مندرجات کا رخ کریں

ویکیپیڈیا:منتخب مضامین

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ویکیپیڈیا کے منتخب مضامین

یہ ستارہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ منسلک مواد ویکیپیڈیا کے منتخب مواد میں شامل ہے۔
یہ ستارہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ منسلک مواد ویکیپیڈیا کے منتخب مواد میں شامل ہے۔

منتخب مضامین ویکیپیڈیا کے بہترین ترین مضامین کو کہا جاتا ہے، جیسا کہ انداز مقالات میں واضح کیا گیا ہے۔ اس سے قبل کہ مضمون کو اس فہرست میں شامل کیا جائے، مضامین پر نظرِ ثانی کے لیے امیدوار برائے منتخب مضمون میں شاملِ فہرست کیا جاتا ہے تاکہ مضمون کی صحت، غیر جانبداری، جامعیت اور انداز مقالات کی جانچ منتخب مضون کے معیار کے مطابق کی جاسکے۔ فی الوقت اردو ویکیپیڈیا پر دو لاکھ سے زائد مضامین میں سے بہت کم منتخب مضامین موجود ہیں۔ جو مضامین منتخب مضمون کو درکار صفات کے حامل نہیں ہوتے، اُن کو امیدوار برائے منتخب مضمون کی فہرست سے نکال دیا جاتا ہے تاکہ اُن میں مطلوبہ بہتری پیدا کی جاسکے اور اُس کے بعد جب وہ تمام تر خوبیوں سے آراستہ و پیراستہ ہو جاتی ہیں تو اُنہیں دوبارہ امیدوار برائے منتخب مضمون کی فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ مضمون کے بائیں جانب بالائی حصے پر موجود کانسی کا یہ چھوٹا سا ستارہ (یہ ستارہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ منسلک مواد ویکیپیڈیا کے منتخب مواد میں شامل ہے۔۔) اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ منسلک مواد ویکیپیڈیا کے منتخب مواد میں شامل ہے۔مزید برآں یکہ اگر کوئی مضمون بیک وقت کئی زبانوں میں منتخب مضمون کی حیثیت حاصل کرچکا ہے تو اسی طرح کا چھوٹا ستارہ دیگر زبانوں کے آن لائن پر دائیں جانب اُس زبان کے نام کے ساتھ نظر آئے گا۔

  • مضمون کے منتخب ہونے پر {{امیدوار برائے منتخب مضمون}} کا سانچہ ہٹا کر {{منتخب مقالہ}} سانچہ کا اندراج کر دیا جائے۔

منتخب مواد:

آلات منتخب مضمون:


مجموعات

·فنون، فنِ تعمیر اور آثارِ قدیمہ ·اعزاز، سجاوٹ اور امتیازیات ·حیاتیات ·تجارت، معیشت اور مالیات ·کیمیاء اور معدنیات ·کمپیوٹر ·ثقافت و سماج ·تعلیم ·انجینئری اور ٹیکنالوجی ·کھانا اور پینا ·جغرافیہ اور مقامات ·ارضیات، ارضی طبیعیات اور موسمیات ·صحت و طب ·تاریخ ·زبان و لسانیات ·قانون ·ادب اور فن کدہ ·ریاضیات ·شامہ میان (میڈیا) ·موسیقی ·فلسفہء اور نفسیات ·طبیعیات و فلکیات ·سیاسیات و حکومت ·مذہب، عقیدہ اور ضعف الاعتقاد ·شاہی، شریف اور حسب نسب ·کھیل اور تعمیری سرگرمیاں ·نقل و حمل ·بصری کھیل ·جنگ و جدل

اٹکل سے کوئی بھی منتخب صفحہ دیکھیں


2024/ہفتہ 01 [ترمیم]

میلان، جسے اطالوی زبان میں میلانو کہا جاتا ہے شمالی اطالیہ کا ایک شہر اور لومباردیہ کا دار الحکومت ہے۔ روم کے بعد یہ اطالیہ کا دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ اصل شہر کے لحاظ سے یہ اطالوی پہلی معیشت ہے اور اس کی آبادی تقریباً 1.4 ملین ہے، جبکہ اس کے میٹروپولیٹن شہر میں 3.26 ملین باشندے ہیں۔ اس کا مسلسل تعمیر شدہ شہری علاقہ جس کے بیرونی مضافات انتظامی میٹروپولیٹن شہر کی حدود سے باہر ہیں اور یہاں تک کہ سوئٹزرلینڈ کے قریبی ملک تک پھیلے ہوئے ہیں 5.27 آبادی کے ساتھ کے ساتھ یورپی یونین میں چوتھا بڑا علاقہ ہے۔

میلان کو ایک سرکردہ الفا عالمی شہر سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ فن، تجارت، ڈیزائن، تعلیم، تفریح، فیشن، فنانس، صحت کی دیکھ بھال، میڈیا، خدمات، تحقیق اور سیاحت کے شعبوں میں اعلیٰ کارکردگی ہے۔ اس کا کاروباری ضلع اطالیہ کے اسٹاک ایکسچینج کی میزبانی کرتا ہے (اطالوی زبان: بورسا اطالیانہ)، اور قومی اور بین الاقوامی بینکوں اور کمپنیوں کا صدر دفتر ہے۔ خام ملکی پیداوار کے لحاظ سے میلان اطالیہ کا سب سے امیر شہر ہے، پیرس اور میدرد کے بعد یورپی یونین کے شہروں میں تیسری سب سے بڑی معیشت ہے، اور یورپی یونین کے غیر دار الحکومت والے شہروں میں سب سے امیر ہے۔ میلان کو تورینو کے ساتھ نیلے کیلے کی شہری ترقی کی راہداری (جسے "یورپی میگالوپولیس" بھی کہا جاتا ہے) کے جنوبی حصے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اور یورپ کے لیے چار موٹرز میں سے ایک ہے۔

ایک بڑے سیاسی مرکز کے طور پر شہر کا کردار قدیم زمانے کا ہے، جب اس نے مغربی رومی سلطنت کے دار الحکومت کے طور پر کام کیا، جبکہ بارہویں صدی سے سولہویں صدی تک میلان یورپ کے بڑے شہروں میں سے ایک تھا۔ شہر ایک بڑا تجارتی مرکز اور نتیجتاً ڈچی آف میلان کا دار الحکومت بن گیا۔

2024/ہفتہ 02 [ترمیم]

ابو بکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ تیمی قریشی (پیدائش: 573ء— وفات: 22 اگست 634ء) پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، پیغمبر اسلام کے وزیر، صحابی و خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابو بکر صدیق انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابی بکر کے بعد پیغمبر اسلام کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کی کنیت "ابو بکر" کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا جسے ابو بکر صدیق کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام نے دیا تھا۔

ابو بکر صدیق عام الفیل کے دو برس اور چھ ماہ بعد سنہ 573ء میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ دور جاہلیت میں ان کا شمار قریش کے متمول افراد میں ہوتا تھا۔ جب پیغمبر اسلام نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا تو انہوں نے بغیر کسی پس و پیش کے اسلام قبول کر لیا اور یوں وہ آزاد بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے کہلائے۔ قبول اسلام کے بعد تیرہ برس مکہ میں گزارے جو سخت مصیبتوں اور تکلیفوں کا دور تھا۔ بعد ازاں پیغمبر اسلام کی رفاقت میں مکہ سے یثرب ہجرت کی، نیز غزوہ بدر اور دیگر تمام غزوات میں پیغمبر اسلام کے ہم رکاب رہے۔ جب پیغمبر محمد مرض الوفات میں گرفتار ہوئے تو ابو بکر صدیق کو حکم دیا کہ وہ مسجد نبوی میں امامت کریں۔ پیر 12 ربیع الاول سنہ 11ھ کو پیغمبر نے وفات پائی اور اسی دن ابو بکر صدیق کے ہاتھوں پر مسلمانوں نے بیعت خلافت کی۔ منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعد ابو بکر صدیق نے اسلامی قلمرو میں والیوں، عاملوں اور قاضیوں کو مقرر کیا، جا بجا لشکر روانہ کیے، اسلام اور اس کے بعض فرائض سے انکار کرنے والے عرب قبائل سے جنگ کی یہاں تک کہ تمام جزیرہ عرب اسلامی حکومت کا مطیع ہو گیا۔ فتنہ ارتداد فرو ہو جانے کے بعد ابو بکر صدیق نے عراق اور شام کو فتح کرنے کے لیے لشکر روانہ کیا۔ ان کے عہد خلافت میں عراق کا بیشتر حصہ اور شام کا بڑا علاقہ فتح ہو چکا تھا۔ پیر 22 جمادی الاخری سنہ 13ھ کو تریسٹھ برس کی عمر میں ابو بکر صدیق کی وفات ہوئی اور عمر بن خطاب ان کے جانشین ہوئے۔

2024/ہفتہ 03 [ترمیم]

حج : مرکز اسلام کا سفر کے نام سے برٹش میوزیم لندن میں 15 اپریل 2012ء کو ایک نمائش منعقد ہوئی تھی۔ یہ دنیا میں پہلی ایسی نمائش تھی جس میں سفر حج کو تصویری اور تحریری شکل میں مفصل طور پر دکھایا گیا تھا۔ حج 5 ارکان اسلام میں سے پانچواں رکن ہے اور اس کی ادائیگی ماہ ذوالحجہ میں مکہ شہر میں ہوتی ہے۔ ہر سال مسلمان اس مہینے میں مکہ کی جانب سفر کرتے ہیں جسے سفر حج کہا جاتا ہے۔ اس تقریب میں اسی سفر کی نمائش کی گئی تھی۔ سفر حج کی اس تقریب میں دنیا کے مختلف ممالک اور مختلف زمانوں کے کپڑوں، مخطوطات، تاریخی دستاویز، تصاویر، اور آرٹ کی نمائش کی گئی تھی جس میں سفر حج، مکہ، ارکان حج اور خانہ کعبہ کو دکھایا گیا تھا۔ 200 سے زیادہ طرح کی چیزیں اس نمائش میں شامل کی گئی تھیں جنھیں 40 نجی اور سرکاری اداروں سے جمع کیا گیا تھا۔ اس تقریب کے سب سے بڑے شراکت دار ناصر داؤد خلیلی تھے۔ ناصر داوود خلیلی لندن میں مقیم ایک برطانوی-ایرانی اسکالر، کلکٹر، اور مخیر ہیں۔ وہ ایران میں پیدا ہوئے اور کوئنز کالج، سٹی یونیورسٹی آف نیو یارک اور اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز، یونیورسٹی آف لندن میں تعلیم حاصل کی، وہ ایک برطانوی شہری ہیں۔

2024/ہفتہ 04 [ترمیم]

دہلی (جسے مقامی سطح پر دِلّی اور سرکاری سطح پر دہلی قومی دار الحکومتی علاقہ کہتے ہیں) بھارت کی دار الحکومتی عملداری ہے۔ یہ تین اطراف سے ہریانہ سے گھرا ہوا ہے جبکہ اس کے مشرق میں اتر پردیش واقع ہے۔ یہ بھارت کا مہنگا ترین شہر ہے۔ اس کا رقبہ 1،484 مربع کلومیٹر (573 مربع میل) ہے۔ 25 ملین آبادی پر مشتمل یہ شہر ممبئی کے بعد بھارت کا دوسرا اور دنیا کا تیسرا سب سے بڑا شہری علاقہ ہے۔ دہلی ممبئی کے بعد بھارت میں دوسرا امیر ترین شہر ہے، جس کے کل املاک 450 بلین امریکی ڈالر ہے اور یہ 18 ارب پتی اور 23000 کروڑ پتیوں کا مسکن بھی ہے۔

دریائے جمنا کے کنارے یہ شہر چھٹی صدی قبل مسیح سے آباد ہے۔ تاریخ میں یہ کئی سلطنتوں اور مملکتوں کا دار الحکومت رہا ہے جو کئی مرتبہ فتح ہوا، تباہ کیا گیا اور پھر بسایا گیا۔ سلطنت دہلی کے عروج کے ساتھ ہی یہ شہر ایک ثقافتی، تمدنی و تجارتی مرکز کے طور پر ابھرا۔ شہر میں عہد قدیم اور قرون وسطیٰ کی بے شمار یادگاریں اور آثار قدیمہ موجود ہیں۔ سلطنت دہلی کے زمانے کا قطب مینار اور مسجد قوت اسلام ہندوستان میں اسلامی طرز تعمیر کی شان و شوکت کے نمایاں مظاہر ہیں۔ عہد مغلیہ میں جلال الدین اکبر نے دار الحکومت آگرہ سے دہلی منتقل کیا، بعد ازاں 1639ء میں شاہجہاں نے دہلی میں ایک نیا شہر قائم کیا جو 1649ء سے 1857ء تک مغلیہ سلطنت کا دار الحکومت رہا۔ یہ شہر شاہجہاں آباد کہلاتا تھا جسے اب پرانی دلی کہا جاتا ہے۔ غدر (جنگ آزادی 1857ء) سے قبل برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر چکی تھی اور برطانوی راج کے دوران میں کلکتہ کو دار الحکومت کی حیثیت حاصل تھی۔ بالآخر جارج پنجم نے 1911ء میں دار الحکومت کی دہلی منتقلی کا اعلان کیا اور 1920ء کی دہائی میں قدیم شہر کے جنوب میں ایک نیا شہر "نئی دہلی" بسایا گیا۔

2024/ہفتہ 05 [ترمیم]

لفظ تفسیر عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ فسر ہے۔ یہ باب تفعیل کا مصدر ہے اس کے معنی ہیں واضح کرنا، کھول کر بیان کرنا، وضاحت کرنا، مراد بتانا اور بے حجاب کرنا ہے۔ اسلامی اصطلاح میں مسلمان قرآن کی تشریح و وضاحت کے علم کو تفسیر کہتے ہیں اور تفسیر کرنے والے کو مفسر۔ ایک عربی آن لائن لغت میں [ لفظ فسر] کا اندراج۔ اسی عربی لفظ فسر سے، اردو زبان میں، تفسیر کے ساتھ ساتھ ديگر متعلقہ الفاظ بھی بنائے جاتے ہیں جیسے؛ مُفسَر، مُفَسِّر اور مُفَسّر وغیرہ ایک اردو لغت میں [ مُفسَر]، [ مُفَسِّر] اور [ مُفَسّــَر] کا اندراج۔ تفسیر کی جمع تفاسیر کی جاتی ہے اور مفسر کی جمع مفسرین آتی ہے۔۔۔۔

وہ علم جس سے قرآن کو سمجھا جاتا ہے۔ اس علم سے قرآن کے معانی کا بیان، اس کے استخراج کا بیان، اس کے احکام کا استخراج معلوم کیا جاتا ہے۔ اور اس سلسلے میں لغت، نحو، صرف، معانی و بیان وغیرہ سے مدد لی جاتی ہے۔ اس میں اسباب نزول، ناسخ و منسوخ سے بھی مدد لی جاتی ہے۔ علامہ امبہانی کہتے ہیں: تفسیر اصطلاح علما میں قرآن کریم کے معانی اور اس کی مراد کو واضح کرنے اور بیان کرنے کو کہتے ہیں، خواہ باعتبار حل الفاظ مشکل ہو یا باعتبار معنی ظاہر ہو یا خفی اور تاویل کلام تام اور جملوں کا مفہوم متعین کرنے کو کہتے ہیں۔

2024/ہفتہ 06 [ترمیم]

لاہور صوبہ پنجاب، پاکستان کا دار الحکومت اور دوسرا بڑا شہر ہے۔ اسے پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی مرکز اور پاکستان کا دل اور باغوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہ شہر دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔ اس شہر کی آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے اور یہ ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ لاہور کا شمار دنیا کے قدیم اور اہم ترین شہروں میں کیا جاتا ہے۔ زندہ دلان لاہور کے روایتی جوش و جذبے کے باعث اسے بجا طور پر پاکستان کا دل کہا جاتا ہے۔ مغل شہنشاہ جہانگیر کی ملکہ نورجہاں نے لاہور کے بارے میں کہا تھا۔

لاہور رابجان برابر خریدہ ایم جاں دارایم و جنت دیگر خریدہ ایم

لاہور کی انتہائی قدیم تاریخ ہزاروں سال پر پھیلی ہوئی ہے۔ پرانوں کے مطابق رام کے بیٹے راجا لوہ نے شہر لاہور کی بنیاد رکھی اور یہاں ایک قلعہ بنوایا۔ دسویں صدی تک یہ شہر ہندو راجائوں کے زیرتسلط رہا۔ گیارہویں صدی میں سلطان محمود غزنوی نے پنجاب فتح کرکے ایاز کو لاہور کا گورنر مقرر کیا اور لاہور کو اسلام سے روشناس کرایا۔ شہاب الدین غوری نے 1186ء میں لاہور کو فتح کیا۔ بعد ازاں یہ خاندان غلاماں کے ہاتھوں میں آ گیا۔ 1290ء میں خلجی خاندان، 1320ء میں تغلق خاندان، 1414ء سید خاندان 1451ء لودھی خاندان کے تحت رہا۔

2024/ہفتہ 07 [ترمیم]

موہن جو دڑو وادی سندھ کی قدیم تہذیب کا ایک مرکز تھا۔ یہ لاڑکانہ سے بیس کلومیٹر دور اور سکھر سے 80 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہ وادی،وادی سندھ کی تہذیب کے ایک اور اہم مرکز ہڑپہ صوبہ پنجاب سے 686 میل دور ہے۔ یہ شہر 2600 قبل مسیح موجود تھا اور 1700 قبل مسیح میں نامعلوم وجوہات کی بناء پر ختم ہو گیا۔ تاہم ماہرین کے خیال میں دریائے سندھ کے رخ کی تبدیلی، سیلاب، بیرونی حملہ آور یا زلزلہ اہم وجوہات ہوسکتی ہیں۔ اسے قدیم مصر اور بین النہرین کی تہذیبوں کا ہم عصر سمجھا جاتا ہے۔ 1980ء میں یونیسکو نے اسے یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔

2024/ہفتہ 08 [ترمیم]

محمد علی جناح متحدہ ہندوستان کے نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔

کراچی کے پیدائشی اور لنکن ان سے بیرسٹری کی تربیت حاصل کرنے والے جناح، بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر ابھرے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا۔ 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جناح آل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنماوں میں سے تھے، انہوں نے چودہ نکات بھی پیش کیے، جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ بہر کیف جناح 1920ء میں آل انڈیا کانگریس سے مستعفی ہوگئے، جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کے موہن داس گاندھی کی قیادت میں ستیاگرا کی مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔

2024/ہفتہ 09 [ترمیم]
ہرمندر صاحب
ہرمندر صاحب

سری ہرمندر صاحب یا سری دربار صاحب جسے گولڈن ٹیمپل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ایک گردوارہ ہے جو امرتسر، پنجاب، بھارت میں واقع ہے۔ یہ سکھوں کا سب سے مقدس مقام ہے۔ یہ گرودوارہ 1577ء میں گرو رام داس کے بنائے ہوئے تالاب کے ارد گرد بنایا گیا ہے۔اس کی بنیاد سائیں میاں میر نے 28 دسمبر 1588ء کو رکھی تھی۔ 1604ء میں گرو ارجن دیو نے آدی گرنتھ کا ایک مخطوطہ یہاں رکھا اور اس جگہ کو "اٹھ سٹھ تیرتھ" کہا۔ دو سال بعد، اکال تخت کا سنگ بنیاد گرو ہرگوبند نےرکھا۔ اس کے علاوہ سنہ 1757ء، 1762ء اور 1764ء کے افغان حملوں کے دوران میں ہرمندر صاحب کوحملہ آوروں نے تباہ کر دیا تھا۔ بابا دلیپ سنگھ افغان حملے کے دوران میں ہرمندر صاحب کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔

سری ہرمندر صاحب اپنی موجودہ شکل میں مہاراج جسا سنگھ اہلووالیہ کے سنگ بنیاد رکھنے کے بعد وجود میں آیا ہے۔ "سنہری مندر" جیسا کہ ہندی میں جانا جاتا ہے سونے کی اس تہہ کی وجہ سے ہے جسے شیر پنجاب مہاراجہ رنجیت سنگھ نے سنہ 1830ء کی دہائی میں ہرمندر صاحب پر چڑھوایا تھا۔ دور جدید (جسے ساکا نیلا تارا اور تیسرا گھلوگھرا بھی کہا جاتا ہے، اور انگریزی میں آپریشن بلیو اسٹار) میں بھی سری ہرمندر صاحب کی تاریخ کا ایک ایسا دن ہے جسے بھلایا نہیں جا سکتا۔ بھارتی فوج کے ٹینک جرنیل سنگھ بنڈرانوالا کو پکڑنے کے لیے گردورے میں داخل ہوئے، جو حکومت کے مطابق دہشت گرد تھا لیکن بہت سے سکھوں کے لیے شہید سے کم نہیں۔

2024/ہفتہ 10 [ترمیم]

قاہرہ مصر کا دار الحکومت اور افریقہ، عرب دنیا اور مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا شہری مجموعہ ہے۔ قاہرہ کبری میٹروپولیٹن علاقہ، جس کی آبادی 21.9 ملین ہے، آبادی کے لحاظ سے دنیا کا بارہواں بڑا میگا شہر ہے۔ قاہرہ کا تعلق قدیم مصر سے ہے، کیونکہ اہرامات جیزہ اور قدیم شہر ممفس اور عين شمس اس کے جغرافیائی علاقے میں واقع ہیں۔ نیل ڈیلٹا کے قریب واقع، شہر سب سے پہلے فسطاط کے طور پر آباد ہوا، ایک بستی جس کی بنیاد مسلمانوں کی فتح مصر کے بعد 640ء میں ایک موجودہ قدیم رومی قلعے، بابلیون کے ساتھ رکھی گئی تھی۔ دولت فاطمیہ کے تحت 969ء میں قریب ہی ایک نئے شہر القاہرہ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس نے بعد میں ایوبی سلطنت اور سلطنت مملوک (مصر) ادوار (بارہویں-سولہویں صدی) کے دوران میں فسطاط کو مرکزی شہری مرکز کے طور پر پیچھے چھوڑ دیا۔ قاہرہ طویل عرصے سے اس خطے کی سیاسی اور ثقافتی زندگی کا مرکز رہا ہے، اور اسلامی فن تعمیر کی پیش رفت کی وجہ سے اسے "ہزار میناروں کا شہر" کا عنوان دیا گیا ہے۔ قاہرہ کے تاریخی مرکز (قاہرہ المعز) کو 1979ء میں یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ کا درجہ دیا گیا۔

2024/ہفتہ 11 [ترمیم]

الناصر صلاح الدین یوسف بن ایوب جنہیں عام طور پر صلاح الدین ایوبی کے نام سے جانا جاتا ہے ایوبی سلطنت کے بانی تھے۔ وہ نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ تاریخ عالم کے مشہور ترین فاتحین اور حکمرانوں میں سے ایک تھے۔ وہ 1138ء میں موجودہ عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے۔ ان کی زیر قیادت ایوبی سلطنت نے مصر، شام، یمن، عراق، حجاز اور دیار باکر پر حکومت کی۔ صلاح الدین ایوبی کو بہادری، فیاضی، حسن خلق، سخاوت اور بردباری کے باعث نہ صرف مسلمان بلکہ مسیحی بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ صلاح الدین ایوبی اپنے کارناموں میں نور الدین زنگی پر بھی بازی لے گئے۔ ان میں جہاد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور بیت المقدس کی فتح ان کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ صلاح الدین کو فاتح بیت المقدس کہا جاتا ہے جنھوں نے 1187ء میں یورپ کی متحدہ افواج کو عبرتناک شکست دے کر بیت المقدس ان سے آزاد کروا لیا تھا۔ صلاح الدین ایوبی 1193ء میں دمشق میں انتقال کر گئے ، انہوں نے اپنی ذاتی دولت کا زیادہ تر حصہ اپنی رعایا کو دے دیا۔ وہ مسجد بنو امیہ سے متصل مقبرے میں مدفون ہیں۔ مسلم ثقافت کے لئے اپنی اہمیت کے ساتھ ساتھ ، صلاح الدین کو کرد ، ترک اور عرب ثقافت میں نمایاں طور پر احترام کیا جاتا ہے۔ انہیں اکثر تاریخ کی سب سے مشہور کرد شخصیت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔

2024/ہفتہ 12 [ترمیم]

استنبول جسے ماضی میں بازنطیوم اور قسطنطنیہ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا ترکی کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر اور ملک کا معاشی، ثقافتی اور تاریخی مرکز ہے۔ استنبول یوریشیا کا بین براعظمی شہر بھی ہے جو بحیرہ مرمرہ اور بحیرہ اسود کے درمیان آبنائے باسفورس کے دونوں کناروں پر واقع ہے. یہ آبنائے ایشیا کو یورپ سے جدا کرتی ہے۔ اس کا تجارتی اور تاریخی مرکز یوروپی جانب ہے اور اس کی آبادی کا ایک تہائی حصہ آبنائے باسفورس کے ایشیائی کنارے کے مضافاتی علاقوں میں رہتا ہے۔ اس کے میٹروپولیٹن علاقہ میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ کی مجموعی آبادی ہے جس کی بنا پر استنبول کا شمار دنیا کے سب سے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ عالمی طور پر یہ دنیا کا پانچواں سب سے بڑا شہر اور یورپ کا سب سے بڑا شہر ہے۔ نیز یہ استنبول میٹروپولیٹن بلدیہ کا انتظامی مرکز بھی ہے۔

سرائے بورنو کے مقام پر 600 ق م میں بازنطیوم کے نام سے آباد ہونے والے شہر کے اثر و رسوخ، آبادی اور رقبہ میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوتا رہا اور یہ تاریخ کا سب سے اہم شہر بن گیا۔ 330ء میں قسطنطنیہ کے نام سے از سر نو آباد ہونے کے بعد یہ شہر تقریباً 16 صدیوں تک متعدد سلطنتوں کا دار الحکومت رہا جن میں رومی سلطنت/بازنطینی سلطنت (330ء–1204ء)، لاطینی سلطنت (1204ء–1261ء)، فالیولوجی بازنطین (1261ء–1453ء) اور سلطنت عثمانیہ (1453ء–1922ء) شامل ہیں۔ رومی سلطنت اور بازنطینی دور میں شہر نے مسیحیت کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا تھا تاہم 1453ء میں فتح قسطنطنیہ کے بعد یہ مسلمانوں کا مرکز اور خلافت عثمانیہ کا دارالخلافہ بن گیا اور قسطنطنیہ کے نام سے 1923ء تک یہ سلطنت عثمانیہ کا دار الحکومت رہا۔ اس کے بعد دار الحکومت کو انقرہ منتقل کرکے اس شہر کا نام استنبول رکھ دیا گیا۔

2024/ہفتہ 13 [ترمیم]
مزار حضرت علی ہجویری

ابو الحسن علی بن عثمان، جنہیں علی الحجویری یا داتا گنج بخش کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جو امام حسن ابن علی کی براہ راست اولاد تھے۔ ان کا شجرہ نسب آٹھ نسلوں پر حضرت علی تک جاتا ہے۔ 11ویں صدی کے سنی مسلمان، غزنوی سلطنت کے صوفی، عالم دین اور مبلغ تھے، جو کشف المحجوب کی تالیف کے لیے مشہور ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ علی ہجویری نے اپنی تبلیغ کے ذریعے جنوبی ایشیا میں اسلام کے پھیلاؤ میں "نمایاں" کردار ادا کیا، ایک مورخ نے انہیں "برصغیر پاک و ہند میں اسلام کو پھیلانے والی اہم ترین شخصیات میں سے ایک" کے طور پر بیان کیا۔

موجودہ دور میں، علی ہجویری کو علاقے کے روایتی سنی مسلمان لاہور، پاکستان کے مرکزی ولی کے طور پر مانتے ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ پورے جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ قابل احترام ولیوں میں سے ایک ہیں اور لاہور میں ان کا مقبرہ، جو داتا دربار کے نام سے مشہور ہے، جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ کثرت سے جانے والے مزارات میں سے ایک ہے۔ اس وقت، یہ پاکستان کا سب سے بڑا مزار ہے "سالانہ زائرین کی تعداد اور مزار کے احاطے کے سائز میں،" صوفیانہ خود جنوبی ایشیا کے روزنامہ اسلام میں ایک "گھریلو نام" بنا ہوا ہے۔ 2016ء میں، حکومت پاکستان نے علی ہجویری کی تین روزہ عرس کے آغاز کی یاد میں 21 نومبر کو عام تعطیل کا اعلان کیا۔

2024/ہفتہ 14 [ترمیم]

مسلمان ہر سال اسلامی مہینے ذوالحجہ کی 8 سے 12 تاریخ کو سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ کی زیارت کے لیے حاضر ہو کر وہاں جو مخصوص عبادت انجام دیتے ہیں، اس مجموعہ عبادات کو اسلامی اصطلاح میں حج اور ان انجام دی جانے والی عبادات کو مناسک حج کہتے ہیں۔ دین اسلام میں حج ہر صاحب استطاعت بالغ مسلمان پر زندگی بھر میں ایک مرتبہ فرض ہے، جیسا کہ قرآن مقدس میں ہے: وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ۔ حج اسلام کے 5 ارکان میں سب سے آخری رکن ہے، جیسا کہ محمد بن عبد اللہ کی حدیث ہے: «اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر ہے، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زكات دينا، رمضان کے روزے رکھنا اور حج کرنا۔» مناسک حج کی ابتدا ہر سال 8 ذوالحجہ سے ہوتی ہے، حاجی متعین میقات حج سے احرام باندھ کر کعبہ کی زیارت کے لیے روانہ ہوتے ہیں، وہاں پہنچ کر طواف قدوم کرتے ہیں، پھر منی روانہ ہوتے ہیں اور وہاں یوم الترویہ گزار کر عرفات آتے ہیں اور یہاں ایک دن کا وقوف ہوتا ہے، اسی دن کو یوم عرفہ، یوم سعی، عید قربانی، یوم حلق و قصر وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد حجاج رمی جمار (کنکریاں پھینکنے) کے لیے جمرہ عقبہ جاتے ہیں، بعد ازاں مکہ واپس آکر طواف افاضہ کرتے ہیں اور پھر واپس منی جاکر ایام تشریق گذارتے ہیں۔ اس کے بعد حجاج دوبارہ مکہ واپس آکر طواف وداع کرتے ہیں اور یوں حج کے جملہ مناسک مکمل ہوتے ہیں۔

2024/ہفتہ 15 [ترمیم]

مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی (تولد 1104ھ بمطابق 1692ء – متوفی 1174ھ بمطابق 1761ء) سندھ کے علم و ادب کے حوالے سے بین الاقوامی شہرت یافتہ شہر ٹھٹہ سے تعلق رکھنے والے اٹھارویں صدی کے عظیم محدث، یگانۂ روزگار فقیہ اور قادر الکلام شاعر تھے۔ کلہوڑا دور کے حاکمِ سندھ میاں غلام شاہ کلہوڑا نے انہیں ٹھٹہ کا قاضی القضاۃ مقرر کیا، انہوں نے بدعات اور غیر شرعی رسومات کے خاتمے کے لیے حاکم وقت سے حکم نامے جارے کرائے۔ ان کی وعظ، تقریروں اور درس و تدریس متاثر ہو کر بہت سے لوگ مسلمان ہوئے۔ ان کی تصانیف و تالیفات عربی، فارسی اور سندھی زبانوں میں ہیں۔ انہوں نے فقہ، قرآن، تفسیر، سیرت، حدیث، قواعد، عقائد، ارکان اسلام سمیت تقریباً تمام اسلامی موضوعات پر لاتعداد کتب تحریر و تالیف کیں، کتب کی تعداد کچھ محققین کے اندازے کے مطابق 300 ہے، کچھ محققین 150 سے زیادہ خیال کرتے ہیں۔ ان کی گراں قدر تصانیف مصر کی جامعہ الازہر کے نصاب میں شامل ہیں۔ ان کے مخطوطات کی بڑی تعداد بھارت، سعودی عرب، ترکی، پاکستان، برطانیہ اور یورپ کے بہت سے ممالک کے کتب خانوں میں موجود ہیں۔ پاکستان خصوصاً سندھ اور بیرونِ پاکستان میں ان کی کتب کے مخطوطات کی دریافت کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔

2024/ہفتہ 16 [ترمیم]

جدہ، تاریخی خطہ حجاز کے تاریخی علاقہ تہامہ میں بحیرہ احمر کے ساحل پر واقع ایک شہر ہے جو مغربی سعودی عرب کا اہم تجارتی اور ثقافتی مرکز ہے۔ یہ المکہ علاقہ کا سب سے بڑا شہر اور بحیرہ احمر کی سب سے بڑی بندرگاہ بھی ہے۔ تقریباً چار ملین (2017ء کے مطابق) کی آبادی والا یہ شہر دار الحکومت ریاض کے بعد سعودی عرب کا دوسرا سب سے بڑا شہر اور سعودی عرب کا اقتصادی دارالحکومت ہے۔ جدہ حرمین شریفین (اسلام کے مقدس ترین مقامات مکہ مکرمہ کی مسجد الحرام اور مدینہ منورہ کی مسجد نبوی) کے لیے اہم گزرگاہ ہے۔ گو کہ مدینہ منورہ میں بھی ہوائی اڈا موجود ہے جس کے ذریعہ کچھ حجاج اور زائرین براہ راست وہاں پہنچ جاتے ہیں تاہم اس سلسلہ میں جدہ کے ہوائی اڈے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس سے قبل بہت سے زائرین بحری جہازوں کے ذریعہ جدہ اسلامی بندرگاہ سے بھی آتے تھے تاہم اب زیادہ تر ہوائی سفر ہی کرتے ہیں۔ بحیرہ احمر سے قریب ہونے کی وجہ سے ملک کے دوسرے حصوں کے برعکس ماہی گیری اور سمندری غذا یہاں کی ثقافت پر غالب ہے۔

2024/ہفتہ 17 [ترمیم]

خدا کے نام ہر مذہب میں اور ہر زبان میں الگ الگ ہیں، خدا کی صفات ذاتی اور عام طور پر ہر مذہب اور زبان میں مماثلت کی حامل ہیں کہ وہ خالق ہے، مالک، ہے رز‍ق دینے والا، گناہ معاف کرنے والا، رحم کرنے والا اور دعا سننے والا۔ پھر بھی مختلف مذاہب میں خدا کی کچھ خصوصیات الگ ہیں دوسرے مذہب سے، جس وجہ سے اس مذہب میں خدا کا کچھ ناموں کا مطلب وہ نہیں ہوتا جو باقی مذہب میں ملتا ہے۔ جیسے مسیحیت میں صلیبی موت کے عقیدے نے مسیح کو اکلوتا، بیٹا، روح القدس کا نام دیا گیا ہے۔ جبکہ اسلام میں خدا کے ناموں میں واحد ہے، جس کا معنی ہے کہ وہ صرف ایک ہے، اس کا کوئی بیٹا نہیں۔ مسیحیت، یہودیت میں خدا کو یہوداہ، ایلوہیم، ایل، وہ، میں جو ہوں سو میں ہوں، جیسے نام بھی دیے گئے۔

زبانوں کے فرق سے انسانوں نے اس مالک الملک ہستی کو کہیں اللہ، کہیں ایشور، کہیں گاڈ، کہیں یہوواہ، کہیں اہور امزدا، کہیں زیوس، کہیں یزداں، کہیں آمن، کہیں پانکو اور کہیں تاؤ کا نام دیا۔ دنیا بھر کے مذہب میں مختلف زبانوں میں اس ہستی کے لیے بیسیوں نام پائے جاتے ہیں۔

2024/ہفتہ 18 [ترمیم]

لکھنؤ بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش کا دار الحکومت اور اردو کا قدیم گہوارہ ہے نیز اسے مشرقی تہذیب و تمدن کی آماجگاہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس شہر میں لکھنؤ ضلع اور لکھنؤ منڈل کا انتظامی صدر دفتر موجود ہے۔ لکھنؤ شہر اپنی نزاکت، تہذیب و تمدن، کثیر الثقافتی خوبیوں، دسہری آم کے باغوں اور چکن کی کڑھائی کے کام کے لیے معروف ہے۔ سنہ 2011ء میں اس کی آبادی 3,500,000 اور شرح خواندگی 68.63 فیصد تھی۔ حکومت ہند کی 2001ء کی مردم شماری، سماجی اقتصادی اشاریہ اور بنیادی سہولت اشاریہ کے مطابق لکھنؤ ضلع اقلیتوں کی گنجان آبادی والا ضلع ہے۔ کانپور کے بعد یہ شہر اتر پردیش کا سب سے بڑا شہری علاقہ ہے۔ شہر کے درمیان میں دریائے گومتی بہتا ہے جو لکھنؤ کی ثقافت کا بھی ایک حصہ ہے۔

لکھنؤ اس خطے میں واقع ہے جسے ماضی میں اودھ کہا جاتا تھا۔ لکھنؤ ہمیشہ سے ایک کثیر الثقافتی شہر رہا ہے۔ یہاں کے حکمرانوں اور نوابوں نے انسانی آداب، خوبصورت باغات، شاعری، موسیقی اور دیگر فنون لطیفہ کی خوب پذیرائی کی۔ لکھنؤ نوابوں کا شہر بھی کہلاتا ہے نیز اسے مشرق کا سنہری شہر اور شیراز ہند بھی کہتے ہیں۔ آج کا لکھنؤ ایک ترقی پذیر شہر ہے جس میں اقتصادی ترقی دکھائی دیتی ہے اور یہ بھارت کے تیزی سے بڑھ رہےبالائی غیر میٹرو پندرہ شہروں میں سے ایک ہے۔ لکھنؤ ہندی اور اردو ادب کے مراکز میں سے ایک ہے۔ یہاں زیادہ تر لوگ اردو بولتے ہیں۔ یہاں کا لکھنوی انداز گفتگو مشہور زمانہ ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ہندی اور انگریزی زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔

2024/ہفتہ 19 [ترمیم]

ننجا (忍者) یا شنوبی (忍び) نوابی دور کے جاپان میں خفیہ کارندے یا قاتل ہوتے تھے۔ ننجا کے کاموں میں جاسوسی، سبوتاژ، دشمن کی صفوں میں گھسنا، قتل اور گوریلا جنگیں شامل تھیں۔ یہ کارروائیاں سامورائی سے کمتر درجے کی سمجھی جاتی تھیں کیونکہ سامورائی لڑائی اور عزت کے حوالے سے انتہائی سخت اصولوں کی پابندی کرتے تھے۔

سینگوکو دور میں (پندرہویں سے سترہویں صدی تک) کرائے کے قاتل اور جاسوس جو ایگا صوبے اور کوگا دیہات سے ملحقہ علاقوں میں سرگرم ہو گئے اور اسی علاقے کے قبائل کے پاس ننجا کے بارے میں زیادہ تر معلومات ہیں۔ توکوگاوا شوگون شاہی کے تحت جاپان کے اتحاد کے بعد (سترہویں صدی میں) ننجا گمنامی کا شکار ہو گئے۔

1868ء میں بحالی میجی کے بعد شنوبی کو قصے کہانیوں میں بہت اہمیت دی گئی۔ ننجا کے بارے بہت سی غلط باتیں مشہور ہو گئیں تھیں مثلاﹰ وہ غائب ہو سکتے تھے، پانی پر چل سکتے تھے اور قدرتی عناصر کو قابو میں کر سکتے تھے۔ چنانچہ اُس دور کے ننجا کے بارے میں بیشتر معلومات سینگوکو دور کی بجائے تخیل کی مدد سے اخذ کی گئی ہیں۔

2024/ہفتہ 20 [ترمیم]

نیکوسیا (یونانی: Λευκωσία لیفکوسیا) قبرص کا سب سے بڑا شہر اور میساوریا میدانی علاقہ کے تقریباً وسط میں دریائے پیدیوس کے کنارے پر واقع حکومت قبرص کا دار الحکومت ہے۔ یہ یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں انتہائی جنوب مشرقی دار الحکومت ہے۔ یہ شہر 4،500 برسوں سے مسلسل آباد ہے اور دسویں صدی سے قبرص کا دار الحکومت چلا آرہا ہے۔ قبرص بحران 1955–64ء کے بعد سے ترک قبرصی اور یونانی قبرصی شہر کی تقسیم کے بعد شہر کے شمالی اور جنوبی الگ الگ حصوں میں آباد ہیں۔ 1974ء میں ترکی کے قبرص کے حملے کے بعد شہر کے درمیان میں ایک عسکری خط اخضر قائم ہے جو اقوام متحدہ کے زیر نگرانی ہے۔ اس تقسیم کے بعد نیکوسیا کا جنوبی حصہ جمہوریہ قبرص کا دار الحکومت اور شمالی قبرص ترک جمہوریہ شمالی قبرص کا دار الحکومت ہے۔

قانون سازی اور انتظامی افعال کے علاوہ نیکوسیا نے خود کو جزیرے کے اقتصادی دار الحکومت اور اہم بین الاقوامی کاروباری مرکز کے طور پر بھی منوایا ہے۔ 2018ء میں نیکوسیا دنیا کے تقابل میں قوت خرید میں بتیسواں امیر ترین شہر تھا۔ دیوار برلن کے خاتمے کے بعد نیکوسیا دنیا کا واحد منقسم دار الحکومت ہے۔

2024/ہفتہ 21 [ترمیم]

نیکوسیا (یونانی: Λευκωσία لیفکوسیا) قبرص کا سب سے بڑا شہر اور میساوریا میدانی علاقہ کے تقریباً وسط میں دریائے پیدیوس کے کنارے پر واقع حکومت قبرص کا دار الحکومت ہے۔ یہ یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں انتہائی جنوب مشرقی دار الحکومت ہے۔ یہ شہر 4،500 برسوں سے مسلسل آباد ہے اور دسویں صدی سے قبرص کا دار الحکومت چلا آرہا ہے۔ قبرص بحران 1955–64ء کے بعد سے ترک قبرصی اور یونانی قبرصی شہر کی تقسیم کے بعد شہر کے شمالی اور جنوبی الگ الگ حصوں میں آباد ہیں۔ 1974ء میں ترکی کے قبرص کے حملے کے بعد شہر کے درمیان میں ایک عسکری خط اخضر قائم ہے جو اقوام متحدہ کے زیر نگرانی ہے۔ اس تقسیم کے بعد نیکوسیا کا جنوبی حصہ جمہوریہ قبرص کا دار الحکومت اور شمالی قبرص ترک جمہوریہ شمالی قبرص کا دار الحکومت ہے۔

قانون سازی اور انتظامی افعال کے علاوہ نیکوسیا نے خود کو جزیرے کے اقتصادی دار الحکومت اور اہم بین الاقوامی کاروباری مرکز کے طور پر بھی منوایا ہے۔ 2018ء میں نیکوسیا دنیا کے تقابل میں قوت خرید میں بتیسواں امیر ترین شہر تھا۔ دیوار برلن کے خاتمے کے بعد نیکوسیا دنیا کا واحد منقسم دار الحکومت ہے۔

2024/ہفتہ 22 [ترمیم]

لاہور صوبہ پنجاب، پاکستان کا دار الحکومت اور دوسرا بڑا شہر ہے۔ اسے پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی مرکز اور پاکستان کا دل اور باغوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہ شہر دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔ اس شہر کی آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے اور یہ ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ لاہور کا شمار دنیا کے قدیم اور اہم ترین شہروں میں کیا جاتا ہے۔ زندہ دلان لاہور کے روایتی جوش و جذبے کے باعث اسے بجا طور پر پاکستان کا دل کہا جاتا ہے۔ مغل شہنشاہ جہانگیر کی ملکہ نورجہاں نے لاہور کے بارے میں کہا تھا۔

لاہور رابجان برابر خریدہ ایم جاں دارایم و جنت دیگر خریدہ ایم

لاہور کی انتہائی قدیم تاریخ ہزاروں سال پر پھیلی ہوئی ہے۔ پرانوں کے مطابق رام کے بیٹے راجا لوہ نے شہر لاہور کی بنیاد رکھی اور یہاں ایک قلعہ بنوایا۔ دسویں صدی تک یہ شہر ہندو راجائوں کے زیرتسلط رہا۔ گیارہویں صدی میں سلطان محمود غزنوی نے پنجاب فتح کرکے ایاز کو لاہور کا گورنر مقرر کیا اور لاہور کو اسلام سے روشناس کرایا۔ شہاب الدین غوری نے 1186ء میں لاہور کو فتح کیا۔ بعد ازاں یہ خاندان غلاماں کے ہاتھوں میں آ گیا۔ 1290ء میں خلجی خاندان، 1320ء میں تغلق خاندان، 1414ء سید خاندان 1451ء لودھی خاندان کے تحت رہا۔

2024/ہفتہ 23 [ترمیم]

حج : مرکز اسلام کا سفر کے نام سے برٹش میوزیم لندن میں 15 اپریل 2012ء کو ایک نمائش منعقد ہوئی تھی۔ یہ دنیا میں پہلی ایسی نمائش تھی جس میں سفر حج کو تصویری اور تحریری شکل میں مفصل طور پر دکھایا گیا تھا۔ حج 5 ارکان اسلام میں سے پانچواں رکن ہے اور اس کی ادائیگی ماہ ذوالحجہ میں مکہ شہر میں ہوتی ہے۔ ہر سال مسلمان اس مہینے میں مکہ کی جانب سفر کرتے ہیں جسے سفر حج کہا جاتا ہے۔ اس تقریب میں اسی سفر کی نمائش کی گئی تھی۔ سفر حج کی اس تقریب میں دنیا کے مختلف ممالک اور مختلف زمانوں کے کپڑوں، مخطوطات، تاریخی دستاویز، تصاویر، اور آرٹ کی نمائش کی گئی تھی جس میں سفر حج، مکہ، ارکان حج اور خانہ کعبہ کو دکھایا گیا تھا۔ 200 سے زیادہ طرح کی چیزیں اس نمائش میں شامل کی گئی تھیں جنھیں 40 نجی اور سرکاری اداروں سے جمع کیا گیا تھا۔ اس تقریب کے سب سے بڑے شراکت دار ناصر داؤد خلیلی تھے۔ ناصر داوود خلیلی لندن میں مقیم ایک برطانوی-ایرانی اسکالر، کلکٹر، اور مخیر ہیں۔ وہ ایران میں پیدا ہوئے اور کوئنز کالج، سٹی یونیورسٹی آف نیو یارک اور اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز، یونیورسٹی آف لندن میں تعلیم حاصل کی، وہ ایک برطانوی شہری ہیں۔

2024/ہفتہ 24 [ترمیم]

مسلمان ہر سال اسلامی مہینے ذوالحجہ کی 8 سے 12 تاریخ کو سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ کی زیارت کے لیے حاضر ہو کر وہاں جو مخصوص عبادت انجام دیتے ہیں، اس مجموعہ عبادات کو اسلامی اصطلاح میں حج اور ان انجام دی جانے والی عبادات کو مناسک حج کہتے ہیں۔ دین اسلام میں حج ہر صاحب استطاعت بالغ مسلمان پر زندگی بھر میں ایک مرتبہ فرض ہے، جیسا کہ قرآن مقدس میں ہے: وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ۔ حج اسلام کے 5 ارکان میں سب سے آخری رکن ہے، جیسا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث ہے: «اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر ہے، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زكوة دينا، رمضان کے روزے رکھنا اور حج کرنا۔» مناسک حج کی ابتدا ہر سال 8 ذوالحجہ سے ہوتی ہے، حاجی متعین میقات حج سے احرام باندھ کر کعبہ کی زیارت کے لیے روانہ ہوتے ہیں، وہاں پہونچ کر طواف قدوم کرتے ہیں، پھر منی روانہ ہوتے ہیں اور وہاں یوم الترویہ گزار کر عرفات آتے ہیں اور یہاں ایک دن کا وقوف ہوتا ہے، اسی دن کو یوم عرفہ، یوم سعی، عید قربانی، یوم حلق و قصر وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد حجاج رمی جمار (کنکریاں پھینکنے) کے لیے جمرہ عقبہ جاتے ہیں، بعد ازاں مکہ واپس آکر طواف افاضہ کرتے ہیں اور پھر واپس منی جاکر ایام تشریق گذارتے ہیں۔اس کے بعد حجاج دوبارہ مکہ واپس آکر طواف وداع کرتے ہیں اور یوں حج کے جملہ مناسک مکمل ہوتے ہیں۔

2024/ہفتہ 25 [ترمیم]

سلیمان اول (المعروف سلیمان قانونی اور سلیمان اعظم) سلطنت عثمانیہ کے دسویں فرمانروا تھے جنہوں نے 1520ء سے 1566ء تک 46 سال تک حکمرانی کے فرائض انجام دیئے۔ وہ بلاشبہ سلطنت عثمانیہ کے سب سے عظیم حکمران تھے جنہوں نے اپنے بے مثل عدل و انصاف اور لاجواب انتظام کی بدولت پوری مملکت اسلامیہ کو خوشحالی اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن کردیا۔ انہوں نے مملکت کے لئے قانون سازی کا جو خصوصی اہتمام کیا اس کی بنا پر ترک انہیں سلیمان قانونی کے لقب سے یاد کرتے ہیں جبکہ مغرب ان کی عظمت کا اس قدر معترف ہے کہ مغربی مصنفین انہیں سلیمان ذیشان یا سلیمان عالیشان اور سلیمان اعظم کہہ کر پکارتے ہیں۔ ان کی حکومت میں سرزمین حجاز، ترکی، مصر، الجزائر، عراق، کردستان، یمن، شام، بیت المقدس، خلیج فارس اور بحیرہ روم کے ساحلی علاقے، یونان اور مشرقی و مغربی ہنگری شامل تھے۔

2024/ہفتہ 26 [ترمیم]

محمد بن ادریس شافعی جو امام شافعی کے لقب سے معروف ہیں، سنی فقہی مذہب شافعی کے بانی ہیں۔ آپ کے فقہی پیروکاروں کو شافعی (جمع شوافع) کہتے ہیں۔ آپ کا عرصہ حیات مسلم دنیا کے عروج کا دور یعنی اسلامی عہد زریں ہے۔ خلافت عباسیہ کے زمانہ عروج میں مسلک شافعی کا بول بالا بغداد اور بعد ازاں مصر سے عام ہوا۔ 150ھ میں متولد ہوئے اور 204ھ میں فوت ہوئے۔ مذہب شافعی کے پیروکار زیادہ تر مشرقی مصر، صومالیہ، ارتریا، ایتھوپیا، جبوتی، سواحلی ساحل، یمن، مشرق وسطیٰ کے کرد علاقوں میں، داغستان، فلسطین، لبنان، چیچنیا، قفقاز، انڈونیشیا، ملائیشیا، سری لنکا کے کچھ ساحلی علاقوں میں، مالدیپ، سنگاپور، بھارت کے مسلم علاقوں، میانمار، تھائی لینڈ، برونائی اور فلپائن میں پائے جاتے ہیں۔

مشہور روایات کے مطابق امام شافعی کی ولادت ماہِ رجب 150ھ مطابق ماہِ اگست 767ء میں بمقام غزہ بلاد الشام (موجودہفلسطین) میں ہوئی۔ ربیع بن سلیمان مرادی کہتے ہیں کہ: امام شافعی اُس سال پیدا ہوئے جس سال امام ابوحنیفہ فوت ہوئے۔ امام شافعی کا اپنا قول ہے کہ میری ولادت 150ھ میں ملک شام کے شہر غزہ میں ہوئی اور 2 سال کی عمر میں مجھے مکہ لایا گیا، یعنی 152ھ مطابق 769ء میں۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ امام شافعی فرماتے ہیں کہ میں عسقلان میں پیدا ہوا اور دو سال کا ہوا تو میری والدہ مجھے مکہ کے آئیں۔

2024/ہفتہ 27 [ترمیم]

پیرس فرانس کا دار الحکومت اور سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے، 2023ء کے تخمینہ آبادی کے مطابق اس میں 2,102,650 رہائشی تھے جو اس کے رقبہ 105 کلومیٹر (41 مربع میل) سے زیادہ کے علاقے میں تھے، جو اسے 2022ء میں اسے دنیا کا 30 واں سب سے زیادہ گنجان آباد شہر بناتا ہے۔سترہویں صدی سے پیرس دنیا کے مالیاتی، سفارت کاری، تجارت، فیشن، فن طباخی اور سائنس کے دنیا کے بڑے مراکز میں سے ایک رہا ہے۔ فنون اور سائنسی علوم میں اس کے اہم کردار کے ساتھ ساتھ شارعی روشنیوں کے اس کے ابتدائی نظام کی وجہ سے انیسویں صدی میں اسے "روشنیوں کا شہر" کہا جانے لگا۔ جنگ عظیم دوم سے پہلے لندن کی طرح، اسے کبھی کبھی دنیا کا دار الحکومت بھی کہا جاتا تھا۔

پیرس کا شہر پیرس علاقہ یا ایل-دو-فرانس علاقے کا مرکز ہے۔ 2023ء میں 12,271,794 کی تخمینہ شدہ آبادی کے ساتھ یہ فرانس کی آبادی کا تقریباً 19% ہے۔ پیرس علاقے کی 2021ء میں خام ملکی پیداوار 765 بلین یورو تھی، جو یورپ میں سب سے زیادہ ہے۔ اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ ورلڈ وائیڈ کاسٹ آف لیونگ سروے کے مطابق 2022ء میں پیرس دنیا میں نویں سب سے زیادہ لاگت کے ساتھ رہنے والا شہر تھا۔

2024/ہفتہ 28 [ترمیم]
کربلا میں مزار حسین ابن علی

واقعہ کربلا، جس میں محمد بن عبد اللہ کے نواسے حسین ابن علی اور ان کے رشتہ داروں اور غلاموں کو 10 محرم، 61ھ میں عراق کے شہر کربلا میں بے دردی سے شہید کیا گيا۔ اس واقعہ نے آنے والی صدیوں میں مسلمانوں پر دور رس اثرات مرتب کیے۔ جو ہنوز جاری ہیں۔ واقعہ کربلا کے پس منظر، عوامل اور تفصیلات میں تاریخی بنیادوں پر اہل سنت و جماعت اور اہل تشیع کے درمیان کئی باتوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس بات پر سبھی متفق ہیں کہ یہ واقعہ 10 محرم 61ھ کو کربلا میں پیش آیا، اور اس میں حسین ابن علی اور ان کے اصحاب کو قتل کیا گیا۔ اس مضمون میں واقعہ کربلا کے اعداد و شمار بیان کیے گئے ہیں۔

2024/ہفتہ 29 [ترمیم]

لفظ تفسیر عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ فسر ہے۔ یہ باب تفعیل کا مصدر ہے اس کے معنی ہیں واضح کرنا، کھول کر بیان کرنا، وضاحت کرنا، مراد بتانا اور بے حجاب کرنا ہے۔ اسلامی اصطلاح میں مسلمان قرآن کی تشریح و وضاحت کے علم کو تفسیر کہتے ہیں اور تفسیر کرنے والے کو مفسر۔ ایک عربی آن لائن لغت میں [ لفظ فسر] کا اندراج۔ اسی عربی لفظ فسر سے، اردو زبان میں، تفسیر کے ساتھ ساتھ ديگر متعلقہ الفاظ بھی بنائے جاتے ہیں جیسے؛ مُفسَر، مُفَسِّر اور مُفَسّر وغیرہ ایک اردو لغت میں [ مُفسَر]، [ مُفَسِّر] اور [ مُفَسّــَر] کا اندراج۔ تفسیر کی جمع تفاسیر کی جاتی ہے اور مفسر کی جمع مفسرین آتی ہے۔۔۔۔

وہ علم جس سے قرآن کو سمجھا جاتا ہے۔ اس علم سے قرآن کے معانی کا بیان، اس کے استخراج کا بیان، اس کے احکام کا استخراج معلوم کیا جاتا ہے۔ اور اس سلسلے میں لغت، نحو، صرف، معانی و بیان وغیرہ سے مدد لی جاتی ہے۔ اس میں اسباب نزول، ناسخ و منسوخ سے بھی مدد لی جاتی ہے۔ علامہ امبہانی کہتے ہیں: تفسیر اصطلاح علما میں قرآن کریم کے معانی اور اس کی مراد کو واضح کرنے اور بیان کرنے کو کہتے ہیں، خواہ باعتبار حل الفاظ مشکل ہو یا باعتبار معنی ظاہر ہو یا خفی اور تاویل کلام تام اور جملوں کا مفہوم متعین کرنے کو کہتے ہیں۔

2024/ہفتہ 30 [ترمیم]

ببر شیر جنس پینتھرا میں موجود پانچ بڑی بلیوں میں شامل خاندان گربہ کا رکن ہے۔ افریقی شیروں کی عام مستعمل اصطلاح سے مراد افریقہ کی ذیلی ببرشیروں کی انواع (species) ہیں۔ بعض شیروں کا وزن ڈھائی سو کلو گرام سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے اور اس لحاظ سے یہ شیرکے بعد دوسری بڑی بلی ہے۔ جنگلی ببر شیر افریقا کے نیم صحارا علاقوں اور ایشیا (جو بھارتی گیر فورسٹ نیشنل پارک میں پائی جاتی ہے اور اس علاقے میں یہ معدومی کے خطرے سے دوچار ہے) جبکہ ببر شیروں کی دیگر انواع شمالی افریقہ اور جنوب مغربی ایشیا سے بہت پہلے غائب ہو چکی ہیں۔ آج سے دس ہزار سال قبل پیلسٹوسین ادوار کے اواخر میں ببر شیر ہی انسان کے بعد سب سے زیادہ خشکی کے رقبے پر پھیلا ہوا ممالیہ تھا۔ اس زمانے میں یہ تقریباً تمام افریقا، تمام یوریشیا مغربی یورپ سے ہندوستان اور امریکا میں يوكون سے پیرو تک پایا جاتا تھا۔ ببر شیر معدومی کے خطرے سے دوچار جانور ہے اور افریقی خطے میں بیسویں صدی کے دوسرے حصے میں اس کی آبادی میں 30 سے 50 فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی۔ شیروں کی آبادی قومی پارکوں اور غیر محفوظ علاقوں میں غیر مستحکم ثابت ہوتی ہے۔اگرچہ اس کے معدوم ہونے کی وجوہات مکمل طور پرسمجھی نہیں جاسکیں لیکن مسکن سے محروم ہونا اور انسان سے سامنا ہونا جیسے امور عہد حاضر میں خطرے کی اہم وجوہات میں سے ہیں۔ افریقہ میں مغربی افریقی ببر شیروں کی آبادی معدومی کے خطرے سے دوچار ہے۔

جنگلوں میں نر ببر شیر اکثر اوقات صرف دس تا چودہ سال جی سکتے ہیں کیونکہ حریف نر شیروں سے ان کا مقابلہ ہوتا رہتا ہے لہذا چوٹ لگنے سے ان کی طول عمری کی گنجائش کم ہی رہتی ہے۔ جبکہ انسانی تحویل میں یہ 20 سال کی زندگی پا سکتے ہیں۔

2024/ہفتہ 31 [ترمیم]

مغل اعظم 1960ء میں بھارت میں بننے والی ایک تاریخی دور ڈراما فلم ہے۔ اس کے ہدایت کار اور پروڈیوسر کے آصف تھے۔ اس کے اہم اداکاروں میں پرتھوی راج کپور، درگا کھوٹے، دلیپ کمار اور مدھوبالا شامل تھے۔ اس فلم میں مغل شہزادہ سلیم، جو بعد میں نورالدین جہانگیر کے نام سے شہنشاہ بنے اور ایک درباری رقاصہ انارکلی کے عشق کو فلمایا گیا ہے۔ فلم میں شہزادہ سلیم کے والد جلال الدین اکبر اس تعلق کو ناپسند کرتے ہیں، جس کی وجہ سے دونوں باپ اور بیٹے کے بیچ جنگ بھی ہوتی ہے۔

اس فلم پر کام کا آغاز کے آصف نے 1944ء میں اس وقت شروع کیا، جب انھوں نے شہنشاہ اکبر (1556 سے 1605) کے دور حکومت کے دوران میں پیش آنے والے اس واقعے کے بارے میں ایک ڈراما میں پڑھا۔ مغل اعظم اپنے وقت کی مہنگی ترین فلم تھی۔ اس سے پہلے بھارتی سنیما میں اس سے زیادہ لاگت کی فلم نہیں بنی تھی۔ اس فلم کے ایک گانے کا بجٹ اس دور میں بننے والی ایک پوری فلم کے بجٹ سے بھی زیادہ تھا۔ اس فلم میں 12 گانے شامل ہیں۔ ان گانوں کو لتا منگیشکر کے ساتھ محمد رفیع، شمشاد بیگم اور کلاسیکل گلوکار استاد بڑے غلام علی خان نے گایا ہے۔ اس فلم کو موسیقی کے لحاظ سے بھی بالی وڈ کی بہترین فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ مغل اعظم کو اُس دور میں کسی بھی فلم کے حوالے سے سب سے زیادہ سینماؤں میں ریلیز کیا گیا۔ اس فلم کے شائقین نے کئی دنوں تک لائن میں لگ کر فلم کے ٹکٹ بھی خریدے تھے۔5 اگست 1960ء کو ریلیز ہونے والی فلم مغل اعظم نے بھارتی فلمی تاریخ کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم بن گئی۔

2024/ہفتہ 32 [ترمیم]

مدینہ یا مدینہ منورہ (عربی: اَلْمَدِينَة اَلْمَنَوَّرَة)، مغربی سعودی عرب کے حجاز کے علاقے میں صوبہ مدینہ کا دار الحکومت ہے۔ اسلام کے مقدس ترین شہروں میں سے ایک ہے، 2022ء کی تخمینہ شدہ آبادی 1,411,599 ہے، آبادی کا تقریباً 58.5% سعودی شہری ہیں اور 41.5% غیر ملکی ہیں۔ ملک کے مغربی علاقوں میں صوبہ مدینہ کے مرکز میں واقع یہ شہر 589 مربع کلومیٹر (227 مربع میل) میں تقسیم ہے۔ جن میں سے 293 مربع کلومیٹر (113 مربع میل) شہر کا شہری علاقہ بناتا ہے، جبکہ باقی حصہ حجاز کے پہاڑوں، خالی وادیوں، زرعی جگہوں اور پرانے غیر فعال آتش فشاں کے زیر قبضہ ہے۔

مدینہ کو عام طور پر " اسلامی ثقافت اور تہذیب کا گہوارہ" سمجھا جاتا ہے۔ اس شہر کو اسلامی روایت کے تین اہم شہروں میں دوسرا مقدس ترین سمجھا جاتا ہے، بالترتیب مکہ، مدینہ اور یروشلم۔ المسجد النبوی (بعد میں مسجد نبوی) اسلام میں اہمیت کی حامل ہے اور آخری اسلامی پیغمبر محمد کی تدفین کی جگہ بھی ہے، یہ مسجد 622 عیسوی میں تعمیر کی گئی تھی۔ مسلمان عام طور پر اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار ان کے روضہ پر جاتے ہیں جسے زیارت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسلام کی آمد سے پہلے اس شہر کا اصل نام یثرب (عربی: يَثْرِب) تھا اور قرآن میں پارہ 33 (الاحزاب، شعاع) میں اس نام سے ذکر کیا گیا ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس کا نام مدینہ النبی (پیغمبر کا شہر) رکھ دیا گیا اور بعد میں اسے آسان اور مختصر کرنے سے پہلے المدینہ المنورہ (روشنی والا شہر) رکھ دیا گیا۔ اس کے جدید نام، مدینہ ( شہر)، جس سے اردو زبان میں "شہر" کا ہجے ماخوذ ہے۔ سعودی سڑک کے اشاروں پر مدینہ اور المدینہ المنورہ استعمال کرتے ہیں۔

2024/ہفتہ 33 [ترمیم]
بھارت کا قومی پرچم

بھارت کا قومی پرچم تین مختلف رنگوں کی افقی مستطیل پٹیوں پر مشتمل ہے، جو زعفرانی، سفید اور سبز رنگوں کی ہیں۔ اس پرچم کے درمیان میں نیلے رنگ کا اشوک چکر ہے جو وسطی سفید پٹی پر نظر آتا ہے۔ اس پرچم کو ڈومنین بھارت کے اجلاس مورخہ 22 جولائی، 1947ء کے موقع پر اختیار کیا گیا اور بعد ازاں جمہوریہ بھارت کے قومی پرچم کے طور پر اسے برقرار رکھا گیا۔ بھارت میں لفظ ترنگا (ہندی: तिरंगा) سے مراد ہمیشہ اسی پرچم کو لیا جاتا ہے۔ یہ پرچم سوراج کے جھنڈے سے مشابہت رکھتا ہے جو انڈین نیشنل کانگریس کا جھنڈا تھا اور اس کے خالق پینگالی ونکایا تھے۔م

گاندھی کی خواہش کو دیکھتے ہوئے قانونی طور پر اس جھنڈے کو کھادی (ہاتھوں سے بُنا گیا کپڑا) اور ریشم کے کپڑے سے بنایا جاتا ہے۔ اس جھنڈے کو بنانے کے مراحل کی نگرانی بیورو آف انڈین سٹینڈرڈ کرتا ہے۔ اسے بنانے کے حقوق کھادی ڈیولپمنٹ اینڈ لیج انڈسٹریز کمیشن مختلف علاقوں کو جاری کرتا ہے۔ سنہ 2009ء تک کرناٹک کھادی گرام ادیوگ سنیوکتا سنگھ ہی اس جھنڈے کو بنانے والی واحد کمپنی تھی۔

بھارتی قانون کے مطابق اس پرچم کے استعمال کے قواعد مقرر ہیں جو دیگر قومی علامات پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق عام شہری اسے صرف قومی دن جیسے یوم آزادی اور یوم جمہوریہ وغیرہ پر لہرا سکتے ہیں۔ سنہ 2002ء میں ایک شہری ناوین جندل کی درخواست پر بھارتی عدالت عظمی نے حکومت بھارت کو حکم دیا کہ وہ عام شہریوں کو پرچم کے استعمال میں رعایت دیں۔ اس پر یونین کیبنٹ نے شہریوں کو بعض حدود میں اسے استعمال کرنے کی رعایت فراہم کی۔ 2005ء میں قانون میں ترمیم کرتے ہوئے اس پرچم کو کچھ خاص قسم کے کپڑوں سے تیار کرنے کی اجازت دی گئی۔ فلیگ کوڈ اس قومی پرچم کے لہرانے اور خصوصاً دیگر قومی اور غیر قومی پرچموں کے ساتھ اسے لہرانے کے اصول و ضوابط بیان کرتا ہے۔

2024/ہفتہ 34 [ترمیم]

اربعین یا چہلم یا چالیسواں ایک شیعی مذہبی تہوار ہے۔ اس تہوار کو ہر سال یوم عاشورہ کے چالیس دن بعد منایا جاتا ہے۔ اس تہوار کا مقصد پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے حسین ابن علی کی شہادت کی یاد منانا ہے جو ماہ صفر کی بیسویں تاریخ کو منایا جاتا ہے۔ حسین ابن علی اور ان کے 72 رفقا 61ھ (680ء) میں کربلا کی جنگ میں یزید بن معاویہ کی فوج کے ہاتھوں شہید ہوئے تھے۔ اربعین یا چالیسواں سے مراد عام لوگ جو اپنے عزیز کے وفات کے چالیسویں دن سوگ اور خیرات کے ذریعے یاد مناتے ہیں، بھی ہے۔ اربعین کے دن دنیا کے سب سے بڑے انسانی اجتماع کا انعقاد بھی ہوتا ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس دن پانچ کروڑ لوگ کربلا، عراق میں زیارت اربعین پڑھنے اور یاد شہداء میں ماتم کرنے پہنچتے ہیں۔

2024/ہفتہ 35 [ترمیم]

ویکیپیڈیا:منتخب مضامین/2024/ہفتہ 35

2024/ہفتہ 36 [ترمیم]

جمعیۃ علماء ہند بھارتی مسلمانوں کی ایک متحرک و فعال تنظیم ہے، جس میں فی الحال دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھنے علماء زیادہ فعال ہیں۔ نومبر 1919ء میں اس کی بنیاد عبد الباری فرنگی محلی، ابو المحاسن محمد سجاد، کفایت اللہ دہلوی، عبد القادر بدایونی، سلامت اللہ فرنگی محلی، انیس نگرامی، احمد سعید دہلوی، ابراہیم دربھنگوی، محمد اکرام خان کلکتوی، محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اور ثناء اللہ امرتسری سمیت علمائے کرام کی ایک جماعت نے رکھی تھی۔ جمعیت نے انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ مل کر تحریک خلافت میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ اس نے متحدہ قومیت کا موقف اختیار کرتے ہوئے تقسیم ہند کی مخالفت کی اور یہ موقف اپنایا کہ ہندوستان کے مسلمان اور غیر مسلم ایک ہی قوم کی تشکیل کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں جمعیت کے ایک مختصر حصے نے جمعیۃ علماء اسلام کے نام سے علاحدہ ہو کر تحریک پاکستان کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا۔ جمعیت کے آئین کا مسودہ کفایت اللہ دہلوی نے تیار کیا تھا۔

آزادی ہند کے بعد جمعیت نے اپنی سرگرمیوں میں تنوع اختیار کیا اور زیادہ تر رفاہی میدانوں میں متحرک رہی۔ جمعیت کی اب پورے ہندوستان میں ریاستی اکائیاں ہیں، مثلاً: جمعیۃ علماء آسام، جمعیۃ علماء بہار، جمعیۃ علماء جھارکھنڈ، جمعیۃ علماء کرناٹک، جمعیۃ علماء مدھیہ پردیش، جمعیۃ علماء مہاراشٹر، جمعیۃ علماء راجستھان، جمعیۃ علماء اترپردیش، جمعیۃ علماء اتراکھنڈ، جمعیۃ علماء تلنگانہ، جمعیۃ علماء مغربی بنگال اور جمعیۃ علماء اڈیشا۔

2024/ہفتہ 37 [ترمیم]

اُردُو، برصغیر پاک و ہند کی معیاری زبانوں میں سے ایک ہے۔ یہ پاکستان کی قومی اور رابطہ عامہ کی زبان ہے، جبکہ بھارت کی چھ ریاستوں کی دفتری زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ آئین ہند کے مطابق اسے 22 دفتری شناخت شدہ زبانوں میں شامل کیا جا چکا ہے۔ 2001ء کی مردم شماری کے مطابق اردو کو بطور مادری زبان بھارت میں 5.01 فیصد لوگ بولتے ہیں اور اس لحاظ سے ہی بھارت کی چھٹی بڑی زبان ہے جبکہ پاکستان میں اسے بطور مادری زبان 7.59 فیصد لوگ استعمال کرتے ہیں، یہ پاکستان کی پانچویں بڑی زبان ہے۔ اردو تاریخی طور پر ہندوستان کی مسلم آبادی سے جڑی ہے۔ زبانِ اردو کو پہچان و ترقی اس وقت ملی جب برطانوی دور میں انگریز حکمرانوں نے اسے فارسی کی بجائے انگریزی کے ساتھ شمالی ہندوستان کے علاقوں اور جموں و کشمیر میں اسے 1846ء اور پنجاب میں 1849ء میں بطور دفتری زبان نافذ کیا۔ اس کے علاوہ خلیجی، یورپی، ایشیائی اور امریکی علاقوں میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے جو بنیادی طور پر جنوبی ایشیاء سے کوچ کرنے والے اہلِ اردو ہیں۔ 1999ء کے اعداد و شمار کے مطابق اردو زبان کے مجموعی متکلمین کی تعداد دس کروڑ ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کی نویں بڑی زبان ہے۔ اردو زبان کو کئی ہندوستانی ریاستوں میں سرکاری حیثیت بھی حاصل ہے۔

اٹھارویں صدی میں اردو ایک ادبی زبان بن گئی اور اس کی دو معیاری شکلیں دہلی اور لکھنؤ میں وجود میں آئیں۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد سے پاکستانی شہر کراچی میں ایک تیسرا معیار پیدا ہوا ہے۔ دکنی، ایک پرانی اردو کی شکل ہے جو دکن میں استعمال ہوتی تھی، سولہویں صدی تک دکن سلاطین کی درباری زبان بن گئی۔

2024/ہفتہ 38 [ترمیم]

ماسکو روس کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ شہر وسطی روس میں دریائے ماسکوا کے کنارے واقع ہے، جس کی آبادی کا تخمینہ شہر کی حدود میں 13.0 ملین رہائشیوں پر ہے اور میٹروپولیٹن علاقے میں 21.5 ملین سے زیادہ رہائشی ہیں۔ یہ شہر 2,511 مربع کلومیٹر (970 مربع میل) کے رقبے پر محیط ہے، جبکہ شہری علاقہ 5,891 مربع کلومیٹر (2,275 مربع میل) پر محیط ہے اور میٹروپولیٹن علاقہ 26,000 مربع کلومیٹر (10,000 مربع میل) پر محیط ہے۔ ماسکو دنیا کے سب سے بڑے شہروں میں سے ایک ہے، مکمل طور پر یورپ میں سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہونے کے ناطے، یورپ کا بڑا شہری اور میٹروپولیٹن علاقہ ہے اور یورپی براعظم پر زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے۔

سب سے پہلے 1147ء میں دستاویز کیا گیا، ماسکو ایک خوشحال اور طاقتور شہر بن گیا جس نے ماسکو کی گرینڈ ڈچی کے دار الحکومت کے طور پر کام کیا۔ جب روسی زار شاہی کا اعلان ہوا تو ماسکو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاسی اور اقتصادی مرکز رہا۔ پطرس اعظم کے دور حکومت میں، روسی دار الحکومت کو 1712ء میں نئے قائم ہونے والے شہر سینٹ پیٹرز برگ میں منتقل کر دیا گیا، جس سے ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو گیا۔ انقلاب روس اور روسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہ کے قیام کے بعد، دار الحکومت 1918ء میں ماسکو واپس چلا گیا، جہاں یہ بعد میں سوویت یونین کا سیاسی مرکز بن گیا۔ سوویت اتحاد کی تحلیل کے بعد، ماسکو نئے قائم کردہ روسی وفاق کا دار الحکومت رہا۔


2024/ہفتہ 39 [ترمیم]

ترکیہ بنیادی طور پر مغربی ایشیا میں اناطولیہ میں ایک ملک ہے، جس کا ایک چھوٹا حصہ جنوب مشرقی یورپ میں مشرقی تھریس کہلاتا ہے۔ اس کی سرحد شمال میں بحیرہ اسود سے ملتی ہے۔ مشرق میں جارجیا، آرمینیا، آذربائیجان اور جنوب میں ایران، عراق، سوریہ، اور بحیرہ روم (اور قبرص)؛ اور مغرب میں بحیرہ ایجیئن، یونان اور بلغاریہ سے ملتی ہے۔ ترکیہ 85 ملین سے زیادہ لوگوں کا گھر ہے۔ زیادہ تر نسلی ترک ہیں، جبکہ نسلی کرد سب سے بڑی نسلی اقلیت ہیں۔ سرکاری طور پر ایک سیکولر ریاست، ترکیہ میں مسلم اکثریتی آبادی ہے۔ انقرہ ترکیہ کا دار الحکومت اور دوسرا بڑا شہر ہے۔ استنبول اس کا سب سے بڑا شہر ہے، اور اس کا اقتصادی اور مالیاتی مرکز، نیز یورپ کا بھی سب سے بڑا شہر ہے۔ دیگر بڑے شہروں میں ازمیر، بورصہ اور انطالیہ شامل ہیں۔

انسانی رہائش کا آغاز بالائی قدیم سنگی دور اواخر میں ہوا تھا۔ گوبیکلی تپہ جیسے اہم سنگی دور مقامات کا گھر اور کچھ قدیم ترین کاشتکاری والے علاقے، موجودہ ترکیہ میں مختلف قدیم لوگ آباد تھے۔ حتییوں کو اناطولیہ کے لوگوں نے ضم کر لیا تھا۔ کلاسیکی اناطولیہ میں سکندر اعظم کی فتوحات کے بعد ثقافتی ہیلنائزیشن میں تبدیل ہوا؛ ہیلنائزیشن رومی اور بازنطینی دور میں جاری رہی۔ سلجوق ترکوں نے گیارہویں صدی میں اناطولیہ کی طرف ہجرت شروع کر دی، جس سے ترک‌ سازی کا عمل شروع ہوا۔ سلاجقہ روم نے 1243ء میں منگول حملے تک اناطولیہ پر حکومت کی، جب یہ ترکی کی سلطنتوں میں بٹ گئی۔ 1299ء میں شروع ہو کر، عثمانیوں نے سلطنتوں کو متحد کیا اور توسیع کی۔ محمد فاتح نے 1453ء میں استنبول کو فتح کیا۔ سلیم اول اور سلیمان اول کے دور میں، سلطنت عثمانیہ ایک عالمی طاقت بن گئی۔ 1789ء کے بعد سے، سلطنت نے بڑی تبدیلی، اصلاحات اور مرکزیت دیکھی جب کہ اس کے علاقے میں کمی واقع ہوئی۔

ترکیہ ایک اعلیٰ متوسط آمدنی والا اور ابھرتا ہوا ملک ہے۔ اس کی معیشت برائے نام کے لحاظ سے دنیا کی 18 ویں سب سے بڑی اور مساوی قوت خرید کے مطابق خام ملکی پیداوار کے لحاظ سے 11 ویں سب سے بڑی ہے۔ یہ ایک وحدانی صدارتی جمہوریہ ہے۔ ترکیہ انجمن اقتصادی تعاون و ترقی، جی 20، اور ترک ریاستوں کی تنظیم کا بانی رکن ہے۔

2024/ہفتہ 40 [ترمیم]

مراکش المغرب کا چوتھا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ المغرب کے چار شاہی شہروں میں سے ایک ہے اور مراکش آسفی علاقے کا دار الحکومت ہے۔ یہ شہر سلسلہ کوہ اطلس کے دامن کے مغرب میں واقع ہے۔ اس شہر کی بنیاد 1070ء میں امیر ابو بکر عمر المتونی نے دولت مرابطین کے دار الحکومت کے طور پر رکھی تھی۔ دولت مرابطین نے شہر میں پہلی بڑی تعمیرات قائم کیں اور آنے والی صدیوں تک اس کی ترتیب کو تشکیل دیا۔ 1122-1123ء میں علی بن یوسف کے ذریعہ تعمیر کردہ شہر کی سرخ دیواریں اور اس کے بعد سرخ ریت کے پتھروں میں تعمیر کی گئی مختلف عمارتوں نے اس شہر کو "سرخ شہر" (المدینة الحمراء المدینات الحمراء) کا عرفی نام دیا ہے۔ مراکش نے تیزی سے ترقی کی اور المغرب العربی کے لیے ایک ثقافتی، مذہبی اور تجارتی مرکز کے طور پر خود کو قائم کیا۔

زوال کی ایک مدت کے بعد، شہر کو فاس سے پیچھے رہ گیا۔ مراکش نے سولہویں صدی کے اوائل میں سعدی خاندان کے دار الحکومت کے طور پر کام کرتے ہوئے اپنی برتری حاصل کی، سلطان عبد اللہ الغالب اور احمد المنصور نے شہر کو شاندار عمارتوں سے مزین کیا، محلات جیسے قصر البدیع (1578) اور بہت سی تباہ شدہ یادگاروں کی بحالی کی۔ سترہویں صدی کے آغاز سے، یہ شہر تصوف زائرین میں اپنے سات اولیا کی وجہ سے مقبول ہوا جو شہر کے محلوں میں مدفون ہیں۔ 1912ء میں فرانسیسی زیر حمایت المغرب قائم کیا گیا اور تہامی الکلاوی مراکش کا پاشا بن گیا اور المغرب کی آزادی اور 1956ء میں بادشاہت کے دوبارہ قیام پر یہ کردار تحلیل ہونے تک تقریباً پورے محافظوں میں اس عہدے پر فائز رہا۔

2024/ہفتہ 41 [ترمیم]

المغرب شمالی افریقا کے خطے المغرب العربی میں واقع ایک ملک ہے جس کے شمال میں بحیرہ روم اور مغرب میں بحر اوقیانوس بہتا ہے اور اس کی زمینی سرحدیں مشرق میں الجزائر اور جنوب میں مغربی صحارا کے متنازع علاقے سے ملتی ہیں۔ اس کی آبادی تقریباً 37 ملین ہے، سرکاری اور غالب مذہب اسلام ہے اور سرکاری زبانیں عربی اور بربر ہیں۔ فرانسیسی اور عربی کا لہجہ المغربی عربی بھی بڑے پیمانے پر بولی جاتی ہے۔ المغرب کی شناخت اور عرب ثقافت، بربر، افریقی اور یورپی ثقافتوں کا مرکب ہے۔ اس کا دار الحکومت رباط ہے، جبکہ اس کا سب سے بڑا شہر دار البیضا (کاسابلانکا) ہے۔

المغرب پر مشتمل خطہ 300,000 سال قبل قدیم سنگی دور کے وقت سے آباد ہے۔ ادریسی سلطنت کو ادریس اول نے 788ء میں قائم کیا تھا اور اس کے بعد دیگر آزاد سلسلہ شاہی کی ایک سیریز نے حکومت کی تھی، گیارہویں اور بارہویں صدیوں میں دولت مرابطین اور دولت موحدین کے خاندانوں کے تحت ایک علاقائی طاقت کے طور پر اپنے عروج پر پہنچنا، جب اس نے جزیرہ نما آئبیریا اور المغرب العربي کو کنٹرول کیا۔ ساتویں صدی سے المغرب العربي کی طرف عربوں کی ہجرت کی صدیوں نے علاقے کی آبادی کا دائرہ تبدیل کر دیا، پرتگیزی سلطنت نے کچھ علاقے پر قبضہ کر لیا اور سلطنت عثمانیہ نے مشرق سے تجاوز کیا۔ مرین سلسلہ شاہی اور سعدی سلسلہ شاہی نے دوسری صورت میں غیر ملکی تسلط کے خلاف مزاحمت کی، اور المغرب واحد شمالی افریقی ملک تھا جو عثمانی تسلط سے بچ گیا۔ علوی شاہی سلسلہ جو آج تک ملک پر حکومت کرتا ہے، نے 1631ء میں اقتدار پر قبضہ کر لیا اور اگلی دو صدیوں میں مغربی دنیا کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات کو وسعت دی۔

آزادی کے بعد سے، المغرب نسبتاً مستحکم رہا ہے۔ یہ افریقا میں پانچویں سب سے بڑی معیشت ہے اور افریقا اور عرب دنیا دونوں میں نمایاں اثر و رسوخ رکھتا ہے؛ اسے عالمی معاملات میں ایک درمیانی طاقت سمجھا جاتا ہے اور عرب لیگ، مغرب عربی اتحاد، بحیرہ روم کا اتحاد اور افریقی یونین میں رکنیت رکھتا ہے۔

2024/ہفتہ 42 [ترمیم]

غزّہ جسے غزہ شہر بھی کہا جاتا ہے، غزہ پٹی کے شمال میں واقع ایک فلسطینی شہر ہے جو 2023ء کی اسرائیل حماس جنگ سے پہلے 2017ء میں 590,481 نفوس پر مشتمل دولت فلسطین کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر اور فلسطینیوں کی سب سے بڑی بستی تھی۔ غزہ شہر بحیرہ روم کے مشرقی ساحل کے جنوبی کنارے پر اور یروشلم سے 78 کلومیٹر کی مسافت پر اس کے جنوب مغربی سمت پر آباد ہے۔ انتظامی لحاظ سے یہ شہر محافظہ غزہ کا مرکز بھی ہے۔ شہر کا کل رقبہ محض 56 مربع کلومیٹر پر محیط ہے جس کی بنیاد پر یہ گنجان آبادی والے شہروں میں سر فہرست سمجھا جاتا ہے۔ 2023ء اسرائیل-حماس جنگ سے پہلے، یہ دولت فلسطین کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر تھا، لیکن جنگ کے دوران بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی۔

کم از کم پندرہویں صدی ق م سے آباد اس شہر غزہ پر اس کی پوری تاریخ میں مختلف قوموں اور سلطنتوں کا غلبہ رہا ہے۔ قدیم مصریوں نے تقریباً 350 سال تک اس پر حکومت کی، اس کے بعد فلسطی قوم نے اسے اپنے فلسطیا کا حصہ بنا لیا۔ رومی سلطنت کے تحت غزہ نسبتاً مامون رہا اور اس زمانہ میں اس کی بندرگاہ کو فروغ نصیب ہوا۔ 635 عیسوی میں یہ خطۂ فلسطین کا وہ پہلا شہر بنا جسے خلافت راشدہ کی فوج نے فتح کیا اور اس کے بعد جلد ہی اس شہر نے اسلامی قانون کے ایک مرکز کی حیثیت سے ترقی کی۔ تاہم جب 1099ء میں یہاں صلیبی ریاست قائم ہوئی تو غزہ تباہ حال تھا۔ بعد کی صدیوں میں غزہ کو منگول حملوں سے لے کر شدید سیلاب اور ٹڈیوں کے غول تک کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سولہویں صدی تک آتے آتے یہ شہر ایک گاؤں میں تبدیل ہو گیا اور اس دوران میں یہ شہر سلطنت عثمانیہ کا حصہ بن گیا۔ سلطنت عثمانیہ کے دور حکومت کے نصف اول میں رضوان خاندان غزہ پر حاکم تھا۔ اس وقت یہ شہر تجارت کا مرکز تھا اور یہاں امن و خوش حالی عام تھی۔ غزہ کی بلدیہ 1893ء میں قائم ہوئی۔

2024/ہفتہ 43 [ترمیم]

ایتھنز، بحیرہ روم میں ایک ساحلی شہر ہے اور یونان کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔ چالیس لاکھ کے قریب آبادی کے ساتھ یہ یورپی یونین کا ساتواں بڑا شہر بھی ہے۔ یہ آتیکا علاقہ کا دار الحکومت اور اس کا غالب شہر ہے اور یہ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ اور اس کی ابتدائی انسانی موجودگی گیارہویں اور ساتویں صدی قبل مسیح کے درمیان میں کہیں شروع ہوتی ہے۔

کلاسیکی ایتھنز ایک طاقتور پولس (شہر ریاست) تھی۔ یہ فنون اور فلسفہ سیکھنے کی افلاطون کی اکادمی اور ارسطو کی لیکیون (لائسیم) کا گھر تھا۔ ایتھنز سقراط، افلاطون، پیری کلیز، ارسطوفینں، سوفوکلیز، اور قدیم دنیا کے بہت سے دوسرے ممتاز فلسفیوں، ادیبوں اور سیاست دانوں کی جائے پیدائش بھی تھی۔ اسے وسیع پیمانے پر مغربی تہذیب کا گہوارہ اور جمہوریت کی جائے پیدائش کہا جاتا ہے، جس کی وجہ زیادہ تر یورپی براعظم پر اس کے ثقافتی اور سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے خاص طور پر قدیم روم میں۔ جدید دور میں، ایتھنز ایک بڑا کاسموپولیٹن میٹروپولس ہے اور یونان میں اقتصادی، مالیاتی، صنعتی، سمندری، سیاسی اور ثقافتی زندگی کا مرکز ہے۔ 2021ء میں ایتھنز کے شہری علاقے نے ساڑھے تین ملین سے زیادہ لوگوں کی میزبانی کی، جو یونان کی پوری آبادی کا تقریباً 35 فیصد ہے۔

2024/ہفتہ 44 [ترمیم]

واشنگٹن، ڈی سی، باضابطہ طور پر ڈسٹرکٹ آف کولمبیا اور عام طور پر واشنگٹن یا ڈی سی کے نام سے جانا جاتا ہے، ریاست ہائے متحدہ کا دار الحکومت اور وفاقی ضلع ہے۔ یہ شہر دریائے پوٹومیک کے مشرقی کنارے پر واقع ہے، جو ورجینیا کے ساتھ اپنی جنوب مغربی سرحد بناتا ہے اور اس کے شمال اور مشرق میں میری لینڈ کی سرحدیں ملتی ہیں۔ اس شہر کا نام جارج واشنگٹن، ایک بانائے، امریکی انقلاب میں کانٹی نینٹل آرمی کے کمانڈنگ جنرل اور ریاستہائے متحدہ کے پہلے صدر کے لیے رکھا گیا تھا، اور ضلع کا نام کولمبیا کے لیے رکھا گیا ہے، جو قوم کی خواتین کی تجسیم ہے۔

واشنگٹن، ڈی سی شمال مشرقی میگالوپولیس کے جنوبی نقطہ کی نمائندگی کرتا ہے، جو ملک کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ بااثر ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی خطوں میں سے ایک ہے جو اس کے شمال مشرقی ساحل کے ساتھ شمال میں بوسٹن سے جنوب میں واشنگٹن، ڈی سی تک چلتا ہے اور اس میں نیو یارک شہر، فلاڈیلفیا، پنسلوانیا اور بالٹیمور، میری لینڈ، امریکی وفاقی حکومت بھی شامل ہیں۔ بین الاقوامی تنظیموں کی نشست کے طور پر، یہ شہر ایک اہم عالمی سیاسی دار الحکومت ہے۔ یہ 2016ء تک 20 ملین سے زیادہ سالانہ زائرین کے ساتھ ریاست ہائے متحدہ کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے شہروں میں سے ایک ہے۔

شہر کواڈرنٹس میں تقسیم کیا گیا ہے، جو ریاستہائے متحدہ کیپٹل کے ارد گرد مرکز ہیں اور اس میں 131 محلے شامل ہیں۔ 2020ء کی مردم شماری کے مطابق، اس شہر کی آبادی 689,545 تھی، جو اسے ریاست ہائے متحدہ کا 23 واں سب سے زیادہ آبادی والا شہر بناتا ہے، جیکسن ویل، فلوریڈا اور شارلٹ، شمالی کیرولائنا کے بعد جنوب مشرق میں تیسرا سب سے زیادہ آبادی والا شہر اور تیسرا سب سے زیادہ آبادی والا شہر بناتا ہے۔

2024/ہفتہ 45 [ترمیم]

روما جسے انگریزی زبان میں روم کہا جاتا ہے اور یہی نام دنیا میں عمومی طور پر مستعمل ہے۔ یہ اطالیہ کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ ایک خاص کمونے جس کا نام کمونے دی روما کیپیٹلے ہے۔ 1,285 کلومیٹر 2 (496.1 مربع میل) میں 2,860,009 رہائشیوں کے ساتھ، روم ملک کا سب سے زیادہ آبادی والا کمونے اور یورپی یونین کا تیسرا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ دار الحکومت روم کا میٹروپولیٹن شہر، جس کی آبادی 4,355,725 رہائشیوں پر مشتمل ہے، اطالیہ کا سب سے زیادہ آبادی والا میٹروپولیٹن شہر ہے۔ روم اطالوی جزیرہ نما کے وسط مغربی حصے میں، لاتزیو کے اندر، دریائے ٹائبر کے ساحلوں کے ساتھ واقع ہے۔ ویٹیکن سٹی (دنیا کا سب سے چھوٹا ملک)، روم کی شہری حدود کے اندر ایک آزاد ملک ہے، جو شہر کے اندر کسی ملک کی واحد موجودہ مثال ہے۔ روم کو اس کے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے اکثر سات پہاڑیوں کا شہر کہا جاتا ہے اور اسے "ابدی شہر" بھی کہا جاتا ہے۔ روم کو عام طور پر "مغربی تہذیب اور مسیحی ثقافت کا گہوارہ" اور کاتھولک کلیسیا کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔

روم کی تاریخ 28 صدیوں پر محیط ہے۔ جبکہ رومن اساطیر تقریباً 753 قبل مسیح میں روم کی بنیاد رکھتا ہے، یہ جگہ کافی عرصے سے آباد ہے، جو اسے تقریباً تین ہزار سال سے ایک بڑی انسانی بستی ہے اور یورپ کے سب سے قدیم مسلسل آباد شہروں میں سے ایک ہے۔ شہر کی ابتدائی آبادی لاطینی، اتروسک اور سابین کے مرکب سے پیدا ہوئی۔ آخر کار یہ شہر یکے بعد دیگرے رومی مملکت، رومی جمہوریہ اور رومی سلطنت کا دار الحکومت بن گیا اور بہت سے لوگ اسے پہلا شاہی شہر اور میٹروپولس کے طور پر مانتے ہیں۔ اسے سب سے پہلے ابدی شہر پہلی صدی قبل مسیح میں رومی شاعر ٹِبلس نے کہا تھا اور اس کا اظہار اووید، ورجل اور تیتوس لیویوس نے بھی کیا تھا۔ روم کو "کاپوت موندی" (دنیا کا دار الحکومت) بھی کہا جاتا ہے۔ 2019ء میں روم 8.6 ملین سیاحوں کے ساتھ دنیا کا چودھواں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا شہر تھا، یورپی یونین کا تیسرا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا شہر اور اطالیہ کا سب سے مقبول سیاحتی مقام تھا۔

2024/ہفتہ 46 [ترمیم]

لاس اینجلس اکثر اس کے نام کے ابتدائی حروف ایل اے سے جانا جاتا ہے، ریاست ہائے متحدہ کی ریاست کیلیفورنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ 2020ء تک شہر کی حدود میں تقریباً 3.9 ملین رہائشیوں کے ساتھ، صرف نیویارک شہر کے بعد لاس اینجلس ریاستہائے متحدہ میں دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ یہ جنوبی کیلیفورنیا کا تجارتی، مالیاتی اور ثقافتی مرکز بھی ہے۔ لاس اینجلس میں بحیرہ روم کی آب و ہوا اور نسلی اور ثقافتی لحاظ سے متنوع آبادی ہے، اور یہ 13.2 ملین افراد پر مشتمل میٹروپولیٹن شماریاتی علاقہ کا اہم شہر ہے۔ گریٹر لاس اینجلس، جس میں لاس اینجلس اور ریور سائیڈ–سان برنارڈینو میٹروپولیٹن علاقے شامل ہیں، 18 ملین سے زیادہ رہائشیوں کا ایک وسیع شہر ہے۔

شہر کا زیادہ تر حصہ جنوبی کیلیفورنیا میں ایک طاس میں واقع ہے جو مغرب میں بحر الکاہل سے متصل ہے اور جزوی طور پر سانتا مونیکا پہاڑوں سے ہوتا ہوا شمال میں اس کے مشرق میں وادی سان گیبریل سے متصل شہر کے ساتھ سان فرنینڈو ویلی تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ تقریباً 469 مربع میل (1,210 کلومیٹر2) پر محیط ہے اور لاس اینجلس کاؤنٹی، کیلیفورنیا کی کاؤنٹی نشست ہے، جو 2022ء تک 9.86 ملین رہائشیوں کی ایک اندازے کے ساتھ ریاستہائے متحدہ کی سب سے زیادہ آبادی والی کاؤنٹی ہے۔ یہ 2022ء تک 2.7 ملین سے زیادہ زائرین کے ساتھ ریاست ہائے متحدہ کا چوتھا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا شہر ہے۔

2024/ہفتہ 47 [ترمیم]

سڈنی ریاست نیو ساؤتھ ویلز کا دار الحکومت اور آسٹریلیا کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ آسٹریلیا کے مشرقی ساحل پر واقع، میٹروپولیس سڈنی ہاربر کو گھیرے ہوئے ہے اور مغرب میں بلیو ماؤنٹینز، شمال میں ہاکسبری شہر، رائل نیشنل پارک اور میکارتھر جنوب اور جنوب مغرب میں تقریباً 70 کلومیٹر (43.5 میل) تک پھیلا ہوا ہے۔ گریٹر سڈنی 658 مضافاتی علاقوں پر مشتمل ہے، جو 33 مقامی حکومتی علاقوں میں پھیلا ہوا ہے۔ شہر کے باشندے بول چال میں "سڈنی سائیڈرز" کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ جون 2022ء کو تخمینہ شدہ آبادی 5,297,089 تھی؛ یہ شہر ریاست کی تقریباً 66% آبادی کا گھر ہے۔ شہر کے قابل ذکر عرفی ناموں میں "ایمرلڈ سٹی" اور "ہاربر سٹی" شامل ہیں۔

آسٹریلیا کے مقامی باشندے کم از کم 30,000 سالوں سے گریٹر سڈنی کے علاقے میں آباد ہیں اور ابیوریجنل کندہ کاری اور ثقافتی مقامات پورے گریٹر سڈنی میں عام ہیں۔ اس سرزمین کے روایتی متولی جس پر جدید سڈنی کھڑا ہے، داروگ، دھاروال اور ایورا لوگوں کے قبیلے ہیں۔ 1770ء میں اپنے پہلے بحر الکاہل کے سفر کے دوران، جیمز کک نے آسٹریلیا کے مشرقی ساحل کا نقشہ بنایا، جس نے خلیج بوٹنی پر لینڈ فال کیا۔ 1788ء میں آرتھر فلپ کی قیادت میں مجرموں کے پہلے بیڑے نے سڈنی کو ایک برطانوی تعزیری کالونی کے طور پر قائم کیا، جو آسٹریلیا میں پہلی یورپی بستی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد، سڈنی کو بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا سامنا کرنا پڑا اور 2021ء تک 40 فیصد سے زیادہ آبادی بیرون ملک پیدا ہوئی۔ پیدائشی غیر ملکی ممالک جن میں سب سے زیادہ نمائندگی ہے مین لینڈ چین، ہندوستان، برطانیہ، ویت نام اور فلپائن۔

2024/ہفتہ 48 [ترمیم]

ویکیپیڈیا:منتخب مضامین/2024/ہفتہ 48

2024/ہفتہ 49 [ترمیم]

ویکیپیڈیا:منتخب مضامین/2024/ہفتہ 49

2024/ہفتہ 50 [ترمیم]

ویکیپیڈیا:منتخب مضامین/2024/ہفتہ 50

2024/ہفتہ 51 [ترمیم]

ویکیپیڈیا:منتخب مضامین/2024/ہفتہ 51

2024/ہفتہ 52 [ترمیم]

ویکیپیڈیا:منتخب مضامین/2024/ہفتہ 52