"ابراہیم (اسلام)" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
3 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.9.3
سطر 200: سطر 200:
اور ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر آئے تو سلام کہا۔ انہوں نے بھی (جواب میں) سلام کہا۔ ابھی کچھ وقفہ نہیں ہوا تھا کہ (ابراہیم) ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں جاتے (یعنی وہ کھانا نہیں کھاتے) تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا۔ (فرشتوں نے) کہا کہ خوف نہ کیجیے، ہم قوم لوط کی طرف (ان کے ہلاک کرنے کو) بھیجے گئے ہیں اور ابراہیم کی بیوی (جو پاس) کھڑی تھی، ہنس پڑی تو ہم نے اس کو اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی-
اور ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر آئے تو سلام کہا۔ انہوں نے بھی (جواب میں) سلام کہا۔ ابھی کچھ وقفہ نہیں ہوا تھا کہ (ابراہیم) ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں جاتے (یعنی وہ کھانا نہیں کھاتے) تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا۔ (فرشتوں نے) کہا کہ خوف نہ کیجیے، ہم قوم لوط کی طرف (ان کے ہلاک کرنے کو) بھیجے گئے ہیں اور ابراہیم کی بیوی (جو پاس) کھڑی تھی، ہنس پڑی تو ہم نے اس کو اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی-


یہ واقعہ سورۃ ہود اور سورۃ حجر میں بھی گزر چکا ہے یہ مہمان فرشتے تھے جو بہ شکل انسان آئے تھے جنہیں اللہ نے عزت و شرافت دے رکھی ہے حضرت [[امام احمد بن حنبل]] اور دیگر علمائے کرام کی ایک جماعت کہتی ہے کہ مہمان کی ضیافت کرنا واجب ہے حدیث میں بھی یہ آیا ہے اور قرآن کریم کے ظاہری الفاظ بھی یہی ہیں۔ انہوں نے سلام کیا جس کا جواب خلیل اللہ نے بڑھا کر دیا اس کا ثبوت دوسرے سلام پر دو پیش کا ہونا ہے۔ اور یہی فرمان باری تعالیٰ ہے فرماتا ہے ( وَاِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَــيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًا 86؀) 4- النسآء:86) یعنی جب کوئی تمہیں سلام کرے تو تم اس سے بہتر جواب دو یا کم ازکم اتنا ہی۔ پس خلیل اللہ نے افضل صورت کو اختیار کیا حضرت ابراہیم چونکہ اس سے ناواقف تھے کہ یہ دراصل فرشتے ہیں اس لیے کہا کہ یہ لوگ تو ناآشنا سا ہیں۔ یہ فرشتے حضرت جبرائیل حضرت میکائیل اور حضرت اسرافیل علیہم السلام تھے۔ جو خوبصورت نوجوان انسانوں کی شکل میں آئے تھے ان کے چہروں پر ہیبت و جلال تھا حضرت ابراہیم اب ان کے لیے کھانے کی تیاری میں مصروف ہو گئے اور چپ چاپ بہت جلد اپنے گھر والوں کی طرف گئے اور ذرا سی دیر میں تیار بچھڑے کا گوشت بھنا بھنایا ہوا لے آئے اور ان کے سامنے رکھ دیا اور فرمایا آپ کھاتے کیوں نہیں ؟ اس سے ضیافت کے آداب معلوم ہوئے کہ مہمان سے پوچھے بغیر ہی ان پر شروع سے احسان رکھنے سے پہلے آپ چپ چاپ انہیں خبر کیے بغیر ہی چلے گئے اور بہ عجلت بہتر سے بہتر جو چیز پائی اسے تیار کر کے لے آئے۔ تیار فربہ کم عمر بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت لے آئے اور کہیں اور رکھ کر مہمان کی کھینچ تان نہ کی بلکہ ان کے سامنے ان کے پاس لا کر رکھا۔ پھر انہیں یوں نہیں کہتے کہ کھاؤ کیونکہ اس میں بھی ایک حکم پایا جاتا ہے بلکہ نہایت تواضع اور پیار سے فرماتے ہیں آپ تناول فرمانا شروع کیوں نہیں کرتے ؟ جیسے کوئی شخص کسی سے کہے کہ اگر آپ فضل و کرم احسان و سلوک کرنا چاہیں تو کیجئے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ خلیل اللہ اپنے دل میں ان سے خوفزدہ ہو گئے جیسے کہ اور آیت میں ہے آیت ( فَلَمَّا رَآٰ اَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيْفَةً ۭ قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰي قَوْمِ لُوْطٍ 70؀ۭ) 11-ھود:70)، یعنی آپ نے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھتے نہیں تو دہشت زدہ ہو گئے اور دل میں خوف کھانے لگے اس پر مہمانوں نے کہا ڈرو مت ہم اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں جو قوم لوط کی ہلاکت کے لیے آئے ہیں آپ کی بیوی صاحبہ جو کھڑی ہوئی سن رہی تھیں وہ سن کر ہنس دیں تو فرشتوں نے انہیں خوشخبری سنائی کہ تمہارے ہاں حضرت اسحاق پیدا ہوں گے اور ان کے ہاں حضرت یعقوب اس پر بیوی صاحبہ کو تعجب ہوا اور کہا ہائے افسوس اب میرے ہاں بچہ کیسے ہوگا ؟ میں تو بڑھیا پھوس ہو گئی ہوں اور میرے شوہر بھی بالکل بوڑھے ہو گئے۔ یہ سخت تر تعجب کی چیز ہے فرشتوں نے کہا کیا تم اللہ کے کاموں سے تعجب کرتی ہو ؟ خصوصًا تم جیسی ایسی پاک گھرانے کی عورت ؟ تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں۔ جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ تعریفوں کے لائق اور بڑی بزرگی اور اعلیٰ شان والا ہے یہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ بشارت حضرت ابراہیم کو دی گئی کیونکہ بچے کا ہونا دونوں کی خوشی کا موجب ہے۔ پھر فرماتا ہے یہ بشارت سن کر آپ کی اہلیہ صاحبہ کے منہ سے زور کی آواز نکل گئی اور اپنے تئیں دوہتڑ مار کر ایسی عجیب و غریب خبر کو سن کر حیرت کے ساتھ کہنے لگیں کہ جوانی میں تو میں بانجھ رہی اب میاں بیوی دونوں بوڑھے ہو گئے تو مجھے حمل ٹھہرے گا ؟ اس کے جواب میں فرشتوں نے کہا کہ یہ خوشخبری کچھ ہم اپنی طرف سے نہیں دے رہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے کہ ہم تمہیں یہ خبر پہنچائیں۔ وہ حکمت والا اور علم والا ہے۔ تم جس عزت وکرامت کے مستحق ہو وہ خوب جانتا ہے اور اس کا فرمان ہے کہ تمہارے ہاں اس عمر میں بچہ ہوگا اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں نہ اس کا کوئی فرمان حکمت سے خالی ہے۔ <ref>[http://myonlinequran.com/tafseer.php?page=7&ipp=8&tid=15&urtrans_id=4&tafseer_id=4 Quran - الحجر - Al-Hijr – Urdu Tafseer – Urdu Tafseer Ibne-Kaseer - تفسیر ابن کثیر<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]{{مردہ ربط|date=جنوری 2021 |bot=InternetArchiveBot}}</ref><ref>[http://www.elmedeen.com/read-book-1180#page-499&viewer-pdf تفسیر ابن کثیر مترجم اردو جلد 2 ، صفحہ 1 - مکتبہ جبریل<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref><ref>[http://myonlinequran.com/tafseer.php?page=9&ipp=8&tid=11&urtrans_id=4&tafseer_id=4 Quran - ھود - Hud – Urdu Tafseer – Urdu Tafseer Ibne-Kaseer - تفسیر ابن کثیر<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]{{مردہ ربط|date=جنوری 2021 |bot=InternetArchiveBot}}</ref><ref>[http://www.elmedeen.com/read-book-1181#page-110&viewer-pdf تفسیر ابن کثیر مترجم اردو جلد 3 ، صفحہ 1 - مکتبہ جبریل<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref>
یہ واقعہ سورۃ ہود اور سورۃ حجر میں بھی گزر چکا ہے یہ مہمان فرشتے تھے جو بہ شکل انسان آئے تھے جنہیں اللہ نے عزت و شرافت دے رکھی ہے حضرت [[امام احمد بن حنبل]] اور دیگر علمائے کرام کی ایک جماعت کہتی ہے کہ مہمان کی ضیافت کرنا واجب ہے حدیث میں بھی یہ آیا ہے اور قرآن کریم کے ظاہری الفاظ بھی یہی ہیں۔ انہوں نے سلام کیا جس کا جواب خلیل اللہ نے بڑھا کر دیا اس کا ثبوت دوسرے سلام پر دو پیش کا ہونا ہے۔ اور یہی فرمان باری تعالیٰ ہے فرماتا ہے ( وَاِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَــيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًا 86؀) 4- النسآء:86) یعنی جب کوئی تمہیں سلام کرے تو تم اس سے بہتر جواب دو یا کم ازکم اتنا ہی۔ پس خلیل اللہ نے افضل صورت کو اختیار کیا حضرت ابراہیم چونکہ اس سے ناواقف تھے کہ یہ دراصل فرشتے ہیں اس لیے کہا کہ یہ لوگ تو ناآشنا سا ہیں۔ یہ فرشتے حضرت جبرائیل حضرت میکائیل اور حضرت اسرافیل علیہم السلام تھے۔ جو خوبصورت نوجوان انسانوں کی شکل میں آئے تھے ان کے چہروں پر ہیبت و جلال تھا حضرت ابراہیم اب ان کے لیے کھانے کی تیاری میں مصروف ہو گئے اور چپ چاپ بہت جلد اپنے گھر والوں کی طرف گئے اور ذرا سی دیر میں تیار بچھڑے کا گوشت بھنا بھنایا ہوا لے آئے اور ان کے سامنے رکھ دیا اور فرمایا آپ کھاتے کیوں نہیں ؟ اس سے ضیافت کے آداب معلوم ہوئے کہ مہمان سے پوچھے بغیر ہی ان پر شروع سے احسان رکھنے سے پہلے آپ چپ چاپ انہیں خبر کیے بغیر ہی چلے گئے اور بہ عجلت بہتر سے بہتر جو چیز پائی اسے تیار کر کے لے آئے۔ تیار فربہ کم عمر بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت لے آئے اور کہیں اور رکھ کر مہمان کی کھینچ تان نہ کی بلکہ ان کے سامنے ان کے پاس لا کر رکھا۔ پھر انہیں یوں نہیں کہتے کہ کھاؤ کیونکہ اس میں بھی ایک حکم پایا جاتا ہے بلکہ نہایت تواضع اور پیار سے فرماتے ہیں آپ تناول فرمانا شروع کیوں نہیں کرتے ؟ جیسے کوئی شخص کسی سے کہے کہ اگر آپ فضل و کرم احسان و سلوک کرنا چاہیں تو کیجئے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ خلیل اللہ اپنے دل میں ان سے خوفزدہ ہو گئے جیسے کہ اور آیت میں ہے آیت ( فَلَمَّا رَآٰ اَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيْفَةً ۭ قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰي قَوْمِ لُوْطٍ 70؀ۭ) 11-ھود:70)، یعنی آپ نے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھتے نہیں تو دہشت زدہ ہو گئے اور دل میں خوف کھانے لگے اس پر مہمانوں نے کہا ڈرو مت ہم اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں جو قوم لوط کی ہلاکت کے لیے آئے ہیں آپ کی بیوی صاحبہ جو کھڑی ہوئی سن رہی تھیں وہ سن کر ہنس دیں تو فرشتوں نے انہیں خوشخبری سنائی کہ تمہارے ہاں حضرت اسحاق پیدا ہوں گے اور ان کے ہاں حضرت یعقوب اس پر بیوی صاحبہ کو تعجب ہوا اور کہا ہائے افسوس اب میرے ہاں بچہ کیسے ہوگا ؟ میں تو بڑھیا پھوس ہو گئی ہوں اور میرے شوہر بھی بالکل بوڑھے ہو گئے۔ یہ سخت تر تعجب کی چیز ہے فرشتوں نے کہا کیا تم اللہ کے کاموں سے تعجب کرتی ہو ؟ خصوصًا تم جیسی ایسی پاک گھرانے کی عورت ؟ تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں۔ جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ تعریفوں کے لائق اور بڑی بزرگی اور اعلیٰ شان والا ہے یہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ بشارت حضرت ابراہیم کو دی گئی کیونکہ بچے کا ہونا دونوں کی خوشی کا موجب ہے۔ پھر فرماتا ہے یہ بشارت سن کر آپ کی اہلیہ صاحبہ کے منہ سے زور کی آواز نکل گئی اور اپنے تئیں دوہتڑ مار کر ایسی عجیب و غریب خبر کو سن کر حیرت کے ساتھ کہنے لگیں کہ جوانی میں تو میں بانجھ رہی اب میاں بیوی دونوں بوڑھے ہو گئے تو مجھے حمل ٹھہرے گا ؟ اس کے جواب میں فرشتوں نے کہا کہ یہ خوشخبری کچھ ہم اپنی طرف سے نہیں دے رہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے کہ ہم تمہیں یہ خبر پہنچائیں۔ وہ حکمت والا اور علم والا ہے۔ تم جس عزت وکرامت کے مستحق ہو وہ خوب جانتا ہے اور اس کا فرمان ہے کہ تمہارے ہاں اس عمر میں بچہ ہوگا اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں نہ اس کا کوئی فرمان حکمت سے خالی ہے۔ <ref>[http://myonlinequran.com/tafseer.php?page=7&ipp=8&tid=15&urtrans_id=4&tafseer_id=4 Quran - الحجر - Al-Hijr – Urdu Tafseer – Urdu Tafseer Ibne-Kaseer - تفسیر ابن کثیر<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]{{مردہ ربط|date=جنوری 2021 |bot=InternetArchiveBot}}</ref><ref>{{Cite web |title=تفسیر ابن کثیر مترجم اردو جلد 2 ، صفحہ 1 - مکتبہ جبریل<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان --> |url=http://www.elmedeen.com/read-book-1180#page-499&viewer-pdf |access-date=2018-12-16 |archive-date=2018-02-09 |archive-url=https://web.archive.org/web/20180209004439/http://www.elmedeen.com/read-book-1180#page-499&viewer-pdf |url-status=dead }}</ref><ref>[http://myonlinequran.com/tafseer.php?page=9&ipp=8&tid=11&urtrans_id=4&tafseer_id=4 Quran - ھود - Hud – Urdu Tafseer – Urdu Tafseer Ibne-Kaseer - تفسیر ابن کثیر<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]{{مردہ ربط|date=جنوری 2021 |bot=InternetArchiveBot}}</ref><ref>{{Cite web |title=تفسیر ابن کثیر مترجم اردو جلد 3 ، صفحہ 1 - مکتبہ جبریل<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان --> |url=http://www.elmedeen.com/read-book-1181#page-110&viewer-pdf |access-date=2018-12-16 |archive-date=2018-12-29 |archive-url=https://web.archive.org/web/20181229072133/http://www.elmedeen.com/read-book-1181#page-110&viewer-pdf |url-status=dead }}</ref>


=== بالوں کی سفیدی ===
=== بالوں کی سفیدی ===
روایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شکل وصورت کے ان کے بیٹے حضرت [[اسماعیل علیہ السلام]]  تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ذبیح اللہ کہہ کر پکارادونوں باپ بیٹے ایک ہی جسے شکل کے تھے کبھی کبھی مغالطے میں لوگ حضرت اسماعیل علیہ السلام کوخلیل اللہ کہہ دیا کرتے تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کوذبیح اللہ، اللہ تعالیٰ کویہ بات پسند نہیں آئی تو اللہ تعالیٰ نے باپ اوربیٹے میں تھوڑاسافرق پیدافرمادیا۔سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بال سفیدہوئے اس وقت تک دنیامیں کسی انسان کے بال سفیدنہیں ہوئے تھے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آئینہ دیکھا بڑا تعجب ہواکہاکہ یہ بال کیسے سفیدہوگئے اللہ سے عرض کیا اے اللہ ! یہ کیاہے ؟ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایاکہ یہ ہمارانو رہے اورفرمایاکہ ہمیں یہ بات پسندنہیں آئی کہ کوئی ہمارے خلیل کوذبیح کہہ کرپکارے اس لیے ہم نے سفیدبال پیدافرمادیئے تاکہ لوگوں کومغالطہ نہ ہو، تو ابراہیم علیہ السلام کی یہ خصوصیت ہے کہ سب سے پہلے دنیامیں آپ کے بال سفیدہوئے گویااللہ تعالیٰ نے آپ کوبزرگی مسلّم طورپر عطافرمائی تھی ظاہری طورپربھی اورباطنی طورپربھی، رسالت کے اعتبارسے بھی اورانسانیت کے اعتبارسے بھی۔<ref>[http://www.elmedeen.com/read-book-5333&page=49&q=ابراہیم%20ؑ#page-49&viewer-text خطبات رحیمی جلد سوم، صفحہ 49 - مکتبہ جبریل<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref><ref>خطباتِ رحیمی مدیر دار العلوم محمدیہ بنگلور صحفہ49</ref>
روایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شکل وصورت کے ان کے بیٹے حضرت [[اسماعیل علیہ السلام]]  تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ذبیح اللہ کہہ کر پکارادونوں باپ بیٹے ایک ہی جسے شکل کے تھے کبھی کبھی مغالطے میں لوگ حضرت اسماعیل علیہ السلام کوخلیل اللہ کہہ دیا کرتے تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کوذبیح اللہ، اللہ تعالیٰ کویہ بات پسند نہیں آئی تو اللہ تعالیٰ نے باپ اوربیٹے میں تھوڑاسافرق پیدافرمادیا۔سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بال سفیدہوئے اس وقت تک دنیامیں کسی انسان کے بال سفیدنہیں ہوئے تھے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آئینہ دیکھا بڑا تعجب ہواکہاکہ یہ بال کیسے سفیدہوگئے اللہ سے عرض کیا اے اللہ ! یہ کیاہے ؟ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایاکہ یہ ہمارانو رہے اورفرمایاکہ ہمیں یہ بات پسندنہیں آئی کہ کوئی ہمارے خلیل کوذبیح کہہ کرپکارے اس لیے ہم نے سفیدبال پیدافرمادیئے تاکہ لوگوں کومغالطہ نہ ہو، تو ابراہیم علیہ السلام کی یہ خصوصیت ہے کہ سب سے پہلے دنیامیں آپ کے بال سفیدہوئے گویااللہ تعالیٰ نے آپ کوبزرگی مسلّم طورپر عطافرمائی تھی ظاہری طورپربھی اورباطنی طورپربھی، رسالت کے اعتبارسے بھی اورانسانیت کے اعتبارسے بھی۔<ref>{{Cite web |title=خطبات رحیمی جلد سوم، صفحہ 49 - مکتبہ جبریل<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان --> |url=http://www.elmedeen.com/read-book-5333%26page%3D49%26q%3D%D8%A7%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81%DB%8C%D9%85%20%D8%91#page-49&viewer-text |access-date=2018-12-27 |archive-date=2022-04-11 |archive-url=https://web.archive.org/web/20220411100056/http://www.elmedeen.com/read-book-5333%26page%3D49%26q%3D%D8%A7%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%81%DB%8C%D9%85%20%D8%91#page-49&viewer-text |url-status=dead }}</ref><ref>خطباتِ رحیمی مدیر دار العلوم محمدیہ بنگلور صحفہ49</ref>


=== ختنے کی ابتدا ===
=== ختنے کی ابتدا ===

نسخہ بمطابق 18:00، 5 مئی 2023ء

ابراہیم (اسلام)
 

معلومات شخصیت
پیدائش 1810ء کی دہائی ق م  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اُر ،  سلطنت بابل   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات الخلیل   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ سارہ [1]  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد اسماعیل علیہ السلام ،  اسحاق [2]  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
اسلامی نبی   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
صالح علیہ السلام  
لوط  
عملی زندگی
پیشہ واعظ ،  نبی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے پیغمبر تھے جن کو اللہ نے مُسلمان نبی پیغمبر ابو الانبیاء، خلیل اللہ امام الناس اور حنیف کہہ کر پُکارا۔[3]

اللہ تعالی نے اپنے اس دوست برگزیدہ اور پیارے نبی کو قرآن مجید میں امتہ (النحل : 120) امام الناس (البقرہ: 124) حنیف اور مسلم (آل عمران: 67) کے ناموں سے بار بار بار کیا ہے۔ اکثر انبیائے کرام انہی کی اولاد سے ہیں۔[3]

ابراہیم علیہ السلام کے نام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بائبل کا بیان ہے کہ خدا تعالی ان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔

دیکھ میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قوموں کا باپ ہو گا۔ اور تیرا نام ابرام نہیں بلکہ ابراہام ہو گا۔ کیونکہ میں نے تجھے قوموں کا باپ بنایا ہے۔ (پیدائش 170:5)[3]

اکثر ماہرین کے نزدیک ابراہام یا ابراہیم ؑ بھی لفظ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پہلے آپ کا نام ابراہم ہو اور پھر ابراہام یا ابو رہام ہو گیا ہو۔مُسلمان اُن کو خلیل اللہ (اللہ کا دوست) کہتے ہیں۔ ابراہیم کی نسل سے کئی پیغمبر پیدا ہوئے، جن کا تذکرہ عہدنامہ قدیم میں ہے۔ اسلام کی کتاب قرآن مجید میں بھی بہت سارے ایسے انبیا کا ذکر ہے جو ابراہیم کی نسل میں سے تھے۔ اسلام کے آخری نبی مُحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ابراہیم کی نسل میں سے ہیں۔[3]

شرک، ستارہ پرستی اور بت سازی کے خلاف اپنی قوم اور اوروں کے ساتھ ان کا مجادلہ و محاجہ بڑے زور سے پیش کیا گیا ہے۔ ابراہیم کا بچپن میں ہی رشد عطا کیا گیا اور قلب سلیم بھی عنایت فرمایا گیا۔ تکوینی عجائبات اور ملکوت السمٰوت والارض ان کے سامنے تھے۔ انہیں کے مشاہدے سے اُن کو یقین کامل حاصل ہوا۔

بت پرستی کے خلاف ابراہیم کے جہاد کا ذکر بھی قران کریم میں کئی بار آیا ہے۔قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم ؑ اور آذر کے اختلاف عقائد کو جس طرح نمایاں کیا گیا ہے اور جس طرح آپ اپنی قوم کے شرک سے متنفر اور متصادم ہوئے۔ اس سے ہم آپ کی عظمت و جلالت کی حقیقت کو بھی پاسکتے ہیں۔ اور اپنے لیے شمع ہدایت بھی روشن کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو ملت براہیمی ہونے پر فخر ہے۔[4][5] ان کے بارے میں یہ توکہیں وضاحت نہیں ہوئی کہ کیا وحی ان پر نازل ہوئی تھی یا ان کی بعثت محض روحانی تھی؟ البتہ قرآن مجید میں ایک جگہ اس امر کی تصدیق ہوئی ہے کہ اللہ تعالی آپ سے ہمکلام تھا۔ اہل تاریخ کے نزدیک متعدد صحیفے تھے جو ابراہیم پر نازل ہوئے۔ ایک صحیفہ جو ان کی طرف سے منسوب ہے یونانی سے انگریزی میں ترجمہ ہو کر شائع ہو چکا ہے۔

حضرت ابراہیم ؑ کے دین کے بارے میں قرآن مجید میں کئی جگہ پر ارشار ہوتا ہے کہ آپ موحد مسلم اورراست رو تھے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

— 

”پھر ہم نے تیری طرف (حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف) وحی کی کہ ابراہیم ؑ راست رو (مسلم) کے دین پر چل اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا “

اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاةُ وَالإنجِيلُ إِلاَّ مِن بَعْدِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ هَاأَنتُمْ هَؤُلاء حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِ عِلمٌ فَلِمَ تُحَآجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلَكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَاللّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ

— 


”اے اہل کتاب! تم ابراہیم ؑ کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو۔ حالانکہ توریت اور انجیل اس کے بعد ہی اتاری گئیں۔ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ سنو! تم وہ ہو جو اس میں جھگڑ چکے، جس کا تمہیں علم تھا پھر اس میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا میں علم نہیں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ ابراہیم ؑ  نہ یہودی تھا اور نہ عیسائی، لیکن وہ راست رو اور فرماں بردار (مسلم اور حنیف) تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ يقينا ابراہیم ؑ کے بہت نزدیک وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس کی پیروی کی اور یہ نبی اور وہ جو اس پہ ایمان لائے اورالله مومنوں کا ولی ہے۔

قرآن مجید کی تقریباً بائیس سورتوں میں حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر آتا ہے۔ آپ مسلمانوں کے رسول مقبول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد ہیں۔ گویا مسلمان نہ صرف امت محمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ امت براہیمیہ سے بھی متعلق ہیں۔ مسلمان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی اولاد پر بھی درود بھیجتے ہیں- Book Name: Sahih Muslim, Hadees # 6138

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، وَابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْمُخْتَارِ، ح وحَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ - وَاللَّفْظُ لَهُ -، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، أَخْبَرَنَا الْمُخْتَارُ بْنُ فُلْفُلٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا خَيْرَ الْبَرِيَّةِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَاكَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ»

علی بن مسہر اور ابن فضیل نے مختار بن فلفل سے روایت کی ، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا  : ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور کہا  : يا خَيرَ البرِيّۃِ اے مخلوقات میں سے بہترین انسان ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا  : وہ ابراہیم علیہ السلام ہیں ۔ ( یعنی یہ ان کا لقب ہے ۔ )

نسب نامہ

عرب مورخوں نے ابراہیم کا سلسلہ نسب یوں بیان کیا ہے : - ابراہیم بن تارخ بن ناحور بن ساروغ بن ارغو بن فالغ بن عابر بن شالخ بن ارفخشد بن سام بن نوح۔ یہ سلسلہ نسب انجیل میں سے لیا گیا ہے۔ اکثر علما نے ابراہیم کو عجمی قرار دیا ہے۔ اس لفظ کی کئی صورتیں بیان کی ہیں مثلاََ اِبراھام، اِبراہم، ابرہم، ابراہیم، براہم اور براہمہ۔ انجیل کے پُرانے عہد نامے کے مطابق خُدا ابراہیم سے یہ فرماتا ہے کہ تیرا نام پھر ابرام نہیں کہا جائے گا بلکہ ابراھام [6](ابورھام کا مطلب بہت زیادہ اولاد والا یا گروہ کثیر کا باپ) ہوگا۔

قرآن میں

ابراہیم کے نام سے قرآن مجید میں ایک سورت بھی ہے جو قران مجید کی چودہویں سورت ہے جو مکہ میں نازل ہوئی۔ اللہ نے اُنہیں اُمت [7] اور امام النّاس [8] کے لقب سے پُکارا اور اُنہیں بار بار حنیف بھی کہا۔ قراآن مجید میں اُن کو مسلمان یا مسلم بھی کہا گیا ہے۔ اور یہ کہا گیا ہے کہ ابراہیم ملتِ حنیفہ تھے۔ اللہ نے آلِ ابراہیم کو کتاب و حکمت سے نواز اور اُنہیں ملکِ عظیم عطا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں خُلّت کا شرف بخشا اُنہیں خلیل اللہ (اللہ کا دوست ) کہا اور سب اُمتوں میں اُنہیں ہر دلعزیز بنایا۔ اکثر انبیائے کرام ان کی اولاد سے ہیں۔ قران مجید میں حضرت ابراہیم کے احوال و اوصاف بالصّراحت مذکور ہیں۔

حالات زندگی

النووی نے نقل کیا ہے کے ابراہم اقلیم(صوبہ) بابل کے مقام کوثی میں پیدا ہوئے اور ان کی والدہ کا نام نونا تھا ایک اور روایت ہے کہ ابراہیم کلدانیہ کے شہر اُر میں پیدا ہوئے -

تورات کی رو سے حضرت ابراہیم ؑ 2200 ق۔ م میں عراق کے قصبہ عر (ار) میں پیدا ہوئے۔ ناحور اور حاران ان کے بھائی تھے اور حضرت لوط حاران کے بیٹے تھے۔ قرآن حکیم اور تورات اس امر پر متفق ہیں کہ آپ کی قوم بت پرست تھی۔ آپ کے والد کا نام تورات میں تارخ لکھا ہے۔ لیکن قرآن حکیم نے اسے صنم سازی اور بت تراشی کی وجہ سے آذر کہہ کر یاد کیا ہے۔ (دیکھیں آذر)

قرآن حکیم کی رو سے آپ کو بچپن ہی میں ”رشد" (الانبیاء= 51) اور قلب سلیم (صافات= 84) عطا ہوا اور کائنات کے مشاہدے سے آپ کو یقین کامل حاصل ہوا۔ (الانعام = 75)

تالمود میں جو یہودیوں کی کتاب ہے سیرت ابراہیم ؑ کے عراقی دور کا حوالہ ملتاہے جو قرآن مجید کے مقابلے میں خلاف واقعہ اور بے بنیاد معلوم ہوتا ہے۔ تالمود کی رو سے حضرت ابراہیم ؑ کی پیدائش کے روز نجومیوں نے آسمان پر ایک علامت رکھ کر نمرود بادشاہ کو مشورہ دیا کہ تارخ کے ہاں جو بچہ پیدا ہو اسے قتل کر دے۔ چنانچہ نمرود حضرت ابراہیم ؑ کے قتل کے درپے ہوا۔ مگر تارخ نے اپنے ایک غلام کا بچہ اس کے بدلے میں دے کر اپنے بچے کو بچا لیا۔ اس کے بعد تارخ نے اپنی بیوی اور بچے کو ایک غار میں چھپا دیا جہاں وہ دس برس تک رہے۔ گیارہویں سال حضرت ابراہیم ؑ کو حضرت نوح ؑ کے پاس بھیجا۔ جہاں وہ انتالیس برس تک رہے۔ تالمود کے بیان کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی بھتیجی سارہ سے نکاح کر لیا اور جب ابراہیم ؑ پچاس برس کے تھے تو آپ حضرت نوح ؑ کا گھر چھوڑ کر اپنے والد کے گھر آگئےجہاں وہ تبلیغ کرتے رہے۔ وغیرہ وغیرہ (17 : 17, 69 : 11)[3]

اس دوران میں حضرت ابراہیم ؑنے حیات بعد الموت کے راز سے آگای چاہی تو اللہ تعالی نے تشفی فرمائی۔

اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِـي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن قَالَ بَلَى وَلَـكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

— 

اور جب ابراہیم ؑ نے کہا اے میرے رب! مجھے دکھا دے کہ تو کس طرح مردے کو زندہ کرتا ہے۔ فرمایا کیا (اس پر) تیرا ایمان نہیں؟ بولے۔ کیوں نہیں۔ایمان تو ہے لیکن میں اپنے دل کے لیے اطمینان چاہتا ہوں۔ فرمایا! اچھا تو چار پرندے لے۔ پھر انھیں اپنے ساتھ مانوس کرلے، پھر ان میں سے ہر پہاڑ پر ان کا گوشت کا ایک ٹکڑا رکھ ۔ پھر انھیں بلا۔ وہ تیری طرف دوڑ کر آئیں گے اور یقین رکھ کہ اللہ بڑی عزت والا اور حکمت والا ہے “

حضرت ابراہیم ؑ شروع ہی سے بت پرستی کے خلاف تھے۔ ان کی قوم کا سب سے بڑا دیوتا سورج تھا۔ آپ نے تبلیغ کے سلسلے میں سب سے پہلے اپنے والد کو سمجھانے کی کوشش کی۔ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے بزرگ کا مباحث اس طرح سے مذکور ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنكَ شَيْئًا يَا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا يَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَنِ عَصِيًّا يَا أَبَتِ إِنِّي أَخَافُ أَن يَمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمَن فَتَكُونَ لِلشَّيْطَانِ وَلِيًّا قَالَ أَرَاغِبٌ أَنتَ عَنْ آلِهَتِي يَا إِبْراهِيمُ لَئِن لَّمْ تَنتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا قَالَ سَلَامٌ عَلَيْكَ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ وَأَدْعُو رَبِّي عَسَى أَلَّا أَكُونَ بِدُعَاء رَبِّي شَقِيًّا

— 


اور کتاب میں ابراہیم ؑ کا ذکر کرو ،بے شک وہ سچا نبی تھا۔ جب اس نے اپنے ابی سےکہا اے میرے بزرگ تو کیوں اس کی عبادت کرتا ہے جو نہ سنتا ہے اور نہ دیکھتا ہے اور نہ تیرے کچھ کام آ سکتا ہے۔ اے میرے بزرگ مجھے وہ علم ملا ہے جو تجھے نہیں ملا۔ سو تو میری پیروی کر میں تجھے سیدھا رستہ دکھاؤں گا۔“اے میرے بزرگ! شیطان کی عبادت نہ کرے کیونکہ شیطان رحمان کا نافرمان ہے۔ اے میرے بزرگ میں ڈرتا ہوں کہ مجھے رحمان کی طرف سے کوئی عذاب آپہنچے تو تو شیطان کا دوست بن جائے۔اس نے کہا: اے ابراہیم ؑ کیا تو میرے معبودوں سے منہ موڑتا ہے۔ اگر تو باز نہ آئے تو میں تجھے سنگسار کروں گا اور تو ایک مدت تک مجھے سے الگ ہو جا۔کہا تجھ پر سلامتی ہو میں اپنے رب سے تیرے لیے استغفار کروں گا وہ مجھے پر بہت مہربان ہے اور میں تم سے اور ان سے جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو الگ ہوتا ہوں اور میں اپنے رب سے دعا کروں گا امید ہے میں اپنے رب سے دعا کر کے محروم نہیں رہوں گا “

حضرت ابراہیم ؑ نے بت پرستی کو کن کن دلائل و براہین سے رد کیا اس کی بھی ایک جھلک قرآن مجید میں موجود ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلاَلٍ مُّبِينٍ وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَبًا قَالَ هَـذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لا أُحِبُّ الآفِلِينَ فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَـذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَبِّي لأكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَـذَا رَبِّي هَـذَآ أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَحَآجَّهُ قَوْمُهُ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللّهِ وَقَدْ هَدَانِ وَلاَ أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلاَّ أَن يَشَاء رَبِّي شَيْئًا وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا أَفَلاَ تَتَذَكَّرُونَ وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلاَ تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُم بِاللّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالأَمْنِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ

— 


اور جب ابراہیم ؑ نے اپنے ابی آذر سے کہا۔ تو بتوں کو معبود بناتا ہے میں تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھتا ہوں اور اسی طرح ہم ابراہیم ؑ کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہت دکھاتے رہے تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سےہو- جب اس پر رات چھا گئی۔ اس نے ستارہ دیکھا۔ کہا کیا یہ میرا رب ہے؟ سو جب وہ ڈوب گیا، کہا میں ڈوب جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ پھر جب چاند کو چمکتا ہوا دیکھا۔ کہا کیا یہ میرا رب ہے؟ سو جب وہ بھی ڈوب گیا ، کہا ، اگر میرے رب نے مجھے ہدایت نہ دی ہوتی تو میں یقین گمراہ لوگوں میں سے ہو جاتا۔کہا اے میری قوم میں اس سے بری ہوں جو تم شریک ٹهراتے ہو۔ میں نے یک سو ہو کر اپنا منہ اس کی طرف کیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں اور اس قوم نے اس سے جھگڑا کیا۔ کہا کیا تم مجھ سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو اور اس نے مجھے یقیناً ہدایت کی ہے اور میں اس سے نہیں ڈرتا جس کو تم اس کے ساتھ شریک کرتے ہو ہاں یہ کہ میرا رب کچھ چاہے۔ میرے رب کا علم تمام چیزوں کو لیے ہوئےہے۔ پس کیا تم نصیحت نہیں پکڑتے۔اور میں کس طرح اس سے ڈروں جس کو تم شریک بناتے ہو اور تم نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کے ساتھ اسے شریک بنایا ہے، جس کے لیے اس نے تم پر کوئی سند نہیں اتاری، پس (بتاؤ) دونوں گروہوں میں سے کون امن کا زیادہ حق دار ہے۔ اگر تم جانتے ہو

اس کے بعد حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی قوم کو شرک سے باز رکھنا چاہا اور جب وہ نہ مانے تو ایک بار جب سارے لوگ کسی تہوار پر گئے ہوئے تھے آپ نے تمام بتوں کو توڑ دیا اور کلہاڑا بڑے بت کے کندھے پر رکھ دیا۔ اس پر قوم بہت سیخ پا ہوئی اور آپ کے لیے سزا تجویز کرنے گئی۔ قرآن مجید میں یہ واقعوں بیان ہواہے۔

جب اس نے اپنے ابی اور اپنی قوم سے کہا یہ مورتیں کیا ہیں۔ جن کی تنظیم میں تم لگے ہو۔ (یعنی عبادت کرتے ہو انھوں نے کہا ہم نے اپنے بڑوں کو (اسی طرح) عبادت کرتے ہوئے پایا۔ کہا تم اور تمہارے بزرگ کھلی گمراہی میں انھوں نے کہا کیا توہمارے پاس حق لایا ہے یا دل دلگی کرنے والوں میں سےہے؟(یہ نہیں)بلکہ تمہارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے-جس نے انہیں پیدا کیا اور میں اس پر گواہی دینے والوں میں سے ہوں اور اللہ کی قسم میں تمھارے  پیٹھ پیچھے ، چلے جانے کےبعد تمھارے بتوں کو   تکلیف پہنچاؤں گا-سوان (بتوں) کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ مگر ایک بڑے (بت) کو رہنے دیا۔ تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔ کہنے لگے: ہمارے معبودوں کے ساتھ کس نے یہ فعل کیا ہے۔ یقیناً وہ ظالموں میں سے ہے۔ لوگوں نے کہا: ہم نے ایک نوجوان کو ان کا ذکر کرتے سنا تھا جسے ابراہیم ؑ کہتے ہیں۔ کہنے لگے اسے لوگوں کے سامنے لاؤ تاکہ وہ گواہی دیں۔ کہا اے ابراہیم ؑ کیا تو نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کام کیا ہے؟ اس نے کہا (نہیں) بلکہ ان کا بڑا یہ ہے ،سو ان سے پوچھو اگر وہ بولتے ہیں۔ سو انھوں نے اپنے آپ کی طرف رجوع کیا اور کہنے لگے۔ تم خود ہی ظالم ہو۔ پھر اپنے سر اوندھے ڈال کر گر گئے (یعنی قائل ہو گئے ) تو جانتا ہے کہ یہ بات نہیں کرتے‘ کہا تو کیا اللہ کو چھوڑ کر تم اس کی عبادت کرتے ہو جو تمھیں کچھ نفع نہیں دیتا اور نہ ہی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ تف ہے تم پر اور اس پر جس کی تم عبادت اللہ کے سوا کرتے ہو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ کہنے لگے اسے جلا دو اور اپنے دیوتاؤں کی مدد کرو اگر تم کرنے والے ہو۔

تالمود کے بیان کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی بھتیجی سارہ سے نکاح کر لیا اور جب ابراہیم ؑ پچاس برس کے تھے تو آپ حضرت نوح ؑ کا گھر چھوڑ کر اپنے والد کے گھر آگئے۔ جہاں بارہ مہینوں سے منسوب بارہ بتوں کی پرستش کی جاتی تھی۔ آپ نے پہلے تو والد کو سمجھانے کی کوشش کی، لیکن جب وہ نہ مانا تو آپ نے ان بتوں کو توڑ دیا۔ تارخ نے اس کی شکایت نمرود سے کی کہ پچاس برس پہلے میرے ہاں جو لڑکا پیدا ہوا تھا آج اس نے یہ حرکت کی ہے۔ نمرود نے حضرت ابراہیم ؑ کو بلا کر باز پرس کی۔ آپ نے سخت لہجہ میں جواب دیا۔ نمرود نے آپ ؑ کو جیل بھجوا دیا۔ اور معاملہ کو شوری کے سپرد کر دیا۔ شوری کے ارکان نے مشورہ دیا کہ اس شخص کو آگ میں ڈال دیا جائے۔ چنانچہ آگ کا بڑا الاؤ تیار کیا گیا اور حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ آپ کے بھائی اور خسرحاران کو بھی آگ میں ڈال دیا گیا۔ کیونکہ نمرود نے جب تارخ سے یہ پوچھا کہ تیرے بیٹے کو تو میں نے پیدائش کے دن ہی قتل کرنا چاہا تو تو نے اسے بچا کر دوسرا بچہ کیوں قتل کروایا تو اس نے کہا کہ میں نے حاران کے کہنے پر یہ حرکت کی تھی۔ اس لیےاسے بھی مستوجب سزا گردانا گیا۔آگ میں گرتے ہی حاران جل مرا اور لوگوں نے دیکھا کہ حضرت ابراہیم ؑ آگ میں ٹہل رہے ہیں۔[3]

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ

— 

”ہم نے کہا اے آگ! ابراہیم ؑ پر ٹھنڈک اور سلامتی ہو جا“ (نیز دیکھیے "آتش نمرود)

اسی دور میں ایک کافر بادشاہ نمرود بن کنعان (سنحارب بن نمرود بن کوش بن کنعان بن حام بن نوح) نے بھی آپ سے مناظرہ کیا تھا۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَآجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رِبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِـي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِـي وَأُمِيتُ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

— 

”اور کہا تھا کہ میرے معبودنے ملک و سلطنت بخشی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے کہا: ”میرا معبود اور پروردگار تو وہ ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ نمرود نے کہا میں بھی (جسے چاہوں)زندہ رہنے دوں اور جسے چاہوں مار ڈالوں۔ ابراہیم ؑ نے جواب دیا اچھا تو اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے۔ آپ اسے مغرب سے نکالیں۔ اس پر وہ کافر ہکا بکا رہ گیا“

قوم ابراہیم

قوم ابراہیم سے مراد ان کی وہ قوم ہے جس کو انہوں نے توحید کی دعوت دی، پھر ان سے مایوس ہو کر اللہ کے حکم سے انہوں نے ہجرت فرمائی۔ قرآن میں دو مرتبہ ذکر موجود ہے

اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: أَلَمْ يَأْتِهِمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَقَوْمِ إِبْرَاهِيمَ وِأَصْحَابِ مَدْيَنَ وَالْمُؤْتَفِكَاتِ أَتَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانَ اللّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَـكِن كَانُواْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ

— 


اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: وَقَوْمُ إِبْرَاهِيمَ وَقَوْمُ لُوطٍ

— 

قوم ابراہیم : اللہ تعالیٰ نے اس قوم سے اپنی نعمت چھین کر اس کو طرح طرح کے عذاب میں مبتلا کیا اور ایک حقیر مچھر یا چیونٹی سے ان کے بادشاہ نمرود بن کنعان کو ہلاک کر دیا اور اس کے ساتھیوں کو غارت کر دیا۔[9] قوم ابراہیم کو ہلاک نہ کیا گیا چونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ سے ان کی ہلاکت کے لیے کوئی مطالبہ نہ کیا تھا بلکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو اور ان کی بت پرستی کو چھوڑ کر ان سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔[10] قوم ابراہیم (علیہ السلام) دنیا سے مٹ گئی اور ایسی مٹی کہ اس کا نام و نشان تک باقی نہ رہا، اس میں سے اگر کسی کو بقا نصیب ہوا تو صرف ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے مبارک فرزندوں (اسماعیل (علیہ السلام) و اسحاق (علیہ السلام) کی اولاد ہی کو نصیب ہوا۔ قرآن میں اگرچہ اس عذاب کا ذکر نہیں کیا گیا ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے نکل جانے کے بعد ان کی قوم پر آیا، لیکن اس کا شمار معذب قوموں ہی میں کیا گیا ہے، [3]

قران کریم میں ہے کہ

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَاء مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاء أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ إِلَّا قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (4) رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

— 

بلا شک و شبہہ ابراہیم اور ان کی جمیعت مومنوں کے لیے اسوہ حسنہ ہے

چنانچہ ضمناََ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ان مہاجرین کی فہرست میں آزر کا نام شامل نہیں تھا جسے ابراہیم سلام کرکے رخصت کرچُکے تھے۔ یاقوت الحموی نے بھی آزر کے شام میں وارد ہونے پر شک ظاہر کیا ہے لیکن تاریخ سے جو بہت حد تک اسرائلیات سے ماخوز ہے پتہ چلتا ہے کہ ابراہیم کے والد تارخ کی وفات حاران میں واقع ہوئی۔ اس سے اس گمان کی مزید تائید ہوتی ہے کہ تارخ اور آزر دو مختلف ہستیاں ہیں۔ دیارِ غریب میں پہنچ کر ابراہیم ؑ سرگرداں رہے۔جیسا کہ تالمود کا بیان ہے اس کی رو سے بالآخر آپ ؑ کنعان کے علاقے میں مقیم ہو گئے۔لیکن آپ ؑ کے ساتھ آذر نہیں تھا۔[3]

(دیکھیں آذر)

اولاد

ابراہیم کی بیٹے اسمٰعیل ہاجرہ ؑ کے بطن سے اور اسحاق ؑ سارہ ؑ کے بطن سے پیداہوئے اور اس کے علاوہ کئی اور بچے ایک کنعانی زوجہ کے بطن سے۔

ابراہیم ؑ کی بیوی سارہ ؑ (سارہ بنت لابن بن بشویل بن ناحور) جو براہیم ؑ کے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں کی کوئی اولاد نہ تھی اس لیے انہوں نے ہاجرہ سے نکاح کر لیا۔

سارہ ؑ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ خوب صورت تو تھیں لیکن بانجھ عورت تھیں۔ جب آپ ؑ مصر پہنچے تو فرعون مصر نے ان کی خوب صورتی کے پیش نظر انہیں اپنے مال میں رکھنا چاہا۔ اس موقع پر تورات میں آپ ؑ کو کاذب کہا گیا ہے کہ آپ ؑ نے اپنی سترہ سالہ بیوی سارہ ؑ کو بہن کہہ کر مصریوں کی دستبرد سے محفوظ رکھنا چاہا۔[3]

بائبل میں آیا ہے

سو جب ابراہام مصر پہنچا، مصریوں نے اس کی عورت کو دیکھا کہ وہ نہایت خوبصورت ہے اور فرعون کے امیروں نے بھی اسے دیکھا اور فرعون کے حضور اس کی تعریف کی اور اس عورت کو فرعون کے گھر لے گئے اور اس نے اس کے سبب ابراہام پر احسان کیا کہ اس کو بھیڑ بکری یا گائے بیل گدھے اور غلام لونڈی اور گدھیاں اور اونٹ لے۔ پھر خداوند نے فرعون اور اس کے خاندان کو ابراہام کی بیوی سری (سارہ) کے سبب بڑی مار دی۔ تب فرعون نے ابراہام کو بلا کر اس سے کہا کہ تو نے مجھ سے کیا کہا؟ کیوں نہ بتایا کہ یہ میری بیوی ہے تو نے کیوں کہا کہ یہ میری بہن ہے؟ یہاں تک کہ میں نے اسے اپنی جورو بنانے کو لیا۔ دیکھ یہ تیری بیوی حاضر ہے۔ اس لے اور چلا جا اور فرعون نے اس کے حق میں لوگوں کو حکم دیا۔ تب انھوں نے اسے اور اس کی بیوی کو اور جو کچھ اس کا تھا روانہ کیا۔" (پیدائش: 14تا 20)[3]

یوسف ظفر اپنی کتاب ”یہودیت" میں ابن خلدون اور تورات کے دیگر مفسرین کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس وقت کے فرعون نے اپنی بیٹی ہاجرہ ؑ بھی آپ کی زوجیت میں دے دی۔ چونکہ دوسری بیوی رسم و رواج کے مطابق پہلی کی لونڈی بن کر رہتی ہے۔ اس لیے یہودیوں اور عیسائیوں نے حضرت ہاجرہ ؑ کو لونڈی کہہ کر بتایا ہے کہ حضرت اسماعیل ؑ لونڈی کی اولاد ہونے کی وجہ سے حضرت اسحاق ؑ سے کم ترہیں-[3]

ابراہیم ؑ کو اولاد کی تمنا تھی، کنعان کے علاقے میں مقیم ہونے کے بعد آپ نے اولاد کے لیے دعا کی۔

قرآن میں وارد ہوا : رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ

— 

”اے میرے پروردگار! مجھے ایک نیک بیٹا عطا کر۔“ حضرت ابراہیم ؑ نے ہاجرہ ؑ سے نکاح کیا تو اللہ تعالی نے ابراہیم کو ایک حلیم بچے (اسمٰعیل ) بشارت دی۔ ان کے بطن سے حضرت اسماعیل ؑسا فرزند عطا کیا۔ ہو سکتا ہے کہ اس بات سے سارہ ؑ جل اٹھیں ہوں اور حضرت ابراہیم ؑ اللہ کے حکم کے مطابق ہاجرہ ؑ اور اسماعیل ؑ کو گھر سے دور چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہوں۔ بہرحال حضرت ابراہیم ؑ نے ماں اور بچے کو عرب کے تپتے ریگزاروں میں چھوڑ دیا۔ جہاں اللہ کی قدرت سے چشمہ پیدا ہوا اور آبادی بڑھی۔ (دیکھیے: آب زمزم)[3]

جب حضرت اسماعیل ؑ نوجوان ہوئے تو حضرت ابراہیم ؑ واپس آئے اورسرزمین مکہ کی آبادی دیکھ کر انھوں نے وہاں اللہ کا گھر (کعبہ) تعمیر کیا۔ چنانچہ اس لیے کعبہ کی عظمت مسلمانوں کے دل میں ہے۔ کیونکہ یہ سب سے پہلی مسجد تھی جو خدائے واحد کی عبادت کے لیے بنی تھی۔[3]

قران مجید میں آیا ہے کہ ابراہیم اور اسمٰعیل نے مل کر جب کعبے کی بنیادوں کو اٹھایا تو یہ دُعا مانگی کہ ہماری اولاد میں سے ایک نبی پیدا کر اور اس شہر کو برکت والا شہر بنادے۔

اس واقعہ کے ساتھ ہی حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کا ذکر آتا ہے۔ جب یہ بچے بڑے ہوئے تو ابراہیم ؑ آئے تو انھوں نے کہا اے میرے پیارے بیتے میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ چنانچہ باپ بیٹا دونوں نے اپنے آپ کو اللہ کی رضا پر چھوڑ دیا اس آزمائش میں جب ابراہیم ؑ پورے اترے تو اللہ نے انھیں ”امام للناس“ کا خطاب دیا (البقرہ : 124) اور انھیں ایک اور بیٹے اسحاق کی بشارت دی۔ (الصفات:101)

قرآن مجید میں آیا ہے جب ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ نے مل کر کعبے کی بنیادوں کو از سر نو تعمیر کرنا شروع کیا تو یہ دعا مانگی۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَـَذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلاً ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَآ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ

— 


”اور جب کہا ابراہیم نے اے میرے رب بنا اس کو شہر امن کا اور روزی دے اس کے رہنے والوں کو میوے جو کوئی ان میں سے ایمان لاوے اللہ پر اور قیامت کے دن پر فرمایا اور جو کفر کریں اس کو بھی نفع پہنچاؤں گا تھوڑے دنوں پھر اس کو جبرًا بلاؤں گا دوزخ کے عذاب میں اور وہ بری جگہ ہے رہنے کی-اور یاد کرو جب اٹھاتے تھے ابراہیم بنیادیں خانہ کعبہ کی اور اسمٰعیل اور دعا کرتے تھے اے پروردگار ہمارے قبول کر ہم سے بیشک تو ہی ہے سننے والا جاننے والا-اے پروردگار ہمارے اور کر ہم کو حکم بردار اپنا اور ہماری اولاد میں بھی کر ایک جماعت فرماں بردار اپنی اور بتلا ہم کو قاعدے حج کرنے کے اور ہم کو معاف کر بیشک تو ہی ہے توبہ قبول کرنے والا مہربان“

منادی حج

اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ

— 


اور پکار دے لوگوں میں حج کے واسطے کہ آئیں تیری طرف پیروں چل کر اور سوار ہو کر دبلے دبلے اونٹوں پر چلے آئیں راہوں دور سےتاکہ پہنچیں اپنے فائدہ کی جگہوں پر اور پڑھیں اللہ کا نام کی دن جو معلوم ہیں ذبح پر چوپایوں مواشی کے جو اللہ نے دیے ہیں اُنکو سو کھاؤ اُس میں سے اور کِھلاؤ برے حال کے محتاج کوپھر چاہیے کہ ختم کر دیں اپنا میل کچیل اور پوری کریں اپنی منتیں اور طواف کریں اس قدیم گھر کا

امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: یعنی آپ لوگوں کے درمیان منادی کرکے انہیں اس گھر کی طرف حج کرنے کی دعوت دیجئے جس کی تعمیر کا ہم نے آپ کو حکم دیا تھا، کہتے ہیں کہ یہ حکم سن کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا: میں کیسے انہیں یہ پیغام پہنچا سکتا ہوں جب کہ میری آواز ان تک نہیں پہنچ سکتی؟ تو اللہ تعالی نے فرمایا: تم آواز لگاؤ؛ پیغام پہنچانا ہمارا کام ہے، لہذا وہ اپنے مقام (مقام ابراہیم) پر کھڑے ہوئے اور ایک روایت کے مطابق کسی پتھر پر کھڑے ہوئے، ایک دوسری روایت کے مطابق صفا پر کھڑے ہوئے، ور ایک تیسری روایت کے مطابق ابو قبیس پہاڑ پر کھڑے ہوئے، چنانچہ وہاں کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آواز لگائی: اے لوگو! تمھارے رب نے اپنے لیے ایک گھر بنایا ہے سو اس کا حج کیا کرو، کہا جاتا ہے کہ یہ آواز سن کر پہاڑ جھک گئے حتی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آواز روئے زمین کے تمام گوشوں میں پہنچ گئی اور اپنی آواز کو انہوں نے باپوں کی صلب اور ماؤں کے بطن میں پوشیدہ انسانوں تک کو سنا دی، جس شے نے بھی ان کی آواز سنی اس نے ان کا جواب دیا خواہ وہ پتھر ہو، ڈھیلا ہو یا کوئی درخت ہو، اوران تمام لوگوں نے بھی ان کے جواب میں "میں حاضر ہوں یا اللہ میں حاضر ہوں" کا جملہ دہرایا تاقیامت جن کی قسمت میں اللہ نے حج کی سعادت لکھـ دی ہے۔ یہ ان مرویات کا خلاصہ ہے جو حضرت ابن عباس، مجاہد، عکرمہ، سعيد بن جبير اور متعدد علما سلف سے منقول ہیں، واللہ اعلم اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے اس قصے کو بڑی تفصیل سے نقل کیا ہے-  یہاں پر ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کا کلام ختم ہوتا ہے- اور حقیقت حال کا علم صرف اللہ کے پاس ہے- البتہ جہاں تک آواز لگانے کا مسئلہ ہے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایسا ہوا تھا[11][12]

مہمان نوازی

حضرت ابراہیم کی سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بہت ہی مہمان نواز تھے- بعض روایات میں ان کی مہمان نوازی کو ان کی اولیات میں شمار کیا گیا ہے اول من قری الضیف [13]

اول من الضاف الضیف - بعض  روایات میں ہے کہ وہ مہمان کو شریک کیے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے حتی کہ مہمان کی تلاش میں  دو دو میل تک دور نکل جاتے تھے[14]

خود قران ان کی مہمان نوازی کی گواہی دیتا ہے

اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: وَنَبِّئْهُمْ عَن ضَيْفِ إِبْراَهِيمَ إِذْ دَخَلُواْ عَلَيْهِ فَقَالُواْ سَلامًا قَالَ إِنَّا مِنكُمْ وَجِلُونَ قَالُواْ لاَ تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ

— 


اور ان کو ابراہیم کے مہمانوں کا احوال سنادو جب وہ ابراہیم کے پاس آئے تو سلام کہا۔ (انہوں نے) کہا کہ ہمیں تو تم سے ڈر لگتا ہے (مہمانوں نے) کہا کہ ڈریئے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں

اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: وَلَقَدْ جَاءتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُـشْرَى قَالُواْ سَلاَمًا قَالَ سَلاَمٌ فَمَا لَبِثَ أَن جَاء بِعِجْلٍ حَنِيذٍ فَلَمَّا رَأَى أَيْدِيَهُمْ لاَ تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً قَالُواْ لاَ تَخَفْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمِ لُوطٍ وَامْرَأَتُهُ قَآئِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَقَ وَمِن وَرَاء إِسْحَقَ يَعْقُوبَ قَالَتْ يَا وَيْلَتَى أَأَلِدُ وَأَنَاْ عَجُوزٌ وَهَـذَا بَعْلِي شَيْخًا إِنَّ هَـذَا لَشَيْءٌ عَجِيبٌ قَالُواْ أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللّهِ رَحْمَتُ اللّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ

— 

اور ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر آئے تو سلام کہا۔ انہوں نے بھی (جواب میں) سلام کہا۔ ابھی کچھ وقفہ نہیں ہوا تھا کہ (ابراہیم) ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں جاتے (یعنی وہ کھانا نہیں کھاتے) تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا۔ (فرشتوں نے) کہا کہ خوف نہ کیجیے، ہم قوم لوط کی طرف (ان کے ہلاک کرنے کو) بھیجے گئے ہیں اور ابراہیم کی بیوی (جو پاس) کھڑی تھی، ہنس پڑی تو ہم نے اس کو اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی-

یہ واقعہ سورۃ ہود اور سورۃ حجر میں بھی گزر چکا ہے یہ مہمان فرشتے تھے جو بہ شکل انسان آئے تھے جنہیں اللہ نے عزت و شرافت دے رکھی ہے حضرت امام احمد بن حنبل اور دیگر علمائے کرام کی ایک جماعت کہتی ہے کہ مہمان کی ضیافت کرنا واجب ہے حدیث میں بھی یہ آیا ہے اور قرآن کریم کے ظاہری الفاظ بھی یہی ہیں۔ انہوں نے سلام کیا جس کا جواب خلیل اللہ نے بڑھا کر دیا اس کا ثبوت دوسرے سلام پر دو پیش کا ہونا ہے۔ اور یہی فرمان باری تعالیٰ ہے فرماتا ہے ( وَاِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَــيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًا 86؀) 4- النسآء:86) یعنی جب کوئی تمہیں سلام کرے تو تم اس سے بہتر جواب دو یا کم ازکم اتنا ہی۔ پس خلیل اللہ نے افضل صورت کو اختیار کیا حضرت ابراہیم چونکہ اس سے ناواقف تھے کہ یہ دراصل فرشتے ہیں اس لیے کہا کہ یہ لوگ تو ناآشنا سا ہیں۔ یہ فرشتے حضرت جبرائیل حضرت میکائیل اور حضرت اسرافیل علیہم السلام تھے۔ جو خوبصورت نوجوان انسانوں کی شکل میں آئے تھے ان کے چہروں پر ہیبت و جلال تھا حضرت ابراہیم اب ان کے لیے کھانے کی تیاری میں مصروف ہو گئے اور چپ چاپ بہت جلد اپنے گھر والوں کی طرف گئے اور ذرا سی دیر میں تیار بچھڑے کا گوشت بھنا بھنایا ہوا لے آئے اور ان کے سامنے رکھ دیا اور فرمایا آپ کھاتے کیوں نہیں ؟ اس سے ضیافت کے آداب معلوم ہوئے کہ مہمان سے پوچھے بغیر ہی ان پر شروع سے احسان رکھنے سے پہلے آپ چپ چاپ انہیں خبر کیے بغیر ہی چلے گئے اور بہ عجلت بہتر سے بہتر جو چیز پائی اسے تیار کر کے لے آئے۔ تیار فربہ کم عمر بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت لے آئے اور کہیں اور رکھ کر مہمان کی کھینچ تان نہ کی بلکہ ان کے سامنے ان کے پاس لا کر رکھا۔ پھر انہیں یوں نہیں کہتے کہ کھاؤ کیونکہ اس میں بھی ایک حکم پایا جاتا ہے بلکہ نہایت تواضع اور پیار سے فرماتے ہیں آپ تناول فرمانا شروع کیوں نہیں کرتے ؟ جیسے کوئی شخص کسی سے کہے کہ اگر آپ فضل و کرم احسان و سلوک کرنا چاہیں تو کیجئے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ خلیل اللہ اپنے دل میں ان سے خوفزدہ ہو گئے جیسے کہ اور آیت میں ہے آیت ( فَلَمَّا رَآٰ اَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيْفَةً ۭ قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰي قَوْمِ لُوْطٍ 70؀ۭ) 11-ھود:70)، یعنی آپ نے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھتے نہیں تو دہشت زدہ ہو گئے اور دل میں خوف کھانے لگے اس پر مہمانوں نے کہا ڈرو مت ہم اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں جو قوم لوط کی ہلاکت کے لیے آئے ہیں آپ کی بیوی صاحبہ جو کھڑی ہوئی سن رہی تھیں وہ سن کر ہنس دیں تو فرشتوں نے انہیں خوشخبری سنائی کہ تمہارے ہاں حضرت اسحاق پیدا ہوں گے اور ان کے ہاں حضرت یعقوب اس پر بیوی صاحبہ کو تعجب ہوا اور کہا ہائے افسوس اب میرے ہاں بچہ کیسے ہوگا ؟ میں تو بڑھیا پھوس ہو گئی ہوں اور میرے شوہر بھی بالکل بوڑھے ہو گئے۔ یہ سخت تر تعجب کی چیز ہے فرشتوں نے کہا کیا تم اللہ کے کاموں سے تعجب کرتی ہو ؟ خصوصًا تم جیسی ایسی پاک گھرانے کی عورت ؟ تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں۔ جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ تعریفوں کے لائق اور بڑی بزرگی اور اعلیٰ شان والا ہے یہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ بشارت حضرت ابراہیم کو دی گئی کیونکہ بچے کا ہونا دونوں کی خوشی کا موجب ہے۔ پھر فرماتا ہے یہ بشارت سن کر آپ کی اہلیہ صاحبہ کے منہ سے زور کی آواز نکل گئی اور اپنے تئیں دوہتڑ مار کر ایسی عجیب و غریب خبر کو سن کر حیرت کے ساتھ کہنے لگیں کہ جوانی میں تو میں بانجھ رہی اب میاں بیوی دونوں بوڑھے ہو گئے تو مجھے حمل ٹھہرے گا ؟ اس کے جواب میں فرشتوں نے کہا کہ یہ خوشخبری کچھ ہم اپنی طرف سے نہیں دے رہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے کہ ہم تمہیں یہ خبر پہنچائیں۔ وہ حکمت والا اور علم والا ہے۔ تم جس عزت وکرامت کے مستحق ہو وہ خوب جانتا ہے اور اس کا فرمان ہے کہ تمہارے ہاں اس عمر میں بچہ ہوگا اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں نہ اس کا کوئی فرمان حکمت سے خالی ہے۔ [15][16][17][18]

بالوں کی سفیدی

روایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شکل وصورت کے ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام  تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ذبیح اللہ کہہ کر پکارادونوں باپ بیٹے ایک ہی جسے شکل کے تھے کبھی کبھی مغالطے میں لوگ حضرت اسماعیل علیہ السلام کوخلیل اللہ کہہ دیا کرتے تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کوذبیح اللہ، اللہ تعالیٰ کویہ بات پسند نہیں آئی تو اللہ تعالیٰ نے باپ اوربیٹے میں تھوڑاسافرق پیدافرمادیا۔سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بال سفیدہوئے اس وقت تک دنیامیں کسی انسان کے بال سفیدنہیں ہوئے تھے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آئینہ دیکھا بڑا تعجب ہواکہاکہ یہ بال کیسے سفیدہوگئے اللہ سے عرض کیا اے اللہ ! یہ کیاہے ؟ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایاکہ یہ ہمارانو رہے اورفرمایاکہ ہمیں یہ بات پسندنہیں آئی کہ کوئی ہمارے خلیل کوذبیح کہہ کرپکارے اس لیے ہم نے سفیدبال پیدافرمادیئے تاکہ لوگوں کومغالطہ نہ ہو، تو ابراہیم علیہ السلام کی یہ خصوصیت ہے کہ سب سے پہلے دنیامیں آپ کے بال سفیدہوئے گویااللہ تعالیٰ نے آپ کوبزرگی مسلّم طورپر عطافرمائی تھی ظاہری طورپربھی اورباطنی طورپربھی، رسالت کے اعتبارسے بھی اورانسانیت کے اعتبارسے بھی۔[19][20]

ختنے کی ابتدا

 ابراہیمی ملت  کا ایک شعار ختنہ ہے، توریت میں اللہ نے ابراہیم سے کثرت ذریت کا وعدہ کیا  اور یہ عہد لیا کہ اگر ان کی نسل توحید پہ قائم رہی تو زمین میں اسے اقتدار دیگا- اس عہد کو یاد دلاتے ہوئےاللہ نے ختنے کو اس کی علامت قرار دیا

پھر خدا نےابراہم سے کہا کہ   تو میرے عہد کو ماننا اور تیرے بعد تیرے پشت در پشت تیری نسل مانے اور میرا عہد جو میرے اور تیرے درمیان میں ہے اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان میں ہے  اور جسے تم مانو گے سو یہ ہے کہ  تم میں سے ہر فرزند نرینہ  کا ختنہ کیا جائےاور تم اپنے بدن کی کھلڑی کا ختنہ کیا کرنا اور یہ اس عہد کا نشان ہوگا جو میرے اور تمہارے درمیان میں ہے[11]

قبر ِ ابراہیم

اور توریت میں اللہ نے انہیں حکم دیا  " اور وہ فرزند نرینہ  جس کا ختنہ نہ ہوا ہواپنے لوگوں میں سے کاٹ ڈالا جائے کیونکہ  اس نے میرا عہد توڑا[21][22]

چنانچہ یہ حکم ملتے ہی حضرت ابراہیم نے  گھر کے سب لوگوں کو جمع کیا  اور اسی روز ان کا ختنہ کیا  ان میں حضرت اسماعیل بھی تھے  اس وقت ابراہیم کی عمر 99 سال تھی اور اسماعیل کی 13  پھر  اگلے سال اسحاق کی ولادت ہوئی تو حضرت  ابراہیم نے انکا بھی ختنہ کیا

حضرت ابوھریرہ سے مروی ہے کہ حضور نے فرمایا

”حضرت ابراہیم نے اسی سال کی عمر میں قدوم(ایک اوزارسے ختنہ) کروایا“[22][23]

انتقال و قبر

غارِ ابراہیم

ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑ نے وفات پائی تو ان کی عمر 175 برس تھی اور وہ حبرون میں مکفیلہ کے غار میں دفن ہوئے۔ اب اس مقام کو ” خلیل" کہتے ہیں جو بیت المقدس کے قریب واقع ہے۔[3]

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تفصیلاََ واقعہ

نسب نامہ

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا نسب نامہ تورات میں اس طرح مذکور ہے :
ابراہیم (علیہ السلام) (خلیل اللہ) بن تارخ بن ناحور بن ساروغ بن راعو بن فالح بن عابربن شالح بن ارفخشد بن سام بن نوح ((علیہ السلام)) ۔ یہ تصریح تورات ١ ؎ اور تاریخ ٢ ؎ کے مطابق ہے مگر قرآن عزیز نے ان کے والد کا نام آزر بتایا ہے :
{ وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰھِیْمُ لِاَبِیْہِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِھَۃً }[24] ” اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر سے کہا ” کیا تو بتوں کو خدا بناتا ہے ؟ “

آزر کی تحقیق

چونکہ تاریخ اور تورات ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا نام تارخ بتاتے ہیں اور قرآن عزیز آزر کہتا ہے اس لیے علماء اور مفسرین نے اس مسئلہ کی تحقیق میں دو راہیں اختیار کی ہیں۔ ایسی صورت اختیار کی جائے کہ دونوں ناموں کے درمیان مطابقت ہو جائے اور یہ اختلاف جاتا رہے۔ تحقیق کے بعد فیصلہ کن بات کہی جائے کہ ان دونوں میں کون سا صحیح ہے اور کون سا غلط یا دونوں صحیح ہیں مگر دو جدا جدا ہستیوں کے نام ہیں۔ پہلے خیال کے علماء کی رائے یہ ہے کہ یہ دونوں نام ایک ہی شخصیت سے وابستہ ہیں اور تارخ علم اسمی (اسمی نام) ہے اور آزر علم و صفی (وصفی نام) ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ آزر عبرانی زبان میں ” محب صنم “ کو کہتے ہیں اور چونکہ تارخ میں بت تراشی و بت پرستی دونوں و صف موجود تھے اسلئے آزر کے لقب سے مشہور ہوا ‘ اور بعض کا گمان ہے کہ آزر کے معنی اعوج (کم فہم) یا بیوقوف اور پیر فرتوت ١ ؎[25] کے ہیں ‘اور چونکہ تارخ میں یہ باتیں موجود تھیں اس لیے اس وصف سے موصوف کیا گیا۔ قرآن عزیز نے اسی مشہور وصفی علم کو بیان کیا ہے۔ سہیلی نے روض الانف [26] میں اسی کو اختیار کیا ہے۔
اور دوسرے خیال کے علماء کی تحقیق یہ ہے کہ آزر اس بت کا نام ہے تارخ جس کا پجاری اور مہنت تھا ‘ چنانچہ مجاہدؒ سے روایت ہے کہ قرآن عزیز کی مسطورہ بالا آیت کا مطلب یہ ہے :
( (اَتَتَّخِذُ اٰزَرَ اِلٰھًا ای اتتخذ اصنامًا الھۃ) ) ” کیا تو آزر کو خدا مانتا ہے یعنی بتوں کو خدا مانتا ہے ؟ “ اور صنعانی کی رائے بھی اس کے قریب قریب ہے ‘ ٣ ؎ صرف نحوی [27] اعتبار سے تقدیر کلام میں وہ ایک دوسری راہ اختیار کرتے ہیں ‘غرض ان دونوں کے نزدیک آزر ” ابیہ “ کا بدل نہیں ہے بلکہ بت کا نام ہے اور اس طرح قرآن عزیز میں ان کے والد کا نام مذکور نہیں۔ ایک مشہور قول یہ بھی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا نام تارخ تھا اور چچا کا آزر ‘اور چونکہ آزر ہی نے ان کی تربیت کی تھی اور بہ منزلہ اولاد کے پالا تھا اس لیے قرآن عزیز میں آزر کو باپ کہہ کر پکارا گیا جیسا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی ارشاد ہے :
اَلْعَمُّ صِنْوُ اَبِیْہِ ” چچا باپ ہی کی طرح ہے۔ “ علامہ عبدالوہاب نجار کی رائے یہ ہے ٤ ؎ [28] کہ ان اقوال میں سے مجاہد کا قول قرین قیاس اور قابل قبول ہے اس لیے کہ مصریوں کے قدیم دیوتاؤں میں ایک نام ازوریس بھی آتا ہے جس کے معنی ” خدائے قوی و معین “ ہیں اور اصنام پرست اقوام کا شروع سے یہ دستور رہا ہے کہ قدیم دیوتاؤں کے نام ہی پر جدید دیوتاؤں کے نام رکھ لیا کرتے تھے ‘اس لیے اس بت کا نام بھی قدیم مصری دیوتا کے نام پر آزر رکھا گیا ورنہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا نام تارخ تھا۔ ہمارے نزدیک یہ تمام تکلّفات باردہ ہیں ‘اس لیے کہ قرآن عزیز نے جب صراحت کے ساتھ آزر کو ابِ ابراہیم (ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ) کہا ہے تو پھر محض علماء انساب اور بائبل کے تخمینی قیاسات سے متاثرہ ہو کر قرآن عزیز کی یقینی تعبیر کو مجاز کہنے یا اس سے بھی آگے بڑھ کر خواہ مخواہ قرآن عزیز میں نحوی مقدرات ماننے پر کون سی شرعی اور حقیقی ضرورت مجبور کرتی ہے ؟ برسبیل تسلیم اگر آزر عاشق صنم کو کہتے ہیں ‘یا بت کا نام ہے تب بھی بغیر تقدیر کلام اور بغیر کسی تاویل کے یہ کیوں نہیں ہوسکتا کہ ان ہر دو وجہ سے آزر کا نام آزر رکھا گیا جیسا کہ اصنام پرست اقوام کا قدیم سے یہ دستور رہا ہے کہ وہ کبھی اپنی اولاد کا نام بتوں کا غلام ظاہر کر کے رکھتے تھے اور کبھی خود بت ہی کے نام پر نام رکھ دیا کرتے تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ ” آزار “ کالدی زبان میں بڑے پجاری کو کہتے ہیں اور عربی میں یہی ” آزر “ کہلایا۔تارخ چونکہ بت تراش اور سب سے بڑا پجاری تھا اس لیے ” آزر “ہی کے نام سے مشہور ہوگیا ‘حالانکہ یہ نام نہ تھا بلکہ لقب تھا اور جبکہ لقب نے نام کی جگہ لے لی تو قرآن عزیز نے بھی اسی نام سے پکارا۔ نیز جس مقدس انسان (ابراہیم (علیہ السلام)) کی اخلاقی بلندی کا یہ عالم ہو کہ جب بت پرستی کی مذمت کے سلسلہ میں آزر سے مناظرہ ہوگیا اور آزر نے زچ ہو کر یہ کہا :
{ اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِھَتِیْ یٰٓاِبْرٰھِیْمُج لَئِنْ لَّمْ تَنْتَہِ لَاَرْجُمَنَّکَ وَ اھْجُرْنِیْ مَلِیًّا } [29] ” (اے ابراہیم) کیا تو میرے خداؤں سے بیزار ہے تو اگر اس حرکت سے باز نہ آیا میں ضرور تجھ کو سنگسار کردوں گا اور جا میرے سامنے سے دور ہوجا۔ “
تو اس سخت گیر اور دل آزار گفتگو کے موقع پر بھی اس نے پدری رشتہ کی بزرگی کا احترام کیا ‘اور جواب میں صرف یہ فرمایا : { سَلٰمٌعَلَیْکَ سَاَسْتَغْفِرُلَکَ رَبِّیْط اِنَّہٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّا } [30] ” تجھ پر سلامتی ہو میں عنقریب تیرے لیے اپنے پروردگار سے بخشش چاہوں گا بلاشبہ وہ میرے ساتھ بہت مہربان ہے۔ “
اس ہستی سے یہ کیسے توقع ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے باپ آزر کو بیوقوف ‘پیر فرتوت اور اسی قسم کے تحقیر آمیز الفاظ کے ساتھ خطاب کرے ؟ پس بلاشبہ تاریخ کا تارخ ‘ آزر ہی ہے اور علم اسمی ہے نہ کہ علم و صفی اور تارخ یا غلط نام ہے یا آزر کا ترجمہ ہے جو تورات کے دوسرے اعلام کی طرح ترجمہ نہ رہا بلکہ اصل بن گیا۔ مراتشی سترہویں صدی کا ایک عیسائی عالم ہے اس نے قرآن عزیز کا ترجمہ کیا ہے اور قرآن عزیز پر نہایت رکیک اور متعصبانہ حملے کئے ہیں ‘اس نے اس موقع پر بھی عادت کے مطابق ایک مہمل اور لَچرْ اعتراض کیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یوزبیوس کی تاریخ (کنیسہ) کی ایک عبارت میں یہ لفظ آیا ہے جس کو غلط صیغہ کے ساتھ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن عزیز میں درج کردیا۔ لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ مراتشی اپنے اس دعوے کے ثبوت میں نہ تاریخ کنیسہ کی وہ عبارت پیش کرتا ہے جس سے یہ لفظ ماخوذ بتایا گیا ہے اور نہ اس اصل لفظ ہی کا پتہ دیتا ہے کہ جس سے یہ غلط لفظ بنا لیا گیا اور نہ یہ بتلاتا ہے کہ آخر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس نقل کی کیا ضرورت پیش آئی ؟ اسلئے یہ قطعاً بے دلیل اور بے سروپا بات ہے جو محض تعصب اور جہالت کی وجہ سے کہی گئی اور حق وہی ہے جو ہم نے ابھی واضح کیا۔

شجرہ نسب حضرت ابراہیم تا حضرت نوح (علیہم السلام)

تورات اور تاریخ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے حضرت نوح (علیہ السلام) تک نسب کی جو کڑیاں شمار کرائی ہیں وہ درج ذیل ہیں ‘اس شجرہ نسب کی صحت و عدم صحت کا معاملہ قیاسی اور تخمینی رائے سے زیادہ نہیں ہے اس لیے کہ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سلسلہ نسب کے متعلق اس یقین کے باوجود کہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں ‘عدنان سے اوپر کی کڑیوں کے متعلق خود ذات اقدس کا یہ فیصلہ ہے کہ ” کَذَبَ النَّسَّابُوْنَ “ یعنی علمائے نسب نے ناموں کی تعیین میں غلط بیانی سے کام لیا ہے ‘ تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے حضرت نوح (علیہ السلام) تک کا سلسلہ کس طرح اس کذب بیانی اور وضع سے پاک رہ سکتا ہے ؟ نام
باپ کا نام
بیٹے کی پیدائش کے وقت باپ کی عمر
سام
نوح (علیہ السلام)
٥٠٠
ارفخشد
سام
١٠٠
شالح
ارفخشد
٣٥
عابر
شالح
٣٠
فالج
عابر
٣٤
راعو
فالج
٣٠
سروج
راعو
٣٢
ناحور
سروج
٣٠
آزر (تارخ)
ناحور
٢٩
ابراہیم (علیہ السلام)
آزر (تارخ)
٧٠
٨٩٠ مجموعی مدت
ان اعدادو شمار کے مطابق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ولادت سے حضرت نوح (علیہ السلام) تک آٹھ سو نوے سال ہوتے ہیں اور جبکہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی کل عمر نو سو پچاس سال بتائی جاتی ہے تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی عمر کے ساٹھ سال پائے اور وہ دونوں اس مدت کے اندر معاصر رہے ہیں اور یہ بلاشبہ بے سروپا بات اور قطعاً غلط اور مہمل ہے اس لیے یہ ماننا پڑے گا کہ تورات کے یہ اعداد و شمار محض خود تراشیدہ کہانیوں اور حکایتوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے اور واقعہ بھی یہی ہے کہ قدیم زمانہ میں یہود کے یہاں تاریخ کا باب اسی قسم کی حکایات و روایات پر قائم رہا ہے اور اس میں تاریخی حقائق اور زمانوں کے تضاد و اختلاف کا مطلق لحاظ و پاس نہیں رکھا گیا۔

مستشرقین یورپ کی ہرزہ سرائی

مستشرقین یورپ کی ایک جماعت اسلام دشمنی میں ید طولیٰ رکھتی ہے اور بغض وعناد کی مشتعل آگ میں حقائق و واقعات تک کے انکار پر آمادہ ہوجاتی ہے چنانچہ اس قسم کے مواقع میں سے کہ جہاں قرآن عزیز کے خلاف بے دلیل ان کی تنقید کی تلوار چلتی رہتی ہے ایک موقع حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیت کا بھی ہے۔ دائرۃ المعارف الاسلامیہ ١ ؎[31] نے ونسنک کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ سب سے پہلے اسپرنگر نے یہ دعویٰ کیا کہ قرآن میں ایک عرصہ تک حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیت کعبہ کے بانی اور دین حنیف کے ہادی کی حیثیت سے روشنی میں نہیں آئی البتہ عرصہ دراز کے بعد انکی شخصیت کو ان صفات کے ساتھ متصف ظاہر کیا گیا ہے اور انکی ذات کی خاص اہمیت نظر آتی ہے ‘چونکہ یہ دعویٰ اپنی اجمالی تعبیر کے لحاظ سے ابھی تشنہ تکمیل تھا اسلئے ایک طویل زمانہ کے بعد اسپرنگر کے اس دعوے کو سنوگ ہیکرونیہ نے بڑے شرح و بسط کے ساتھ پیش کیا اور اپنے مزعومہ دلائل کے ذریعہ اس کو خاص آب و رنگ سے رنگین بنایا۔ اس نے کہا :
” قرآن پاک میں جس قدر مکی آیات اور سورتیں ہیں ان میں کسی ایک مقام پر بھی اسماعیل ((علیہ السلام)) کا ابراہیم ((علیہ السلام))کے ساتھ رشتہ نظر نہیں آتا اور نہ ان کو اول مسلمین بتایا گیا ہے بلکہ وہ صرف ایک نبی اور پیغمبر کی حیثیت میں نظر آتے ہیں ان کے تذکرہ کی ایک آیت بھی ایسی نہیں ملتی جو ان کو موسس کعبہ ‘اسماعیل (علیہ السلام) کا باپ ‘ عرب کا پیغمبر وہادی ‘ اور ملت حنیفی کا داعی ظاہر کرتی ہو ‘سورة الذاریات ‘ الحجر ‘ الصافات ‘ الانعام ‘ ہود ‘ مریم ‘انبیاء اور عنکبوت جو سب مکی سورتیں ہیں۔ہمارے اس دعوے کی شاہد ہیں اس سے صاف نتیجہ نکلتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے سر زمین عرب میں کوئی نبی نہیں آیا اور یہی پہلے شخص ہیں جنھوں نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ البتہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدنی زندگی شروع ہوتی ہے تو مدنی سورتوں میں (حضرت) ابراہیم ((علیہ السلام)) کے ذکر کے وقت یہ تمام خصوصیات نمایاں کی جاتی اور اہمیت کے ساتھ روشنی میں لائی جاتی ہیں۔
ایسا کیوں ہوا ؟ اور یہ اختلاف کیوں موجود ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مکی زندگی میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے تمام امور میں یہود پر اعتماد رکھتے اور انھیں کے طریقوں کو پسند فرماتے تھے ‘لہٰذا اس وقت تک ابراہیم ((علیہ السلام)) کی شخصیت کو بھی انھوں نے اسی نظر سے دیکھا جس نظر سے یہود دیکھتے تھے لیکن جب مدینہ پہنچ کر انھوں نے یہود کو اپنے مشن ” اسلام “ کی دعوت دی تو انھوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا ‘اور وہ آپ کے دشمن ہوگئے۔اب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فکر و تامل کیا اور خوب سوچا ‘آخر ان کی ذکاوت اور جودت طبع نے رہنمائی کی اور انھوں نے عرب کے لیے یہود کی یہودیت سے جدا ایک ایسے دین کی بنیاد ڈالی جس کو یہودیت ابراہیمی کہنا چاہیے ‘لہٰذا اس سلسلہ کی تکمیل کے لیے قرآن عزیز کی مدنی سورتوں میں ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیت کو اس طرح پیش کیا گیا کہ وہ ملت حنیفی کے داعی ‘عرب کے پیغمبر ‘ اسماعیل ((علیہ السلام)) کے والد ‘کعبہ کے موسس نظر آتے ہیں ‘ انتہیٰ ۔ “ ١ ؎ یہ ہے وہ دعویٰ اور اس کی دلیل جو اسپرنگر ‘ سنوک اور ونسنک جیسے اسلام دشمن مستشرقین کی جانب سے محض اس لیے اختراع کئے گئے ہیں کہ اس قسم کی لچر بنیادوں پر مسیحیت کی برتری اور اسلام کی تحقیر کی عمارت تیار ہو سکے اور نیز یہ کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق یہ ثابت کیا جائے کہ ان کا عرب کے ساتھ نہ نسلی تعلق ہے اور نہ دینی ‘ لیکن جب ایک مورخ اور ایک نقاد مستشرقین کے اس دعوے اور دعوے کے دلائل کو صرف تاریخی اور تنقیدی حیثیت سے دیکھتا ہے تب بھی اس کو یہ صاف نظر آتا ہے کہ یہ جو کچھ کہا گیا ہے حقائق اور واقعات سے قصداً چشم پوشی کرکے محض عداوت اور بغض وعناد کی راہ سے بےدلیل کہا گیا ہے ‘ اسلئے کہ اس سلسلہ میں سب سے بڑی دلیل یہ پیش کی گئی ہے کہ مکی سورتوں میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق وہ اوصاف نظر نہیں آتے جو مدنی آیات میں پائے جاتے ہیں ‘مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ سر تا سر غلط بلکہ قصدو ارادہ کے ساتھ علمی بددیانتی ہے کہ مکی سورتوں میں سے صرف انہی کا حوالہ دیا گیا ہے جن میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو فقط ایک پیغمبر کی صورت میں ظاہر کیا گیا ہے ‘لیکن وہ مکی سورت جو ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیت کو ہمہ حیثیت سے نمایاں کرنے کیلئے ان کے نام ہی سے معنون کرکے نازل کی گئی یعنی سورة ابراہیم اس کو نظر انداز کردیا گیا تاکہ قرآن عزیز سے براہ راست فائدہ نہ اٹھاسکنے والے حضرات کے سامنے جہالت کا پردہ پڑا رہے اور ان کی کو رانہ تقلید میں وہ ان کے غلط دعوے کو صحیح سمجھتے رہیں۔ سورة ابراہیم مکی ہے ‘اس کی آیات کا نزول ہجرت سے قبل مکہ ہی میں ہوا ہے اور وہ حسب ذیل حقائق کا اعلان کرتی ہے :
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) عرب (حجاز) کے اندر قیام پذیر ہیں اور خدا کے رسول کی حیثیت سے خود کو اور اپنی اولاد کو بت پرستی سے بچنے اور اس مقام کو امن عالم کا مرکز بنانے کی دعاء کر رہے ہیں :
{ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّ اجْنُبْنِیْ وَ بَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ } [32] ” اے پروردگار اس شہر (مکہ) کو تو امن کا مرکز بنا اور مجھ کو اور میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے دور رکھ۔ “
{ رَبِّ اِنَّھُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ} [33] ” اے پروردگار بلاشبہ انہوں (بتوں) نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا پس جو شخص میری پیروی کرے وہ میری جماعت میں سے ہے اور جو میری نافرمانی کرے پس بلاشبہ تو بخشنے والا ‘ رحم کرنے والا ہے۔ “
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اقرار کرتے ہیں کہ سرزمین حجاز (جو عرب کا قلب ہے) ان ہی کی اولاد سے آباد ہوئی اور انھوں نے ہی اس کو بسایا ہے اور وہی اس چٹیل میدان میں بیت الحرام (کعبہ) کے مؤسس ہیں : چٹیل میدان میں بیت الحرام (کعبہ) کے مؤسس ہیں :
{ رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِلا رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَھْوِیْٓ اِلَیْھِمْ وَ ارْزُقْھُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَ } [34] ” اے ہمارے پروردگار بیشک میں نے اپنی بعض ذریت کو اس بن کھیتی کی سرزمین میں تیرے گھر (کعبہ) کے نزدیک آباد کیا ہے ‘ اے ہمارے پروردگار یہ اسلئے تاکہ وہ نماز قائم کریں پس تو لوگوں میں سے کچھ کے دل اس طرف پھیر دے کہ وہ (اس کعبہ کی بدولت) ان کی جانب مائل ہوں اور ان کو پھلوں سے رزق عطا کر تاکہ یہ شکرگزار بنیں۔ “
" حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حضرت اسماعیل و حضرت اسحاق (علیہا السلام) کے والد ہیں اور یہی اسماعیل (علیہ السلام) اہل عرب کے باپ ہیں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے اور اپنی اولاد کے لیے ملت حنیفی کے شعار ” صلوٰۃ “ کی اقامت کی دعا کر رہے ہیں :
{ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَھَبَ لِیْ عَلَی الْکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَط اِنَّ رَبِّیْ لَسَمِیْعُ الدُّعَآئِ۔رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْق صلے رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآئِ ۔رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ۔ } [35] ” سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے مجھ کو بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق بخشے ‘ بلاشبہ میرا پروردگار ضرور دعا کا سننے والا ہے ‘اے پروردگار مجھ کو اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا دے ‘اے ہمارے پروردگار ہماری دعا سن ‘ اے ہمارے پروردگار تو مجھ کو اور میرے والدین کو اور کل مومنوں کو قیام حساب (قیامت) کے روز بخش دے۔ “
ان آیات کا مطالعہ کرنے کے بعد کیا ایک لمحہ کے لیے بھی کسی شخص کو یہ جرأت ہوسکتی ہے کہ وہ ان لغو اور بےسروپا دعو وں کی تصدیق کرے جن کو مستشرقین یورپ نے اپنی جہالت یا ارادی جھوٹ کے ساتھ علمی تنقید کا عنوان دیا ہے ‘کیا یہ آیات مکی نہیں ہیں ‘ اور کیا ان سے وہ سب کچھ ثابت نہیں ہوتا جو مدنی آیات میں مذکور ہے ؟ اسی طرح سورة ابراہیم کے علاوہ سورة انعام اور سورة النحل بھی مکی سورتیں ہیں ان میں بصراحت موجود ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) شرک کے مقابلہ میں ملت حنیفی کے داعی ہیں اور ان کی شخصیت اس دعوت میں بہت نمایاں اور ممتاز ہے۔ { اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ } [36] ” بلاشبہ میں اپنے چہرہ کو اسی ذات کی طرف جھکاتا ہوں جو آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے ہرگز نہیں۔
{ قُلْ اِنَّنِیْ ھَدٰنِیْ رَبِّیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ٥ ج دِیْنًا قِیَمًا مِّلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًاط وَ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ } [37] ” (اے محمد) کہہ دو بلاشبہ مجھ کو میرے رب نے سیدھی راہ کی ہدایت کی ہے جو کج مج راہ سے الگ صاف اور سیدھا دین ہے ‘ملت ہے ابراہیم کی جو تھے ایک خدا کی طرف جھکنے والے اور نہ تھے وہ مشرکوں میں سے۔ “
{ اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلّٰہِ حَنِیْفًاط وَ لَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ } [38] ” بیشک ابراہیم تھا راہ ڈالنے والا حکم بردار ‘صرف ایک خدا کی طرف جھکنے والا اور نہ تھا وہ شرک کرنے والوں میں سے۔ “ { ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًاط وَ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ } [39] ” پھر وحی کی ہم نے تیری جانب (اے محمد )اس بات کی کہ تو پیروی کر اس ابراہیم کی ملت کی جو صرف خدائے واحد کی جانب جھکنے والا ہے اور نہیں ہے۔ مشرکوں میں سے۔ “
تو کیا ان واضح آیات کے بعد بھی ان دلائل کو دلائل کہنا کوئی حقیقت رکھتا ہے جو اس سلسلہ میں سنوک اور اس کے ہم نواؤں نے بیان کئے ہیں ؟ مکی سورتیں ہوں یا مدنی دونوں جگہ ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیت ایک ہی طرح نمایاں نظر آتی ہے ‘وہ دونوں حالتوں میں ملت حنیفی کے داعی ‘حضرتِ اسماعیل (علیہ السلام) اور عرب کے باپ ‘کعبہ کے موسس و بانی اور عرب کے ہادی ہیں ‘اور اس لیے مستشرقین یورپ کا یہ کہنا ہے کہ ابراہیم ((علیہ السلام)) کی شخصیت قرآن عزیز کی مکی اور مدنی آیات میں دو جدا جدا صورتوں میں نظر آتی ہے کذب اور صریح بہتان ہے نیز یہ بھی خلاف واقعہ ہے کہ عرب میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعویٰ نبوت سے قبل کوئی بھی پیغمبر نہیں گذرا ‘اسلئے کہ ابراہیم و اسماعیل اور ہود و صالح (علیہم السلام) اسی سرزمین کے ہادی و پیغمبر ہیں۔ان مدعیان علم کو تعصب نے ایسا نادان بنادیا کہ قرآن اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اعتراض کرتے وقت یہ بھی خیال نہ رہا کہ اس قسم کے دعوے سے ہم صرف قرآن ہی کی نہیں بلکہ بائبل (تورات) کی بھی تکذیب کر رہے ہیں ‘ اس لیے کہ تورات میں تصریح ہے کہ حضرت اسماعیل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے ہیں اور اسماعیل (علیہ السلام) ہی عرب کے باپ ہیں اور ابراہیم (علیہ السلام) کی اسی اولاد سے حجاز کی سرزمین آباد ہوئی اور یہ دونوں باپ بیٹے عرب کی نمایاں شخصیتیں ہیں۔
نیز یہ الزام بھی قطعاً بےبنیاد اور لغو ہے کہ ” مکہ “کی زندگی میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود اور ان کے مذہبی امور کی تقلید کی اور جب مدینہ پہنچ کر یہود کے انکار اور ان کے مخالفانہ جذبہ کو دیکھا تو یہود سے الگ ایک نئی یہودیت کی بنیاد ڈالی اور اس کو ملت ابراہیمی کالقب دیا اس لیے کہ مکہ کی زندگی میں تو یہود سے آپ کا سابقہ ہی نہیں پڑا تو پھر مخالفت و موافقت یا اتباع کا سوال ہی کیا ‘البتہ مدینہ آکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین کے مقابلہ میں یہود کی جانب زیادہ توجہ فرمائی اور یہ اسلئے کہ وہ اسلام کے عقیدہ کے مطابق دین موسوی کے پیرو تھے اگرچہ اس میں تحریف ہوچکی تھی مگر وہ مشرکین کے خلاف توحید کے قائل تھے اور ان کی محرف کتابوں میں تحریف کے بعد بھی بہت سے جملے ایسے موجود تھے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اور رسالت کے شاہد اور گواہ ہیں اور ان سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق میں بشارات نکلتی ہیں ‘ نیز بہت سے وہ احکام بھی موجود تھے جو صحیح معنی میں وحی الٰہی کی حیثیت رکھتے ہیں اور دین موسوی کی اساس و بنیاد رہے ہیں اسلئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خیال تھا کہ یہ مشرکین کے مقابلہ میں جلد ہی ملت ابراہیمی یعنی اسلام قبول کرلیں گے ‘لیکن جب آپ نے ان کے انکار ‘ بغض و حسد کا تجربہ کرلیا تو پھر انکے ساتھ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاملہ وہی ہوگیا جو مشرکین کے ساتھ تھا اور بہ مصداق اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَاحِدَۃٌ (کفر سب ایک ملت ہے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سب کو ایک ہی حیثیت میں رکھا۔
اسپرنگر سنوک اور ان کے ہم نوا اتنی صاف بات سمجھنے سے بھی قاصر ہیں یا عمداً سمجھنا نہیں چاہتے کہ جبکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اسرائیل (یعقوب) (علیہ السلام) کے دادا تھے اور یہود اپنے دین کی نسبت حضرت اسرائیل (علیہ السلام) کی جانب کرتے اور بنی اسرائیل ہونے کی حیثیت سے اس پر فخر کرتے تھے تو ان کا یہ کہنا کہ ابراہیم (علیہ السلام) بھی یہودی تھے کس قدر مضحکہ خیز تھا ‘ کیا پوتے کے دین کے متعلق کسی طرح یہ کہنا درست ہوسکتا ہے کہ عرصہ دراز کے گذرے ہوئے دادا کا دین پوتے کے دین کے تابع تھا ؟ پس اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے قرآن عزیز نے یہ اعلان کیا :
{ مَا کَانَ اِبْرٰھِیْمُ یَھُوْدِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا } [40] ” ابراہیم نہ تو یہودی تھے نہ نصرانی البتہ وہ تھے ایک خدا کی جانب جھکنے والے مسلمان۔ “
مگر ان کور چشموں نے اس کے معنی یہ لیے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تو یہود کے دین پر تھے لیکن مدینہ جا کر جب یہود نے ان کو پیغمبر ماننے سے انکار کردیا تو یہود کے دین کے مقابلہ میں ذکاوت طبع سے یہودیت ابراہیمی ایجاد کرلی۔ { سُبْحٰنَکَ ہٰذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ} [41] سنوک اور اس کے ہم نواؤں نے اس دعویٰ کی دلیل میں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے عرب میں کوئی پیغمبر نہیں گذرا ‘ قرآن عزیز کی اس آیت کو بھی پیش کیا ہے : { لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اَتٰھُمْ مِّنْ نَّذِیْرٍ مِّنْ قَبْلِکَ } [42] ” تاکہ تو (اے محمد) ڈرائے ایسی قوم کو کہ نہیں آیا ان کے پاس تجھ سے پہلے کوئی ڈرانے والا۔ “
وہ کہتے ہیں کہ اگر ابراہیم و اسماعیل (علیہا السلام) عرب کے پیغمبر ہوتے تو قرآن عزیز امت عربیہ کے متعلق اس طرح محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب نہ کرتا۔ مگر یہ بھی ایک سخت مغالطہ ہے جو قرآن عزیز کے طرز خطابت ‘ اسلوب بیان اور باطل پرستوں کی باطل پرستی کے خلاف دلائل کی ترتیب سے ناواقفیت کی بنا پر پیدا ہوا ہے یا گزشتہ اعتراضات کی طرح محض بغض وعناد کی خاطر اختیار کیا گیا ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ عرب کا بہت بڑا حصہ بت پرستی میں مبتلا تھا ‘ اور اس سلسلہ میں انھوں نے عقائد اور دین کے نام سے کچھ احکام مرتب کر رکھے تھے ‘ مثلاً دیوتاؤں کی نذر اور قربانی کے لیے سائبہ ‘ بحیرہ اور وصیلہ کی ایجاد ‘ اور مختلف بتوں کی پرستش کے مختلف قواعد و ضوابط وغیرہ ‘ اس لیے جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو توحید اور اسلام کی دعوت دی اور شرک اور بت پرستی سے روکا تو وہ کہنے لگے کہ تمہارا یہ کہنا کہ ہم بددین ہیں اور ہمارا کوئی الہامی دین نہیں ‘ غلط ہے ہم تو خود مستقل دین رکھتے ہیں اور وہ ہمارے باپ دادا کا قدیمی دین ہے۔ { قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَیْھَآ اٰبَآئَنَا وَ اللّٰہُ اَمَرَنَا بِھَا } [43] ” مشرکین نے کہا ہم نے اسی (بت پرستی) پر اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور اللہ نے ہم کو اسی کا حکم دیا ہے۔ “
تب قرآن عزیز نے ان کے باطل عقائد کی حقیقت کو ان پر واضح کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ ان کو بتایا جائے کہ کسی دین کے خدائی دین ہونے کے لیے دو ہی قسم کے دلائل ہوسکتے ہیں ‘ یا حسی اور عقلی راہ سے یہ واضح ہوجائے کہ یہ خدا کا دین اور اس کا مرغوب مذہب ہے ‘ اور یا نقلی روایات اس کا قطعی ‘یقینی اور ناقابل انکار ثبوت پیش کرتی ہوں کہ یہ خدا کی بھیجی ہوئی شریعت ہے اور اگر یہ دونوں راہیں کسی دعوے کے لیے بند ہیں تو وہ دعویٰ باطل اور اس کا مدعی کاذب ہے۔ لہٰذا قرآن عزیز نے مشرکین کے اس دعوے کی تردید کے لیے آیاتِ قرآنی کے تین حصے کردیے ‘ایک حصہ میں ان کے اس دعوے کا انکار اور دعوے کی غیر معقولیت کا اظہار کیا اور بتایا کہ مشرکین کا یہ کہنا کہ اَللّٰہُ اَمَـرَنَا بِھَا ” ہم کو خدا نے ایسا (شرک) کرنے ہی کا حکم دیا ہے “ بالکل غلط اور سرتاسر باطل ہے اس لیے کہ :
{ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآئِط اَتَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ } [44] ” بلاشبہ اللہ تعالیٰ بیہودہ خرافات کا حکم نہیں دیا کرتا (اے مشرکین) کیا تم اللہ کے ذمہ وہ باتیں لگاتے ہو جو تم نہیں جانتے۔ “
اور دوسرا حصہ ان کے باطل دعوے پر حسی اور عقلی سند کے مطالبہ سے متعلق کیا اور بتایا کہ وہ عقل سے یہ فتویٰ صادر کریں کہ جو کچھ خدا کے ساتھ انھوں نے غلط نسبتیں قائم کر رکھی ہیں اور جن پر ان کے مزعومہ دین کی بنیاد قائم ہے وہ کس طرح صحیح اور اہل عقل کے نزدیک قابل تسلیم ہیں ؟ وہ کہتا ہے : { فَاسْتَفْتِہِمْ اَلِرَبِّکَ الْبَنَاتُ وَلَہُمُ الْبَنُوْنَ ۔ اَمْ خَلَقْنَا الْمَلٰٓئِکَۃَ اِنَاثًا وَّہُمْ شَاہِدُوْنَ۔اَلَا اِنَّہُمْ مِّنْ اِفْکِہِمْ لَیَقُوْلُوْنَ ۔ وَلَدَ اللّٰہُلا وَاِنَّہُمْ لَکَاذِبُوْنَ ۔اَصْطَفَی الْبَنَاتِ عَلَی الْبَنِیْنَ ۔مَا لَکُمْقف کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ ۔ اَفَلاَ تَذَکَّرُوْنَ ۔ } [45] ” پس (اے محمد) تم ان سے دریافت کرو کیا تمہارے پروردگار کیلئے لڑکیاں ہیں اور ان کے لیے لڑکے ‘کیا ہم نے فرشتوں کو لڑکیاں بنایا اور وہ اس وقت موجود تھے ‘خبردار بلاشبہ یہ سب ان کی بہتان طرازی ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے بلاشبہ یہ قطعاً جھوٹے ہیں (یہ کہتے ہیں کہ خدا نے)اپنے لیے بیٹوں کے مقابلہ میں بیٹیوں کو پسند کرلیا ہے (اے مشرکین) تم کو کیا ہوا ‘ یہ تم کیسا (جھوٹا) حکم کرتے ہو ‘پس کیا تم نصیحت نہ حاصل کرو گے ؟ “
اور تیسرا حصہ ان کے باطل عقیدوں کے متعلق نقلی سند کے مطالبہ سے وابستہ کیا ‘ قرآن عزیز ان سے سوال کرتا ہے کہ جو کچھ تم کر رہے ہو اور اس کو خدا کا دین بتا رہے ہو تو کیا تمہارے پاس اس کیلئے خدا کی جانب سے کوئی حجت اور دلیل نازل ہوئی ہے یا اس کے پاس سے ان عقائد کی صداقت کے لیے کوئی کتاب بھیجی گئی ہے اگر ایسا ہے تو پیش کرو ؟ { اَمْ لَکُمْ سُلْطَانٌ مُّبِیْنٌ ۔ فَاْتُوْا بِکِتٰبِکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ ۔ } [46] ” کیا تمہارے پاس کوئی ظاہر حجت اور صاف دلیل ہے ؟ پس تم اپنی (خدا کی جانب سے نازل شدہ) وہ کتاب لاؤ ‘ اگر تم سچے ہو ؟ “
اب اگر ان کے اپنے دعوے کی صداقت کے لیے ان کے پاس نہ کوئی حسی وعقلی دلیل ہے اور نہ نقلی سند کے طور پر کوئی حجت و کتاب ‘تو پھر ان کا یہ دعویٰ کہ ان کے پاس محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے سے خدا کا دین موجود ہے اور اس کی منضبط شریعت بھی۔ بالکل غلط اور باطل دعویٰ ہے۔اسی طرح مشرکین پر یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ تمہارے پاس اپنے دعوائے باطل کے سلسلہ میں نہ عقلی سند ہے اور نہ نقلی اور ان کو لاجواب بنانے کے لیے سورة احقاف میں بھی یہی طریق استدلال اختیار کیا گیا ہے :
{ قُلْ اَرَئَیْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَرُوْنِیْ مَا ذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِط اِیْتُوْنِیْ بِکِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ ہٰذَا اَوْ اَثَارَۃٍ مِّنْ عِلْمٍ } [47] ” تم مجھے بتاؤ کہ اللہ کے ماسوا جن کو تم پوجتے ہو مجھے دکھلاؤ کہ انہوں نے زمین سے کیا بنایا ‘ یا کیا ان کی آسمانوں میں (اللہ کے ساتھ) کوئی شرکت ہے ‘اس سے پہلی کوئی کتاب اگر تمہارے پاس ہے (جو اس دعویٰ کی تصدیق کرتی ہو) تو وہ لے آؤ ‘یا علم (اولین میں سے کوئی بقیہ علم) تمہارے پاس ہو تو پیش کرو۔ “
یہی وہ حقیقت ہے جس کو ایک دوسرے پیرا یہ میں قرآن عزیز کی ان آیات میں بیان کیا گیا ہے جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مشرکین عرب کے پاس محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کوئی پیغمبر نہیں آیا ‘ان آیات کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ سرزمین عرب (حجاز) ہمیشہ سے خدا کے نبی اور پیغمبر کے وجود سے محروم ہے اور اس ملک میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سب سے پہلی آواز ہے ‘قرآن عزیز ایسی خلاف حقیقت بات کس طرح کہہ سکتا تھا جبکہ سورة ابراہیم ‘ الانعام اور النمل کی آیات میں حضرت ابراہیم واسمٰعیل (علیہا السلام) کے عربی نبی ہونے کی صاف اور صریح شہادتیں موجود ہیں جو ابھی نقل کی جا چکی ہیں بلاشبہ قرآن عزیز اس قسم کے تضاد اور اختلاف سے قطعاً بری ہے کہ ایک جگہ وہ ایک بات کا انکار کرے اور دوسری جگہ اسی بات کا اقرار ‘اس لیے کہ وہ خدائے عالم الغیب والشہادۃ کا کلام ہے نہ کہ بھول چوک کرنے والے انسان کا کلام :
{ اَفَـلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَط وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا } [48] ” کیا انھوں نے قرآن عزیز پر غور نہیں کیا اور اگر وہ ہوتا اللہ کے سوا کسی اور کا کلام تو ضرور پاتے اس میں بہت سا اختلاف۔ “
لہٰذا قرآن عزیز کے خلاف سنوگ ‘اسپر نگر اور ونسنک کے یہ تمام دعاوی اور ان کے دلائل تاریخی حقائق اور واقعات کی روشنی میں قطعاً باطل اور افترا ہیں اور ان کے طرز عمل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اور اس قسم کے دوسرے ناقدین قرآن عزیز پر علمی دیانت کے ساتھ تنقید نہیں کرتے اور نہ ان کی فہم اور سمجھ کا قصور ہے بلکہ اس کے برعکس وہ علمی بددیانتی سے کام لے کر قرآن کے خلاف زہر اگلتے ‘غلط الزام قائم کرتے ‘ اور صریح اور واضح مسائل میں اپنے پیش نظر مقاصد کے مطابق گنجلک پیدا کرکے ناواقف دنیا کو گمراہ کرتے ہیں ‘ بلکہ اس قسم کے الزامات سے ان کا صرف ایک ہی مقصد ہوسکتا ہے جس کو قرآن عزیز نے اس قسم کے معاندین کے لیے ایک مستقل قانون کی طرح واضح کردیا ہے :
{ وَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ کَمَا کَفَرُوْا فَتَکُوْنُوْنَ سَوَآئً } [49] ” یہ (منکرین قرآن و اسلام) یہ خواہش رکھتے ہیں کہ کاش تم بھی ان کی طرح منکر بن جاؤ تاکہ وہ اور تم سب یکساں ہوجائیں۔ “
اس لیے ان منکر ین (کافروں) کے مقابلہ میں مسلمانوں کا ہمیشہ ایک ہی جواب رہا ہے : { رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا } [50] ” اے پروردگار ہمارے دلوں کو ہدایت یافتہ اور راہ یاب کرنے کے بعد کجی کی جانب مت مائل کرنا۔ “ بہرحال قرآن حکیم کی مسطورہ بالا زیربحث آیت کا مطلب صاف اور واضح ہے اور اسکے درمیان اور الانعام ‘النحل اور ابراہیم جیسی سورتوں میں ابراہیم (علیہ السلام) کے پیغمبر عرب ہونے کے درمیان قطعاً کوئی تضاد اور اختلاف نہیں ہے۔ اس پیش کردہ تفصیل و تشریح کے علاوہ عام مفسرین نے اس قسم کی آیات کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ یہ خطاب صرف ان ہی لوگوں سے متعلق ہے جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی مبارک میں موجود تھے۔ان کے گزشتہ آباء و اجداد اور گزشتہ تاریخ عرب سے اس خطاب کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر قرآن میں

قرآن عزیز کے رشد و ہدایت کا پیغام چونکہ ملت ابراہیمی کا پیغام ہے اس لیے اس نے جگہ جگہ حضرت ابراہیم کا ذکر کیا ہے اور جیسا کہ گزشتہ سطور میں کہا جا چکا ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر مکی اور مدنی دونوں قسم کی سورتوں میں موجود ہے مندرجہ ذیل جدول ان تمام سورتوں اور آیتوں کو ظاہر کرتی ہے :
البقرۃ
١٢٤‘ ١٢٥‘ (٢ مرتبہ) ١٢٦‘ ١٢٧‘ ١٣٠‘١٣٢ ١٣٣‘ ١٣٥‘ ١٣٦‘ ١٤٠‘ ٢٥٨ (٣ مرتبہ) ‘ ٢٦٠
آل عمران
٣٣‘ ٦٥‘ ٦٧‘ ٦٨‘ ٨٤‘ ٩٥‘ ٩٧
النساء
٥٤‘ ١٢٥‘ (٢ مرتبہ) ١٦٣
الانعام
٧٤‘ ٧٥‘ ٨٣‘ ١٦١
التوبہ
٧٠‘ ١١٤ (٢ مرتبہ)
ھود
٦٩‘ ٧٤‘ ٧٥‘ ٧٦
ابراہیم
٣٥
النحل
١٢٠‘ ١٢٣
الانبیاء
٥١‘ ٦٠‘ ٦٢‘ ٦٩
الشعراء
٦٩
الاحزاب
٧
صٓ
٤٥
الزخرف
٢٦
النجم
٣٧
الممتحنہ
٤ (٢ مرتبہ)
یوسف
٦‘ ٣٨
الحجر
٥١
مریم
٤١‘ ٤٦‘ ٥٨
الحج
٢٦‘ ٤٣‘ ٧٨
العنکبوت
١٦‘ ٣١
الصافات
٨٣‘ ١٠٤‘ ١٠٩
الشوریٰ
١٣
الذاریات
٢٤
الحدید
٢٦
الاعلیٰ
١٩
مجموعہ ٢٥ سورت
٦٩ آیات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ کے ساتھ دوسرے چند انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات بھی وابستہ ہیں مثلاً حضرت لوط (علیہ السلام) کا واقعہ اس لیے کہ یہ ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے بھی ہیں اور ان کے پیرو بھی۔ اسی طرح ان کے صاحبزادوں حضرت اسماعیل و حضرت اسحاق (علیہا السلام) کے واقعات ‘ اس لیے کہ اسماعیل (علیہ السلام) کی ولادت کے وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر چھیاسی سال ١ ؎ تھی اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کے وقت ان کی عمر پورے سو سال تھی ٢ ؎ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی کل عمر ایک سو پچھتّر سال ہوئی ٣ ؎ لیکن ان تینوں پیغمبروں کے تفصیلی واقعات مستقل عنوان میں درج کئے جائیں گے اور یہاں صرف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ کے ضمن میں کہیں کہیں ذکر آئے گا۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عظمت

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس عظمت شان کے پیش نظر جو انبیاء ورسل کے درمیان ان کو حاصل ہے قرآن عزیز نے ان کے واقعات کو مختلف اسلوب کے ساتھ جگہ جگہ بیان کیا ہے ‘ ایک مقام پر اگر اختصار کے ساتھ ذکر ہے تو دوسری جگہ تفصیل سے تذکرہ کیا گیا ہے اور بعض جگہ مختلف شوؤن اور اوصاف کے پیش نظر ان کی شخصیت کو نمایاں کیا ہے۔ اس لیے مناسب ترتیب کے ساتھ ان کو پیش کیا جاتا ہے۔ اس لیے مناسب ترتیب کے ساتھ ان کو پیش کیا جاتا ہے۔ تورات یہ بتاتی ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) عراق کے قصبہ ” اُر “ کے باشندے اور اہل فدان میں سے تھے ٤ ؎ اور ان کی قوم بت پرست تھی اور انجیل برناباس میں تصریح ہے کہ ان کے والد نجاری کا پیشہ کرتے اور اپنی قوم کے مختلف قبائل کیلئے لکڑی کے بت بناتے اور فروخت کیا کرتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو شروع ہی سے حق کی بصیرت اور رشد و ہدایت عطا فرمائی تھی اور وہ یہ یقین رکھتے تھے کہ بت نہ سن سکتے ہیں ‘ نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ کسی کی پکار کا جواب دے سکتے ہیں ‘ اور نہ نفع و نقصان کا ان سے کوئی واسطہ ‘اور نہ لکڑی کے کھلونوں اور دوسری بنی ہوئی چیزوں کے اور ان کے درمیان کوئی فرق و امتیاز ہے ‘ وہ صبح وشام آنکھ سے دیکھتے تھے کہ ان بےجان مورتیوں کو میرا باپ اپنے ہاتھوں سے بناتا اور گھڑتا رہتا ہے اور جس طرح اس کا جی چاہتا ہے ‘ ناک ‘ کان ‘ آنکھیں اور جسم تراش لیتا اور پھر خریدنے والوں کے ہاتھ فروخت کردیتا ہے تو کیا یہ خدا ہوسکتے ہیں یا خدا کے مثل و ہمسر کہے جاسکتے ہیں ؟حاشاوکلا ‘ پس بعثت سے سرفراز ہو کر سب سے پہلے انھوں نے اسی طرف توجہ فرمائی۔ [51] [52] [53] [54]

بعثت

قرآن عزیز حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس حقیقت بیں اور بصیرت افروز رشد و ہدایت کا اس طرح ذکر کرتا ہے :
{ وَ لَقَدْ اٰتَیْنَآ اِبْرٰھِیْمَ رُشْدَہٗ مِنْ قَبْلُ وَ کُنَّابِہٖ عٰلِمِیْنَ۔ اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ وَ قَوْمِہٖ مَا ھٰذِہِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِیْٓ اَنْتُمْ لَھَا عٰکِفُوْنَ ۔ قَالُوْا وَجَدْنَآ اٰبَآئَنَا لَھَا عٰبِدِیْنَ ۔ قَالَ لَقَدْ کُنْتُمْ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ۔ قَالُوْٓا اَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ اَمْ اَنْتَ مِنَ اللّٰعِبِیْنَ ۔ قَالَ بَلْ رَّبُّکُمْ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الَّذِیْ فَطَرَھُنَّزصلے وَ اَنَا عَلٰی ذٰلِکُمْ مِّنَ الشّٰھِدِیْنَ۔ } [55] ” اور بلاشبہ ہم نے ابراہیم کو اول ہی سے رشد و ہدایت عطا کی تھی ‘ اور ہم اس کے (معاملہ کے) جاننے والے تھے۔ ‘ جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا ” یہ مجسّمے کیا ہیں جن کو تم لیے بیٹھے ہو “ کہنے لگے ” ہم نے اپنے باپ ‘ دادا کو ان ہی کی پوجا کرتے پایا ہے “ ابراہیم نے کہا ” بلاشبہ تم اور تمہارے باپ ‘ دادا کھلی گمراہی میں ہیں “ انھوں نے جواب دیا ” کیا تو ہمارے لیے کوئی حق لایا ہے یا یوں ہی مذاق کرنے والوں کی طرح کہتا ہے “ ابراہیم نے کہا ”(کہ یہ بت تمہارے رب نہیں ہیں) بلکہ تمہارا پروردگار زمینوں اور آسمانوں کا پروردگار ہے جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے اور میں اسی بات کا قائل ہوں۔ “ اور جب کہ اس جلیل القدر ہستی پر اللہ تعالیٰ کے جود و کرم اور عطاء ونوال کا فیضانِ بے غایت و بے نہایت سرعت رفتار کے ساتھ ہو رہا تھا تو اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ اس نے انبیاء (علیہم السلام) کی صف میں نمایاں جگہ پائی اور اس کی دعوت و تبلیغ کا محور و مرکز ” دینِ حنیف “ قرار پایا۔
اس نے جب یہ دیکھا کہ قوم بت پرستی ‘ ستارہ پرستی ‘اور مظاہر پرستی میں اس قدر منہمک ہے کہ خدائے برتر کی قدرت مطلقہ اور اس کی احدیت و صمدیت کا تصور بھی ان کے قلوب میں باقی نہیں رہا اور ان کے لیے خدا کی وحدانیت کے عقیدہ سے زیادہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں رہی ‘ تب اس نے کمر ہمت چست کی اور ذات واحد کے بھروسہ پر ان کے سامنے دین حق کا پیغام رکھا اور اعلان کیا :
” اے قوم۔ یہ کیا ہے جو میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے بتوں کی پرستش میں مشغول ہو ‘کیا تم اس قدر خواب غفلت میں ہو کہ جس بے جان لکڑی کو اپنے آلات سے گھڑ کر مجسمے تیار کرتے ہو اور اگر وہ مرضی کے مطابق نہ بنے تو ان کو توڑ کر دوسرے بنا لیتے ہو ‘بنا لینے کے بعد پھر ان ہی کو پوجنے اور نفع و ضرر کا مالک سمجھنے لگتے ہو ‘ تم اس خرافات سے باز آؤ ‘خدا کی توحید کے نغمے گاؤ ‘ اور اسی ایک مالک حقیقی کے سامنے سر نیاز جھکاؤ جو میرا ‘ تمہارا اور کل کائنات کا خالق و مالک ہے۔ “
مگر قوم نے اس کی آواز پر مطلق کان نہ دھرا اور چونکہ گوش حق نیوش اور نگاہ حق بیں سے محروم تھی۔اس لیے اس نے جلیل القدر پیغمبر کی دعوت حق کا مذاق اڑایا اور زیادہ سے زیادہ تمر دو سرکشی کا مظاہرہ کیا۔


مزید دیکھیے

بیرونی روابط

حوالہ جات

  1. عنوان : Хаджар
  2. عنوان : Исхак
  3. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر​ شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا- ص 67-7٠، ج اول، از سید قاسم محمود، عطش درانی- مکتبہ شاہکار لاہور
  4. "حضرت ابراہیم، قرآنیات انسائیکوپیڈیا اردو، شاہکار، ص 215 سے231"۔ http://www.scribd.com/  روابط خارجية في |website= (معاونت)
  5. "حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا قصہ، قصص الانبیاء، ص156"۔ https://archive.org  روابط خارجية في |website= (معاونت)
  6. کتابِ پیدائش باب 17 آیت 5
  7. النحل، 120
  8. البقرۃ، 124
  9. تفسیر احسن البیان سورۃ التوبہ آیت 70
  10. تفسیر فی ظلال القرآن سید قطب شہید، الاعراف آیت 79
  11. ^ ا ب تفسیر ابن کثیر جلد سوم صفحہ 217
  12. "دائمی کمیٹی کے فتوے"۔ 20 ستمبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 دسمبر 2018 
  13. البدیہ و النہایہ – ابن کثیر 163/1
  14. قصص الانبیاء- ثعلبی-ص 1٠4
  15. Quran - الحجر - Al-Hijr – Urdu Tafseer – Urdu Tafseer Ibne-Kaseer - تفسیر ابن کثیر[مردہ ربط]
  16. "تفسیر ابن کثیر مترجم اردو جلد 2 ، صفحہ 1 - مکتبہ جبریل"۔ 09 فروری 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 دسمبر 2018 
  17. Quran - ھود - Hud – Urdu Tafseer – Urdu Tafseer Ibne-Kaseer - تفسیر ابن کثیر[مردہ ربط]
  18. "تفسیر ابن کثیر مترجم اردو جلد 3 ، صفحہ 1 - مکتبہ جبریل"۔ 29 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 دسمبر 2018 
  19. "خطبات رحیمی جلد سوم، صفحہ 49 - مکتبہ جبریل"۔ 11 اپریل 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 دسمبر 2018 
  20. خطباتِ رحیمی مدیر دار العلوم محمدیہ بنگلور صحفہ49
  21. (کتاب  پیدائش باب 17 :14)
  22. ^ ا ب https://kitabosunnat.com/kutub-library/hazrat-ibrahim-a-s-imam-e-insaniat
  23. صحیح بخاری، کتاب الانبیاء، باب قولہ و اتخذ اللہ ابراہیم خلیلا)، فتح لباری- ابن حجر عسقلانی، 6/`245
  24. (الانعام : ٦/٧٤)
  25. ١ ؎ تاج العروس ج ٣ ص ١٢
  26. ٢ ؎ روض الانف جلد ١
  27. ٣ ؎ تاج العروس ج ٣ ص ١٢٣
  28. ٤ ؎ قصص الانبیاء ص ٩٦
  29. (مریم : ١٩/٤٦)
  30. (مریم : ١٩/٤٧)
  31. ١ ؎ جلد ١ ص ٢٧‘ ٢٨۔
  32. (ابراہیم : ١٤/٣٥)
  33. (ابراہیم : ١٤/٣٦)
  34. (ابراہیم : ١٤/٣٧)
  35. (ابراہیم : ١٤/٣٩ تا ٤١)
  36. (الانعام : ٦/٧٩)
  37. (الانعام : ٦/١٦١)
  38. (النحل : ١٦/١٢٠)
  39. (النحل : ١٦/١٢٣)
  40. (آل عمران : ٣/٦٧)
  41. (نور : ٢٤/١٦)
  42. (القصص : ٢٨/٤٦)
  43. (الاعراف : ٧/٢٨)
  44. (الاعراف : ٧/٢٨)
  45. (الصافات : ٣٧/١٤٩ تا ١٥٥)
  46. (الصافات : ٣٧/١٥٦‘ ١٥٧)
  47. (الاحقاف : ٤٦/٤)
  48. (النساء : ٤/٨٢)
  49. (النساء : ٤/٨٩)
  50. (آل عمران : ٣/٨)
  51. (١ ؎ پیدائش ‘ باب ١٦‘ آیت ١٦
  52. ٢ ؎ پیدائش ‘ باب ٢١‘ آیت ٥
  53. ٣ ؎ پیدائش ‘ باب ٢٥‘ آیت ٧
  54. ٤ ؎ پیدائش ‘ باب ١١‘ آیت ٢٨)
  55. (الانبیاء : ٢١/٥١ تا ٥٦)