الجوف (Al Jawf) 139,000 332,400
4 المدينہ (Al Madinah) 173,000 1,310,400
5 القصيم (Al Qasim) 65,000 933,100
6 الرياض (Ar Riyad) 412,000 4,485,000
7 الشرقيہ (Ash Sharqiyah) 710,000 3,360,157
8 عسير ('Asir) 81,000 1,563,000
9 حائل (Ha'il) 125,000 527,033
10 جيزان (Jizan) 11,671 1,186,139
11 الحجاز (Hijaz) 164,000 5,797,971
12 نجران (Najran) 119,000 367,700
13 تبوک (Tabuk) 108,000 560,200

جغرافیہ

سعودی عرب کا نقشہ

مملکت سعودی عرب جزیرہ نمائے عرب کے 80 فیصد رقبے پر مشتمل ہے۔ متحدہ عرب امارات، اومان اور یمن کے ساتھ منسلک ملک کی سرحدوں کا بڑا حصہ غیر متعین ہے اس لیے ملک کا عین درست رقبہ اب بھی نامعلوم ہے۔ سعودی حکومت کے اندازوں کے مطابق مملکت کا رقبہ 22 لاکھ 17 ہزار 949 مربع کلومیٹر (8 لاکھ 56ہزار 356 مربع میل) ہے۔ دیگر اندازوں کے مطابق ملک کا رقبہ 19 لاکھ 60ہزار 582 مربع کلومیٹر (7 لاکھ 56 ہزار 934 مربع میل) اور 22 لاکھ 40 ہزار مربع کلومیٹر (8 لاکھ 64 ہزار 869 مربع میل) کے درمیان میں ہے تاہم دونوں صورتوں میں سعودی عرب رقبے کے لحاظ سے دنیا کے 15 بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔

مملکت جغرافیہ مختلف نوعیت کا ہے۔ مغربی ساحلی علاقے (التہامہ) سے زمین سطح سمندر سے بلند ہونا شروع ہوتی ہے اور ایک طویل پہاڑی سلسلے (جبل الحجاز) تک جاملتی ہے جس کے بعد سطع مرتفع ہیں۔ جنوب مغربی اثیر خطے میں پہاڑوں کی بلندی 3 ہزار میٹر (9 ہزار 840 فٹ) تک ہے اور یہ ملک کے سب سے زیادہ سرسبز اور خوشگوار موسم کا حامل علاقہ ہے۔ یہاں طائف اور ابہا جیسے تفریحی مقامات قائم ہیں۔ خلیج فارس کے ساتھ ساتھ قائم مشرقی علاقہ بنیادی طور پر پتھریلا اور ریتیلا ہے۔ معروف علاقہ ”ربع الخالی“ ملک کے جنوبی خطے میں ہے اور صحرائی علاقے کے باعث ادھر آبادی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔

مملکت کا تقریباً تمام حصہ صحرائی و نیم صحرائی علاقے پر مشتمل ہے اور صرف 2 فیصد رقبہ قابل کاشت ہے۔ بڑی آبادیاں صرف مشرقی اور مغربی ساحلوں اور حفوف اور بریدہ جیسے نخلستانوں میں موجود ہیں۔ سعودی عرب میں سال بھر بہنے والا کوئی دریا یا جھیل موجود نہیں۔

موسم

سعودی عرب کا موسم مجموعی طور پر شدید گرم اور خشک ہے۔ یہ دنیا کے ان چند علاقوں میں سے ایک ہے جہاں گرمیوں میں درجہ حرارت کا 50 ڈگری سینٹی گریڈ (120 ڈگری فارن ہائیٹ) سے بھی اوپر جانا معمول کی بات ہے۔ موسم سرما میں بلند پہاڑی علاقوں میں کبھی کبھار برف پڑ جاتی ہے تاہم مستقل بنیادوں پر برف باری نہیں ہوتی۔ موسم سرما کا اوسط درجہ حرارت 8 سے 20 ڈگری سینٹی گریڈ (47 سے 68 ڈگری فارن ہائیٹ) ہے۔ موسم گرما میں اوسط درجہ حرارت 27 سے 43 ڈگری سینٹی گریڈ (81 سے 109 ڈگری فارن ہائیٹ) ہوتا ہے۔ وسط صحرائی علاقوں میں گرمیوں میں بھی رات کے وقت موسم سرد ہوجاتا ہے۔

سعودی عرب میں بارش بہت کم ہوتی ہے تاہم کبھی کبھار موسلا دھار بارش سے وادیوں میں زبردست سیلاب آجاتے ہیں۔ دار الحکومت ریاض میں سالانہ بارش 100 ملی میٹر (4 انچ) ہے جو جنوری سے مئی کے درمیان میں ہوتی ہے۔ جدہ میں نومبر اور جنوری کے درمیان میں 54 ملی میٹر (2.1 انچ) بارش ہوتی ہے۔

اعداد و شمار

2005ء کے مطابق سعودی عرب کی آبادی 26 اعشاریہ 4 ملین ہے جس میں 5 اعشاریہ 6 ملین غیر ملکی آبادی بھی شامل ہے۔ 1960ء کی دہائی تک مملکت کی آبادی کی اکثریت خانہ بدوش یا نیم خانہ بدوش تھی لیکن معیشت اور شہروں میں تیزی سے ترقی کی بدولت اب ملک کی 95 فیصد آبادی مستحکم ہے۔ شرح پیدائش 29 اعشاریہ 56 فی ایک ہزار افراد ہے جبکہ شرح اموات صرف 2 اعشاریہ 62 فی ایک ہزار افراد ہے۔چند شہروں اور نخلستانوں میں آبادی کی کثافت ایک ہزار افراد فی مربع کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔

تقریباً 80 فیصد سعودی باشندے نسلی طور پر عرب ہیں۔ مزید برآں چند جنوبی اور مشرق افریقی نسل سے بھی تعلق رکھتے ہیں جو چند سو سال قبل اولاً غلام بنا کر یہاں لائے گئے تھے۔ سعودی عرب میں دنیا بھر کے 70 لاکھ تارکین وطن بھی مقیم ہیں جن میں بھارت کے 14 لاکھ، بنگلہ دیش کے 10 لاکھ، پاکستان کے 9 لاکھ، فلپائن کے 8 لاکھ اور مصر کے 7 لاکھ 50 ہزار باشندے شامل ہیں۔ قریبی ممالک کے عرب باشندوں کی بڑی تعداد میں مملکت میں برسرروزگار ہے۔ سعودی عرب میں مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے ایک لاکھ باشندے بھی قیام پزیر ہیں۔

تعلیم

1932ء میں مملکت سعودی عرب کے قیام کے وقت ہر باشندے کی تعلیم تک رسائی نہیں تھی اور شہری علاقوں میں مساجد سے ملحق مدارس میں تعلیم کی محدود اور انفرادی کوششیں ہورہی تھیں۔ ان مدارس میں شریعت اسلامی اور بنیادی تعلیم سکھائی جاتی تھی تاہم گذشتہ صدی کے اختتام تک سعودی عرب ایک قومی تعلیمی نظام کا حامل ہے جس میں تمام شہریوں کو اسکول سے قبل سے لے کر جامعہ کی سطح تک مفت تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ جدید سعودی تعلیمی نظام جدید اور روایتی فنی و سائنسی شعبہ جات میں معیاری تعلیم فراہم کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیم سعودی نظام تعلیم کا بنیادی خاصہ ہے۔ سعودی عرب کا مذہبی تعلیمی نصاب دنیا بھر کے مدارس میں بھی پڑھایا جاتا ہے۔

سعودی عرب میں باقاعدہ بنیادی تعلیم کا آغاز 1930ء کی دہائی میں ہوا۔ 1945ء میں شاہ عبدالعزیز السعود نے مملکت میں اسکولوں کے قیام کے لیے ایک جامع پروگرام کا آغاز کیا۔ 6 سال بعد 1951ء میں مملکت کے 226 اسکولوں میں 29 ہزار 887 طالب علم زیر تعلیم تھے۔ 1954ء میں وزارت تعلیم کا قیام عمل میں آیا جس کے پہلے وزیر شہزادہ فہد بن عبدالعزیز بنے۔ سعودی عرب کی پہلی جامعہ شاہ سعود یونیورسٹی 1957ء میں ریاض میں قائم ہوئی۔

آج سعودی عرب کا قومی سرکاری تعلیمی نظام 8 جامعات، 24 ہزار سے زائد اسکولوں اور ہزاروں کالجوں اور دیگر تعلیمی و تربیتی اداروں پر مشتمل ہے۔ اس نظام کے تحت ہر طالب علم کو مفت تعلیم، کتب اور صحت کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ مملکت کے سرکاری میزانیہ کا 25 فیصد سے زائد تعلیم کے لیے مختص ہے۔ سعودی عرب میں طالب علموں کو اسکالرشپ پروگرام کے تحت بیرون ملک بھی بھیجا جاتا ہے جن میں امریکا، کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا، جاپان، ملائیشیا اور دیگر ممالک شامل ہیں۔

کالج و جامعات

سعودی عرب کی یونیورسٹیوں اور کالجوں کی فہرست

جامعہ/دانشگاہ ویب سائٹ قیام شہر
شاہ فہد یونیورسٹی www.ksu.edu.sa 1957 ریاض
اسلامی یونیورسٹی مدینہ www.iu.edu.sa 1961 مدینہ
شاہ عبد العزیز یونیورسٹی www.kau.edu.sa 1967 جدہ
امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی www.imamu.edu.sa 1974 ریاض
شاہ فیصل یونیورسٹی www.kfu.edu.sa 1975 دمام
شاہ فہد یونیورسٹی برائے پٹرولیم و معدنیات www.kfupm.edu.sa 1975 ظہران
ام القراء یونیورسٹی www.uqu.edu.saآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ uqu.edu.sa (Error: unknown archive URL) 1979 مکہ
شاہ خالد یونیورسٹی www.kku.edu.sa 1998 ابھا
شاہ عبد اللہ یونیورسٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی www.kaust.edu.sa 2008 ضوال
قصیم یونیورسٹی www.qu.edu.sa 2004 بریدہ
طائف یونیورسٹی www.tu.edu.saآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ tu.edu.sa (Error: unknown archive URL) 2004 طائف
الجوف یونیورسٹی www.ju.edu.saآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ju.edu.sa (Error: unknown archive URL) 2005 الجوف
جازان یونیورسٹی 2005 جازان
حائل یونیورسٹی www.uoh.edu.sa آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ uoh.edu.sa (Error: unknown archive URL) 2006 حائل
الباحہ یونیورسٹی www.bu.edu.saآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ bu.edu.sa (Error: unknown archive URL) 2006 الباحہ
نجران یونیورسٹی init www.nu.edu.sa 2006 نجران
یونیورسٹی کالج الجبیل www.ucj.edu.sa 2006 الجبیل
ینبع صنعتی کالج www.yic.edu.saآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ yic.edu.sa (Error: unknown archive URL) 1989 ینبع
الفیصل یونیورسٹی www.alfaisal.edu 2007 ریاض
عرب اوپن یونیورسٹی www.arabou.org.saآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ arabou.org.sa (Error: unknown archive URL) 2002 ریاض
شہزادہ سلطان یونیورسٹی www.psu.edu.sa 2003 ریاض
دوا شناسی اور دندان سازی کا کالج www.riyadh.edu.sa, 2004 ریاض
دار العلوم یونیورسٹی www.dau.edu.sa 2005 ریاض
طیبہ یونیورسٹی www.taibahu.edu.saآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ taibahu.edu.sa (Error: unknown archive URL) 2005 مدینہ
شہزادہ محمد یونیورسٹی www.pmu.edu.saآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ pmu.edu.sa (Error: unknown archive URL) 2006 الخبر
شاہ سعود بن عبد العزیز یونیورسٹی برائے ہیلتھ www.ksau-hs.edu.sa 2005 ریاض
شہزادہ سلطان کالج برائے سیاحت و www.pscj.edu.sa 2007 جدہ
عفت کالج www.effatcollege.edu.sa 1999 جدہ
دار الحکمۃ کالج www.daralhekma.edu.saآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ daralhekma.edu.sa (Error: unknown archive URL) 1999 جدہ
کالج برائے بزنس ایڈمنسٹریشن (CBA) www.cba.edu.saآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ cba.edu.sa (Error: unknown archive URL) 2000 جدہ
شہزادہ سلطان ایوی ایشن اکیڈمی [1]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ fo.sv.net (Error: unknown archive URL) 2004 جدہ
الیمامہ کالج www.alyamamah.edu.sa آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ alyamamah.edu.sa (Error: unknown archive URL) 2004 ریاض
دمام ٹیکنالوجی کالج www.dct.gotevot.edu.saآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ dct.gotevot.edu.sa (Error: unknown archive URL) دمام
جبیل انڈیسٹریل کالج www.jic.edu.sa 1978 الجبیل
جبیل ٹیکنیکل کالج الجبیل
انسٹی ٹیوٹ اف پبلک انتظامیہ www.ipa.edu.saآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ipa.edu.sa (Error: unknown archive URL) ریاض، جدہ، مکہ، دمام
جدہ کالج برائے اساتذہ www.jtc.edu.saآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ jtc.edu.sa (Error: unknown archive URL) جدہ
جدہ کالج برائے ٹیکنالوجی www.jct.edu.saآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ jct.edu.sa (Error: unknown archive URL) 1987 جدہ
مدینہ کالج برائے ٹیکنالوجی www.mct.edu.saآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ mct.edu.sa (Error: unknown archive URL) 1996 مدینہ
کالج برائے ٹیلیکام و الیکٹرونکس جدہ
جدہ پرائیویٹ کالج جدہ
جدہ ہیلتھ کئیر کالج جدہ
جدہ کمیونٹی کالج Link جدہ
الحدود الشاملیۃ یونیورسٹی عرعر
تبوک یونیورسٹی تبوک
بٹرجی میڈیکل کالج bmcmedcollege.netآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ bmcmedcollege.net (Error: unknown archive URL) جدہ
قصیم میڈیسن کالج Qassim College of Medicineآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ qumed.org (Error: unknown archive URL) بریدہ
سلیمان الراجحی یونیورسٹی Sulaiman Al Rajhi Universityآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ sr.edu.sa (Error: unknown archive URL) بکریہ
ابن سینا نیشنل کالج برائے میڈیکل سٹڈیز ibnsina.edu.sa جدہ
المجمع کمیونٹی کالج 2002 مجمعہ
دمام کمیونٹی کالج www.dcc.edu.sa دمام
حفر الباطن کمیونٹی کالج www.hbcc.edu.sa آرکائیو شدہ 2012-12-25 بذریعہ archive.today 1999 حفر الباطن

معیشت

نقفل و حمل

ملک بھر میں ایک بہترین نقل و حمل کا نظام قائم ہے۔ سعودی عرب حکومت ماضی میں شرعی نظام کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہے کیوں کہ وہاں پیٹرول کی قیمت باقی دنیا کے مقابلے میں سب کم رہی ہے۔ فروری 2018ء میں اعلان کیا گیا کہ، سعودی عرب کی چار اہم موٹر ویز پر رفتار میں بہتری لائی جائے گی اور اسے 12 کلو میٹر فی گھنٹہ سے 140 کلو میٹر فی گھنٹہ تک پہنچا دیا جائے گا۔ اس منصوبے میں مکہ- مدینہ، یاض - دمام، ریاض-جاسم اور آخر میں رياض- طائف موٹر ویز شامل ہیں۔[1] ملک میں ایک ترقی پزیر بحری نقل و حمل کا نظام ہے جو بنیادی طور پر پیٹروکیمیکل کی نقل و حمل کی سہولت کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ سعودی پورٹ اتھارتی ان بحری کارروائیوں کی نگرانی کرتی ہے، یہ ادارہ ملک میں بندرگاہوں کے انتظام کا ذمہ دار ہے۔ شاہراہوں و ہوائی سفر پر زیادہ انحصار کرنے کے نتیجے میں، سعودی عرب میں ریل نقل و حمل میں دوسرے ذرائع کی طرح سرمایہ کاری نہیں ہوئی۔ البتہ، اب ملک کے ریلوے کے بنیادی ڈھانچے میں توسیع کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

کھیل

سعودی عرب کا سب سے مقبول کھیل فٹ بال ہے۔ سعودی عرب گرمائی اولمپکس، والی بال، باسکٹ بال اور دیگر کھیلوں میں عالمی سطح کے ٹورنامنٹس میں شرکت کرتا ہے۔ قومی فٹ بال مسلسل 4 مرتبہ ورلڈ کپ اور 6 مرتبہ ایشین کپ کے لیے کوالیفائی کرنے کے باعث عالمی سطح پرجانی جاتی ہے۔ سعودی عرب تین مرتبہ ایشین چمپئن رہ چکا ہے اور دو مرتبہ فائنل میں شکست کھاگیا۔ سعودی عرب کے چند معروف فٹ بال کھلاڑیوں میں ماجد عبداللہ، سامي الجابر اور ياسر القحطاني شامل ہیں۔

آبادیات

مذہب

اسلام سعودی عرب کا سرکاری مذہب ہے اور اس کا قانون تمام شہریوں کے مسلمان ہونے کو ضروری قرار دیتا ہے۔[2] اسلام کے سوا دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو کھلے عام عبادت منع ہے۔[3][4] سعودی عرب شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی غیر مسلم کو اسلام قبول ضروری ہے۔[5] سعوی عرب کے نفاذ شریعت اور اس کے انسانی حقوق متعلقہ قوانین پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔[6][7]

ثقافت

سعودی ثقافت کی بنیاد مذہب اسلام ہے۔ اسلام کے دو مقدس ترین مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سعودی عرب میں موجود ہیں۔ ہر روز دنیا بھر کے مسلمان 5 مرتبہ مکہ مکرمہ میں قائم خانہ کعبہ کی جانب رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں۔ سعودی عرب میں ہفتہ وار تعطیل جمعہ کو ہوتی ہے۔ قرآن مجید سعودی عرب کا آئین اور شریعت اسلامی عدالتی نظام کی بنیاد ہے۔

سعودی عرب کے معروف ترین لوک رسم قومی رقص ارضیٰ ہے۔ تلواروں کے ساتھ کیا جانے والا یہ رقص قدیم بدوی روایات کا حصہ ہے۔ حجاز کی السہبا لوک موسیقی کی جڑیں قرون وسطیٰ کے عرب اندلس سے جاملتی ہیں۔

سعودی عرب کا لباس باشندوں کے زمین، ماضی اور اسلام سے تعلق کا عکاس ہے۔ روایتی طور پر مرد ٹخنے تک کی لمبائی کی اونی یا سوتی قمیض پہنتے ہیں جو ثوب کہلاتی ہے جس کے ساتھ سر پر شماغ یا غطرہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ عورتوں کا لباس قبائلی موتیوں، سکوں، دھاتی دھاگوں اور دیگر اشیاء سے مزین ہوتا ہے۔ سعودی خواتین گھر سے باہر عبایہ اور نقاب کا استعمال کرتی ہیں۔

اسلام میں شراب نوشی اور سور کے گوشت کے استعمال کی سختی سے ممانعت ہے اور اس پر سعودی عرب میں سختی سے عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ سعودی روٹی خبز کا تقریباً تمام کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بھنی ہوئی بھیڑ، مرغی، فلافل، شورمہ اور فول بھی دیگر مشہور کھانوں میں شامل ہیں۔ روایتی قہوہ خانے ہر جگہ موجود ہیں تاہم اب ان کی جگہ بڑے کیفے لے رہے ہیں۔ بغیر دودھ کی سیاہ عربی چائے کا استعمال ہر جگہ کیا جاتا ہے۔

سعودی عرب میں تھیٹر اور سینما پر پابندی عائد ہے تاہم ظہران اور راس تنورہ میں قائم نجی آبادیوں میں تھیٹر قائم ہیں تاہم یہ فلموں کے نمائش کی بجائے مقامی موسیقی اور فنون پیش کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔ حال ہی میں بچوں اور عورتوں کے لیے عربی کارٹون پیش کرنے کے لیے سینمائوں کے قیام کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. "Arab News"  |archive-url= is malformed: save command (معاونت)
  2. "International Religious Freedom Report 2004"۔ US Department of State۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 ستمبر 2012 
  3. "World Report 2015: Saudi Arabia"۔ human rights watch۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2017 
  4. World Report 2018: Saudi Arabia۔ Retrieved فروری 3, 2018.
  5. http://www.moi.gov.sa/wps/wcm/connect/121c03004d4bb7c98e2cdfbed7ca8368/EN_saudi_nationality_system.pdf?MOD=AJPERES&CACHEID=121c03004d4bb7c98e2cdfbed7ca8368 Ministry of the Interior| dead link
  6. Human Rights Watch, World Report 2013۔ Saudi Arabia.] Freedom of Expression, Belief, and Assembly.
  7. Amnesty International, Annual Report 2013, Saudi Arabia آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ amnesty.org (Error: unknown archive URL)، Discrimination – Shi’a minority

حواشی

حاشیہ

بیرونی روابط