گول میز کانفرنس (تحریک آزادی ہند)
جون 1929ء میں برطانیہ کے عام انتخابات کے نتیجے میں ریمزے میڈونلڈRamazy Mac Donald وہاں کے وزیر اعظم مقرر ہوئے۔ ہندوستان کے بارے میں نئے وزیر اعظم نے اپنے مشیروں کے ساتھ صلاح مشورے کے بعد سر جان سائمن کی سفارش منظور کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ برطانوی ہند میں آئینی تعطل کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہاں کے لیڈروں کو لندن مدعو کیا جائے تاکہ اگرہو سکے تو آئین کے بارے میں ان کی باہمی رضامندی کو حاصل کیا جائے۔ یاد رہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی نئے وزیر اعظم کو کچھ کرنے کا مشورہ دیا تھا کہ ہندوستان کے آئینی مسئلے کو حل کرنے کے لیے متعلقہ فریقین کے درمیان میں بات چیت کو ازسرنو شروع کیا جانا چاہیے۔
ہندوستان کے اس وقت کے وائسرے لارڈ ارون Lord Irwinنے جب اس فیصلے کا اعلان کیا تو قائد اعظم اور آپ کے ہم خیال لیڈروں نے اس کا خیر مقدم کیا جس کے نتیجے میں کانگریس کی طرف سے اس پر نکتہ چینیاں شروع و گئیں۔ کانگریسی سورماؤں نے اسے ’’لین دین‘‘ کے عمل میں پہلے قدم سے تعبیر کیا، لیکن کافی غور و خوص کے بعد کانگریسی لیڈر شپ نے مشروط طور پر حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کا فیصلہ کیا اور مجوزہ کانفرنس میں شرکت کے لیے مندرجہ ذیل شرائط پیش کیں۔
1۔ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے
2۔ مجوزہ گول میز کانفرنس میں کانگریس کو مؤثر نمائندگی دی جائے۔
3۔ کانفرنس محض آئین کے بارے میں اصول پر بحث کرنے کی بجائے ایک نو آبادیاتی طرز کے آئین کو مرتب کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کرے۔
4۔ جتنا جلد ممکن ہو سکے ہندوستان میں ایک نوآبادیاتی طرز کی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔
یاد رہے کہ کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان میں آئین کے بارے میں بنیادی اختلاف اس بات پر تھا کہ کانگریسی راہنما ایک ایسے آئین کو وضع کرنا چاہتے تھے جس کی رو سے زیادہ سے زیادہ اختیارات مرکزی حکومت کے پاس آ جاتے۔ لیکن اس کے برعکس مسلم لیگ کے زعماء ایک ایسے آئین کو چاہتے تھے جس کی رو سے زیادہ سے زیادہ اختیارات صوبوں کو مل جاتے۔ دوسرے الفاظ میں کانگریس ایک مضبوط مرکزی حکومت جبکہ مسلم لیگ صوبائی خود مختاری کی خواہش مند تھی۔ جہاں تک کانگریس کی شرائط کا تعلق رہا۔ وائسرئے نے صرف ایک شرط جو سیاسی قیدیوں کی رہائی سے متعلق تھی کو منظور کرنے پر اپنی رضامندی ظاہر کی اور باقی تمام شرائط کو مسترد کر دیا۔ اس پر کانگریس نے ملک بھر میں سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ دوسری طرف آل انڈیا مسلم لیگ نے فروری 1930ء میں گول میز کانفرنس کی تجویز کی منظوری دیتے ہوئے حکومت کے ساتھ تعاون کا فیصلہ کیا۔ گول میز کانفرنس کے تین دور ہوئے۔
پہلا دور
[ترمیم]پہلا دور 10 نومبر 1930ء کو شروع ہوا اور 19 جنوری 1931ء تک جاری رہا۔ مسلمانوں کی نمائندگی سر آغا خان، محمد علی جناح، سر محمد ظفر اللہ خان اور مولانا محمد علی جوہر وغیرہ نے کی۔ جبکہ کانگریس نے اس دور کا بائیکاٹ کیا۔ اس پہلے دور میں طویل اجلاسوں اور کارروائیوں کے بعد اس بات سے اتفاق کیا گیا کہ ہندوستان کے لیے سب سے موزوں اور موثر نظام حکومت صوبوں اور ریاستوں پر مشتمل وفاقی طرز حکومت ہے اس کے علاوہ متعدد امور کے لیے کمیٹیاں اور سب کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئیں۔
آکسفورڈ ہسٹری آف انڈیا کے مطابق پہلے دور میں انگریز سرکار کو جو خاص کامیابی نصیب ہوئی وہ ریاستوں کے نمائندوں کا آل انڈیا فیڈریشن میں شمولیت پر راضی ہونا تھا۔ اس دور میں مولانا محمد علی جوہر کی ایک تقریر جو آزادی کامل سے متعلق تھی خاص اہمیت کی حامل ہے۔ آپ نے فرمایا:
’’میں تو آزادی کامل کو اپنا مسلک قرار دے چکا ہوں۔ میں اس وقت تک اپنے غلام ملک میں واپس نہیں جاؤں گا۔ جب تک اپنے ہمراہ آزادی کو لے کر نہ جاؤں۔ اگر تم نے ہمیں ہندوستان میں آزادی نہ دی تو تمھیں مجھے یہاں قبر کی جگہ دینا ہوگی۔‘‘
اللہ کو شاید یہی منظور تھا۔ اس تقریر کے بعد مولانا کا لندن ہی میں انتقال ہوا۔ آپ کے رفقا نے مناسب نہ سمجھا کہ آپ کی وصیت کے برعکس آپ کا جسد خاکی غلام ہندوتان لے آئیں۔ لہٰذا آپ کا جسد خاکی بیت المقدس لے جا کر دفنایا گیا۔
دوسرا دور
[ترمیم]دوسرا درو 7 ستمبر 1931ء کو شروع ہوا اور یکم دسمبر 1931ء تک جاری رہا۔ گاندھی۔ ارون معاہدے کے تحت گاندھی نے کانگریس کی نمائندگی کرتے ہوئے اس دور میں شرکت کی۔ دوسری طرف ڈاکٹر علامہ اقبال دیگر مسلم زعماء میں شامل ہو گئے۔ گاندھی اور مسلمانوں کے نقطۂ نظر میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ گاندھی کا اصرار تھا کہ کانگریس کو سارے ہندوستانیوں کی واحد نمائندہ جماعت تسلیم کیا جائے۔ لیکن مسلمان اس بے معنی منطق کو ماننے کے لیے قطعی طور پر تیار نہ تھے۔ اسی طرح یہ دوسرا دور بھی بغیر کسی کامیابی کے ختم ہوا۔ گاندھی نے کانفرنس کی ناکامی کی تمام تر ذمہ داری برطانیہ سرکار پر عائد کر دی۔ اپنے مشن میں ناکامی کے بعد وہ جونہی ہندوستان لوٹے، ان کو دوبارہ گرفتار کروا کر جیل میں ڈال دیا گیا۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس دوسرے دور کے بعد محمد علی جناح عارضی طور پر ہندوستانی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔ اور لندن ہی میں ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن وہاں ٹھہرنے کے باوجود بھی آپ اپنے ملک میں سیاسی تبدیلیوں کا بغور جائزہ لیتے رہے۔ گول میز کانفرنس کے دوسرے دور کی ناکامی کے بعد برطانوی وزیر اعظم ریمزے میکڈونلڈ نے برطانوی ہند میں اقلیتوں کے مسائل حل کرنے کے لیے ان کے حقوق کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کے لیے 4 اگست 1932ء کو ایک اہم فیصلے کا اعلان کیا۔ جس کو کیمونل ایورڈ کا نام دیا گیا۔ اس ایوارڈ کے تحت اقلیتوں کو جداگانہ انتخابات کی رعایت دی گئی۔ مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کے لیے ایک تہائی نشستیں مخصوص کر دی گئیں۔ ملازمتوں میں مسلمانوں کے لیے ایک چوتھائی حصہ مقرر کر دیا گیا۔ مزید برآن سکھوں، عیسائیوں، اینگلو انڈین اور شودروں کے لیے بھی نشستیں مقرر کر دی گئیں۔
تیسرا دور
[ترمیم]گول میز کانفرنس کا تیسرا اور آخری دور 17 نومبر 1932ء سے 24 دسمبر 1932ء تک لندن میں منعقد ہوا۔ اس دور میں شرکاء کی تعداد پہلے ادوار کی نسبت کافی کم تھی۔ کانگریس کا کوئی نمائندہ اس دور میں شریک نہ ہوا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اس آخری دور میں شرکت نہیں فرمائی۔ اس دور کا زیادہ تر وقت ہندوستان میں حکومتی ڈھانچے اور اقلیتوں کو آئینی تحفظآت فراہم کرنے سے متعلق امور پر غور کرنے میں گذرا۔ لیکن کانگریس کی عدم موجودگی کے باعث کسی ٹھوس فارمولے پر اتفاق رائے نہ ہو سکا۔
گول میز کانفرنس کے اختتام پر حکومت برطانیہ نے مختلف کمیٹیوں کی رپورٹوں، سفارشوں اور تجاویز پر مبنی ایک وضاحتی قرطاس ایبض White paperمارچ 1933ء میں شائع کر دی۔ گول میز کانفرنس میں ناکامی کے بعد حکومت برطانیہ نے اپنی طرف سے ایک آئین نما قانون کی منظوری دی جسے قانون حکومت ہند مجریہ 1935ء (Govt of India Act 1935)کا نام دیا گیا۔ اس قانون کے تحت 1937ء میں ہندوستان میں عام انتخابات منعقد کروائے گئے۔ جن میں کانگریس اور مسلم لیگ دونوں نے حصہ لیا۔ 1937ء کے انتخابات میں کانگریس کا پلڑہ بھاری رہا۔ ان انتخابات کے نتیجے میں ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کانگریسی وزارتیں قائم ہوئیں۔