انور سجاد

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
انور سجاد
معلومات شخصیت
پیدائش 27 مئی 1935ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 6 جون 2019ء (84 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور ،  پنجاب ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند (27 مئی 1935–14 اگست 1947)
پاکستان (15 اگست 1947–6 جون 2019)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی یونیورسٹی آف لیورپول
کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مترجم ،  ڈراما نگار ،  ناول نگار ،  افسانہ نگار   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  انگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
 تمغائے حسن کارکردگی   (برائے:ادب ) (1989)  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ڈاکٹر انور سجاد

ڈاکٹر انور سجاد (27 مئی، 1935ء  – 6 جون 2019ء) پاکستان کے مشہور اردو افسانہ نگار، ناول نگار، اداکار اور ڈراما نویس تھے جو اپنے افسانوں میں علامت نگاری کی وجہ سے مشہور و معروف تھے۔ انور سجاد ویسے تو ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے، مگر خدا نے انھیں کئی اور کاموں کے لیے پیدا کیا تھا۔ وہ رقص بھی کرتے تھے، مصور بھی تھے اور اداکار، مترجم، براڈ کاسٹر، ڈراما نگار بھی

حالات زندگی[ترمیم]

ڈاکٹر انور سجاد 27 مئی 1935ء کو چونا منڈی (لاہور) ، موجودہ پاکستان میں ڈاکٹر دلاور علی کے گھر پیدا ہوئے، [2]۔ ان کا اصل نام سیّد محمد سجاد انور علی بخاری تھا۔[3] انھوں نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کیا۔ پھر ڈی ٹی ایم اینڈ ایچ کا امتحان لندن سے پاس کیا۔[2] وطن واپسی پر طب کا پیشہ اختیار کیا۔1965 میں پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے بھی لکھے اور ان مین بطور ادا کار حصہ بھی لیا اداکاروں اور فنکاروں کے حقوق و مفادات کے لیے 1970ء میں آرٹسٹ ایکٹویٹی کی بنیاد رکھی، 1970ء میں حلقہ ارباب ذوق لاہور کے سیکرٹری منتخب ہوئے۔برلن میں 1973ء میں ڈرامے اور موسیقی کا جو میلہ منعقد ہوا تھا۔ اس میں پاکستان وفد میں رکن کی حیثیت سے شرکت کی، لاہور آرٹس کونسل کے چیئرمین بھی رہے، کچھ عرصہ کراچی میں بھی قیام کیا، عارضہ سانس و فالج میں مبتلا رہے،

ادبی خدمات[ترمیم]

انور سجاد کی شخصیت پہلو دار ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ نظریاتی وابستگی انھیں سیاست تک لے آئی۔ اسٹیج، ٹیلی وژن کی قوتِ اظہار سے واقف ہیں چنانچہ ڈراما نویس بھی ہیں اور کامیاب اداکار بھی۔ ایک طاقتور برش پر انگلیاں جمانے کا فن جانتے ہیں اور جدید افسانے کا ایک معتبر نام ہیں۔ وہ اپنی شخصیت اور روحِ عصر کے اظہار کے لیے تمام شعبوں میں یکساں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی شخصیت کے یہ تمام پہلو ان کی افسانہ نگاری میں کسی نہ کسی طرح ظاہر ہوئے ہیں۔ وہ اشیاء کو باطنی ویژن سے دیکھتے ہیں جس کی مثالیں ان کے افسانوں میں ملتی ہیں۔[4] اپنے افسانوں میں انھوں نے حقیقت کو Fantasy کے روپ میں بیان کرنے کے لیے نئی نئی تکنیک استعمال کی ہیں۔ استعارے اور علامتوں کی بھرمار سے انھوں نے Inside out کی طرف سفر کیا اور مشاہدے باطن کی دھندلی پر چھائیوں سے عصری حقیقت بیان کی ہے۔ سیاسی اور معاشی ناہمواری ان کے موضوع خاص ہیں۔ ڈاکٹر انور سجاد کا پہلا ناولٹ رگ سنگ 1955ء میں شائع ہوا۔ دیگر کتابوں میں استعارے 1970ء، آج، پہلی کہانیاں ، چوراہا، خوشیوں کا باغ اور دیگر شامل ہیں۔[2]

تصانیف[ترمیم]

  1. رگ سنگ(ناولٹ /1955)
  2. استعارے
  3. آج
  4. پہلی کہانیاں
  5. چوراہا
  6. زرد کونپل
  7. خوشیوں کا باغ
  8. نگار خانہ(ٹیلی کہانیاں)
  9. صبا اور سمندر
  10. جنم روپ(ناول)
  11. نیلی نوٹ بُک
  12. رسی کی زنجیر
  13. رات کا پچھلا پہر
  14. رات کے مسافر
  15. تلاش وجود
  16. سورج کو ذرا دیکھ
  17. مجموعہ ڈاکٹر انور سجاد

وفات[ترمیم]

ڈاکٹر انور سجاد کا انتقال 84 سال کی عمر میں طویل علالت کے بعد 6 جون 2019ء کو لاہور میں ہوا۔

اعزازات[ترمیم]

ڈاکٹر انور سجاد کو 1989ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔[2]

ناقدین کی رائے[ترمیم]

ممتاز نقاد شمس الرحمٰن فاروقی، ڈاکٹر انور سجاد کے فن کے بارے میں کہتے ہیں :

انور سجاد کے افسانے سماجی تاریخ نہیں بنتے بلکہ اس سے عظیم تر حقیقت بنتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے یہاں انسان یعنی کردار، علامت بن جاتے ہیں۔ یہ بات قابلِ لحاظ ہے کہ انور سجاد کے کردار بے نام ہوتے ہیں اور وہ انہیں ایسی صفات کے ذریعے مشخص کرتے ہیں جو انہیں کسی طبقے یا قوم سے زیادہ جسمانی یا ذہنی کیفیات کے ذریعے تقریباً دیو مالائی فضا سے متعلق کردیتے اور خطِ مستقیم کی بجائے دائرے کا تاثر پیدا کرتے ہیں۔[5]

ممتاز شاعر و افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر انور سجاد کی تکنیک اور اسلوب کے بارے میں کہتے ہیں :

انور سجاد کے افسانوں کے اسلوب پر غور کرتے ہوئے مجھے غزل بہت یاد آئی۔ شعور کی رو میں ایک غیر شعوری باظنی ربط ضرور ہوتا ہے۔ یہی ربط ایک اچھی غزل میں بھی موجود ہوتا ہے۔ یوں اردو کی یہ صنف جدید ذہن کے قریب پہنچ جاتی ہے۔[6]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب https://www.rekhta.org/authors/anwar-sajjad
  2. ^ ا ب پ ت "ڈاکٹر انور سجاد، پاکستانی کنیکشنز، برمنگھم برطانیہ"۔ 23 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جنوری 2016 
  3. ڈاکٹر انور سجاد، سوانح و تصانیف ویب، پاکستان
  4. ص 296، اردو افسانہ: فنی و تکنیکی مطالعہ، ڈاکٹر نکہت ریحانہ خان، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، طبع اول نومبر 1986ء
  5. ص 513، اردو افسانے میں اسلوب اور تکنیک کے تجربات (پی ایچ ڈی مقالہ)، مقالہ نگار فوزیہ اسلم، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز، اسلام آباد، اکتوبر 2005ء
  6. ص 518، اردو افسانے میں اسلوب اور تکنیک کے تجربات (پی ایچ ڈی مقالہ)، مقالہ نگار فوزیہ اسلم، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز، اسلام آباد، اکتوبر 2005ء