زینب بنت خزیمہ
زینب بنت خزیمہ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 595ء [1] مکہ [1] |
وفات | سنہ 625ء (29–30 سال)[2][3] مدینہ منورہ |
مدفن | جنت البقیع |
شریک حیات | محمد بن عبداللہ (625–625)[2][3] عبیدہ ابن حارث (–624)[2] |
والدہ | ہند بنت عوف بن زہیر |
بہن/بھائی | |
درستی - ترمیم |
حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (26ق.ھ / 4ھ) (عربی: زينب بنت خزيمة، ام المساکین، مساکین کی ماں[4]) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج میں سے پانچویں زوجہ تھیں۔آپ رضی اللہ عنہا بچپن ہی سے بہت سخی تھیں غریبوں اور مسکینوں کو ڈھونڈ ڈھونڈکر کھانا کھلایا کرتی تھیں اس لیے لوگ ان کو ،،ام المساکین،، (مسکینوں کی ماں) کہا کرتے تھے پہلے مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کا نکاح ہوا تھا لیکن جب وہ جنگ احد میں شہید ہو گئے تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے 3ھ میں ان سے نکاح کر لیا اور یہ ،،ام المساکین،، کی جگہ ،،ام المومنین،، کہلانے لگیں مگر یہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے نکاح کے بعد صرف دو یا تین مہینے زندہ رہیں اور ربیع الاول 4ھ میں بمقام مدینہ منورہ وفات پاگئیں اور جنت البقیع میں ازواج مطہرات کے پہلو میں مدفون ہوئیں حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّمان کی وفات تک ان سے بے حد خوش رہے اور ان کی وفات کا قلب نازک پر بڑا صدمہ گذرا یہ ماں کی جانب سے حضرت ام المومنین بی بی میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بہن ہیں ان کی وفات کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کی بہن میمونہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا۔ [5]
نام و نسب
آپ کا نام زینب ہے، سلسلہ نسب اس طرح ہے زینب بنت خزیمہ بن حارث بن عبد اللہ بن عمرو بن عبدمناف بن ہلال بن عامر بن صعصعہ بن معاویہ بن بکر بن ہوازن منصور بن عکرمہ بن خصفہ بن خنیس بن عیلاں الہلالیہ۔ سیدہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا سلسلہ نسب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب میں اکیسویں (21)پشت میں جا کر معد بن عدنان سے مل جاتا ہے۔[6] آپ کی وفات کے بعد نبی اکرم نے آپ کی بہن میمونہ بنت حارث سے شادی فرمائی۔ ان دونوں کی والدہ ہند بنت عوف تھیں۔
[7]،
ولادت
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ولادت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت سے تقریباً 13سال پہلے ہوئی ہے۔
خاندانی پس منظر
حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک بڑا قبیلہ بنو عامر تھا اس کی ایک شاخ بنو ہلال تھی، یہ بنو ہلال یمن میں آ کر آباد ہوئے۔یمنی لوگ خوش حال تھے لیکن اللہ کے نافرمان بھی تھے ۔ مذہبی اعتبار سے پکے مشرک تھے سورج اور چاند کے علاوہ بھی کئی خود ساختہ معبودوں کی پوجا کرتے تھے۔ شمالی یمن کے علاقہ تبالہ میں ذوالخامہ نامی ایک بڑا بت تھا۔ یہ لوگ اس بت کی پوجا بطور خاص کیا کرتے تھے۔اس قوم پر کئی بار سیلاب آیا، انھوں نے اس سیلاب سے بچنے کے لیے مآرب کے نام پر ایک مضبوط ترین بند باندھا۔ یہ قوم سبا کا دار الحکومت بھی تھا۔یہ قوم شرک اور معاشرتی گناہوں کے نشے میں مست تھی، تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ایسا زور آور سیلاب بھیجا جس نے اس مضبوط بند کو توڑ دیا، کھیتاں اجاڑ ڈالیں، پھر اس میں سوائے جھاؤ اور بیری جیسی جھاڑیوں کے کچھ بھی نہیں اگتا تھا۔ قوم سبا پر عذاب کا تذکرہ قرآن کریم کی سورۃ السبا میں موجود ہے۔سیلاب کے عذاب سے جب ان کے مکانات اور بستیاں کھنڈر اور ویرانے کی صورت اختیار کر گئیں تو وہ لوگ وہاں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے انہی لوگوں میں سیدہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا قبیلہ بنو ہلال بھی شامل تھا جو یمن سے حجاز میں آ کر آباد ہو ا۔ [8][9]
بچپن
آپ رضی اللہ عنہا کے والد خزیمہ کا شمار عرب کے روساء میں ہوتا ہے، اس لیے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا بچپن بڑے ناز و نعم میں گذرا۔ اس کے باوجود بعض انفرادی خصوصیات ایسی تھیں جو آپ کو اپنی ہم جولیوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ [10]
ام المساکین کا لقب
آپ رضی اللہ عنہا میں غریب پروری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، مساکین کو کھانا کھلانا اور ان کی دیگرمعاشی ضروریات کو پورا کرنا آپ کے اخلاق عالیہ کا عکاس تھا اسی وجہ سے زمانہ جاہلیت سے ہی لوگ آپ کو’’اُم المساکین‘‘کہا کرتے تھے۔غریب پروری او رمساکین کی دیکھ بھال کرنا ایسے عمدہ اوصاف ہیں کہ قرآن کریم نے بطور خاص ان کی تعریف کی ہے۔ چنانچہ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں قرآن کریم کی سورۃ الدھر آیت 8 تا 10میں ہے:
وَ یُطعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ یَتِیمًا وَّ اَسِیْرًا۔اِنَّمَا نُطعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللٰہِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُکُوْرًا۔ اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا۔
ترجمہ: اور اللہ کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور ان سے کہتے ہیں کہ) ہم تمھیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں۔ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔ ہمیں تو اپنے رب سے اس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جو سخت مصیبت کاطویل ترین دن ہو گا۔
[11][12]
اسلام
چونکہ آپ رضی اللہ عنہا کی ولادت بعثت نبوی سے 13 سال قبل ہوئی تھی،اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلان نبوت کے کچھ عرصہ بعد جو لوگ مسلمان ہوئے انھیں میں سیدہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا بھی ہیں۔[13]، [14]
پہلا نکاح
سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا پہلا نکاح طفیل بن الحارث سے ہوا۔ ان کے ساتھ آپ رضی اللہ عنہا کچھ عرصہ ہی ازدواجی زندگی کی بہاریں دیکھ پائی تھیں کہ انھوں نے آپ رضی اللہ عنہا کو کسی وجہ سے طلاق دے دی۔
دوسرا نکاح
سیدہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کو طفیل بن الحارث بن مطلب نے طلاق دی اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہا کا نکاح طفیل بن حارث کے بھائی حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے ہوا۔[15]
ہجرت مدینہ
مشرکین مکہ نے جب اسلام کو پھلتا پھولتا دیکھا تو ظلم و تشدد پر اتر آئے۔ سیدہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا اور آپ کے شوہر حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ پر بھی طرح طرح کے مصائب و مشکلات آئیں۔ اسی دوران ہجرت کا حکم نازل ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کو جمع فرمایا اور ہجرت کے بارے میں حکم خدا سنایا۔ شام ڈھلے حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ گھر کو لوٹے، آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کو سارا ماجرا بتایا۔چنانچہ دونوں میاں بیوی نے ہجرت کی تیاریاں شروع کر دیں۔
بالآخر ایک دن سیدہ زینب بنت خزیمہ کے گھرانے کے چار فرد سیدہ زینب، آپ کے شوہر حضرت عبیدہ بن حارث اور ان کے دونوں بھائی حضرت طفیل اور حصین بن حارث رضی اللہ عنہم یہ سب حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اس قافلے کا استقبال حضرت عبد الرحمن بن سلمہ عجلانی رضی اللہ عنہ نے کیا۔
کچھ دنوں بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی مدینہ منورہ تشریف لے گئے یہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات قائم فرمائی۔ حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ کو حضرت عمیر بن حمام انصاری رضی اللہ عنہ کا بھائی قرار دیا۔
حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ اور ان کے خاندان کے لیے ایک مکان اور کافی ساری زمین وقف کر دی۔ مہاجرین و انصار آپ رضی اللہ عنہ کو” شیخ المہاجرین“ کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ مکہ مکرمہ کی طرح مدینہ طیبہ میں بھی سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا حسبِ معمول غرباء اور مساکین پر خرچ کرتی رہیں۔
[11][16]
غزوہ بدر
اسی دوران غزوہ بدر کا واقعہ پیش آیا۔ مدینہ منورہ سے میدانِ بدر کا فاصلہ تقریباً اٹھانوے (98) میل کا تھا۔نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جاں نثار اصحاب رضی اللہ عنہم کے ساتھ جمعہ کی رات 17 رمضان المبارک 2ھ کو بدر کے قریب اترے۔یہ اسلامی تاریخ کا حق و باطل کے درمیان پہلا باضابطہ معرکہ تھا۔ دونوں لشکروں میں صف آرائی ہونے کے بعد دشمنانِ اسلام کی طرف سے کفارِ مکہ کے سردار عتبہ، شیبہ اور ولید میدانِ جنگ میں اترے اور انفرادی لڑائی کے لیے آواز لگائی۔ جس کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے تین جاں نثار اصحاب ’’ علی، حمزہ اور عبیدہ‘‘(رضی اللہ عنہم)کو بھیجا۔حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما دونوں نے جلد ہی اپنے مدمقابل کو قتل کر کے ڈھیر کر دیا۔
جبکہ حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ولید میں کافی دیر تک لڑائی جاری رہی اور دونوں ہی زخمی ہو گئے۔ حضرت علی اور حمزہ رضی اللہ عنہم نے آگے بڑھ کر ولید کوبھی قتل کیا۔ اس معرکے میں حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک پاؤں زخمی ہو گیا تھا یہ زخم بڑا کاری تھا۔ جنگ کے خاتمے کے بعد جب لشکر مدینے کی طرف واپس ہونے لگا تو مقام صفرا ء پر آپ رضی اللہ عنہ نے داعیِ اجل کو لبیک کہ گئے اور انھیں مقام صفراء پر ہی دفن کر دیا گیا۔
تیسرا نکاح
بعض روایات کے مطابق آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا تیسرا نکاح حضرت عبد اللہ بن جحش رضی اللہ عنہ سے ہوا۔ جو ام المٔومنین سیدہ زینب بنتِ جحش رضی اللہ عنہا کے بھائی ہیں، وہ بھی جنگِ اُحد میں وہ شہید ہو گئے۔ [13]
زینب ام المومنین
حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوہ احد شوال 3 ہجری میں شہید ہوئے۔ ان کی شہادت کے کچھ ہی دنوں کے بعد حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں ناتمام بچہ پیدا ہوا جس سے ان کی عدت ختم ہو گئی اور ذوالحج 3 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لیا۔ بعض مورخین نے یہاں پر 400 درہم حق مہر کا تذکرہ بھی کیا ہے۔بعض نے رمضان بھی لکھا ہے ، ہجرت کے اِکتیس مہینے بعدرمضان 3ھ میں ہوا۔آٹھ مہینے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں رہِیں اور ربیع الآخر 4ھ میں انتقال فرمایا۔حضور ﷺ کی بیویوں میں حضرت خدیجہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا اور حضرت زینب رَضِيَ اللہُ عَنْہَا ؛دو ہی بیبیاں ایسی ہیں جن کا وِصال حضور ﷺ کے سامنے ہوا، باقی نَو حضور ﷺ کے وِصال کے وقت زندہ تھیں جن کا بعد میں انتقال ہوا۔حضرت زینب رَضِيَ اللہُ عَنْہَا بڑی سخی تھیں،اِسی وجہ سے اِن کانام اسلام سے پہلے بھی ’’اُمُّ المَسَاکِیْن‘‘ (مسکینوں کی ماں)تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بعد صرف آپ نے رسول کریم کی حیات میں وفات پائی۔[17] [11] .[12][18]
معیت رسول کا مختصر زمانہ
آپ رضی اللہ عنہا کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کو نہیں ملا۔ بلکہ نکاح کے کچھ ہی عرصہ بعد آپ وفات پا گئیں۔ اس بارے مورخین نے2 ماہ، 3 ماہ، 5ماہ، 6ماہ، 8 ماہ اور بعض نے اس سے کچھ زیادہ زمانہ معیت رسول کا لکھا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا زیادہ زمانہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں گزار پائی تھیں۔ [19]
وفات
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نکاح کے صرف دو تین ماہ کے بعد ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ وفات کے وقت عمر 30 سال تھی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں[20] بعض کے نزدیک ان کا انتقال نکاح کے بعد تقریبا دو برس کے عرصہ میں ہوا۔شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے 4ھ ماہ ربیع الثانی میں وفات پائی۔ آپ رضی اللہ عنہا کا جنازہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پڑھایا اور آپ کو مدینہ منورہ جنت البقیع نامی قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ امہات المومنین میں سے صرف سیدہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ اعزاز ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا کا جنازہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایا۔ [13]
حوالہ جات
- ^ ا ب بنام: Zaynab bint Khuzayma — اخذ شدہ بتاریخ: 13 اگست 2022
- ^ ا ب عنوان : Зайнаб бинт Хузайма
- ^ ا ب عنوان : Türkiye Diyanet Vakfı İslâm Ansiklopedisi — بنام: ZAYNEB bint HUZEYME — اخذ شدہ بتاریخ: 13 اگست 2022
- ↑ مارٹن لنگز، "محمد: ان کی حیات"، 1983، ص 201۔
- ↑ (شرح العلامۃ الزرقانی،حضرت زینب ام المساکین و المؤمنین ،ج4،ص416۔417)
- ↑ سیر الصحابہ، سعید انصاری، جلد6، صفحہ 55، دارالاشاعت کراچی
- ↑ الاستيعاب، ابن عبد البر، ترجمة: زينب بنت خزيمة.
- ↑ Prophet Muhammad for All, Hadrat Zainab
- ↑ Bodley, Ronald V. "The Messenger: The Wives of Mohammed", 1946.
- ↑ Ismail ibn Umar ibn Kathir. The Life of the Prophet Muhammad Volume 3. Translated by Trevor Le Gassick (2000). Reading, UK: Garnet, 122.
- ^ ا ب پ Muhammad ibn Sa'd. Kitab al-Tabaqat al-Kabir Volume 8. Translated by Bewley, A. (1995). The Women of Madina. London: TaHa Publishers, 82.
- ^ ا ب Muhammad ibn Jarir al-Tabari. Tarikh al-Rusul wa’l-Muluk. Translated by Landau-Tasseron, E. (1998). Volume 39: Biographies of the Prophet’s Companions and Their Successors. Albany : State University of New York Press, 163-164.
- ^ ا ب پ الإصابة في تمييز الصحابة، ابن حجر العسقلاني.
- ↑ Abdulmalik ibn Hisham, Notes to Ibn Ishaq’s Sirat Rasulallah, #918, in Guillaume, A. (1955), The Life of Muhammad. Oxford: Oxford University Press, 794.
- ↑ السيرة النبوية، ابن هشام.
- ↑ Muhammad ibn Sa'd. Kitab al-Tabaqat al-Kabir Volume 3. Translated by Bewley, A. (2013). The Companions of Badr. London: TaHa Publishers.
- ↑ حیاۃ صحابہ جلد دو
- ↑ Ahmed, M. Mukkaram. "Encyclopaedia of Islam", 2005. p. 141
- ↑ شذرات الذهب، ابن العماد الحنبلي.
- ↑ سیر الصحابہ ،سعید انصاری، جلد6، صفحہ 55، دارالاشاعت کراچی