تقسیم ہند منصوبے کی منظوری
اس مضمون یا قطعے کو تقسیم ہند میں ضم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ |
گول میز کانفرنس
[ترمیم]آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کی عبوری حکومت میں شمولیت کے باوجود کابینہ مشن پلان کے طویل المعیاد منصوبے پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ انتقال اقتدار کا مسئلہ اب بھی Gordian's knotکی صورت اختیار کیے ہوئے تھے۔ ہندوستان سول وار (خانہ جنگی) کی آماجگاہ بننے والا تھا۔ جنوبی ایشیاء کے افق پر فرقہ واریت اور ہندو۔ مسلم فسادات کے کالے اور بھیانک بادل امڈ آئے تھے۔ ہندوستانی فوج کی بغاوت کی سرگوشیاں چل پڑی تھیں۔ ان حالات پر قابو پانے کے لیے اور انتقال اقتدار کا مرحلہ پر امن طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے برطانیہ کی حکومت نے لندن میں ایک گول میز کانفرنس کا انعقاد کیا۔ 3 دسمبر 1946ء کو اس کانفرنس کی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا۔ آل انڈیا کانگریس میں برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی کابینہ مشن کے اراکین برطانوی ہند کے وائسرائے، لارڈ ویول، کانگریس کے نمائندے، لیگ کے نمائندے اور سکھوں کے ایک نمائندے بلدیو سنگھ نے شرکت کی۔ برطانوی حکومت نے اپنی خواہش اور مؤقف آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے راہنماؤں پر واضح کرنے کی کوشش کی۔ نہرو اپنے روئیے میں معمولی سی لچک پیدا کرنے کے لیے بھی تیار نہ تھے۔ وہ اب بھی ہندوستان کی تقسیم ایک ناقابل برداشت فعل، گاؤماتا کی تقسیم سمجھتے تھے۔ قائد اعظم نے پاکستان کے حق میں ناقابل انکار اور ناقابل تردید دلائل دیے اور حقیقت یہ ہے کہ انھی دلائل نے انگریزوں کے ہوش ٹھکانے لگا دیے
6 دسمبر 1946ء کو برطانوی حکومت نے ایک وضاحتی بیان جاری کر دی۔ اس بیان میں کابینہ مشن پلان کے طویل المعیاد منصوبے میں صوبوں کی گروپ بندی اور مجوزہ قانون ساز اسمبلی سے متعلق شق کی وضاحت کر دی گئی۔ یہ وضاحت آل انڈیا مسلم لیگ کی تشریح کے عین مطابق تھی یہی وجہ تھی کہ یہ بیان ایک طرف آل انڈیا مسلم لیگ کے لیے ایک بہت بڑی نوید سے کم نہ تھا تو دوسری طرف یہ کانگریس کے لیے صور اسرافیل ثابت ہوا۔ اس بیان سے نہرو اس نہر میں جاگرا جہاں سے نکلنا اس کے لیے ناممکن ثابت ہوا۔
وزیر اعظم کا اعلان
[ترمیم]20 فروری 1947ء کو برطانوی وزیر اعظم نے ایک اہم اعلان جاری کر دیا۔ اس اعلان میں اس بات کی وضاحت کر دی گئی کہ انگریز جون 1948ء تک ہندوستانی رہنماؤں کو اختیارات منتقل کر دے گی۔ اختیارات کی یہ منتقلی کن کو اور کیسے ہوگی؟اس کی وضاحت کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہزمیجسٹی گورنمنٹ اختیارات ہندوستان کے ذمہ دار اور نمائندہ افراد کو منتقل کر دے گی اور انتقال اقتدار کا جو طریقہ سب سے زیادہ موزوں ہو اور ہندوستانیوں کے بہترین مفاد میں ہو، کو اپنایا جائے گا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی مسلم لیگ کے کیمپ میں مسرت کی ایک اور لہر دوڑ گئی جبکہ نہرو اور اس کے ساتھی اس موقع پر ہندوستان کا مقدر تبدیل کرنے کی قدرت نہیں رکھتے تھے۔
لارڈ ماونٹ بیٹن کا تقرر
[ترمیم]ہندوستانیوں کو اختیارات کی منتقلی سے متعلق وزیر اعظم ایٹلی کے بیان کے بعد جب ہندوستان میں برطانوی سامراجیت کا سورج غروب ہونے کو تھا۔ ہندوستانی مسئلے کا منطقی حل قریب نظر آ رہا تھا۔ لارڈ ماونٹ بیٹن کو ہندوستان کا وائسرائے بنا کر بھیجا گیا۔ وہ 22 مارچ 1947ء کو ہندوستان پہنچ گئے۔ 24 مارچ 1947ء کو آپ نے ہندوستان کے انتیسویں اور آخری گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ حلف اٹھانے کے فوراً بعد لارڈ ماونٹ بیٹن نے ہندوستان کے تمام بااثر اور اہم سیاسی شخصیات سے ملاقاتوں کے سلسلے کا آغاز کیا۔ قائداعظم نے وائسرئے پر اپنا مؤقف واضح کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ سندھ، بلوچستان، صوبہ سرحد، پنجاب، بنگال اور آسام کے صوبوں پر مشتمل ایک آزاد اور خود مختار پاکستان چاہیتے ہیں۔
دوسری طرف کانگریسی لیڈروں نے وائسرائے ہند کو یہ عندیہ دیا کہ وہ ہندوستان کی تقسیم اس صورت میں قبول کر لیں گے جس کے تحت بنگال اور پنجاب کے صوبے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم ہوں گے اور ساتھ ہی ساتھ قیام پاکستان سے پہلے سندھ، بلوچستان، صوبہ سرحد، مغربی پنجاب اور مشرقی بنگال کے عوام کی مرضی بھی معلوم کی جائے گی۔ ان ابتدائی ملاقاتوں کے بعد وائسرائے اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ متحدہ ہندوستان کی خواہش ایک ایسا خواب ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ اس فیصلہ کن مرحلے پر وائسرائے کی ہندوستانی راہنماؤں سے بات چیت پر تبصرہ کرتے ہوئے لندن سے شائع ہونے والے اخبار سنڈے ابزرور (Sunday Observer)نے لکھا
’’ ان ملاقاتوں سے یقیناً وائسرائے اس نتیجے پر پہنچے ہوں گے کہ تقسیم ہی انتشار کو ختم کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔‘‘
آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کا موقف جاننے کے بعد وائسرائے نے اپنی طرف سے ایک منصوبے کا بلیو پرنٹ تیار کر لیا۔ ہندوستان میں Dominion Statusکی حامل دو ریاستوں کا قیام اس منصوبے کا سب سے اہم ترین مقصد تھا۔ برطانوی کابینہ کے ساتھ مزید صلاح مشورہ کرنے اور اپنے منصوبے کی حتمی منظوری حاصل کرنے کی غرض سے لارڈ ماونٹ بیٹن 18 مئی 1947ء کو لندن کے لیے روانہ ہوئے۔ دس دن تک برطانوی کابینہ کے اجلاسوں میں مونٹ بیٹن پلان کے ہر پہلو کا مکمل جائزہ لیا گیا۔ 28 مئی 1947ء کوہندوستانی مسئلے پر وائسرائے ہند کے پلان کو آخری شکل دی گئی۔ برطانوی حکومت نے لارڈ ماونٹ بیٹن کو مزید اختیارات سے ’’مسلح‘‘ کرکے ہندوستان کے لیے روانہ کیا۔ وہ 30 مئی 1947ء کو ہندوستان پہنچے۔
3 جون 1947ء کا تاریخ ساز اجلاس
[ترمیم]بروز پیر صبح 10 بجے 2 جون 1947ء کو وائسرائے ہند لارڈ ماونٹ بیٹن اور ہندوستان کے سیاسی رہنماؤں کے درمیان ایک تاریخ ساز اور نہایت ہی اہم اجلاس کا آغاز ہوا۔ اس اجلاس میں لارڈ ماونٹ بیٹن اور اس کی ٹیم، قائد اعظم محمد علی جناح اور اس کی ٹیم اور پنڈت جواہر لال نہرو اور اس کی ٹیم نے شرکت کی۔ جبکہ سکھوں کی طرف سے بلدیو سنگھ اس اجلاس میں شریک ہوئے۔ لارڈ ماونٹ بیٹن نے ان رہنماؤں کے سامنے اپنا منصوبہ پیش کیا۔
اگلے روز 3 جون 1947ء کو آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ دونوں نے اصولی طور پر اس منصوبے کو منظورکر لیا۔ اسی روز شام کو آل انڈیا ریڈیو پر لارڈ ماونٹ بیٹن نے ہر میجسٹی گورنمنٹ کی طرف سے اپنے منصوبے کا اعلان کیا۔ یہ وہ مبارک دن تھا جس روز سورج قیام پاکستان کی نوید لے کر طلوع ہوا تھا۔ یہ وہ مبارک دن تھا جس روز ہندوؤں اور انگریزوں نے مسلمانوں کے مطالبے کے سامنے سر تسلیم خم کیا۔ اس دن کو یوم اعلان آزادی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے،
وہ پاکستان جس کے حصول کے لیے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ اور جو اقبال کے خواب کی تعبیر تھا۔ لیکن افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے جس پاکستان کا مطالبہ کیا گیا تھا اور جس کے خدوخال کا اور جغرافیائی حدود کا تعین قائداعظم نے کیا تھا ویسا پاکستان مسلمانوں کو نصیب نہ ہو سکا۔ منصوبے کی رو سے بنگال اور پنجاب کی تقسیم۔ صوبہ سرحد اور ضلع سلہٹ میں ریفرنڈم اور بلوچستان میں عوام کی مرضی معلوم کرنے کے لیے کہا گیا ۔
9 جون 1947ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کا اجلاس منعقد ہوا اور کافی غور و خوص کے بعد 3 جون 1947ء کو منصوبہ “As a basis for compromise”کے طور پر منظور کر لیا گیا۔ اور یہ بہ امر مجبوری کیا کیونکہ یہ بات دستاویزات سے ثابت ہو چکی ہے کہ اگر مسلم لیگ ایسا نہ کرتی تو انگریز حکومت کانگریس کے حوالے کرکے یہاں سے اپنا بوریا بستر سمیٹ لیتی۔ اور مسلمان ہندؤؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیے جاتے۔ اس کے فوراً بعد آل انڈیا کانگریس نے بھی مذکورہ منصوبے کی منظوری کا اعلان کیا اور اس کے ساتھ ہی اس سیاسی ڈرامے کا اختتام ہوا جس کا آغاز برصغیر پاک و ہند میں انگریز کی آمد کے فورآً بعد ہوا تھا۔ 14 اگست 1947 کو پاکستان کی آزادی کا اعلان ہوا۔ اور پندرہ اگست کو ہندوستان کی آزادی کا۔ یوں 14 اگست کو دنیا کے نقشے پر اس وقت کی سب سے بڑی مسلم ریاست پاکستان کے نام سے نمودار ہوئی۔