قیام امام حسین میں صحابہ اور تابعین کا کردار

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام

'
قیام امام حسین میں صحابہ کرام اور تابعین کا بہت ہی زیادہ کردار رہا ہے۔ تین طرح کے صحابہ اور تابعین تھے۔

  • موافق
  • معتدل
  • مخالف

قیام امام حسین[ترمیم]

امام حسین علیہ السلام کا قیام اسلام کی نجات، توحید کی سربلندی اور انسانیت کی آزادی کاپیغام لایا تھا لیکن افسوس کہ اس قیام سے پوری امت اسلامیہ نے وہ فائدہ حاصل نہ کیا جس کے لیے امام حسین علیہ السلام نے یہ عظیم قربانی دی تھی۔ اس کی ایک وجہ دشمن کی جانب سے اس مقدس قیام کے خلاف مذموم الزام تراشیاں ہیں جن کے ذریعے مقاصد و اہداف امام حسینؑ کوغلط رنگ دے کر سادہ لوح مسلمانوں کواس نورالٰہی سے دور رکھنے کی ناجائز کوشش کی گئی۔ بنی امیہ کے حامیوں اور ظالم حکومتوں کے آلۂ کار افراد نے قیام حسینؑ پر غیر آئینی اقدام کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اس کی نوعیت خلیفۃ المسلمین کے خلاف بغاوت اور لشکر کشی جیسیی ہے۔ چنانچہ شوکانی کہتے ہیں: کچھ علما حد سے گذر گئے اور وہ فرزند رسولؐ حضرت امام حسینؑ کے اقدام کو شرابی، نشے باز اور حرمت شریعت مطہرہ کی ہتک کرنے والے دشمن خدا و رسول خدا، یزید بن معاویہ (ان پر خدا کی لعنت ہو) کے خلاف بغاوت سمجھتے ہیں!![1]

اس الزام کا ایک جواب یہ ہے کہ یہ بات سلف صالح کی روش کے متضاد ہے چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ اس وقت کے علما، صحابہ، تابعین اور سیاست دان سب اس بات پر متفق تھے کہ حضرت امام حسین ؑ حق پر ہیں انھوں نے یزید کے اس غیر انسانی اقدام کی مذمت کی اور کسی نے بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کے اقدام کو اموی خلیفہ کے خلاف بغاوت نہیں سمجھا چنانچہ مولانا مودودی لکھتے ہیں: اگرچہ ان (حسین ؑ) کی زندگی میں اور ان کے بعد بھی صحابہ و تابعین میں سے کسی ایک شخص کا بھی یہ قول ہمیں نہیں ملتا کہ آپؑ کا خروج ناجائز تھا اور وہ ایک فعل حرام کا ارتکاب کرنے جا رہے تھے۔[2]

صحابی و تابعی کی تعریف[ترمیم]

صحابی[ترمیم]

البتہ صحابی کی تعریف میں اختلاف نظر ہے ایک رائے یہ ہے کہ صحابی رسول کے مفہوم میں وسعت ہے چنانچہ اس نظریہ کے حامی افراد میں ہم صرف ابن حجر عسقلانی کی عبارت کو نقل کرتے ہیں:

واصحُّ ما وقفت علیہ من ذالک انّ الصحابی من لقی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مومناً بہ ومات علی الاسلام، فیدخل فی من لقیہ من طالت مجالستہ اوقصرت، ومن رویٰ عنہ اولم یرْو، ومن غزا معہ اولم یغز ومن رأہُ رویۃً ولو لم یجالسہ ومن لم یراہ لعارضٍ کالعمی۔

صحیح ترین تعریف یہ ہے کہ حالت ایمان میں پیغمبر ؐ کی زیارت کرنے والے اور اسلام کی حالت پر فوت ہونے والے کو صحابی کہتے ہیں اس تعریف کے مطابق ہر وہ شخص صحابی ہو گا جو طولانی مدت یا کم مدت پیغمبرؐ کی صحبت میں رہا، جنگ میں شریک ہوا یا نہ، باقاعدہ زیارت کی یا کسی مجبوری (جیسے نابینا ہونے) کی وجہ سے زیارت سے محروم رہا۔

اسی تعریف کے مطابق شہدائے کربلا میں شامل صحابہ میں بعض ایسے افراد کو بھی ذکر کیا گیا ہے جو صحابہ ادراکی ہیں یعنی زیادہ مدت پیغمبرؐ کی خدمت میں موجود نہ تھے گرچہ بعض صحابہ ایسے بھی ہیں جو رسول اللہؐ کے ساتھ غزوات میں شریک ہونے کے باوجود شہادت سے محروم رہے پھر 61ھ میں نواسۂ رسولؐ کا ساتھ دے کر شہادت کی آرزو تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔

تابعی[ترمیم]

تابعی کی یہ اصطلاح رسول اکرمؐ کی کلام مبارک سے ماخوذ ہے جہاں پر آپؐ اویس قَرَنی کے بارے میں فرماتے ہیں: "اِنَّ خیرَ التابعینَ رَجلٌ یقالُ لہ اویس (ترجمہ: بہترین تابعی اویس نامی مرد ہے[3] اس کے بعد بتدریج تابعین ان تمام افراد کو کہا جانے لگا جنھوں نے رسول اکرمؐ کو دیکھے بغیر شرعی احکام اور مسائل آپ کے اصحاب سے اخذ کیے ہیں۔

موافق صحابہ و تابعین[ترمیم]

حقیقت یہ ہے کہ صحابہ و تابعین کا مخالفت کرنا تو کجا کثیر تعداد میں صحابہ کرام اور تابعین نے قیام حسینؑ کی حمایت کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کر دیں بعض مادہ پرست لوگوں نے اس واقعہ کو دو خاندانوں کی جنگ قرار دینے کی مذموم کوشش کی اور بعض افراد نے امام حسینؑ کے مقصد کو حکومت طلبی سے تعبیر کیا ان اعتراضات کے جواب مدلل انداز میں مفصل کتب میں پیش کیے گئے ہیں اس مقالہ میں کوشش کی گئی ہے کہ ان پاکیزہ اذہان جنہیں حقائق کی تلاش رہتی ہے پر ایک خاص زاویہ سے قیام امام حسینؑ کے مقدس ہونے اور یزید کی اسلام دشمنی کو واضح کیا جائے۔

امام حسین علیہ السلام ایک فرد نہیں تھے جنھوں نے یزید بن معاویہ کی باطل حکومت کے خلاف قیام کیا بلکہ آپؑ اس مقدس تحریک کے عظیم راہبر تھے جو اس وقت کی باطل، اسلام دشمن اور ناجائز حکومت کے خلاف وجود میں آئی امام حسینؑ کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہدایت کا چراغ قرار دیا تھا: (انّ الحسینؑ مصباح الھدی وسفینۃ النجاۃ ) اس وقت جب امت گمراہی کی تاریکیوں میں ڈوب رہی تھی امام حسینؑ ہادی و راہنما بن کر ایسی تحریک کا آغاز کرتے ہیں جس کا ہر اسلام خواہ، غیرت مند اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عقیدت و محبت رکھنے والے شخص نے ساتھ دیا۔

ہاں البتہ اس تحریک کی حمایت کرنے والوں کی نوعیت مختلف تھی بعض نے زبانی کلامی حمایت کی اور بعض افراد جن میں اصحاب رسولؐ کی بھی ایک خاص تعداد تھی نے اپنی جان کی بازی لگا کر اس انقلاب کو پائیدار کرنے میں مدد کی۔

ساتھی صحابہ[ترمیم]

صحابہ کرام کی کثیر تعداد نے اسلام کے لیے قربانیاں پیش کی ہیں قیام امام حسین میں بھی صحابہ کرام نے بھرپور قربانیاں پیش کی ہیں۔صحابہ کرام میں سے بعض اصحاب کربلا میں پہنچ کر علی الاعلان یزید کے باطل اعمال و نظریات کے خلاف جنگ کرتے ہوئے شہید ہوئے تو بعض کربلا سے قبل کوفہ یا دیگر مقامات پر امام حسین علیہ السلام کی حمایت کے جرم میں یزیدی کارندوں کے ہاتھوں شہید کر دیے گئے نیز بعض اصحاب جو کچھ وجوہات کی بنا پر واقعہ کربلا میں شریک نہ ہو سکے تھے نے امام حسینؑ کی شہادت کے بعد یزید کے مظالم کے خلاف اور امام حسینؑ کی حمایت میں قیام کیا اور جانیں قربان کر کے ثابت کیا کہ اس راہ میں موت شہادت و سعادت کی موت ہے۔

واقعہ کربلا میں شہید ہوئے[ترمیم]

وہ اصحاب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جو کربلا میں امام کے ساتھ تھے یا کسی طرح بھی امام حسین کے قیام میں شریک تھے یعنی واقعہ کربلا سے مربوط واقعات میں شہید ہوئے۔

شہدائے کربلا و کوفہ[ترمیم]

کربلا میں نہیں تھے[ترمیم]

وہ اصحاب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جو واقعہ کربلا میں تو نہیں تھے مگر امام حسین کے قیام کے حامی تھے۔

قیام کے حامی و ناصر اصحاب[ترمیم]

تفصیلات

  1. ادہم بن محرز باہلی، ابو مالک کنیت تھی۔ 86ھ میں وفات پائی۔ اصحاب علی میں سے تھے۔[4]
  2. بریدہ بن حصیب۔ مرو، خراسان میں تھے۔ 62ھ وفات ہوئی۔ یہ آخری خراسانی صحابی ہیں۔ بی بی فاطمہ کے جنازے میں شریک ہوئے تھے۔ ابوبکر کی بیعت نہ کی۔ مولا علی کے وفادار اور رازدار تھے۔
  3. عبد اللہ بن ابی اوفی خوارج کے خلاف مولا علی کے ساتھ تھے۔ نابینا ہو گئے تھے۔ 86ھ یا 87ھ میں وفات پائی۔ آخری کوفی صحابی تھے۔
  4. عبد اللہ بن جعفر، بی بی زینب کے شوہر تھے۔ اپنے دو بیٹے امام کی نصرت میں پیش کیے۔
  5. عبد اللہ بن حارث بن نوفل ولادت 83ھ یا 84ھ عمان میں وفات پائی۔ بنو امیہ کے مظالم کے خلاف بھی لڑتے رہے۔ ادراکی صحابی۔
  6. عبد اللہ بن حنین 100ھ وفات ہوئی۔ حضرت علی کے ماموں زاد بھائی تھے۔
  7. عبد اللہ بن عباس، 68ھ وفات پائی۔طائف میں آخری صحابی تھے۔ مولا علی کے ساتھ تھے۔ جمل اور صفین لڑے۔ مسلمانوں کو امام حسن کی بیعت کی دعوت دیتے رہے اور کہا: «معاشر الناس إن هذا ابن بنت نبيكم ووصي إمامكم فبايعوہ۔» لوگ ان کی بات تسلیم کرتے رہے اور کہتے تھے: «ما أحبہ إلينا وأحقہ بالخلافة۔» اور لوگ بیعت کرنا شروع ہو گئے۔[5][6] امام حسین کو روکنے کے باوجود ان کے انصار میں سے تھے۔[7] امام حسن کے بعد کسی کی بیعت نہیں کی۔ دو سال مکہ تھے مگر عبد اللہ بن زبیر کی بیعت نہیں کی۔ پھر طائف جا کر گوشہ نشین ہو گئے۔
  8. عبد اللہ بن عمار بارقی 61ھ میں وفات پائی۔
  9. مختار بن ابی عبیدهٔ ثقفی، بعد میں قیام کیا کچھ قاتلان شہدائے کربلا سے بدلے لیے اور مصعب بن زبیر تابعی کے حکم سے 15 رمضان 67ھ میں مسجد کوفہ میں شہید ہوئے۔
  10. جابر بن عبد اللہ انصاری، اہل بیت کے جان نثار صحابی تھے۔ اربعین کے دن کربلا پہنچے اور امام باقر کو نبی اکرم کا سلام و پیغام پہنچایا۔
  11. جبیر بن مطعم، 80ھ میں وفات پائی۔[8] بعض نے 57ھ لکھا ہے۔ امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد سب مرتد ہو گئے سوائے ابوخالد کابلی، جبیر بن مطعم اور یحیی بن ام طویل کے۔
  12. ابو برزہ اسلمی، 64ھ وفات پائی۔ اصحاب علی میں سے تھے۔ یزید کو راس الحسین پر چھڑی مارنے اور شراب پھینکنے پر ٹوکا تھا۔ یزید نے دربار سے نکال دیا تھا۔[9]
  13. حبہ بن جوین، بجلی عرنی، كنیت ابو قدامہ، كوفی۔ اہل سنت ان کو غالی شیعہ کہتے تھے۔ حدیث غدیر کے راوی ہیں۔ نبی اکرم کی زیارت آخری ایام میں کی۔ 76ھ میں وفات پائی۔
  14. سفینہ مولی رسول اللہ، 70ھ کے بعد وفات پائی۔ بنو امیہ کے امرا کو برے بادشاہ کہتے تھے۔
  15. سلیمان بن صرد خزاعی، 65ھ میں قیام توابین میں توابین کی قیادت کرتے ہوئے معرکہ عین الوردہ میں شہید ہوئے۔
  16. ابو امامہ صدی بن عجلان بن وہب 86ھ میں وفات ہوئی۔ شام میں تھے۔اصحاب علی میں سے تھے۔
  17. عمر بن ابی سلمہ، ام المومنین ام سلمہ کے بیٹے اور ربیب نبی تھے اور نبی اکرم کے رضاعی بھتیجے بھی تھے۔ 83ھ وفات پائی۔ امام باقر تک ائمہ کے اصحاب میں سے تھے۔ سلیم بن قیس کی کتاب کی تصدیق کی تھی۔
  18. عمرو بن بعجہ بارقی، 61ھ کے بعد وفات پائی۔ قتل حسین کو اسلام کی رسوائی قرار دیا۔
  19. عروہ بن جعد بارقی 70ھ کے بعد وفات پائی۔ مولا علی کے جان نثار تھے۔
  20. سلمہ بن ابی سلمہ ام المومنین ام سلمہ کے بیٹے اور ربیب نبی تھے اور رضاعی بھتیجے بھی تھے۔ عسقلانی، واقدی اور ابو حاتم نے لکھا ہے کہ سلمہ، خلیفہ عبدالملک بن مروان کے زمانہ تک زندہ رہے۔[10]
  21. عدی بن حاتم، حاتم طائی کے بیٹے 67ھ میں 120 سال کی عمر میں وفات پائی۔ عثمان کے خلاف تھے۔ مولا علی کے جاں نثار ساتھیوں میں سے تھے۔ ان کے بیٹے طارف، طریف، طرفہ اور طرماح بھی مولا علی کے جان نثار تھے۔ سب نے مولا کی جنگیں لڑیں۔ بیٹے جنگوں میں شہید بھی ہوئے۔ عدی کی ایک آنکھ جنگ جمل میں گئی اور دوسری صفین میں زخمی ہو کر کم بصر ہو گئی پھر بھی نہروان اور خوارج کے معرکوں میں شریک رہے۔
  22. عامر بن واثلہ ابو طفیل کنیت تھی۔ 110ھ میں وفات پائی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آخری صحابی تھے۔ شیعوں کے چھٹے امام جعفر صادق تک تمام کا ساتھ دیا۔ اور سلیم بن قیس کی کتاب جو ابان ابن ابی عیاش نے امام سجاد کو سنائی تو وہاں موجود اس صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ابوالطفیل رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے بھی سنی تھی اور تصدیق کی تھی۔
  23. وہب بن عبد اللہ بن مّسلمہ۔ 72ھ میں وفات پائی۔ ابو جحیفہ کنیت تھی۔ مولا علی کے ساتھیوں میں سے تھے۔ مولا نے ان کا نام وہب الخیر رکھا تھا۔
  24. قیس بن سعد 60ھ یا 85ھ میں وفات پائی۔ اپنے زمانے کے دراز قد ترین تھے۔ خوبصورت تھے۔ داڑھی آئی ہی نہیں تھی۔ اہل بیت سے محبت تا آخر رہی۔
  25. کثیر بن عباس 65ھ وفات۔ نبی اکرم کے کزن تھے۔ صحابی صغیر تھے۔ مولا علی کے جان نثار تھے۔
  26. عبداللہ بن یزید خطمی عاشورا کے علاوہ روزہ نہیں رکھتے تھے۔ 70ھ سے پہلے وفات پائی۔ مولا علی کے اصحاب میں سے تھے تینوں جنگیں لڑیں۔ عبد اللہ بن زبیر کا ساتھ دیا۔
  27. مخنف بن سلیم 64ھ میں سلیمان بن صرد خزاعی کے ساتھ قیام توابین میں شہید ہوئے۔[11] مولا علی کے خاص اصحاب میں تھے۔
  28. محمد بن حاطب بن حارث اسلام میں پہلے ہمنام نبی اکرم تھے۔ حبشہ گئے یا جاتے ہوئے بحری جہاز میں پیدا ہوئے۔مولا علی کے اصحاب میں سے تھے۔ تینوں جنگیں لڑیں۔ 74ھ میں وفات پائی۔
  29. غزیہ بن حارث انصاری 70ھ میں وفات پائی۔
  30. واثلہ بن اسقع 85ھ میں وفات پائی۔ اصحاب صفہ میں سے تھے۔ 105 سال عمر پائی۔ آیت تطہیر اور حدیث کساء کے راوی ہیں۔ امام حسین کی شہادت کا سن کر شدید غصہ کیا اور پھر ہر وقت آیت تطہیر پڑھتے رہتے۔
  31. سہل بن سعد ساعدی آخری مدنی صحابی ہیں۔ 91ھ میں 96 سال کی عمر میں وفات پائی۔ دو قبلوں کی طرف ایک نماز پڑھی۔ شام کی اسیری کے واقعات کے راوی ہیں۔ حجاج بن یوسف نے ان کی گردن پر مہر لگائی تھی تحقیر کرنے کے لیے۔ پیغمبر اسلام کی وفات کے وقت ان کی عمر 15 سال تھی۔ اور چھٹے امام جعفر صادق کا بچپن دیکھا تھا۔ پیغمبر اسلام اور حضرت علی سے روایات نقل کی ہیں۔ اس نے شام میں کربلا کے قیدیوں کے قافلے سے بھی زیارت کی اور شیعوں کے چوتھے امام سجاد کی مدد کی۔[12][13]

کربلا کے بعد یزید مخالف صحابہ[ترمیم]

واقعہ کربلا کے بعد صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی شخصیات نے یزید کی بد اعمالیوں پر اعتراض کرتے ہوئے قیام کیا۔ بزرگ صحابہ میں سے قیام یا احتجاج کرنے والے درج ذیل افراد ہیں۔

  1. ابوسعید خدری سعد بن مالک بن سنان نام تھا 74 ھ مدینہ میں وفات پائی۔
  2. حارث بن عبد اللہ بن کعب انصار میں سے تھے۔ بیعت رضوان میں تھے۔ تمام جنگوں میں شریک تھے۔ 63ھ میں واقعۂ حرہ میں شہید ہوئے۔[14]
  3. حبیب بن ابی یسر 63ھ میں واقعۂ حرہ میں اپنے بھائی یزید بن ابی یسر کے ساتھ شہید ہوئے۔
  4. عبد اللہ ابن زبیر یزید کی ولی عہدی کی مخالفت کی تھی اور جب معاویہ مرے تو یزید کی بیعت نہیں کی اور مدینہ سے بھاگ کر مکہ آ گئے۔ اور واقعہ کربلا کے بعد وہیں رہے۔ اور مکہ میں ہی یزید کے مظالم کے خلاف قیام فرمایا اور اپنی خلافت کا اعلان کیا۔
  5. عبد اللہ بن حنظلہ مدینہ میں یزید کو خلافت سے خلع کر کے خلاف قیام کیا اور واقعہ حرہ میں لشکر یزیدی کے سربراہ مسلم بن عقبہ کے حکم سے شہید ہوئے۔
  6. معقل بن سنان اشجعی۔ واقعہ حرہ، میں یزیدی فوج کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ بہت خوبصورت تھے۔ حسن کی وجہ خلیفہ ثانی نے بصرہ تبعید کر دیا تھا۔ یزید کے سخت مخالف تھے۔ معقل بن ضان بھی نام ذکر ہوا ہے۔
  7. واسع بن حبان انصاری، بیعت رضوان میں اپنے بھائی سعد بن حبان کے ساتھ تھے۔ تمام جنگوں میں شریک تھے۔ 63ھ میں واقعہ حرہ میں شہید ہوئے۔[15]
  8. یزید بن ابی یسر 63ھ میں واقعہ حرہ میں شہید ہوئے۔[16]
  9. یزید بن برذع انصاری، 63ھ میں واقعہ حرہ میں شہید ہوئے۔
  10. یزید بن ہرمز فارسی 64ھ میں وفات پائی۔ ابو عبد اللہ کنیت تھی۔ واقعہ حرہ میں مدینہ کے موالی کا سردار تھا۔

صحابیات[ترمیم]

  1. زینب بنت علی
  2. ام کلثوم بنت علی
  3. ام المؤمنين ام سلمہ ہند بنت ابی امیہ
  4. ام المؤمنين میمونہ بنت حارث بعض روایات کے مطابق
  5. اسما بنت ابی بکر
  6. امامہ بنت ابی العاص
  7. بحریہ بنت مسعود خزرجی انصاری جنادہ بن کعب انصاری کی زوجہ اور عمرو بن جنادہ انصاری کی والدہ۔
  8. سہلہ بنت عاصم جنگ خیبر کے دن پیدا ہوئیں نبی پاک نے سہلہ نام رکھا اور اسی پیدائش کے دن عبدالرحمن بن عوف سے شادی کر دی۔

ساتھی تابعین[ترمیم]

واقعہ کربلا میں شہید ہونے والے تمام افراد یا صحابہ تھے یا تابعی تھے۔ صحابہ کے علاوہ دیگر تمام شہداء اور اسراء تابعین میں سے تھے۔ بہت سے تابعین کربلا نہیں پہنچ سکے مگر بعد میں انھوں اس عظیم قیام کی حمایت یا پاسداری کی۔

شہدائے کربلا و کوفہ[ترمیم]

رشتہ دار[ترمیم]

شہدائے کربلا میں بنی ہاشم کے زیادہ تر شہداء، حضرت ابوطالب کے ہی پوتے اور پڑپوتے تھے۔

ان رشتہ داروں کے علاوہ خاندان بنو ہاشم کے 42 دیگر افراد قیام امام حسین میں شہید ہوئے ہیں۔ ان افراد کے نام تواریخ میں ڈھونڈنے سے مندرجہ ذیل ملے ہیں۔

غیر ہاشمی[ترمیم]

قیام امام حسین کے دوران میں شہید ہونے والے اصحاب امام حسین کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ مگر منابع اور مآخذ میں بہت کم افراد کے نام مذکور ہیں۔حارث بن اعور، شریک بن اعور، مسلم بن عقیل، عمارہ بن صلخب ازدی، ہانی بن عروہ مرادی، عبد الاعلی بن یزید کلبی، وغیرہ کے نام چھپائے گئے ہیں یا ان کو بھول کر ذکر نہیں کیا۔

صرف عاشورہ کے دن امام حسین کے اصحاب کی تعداد کے بارے میں تاریخی اطلاعات متضاد ہیں۔ بعض مورخین نے بتایا ہے کہ ان کی تعداد 89 تھی۔ یعقوبی نے بیان کیا کہ ان کی تعداد 62 یا 72 مرد تھی۔ اور ابن شہر آشوب نے بیان کیا کہ کربلا میں ان کی تعداد 82 مردوں کی تھی۔ اور ابن ابار بلنسی نے بیان کیا ہے کہ 70 افراد سے زیادہ تھے۔ کچھ کتابوں میں دیگر تعداد کا بھی ذکر ہے، جیسے: 87 افراد، 100 افراد، 145 افراد اور … دیگر۔ اقوال میں سے سب سے مشہور قول یہ ہے کہ وہ 72 شہید ہیں، اس قول کی قدمت، اس کے ذرائع کا معتبر ہونا اور اس کی روایت کرنے والوں کی بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ قول ترجیح دیا جاتا رہا ہے۔[17] لیکن امام حسین کے شہید ساتھیوں کی جو تعداد زیارت ناحیہ مقدسہ اور پرانے منابع جیسا کہ رجال شیخ طوسی اور رجال طبری میں 82 ہے۔[18]

  1. حبیب بن مظاہر اسدی
  2. اسلم تركی مولى حسین
  3. انس بن حارث کاہلی
  4. انیس بن معقل اصبحی
  5. بریر بن خضیر ہمدانی
  6. بشیر بن عمرو حضرمی
  7. جابر بن حارث سلمانی
  8. جبلہ بن علی شیبانی
  9. جنادہ بن کعب انصاری
  10. عمرو بن جنادہ انصاری
  11. جندب بن حجیر خولانی
  12. جون مولى ابی ذر غفاری
  13. جوین بن مالک ضبعی تمیمی
  14. حجاج بن مسروق جعفی
  15. حر بن یزید ریاحی
  16. حلاس بن عمرو راسبی یا ازدی
  17. حجاج بن یزید سعدی
  18. حیان بن حارث ازدی
  19. نعمان بن عمرو راسبی یا ازدی
  20. حنظلہ بن اسعد شبامی
  21. عمرو بن خالد ازدی
  22. خالد بن عمرو بن خالد ازدی
  23. زاہر مولی عمرو بن حمق خزاعی
  24. زہیر بن بشر خثعمی
  25. زہیر بن قین بجلی
  26. زید بن معقل جعفی
  27. سالم مولى بنی مدینہ كلبی
  28. سالم مولى عامر بن مسلم عبدی
  29. شوذب مولى عابس الشاكری
  30. قارب مولى حسین
  31. منجح مولى حسین
  32. سلیمان بن رزین مولى حسین
  33. سعد بن حنظلہ تمیمی
  34. سعید بن عبد اللہ حنفی
  35. سوار بن منعم حابس ہمدانی
  36. سوید بن عمرو خثعمی
  37. سیف بن حارث بن سریع جابری
  38. مالک بن عبد اللہ بن سریع جابری
  39. سیف بن مالك عبدی
  40. حبیب بن عبد اللہ النہشلی
  41. ضرغامہ ابن مالک التغلبی
  42. عابس بن ابی شبیب شاکری
  43. عمار بن حسان طائی
  44. عامر بن مسلم عبدی
  45. عبد الرحمٰن بن عبداللہ ارحبی
  46. عبد الرحمن بن عبد ربہ انصاری
  47. عبید اللہ بن یزید عبدی
  48. عبد اللہ بن یزیدعبدی
  49. عبدالرحمن بن عبداللہ عبدی
  50. عمر بن جندب حضرمی
  51. عمران بن کعب اشجعی
  52. عمار بن ابی سلامہ ہمدانی
  53. عمرو بن خالد صیداوی
  54. عمرو بن عبد اللہ جندعی
  55. عمرو بن ضبیعہ ضبعی
  56. عمرو بن قرظہ انصاری
  57. عمر بن عبد اللہ ابو ثمامہ صائدی
  58. عمرو بن مطاع جعفی
  59. عمیر بن عبد اللہ مذحجی
  60. قاسط بن زہیر تغلبی
  61. كردوس بن ز ہیر تغلبی
  62. كنانہ بن عتیق تغلبی
  63. قاسم بن حبیب ازدی
  64. قرہ بن ابی قرہ غفاری
  65. قمبر بن صبرہ قیسی
  66. قعنب بن عمرو نمری
  67. مجمع بن عبد اللہ عائذی
  68. عائذ بن مجمع عائذی
  69. مسعود بن حجاج تمیمی
  70. عبد الرحمن بن مسعود تمیمی
  71. عبد الرحمان بن عروہ غفاری
  72. عبد اللہ بن عروہ غفاری
  73. مسلم بن عوسجہ اسدی
  74. مسلم بن کثیر ازدی
  75. نافع بن ہلال جملی
  76. نعیم بن عجلان انصاری
  77. یحیی بن سلیم مازنی
  78. یزید بن ثبیط عبدی
  79. یزید بن حصین ہمدانی
  80. یزید بن زیاد كندی
  81. عبد اللہ بن عمیر كلبی
  82. ام وہب زوجہ عبد اللہ ابن عمیر كلبی
  83. سعید مولى عمر بن خالد صیداوی

زیارت رجبیہ، مناقب ابن شہر آشوب، مثیر الاحزان، اللہوف اور اعیان الشیعہ میں کچھ دیگر نام بھی ہیں۔[19] ان میں سے جو مشہور ہوئے وہ یہ ہیں۔[20]

ابنائے صحابہ[ترمیم]

دیگر تابعین[ترمیم]

معتدل صحابہ و تابعین[ترمیم]

خاموش صحابہ[ترمیم]

  1. ابو ثعلبہ خشنی امیر معاویہ کے دور میں وفات پائی۔ لیکن کہا گیا ہے کہ 75 ھ میں وفات پائی۔
  2. اسماء بن حارثہ 66ھ بصرہ میں وفات پائی۔
  3. اُسَید بن ظُہَیر کنیت ابو ثابت تھی۔ صحابی تھے اور صحابی ظہیر بن رافع کے بیٹے تھے۔ اور رافع بن خدیج کے چچیرے بھائی تھے۔ عبدالملک بن مروان کے زمانے میں 65ھ کے بعد وفات پائی۔
  4. انس بن مالک خادم نبی اکرم تھے۔ یہ آخری بصری (اہل بصرہ) صحابی تھے۔ یزید نے امام حسین کے حسن پر بات کی تو انس نے ٹوکا اور کہا حسین رسول اکرم کے مشابہ ہیں۔ 93ھ میں 110 سال کی عمر میں برص کی بیماری کے ساتھ وفات پائی۔ رحبہ کے دن حدیث غدیر کی گواہی سے منہ موڑنے پر مولا علی نے مذمت کی اور بیماری کی خبر دی تھی۔ اولاد 80 بیٹے اور 2 بیٹیاں اور اس سے زیادہ تعداد اولاد کی اولاد تھی۔
  5. براء بن عازب 72ھ میں وفات پائی۔ رحبہ کے دن حدیث غدیر کی گواہی سے منہ موڑنے پر مولا علی نے مذمت کی تھی۔
  6. بسر بن ابی ارطات 7ھ پیدائش۔ وفات معاویہ یا بنو مروان کے دور میں۔ 40ھ میں بسر بن ابی ارطاۃ امیر معاویہ کی جانب سے شیعیان علیؓ کو زبردستی مطیع بنانے کے لیے یمن آیا، اس وقت عبید اللہ بن عباس حضرت علیؓ کی جانب سے وہاں کے والی تھے، ان میں بسر کے مقابلہ کی طاقت نہ تھی، اس لیے وہ یمن سے ہٹ گئے، ان کے اہل و عیال وہیں تھے، بسر نہایت ظالم تھا اور اس کے دل میں حضرت علیؓ کے حامیوں کی طرف سے اس قدر کینہ اور بغض بھرا ہوا تھا کہ 30000 محبان اہل بیت افراد کو شہید کیا۔ اور عبیداللہ کے دو کمسن بچوں کو ان کی ماں کے سامنے نہایت بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا۔[23]
  7. جابر بن سمرہ 70ھ کے بعد بشر بن مروان کے دور میں وفات پائی۔ یا بعض کے نزدیک 66ھ میں وفات پائی۔
  8. جبر بن عتیک بن قیس۔ جبیر بن عتیک بھی نقل ہوا ہے۔ آخری بدری صحابی ہیں۔ 61ھ وفات ہوئی ہے۔[24]
  9. حارث بن حاطب بن حارث 66ھ کے بعد وفات پائی۔ حبشہ میں پیدا ہوئے تھے۔ والد حاطب بن حارث نے حبشہ وفات پائی۔ ان کے بھائی محمد بن حاطب اصحاب مولا علی میں سے تھے۔
  10. جرہد بن خویلد اسلمی اصحاب صفہ میں سے تھے۔ یزید کے دور میں وفات پائی۔ جرہد بن رزاح بھی کہا گیا ہے۔
  11. حارث بن غطیف سكونی مروان کے دور میں وفات پائی۔
  12. حارث بن مالک ابو واقد لیثی تمام عمر مدینہ رہے لیکن 68ھ میں مکہ میں وفات پائی۔ بعض نے لکھا ہے عہد معاویہ میں وفات پائی۔
  13. حمزہ بن عمرو اسلمی 61ھ میں وفات پائی۔ کعب بن مالک دیگر چند افراد کے ساتھ جب غزوہ تبوک سے کوتاہی کرتے ہوئے نہ گئے تو نبی اکرم نے ان کا بائیکاٹ کر دیا تو توبہ کرتے رہے جب معافی کی آیت آئی تو حمزہ نے مژدہ سنایا اور ان کو انعام میں اپنا لباس دے دیا۔
  14. خویلد بن عمرو خزاعی 68ھ مدینہ میں وفات پائی۔ صحابی اور مدینہ کے رہائشی تھے، نام میں اختلاف ہے ہانی اور كعب بھی نقل ہوا ہے۔ مشہور كنیت سے ہیں: ابو شریح خزاعی۔
  15. رافع بن خدیج 73ھ یا 74ھ میں وفات پائی۔ جنگ صفین میں مولا علی کے ساتھ تھے۔
  16. ربیعہ بن عباد[25] ولید کے زمانہ میں وفات پائی۔ بعض نے 95ھ میں وفات لکھی ہے۔ نبی کی زیارت کی اور ان کی احادیث بیان کی ہیں مگر اسلام بعد میں لائے۔
  17. ربيعہ بن كعب اسلمی 63ھ میں وفات ہوئی۔ وفات نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد دل برداشتہ ہو کر اپنے قبیلے بنو اسلم کے پاس بستی ییسن چلے گئے اور وفات تک رہے۔
  18. زید بن ارقم سورہ منافقون میں ایک آیت ان کی تصدیق اور جھوٹا حلف اٹھانے والے عبد اللہ بن ابی کی تکذیب میں نازل ہوئی جب کسی نے انھیں جھوٹا کہا تھا۔ مولا علی کے ساتھ صفین میں تھے۔ ابن زیاد کو راس الحسین پر چھڑی مارنے پر ٹوکا تھا اور کہا میں نے بارہا نبی اکرم کو ان ہونٹوں چومتے دیکھا ہے۔ ابن زیاد نے درشتی کی تو دربار سے اٹھ آئے۔ روایت کرتے ہیں: جب راس الحسین کو کوفہ کی گلیوں میں پھرایا گیا تو میں نے بہت عجیب منظر دیکھا کہ حسین اپنے کاٹ دیے گئے سر سے بھی سورہ کہف کی آیت تلاوت فرما رہ تھے۔ 68ھ میں برص سے وفات پائی۔ رحبہ کے دن حدیث غدیر کی گواہی سے منہ موڑنے پر مولا علی نے مذمت کی تھی۔
  19. زہرہ بن حویہ تمیمی 77ھ میں کوفہ میں وفات پائی۔
  20. سراقہ بن مرداس بارقی 79ھ وفات ہوئی۔ مشہور شاعر تھے۔
  21. سلمہ بن اکوع 74ھ مدینہ میں وفات پائی۔ مولا علی کی خلافت کے آغاز سے ہی ربذہ (مدینہ سے مشرق کی جانب 200 کیلومیٹر دور) چلے گئے تھے۔ وفات سے چند روز پہلے واپس مدینہ آئے تھے۔
  22. سائب بن یزید ہذلی 91ھ وفات پائی۔[26]
  23. سعد بن عائذ سعد القرظ کہلاتے تھے۔ عمار یاسر کے غلام تھے۔ 76ھ میں وفات پائی۔
  24. عبد الرحمن بن ابزی، نوجوان صحابہ میں سے ایک، احادیث نبوی کے راوی ہیں۔ وہ فقیہ تھے اور نافع بن عبد حارث کے غلام تھے۔ نافع نے عمر بن خطاب کو عسفان ملنے پر اسے مکہ میں نائب بنایا۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے کہ مولا علی نے خراسان پر عبد الرحمن بن ابزی کو حاکم بنایا اور ان کے دور کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ 70ھ کی دہائی میں وفات پائی۔
  25. عبد الرحمن بن زید بن خطاب 70ھ میں وفات پائی۔
  26. عبد اللہ بن عمر 72ھ وفات پائی۔ مولا علی اور امام حسن کی بیعت نہیں کی تھی مگر معاویہ، یزید (واقعۂ حرہ میں یزید کی فوج کی حمایت کی) اور حجاج کی (حجاج نے بیعت لیتے وقت اپنا پاؤں آگے کیا کہ لو بیعت کرو تو پاؤں چوم کر) بیعت کر لی تھی۔
  27. عبد اللہ بن حوالہ ازدی اہل صفہ میں سے تھے۔ مشہور یہی ہے کہ ازدی تھے مگر ابن حجر نے ابن حبان کا قول نقل کیا ہے کہ یہ ازدی نہیں تھے بلکہ اردن رہنے کی وجہ سے اردنی کہلاتے تھے۔ واقدی اور ابن حبان کے بقول 58ھ میں وفات پائی۔ اردن میں دفن ہیں۔ مگر ابن عبد البر اور ابن یونس کے بقول 80ھ میں شام میں وفات پائی۔ ابو حوالہ کنیت تھی۔
  28. عبداللہ بن بسر آخری شامی صحابی تھے۔ 88ھ یا 96ھ میں وفات پائی۔
  29. عبد اللہ بن حارث زبیدی یہ آخری مصری صحابی تھے۔ 86ھ میں وفات ہوئی۔
  30. عبد اللہ بن عمرو بن العاص 64ھ وفات ہوئی۔ نابینا ہو گئے تھے۔ اپنے باپ اور معاویہ کو عمار یاسر کی شہادت پر باغی گروہ والی حدیث نبوی سنائی تھی۔ مولا حسین کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ جنگ صفین میں شریک تھا مگر تلوار نہیں چلائی۔[27]
  31. عبد اللہ بن مسعدہ فزاری 64ھ میں مرا۔ غلام بنا تو نبی اکرم نے بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بخش دیا۔ ان کی رحلت کے بعد مولا علی کی خدمت میں تھا مگر معاویہ نے اسے لالچ دے کر اپنا وفادار بنا لیا۔ اور یہ دشمن علی بن گیا۔ واقعہ حرہ میں حملہ کرنے والے ظالمین میں تھا۔
  32. عبد المطلب بن ربیعہ بن حارث شام میں تھے۔ موت سے پہلے اپنا وصی یزید کو بنایا تھا۔ 61ھ وفات پائی۔
  33. عِرْبَاضُ بن ساریہ سلمی 75ھ میں وفات پائی۔
  34. عمرو بن اخطب عبد الملك بن مروان کے دور میں وفات پائی۔[28]
  35. غرقدہ بارقی 70ھ وفات پائی۔
  36. قیس بن عائذ 80ھ یا 90ھ تک زندہ رہے۔ حجاج یا مختار کے دور میں مرے۔ صغار صحابہ میں سے تھے۔
  37. مالک بن حویرث لیثی 74ھ وفات پائی۔ بصرہ کے رہائشی تھے۔
  38. محمود بن ربیع ابو نعیم 99ھ وفات پائی۔
  39. مسلمہ بن مخلد الانصاری معاویہ کی طرف سے والی مصر تھا۔ 62ھ وفات۔ صفین کی جنگ مولا علی کے خلاف لڑی۔ تمام انصار مولا علی کے ساتھ تھے سوائے اس کے اور نعمان بن بشیر کے یہ دونوں معاویہ کے ساتھ تھے۔
  40. مسور بن مخرمہ 64ھ وفات پائی۔ معاویہ پر درود و سلام بھیجتا تھا۔
  41. معن بن اوس 64ھ وفات پائی۔ عمرو بن ادین طابخہ اصلی نام تھا۔ عرب کا بہت بڑا شاعر تھا۔ بیٹیوں کو بیٹوں سے بہتر جانتا تھا۔
  42. معن بن یزید 64ھ وفات۔ مولا علی کا دشمن تھا۔ معاویہ کی طرف سے جنگ لڑتا رہا۔ آخر میں بنو امیہ کا مخالف ہو گیا۔ اور ضحاک بن قیس کے ساتھ مل کر مروان سے لڑتے ہوئے معرکہ مرج راہط میں مارا گیا۔
  43. مقدام بن معديكرب 87ھ میں شام کے شہر حمص میں 91 سال کی عمر میں وفات پائی۔ بعض نے مدینہ میں وفات لکھی ہے۔
  44. منیذر افریقی اکلوتے صحابی جو 92ھ میں اندلس (اسپین) گئے۔ اور طرابلس لیبیا میں مدفون ہیں۔ 2013ء میں ان کی قبر کھود کر کچھ لوگ ان کی میت نکال کر لے گئے۔
  45. نوفل بن معاویہ الدئلی یزید کے دور میں مدینہ میں وفات پائی۔
  46. ولید بن عبادہ بن صامت 71ھ وفات پائی۔ عہد نبی میں ولادت ہوئی۔
  47. ولید بن عقبہ قرآن نے اسے فاسق کہا ہے عثمان بن عفان کا ماں شریک بھائی تھا مولا علی کے خلاف جنگ لڑی۔ صفین کے پانچویں دن ابن عباس سے جنگ کی۔[29] رقہ کے نزدیک بلیخ نامی جگہ پر مولا علی نے ایک رقبہ خرید کر اسے دیا تھا وہیں گوشہ نشین ہو کر 61ھ میں وفات پائی۔ [30][31]
  48. ہرماس بن زیاد باہلی 91ھ یمامہ میں وفات پائی یمامہ میں آخری صحابی تھے۔ ابو جدیر یا ابو حدیر کنیت تھی۔
  49. جُنْدَبُ بنُ عبد الله بن سُفيان 70ھ میں وفات پائی۔ جندب الخیر لقب تھا۔
  50. یوسف بن عبداللہ بن سلام 100ھ میں وفات پائی۔ اس کا والد عشرہ مبشرہ میں شمار ہوتا ہے۔

صحابیات[ترمیم]

خاموش تابعین[ترمیم]

ہزاروں تابعی اس واقعے سے بے خبر تھے اور خاموش کہلائے لیکن یہاں خاموش سے مراد وہ ہیں جنہیں واقعہ کا علم ہوا اور خاموش رہے۔ یا کچھ نہ کر سکے۔

رشتہ دار[ترمیم]

ابنائے صحابہ[ترمیم]

سات فقہائے مدینہ

  1. ولید بن عبادہ بن صامت 71ھ میں وفات پائی۔

دیگران[ترمیم]

  • ربيع بن خثيم تابعی تھے۔[33] شیعہ روایات کے مطابق مشہد میں دفن خواجہ ربیع یہی ہیں اور فضل بن شاذان کے بقول زہاد ثمانیہ میں سے تھے۔ خبر کربلا پر صرف استرجاع (انا لللہ) پڑھا اور بعد میں اس پر بھی توبہ کی کہ میں نے دنیوی کام پر دھیان دیا ہے جو زہد کے خلاف ہے۔
آٹھ زاہد

مخالف صحابہ و تابعین[ترمیم]

اہل تشیع کے مطابق یہ سب یزیدی افراد، صحابہ یا تابعی کی تعریف پر پورے نہیں اترتے اور جہنمی ہیں اگر عبد اللہ بن خطل کی طرح خانہ کعبہ سے لپٹ کر بھی معافی مانگیں تو بھی ان کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ اہل سنت کی اکثریت بھی یزید پلید اور اس کے ماننے والوں کو صحابی یا تابعی نہیں کہتے بلکہ تابعی صرف اس کو کہتے ہیں جو صحابہ کی پیروی کرے۔ انھیں صحابی و تابعی بعض یزیدی سوچ کے اہل سنت کے نظریے کے مطابق لکھا گیا ہے۔

دشمن صحابہ[ترمیم]

کربلا میں تھے[ترمیم]

شہدائے کربلا کے قاتلین میں کوئی صحابی نہیں تھا۔ لیکن بعض منابع میں کہا گیا ہے چند صحابہ کربلا میں لشکر یزید میں موجود تھے اور فرزند رسول کے قتل میں شریک شمار ہوتے ہیں۔

اس ضمن میں جن 8 غیر معروف صحابہ کے نام ذکر ہوئے ہیں یا تو ان کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے۔ یا کربلا میں موجودگی ثابت نہیں۔

1 ۔ كثیر بن شہاب حارثی:

ابو نعيم اصفهانی کہتا ہے: كثير بن شهاب البجلي رأى النبي(ص)۔ کثیر بن شہاب نے نبیّ (ص) کو دیکھا تھا۔[34]

ابن حجر نے ایک قول نقل کیا ہے کہ یہ صحابی تھے: يقال ان لہ صحبة … قلت ومما يقوي ان لہ صحبة ما تقدم انهم ما كانوا يؤمرون الا الصحابة وكتاب عمر اليہ بهذا يدل على انہ كان أميرا۔ اس کے صحابی ہونا کا قوی احتمال ہے اس لیے کہ وہ فقط صحابہ ہی کو جنگ کی سپہ سالاری دیتے تھے۔ اور عمر کا اس کو خط لکھنا دلیل ہے کہ یہ امیر بنایا گیا تھا۔[35]

2 ۔ حجار بن ابجر عجلی:

ابن حجر عسقلانی نے اسے صحابی ادراکی کہا ہے: حجار بن أبجر بن جابر العجلي لہ إدراك۔ اس نے نبی(ع) کے زمانے کو درک کیا ہے۔[36]

بلاذری نے اس کے خط کو جو اس نے امام حسین(ع) کو لکھا ہے، کو نقل کیا ہے: قالوا: وكتب إليہ أشراف أهل الكوفة… وحجار بن أبجر العجلي۔۔۔ امام حسین(ع) کو جن بزرگان کوفہ نے خط لکھے تھے ان میں سے ایک حجار ابن ابجر ہے۔[37]

بلاذری مزید کہتا ہے وہ ایک ہزار کے لشکر کی سالاری کرتا ہوا کربلا پہنچا: وسرح ابن زياد أيضاً حصين بن تميم في الأربعة الآلاف الذين كانوا معہ إلى الحسين بعد شخوص عمر بن سعد بيوم أو يومين، ووجہ أيضاً إلى الحسين حجار بن أبجر العجلي في ألف۔ وہ کربلا میں ہزار سپاہیوں کے ہمراہ شریک ہوا۔[38]

3. عبد اللہ بن حصن ازدی:

ابن حجر نے طبرانی کا قول نقل کیا ہے کہ: عبد اللہ بن حصن بن سهل ذكرہ الطبراني في الصحابة۔ طبرانی نے اسے صحابہ میں ذکر کیا ہے۔[39]

بلاذری کہتا ہے کہ کربلا میں اس نے امام حسین(ع) سے گستاخی کی: وناداہ عبد اللہ بن حصن الأزدي: يا حسين ألا تنظر إلى الماء كأنہ كبد السماء، واللہ لا تذوق منہ قطرة حتى تموت عطشاً۔ عبد اللہ ازدی نے کہا: اے حسین کیا تم پانی کی طرف نہیں دیکھ رہے لیکن خدا کی قسم اس میں سے ایک قطرہ بھی تم کو نہیں ملے گا حتی تم پیاسے ہی مرو گے۔[40]

4. عبدالرحمن بن ابی سبرہ جعفی:

ابن عبد البر لکھتا ہے : عبد الرحمن بن أبى سبرة الجعفى واسم أبى سبرة یزيد بن مالك معدود فى الكوفيين وكان اسمہ عزيرا فسماہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم عبد الرحمن۔ اس کا نام عزیر تھا پھر رسول خدا(ص) نے اس کا نام عبد الرحمن رکھا۔[41] اس سے اندازہ لگایا ہے کہ یہ صحابی تھے۔

یہ اندازہ غلط ہے کیونکہ ابو سبرہ یزید بن مالک کی بارگاہ نبوت میں حاضری اور نام کی تبدیلی کا واقعہ کچھ یوں نقل ہوا ہے: ولما أتى النبي كان معہ ابناہ: سبرة وعبد العزى، فقال لہ النبي: «مَا وَلَدُكَ؟» فقال: «فلان، وفلان، وعبد العزى۔» فقال: «بَلْ هُوَ عَبْدُ الْرَّحْمَنِ، إِنَّ مِنْ خِيَارِ أَسْمَائِكُمْ إِنْ سَمَّيْتُمْ: عَبْدُ الْلَّهِ، وَعَبْدُ الْرَّحْمَنِ، وَالْحَارِثُ»۔[42][43] اس میں دو بیٹے سبرہ اور عبد العزی ساتھ تھے اور عزیر یا عزیز نامی بیٹا ساتھ نہیں تھا۔

ابن اثیر نے لکھا ہے: وجعل عمر بن سعد علي ربع أہل المدينة عبد اللہ بن زہير الأزدي وعلي ربع ربيعة وكندة قيس بن الأشعث بن قيس وعلي ربع مذحج وأسد عبد الرحمن بن أبي سبرة الجعفي وعلي ربع تميم وہمدان الحر بن يزيد الرياحي فشهد ہؤلا كلهم مقتل الحسين۔

وہ قبیلہ مذحج اور اسد کا سالار تھا اور کربلا میں حاضر ہوا۔[44]

5. عزرہ بن قیس احمسی:

ابن حجر نے ابن سعد کی رائے نقل کی ہے: عزرة بن قيس بن غزية الأحمسي البجلي … وذكرہ بن سعد في الطبقة الأولى۔ اس کو ابن سعد نے پہلے طبقے میں ذکر کیا ہے۔ (یعنی صحابی تھا)۔[45]

اس نے بھی امام حسين (ع) کو خط لکھا تھا: قالوا: وكتب إليہ أشراف أهل الكوفة … وعزرة بن قيس الأحمسی۔ اس نے امام حسین(ع) کو خط لکھا تھا۔[46]

بلاذری نے اسے گھڑ سواروں کا سالار لکھا ہے: وجعل عمر بن سعد … وعلى الخيل عزرة بن قيس الأحمسی۔ وہ گھوڑے سوار لشکر کا سالار تھا۔[47] مزید لکھتا ہے یہ شہدائے کربلا کے سر لے کر ابن زیاد کے پاس گیا: واحتزت رؤوس القتلى فحمل إلى ابن زياد اثنان وسبعون رأساً مع شمر۔۔۔ وعزرة بن قيس الأحمسي من بجيلة، فقدموا بالرؤوس على ابن زياد۔[48]

6 – عبد الرحمن بن ابزی:

ابو حاتم کا قول ابن حجر نے نقل کیا ہے: أدرك النبي صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم وصلى خلفہ۔ ابو حاتم نے کہا ہے کہ اس نے نبی(ص) کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔[49]

مزّی لکھتا ہے: «سكن الكوفة واستُعمل عليها»، وكان ممّن حضر قتال الإمام عليہ السلام بكربلا۔ وہ کوفہ میں رہتا تھا۔ وہ امام حسین(ع) کی جنگ کے وقت کربلا میں موجود تھا۔[50]

7 – عمرو بن حريث:

ابن اثیر کہتا ہے: رأى النبي صلى اللہ عليہ وسلم۔ اس نے نبی(ص) کو دیکھا تھا۔[51]

علامہ باقر مجلسی لکھتے ہیں : ومن القادة: «عمرو بن حريث وهو الذي عقد لہ ابن زياد رايةً في الكوفة وأمّرہ على الناس۔ ابن زیاد نے اسے کوفہ میں جنگ کا جھنڈا دیا اور لوگوں پر امیر بنایا تھا۔[52]

بلاذری لکھتے ہیں:وبقي على ولائه لبني أُميّة حتّى كان خليفة ابن زياد على الكوفة۔ بنی امیّہ کے لیے والی رہا یہاں تک کہ کوفہ میں ابن زیاد کا خلیفہ تھا۔[53]

لیکن یہ تابعی تھا حجر بن عدی، مسلم بن عقیل اور میثم تمار کی شہادت میں اس کا ہاتھ تھا۔ عسقلانی کہتا ہے اس کا صحابی ہونا ثابت نہیں ہے۔

وقال ابن حجر عسقلانی: الصحبة مختلف فيها، وقد قالہ صالح بن أحمد بن حَنْبل في "المسائل"، قلت: لأبي عمرو بن حُريث الكوفي، هو الذي يحدِّثُ عنہ أهل الشام؟ قال: "لا، هو غيرہ"، وأخرج أَبُو يَعْلَى عن عمرو بن حُريث، قال: إنّ رسولَ اللہ صَلَّى اللہ عليہ وسلم قال: "ما خَفَّفْتَ عَنْ خَادِمَكَ مِنْ عَمَلِهِ كَانَ لَكَ أَجْرًا فِي مَوَازِينِكَ"(*)، ومقتضاہ أن يكونَ لعمرو صحبة، وقد أنكر ذلك البخاري، فقال: "عمرو بن حُريث روَى عنہ حُميد بن هانئ مرسلًا، وروى ابْنُ وهب بإسنادہ إلى عَمرو بن حريث، سمع أبا هريرة"، وقال ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ، عن أبيہ: حديثہ مرسل، وقال ابن أبي خيثمة، عن ابن معين: تابعي، وحديثہ مرسل، واللہ أعلم، وأخرج ابْنُ المُبَارَكِ في "الزُّهْدِ" عَن حَيْوَة بن شريح، عن أبي هانئ: سمعت عَمرو بن حريث وغيرہ يقولان: إنما نزلت هذہ الآية في أهل الصُّفَّة: {وَلَوْ بَسَطَ اللَّهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْضِ} [الشورى/ 27]؛ وذلك أنهم قالوا: لو أنَّ لنا الدنيا؟ فتمنَّوْا الدنيا، فنزلت، وقال ابْنُ صَاعِدٍ، عقب روايتہ في كتاب "الزهد": عَمْرو هذا من أهل مِصْر ليست لہ صحبة، وهو غَيْرُ المخزومي۔

8 -اسماء بن خارجہ فزاری:

ابن حجر نقل قول کرتے ہیں: وقد ذكروا أباہ وعمہ الحر في الصحابة وہو على شرط بن عبد البر۔ اس کو صحابہ میں سے شمار کیا گیا ہے۔[54]

بلاذری نے لکھا ہے: دعا ابن زياد … وأسماء بن خارجة الفزاري، … وقال: طوفوا في الناس فمروهم بالطاعة … وحثوهم على العسكرة۔ فخرجوا فعذروا وداروا بالكوفة ثم لحقوا به۔ اسماء بن خارجہ یہ لوگوں کو بنی امیہ کی اطاعت اور امام حسین سے جنگ کا حکم دیتا تھا۔[55] حسن بن حسن کربلا میں زخمی ہوئے تو ان کی جان بچانے والا اسماء بن خارجه فزاری تھا۔[56][57]

لیکن ان تمام افراد کا صحابی ہونا ثابت نہیں ہے اور تنہا عبد الرحمن بن ابزی صحابی تھے جن کا نام کربلا کے قاتلین کی فہرست میں کہیں نہیں آیا۔

کربلا میں نہیں تھے[ترمیم]

وہ صحابہ جو یزید کے طرف دار تھے مگر کربلا میں یزیدی لشکر کے ساتھ نہیں تھے۔

  • نعمان بن بشیر 65ھ میں مروان کی مخالفت میں عبداللہ بن زبیر کی بیعت کی اور اپنے ہی لوگوں نے مشتعل ہو کر قتل کر دیا۔ کوفہ کا حاکم رہا مختار ثقفی کا سسر تھا مختار کی بیوہ عمرہ بنت نعمان کو مصعب بن زبیر نے مختار کے بعد شہید کر دیا تھا۔ عثمان بن عفان کی بیوہ نائلہ بنت الفرافصہ کا خط اور خون آلود قمیض لے کر معاویہ بن ابو سفیان کے پاس گیا۔ صفین میں مولا علی کے خلاف لڑا۔ تمام انصار مولا علی کے ساتھ تھے سوائے اس کے اور مسلمہ بن مخلد الانصاری کے یہ دونوں معاویہ کے ساتھ تھے۔ یزید کا ساتھ تو نہیں دیا مگر کربلا سے شام اور پھر مدینہ تک ہر جگہ کاروان حسینی کے ارد گرد منڈلاتا رہا۔ مگر آخر میں بنو امیہ کا مخالف ہوا اور مروان کے دور میں مارا گیا۔
  • ضحاک بن قيس فہری دشمن علی تھا۔ مولا علی کے خلاف جنگیں لڑیں۔ معاویہ کا جنازہ پڑھایا اور یزید کی ولی عہدی کا مشورہ بھی اسی کا تھا۔ یزید کا ساتھ دیا اور اس کی طرف سے جند دمشق (دمشق کی فوجی چھاؤنی) کا گورنر تھا۔
  • مسلم بن عقبہ ماہ صفر 64ھ میں جب واقعہ حرہ کے مظالم ڈھانے کے بعد مکہ پر حملہ کرنے جا رہا تھا راستے میں بیمار ہوا اور مر گیا۔ ادراکی صحابی تھا مگر اسے ادراک نبی یاد نہیں رہا تھا۔[58] لہذا اس کو صحابی شمار نہیں کیا جا سکتا۔

دشمن تابعین[ترمیم]

  • حمران بن ابان اسلام سے پہلے اس کا نام طویدا تھا۔ دشمنان علی میں شمار رہا۔
  • ہشام بن ہبیرہ الضبی بصرہ میں قاضی تھا۔
  • قاضی شریح بن حارث بن قیس بن جہم، قاضی شریح کوفہ میں واقعہ کربلا کے وقت قاضی تھا۔
  • مروان بن حکم حضور (ص) نے اس کو اور اس کے باپ حکم بن امیہ کو اس وجہ سے شہر بدر کر دیا تھا کہ وہ اپنی محفلوں میں ان کی نقلیں اتارتا تھا۔ حضرت عثمان نے اپنے دور میں اسے اور حکم کو واپس بلا لیا تھا۔[59] حضرت عثمان نے حکم کے بیٹے مروان کو اپنا سیکرٹری مقرر کیا تھا۔ حضرت عثمان کو اس پر بے حد اعتماد تھا۔ اس لیے مہر خلافت بھی اس کے سپرد کر رکھی تھی۔ جب آپ کے خلاف لوگوں نے اسی مروان کی وجہ سے شورش پیدا کی تو حاکم مصر کے نام منسوب خط وغیرہ کی جعلسازی کی ذمہ داری بھی اس پر عائد کی جاتی ہے۔ شہادت عثمان کے بعد مدینہ چھوڑ کر بھاگ نکلا اور معاویہ بن ابو سفیان کے ساتھ ہو گیا۔جنگ جمل اور جنگ صفین میں حضرت علی کے خلاف لڑا۔ طلحہ کی موت بھی اس کے ہاتھوں ہوئی جو اسی کی فوج کے سربراہ تھے اور معزول گورنر شام معاویہ بن ابو سفیان کی طرف سے خلیفہ مسلمین امیر المومنین علی ابن ابی طالب سے لڑ رہے تھے۔ امیر معاویہ کے بر سر اقتدار آنے کے بعد اسے مدینہ کا گورنر مقرر کیا گیا۔ یزید کی موت کے وقت یہ مدینہ ہی میں مقیم تھا۔ جبیر ابن مطعم سے روایت ہے کہ ہم لوگ پیغمبرِ اسلام کی خدمت میں حاضر تھے کہ ادھر سے حکم (مروان کا باپ) گذرا۔ اسے دیکھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے صلب میں جو بچہ ہے اس سے میری امت عذاب اور پریشانی میں مبتلا ہو گی۔[60]

حضرت عبد الرحمان بن عوف سے روایت ہے کہ جب مروان پیدا ہوا تو مدینہ کے اس وقت کے رواج کے مطابق اسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا۔ انھوں نے اسے دیکھ کر فرمایا یہ ملعون ابن ملعون ہے۔[61] ابن سعد کے مطابق یہ صحابی نہیں تھا اور اس کی پیدائش کے بعد اس کے باپ حکم کو نبی پاک کی نقلیں اتارنے پر مدینہ بدر کر دیا گیا تھا اور حکم اپنی فیملی کو لے کر طائف چلا گیا اور اس کا سارا بچپن اور جوانی طائف میں گذری ہے۔ عہد عثمانی مدینہ پلٹا ہے۔

  • عمرو بن حریث تابعی تھا حجر بن عدی، مسلم بن عقیل اور میثم تمار کی شہادت میں اس کا ہاتھ تھا۔ اس کا صحابی ہونا ثابت نہیں ہے۔[62]
  • شبث بن ربعی یہ مردود بہت متلون المزاج آدمی تھا۔ بہت سی کتابوں میں اس کا ذکر ہے:
    • وہ سجاح بنت حارث کا موذن تھا، جو اس کی نبوت پر ایمان رکھتا تھا اور پھر توبہ کی۔
    • وہ ان لوگوں میں سے تھا جنھوں نے عثمان بن عفان کے خلاف بغاوت کی اور اسے قتل کیا اور پھر توبہ کی۔
    • وہ معاویہ سے لڑتے ہوئے علی بن ابی طالب کے ساتھ ہو گیا۔
    • وہ علی بن ابی طالب کے خارجیوں کے ساتھ نکلا اور پھر واپس آگیا۔
    • امام حسین نے اسے شبث بن ربعی، حجار بن ابجر اور قیس بن اشعث و دیگر کو خطاب کر کے کہا کہ تم لوگوں نے مجھے خط لکھا تھا۔
    • وہ اس فوج میں تھا جسے عبید اللہ بن زیاد نے امام حسین سے لڑنے کے لیے بھیجا تھا، چنانچہ انھوں نے حسین کو قتل کر دیا۔
    • وہ مختار بن ابی عبید الثقفی کا پیروکار بن گیا اور پھر پیچھے ہٹ گیا۔
    • وہ بعد میں مختار الثقفی سے لڑنے والوں میں سے ایک بن گیا۔
    • مصعب بن زبیر کے ساتھ مل کر مختار الثقفی کا مقابلہ کیا۔

ابنائے صحابہ[ترمیم]

قاتلین شہدائے کربلا[ترمیم]

  1. ابو جنوب عبد الرحمن‌ بن زیاد جعفی
  2. ابوزرعہ
  3. ابو مرہم ازدی
  4. اخنس‌ بن‌ مرثد بن علقمہ حضرمی
  5. ازرق‌ بن‌ حرث‌ صیداوی
  6. اسحق‌ بن‌ حیوہ حضرمی
  7. اسماء بن خارجہ فزاری
  8. اسود بن‌ خالد
  9. اسید بن ‌مالک حضرمی
  10. ایوب‌ بن‌ مشرح خیوانی
  11. بجدل‌ بن‌ سلیم‌ کلبی
  12. بحر بن‌ کعب‌ تمیمی
  13. بدیل‌ بن‌ صریم‌ تمیمی
  14. بشر بن حویط قانصی
  15. بشر بن خوط ہمدانی
  16. بشر بن سوط ہمدانی
  17. بکیر بن حمران احمری
  18. حجار بن‌ ابجر عجلی
  19. حرملہ بن کاہل اسدی
  20. حسان‌ بن بکر حنظلی
  21. حصین‌ بن نمیر تمیمی
  22. حصین‌ بن‌ تمیم تمیمی
  23. حفص بن عمر بن سعد
  24. حمل‌ بن مالک محاربی
  25. حمید بن مسلم ازدی
  26. حکیم‌ بن‌ طفیل‌ سنبسی
  27. خالد بن طلحہ
  28. خولی‌ بن یزید اصبحی
  29. درید
  30. رجاء بن‌ منقذ عبدی
  31. رحیل‌ بن‌ خیثمہ
  32. رستم غلام شمر بن ذی‌ الجوشن
  33. زبیر بن اروج تمیمی
  34. زبیر بن‌ قرظہ بن کعب انصاری
  35. زحر بن بدر نخعی
  36. زحر بن‌ قیس جعفی
  37. زرعہ بن شریک تمیمی
  38. زیاد بن مالک ضبعی
  39. زید بن دفاف
  40. زید بن‌ رقاد جنبی
  41. سالم بن‌ خثیمہ‌ جعفی
  42. سرجون
  43. سنان بن انس نخعی
  44. شبث‌ بن ربعی تمیمی یربوعی ریاحی
  45. شرحبیل‌ بن ذی‌ کلاع حمیری
  46. قاضی شریح
  47. شمر بن ذی الجوشن
  48. صالح بن سیار
  49. صالح‌ بن وہب یزنی
  50. عامر بن صعصعہ
  51. عامر بن‌ نہشل‌ تمیمی
  52. عبدالرحمن بن صلخت
  53. عبدالرحمن‌ بن ابی‌ ا‌سبرہ جعفی
  54. عبد الرحمن‌ بن ابی‌ خشکارہ بجلی
  55. عبد اللہ بجلی
  56. عبد اللہ بن اسید جہنی
  57. عبداللہ بن حصین ازدی
  58. عبد اللہ بن حوزہ
  59. عبد اللہ بن زہیر بن سلیم ازدی
  60. عبد اللہ بن صلخت
  61. عبد اللہ بن عقبہ غنوی
  62. عبد اللہ بن قیس خولانی
  63. عبد اللہ بن‌ قطبہ طایی
  64. ‌‌عبد اللہ بن وہب ہمدانی
  65. عبید اللہ بن زیاد
  66. عثمان بن‌ خالد جہنی
  67. عروہ بن بکار تغلبی
  68. عروہ بن عبد اللہ خثعمی
  69. عزرہ بن‌ قیس احمسی
  70. عمر بن خالد بن اسد جہنی
  71. عمر بن سعد
  72. عمران‌ بن خالد قشیری
  73. عمرو بن سعد بن نفیل ازدی
  74. عمرو بن سعید بن عاص
  75. عمرو بن طلحہ جعفی
  76. عمرو بن‌ حجاج‌ زبیدی
  77. عمرو بن‌ صبیح‌ صیداوی
  78. عیہمہ بن زہیر
  79. فلافس‌ نہشلی
  80. قشعم بن عمرو جعفی
  81. قعقاع‌ بن‌ شور ذہلی
  82. قیس بن عبد اللہ صائدی
  83. قیس‌ بن اشعث
  84. کثیر بن عبد اللہ شعبی
  85. کثیر بن‌ شہاب‌ بن حصین مذحجی
  86. کعب‌ بن جابر بن عمرو ازدی
  87. کعب‌ بن طلحہ
  88. لقیط‌ بن ناشر جہنی
  89. مالک بن نسیر کندی
  90. مالک‌ بن بشیر البدی
  91. محفر بن ثعلبہ عائذی
  92. محمد بن اشعث
  93. مرہ بن‌ منقذ بن نعمان عبدی
  94. مروان بن حکم
  95. مسروق بن وائل حضرمى
  96. مسعود بن خالد
  97. مسلم‌ بن عبد اللہ ضبابی
  98. مضایر بن رہینہ مازنی
  99. مہاجر بن‌ اوس تمیمی
  100. نصر بن حرثہ
  101. ہانی ‌بن‌ ثبیت حضرمی
  102. ہانی‌ بن ابی‌ حیہ ہمدانی
  103. ہلال بن نافع
  104. ہلال‌ بن اعور
  105. واحظ‌ بن‌ ناعم
  106. ولید بن عمرو
  107. یزید بن حارث‌ بن رویم شیبانی
  108. یزید بن رکاب کلبی
  109. یزید بن معقل بن عمیر بن ربیعہ
  110. یسار غلام‌ زیاد بن ابی‌سفیان

یزیدی لشکر میں موجود دیگر افراد

تفصیلات[ترمیم]

  1. یزید بن حارث بن رویم: یزید بن معاویہ کی موت کے بعد لوگوں کے ابن زیاد کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے میں اس کا کردار تھا۔ عمرو بن حریث جب ابن زیاد کی بیعت کے لیے لوگوں کو دعوت دے رہا تھا تو یہ اس کی مخالفت میں اٹھ کھڑا ہوا تو عمرو نے اسے قید کرنے کا حکم دیا لیکن "بنی بکر" آڑے آگئے[63]۔قیام مختار کے مقابلے میں عبد اللہ ابن مطیع کے سرداروں میں سے تھا۔ [64] اور محلۂ مراد میں جنگ کی ذمہ داری اس کے ذمے تھی۔[65]۔اس کے بعد مصعب بن زبیر سے مل گیا اور اس کی جانب سے مدائن کا حاکم بنا۔ جب عبید اللہ بن حر جعفی نے مدائن پر حملہ کیا تو اس نے مصعب بن زبیر کو عبید اللہ کے خلاف جنگ پر اکسایا۔ مصعب نے اسے اس کے بیٹے حوشب کے ہمراہ عبید اللہ کے خلاف جنگ پر بھیجا لیکن یہ شکست سے دوچار ہوا۔[66]۔
  2. یزید بن معقل: اس کو بریر بن حضیر نے جہنم واصل کیا۔

تفصیلات شہدائے کربلا صحابہ[ترمیم]

اسلم (یا مسلم) بن کثیر ازدی[ترمیم]

اسلم بن کثیر صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے. زیارت ناحیہ میں ان کا نام اسلم ذکر ہوا ہے جبکہ کتب رجال میں اسلم کی بجائے مسلم بن کثیر الازدی الاعرج بیان ہوا ہے لیکن زیارت ناحیہ کے جملات یوں ہیں: السلام علیٰ اسلم بن کثیر الازدی الاعرج [67] مرحوم زنجانی نقل کرتے ہیں کہ یہ صحابی رسولؐ تھے.[68] مرحوم شیخ طوسیؒ اور مامقانی اپنی کتب رجال میں نقل کرتے ہیں کہ جنگ جمل میں تیر لگنے سے ایک پاؤں زخمی ہو گیا تھا جس کی وجہ سے اعرج (ایک پاؤں سے اپاہج) ہو گئے انھوں نے صحبت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو درک کیا تھا۔

عسقلانی لکھتے ہیں: مسلم بن کثیر بن قلیب الصدفی الازدی الاعرج۔۔۔الکوفی لہ ادراک للنبیؐ۔ مزید اضافہ کرتے ہیں: فتح مصر میں بھی یہ صحابی رسولؐ حاضر تھے طبری اور ابن شہر آشوب نے ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کربلا میں حملۂ اولیٰ میں شہید ہوئے۔[69]

مسلم بن کثیر ازد قبیلہ کے فرد تھے۔ جب امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے ہجرت کی تو ان دنوں یہ صحابی رسولؐ کوفہ میں قیام پزیر تھے۔ یہی وجہ ہے امام حسین علیہ السلام کو کوفہ میں آنے کی دعوت دینے والوں میں یہ شامل ہیں پھر حضرت مسلم بن عقیل ؑ جب کوفہ میں سفیر حسینؑ بن کر پہنچے تو انھوں نے حضرت مسلم بن عقیل کی حمایت کی. لیکن حضرت مسلمؑ کی شہادت کے بعد کوفہ کو ترک کیا اور کربلا کے نزدیک حضرت امام حسین علیہ السلام سے جا ملے اور ان کے ساتھ کربلا گئے اور اشور کے دن پہلے حملہ میں جام حق نوش کیا۔[70]

حضرت رسول اکرمؐ نے اپنے ایک صحابی عمرو بن جموح کے متعلق جو کسی جنگ میں اعرج ہونے کے باوجود شریک ہوئے تھے اور اپنی جان کی قربانی پیش کی تھی، فرمایا: والذی نفسی بیدہ لقد رأیت عمرو بن الجموح یطأُ فی الجنہ بعرجتہ یعنی مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، میں عمرو بن جموح کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ لنگڑا ہو کر بھی جنت میں ٹہل رہا ہے۔ اس بنا پر حضرت مسلم بن کثیر کا بھی وہی مقام ہے کہ اگرچہ قرآن فرماتا ہے: (لیس علی الاعمی حرج ولا علی الاعرج حرج)[71]۔ یعنی جہاد میں شرکت نہ کرنے میں اندھے پر کوئی حرج نہیں اور نہ ہی لنگڑے پر کوئی مؤاخذہ ہے لیکن اس فداکار اسلام نے نواسہ رسولؐ کی حمایت میں اپنی اس اپاہج حالت کے باوجود جان قربان کر کے ثابت کیا کہ اسلام کے تحفظ کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے یہی وجہ ہے کہ صاحب تنقیح المقال کے یہ جملے لکھے ہیں: شہید الطف غنی عن التوثیق۔ فرماتے ہیں چونکہ یہ کربلا کے شہداء میں شامل ہیں۔ لہذا وثاقت کی بحث سے بے نیاز ہیں۔[72]

انس بن حارث کاہلی[ترمیم]

انس بن حارث کاہلی حضرت پیغمبر ؐ کے صحابی تھے، اصحاب صفہ میں سے تھے۔ ابن داؤود نے اصحاب علی و حسن اور حسین میں سے قرار دیا ہے۔ جنگ بدر و حنین میں شرکت بھی کی۔[73]

مرحوم مامقانی فرماتے ہیں: (انس) بن حارث صحابی نال بالطف الشہادۃ.[74] صحابی رسولؐ تھے اور کربلا میں شہادت کے مقام پر فائز ہوئے۔[75]

ابن عبد البر اپنی کتاب استیعاب میں یوں رقم طراز ہیں انس بن حارث رویٰ عنہ والد اشعث بن سلیم عن النبیؐ فی قتل الحسین وقتل مع الحسین رضی اللہ عنہما[76]

انس بن حارث کے واسطہ سے، اشعث کے والد سلیم نے نبی اکرمؐ سے امام حسینؑ کی شہادت سے متعلق روایت نقل کی ہے اور پھر کہا ہے: یہ راوی (انس بن حارث) حضرت حسینؑ کے ہمراہ شہید ہوئے۔

الاستیعاب نے جس روایت کا ذکر کیا ہے اس حدیث نبوی ؐ کی اہمیت کے پیش نظر ضروری سمجھتے ہیں کہ اسے کامل سند کے ساتھ ذکر کر دیا جائے: سعد (سعید) بن عبد الملک بن واقد الحرانی بن عطا بن مسلم الخقاف عن اشعث بن سلیم عن ابیہ قال سمعت انس بن حارث یقول: سمعت رسول اللہؐ یقول: ان ابنی ہذا (یعنی الحسین) یُقتل بارض یقال لہا کربلا فمن شہد منکم فلینصرہ۔

حضرت انس بن حارث نے رسول خدا (ص) سے سنا تھا کہ آپؐ نے فرمایا: میرا یہ بیٹا (حسین) کربلا کی سرزمین پر قتل کیا جائے گا جو شخص اس وقت زندہ ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ میرے بیٹے کی مدد و نصرت کو پہنچے۔

راوی کہتا ہے کہ انس بن حارث نے پیغمبرؐ کے اس فرمان پر لبیک کہتے ہوئے کربلا میں شرکت کی اور امام حسینؑ کے قدموں پر اپنی جان نچھاور کر دی۔[77]

عسقلانی لکھتا ہے: فخرج انس بن الحرث الی کربلا فقتل مع الحسین۔

صاحب فرسان نے ابن عساکر سے یوں نقل کیا ہے : وقال ابن عساکر انس بن الحرث کان صحابیاً کبیرا ممن رأی النبیؐ وسمع حدیثہ و ذکرہ عبد الرحمٰن السلمی فی اصحاب الصفۃ۔[78]

ابن عساکر لکھتے ہیں کہ انس بن حرث ان عظیم اصحاب رسولؐ میں سے تھے جنہیں حضرت پیغمبرؐ کی زیارت نصیب ہوئی. انھوں نے آپؐ سے حدیث بھی سنی تھی. عبد الرحمٰن سلمی نے انھیں اصحاب صفہ میں شمار کیا ہے۔

بلاذری لکھتے ہیں کہ حضرت انس کوفہ سے نکل پڑے ایک مقام پر امام حسینؑ اور عبیداللہ بن حر جعفی کے درمیان میں ہونے والی گفتگو سنی فوراً امام حسینؑ کی خدمت حاضر ہوئے اور قسم کھانے کے بعد عرض کی: کوفہ سے نکلتے وقت میری نیت یہ تھی کہ عبیداللہ بن حر کی طرح کسی کا ساتھ نہ دوں گا (نہ امامؑ کا نہ دشمن کا)۔ یعنی جنگ سے اجتناب کروں گا لیکن خدواند نے میری مدد فرمائی کہ آپؑ کی مدد و نصرت کرنے کو میرے دل میں ڈال دیا اور مجھے جرأت نصیب فرمائی تاکہ اس حق کے راستے میں آپؑ کا ساتھ دوں۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے انھیں ہدایت اور سلامتی ایمان کی نوید سنائی اور انھیں اپنے ساتھ لے لیا۔[79]

یہ صحابی رسولؐ، نواسۂ رسولؐ کے دشمنوں سے جنگ کرنے کی غرض سے کربلا میں موجود ہیں حضرت امام حسینؑ نے اپنے اس وفادار ساتھی کو یہ ذمہ داری سونپی کہ عمر بن سعد کو حضرت ؑ کا پیغام پہنچائے اور اس ملعون کو نصیحت کرے کہ شاید وہ ہوش میں آ جائے اور قتل حسینؑ سے باز رہے جب حضرت انس، عمر بن سعد کے پاس پہنچے تو اس کو سلام نہ کیا عمر بن سعد نے اعتراض کیا کہ مجھے سلام کیوں نہیں کیا، آیا تو مجھے کافر اور منکر خدا سمجھتا ہے؟ حضرت انس نے فرمایا: تو کیسے منکر خدا اور رسولؐ نہ ہو جبکہ تو فرزند رسولؐ کے خون بہانے کا عزم کر چکا ہے! یہ جملہ سن کر عمر بن سعد سر نیچے کر لیتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ میں بھی جانتا ہوں کہ اس گروہ (گروہ حسینؑ) کا قاتل جہنم میں جائے گا لیکن عبید اللہ بن زیاد کے حکم کی اطاعت ضروری ہے۔[80]

ابتدائے ملاقات سے ہی حضرت انس تکلیف دہ حالات کو اپنی نظروں سے دیکھ رہے تھے لہذا جب دشمن کی طرف سے جنگ شروع ہوئی تو حضرت انسؓ بھی دیگر اصحاب حسین علیہ السلام کی طرح حضرت امام ؑ سے اجازت طلب کر کے عازم میدان ہوئے یہ مجاہد جوان نہیں تھا گو ایمان جوان تھا نقل کرتے ہیں کہ حضرت انس کی حالت یہ تھی کہ سن پیری (بڑھاپے) کی وجہ سے خمیدہ (جھکی ہوئی) کمر کو شال (رومال) سے باندھ کر سیدھا کرتے ہیں، سفید ابرو، آنکھوں پر پڑ رہے تھے، رومال پیشانی پر باندھ کر اپنی آنکھوں سے ان بالوں کو ہٹاتے ہیں اور میدان کارزار میں روانہ ہوتے ہیں۔ حضرت امام حسینؑ نے جب اپنے اس بوڑھے صحابی کو مقاتلہ کرتے دیکھا تو حضرت کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور فرمایا: خدا تجھ سے یہ قربانی قبول کرے۔ اے پیرمرد۔[81]

ہر مجاہد جنگ کرتے وقت رجز (مجاہدانہ اشعار) پڑھا کرتا تھا جو رجز حضرت انس نے پڑھا ہے نہایت پر معنی تھا۔ پہلے اپنا تعارف کراتے ہوئے یہ رجز پڑھتے ہوئے حملہ آور ہوئے:[82]

قد علمت كاہلنا وذودان والخندفيون وقيس علان
بان قومي آفة للاقران ياقوم كونوا كأسود خفان
آل علي شيعة الرحمن وآل حرب شيعة الشيطان

پھر دوبارہ کہا:

ياقوم كونوا كأسود خفان

واستقلبوا لقوم بغرٍ الآن

آل علی شیعۃ الرحمٰن،

وآل حرب شیعۃ الشیطان [83]

ہمارا کاہل قبیلہ، ذودان قبیلہ، خندف قبیلہ اور قیس علان قبیلہ جانتے ہیں کہ میری قوم (قبیلہ کاہل) دشمن کو نابود کرنے والی قوم ہے۔ اے میری قوم شیر غراں کی طرح دشمن کا مقابلے میں جنگ کرو۔ کیونکہ آل علیؑ رحمان کے پیروکار جبکہ آل حرب (بنو سفیان) شیطان کے پیروکار ہیں۔

بڑھاپے کے باوجود سخت جنگ کی 12 یا 18 دشمنوں کو قتل کرنے کے بعد جام شہادت نوش کیا زیارت ناحیہ میں ان پر سلام کے جملات یہ ہیں: السلام علی ٰ انس بن الکاہل الاسدی[84]

بکر بن حی تیمی[ترمیم]

علامہ سماوی نے اپنی کتاب ابصار العین میں حدایق الوردیہ سے نقل کیا ہے کہ بکر بن حی تیمی کوفہ سے عمر بن سعد کے لشکر میں شامل ہو کر کربلا پہنچے لیکن جب جنگ شروع ہونے لگی تو حضرت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عمر بن سعد کے خلاف جنگ کرتے ہوئے پہلے حملے میں شہید ہو گئے منتہی الآمال میں ان کا ذکر ان شہداء میں موجود ہے جو حملہ اولیٰ میں شہید ہوئے۔[85] تنقیح المقال نے بکر بن حی کو شہدائے کربلا میں شمار کر کے ان کی توثیق کی ہے عبارت یوں ہے: بکر بن حی من شھد الطف بحکم الوثاقۃ ابن حجر عسقلانی نے بکر بن حی کے ترجمہ میں لکھا ہے:بکر بن حی بن علی تمیم بن ثعلبہ بن شھاب بن لام الطائی۔۔۔ لہ ادراک ولولدہ مسعود ذکر بالکوفہ فی زمان الحجاج وکان فارساً شجاعاً[86]

(بکر بن حی نے حضرت پیغمبرؐ کے محضر مبارک کو درک کیا اور ان کے بیٹے مسعود کے بارے میں ملتا ہے کہ حجاج بن یوسف کے زمانے میں کوفہ میں مقیم تھا۔)

الاصابہ میں بکر بن حی کے صحابی رسولؐ ہونے کی گواہی ملتی ہے گو بیان نہیں کیا کہ یہ صحابی کربلا میں شہید ہوئے یا نہ؟ لیکن دیگر منابع رجال و مقاتل میں انھیں شہدائے کربلا میں شمار کیا گیا ہے۔

جابر بن عروہ غفاری[ترمیم]

کتاب شہدائے کربلا میں بیان ہوا ہے کہ متاخرین کے نزدیک جابر بن عروہ غفاری صحابی رسول خداؐ تھے جو کربلا میں شہید ہوئے۔ جنگ بدر اور دیگر غزوات میں رسول اکرمؐ کے ہمراہ شریک ہوئے یہ بوڑھے صحابی روز عاشورا رومال باندھ کر اپنے ابرؤوں کو آنکھوں سے ہٹاتے ہیں اور عازم میدان جنگ ہوتے ہیں جب امام علیہ السلام کی نظر پڑی تو فرمایا:اے بزرگ! خدا تجھے اجر دے۔[87]

ذبیح اللہ محلاتی نے مقتل خوارزمی سے درج ذیل عبارت نقل کی ہے:

ثم یرز جابر بن عروۃ الغفاری وکان شیخاً کبیراً وقد شہد مع رسول اللہ بدراً او حنیناً وجعل یشد وسطہ بعمامتہ ثم شد حاجبیہ بعصابتہ حتی رفعہما عن عینیہ والحسین ؑ ینظر الیہ وہو یقول شکر اللہ سعیک یا شیخ فحمل فلم یزل یقاتل حتی قتل ستین رجلاً ثم استثہد رضی اللہ عنہ۔[88]

بعض کتب جیسے تنقیح المقال، مقتل ابو مخنف اور وسیلۃ الدارین میں صحابی رسولؐ اور شہید کربلا کے عنوان سے بیان ہوا ہے البتہ دیگر معتبر منابع میں ان کا ذکر موجود نہیں اس وجہ سے بعض محققین ان کے بارے میں مردد ہیں۔ تنقیح کے جملات یہ ہیں جابر بن عمیر الانصاری، صحابی مجہول ۔[89]

جبکہ وسیلۃ الدارین کی عبارت کے مطابق یہ صحابی رسول تھے اور جنگ بدر کے علاوہ دیگر جنگوں میں بھی شریک رہے۔

انّ جابر بن عروہ کان من اصحاب رسول اللہؐ یوم بدر وغیرہا۔۔۔۔[90] جب دشمن کے مقابلہ میں آئے تو یہ رجز پڑھا:

قد علمت حقاً بنو غفار

وخندف ثم بنو نزار

ینصرنا لاحمد مختار

یاقوم حاموا عن بنی الاطہار

الطیبین السادۃ الاخیار

صلی علیہم خالق الابرار

یہ بنو غفار و خندف اور نزار قبائل بخوبی جانتے ہیں کہ ہم یاور محمد مصطفٰی ؐ ہیں اے لوگو آل اطہارؑ جو سید و سردار ہیں ان کی حمایت کرو کیونکہ خالق ابرار نے بھی ان پر درود و سلام بھیجا ہے۔

ان الفاظ کے ساتھ دشمن پر آخری حجت تمام کرتے ہوئے چند افراد کو واصل جہنم کرنے کے بعد جام حق نوش کیا۔[91]

جنادۃ بن کعب انصاری[ترمیم]

جنادہ بن کعب انصاری وہ صحابی رسولؐ ہیں جو حضرت امام حسینؑ کی نصرت کے لیے کربلا میں اپنی صحابیہ زوجہ بحریہ بنت مسعود اور اپنے کم سن فرزند عمرو کے ساتھ شریک ہوئے خود کو اپنے بیٹے سمیت نواسۂ رسولؐ کے قدموں پر قربان کر دیا۔ علامہ رسولی محلاتی نقل کرتے ہیں جنادہ صحابی رسول خداؐ اور حضرت علی علیہ السلام کے مخلص شیعہ تھے جنگ صفین میں حضرت علی ؑ کے ساتھ شریک ہوئے۔[92]

اور کوفہ میں حضرت مسلم بن عقیل کے لیے بیعت لینے والوں میں شامل تھے حالات خراب ہونے کی وجہ سے کوفہ کو ترک کیا اور امام حسینؑ سے جا ملے۔

تنقیح المقال نے جنادہ کے ترجمہ کو اس طرح بیان کیا ہے: جنادۃ (بن کعب) بن الحرث السلمانی الازدی الانصاری الخزرجی من شہداء الطف۔۔۔ و قد ذکر اہل السیر انہ کان من اصحاب رسول اللہؐ۔۔۔۔[93]

صاحب کتاب فرسان نے تاریخ ابن عساکر کے حوالے سے نقل کیا ہے: ابن مسعود روایت کرتے ہیں حضرت پیغمبر اکرمؐ نے جنادہ بن حارث کو ایک مکتوب میں بیان فرمایا کہ یہ مکتوب محمد رسول اللہؐ کی جانب سے جنادہ اور اس کی قوم نیز ہر اس شخص کے لیے ہے جو اس کی پیروی کرے گا کہ نماز قائم کریں اور زکوۃٰ ادا کریں اور خدا و رسول ؐ کی اطاعت کریں جو اس حکم پر عمل کرے گا خدا و رسولؐ کی حفظ و امان میں رہے گا۔[94]

اس فداکار صحابی رسولؐ نے اپنے راہبر کے حکم پر عمل کر کے نہ فقط مال کی زکوۃٰ ادا کی بلکہ اپنی جان اور اولاد کی زکوۃٰ بھی دیتے ہوئے دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کر لی حضرت جنادہ کی زوجہ مسعود خزرجی کی بیٹی اور بڑی شجاع و فداکار خاتون تھی جب جنادہ شہید ہو چکے تو اس مجاہدہ عورت نے اپنے خرد سال بیٹے عمرو بن جنادہ کو (جو گیارہ یا نو سال [95] کی عمر میں تھا) کو حکم دیا کہ جاؤ، جہاد کرو۔ یہ با ادب بچہ ماں کی اجازت کے باوجود اپنے مولا و آقا حضرت امام حسینؑ کی خدمت میں آیا اور بڑے احترام سے عرض کی مجھے جہاد کی اجازت عطا فرمائیں۔ حضرت ؑ نے اجازت دینے سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ شاید تیری ماں راضی نہ ہو (کیونکہ تیرا سن چھوٹا ہے اور تیری ماں بوڑھی ہے) یہ جملات سننے تھے کہ اس ننھے مجاہد نے عرض کی کہ انّ امّی قد امرتنی (میری ماں تو مجھے اجازت دے چکی ہیں) میری ماں نے نہ فقط اجازت دی ہے بلکہ مجھے لباس جنگ اس نے خود پہنایا ہے اور حکم دیا ہے آپؑ پر جان قربان کردوں امام حسینؑ نے جب اس کا جذبۂ جہاد دیکھا تو اجازت دی میدان جنگ میں آ کر صحابی رسولؐ کے اس کمسن فرزند نے اپنا تعارف بڑے نرالے انداز میں کرایا خلاف معمول اپنا نام یا والد اور قبیلہ کا ذکر نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ اس کمسن بچے کے بارے میں مؤرخین میں اختلاف ہے کہ یہ کس کا فرزند ہے بعض کتب میں یہ جملہ ملتا ہے کہ خرج شاب قتل ابوہ فی المعرکہ۔[96] دشمن کو للکار کر کہتا ہے:

امیری حسینٌ ونعم الامیر

سرور فواد البشیر النذیر

علیٌ وفاطمہ والداہ

فہل تعلمون لہ من نظیر

لہ طلعۃ مثل شمس الضحیٰ

لہ غُرّہ مثل بدر المنیر[97]

میرے آقا و سردار اور بہترین سردار حسینؑ ہیں بشیر النذیر (پیغمبر اکرمؐ) کے دل کا چین ہیں علی ؑ و فاطمہؑ جس کے والدین ہوں کیا اس کی مثال (دنیا میں) کہیں مل سکتی ہے؟ چمکتے سورج کی مانند نور افشانی کرنے والا اور چودھویں کے چاند کی مانند (تاریکیوں میں) روشنی دینے والا راہنما امام ہیں۔

میدان جنگ میں شہید ہو جانے کے بعد دشمن نے سر جدا کر کے ماں کی طرف پھینکا ماں نے سر اٹھا کر کہا: مرحبا'اے نور عین اور پھر دشمن کو دے مارا اور عمود خیمہ اٹھا کر دشمن کی فوج پر حملہ کرنا چاہا لیکن حضرت امام حسینؑ نے واپس بلا لیا اور اس با وفا خاتون کے حق میں دعا فرمائی۔ حضرت جنادہ کا نام بعض منابع میں جابر[98]۔ یا جبار یا جیاد درج ہوا ہے ان کے والد کے نام کو بھی بعض نے حارث[99] اور بعض نے حرث [100] ذکر کیا ہے جبکہ قاموس [101] میں جنادہ کے نام سے موجود ہے ان کے قبیلہ کا نام سلمانی [102] یا سلمانی ازدی[103]بیان ہوا ہے۔ یہ صحابی رسولؐ عذیب الہجانات کے مقام پر امام حسینؑ کے حضور شرفیاب ہوئے اسی دوران میں حر ان کا راستہ روک کر انھیں گرفتار کرنا چاہتا تھا جبکہ امامؑ کی شدید مخالفت کی وجہ سے اس کام سے باز رہا امام علیہ السلام ان تازہ شامل ہونے والے افراد (جیسے جنادہ بن حرث) کے ذریعے کوفہ کے حالات سے مطلع ہوئے اس وقت سے لے کر روز عاشور تک ساتھ رہے صبح عاشور جنادہ بعض دیگر افراد کے ساتھ تلوار ہاتھ میں لے کر دشمن کے لشکر پر حملہ آور ہوئے دشمن کے نرغہ میں آ جانے کی وجہ سے تمام افراد ایک مقام پر درجۂ شہادت پر فائز ہوئے۔[104] زیارت رجبیہ و ناحیہ میں ان پر سلام ذکر ہوا ہے۔

جندب بن حجیر خولانی کوفی[ترمیم]

جندب بن حجیر کندی خولانی کوفی یاجندب بن حجر۔[105] پیغمبر اکرم ؐ کے عظیم صحابی اور اہل کوفہ میں سے تھے یہ ان افراد میں سے ہیں جنہیں حضرت عثمان نے کوفہ سے شام بھیجا تھا۔ جنگ صفین میں بھی شرکت کی اور حضرت علی علیہ السلام کی طرف سے قبیلہ کندہ اور ازد کے لشکر کے سپہ سالار مقرر ہوئے اور واقعہ کربلا میں امام حسینؑ کے ہمرکاب جنگ کرتے ہوئے شہید ہوئے.[106]

صاحب وسیلۃ الدارین لکھتے ہیں:قال ابن عساکر فی تاریخہ ہوجندب بن حجیر بن جندب بن زہیر بن الحارث بن کثیر بن جثم بن حجیر الکندی الخولانی الکوفی یقال لہ صحبۃ مع رسول اللہ وہو من اہل الکوفہ وشہد مع النبیؐ۔۔۔ و قال علما السیر ومنہم الطبری:انہ قاتل جندب بن حجیربین یدیہ الحسینؑ حتی قتل فی اول القتال۔ [107]

مندرجہ بالا اقوال کے مطابق یہ صحابی رسولؐ اورشہدائے کربلا میں سے تھے۔

جندب بن حجیر کے صحابی رسولؐ ہونے میں اتفاق ہے لیکن مقام شہادت میں اختلاف ہے ابن عساکر انھیں جنگ صفین کے شہداء میں ذکرکرتے ہیں۔[108]لیکن بعض دیگر معتبر منابع انھیں شہدائے کربلا میں شمار کرتے ہیں تنقیح المقال میں ان کا تذکرہ اس طرح ہے: شہد الطف۔۔۔ و عدہ الشیخ فی رجالہ من اصحاب الحسینؑ و اقول ہو جندب بن حجیرالکندی الخولانی الکوفی و ذکراہل السیر انّ لہ صحبۃ۔[109]

نیز رجال طوسی، اقبال اور اعیان الشیعہ میں بھی شہدائے کربلا کی فہرست میں ذکر کیا گیا ہے۔[110]

جندب کوفہ کے نامدار اور معروف شیعہ افراد سے تعلق رکھتے تھے کوفہ کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے وہاں سے نکل پڑے عراق میں حر کا لشکر پہنچنے سے قبل حضرت امام حسینؑ سے مقام حاجر میں ملاقات کی اورامام ؑ کے ہمراہ وارد کربلا ہوئے جب روز عاشور (عمرسعد کی طرف سے) جنگ شروع ہوئی یہ دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے پہلے حملہ میں مقام شہادت پر فائز ہوئے۔[111]

حبیب بن مظاہر الاسدی[ترمیم]

حبیب بن مظاہر اسدی خاندان بنی اسد کے معروف فرد اور حضرت رسول اکرمؐ کے صحابی اور امام علی، امام حسن وامام حسین علیہم السلام کے وفادار ساتھی تھے۔[112] عسقلانی ان کاترجمہ بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ حبیب بن مظاہر بن رئاب بن الاشتر۔۔۔الاسدی کان صحابیاً لہ ادراک وعمر حتی قتل مع الحسینؑ یوم الطف مع ابن عمہ ربیۃ بن خوط بن رئاب مکنی اباثور۔[113]

معتبر منابع میں ان کے حالات زندگی اورکربلا میں جہاد کاذکر مفصل ملتا ہے۔ حبیب بن مظاہر حضرت علی علیہ السلام کے شاگرد خاص اور وفادار صحابی تھے اپنے مولا علیؑ کے ساتھ کئی جنگوں میں شرکت کی، بہت سے علوم پر دسترس تھی زہد و تقویٰ کے مالک تھے ان کاشمار پارسایان شب اورشیران روز میں ہوتا ہے ہرشب ختم قرآن کرتے تھے۔[114]

صاحب رجال کشی (اختبار معرفۃ الرجال)، فضیل بن زبیر کے حوالہ سے حضرت حبیب بن مظاہر اور میثم تمار کے مابین ہونے والے مکالمے کو نقل کرتے ہیں جس میں یہ دونوں حضرات اپنی شہادت سے متعلق پیش آنے والے حالات سے ایک دوسرے کو آگاہ کرتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے یہ تربیت شدہ شاگردعلم باطن اور علم بلایا و منایا (آئندہ آنے والی مشکلات و مصائب) پر کس قدر تسلط رکھتے تھے۔ [115]

حضرت حبیب بن مظاہر کا شمار راویان حدیث میں بھی ہوتا ہے روایت میں ہے کہ حبیب ایک مرتبہ امام حسینؑ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ حضرات قبل از خلقت آدمؑ کس صورت میں تھے؟ حضرت امام حسینؑ نے فرمایا: ہم نور کی مانند تھے اور عرش الٰہی کے گرد طواف کر رہے تھے اور فرشتوں کو تسبیح و تحمید و تہلیل سکھاتے تھے۔[116]

حضرت حبیب ان افراد میں شامل تھے جنھوں نے سب سے پہلے امام حسینؑ کوکوفہ آنے کی دعوت دی۔[117] پھر جب حضرت مسلم بن عقیل کوفہ پہنچے تو سب سے پہلا شخص جس نے حضرت مسلم کی حمایت اور وفاداری کا اعلان کیا عابس بن ابی شبیب شاکری تھے اس کے بعد حبیب بن مظاہر کھڑے ہوئے اورعابس شاکری کی بات کی تائید کرتے ہوئے یوں گویا ہوئے: خدا تم پررحم کرے کہ تونے بہترین انداز میں مختصر الفاظ کے ساتھ اپنے دل کاحال بیان کر دیا خدا کی قسم میں بھی اسی نظریہ پر پختہ یقین رکھتا ہوں جسے عابس نے بیان کیا ہے۔[118]

اس طرح حبیب حضرت مسلم کے بہترین حامی تھے اورمسلم بن عوسجہ کے ساتھ مل کر حضرت مسلم بن عقیل کے لیے لوگوں سے بیعت لیتے تھے[119] لیکن جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کے بعد اہل کوفہ کی بے وفائی کی وجہ سے ان کے قبیلہ والوں نے مجبوراً ان دونوں (حبیب اور مسلم بن عوسجہ) کو مخفی کر دیا لیکن جونہی حبیب بن مظاہر کو امام حسین علیہ السلام کے کربلا پہنچنے کی خبر ملی تو رات کے وقت سے فائدہ اٹھا کر حضرت ؑ سے جا ملے حالت یہ تھی کہ دن کو مخفی ہو جاتے اور رات کو سفر کرتے یہاں تک کہ اپنی دلی آرزو کو پا لیا۔[120]

اگرچہ بعض منابع نے ذکر کیا ہے کہ حضرت امام حسینؑ کو جب جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر ملی تو آپؑ نے حبیب بن مظاہر کو خط لکھ کر بلایا۔[121] لیکن یہ مطلب معتبر ذرائع کی رو سے ثابت نہیں ہے۔[122]

کربلا پہنچنے کے بعد جب عمر بن سعد کے لشکر میں اضافہ ہوتا دیکھا تو امام ؑ سے اجازت لے کر اپنے قبیلہ بنی اسد کے پاس گئے اور مفصل خطاب کے بعد انھیں امام حسینؑ کی مدد و نصرت کے لیے درخواست کی جس کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیے: میں تمھارے لیے بہترین تحفہ لایا ہوں وہ یہ کہ درخواست کرتا ہوں فرزند رسولؐ کی مدد کے لیے تیار ہو جاؤ۔۔۔ نواسۂ رسولؐ آج عمر بن سعد کے بائیس ہزار لشکر کے محاصرہ میں ہے آپ لوگ میرے ہم قبیلہ ہیں میری بات پر توجہ کریں تاکہ دنیا و آخرت کی سعادت تمھیں نصیب ہو سکے خدا کی قسم تم میں سے جو بھی فرزند رسول خداؐ کے قدموں میں جان قربان کرے گا مقام اعلیٰ علیین پر حضرت رسول خداؐ کے ساتھ محشور ہوگا۔[123]

حضرت حبیب کی تقریر اتنی موثر تھی کہ بہت سے لوگوں نے اس آواز پر لبیک کہا اور حضرت امام حسین علیہ السلام کا ساتھ دینے کے لیے آمادہ و تیار ہو گئے لیکن ارزق بن حرب صیداوی (جو اسی قبیلہ کا ملعون تھا) نے چار ہزار سپاہیوں کے ساتھ ان افراد پر حملہ کر کے انھیں منتشر کر دیا حبیب نے یہ اطلاع حضرت امامؑ کو پہنچائی جب حضرت امام حسینؑ اپنے خدا سے راز و نیاز کرنے کے لیے عصر تاسوعا (نہم محرم) کو دشمن سے مہلت طلب کی تو اس دوران میں، حبیب نے لشکر عمر بن سعد کو موعظہ و نصیحت کرتے ہوئے کہا: خدا کی قسم! کتنی بری قوم ہو گی کہ جب فردائے قیامت اپنے پیغمبرؐ کے حضور حاضر ہوں گے تو ایسے حال میں کہ اسی رسولؐ کے نواسہ اور ان کے یار و انصار کے خون سے اس کے ہاتھ آلودہ ہوں گے۔

شہادت کی موت سے محبت کا یہ عالم ہے کہ جب شب عاشور اپنے ساتھ یزید بن حصین سے مزاح کرتے ہیں تو یزید بن حصین نے کہا کہ یہ کیسا وقت ہے مزاح کا؟ جبکہ ہم دشمن کے محاصرے میں ہیں اور ہم موت کے منہ میں جانے والے ہیں تو حبیب نے کہا اے دوست اس سے بہتر کون سا خوشی کا وقت ہو گا جبکہ ہم بہت جلد اپنے دشمن کے ہاتھوں شہید ہو کر بہشت میں پہنچنے والے ہیں۔[124]

ایک روایت کے مطابق شب عاشور جب ہلال بن نافع نے حبیب بن مظاہر کو بتایا کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا پریشان ہیں کہ میرے بھائی حسینؑ کے صحابی کہیں بے وفائی نہ کر جائیں تو آپ تمام اصحاب کو جمع کر کے در خیمہ پر لائے اور حضرت زینب ؑ کی خدمت میں صمیم دل سے اظہار وفاداری کیا اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کا دوبارہ عہد کیا تاکہ حضرت زینبؑ کی یہ پریشانی ختم ہو سکے۔[125]

صبح روز عاشور حضرت امام حسینؑ نے اپنے لشکر کو منظم کیا دائیں طرف موجود لشکر کی کمانڈ زہیر بن قین اور بائیں طرف حبیب بن مظاہر جبکہ قلب لشکر کی سربراہی حضرت ابوالفضل العباس ؑ کے سپرد کی اسی اثنا میں دشمن کے سپاہی وارد میدان ہو کر مبارزہ طلب کرتے ہیں تو حبیب مقابلہ کے لیے آمادہ ہوئے لیکن حضرت امام ؑ نے روک لیا اس طرح ظہر عاشور جب امام ؑ نے لشکر عمر بن سعد سے نماز ادا کرنے کی خاطر جنگ بندی کے لیے کہا تو ایک ملعون نے گستاخی کرتے ہوئے کیا کہ اے حسین تمھاری نماز قبول نہیں ہو گی (نعوذ باللہ) اس وقت حضرت حبیب سے برداشت نہ ہوا اور فوراً یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے: اے حمار (گدھے)! تیرے خیال باطل میں آل پیغمبرؐ کی نماز قبول نہیں؟! اور تمھاری نماز قبول ہے؟!! اس طرح دونوں کا مقابلہ ہوا حبیب نے اس ملعون کو زمین پر گرا دیا پھر باقاعدہ رجز پڑھتے ہوئے وارد میدان ہوئے شدید جنگ کی دشمن کے کئی افراد کو واصل جہنم کیا لیکن ایک تیمی شخص نے تلوار کا وار کیا جس کی تاب نہ لا کر آپ شہید ہو گئے اس نے آپ کے سر کو جدا کر لیا اسی سر کو بعد میں گھوڑے کی گردن میں باندھ کر کوفہ میں پھرایا گیا۔ گویا کوفہ کا نامور مجاہد اہل کوفہ سے یہ کہہ رہا تھا دیکھو یہ سرآل رسولؐ کی خاطر کٹ سکتا ہے لیکن دشمن کے سامنے جھک نہیں سکتا۔[126]السلام علیک یاحبیب بن مظاہر الاسدی۔

زاہر بن عمرو اسلمی[ترمیم]

زاہر بن عمرو کندی شجاع اور بہادر شخص تھے صحابی رسولؐ اور اصحاب شجرہ میں سے تھے اور محبین اہل بیت علیہم السلام میں ان کا شمار ہوتا ہے حضرت رسول خداؐ کے ہمراہ غزوہ حدیبیہ اور جنگ خیبر میں شریک ہوئے۔

ذبیح اللہ محلاتی وسیلۃ الدارین کی عبار نقل کرتے ہیں:قال العسقلانی فی الاصابہ ہو زاہر بن عمرو بن الاسود بن حجاج بن قیس الاسدی الکندی من اصحاب الشجرۃ وسکن الکوفہ وروی عن النبیؐ وشہد الحدیبیہ وخیبر [127]

زاہر درحقیقت زاہر بن عمرو۔۔۔ الکندی ہیں جواصحاب شجرہ میں سے تھے کوفہ میں مقیم تھے اور حضرت رسول خداؐ سے روایت بھی نقل کی ہے حدیبیہ اور خیبر میں شریک تھے۔

ان کے بیٹے مجزأۃ نے اپنے باپ کے واسطہ سے پیغمبر اکرمؐ سے روایت بیان کی ہے فوق الذکر مطلب مختصر فرق کے ساتھ دیگر منابع میں بھی موجود ہے۔[128] لیکن بعض محققین کے خیال میں زاہر اور زاہر اسلمی دو الگ الگ افراد ہیں۔[129]

البتہ تنقیح کی عبارت میں انھیں اصحاب شجرہ اور شہدائے کربلا میں شمار کیا گیا ہے۔ زاہر اسلمی والد مجزأۃ من اصحاب الشجرہ نیز فرماتے ہیں:زاھر صاحب عمرو بن الحمق شہید الطف فوق الوثاقہ وعدہ الشیخ فی رجالہ من اصحاب ابی عبد اللہ واقول ہو زاہر بن عمرو الاسلمی الکندی من اصحاب الشجرہ روی عن النبیؐ وشہد الحدیبیہ وخیبر وکان من اصحاب عمرو بن الحمق الخزاعی کما نص علی ذلک اہل السیر۔۔۔[130]

مذکورہ بالا عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ زاہر نام کے دو اشخاص ہیں لیکن مرحوم مامقانی کی نظر میں زاہر بن عمرو اسلمی کا شمار اصحاب شجرہ اور شہدائے کربلا میں ہونا ثابت ہے نیز بیان کرتے ہیں کہ یہ محب اہل بیتؑ تھے بہت بڑا تجربہ کار پہلوان اور بہادر شخص تھا امام علیؑ کی شہادت کے بعد عمرو بن حمقکے ساتھ مل کر معاویہ کی ظالمانہ حکومت اور ابن زیاد کے خلاف بر سر پیکار رہا جب معاویہ نے ان کی گرفتاری اور قتل کا حکم صادر کیا تو یہ دونوں شہر سے فرار ہو گئے پہاڑوں اور جنگلوں میں زندگی بسر کرنے لگے یہاں تک کہ عمرو بن حمقحکومتی کارندوں کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد شہید کر دیے گئے۔ لیکن زاہر زندہ رہا آخرکار 60ھ میں حج کے موقع پر امام حسینؑ کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور آپؑ کے ساتھ مل کر کربلا کی جنگ میں شرکت کی۔ عاشورا کے دن پہلے حملے میں جام حق نوش کیا۔[131]

زیارت ناحیہ اور رجبیہ میں سلام ان الفاظ میں ذکر ہوا السلام علی زاہر مولیٰ عمرو بن حمق[132]

زیاد بن عریب ابو عمرو[ترمیم]

قدیم محققین نے زیاد بن عریب صائدی سے متعلق کوئی مطلب بیان نہیں کیا لیکن بعض معاصر نے ان کا ترجمہ اس طرح درج کیا ہے: زیاد بن عریب بن حنظلہ بن دارم بن عبد اللہ بن کعب الصائد بن ہمدان[133] ابو عمرو زیاد بن عریب نے حضرت پیغمبرؐ کے محضر مبارک کو درک کیا ان کے والد بزرگوار عریب بن حنظلہ بھی صحابی رسول تھے۔ ابو عمرو شجاع، عابد و زاھد اور شب زندہ دار شخص تھے۔ بہت زیادہ نمازگزار تھے۔ زہد و تقویٰ کی وجہ سے غیرت دینی نے آرام سے نہ بیٹھنے دیا لہذا واقعہ کربلا میں اپنا کردار ادا کرنے کی غرض سے حضرت امام حسینؑ کی خدمت میں پہنچے اور دشمن کے خلاف جہاد و مبارزہ کرنے کے بعد درجۂ شہادت پر فائز ہوئے۔[134]

سعد بن حارث مولی امیر المومنینؑ[ترمیم]

سعد بن حارث خزاعی (غلام امام علی) کے نام سے معروف ہیں قدیم منابع میں ان کا نام شہدائے کربلا کی فہرست میں ذکر نہیں لیکن بعض متاخرین نے شہید کربلا کے عنوان سے ان کے حالات زندگی قلمبند کیے ہیں۔ سعد بن حارث نے محضر پیغمبر اکرمؐ کو درک کیا اس لحاظ سے صحابی رسولؐ ہیں پھر امیر المومنینؑ کے ہمراہ رہے حضرت نے انھیں کچھ عرصہ کے لیے سپاہ کوفہ کی ریاست سونپی تھی نیز کچھ مدت کے لیے انھیں آذربائیجان کا گورنر بھی منصوب کیا صاحب فرسان نے حدایق الوردیہ، ابصارالعین، تنقیح المقال اور الاصابہ جیسی معتبر کتب سے ان کے حالات نقل کیے ہیں۔[135] نیز الاصابہ سے سعد کا ترجمہ یوں نقل کیا ہے۔

سعید بن الحارث (بدل سعد بن الحارث) بن شاربہ بن مرۃ بن عمران بن ریاح بن سالم بن غاضر بن حبشہ بن کنجب الخزاعی، مولیٰ علی بن ابی طالبؑ، لہ ادراک وکان علی شرطۃ علی ؑ فی الکوفہ وولاۃ آذربایجان[136] لیکن موجودہ الاصابہ کے نسخہ میں مراجعہ کرنے سے یہ مطلب نہیں ملا۔

وسیلۃ الدارین نے بھی ص 128 پر صحابی اور شہید کربلا کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔ تنقیح المقال کی عبارت میں بھی اس طرح موجود ہے:

سعد بن الحارث الخزاعی مولیٰ امیر المومنین۔ صحابی، امامی، شہید الطف، ثقہ مزید لکھتے ہیں کہ سعد بن الحارث لہ ادراک صحبۃ النبیؐ وکان علی شرطۃ امیر المؤمنین فی الکوفہ وولاۃ آذربائیجان۔[137]

مزید تفصیلات ان کتب میں موجود نہیں ہے۔ البتہ اتنا ضرور ملتا ہے کہ سعد امیر المؤمنین ؑ کی شہادت کے بعد حضرت امام حسن و امام حسین ؑ کا ہر میدان میں یار و مددگار رہے۔ جب حضرت امام حسینؑ نے قیام کیا تو ابتدا میں اپنے مولا کی خدمت میں مکہ میں جا ملے پھر مکہ سے کربلا آئے اور روز عاشور جنگ کرتے ہوئے جان قربان کردی۔ [138]

اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ مرحوم محقق شوشتری نے اپنی کتاب میں ان کے صحابی ہونے پر تنقید کی ہے اس دلیل کی بنا پر کہ اگر صحابی ہوتے تو قدیم منابع نے کیوں ذکر نہیں کیا۔[139] لیکن مذکورہ بالا بعض معتبر منابع میں ان کا ذکر صحابی رسولؐ ہونے کے عنوان سے آجانا ہمارے مطلب کے اثبات کے لیے کافی ہے۔

شبیب بن عبد اللہ مولیٰ حرث[ترمیم]

شبیب بن عبداللہ بن شکل بن حی بن جدیہ حضرت رسول اکرمؐ کے صحابی اور کوفہ کی معروف و مشہور شخصیت اور بڑے با فضیلت انسان تھے۔[140] جہاں بھی ظلم و ستم دیکھا اس کے خاتمہ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے یہی وجہ ہے کہ جنگ جمل و صفین و نہروان میں بھی شرکت کی اور حضرت علیؑ کے وفادار اور یار و مددگار رہے۔[141]

مختلف معتبر منابع میں ان کا ذکر موجود ہے جیسے رجال شیخ طوسی، استر آبادی، تنقیح، مقتل ابی مخنف، تاریخ طبری وغیرہ۔ تنقیح میں ان کا ترجمہ اس طرح درج ہے:

شبیب بن عبد اللہ، مولی الحرث، صحابی، شہید الطف، فوق الوثاقہ شبیب، سیف بن حارث اور مالک بن عبد اللہ کے ہمراہ کربلا پہنچے اور اپنے مولا امام حسینؑ کی اطاعت میں جنگ کرتے ہوئے جام حق نوش کیا۔ کتاب روضۃ الشہداء میں ان پر سلام نقل ہوا ہے :السلام علی شبیب بن عبد اللہ مولیٰ بن سریع۔[142]

شوذب بن عبد اللہ ہمدانی شاکری[ترمیم]

جناب شوذب صحابی رسول اور حضرت علیؑ کے باوفا ساتھی تھے مرحوم زنجانی نے علامہ مامقانی سے ان کا ترجمہ نقل کیا ہے :ذکر العلامہ مامقانی فی رجالہ شوذب بن عبد اللہ الہمدانی الشاکری ان بعض من لایحصل لہ ترجمتہ تخیل انّہ شوذب مولی عابس والحال ان مقامہ اجل من عابس من حیث العلم والتقویٰ وکان شوذب صحابیاً واشترک مع امیر المومنینؑ [143]

شوذب علم وتقویٰ کے اعتبار سے بلند پایہ شخصیت تھے کوفہ کی معروف علمی شخصیت ہونے کی وجہ سے اہل کوفہ کے لیے حضرت امیر المومنین ؑ کی احادیث نقل کرتے تھے امام علیؑ کے ساتھ تینوں جنگوں (جمل و صفین اور نہروان) میں شریک رہے۔

جب حضرت مسلم بن عقیل کوفہ میں پہنچے تو ان کی بیعت کرنے کے بعد حضرت امام حسینؑ تک اہل کوفہ کے مزید خطوط پہنچانے میں عابس شاکری کے ہمراہ رہے۔نہایت مخلص اور عابد وزاھد انسان تھے بڑھاپے کے عالم میں بھی ظلم کے خلاف عملی کردار ادا کیا کوفہ میں حضرت مسلم کی شہادت کے بعد عابس شاکری کے ہمراہ حضرت امام حسینؑ کی خدمت میں کربلا پہنچتے ہیں جب حنظلہ بن سعد شبامی شہید ہو گئے توعابس نے شوذب سے پوچھا کہ کیاخیال ہے ؟کہتے ہیں تیرے ہمراہ فرزند رسول خداؐ کی نصرت کے لیے جنگ کرنا چاہتا ہوں تاکہ شہادت کامقام حاصل کرسکوں عابس نے کہا اگر یہ ارادہ ہے توامام ؑ کے پاس جاکر اجازت طلب کروحضرت امام ؑ کی خدمت میں حاضر ہو کر اجازت جہاد حاصل کی اور وارد جنگ ہوئے چند دشمنوں کو واصل جہنم کیا آخر میں شہید ہو گئے۔[144] ان الفاظ میں زیارت رجبیہ اور زیارت ناحیہ میں ان پر سلام بھیجا گیاہے السلام علی شوذب مولی شاکر[145]

قابل توجہ امر یہ ہے کہ بعض خیال کرتے ہیں کہ شوذب، عابس شاکر کے غلام تھے جبکہ اہل علم حضرات سے پوشیدہ نہیں کہ لفظ مولی صرف غلام کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ ہم پیمان کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ بعض محققین نے لکھا ہے کہ چونکہ شوذب، علمی و معنوی مقام کے اعتبار سے عابس پر برتری رکھتے تھے لہذا انھیں غلام عابس نہیں کہہ سکتے۔ بلکہ عابس اور اس کے قبیلہ کے ہم پیمان و ہم عہد تھے ۔[146] یہی دلیل علامہ مامقانی سے نقل شدہ ترجمہ میں بیان کی گئی ہے۔

عبد الرحمٰن ارحبی[ترمیم]

عبد الرحمن ارحبی حضرت رسول اکرمؐ کے بزرگ صحابی تھے۔ تمام معتبر منابع میں ان کا ذکر موجود ہے، جیسے رجال شیخ طوسی، رجال استرآبادی، مامقانی، نیز استیعاب، اصابہ اور وسیلۃ الدارین نے بھی نقل کیا ہے۔ تاریخ طبری اور الفتوح میں ان کے بعض واقعات بھی بیان ہوئے ہیں۔

استیعاب کی عبارت اس طرح ہے:ھو عبد الرحمن بن عبد اللہ بن الکدن الارحبی۔۔۔ انہ کان من اصحاب النبیؐ لہ ہجرۃ۔۔۔

معاویہ کی وفات کی خبر جب کوفہ پہنچی تو کچھ لوگ سلیمان بن صرد خزاعی کے گھر جمع ہوئے تاکہ اجتماعی طور پر حضرت امام حسین ؑ کو خط لکھ کر دعوت دیں اور خلافت کو ان کے سپرد کریں نیز کوفہ کے گورنر نعمان بن بشیر کو کوفہ سے باہر نکال دیں ان خطوط کو قیس بن مسہر صیداوی، عبد الرحمن ارحبی اور عمارہ بن عبداللہ سلولی لے کر حضرت امام حسینؑ کی خدمت میں ہوئے اس طرح یہ دوسرا گروہ تھا جو حضرت ؑ کو دعوت دینے کے لیے آیا کیونکہ پہلا گروہ عبداللہ بن سمیع کی قیادت میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔

عبد الرحمٰن ارحبی شجاع، تجربہ کار، فاضل اور فصیح و بلیغ صحابی تھے.[147] 50 یا 53۔[148]دعوت نامے لے کر 12 رمضان المبارک 60ھ کو مکہ کی طرف روانہ ہوئے بعض مورخین نے لکھا ہے کہ عبد الرحمٰن ارحبی 150 افراد پر مشتمل ایک وفد کے ہمراہ حضرت امام حسینؑ کی خدمت اقدس میں پہنچے۔[149]

مکہ میں حضرت امام ؑ کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا پھر حضرت کے نمائندہ خاص جناب امیر مسلم کے لیے کوفہ میں انقلابی سرگرمیوں میں مشغول رہے کوفہ میں حالات خراب ہونے کے بعد کربلا میں دشمنان دین کے خلاف جنگ میں شرکت کی جب عمر بن سعد نے امام حسینؑ کے قتل کا پختہ ارادہ کر لیا تو اس صحابی رسولؐ نے اپنی جان کی بازی لگا کر بھی اپنے مولا و آقا کی حمایت کا اعلان کیا اپنی شجاعت کے کارنامے دکھانے کے علاوہ فصاحت و بلاغت کے ذریعے بھی حسین ابن علیؑ کی حقانیت اور بنو امیہ کے بطلان کو اپنے اشعار میں واضح کیا تاریخ میں اس وفادار صحابی کے جو رجز بیان ہوئے ہیں اس زمانہ کی بہترین عکاسی کرتے ہیں کیونکہ بنو امیہ نے اسلام کے نام پر اسلام کی نابودی کا تہیہ کر رکھا تھا اس لیے وہ اصحاب کرام، جو اب پیغمبر اکرمؐ کے قول و فعل کے ذریعے حقیقی اسلام کے راہبر کی شناخت کر چکے تھے آج دشمنان دین کو اسلام کے حقیقی راہبر کی اطاعت و فرماں برداری کی طرف دعوت دینا اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں عبد الرحمٰن کے رجز کا ایک مصرع یوں ہے:

انی لمن ینکرنی ابن الکدن

انی علی دین حسین وحسن[150]

اس طرح امام حسینؑ کو دین حق کا علم بردار سمجھتے ہوئے ان کے قدموں میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اس شہید باوفا پر زیارت ناحیہ میں ان الفاظ میں سلام پیش کیا گیا ہے: السلام علی عبد الرحمٰن بن عبد اللہ بن کدر الارحبی [151]

عبد الرحمٰن بن عبد ربہ خزرجی[ترمیم]

مختلف منابع نے عبد الرحمان بن عبد ربہ انصاری کے لیے صحابی رسولؐ ہونے کی گواہی دی ہے انھیں بعض نے انصاری بھی لکھا ہے اصل میں مدینہ میں مقیم تھے جب پیغمبر اسلامؐ نے مدینہ میں ہجرت فرمائی تو اوس و خزرج قبائل نے اسلام قبول کیا اس وقت سے ان سب کو انصاری کہا جاتا تھا صاحب قاموس الرجال نقل کرتے ہیں کہ عبد الرحمٰن بن عبد ربہ الانصاری الخزرجی کان صحابیاً لہ ترجمۃ وروایۃ وکان من مخلص اصحاب امیر المؤمنین علیہ السلام (صحابی رسولؐ تھے جن سے روایت بھی نقل ہوئی ہے اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے مخلص اصحاب میں سے تھے۔)

جس روایت کا تذکرہ کیا گیا ہے یہ درحقیقت غدیر خم کے مقام پر پیغمبر اسلامؐ کی جانب سے ولایت علیؑ کا واضح اعلان کرنا ہے پھر جب وفات پیغمبر ؐ کے بعد اکثر افراد جن میں بعض نے دنیاوی مقاصد اور بعض نے خوف کی وجہ سے علی علیہ السلام خلیفۂ بلافصل تسلیم نہ کیا تو ایک مرتبہ رحبہ کے مقام حضرت علیؑ نے لوگوں کو قسم دے کر پوچھا جس نے پیغمبرؐ سے میرے بارے میں کوئی حدیث فضیلت سنی ہو تو اٹھ کر بیان کرے اسی اثنا میں عبد الرحمٰن خاموش نہ بیٹھ سکے اور اٹھ کر کہا کہ میں نے غدیر خم کے مقام پر رسول خداؐ کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ آنحضرت نے فرمایا: من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ (جس جس کا میں مولا و سردار ہوں اس کا یہ علیؑ مولا و سردار ہے۔)

مناسب ہوگا کہ الاصابہ فی تمییز الصحابہ کی عبارت نقل کی جائے: ابن حجر عسقلانی یوں رقمطراز ہیں:

عبد الرحمٰن بن عبد ربہ الانصاری ذکرہ ابن عقدہ فی کتاب المولاۃ فی من روی حدیث: من کنت مولاہ فعلیٌّّ مولاہ وساق من طریق الاصبغ بن نباتہ قال لما نشد علیٌّ الناس فی الرحبہ من سمع النبی ؐ یقول یوم غدیر خم ماقال الا قام، ولایقوم الا من سمع، فقام بضعۃ عشر رجلاً منہم :ابو ایوب، ابو زینب وعبد الرحمٰن بن عبد رب فقالوا نشہد انا سمعنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول ان اللہ ولی وانا ولی المومنین ؛فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ [152]

اس عظیم محقق کی عبارت کے مطابق دس سے زیادہ افراد کھڑے ہوئے اور گواہی دی کہ ہم نے سنا تھا کہ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: بے شک اللہ ولی ہے، میں بھی مومنین کا ولی ہوں، پس جس کا میں مولا ہوں تو اس کا علیٰ ؑ مولا ہے۔

ابصار العین نے بھی بیان کیا ہے کہ کان ھذا صحابیاً و علمہ امیر المؤمنین القرآن ورباہ وہو احد رواۃ حدیث من کنت مولاہ۔۔۔ حین طلب علیہ السلام۔۔۔

یعنی یہ صحابی پیغمبرؐ تھے حضرت علیؑ نے ان کی تربیت کی اور انھیں قرآن مجید کی تعلیم دی اور من کنت مولاہ کی حدیث کو اس صحابی نے اس وقت بیان کیا جب حضرت علیؑ نے گواہی طلب کی تھی۔[153]

پیغمبرؐ کی وفات کے بعد کوفہ میں سکونت اختیار کرلی اور کوفہ کی معروف شخصیت تھے یہی وجہ ہے کہ کوفہ میں امام حسینؑ کے لیے لوگوں سے بیعت طلب کرتے تھے لیکن جب کوفہ میں امام حسینؑ کے لیے راہ ہموار کرنے میں ناکام ہوئے تو کربلا میں امام ؑ سے ملحق ہو کر دشمن کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے پہلے حملہ میں یا بعد از ظہر[154] شہید ہو گئے۔

عبد اللہ بن ابو سفیان بن حارث[ترمیم]

کتاب شہدائے کربلا نے درج ذیل عبارت الاصابہ سے نقل کی ہے: ابو الہیاج عبد اللہ بن ابی سفیان بن حارث بن عبد المطلب بن ہاشم الہاشمی۔[155] لیکن جب کچھ معاصرین نے مراجعہ کیا تو موجود اصابہ کی عبارت اس طرح تھی: عبد اللہ بن الحارث بن عبد المطلب بن ہاشم الہاشمی ابن عم النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و کان اسمہ عبد الشمس فغیرہ النبیؐ۔ [156] حالانکہ وہ عبد اللہ اس عبد اللہ کے چچا بنتے ہیں۔ لگتا ہے یہ چچا کے ساتھ تشابہ اسمی کی وجہ سے غلطی ہوئی ہے۔ یا دادا سے نسبت دے دی گئی ہے۔

عبداللہ بن ابوسفیان کے والد ابو سفیان بن حارث، حضرت رسول اکرمؐ کے عموزاد اور برادر رضاعی اور حضرت علی کے بھی عمو زاد اور بہنوئی بھی تھے۔ عبد اللہ کی والدہ جمانہ بنت ابی طالب یا فغمہ بنت ہمام تھیں۔ اور وہ حضرت علی کے داماد بھی تھے۔ رملہ بنت علی ان کی زوجہ تھیں۔ عبد اللہ صحابی رسولؐ ؐ، عظیم شاعر بھی تھے اور انھوں نے پیغمبرؐ سے روایت بھی نقل کی ہے۔ اپنے بعض اشعار میں حضرت علیؑ کی مدح وثنا بھی بیان کی ہے۔

حضرت رسول اکرمؐ کی وفات کے بعد امام علیؑ کے ساتھ رہے انہی کے ہمرکاب مختلف جنگوں میں شرکت کی ایک مرتبہ جب حضرت عبد اللہ کو علم ہوا کہ عمرو عاص نے بنی ہاشم پر طعن و تشنیع اور عیب جوئی کی ہے تو عمرو بن عاص پر سخت غصہ ہوئے اور اسے مورد عتاب قرار دیا آخر تک اہل بیتؑ کے ہمراہ رہے، کربلا میں جب حضرت امام حسینؑ کا قیام کا علم ہوا تو ان کی خدمت میں پہنچ کر اپنی وفاداری کا عملی ثبوت دیا۔ اس طرح عاشور کے دن رسول خداؐ کے نواسہ کی حمایت کرتے ہوئے یزیدی فوج کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔[157]

عبد اللہ بن یقطر[ترمیم]

عبد اللہ بن یقطر صحابی رسول تھے۔

عقبہ بن صلت[ترمیم]

عقبہ بن صلت جہنی صحابی رسول تھے۔

عمار بن ابی سلامہ ہمدانی[ترمیم]

عمار بن ابی سلامہ ہمدانی صحابی رسول تھے۔

عمرو بن ضبیعہ[ترمیم]

مختلف منابع رجال و مقاتل میں ذکر ہوا ہے کہ عمرو بن ضبیعہ ضعبی صحابی پیغمبرؐ تھے اور کربلا میں حضرت امام حسینؑ کے ہمرکاب شہادت پائی۔ کتاب فرسان الہیجاء میں الاصابہ سے نقل کیا گیا ہے کہ ھو عمرو بن ضیبعۃ بن قیس بن ثعلبہ الضبعی التمیمی لہ ذکر فی المغازی۔۔۔ نیز رجال استرآبادی سے بھی نقل کرتے ہوئے یوں بیان ہوا ہے:قال المحقق استرآبادی فی رجالہ ھو عمرو بن ضبیعۃ۔۔۔ وکان فارساً شجاعاً لہ ادراک۔[158]

جناب مامقانی نے بھی انھیں صحابی ادراکی نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ تجربہ کار اور ماہر جنگجو شخص تھے، کئی ایک جنگوں میں شرکت کی، نیز شجاعت میں شہرت رکھتے تھے۔[159]

ابتدا میں عمر بن سعد کے لشکر کے ساتھ وارد کربلا ہوئے لیکن جب دیکھا کہ عمر بن سعد نواسہ رسولؐ کے قتل کا ارادہ رکھتا ہے تو فوراً حضرت امام حسینؑ کے ساتھ ملحق ہو گئے حملہ اولیٰ میں شہادت پائی۔ زیارت ناحیہ میں عمر کے نام سے ذکر ہوا ہے:السلام علی عمر بن ضبیعۃ الضعبی۔ [160]

عون بن جعفر طیار[ترمیم]

عون بن جعفر طیار کی کنیت ابو القاسم ہے حضرت جعفر ابن ابی طالب کے بیٹے ہیں اگرچہ سنہ ولادت واضح بیان نہیں ہوا لیکن چونکہ واقعہ کربلا میں 54 یا 57 سال کے تھے لہذا امکان ہے کہ 4ھ یا 7ھ کوحبشہ میں ولادت ہوئی ہوگی۔

یعقوبی کے نقل کے مطابق حضرت رسول اکرمؐ نے جنگ موتہ میں حضرت جعفر طیار کی شہادت کے بعد سال ہشتم ہجری میں عون اور ان کے بھائی عبداللہ اور محمد کو اپنی گود میں بٹھایا اور پیار کرتے رہے۔[161] ایک روایت کے مطابق رسول اکرمؐ نے حضرت جعفر طیار کے بیٹوں کو بلایا اور نائی کو بلا کر کہا کہ ان بچوں کے سر کی اصلاح کرے اور پھر فرمایا:عون خلقت اور اخلاق میں میرا شبیہ ہے۔ [162]

جناب عون کا شمار حضرت علی ؑ کے یار و انصار میں ہوتا ہے۔ حضرت علیؑ کے ہمراہ جنگوں میں بھی شریک رہے۔ حضرت ام کلثوم بنت علی (حضرت زینب صغری) کا عقد حضرت علی ؑ نے عون سے کیا تھا۔[163]

حضرت علیؑ کی شہادت کے بعد ہمیشہ امام حسن اور حسین علیہماالسلام کے ساتھ رہے یہاں تک کہ جب حضرت امام حسینؑ علیہ السلام یزید بن معاویہ کے مظالم کی وجہ سے مدینہ سے روانہ ہوئے تو حضرت عون بھی اپنی زوجہ محترمہ (ام کلثوم) کے ہمراہ اپنے مولا کے ساتھ اس جہاد میں شریک رہے اور روز عاشور حضرت علی اکبرؑ کی شہادت کے بعد حضرت امام ؑ کی اجازت سے وارد میدان ہوئے، 30 سوار اور 18 پیادے واصل جہنم کیے، لیکن زید رقاد جہنمی نے آپ کے گھوڑے کو زخمی کر دیا جس کی وجہ سے آپ گھوڑے پر سنبھل نہ سکے پھر اس ملعون نے تلوار کا وار کر کے آپ کو شہید کر دیا۔

ان کے رجز کو تاریخ نے یوں نقل کیا ہے:

ان تنکرونی فانا بن جعفر

شہید صدق فی الجنان ازہر

یطیر فیہا بجناح اخضر

کفی بہذٰا شرفاً فی المحشر[164]

قمبر بن صبرہ قیسی[ترمیم]

صحابی رسول تھے۔ اور اپنے بیٹے کے ہمراہ کربلا میں شہید ہوئے۔

قمبر بن صبرہ قیسی قطیف کے ان سات افراد میں سے تھے جنھوں نے امام حسین کا ساتھ دیا۔ یہ اپنے بیٹے عبداللہ بن قمبر کے ساتھ کربلا میں شہید ہوئے۔ ان کا مزار کہیں نہیں ہے۔ صحابی رسول تھے۔ اصحاب علی میں بھی رہے۔ ان کی طرف سے جنگیں لڑیں۔

کنانہ بن عتیق[ترمیم]

جناب کنانہ بن عتیق تغلبی کوفہ کے شجاع اور متقی اور پرہیزگار افراد میں سے تھے اور ان کا شمار کوفہ قاریان قرآن مجید میں ہوتا ہے۔[165]

جناب کنانہ اور ان کے باپ عتیق حضرت رسول اکرمؐ کے ہمرکاب جنگ احد میں شریک ہوئے۔ [166] وسیلۃ الدارین نے کنانہ کے ترجمہ کو رجال ابو علی اور الاصابہ سے یوں نقل کیا ہے : قال ابوعلی فی رجالہ: کنانۃ بن عتیق الثعلبی من اصحاب الحسینؑ قتل معہ بکربلا۔ و قال العسقلانی فی الاصابہ ہو کنانۃ بن عتیق بن معاویہ بن الصامت بن قیس الثعلبی الکوفی شہدا احداً ہو و ابوہ عتیق فارس رسول اللہ (ص) و قد ذکرہ ابن منذہ فی تاریخہ۔[167]

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جناب کنانہ بھی ان اصحاب رسول خداؐ میں سے ہیں جو حضرت امام حسین علیہ السلام کی مدد و نصرت کے لیے کربلا تشریف لائے اور اپنی جانوں کو نواسہ رسولؐ کے قدموں میں نچھاور کیا۔ زیارت رجبیہ اور ناحیہ میں ان پر سلام پیش کیا گیا ہے: السلام علی کنانۃ بن عتیق۔[168]

مجمّع بن زیاد جہنّی[ترمیم]

مجمع بن زیاد جہنی حضرت رسول اکرمؐ کے اصحاب میں سے تھے جنگ بدر و احد میں شریک رہے مختلف منابع نے ان کو صحابی رسولؐ اور شہید کربلا کے عنوان سے ذکر کیا ہے جیسے ذخیرۃ الدارین، حدایق الوردیہ، ابصارالعین، تنقیح المقال اور وسیلۃ الدارین وغیرہ

کتاب الدوافع الذایتہ نے الاستیعاب سے عبارت نقل کی ہے کہ ہو مجمّع بن زیاد بن عمرو بن عدی بن عمرو بن رفاعہ بن کلب بن مودعۃ الجہنی شہد بدراً واحد۔

اس کے عبارت کے نقل کرنے کے بعد خود تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اَی انّہ صحابیٌ جلیل بناً علی ذالک۔

تنقیح المقال نے بھی الاصابہ اور الاستعیاب سے اس طرح کی عبارت نقل کی ہے کہ یہ صحابی رسولؐ تھے۔ بدر و احد میں شریک بھی رہے لیکن ہمارے ہاں موجود الاصابہ میں یہ عبارت موجود نہیں۔

بہرحال جناب مجمع نے کوفہ میں حضرت مسلم کی بیعت کی۔ سب لوگ حضرت مسلم کو چھوڑ گئے لیکن حضرت مجمع ان افراد میں سے تھے جو ڈٹے رہے اور کوفہ میں حالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے کربلا میں حضرت امام حسینؑ سے ملحق ہو کر یزیدی ارادوں کو خاک میں ملانے کی خاطر حضرت امام حسینؑ کا ساتھ دیا یہاں تک کہ اپنی جان قربان کردی۔ دشمن جب اس مجاہد کو آسانی سے شکست نہ دے سکا تو ان کا محاصرہ کر لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے شہید ہو جاتے ہیں۔ [169]

مجمع خود جہینہ (مدینہ منورہ کے قریب ایک علاقہ) کے مقامی تھے جب امام یہاں سے گزرنے لگے تو مجمع دو صحابی عقبہ بن صلت جہنی اور عباد بن مہاجر جہنی اور چند دیگر افراد کے ساتھ امام سے ملحق ہوئے اور آخر تک تا بوقت شہادت امام کے ساتھ تھے۔[170]

منزل زبالہ پر باقی افراد ساتھ چھوڑ گئے مگر یہ تین افراد ساتھ رہے اور پہلے حملے میں خوب دفاع کیا اور لڑے اور تیروں سے چھلنی ہو کر تینوں نے شہادت پائی۔[171]

محمد اصغر بن جعفر بن ابی طالب[ترمیم]

کچھ تاریخی کتب میں ملتا ہے کہ جعفر بن ابی طالب کے دو بیٹے کربلا میں شہید ہوئے۔ یعنی صحابی رسول عون بن جعفر کے علاوہ محمد اصغر بن جعفر بھی شہید ہوئے۔[172]

مسلم بن عوسجہ[ترمیم]

مسلم بن عوسجہ اسدی کا ذکر شیعہ وسنی کے تمام معتبر ترین منابع جیسے استیعاب، اصابہ، طبقات ابن سعد، تنقیح، تاریخ طبری وغیرہ میں موجود ہے کہ یہ صحابی رسول خداؐ تھے اور صدر اسلام کے بزرگ اعراب میں شمار ہوتے تھے ابتدائے اسلام کی بہت سی جنگوں میں شریک رہے غزوہ آذربائیجان اور جنگ جمل و صفین اور نہروان میں بھی شرکت کی حضرت علیؑ کے باوفا یار و مددگار تھے۔[173] نیز مختلف صفات کے مالک بھی تھے شجاع و بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ، قاری قرآن، عالم علوم اور متقی و پرہیزگار، باوفا اور شریف انسان تھے۔[174]

حضرت مسلم بن عقیل کے کوفہ وارد ہوتے ہی ان کی مدد و نصرت میں پیش پیش تھے اور ان کی حمایت میں لوگوں سے بیعت لیتے تھے نیز مجاہدین کے لیے اسلحہ کی فراہمی اور دیگر امدادی کارروائیوں میں مصروف رہے۔[175]

حضرت مسلم و جناب ہانی بن عروہ کی شہادت کے بعد مخفی طور پر رات کے وقت اپنی صحابیہ زوجہ کو ساتھ لے کر حضرت امام حسینؑ کی خدمت میں پہنچے سات یا آٹھ محرم کو مسلم کوفہ سے کربلا پہنچ گئے اور سپاہ یزید کے خلاف ہر مقام پر پیش پیش رہے۔ جب امام ؑ نے حکم دیا کہ خیمہ کے اطراف میں آگ روشن کی جائے تو شمر ملعون نے آکر توہین آمیز جملات کہے جس پر مسلم بن عوسجہ نے حضرت امام حسینؑ سے عرض کی کہ اگر اجازت دیں تو اسے ایک تیر سے ڈھیر کر دوں لیکن حضرتؑ نے فرمایا نہیں کیونکہ میں پسند نہیں کرتا کہ ہماری طرف سے جنگ کا آغاز ہو۔[176]

شب عاشور جس وقت امام حسینؑ نے اپنے اصحاب کو چلے جانے کی اجازت دی تو جہاں بعض دیگر اصحاب امام ؑ نے اپنی وفاداری کا یقین دلایا وہاں حضرت مسلم بن عوسجہ نے جو تاثرات بیان کیے وہ سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہیں عرض کی: خدا کی قسم!ہرگز نہیں چھوڑ کے جاؤں گا یہاں تک کہ اپنے نیزہ کو دشمن کے سینہ میں توڑ نہ دوں۔ خدا کی قسم! اگر ستر بار مجھے قتل کر دیا جائے پھر جلا کر راکھ کر دیا جائے اور ذرہ ذرہ ہوجاؤں پھر اگر زندہ کیا جاؤں تو بھی آپؑ سے جدا نہیں ہوں گا، یہاں تک کہ ہر بار آپؑ پر اپنی جان قربان کروں گا اس لیے کہ جان تو ایک ہی جائے گی لیکن عزت ابدی مل جائے گی۔[177]

حضرت مسلم بن عوسجہ عظیم صحابی رسول ؐو امامؑ ہیں کہ جن کو حضرت امام حسینؑ نے ایک آیت قرآنی کا مصداق قرار دیا جب مسلم بن عوسجہ پچاس دشمنوں کو ہلاک کرنے کے بعد شہید ہو گئے تو حضرت امامؑ فوراً ان کی لاش پر پہنچے اور فرمایا: خدا تم پر رحمت کرے اے مسلم: پھر اس آیت کی تلاوت کی : (فمنہم من قضٰی نحبہ ومنہم من ینتظر وما بدلوا تبدیلاً)[178] اس طرح امام ؑ نے اپنے نانا رسول اللہؐ کے صحابی کو الوداع کہا :السلام علی مسلم بن عوسجہ الاسدی۔۔۔ و کنت اول من اشتری نفسہ و اول شہید شہد اللہ

نعیم بن عجلان[ترمیم]

ایک روایت کے مطابق نعیم بن عجلان انصاری اور ان کے دو بھائیوں نضر و نعمان نے حضرت رسول اکرمؐ کو درک کیا تھا۔ اس طرح یہ تینوں صحابی ادراکی ہیں۔ تینوں خزرج قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے حضرت رسول اللہ ؐ کی وفات کے بعد امام علی علیہ السلام کے ساتھی رہے۔ جنگ صفین میں حضرت کا ساتھ دیا۔ حضرت علیؑ نے ان کے بھائی نعمان کو بحرین کے علاقے کا والی بنایا۔[179]

نعیم کے دونوں بھائی حضرت امام حسن ؑ کے زمانہ میں انتقال کر گئے تھے۔ جبکہ نعیم کوفہ میں زندگی بسر کر رہے تھے کہ مطلع ہوئے کہ حضرت امام حسینؑ عراق میں وارد ہو چکے ہیں کوفہ کو ترک کرتے ہیں اور حضرت امام ؑ کی خدمت میں حاضر ہو کر غیرت دینی کا عملی ثبوت پیش کرتے ہیں اور نواسۂ رسولؐ کے ساتھ اپنی وفاداری کا اعلان کرتے ہوئے سپاہ یزید کے خلاف جنگ میں اپنے خون کا آخری قطرہ بھی قربان کر دیتے ہیں۔[180]کتاب مناقب کے مطابق روز عاشور اولین حملہ میں شہادت کا جام حق نوش کیا۔[181] زیارت ناحیہ اور رجبیہ میں ان پر سلام ذکر ہوا ہے:السلام علی نعیم بن العجلان الانصاری۔ [182]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. نیل الاوطار، ج7، ص127 از ثورۃ العین ص 32۔
  2. خلافت و ملوکیت، ص 179۔
  3. مسلم بن حجاج، ج 2، ص 1968
  4. رجال طوسی ص 35۔ ش 14
  5. الشيخ المفيد أبو عبد اللہ محمد بن محمد بن النعمان العكبري البغدادي۔ المتوفى في سنة (413هـ)، تحقيق: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لتحقيق التراث (1413هـ/1993م)۔ كتاب الإرشاد في معرفة حجج اللہ على العباد، الجزء الثاني۔ (على موقع المكتبة الشيعية)۔ (الثانية ایڈیشن)۔ صفحہ: 8۔ 24 مايو 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  6. ابن الصباغ علي بن محمد أحمد المالكي المكي۔ المتوفى في سنة (855هـ)، تحقيق: سامي الغريري (1422هـ)۔ كتاب الفصول المهمة في معرفة الأئمة، الجزء الثاني۔ (على موقع المكتبة الشيعية)۔۔ قم- ايران: دار الحديث۔ صفحہ: 717۔ 7 أغسطس 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  7. أبو القاسم الموسوي الخوئي۔ "معجم رجال الحديث وتفصيل طبقات الرواة،"۔ shiaonlinelibrary.com۔ الطبعة الخامسة، 1992م۔ صفحہ: 246۔ 03 اپریل 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 اپریل 2020 
  8. تقريب التهذيب ، تالیف : ابن حجر عسقلانی ، دار الرشيد، حلب ، طبع اول 1406هـ ، 1 / 138
  9. بلاذری، انساب الاشراف، 1959م، ج3، ص416؛ طبری، ج5، ص390؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، دار احیاء، ج5، ص20؛ ابن اثیر، الکامل، ج 4، ص 85
  10. ابن حجر عسقلانی: الاصابہ فی تمیز الصحابہ، جلد 2، ص 66، ترجمہ ابی سلمہ، رقم 3383۔ مطبوعہ بیروت، لبنان۔
  11. تهذيب التهذيب - ابن حجر - ج 6 - الصفحة 2٠9۔ آرکائیو شدہ 2021-01-23 بذریعہ وے بیک مشین
  12. وہ واقعہ غدیر کے ساتھ ساتھ کربلا اور اس کے بعد کے واقعات کے راوی ہیں۔ انھوں نے بازار شام میں کربلا کے قیدیوں کی آمد کے بارے میں بیان کیا: میں بیت المقدس جا رہا تھا۔ جب میں شام کے قریب پہنچا تو میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ شہر کو سجا رہے ہیں اور جشن منا رہے ہیں۔ میں نے پوچھا: کیا شامیوں کی آج کوئی عید ہے جس کے بارے میں میں نہیں جانتا؟ میں نے جواب سنا: اے بوڑھے! کیا آپ صحرا سے آئے ہیں؟ میں نے کہا: میں سہل ابن سعد ہوں اور میں نے رسول خدا کو دیکھا ہے۔ کہنے لگے: یہ حیرت کی بات ہے کہ آسمان خون نہیں بہاتا اور زمین اپنے لوگوں کو نگلتی نہیں! میں نے کہا: کیا ہوا؟ کہنے لگے: یہ نیزے پر جو سر ہے حسین بن علی نواسہ رسول کا سر ہے جو عراق سے تحفہ لائے ہیں! میں آگے بڑھا اور نیزوں پر سر دیکھے۔ ایک سر سب سے زیادہ پیغمبر اسلام سے ملتا جلتا تھا اور اس کے پیچھے عورتیں اونٹوں پر سوار تھیں۔ میں قریب گیا۔ میں نے پہلی خاتون سے پوچھا: وہ کون ہے؟ اس نے کہا: میں سکینہ ہوں، حسین کی بیٹی ہوں۔ میں نے کہا: میں سہل بن سعد ہوں، تیرے جد محمد کے ساتھیوں میں سے ہوں، اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو میں اسے فراہم کروں گا! اس نے کہا: نیزوں پر سر اٹھانے والے سے کہو کہ آگے بڑھے تاکہ لوگ اسے دیکھیں اور ان کی نظریں پیغمبر کی آل و عترت پر نہ پڑیں! سہل کہتے ہیں: میں نیزہ بردار کے پاس گیا اور اسے کچھ رقم دی اور کہا: اپنا سر والا نیزہ عورتوں کے آگے رکھو۔ اور اس نے قبول کر لیا۔
  13. شیخ عباس قمی، نفس المہموم، صفحہ 205
  14. اسد الغابہ ص 620
  15. اسد الغابہ ص 620
  16. طبقات الکبری ج 5 ص 210
  17. معہد سید الشہداء، نہضة عاشوراء، جمعیة المعارف الإسلامیة الثقافیة، صفحة: 120-128. آرکائیو شدہ 2020-01-08 بذریعہ وے بیک مشین
  18. خلیل زامل العصامی، تعریب موسوعة عاشوراء، الجزء : 1 صفحة : 46. آرکائیو شدہ 2019-09-25 بذریعہ وے بیک مشین
  19. الأمین، السید محسن، أعیان الشیعة، الجزء : 1 صفحة : 607. آرکائیو شدہ 25 ستمبر 2019 بذریعہ وے بیک مشین
  20. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج معجم كربلا، جمعیة المعارف الإسلامیة الثقافیة، صفحة: 142. آرکائیو شدہ 2019-12-17 بذریعہ وے بیک مشین
  21. الکامل فی التاریخ ج 2 ص 553
  22. تاریخ طبری ج 5 ص 404
  23. (اسد الغابہ:2/240)
  24. أبو عبد الله‏:‏ شهد بدرًا والمشاهد كلها مع رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم وكانت معہ راية بني معاوية يوم الفتح‏۔ وتوفي في هذہ السنة وهو ابن إحدى وسبعين سنة‏۔‏ 61 ھ
  25. سیر اعلام النبلاء ج: 4- ص: 489
  26. هو السائب بن يزيد بن سعيد بن ثمامة بن الأسود بن أُخت النمّر، اختلف في نسبته، فقيل كناني، وقيل: كنديّ، وقيل: ليثيّ وقيل: سلمي، وقيل: هُذلي، وقيل: أزديّ. مولى عطاء بن السائب، يكنى أَبا يزيد، كان جده سعيد بن ثمامة حليف بني عبد شمس۔ استیعاب، ذیل سائب بن یزید
  27. اسد الغابہ جلد 3 ص 234
  28. سير أعلام النبلاء: (٣/ ٤٧٣) عمرو بن أخطب أبو زيد الأنصاري (م، ٤) الخزرجي، المدني، الأعرج. من مشاهير الصحابة الذين نزلوا البصرة. روي أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم – مسح رأسه، وقال: «اللهم جمله» .فبلغ مائة سنة، وما ابيض من شعره إلا اليسير .وله بالبصرة مسجد يعرف به. روى عن: النبي -صلى الله عليه وسلم – أحاديث، وغزا معه ثلاث عشرة غزوة . حدث عنه: ابنه؛ بشير، ويزيد الرشك، وعلباء بن أحمر، وأبو قلابة الجرمي، وأنس بن سيرين، وجماعة. حديثه في الكتب سوى (صحيح البخاري). توفي: في خلافة عبد الملك بن مروان.
  29. وقعہ الصفین، ص117
  30. البدایہ و النہایہ۔ ابن کثیر
  31. من ہو الولید بن عقبہ؟۔ "من ہو الوليد بن عقبة ؟" (بزبان عربی)۔ 29 يوليو 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2018 
  32. عبد اللہ بن حسن کا بیان ہے کہ علی بن حسین (زین العابدین) اور عروہ روزانہ بعد عشاء مسجد نبوی کے ایک گوشہ میں بیٹھتے تھے، میں بھی ان کے ساتھ بیٹھتا تھا، ایک دن گفتگو میں بنی اُمیہ کے مظالم کا تذکرہ آیا اور یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ جب کسی میں ان مظالم کو روکنے کی طاقت نہیں ہے تو ان ظالموں کے ساتھ رہنا کہاں تک مناسب ہے، خدا ان مظالم کی سزا میں ایک نہ ایک دن ان پر عذاب نازل کرے گا، عروہ نے علی بن حسین سے کہا کہ جو شخص ظالموں سے علاحدہ رہے گا اور خدا اُس کی بیزاری سے واقف ہوگا، تو امید ہے کہ جب خدا اُن کو کسی مصیبت میں مبتلا کرے گا تو ظالموں سے علاحدہ رہنے والا شخص خواہ ان سے تھوڑے ہی فاصلہ پر ہو اس مصیبت سے محفوظ رہے گا، اس گفتگو کے بعد عروہ مدینہ چھوڑ کر عقیق چلے گئے، لوگوں نے اس کا سبب پوچھا تو فرمایا ان کی مسجدیں لہو و لعب اور ان کے بازار لغویات کا گہوارہ ہیں اور ان کے راستوں میں بے حیائی کی گرم بازاری ہے۔ (مختصر صفوۃ الصفوہ:32)
  33. روى الربيع عن عبد اللہ۔ قال هُبيرة بن حَزِيمة: لما قُتل الحُسين أتيتُ الربيع بن خثيم، فأخبرتہ، فقرأ هذہ الآية: {الَّلهُمَّ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَاْلأرْضِ عَالِمَ اْلغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِي مَا كَانُواْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ} [سورة الزمر: 46]۔ ومات الربيع بن خثيم بالكوفة في ولاية عبيد اللہ بن زياد عليها۔
  34. تاريخ أصبهان ج 2 ص 136 ، ، دار النشر : دار الكتب العلمية – بيروت - 1410 هـ-1990م، الطبعة الأولى، تحقيق : سید كسروی حسن۔
  35. الإصابة في تمييز الصحابة ج 5 ص 571 نشر : دار الجيل – بيروت۔
  36. الإصابة في تمييز الصحابة ج 2 ص 167 رقم 1957 ، دار النشر : دار الجيل – بيروت۔
  37. أنساب الأشراف ج 1 ص 411۔
  38. أنساب الأشراف ج 1 ص 416۔
  39. الإصابة في تمييز الصحابة ج 4 ص 61 رقم 4630 دار النشر : دار الجيل – بيروت۔
  40. أنساب الأشراف ج 1 ص 417۔
  41. الاستيعاب ج 2 ص 834 رقم 1419، نشر : دار الجيل – بيروت۔
  42. مجمع الزوائد للهيثمي، 8/53000، فيہ الحجاج بن أرطاة وفيہ ضعف وبقية رجاله رجال الصحيح
  43. المعجم الكبير، مسند من يعرف بالكنى، أبو سبرة الجعفي، حديث رقم 753، مكتبة إسلام ويب آرکائیو شدہ 2020-01-26 بذریعہ وے بیک مشین
  44. الكامل في التاريخ ج 3 ص 417 ، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت۔
  45. الإصابة في تمييز الصحابة ج 5 ص 125 رقم 6431، نشر : دار الجيل – بيروت۔
  46. أنساب الأشراف ج 1 ص 411۔
  47. أنساب الأشراف ج 1 ص 419۔
  48. أنساب الأشراف ج 1 ص 424۔
  49. الإصابة - ابن حجر - ج 4 ص 239۔
  50. تهذيب الكمال 11 / 90 رقم 3731۔
  51. أسد الغابة - ابن الأثير - ج 4 ص 97۔
  52. بحار الأنوار ج 44 /ص 352۔
  53. أنساب الأشراف 6 / 376۔
  54. الإصابة في تمييز الصحابة ج 1 ص 195 ، دار النشر : دار الجيل – بيروت۔
  55. أنساب الأشراف ج 1 ص 416۔
  56. شیخ مفید، الارشاد، ج 2، ص 25.
  57. احمد بن علی طبرسی، الاحتجاج، ج 2، ص 2729
  58. ابن منظور۔ مختصر تاریخ دمشق
  59. خلافت و ملوکیت۔ مولانا مودودی
  60. الآصابہ جلد 1 صفحہ 340
  61. صواعق المحرقہ صفحہ 108
  62. وقال ابن حجر العسقلاني: الصحبة مختلف فيها، وقد قالہ صالح بن أحمد بن حَنْبل في "المسائل"، قلت: لأبي عمرو بن حُريث الكوفي، هو الذي يحدِّثُ عنہ أهل الشام؟ قال: "لا، هو غيرہ"، وأخرج أَبُو يَعْلَى عن عمرو بن حُريث، قال: إنّ رسولَ اللہ صَلَّى اللہ عليہ وسلم قال: "ما خَفَّفْتَ عَنْ خَادِمَكَ مِنْ عَمَلِهِ كَانَ لَكَ أَجْرًا فِي مَوَازِينِكَ"(*)، ومقتضاہ أن يكونَ لعمرو صحبة، وقد أنكر ذلك البخاري، فقال: "عمرو بن حُريث روَى عنہ حُميد بن هانئ مرسلًا، وروى ابْنُ وهب بإسنادہ إلى عَمرو بن حريث، سمع أبا هريرة"، وقال ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ، عن أبيہ: حديثہ مرسل، وقال ابن أبي خيثمة، عن ابن معين: تابعي، وحديثہ مرسل، واللہ أعلم، وأخرج ابْنُ المُبَارَكِ في "الزُّهْدِ" عَن حَيْوَة بن شريح، عن أبي هانئ: سمعت عَمرو بن حريث وغيرہ يقولان: إنما نزلت هذہ الآية في أهل الصُّفَّة: {وَلَوْ بَسَطَ اللَّهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْضِ} [الشورى/ 27]؛ وذلك أنهم قالوا: لو أنَّ لنا الدنيا؟ فتمنَّوْا الدنيا، فنزلت، وقال ابْنُ صَاعِدٍ، عقب روايتہ في كتاب "الزهد": عَمْرو هذا من أهل مِصْر ليست لہ صحبة، وهو غَيْرُ المخزومي۔
  63. طبری، تاریخ، ج 5، ص 524۔
  64. ابن اثیر، الکامل ج 4، ص 221-223؛ طبری، تاریخ، ج 6، ص 26۔
  65. ابن اعثم، الفتوح، ج 6، ص 232؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج 6، ص 398۔
  66. ابن اثیر، الکامل ج 4، ص 293؛ طبری، تاریخ، ج 6، ص 134۔
  67. اقبال الاعمال، ج 3، ص 79
  68. وسیلۃ الدارین، ص 106
  69. فرسان الہیجاء، ذبیح اللہ محلاتی، ص 36
  70. شہدائے کربلا، گروہ مصنفین، ص 358
  71. سورۂ فتح، آیت 17
  72. مامقانی تنقیح المقال ج 1 ص 152
  73. تنقیح المقال، مامقانی، ج 1، ص 154
  74. مقتل الحسین، مقرم، ج 2 ص 253
  75. تنقیح المقال، مامقانی، ج 1، ص 154 اور ص 165
  76. الاستعیاب، ابن عبد البر، ج 1، ص 112
  77. یہ مطلب درج ذیل کتب میں بھی موجود ہے: اسد الغابہ، ابن اثیر، ج1، ص122۔تاریخ الکبیر، بخاری، ج2، ص30۔ الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ابن حجر عسقلانی، ج1، ص270
  78. فرسان الہیجاء، محلاتی، ص 37
  79. انساب الاشراف، بلاذری، ج 3، ص 175 (دارالتعارف)
  80. فرسان الہیجاء، ص37
  81. حیاۃ الامام الحسینؑ، ج 3، ص 234
  82. "مستدركات علم رجال الحدیث - شیخ علی نمازی شاهرودی - ج 1 - صفحہ 701"۔ 04 جنوری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 ستمبر 2019 
  83. الفتوح، ج 5، ص 196
  84. الاقبال، ج3، ص344
  85. منتہی الآمال، ج1، ص
  86. الاصابہ، ج 1، ص 349
  87. الاصابہ، ج1، ص118
  88. فرسان الہیجاء، ص 54
  89. تنقیح المقال، ج 1، ص 198
  90. وسیلۃ الدارین، زنجانی، ص 112
  91. مقتل الحسینؑ، ابی مخنف، ص 115، 116
  92. زندگانی امام حسینؑ، رسول محلاتی، ص252
  93. تنقیح المقال، مامقانی، ج 1، ص 234 (تین مجلد)
  94. فرسان الہیجاء، ص 76
  95. تنقیح المقال، ج2، ص327
  96. حماسہ حسینی، استاد شہید مطہری ؒ ج2، ص327
  97. شہدائے کربلا عبدالحسین بینش، ص 282
  98. تاریخ طبری، ج 5، ص 226
  99. تاریخ طبری، ج 5، ص 226
  100. انساب الاشراف، بلاذری، ج 3، ص 198
  101. قاموس الرجال، ج 2، ص 724
  102. الکامل فی التاریخ، ابن اثیر، ج 4، ص 74
  103. تنقیح المقال، ج 1، ص 234
  104. شہدائے کربلا عبد الحسین بینش، ص115
  105. اقبال الاعمال، ج 3، ص 78۔
  106. شہدائے کربلا عبد الحسین بینش، ص 136
  107. وسیلۃ الدارین، ص 114
  108. تاریخ اسلام، ابن عساکر، ج11، ص303
  109. تنقیح المقال، ج1، ص236
  110. رجال، شیخ طوسی ؒ، ص72، اقبال، ج3، ص346
  111. شہدائے کربلا عبد الحسین بینش، ص136
  112. رجال، شیخ طوسی ؒ، ص38، 68
  113. الاصابہ، حرف حا (حبیب بن مظاہر )
  114. سفینۃ البحار، ج2، ص26
  115. تفصیلی مکالمہ ملاحظہ ہو۔ رجال کشی ص78
  116. بحارالانوار، مجلسی، ج 40، ص311۔(تسبیح یعنی سبحان اللہ'تحمید یعنی الحمد للہ، اورتہلیل یعنی لاالہ الا اللہ کہنا)
  117. تاریخ الطبری، ج5، ص352
  118. تاریخ الطبری، ج5، ص355
  119. ابصارالعین، سماوی، ص78
  120. اعیان الشیعہ، ج2، ص554
  121. اسرار الشہادہ، ص 396
  122. شہدائے کربلا، ص134
  123. الفتوح، ج 5، ص 159
  124. اختبار الرجال، الکشی، ص79
  125. الدّمعۃ الساکبہ، ج4، ص274
  126. شہدائے کربلا، ص 135
  127. فرسان الہیجاء ص 138 از وسیلۃ الدارین، ص 137۔
  128. اسد الغابہ، ابن اثیر علی بن محمد، ج 2، ص 192، الاصابہ، ج 1، ص 542
  129. قاموس الرجال، شوشتری، ج 2، ص 402، 406
  130. تنقیح المقال، ج 1، ص 438
  131. شہدائے کربلا، ص 164، از تنقیح، ج 1، ص 437 تاریخ مدینہ دمشق، ج 25، ص 502
  132. اقبال، ص 79
  133. جمہرۃ انساب العرب، ص 395
  134. ابصار العین، سماوی، ص 134، عنصر شجاعت، ج 2، ص 94
  135. فرسان الہیجاء، ص154
  136. فرسان الہیجاء، ص 154
  137. تنقیح المقال، ج2، ص12
  138. شہدائے کربلا، ص 180
  139. قاموس الرجال، شوشتری، ج 5، ص 27، 28
  140. وسیلۃ الدارین، ص 155 نقل از الاصابہ، ج 3، ص 305
  141. فرسان الہیجاء، ص 167
  142. کتاب روضۃ الشہداء ص 295
  143. وسیلۃ الدارین، ص154
  144. شہدائے کربلا، ص 198
  145. اقبال، ص 346
  146. عنصر شجاعت، ج 1، ص 130
  147. یاران پائیدار، ص 97
  148. تاریخ طبری، ج 5، ص 352
  149. الفتوح، ج 5، ص 48
  150. انساب الاشراف، ج 3، ص196
  151. الاقبال، ج 3، ص 79
  152. الاصابہ، ج2، ص328
  153. ابصار العین فی انصار الحسینؑ، ص92
  154. ذخیرۃ الدارین، ص 270
  155. شہدائے کربلا، ص 228 نقل از اصابہ، ج 7، ص 151
  156. اصابہ، ج 4، ص 27
  157. شہدائے کربلا، ص 229
  158. فرسان الہیجاء، ج 2، ص 7
  159. تنقیح المقال، ج 2، ص 332
  160. الاقبال، ج3، ص78
  161. تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 65
  162. الاصابہ، ج 4، ص 74 ، نمبر شمار 6111۔ یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔
  163. تنقیح المقال، ج 2، ص 355
  164. مقتل الحسینؑ، خوارزمی، ج 2، ص 31
  165. ابصار العین، ص 199
  166. تنقیح المقال، ج 2، ص 42
  167. وسیلۃ الدارین، ص 184
  168. الاقبال، ص 78
  169. ابصار العین، ص 201
  170. مرضیہ محمد زادہ، شهیدان جاوید، نشر بصیرت، ص 303-304۔
  171. تنقیح المقال فی احوال الرجال، مامقانی، شیخ عبد اللہ، نجف: المطبعہ الحیریہ، 1352ﻫ، ج 2، ص 53؛ ابصار العین فی انصار الحسین (ع)، سماوی، محمد بن طاہر، تحقیق محمد جعفر طبنسی، مرکز الدراسات الاسلامیہ لحرس الثورہ۔، ص 201؛ الحدائق الوردیہ، محلی شہید، حمید الدین احمد بن محمد علی، دمشق: دار اسامہ۔، ص 122؛ فرسان الہیجاء، محلاتی، ذبیح اللہ، مرکز نشر کتاب، 1390ھ، ج 1، ص 186؛ ذخیرة الدارین، حائری شیرازی، سید عبد الحمید، نجف: مطبعہ المرتضویہ، 1345ھ، ص259؛ وسیلۃ الدارین فی انصار الحسین، موسوی زنجانی، بیروت: مؤسسہ اعلمی، 1402ﻫ، ص 192۔
  172. عمدۃ الطالب ص 36
  173. فرسان الہیجاء، ج 2، ص 116
  174. تنقیح المقال، ج 3، ص 214
  175. الکامل فی التاریخ، ج 4، ص 3
  176. تاریخ الطبری، ج 5، ص 424
  177. تاریخ طبری، ج 5، ص 419
  178. سورۂ احزاب آیت 23
  179. تنقیح المقال، ج 3، ص 274
  180. تنقیح المقال، ج 3، ص 274
  181. مناقب آل ابی طالبؑ، ج 4، ص 122
  182. الاقبال، ج 3، ص 77

سانچے[ترمیم]