میمونہ بنت حارث

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
میمونہ بنت حارث
(عربی میں: مَيْمُونَة بِنْت ٱلَحَارِث ٱلْهِلَالِيَّة‎ ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 592ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات دسمبر672ء (79–80 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ ،  سلطنت امویہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت عرب   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شریک حیات ابو رہم بن عبدالعزیٰ (–629)[1]
محمد بن عبداللہ (629–8 جون 632)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ ہند بنت عوف بن زہیر   ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی

ام المؤمنین میمونہ بنت حارث (پیدائش: 592ء— وفات: دسمبر 671ء) پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج میں سے ایک تھیں۔آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری زوجہ تھیں۔آپ نے 51ھ میں وفات پائی ۔

نام و نسب

نام

آپ کا نام بَرَّہ تھا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیل کر کے میمونہ رکھ دیا تھا۔[2] قبیلہ قریش سے تعلق تھا۔

نسب

آپ کا والد کی طرف سے نسب یوں ہے:

  • میمونہ (رضی اللہ عنہا) بنت حارث بن حزن ابن بحیر بن ہزم بن رویبہ بن عبد اللہ بن ہلال بن عامر بن صعصہ بن معاویہ بن بکر بن ہوازن بن منصور بن عکرمہ بن خصفہ بن قیس بن عیلان بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔

آپ کی والدہ ہند بنت عوف کا تعلق یمن کے قبیلہ حمیر سے تھا۔ والدہ کی طرف سے سلسلۂ نسب یوں ہے:

  • میمونہ (رضی اللہ عنہا) بنت ہند بنت عوف بن زُہَیر بن حارث بن حماطہ بن جرش۔

خاندان

خُزَیمہ بن حارث

سیدہ میمونہ کی والدہ ہند بنت عوف کی پہلی شادی خُزَیمہ بن حارث سے ہوئی تھی۔ جن سے ایک بیٹی زینب بنت خُزَیمہ رضی اللہ عنہا پیدا ہوئی تھیں۔ جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح فرمایا تھا۔ زینب بنت خُزَیمہ رضی اللہ عنہا کی وفات ربیع الثانی مطابق ستمبر 625ء میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔

حارث بن حزن

خُزَیمہ بن حارث کے اِنتقال کے بعد ہند بنت عوف نے حارث بن حزن سے شادی کی جن سے تین بیٹیاں پیدا ہوئیں:

عُمَیس بن معد

حارث بن حزن کے اِنتقال کے بعد ہند بنت عوف نے عُمَیس بن معد سے شادی کرلی جس سے تین بیٹیاں پیدا ہوئیں: اسماء بنت عمیس، سلمیٰ بنت عمیس اور ارویٰ بنت عمیس۔

ولادت و ابتدائی حالات

آپ کی ولادت بعثت سے 18 سال قبل اور ہجرت سے 30 سال قبل 592ء میں مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ آپ کی زِندگی کے ابتدائی حالات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد کے حالات کتبِ سیرت میں نہیں ملتے۔ البتہ چند مقامات پر آپ سے مروی احادیث یا اَقوال یا واقعات یا دِیگر اُمہات المومنین کے متعلق آراء ملتی ہیں۔

ازدواج

آپ کی پہلی شادی مسعود بن عمرو بن عمیر الثقفی سے ہوئی۔[3] [4] کسی وجہ سے یہ عقد علیحدگی میں تبدیل ہوا تو آپ کی دوسری شادی ابو رہم بن عبد العزیٰ سے ہوئی۔ ابو رہم بن عبد العزیٰ نے میں وفات پائی۔ میں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نکاح ہوا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ازدواج

سنہ مطابق 628ء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمرۃ القضا کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لائے [5] تو سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا مسلمانوں کی اِس ہیبت کو دیکھ کر حیران ہوئیں اور انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قلبی لگاؤ پیدا ہو گیا۔[6]

انھوں نے اِس موضوع کو اپنی بہن اُم الفضل لبابہ بنت حارث کے سامنے رکھا (جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چچی بھی تھیں)۔ تو انھوں نے اپنے شوہر عباس بن عبد المطلب سے اِس رشتہ کے لیے درخواست کی۔ عباس بن عبد المطلب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اِس بات کا اِظہار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جعفر بن ابی طالب کو اِس خواستگاری کے لیے بھیجا۔[7] جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے انھیں نکاح کا پیغام پہنچا تو وہ اُس وقت اونٹ پر سوار تھیں۔ اُس وقت انھوں نے خوشی سے کہا: ’’اونٹ اور اُس کا سوار، اُن کے خدا اور اُن کے رسول کی یاد میں ہیں‘‘۔ اِس موقع پر سورۃ الاحزاب کی پچاسویں آیت نازل ہوئی:

  • يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاء اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَنْ يَسْتَنْكِحَهَا خَالِصَةً لَكَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا

سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے اپنی شادی کا اِختیار عباس بن عبدالمطلب (رضی اللہ عنہ) کے سپرد کر دیا جنھوں نے مکہ مکرمہ سے دس میل کے فاصلے پر واقع مقامِ سَرَف پر آپ کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا تھا۔[8] اور چار سو درہم[9] حق مہر اور ایک روایت کے مطابق پانچ سو درہم [10] حق مہر قرار دیا۔ کہا گیا ہے کہ آپ نے خود کو بطور ہبہ ثابت کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مہر کا تقاضا نہیں کیا۔[11] [12]

رخصتی

عقدِ نکاح کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہمانوں کی دعوت کا اِرداہ کیا جس میں آپ سیدہ میمونہ (رضی اللہ عنہا) کے رِشتے داروں کو مدعو کرسکیں لیکن قریش اِس بات پر آمادہ نہ ہوئے کیونکہ انھوں نے آپ کو یاد دہانی کروائی کہ عمرۃ القضا کے موقع پر آپ کو مکہ مکرمہ میں تین دِن رہنے کی اجازت تھی۔ اَب وہ مدت ختم ہو گئی تو اِس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ مکرمہ سے باہر نکل گئے۔[13] اور جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ مکرمہ سے باہر چلے گئے تو اپنے غلام ابو رافع (رضی اللہ عنہ) کو حکم دِیا کہ وہ حضرت میمونہ (رضی اللہ عنہا) کو مکہ مکرمہ سے لے آئیں۔[14] ابو رافع آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مقامِ سَرَف لے کر پہنچے جہاں رسم عروسی اداء ہوئی۔[15] [16][17] یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نکاح تھا اور سیدہ میمونہ (رضی اللہ عنہا) آپ کی آخری بیوی تھیں۔ یہاں سے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مدینہ منورہ تشریف لے گئیں۔

وفات

راجح ترین قول کے مطابق آپ کی وفات سفرِ حج سے واپسی کے وقت 51ھ مطابق دسمبر 671ء میں بمقامِ سَرَف ہوئی۔ یہ مقام مکہ مکرمہ سے 10 میل کے فاصلہ پر ہے۔

  • امام ابن ابی شیبہ (متوفی 235ھ) اور امام بیہقی (متوفی 458ھ) نے آپ کے بھتیجے یزید بن اَصَم سے ایک روایت بیان کی ہے کہ: اُم المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا مکہ المکرمۃ میں شدید بیمار ہوگئیں۔ آپ نے فرمایا : ’’اَخْرِجُوْنِیْ مِنْ مَّکَۃَ فَاِنِّیْ لَا اَمُوْتُ بِھَا انَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَخْبَرَنِیْ اَنْ لَّا اَمُوْتَ بِمَکَّۃ‘‘- ’’مجھے مکہ سے باہر لے جاؤ، یہاں مجھے موت نہیں آئے گی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بتایا تھا کہ میرا وصال مکہ میں نہیں ہوگا۔‘‘چنانچہ آپ رضی اللہ عنہا کو سَرَف کے مقام پر اُس درخت کے پاس لے جایا گیا جِس کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شادی کے بعد اِن سے ملے تھے اور وہیں اُن کا وصال ہو گیا۔[18] نیز یزید مزید کہتے ہیں آپ حج سے آئی تھیں اور فوت ہوئیں، میں اور ابن عباس قبر میں اترے۔

آپ کی وفات یزید کے دور میں 61ھ میں 80 سال کی عمر میں ہوئی۔[19]

آپ کی نمازِ جنازہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے پڑھائی [20] اور آپ کو لحد میں اُتارا (کیونکہ عبد اللہ بن عباس رشتے میں آپ کے بھانجے تھے)۔ جب جنازہ اُٹھایا گیا تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ’’ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں، جنازہ کو زیادہ حرکت نہ دو، با اَدب اور آہستہ لے کر چلو۔‘‘ [21]

مقام تدفین

آپ کی تدفین آپ کی وصیت کے مطابق سَرَف کے مقام پر ہی کی گئی، جہاں آپ نے وفات پائی تھی (اِسی مقام پر آپ کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تھا)۔[22] اُس وقت سن مبارک 80 یا 81 سال کا تھا۔

فضل وکمال

حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ سے 46/حدیثیں مروی ہیں، جن میں بعض سے ان کی فقہ دانی کا پتہ چلتا ہے، ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ پراگندہ ہوئے توکہا بیٹا! اس کا کیا سبب ہے؟ جواب دیا ام عمار میرے کنگھا کرتی ہیں (اور آج کل ان کے ماہانہ ایام کا زمانہ ہے) بولیں کیا خوب! آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری گود میں سر رکھ کر لیٹتے تھے اور قرآن پڑھتے تھے اور ہم اسی حالت ناپاکی میں ہوتے تھے؛ اسی طرح ہم چٹائی اٹھا کر مسجد میں رکھ آتے تھے، بیٹا! کہیں یہ ناپاکی ہاتھ میں بھی ہوتی ہے؟[23]

حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے جن بزرگوں نے روایت کی ہے اُن کے نام یہ ہیں:

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ، عبد اللہ بن شداد بن الہاد، عبد الرحمن بن السائب، یزید بن اصم (یہ سب ان کے بھانجے تھے)، عبد اللہ الخولانی (ربیب تھے)، مذبہ (کنیز تھیں) عطا بن یسار، سلیمان بن یسار (غلام تھے)، ابراہیم بن عبد اللہ بن معبد بن عباس، کریب (ابن عباس رضی اللہ عنہ کے غلام)، عبیدہ بن سباق، عبیداللہ بن عبد اللہ بن عتبہ، عالیہ بنت سبیع رضی اللہ عنہم۔

اخلاقِ حسنہ

اُم المومنین سیدہ عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’ انھا کانت من اتقانا للہ واوصلنا للرحم‘‘۔ ’’میمونہ اللہ سے بہت ڈرتی اور صلہ رحمی کرتی تھیں۔‘‘[24][25]

احکام نبوی کی تعمیل ہروقت پیشِ نظر رہتی تھی، ایک دفعہ ان کی کنیز بدیہ، ابن عباس رضی اللہ عنہ کے گھر گئی تو دیکھا کہ میاں بیوی کے بچھونے دور دور بچھے ہیں، خیال ہوا کہ شائد کچھ رنجش ہو گئی ہے؛ لیکن دریافت سے معلوم ہوا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ (بیوی کے ایام ناپاکی کے زمانہ میں) اپنا بستر ان سے الگ کر لیتے ہیں؛ آ کر حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا تو بولیں، ان سے جا کر کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طریقے سے اس قدر کیوں اعراض ہے؟ آپ برابر ہم لوگوں کے بچھونوں پر آرام فرماتے تھے۔[26]

ایک عورت بیمار پڑی تو اس نے منت مانی تھی کہ شفا ہونے پر بیت المقدس جا کر نماز پڑھے گی، خدا کی شان وہ اچھی ہو گئی اور سفر کی تیاریاں شروع کیں، جب رخصت ہونے کے لیے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی تو بولیں تم یہیں رہو اور مسجد نبوی میں نماز پڑھ لو کیونکہ یہاں نماز پڑھنے کا ثواب دوسری مسجدوں کے ثواب سے ہزار گنا زیادہ ہے۔[27]

حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کو غلام آزاد کرنے کا شوق تھا، ایک لونڈی کو آزاد کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ (اللہ تم کو اس کا اجر دے)۔[28] حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کبھی کبھی قرض لیتی تھیں، ایک بار زیادہ رقم قرض لی تو کسی نے کہا کہ آپ اس کوکس طرح ادا کریں گی؟ فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص ادا کرنے کی نیت رکھتا ہے، اللہ خود اس کا قرض ادا کر دیتا ہے۔[29]

روایت حدیث

ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اَحادیث روایت کی ہیں۔ اِن روایات حدیث کا اصل راوی اُن کا بھتیجا یزید بن اصم ہے۔[30][31] دِیگر احادیث دوسری اَسناد کے ساتھ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی موجود ہیں۔[32] آپ سے روایت کردہ 46 احادیث، کتبِ حدیث میں محفوظ رہ سکی ہیں۔[33]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. عنوان : Маймуна бинт Харис
  2. امام ابن حجر عسقلانی: الاصابہ فی تمييز الصحابہ، جلد 8، صفحہ 48، مطبوعہ اول، دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1415ھ
  3. محمد بن عبدالباقی الزرقانی: اشراق مصابیح السیر المحمدیہ بمزج اسرار المواہب اللدنیہ، جلد 3، صفحہ 288۔
  4. مولانا سعید انصاری: سیرالصحابہ، جلد 6، صفحہ 87، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ، لاہور
  5. امام ابن جریر طبری: تاریخ الرسل والملوک، جلد 3، صفحہ 25
  6. دکتور عائشہ بنت الشاطی: نساء النبی، مطبوعہ دارالکتب العربی، بیروت، لبنان، 1985ء
  7. احمد بن یحیٰ البلاذری: انساب الاشراف، جلد 1، صفحہ 446، تحقیق: سہیل زکار/ریاض زِرکلی، مطبوعہ اول، دارالفکر، بیروت، لبنان، 1996ء
  8. ابن سعد بغدادی: طبقات ابن سعد، ج‏لد 8، صفحہ 135، فارسی ترجمہ محمود مہدوى دامغانى، مطبوعہ انتشارات فرہنگ و انديشہ، تہران، 1995ء
  9. امام محمد بن یوسف الصالحی: سبل الہدیٰ والرشاد فی سیرت خیر العباد، جلد 2، صفحہ 646۔ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1414ھ
  10. امام ابن جریر طبری: تاریخ الرسل والملوک، جلد 11، صفحہ 611۔
  11. ابن ہشام: سیرت النبویہ لابن ہشام، جلد 2، صفحہ 646۔ تحقیق مصطفی السقا ، مطبوعہ دارالفکر، بیروت، لبنان۔
  12. امام ابن جریر طبری: تاریخ الرسل والملوک، جلد 11، صفحہ 611۔
  13. ابو نعیم اصفہانی: دلائل النبوۃ، جلد 4، صفحہ 330
  14. ابن سعد بغدادی: طبقات ابن سعد، جلد 2، صفحہ 92
  15. سیرت النبویہ لابن ہشام، جلد 2، صفحہ 646۔ تحقیق مصطفی السقا ، مطبوعہ دارالفکر، بیروت، لبنان
  16. امام ابن جریر طبری: تاریخ الرسل والملوک، جلد 11، صفحہ 611
  17. مولانا سعید انصاری: سیرالصحابہ، جلد 6، صفحہ 87، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ، لاہور
  18. جلال الدین سیوطی: الخصائص الكبرٰی، ج 2 ص 428۔
  19. سير أعلام النبلاء» الصحابة رضوان الله عليهم» ميمونة أم المؤمنين، الجزء الثاني صـ 239: 245 آرکائیو شدہ 2017-10-01 بذریعہ وے بیک مشین
  20. امام ابن عبدالبر قرطبی: الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، جلد 4، صفحہ 1918۔ تحقیق: علی محمد البجاوی، مطبوعہ اول، دارالجیل، بیروت، لبنان، 1992ء
  21. صحیح بخاری: جلد 2، صفحہ 758
  22. علامہ ابی جعفر محمد بن حبیب الہاشمی البغدادی: کتاب المحبر، صفحہ 92، مطبوعہ منشورات دارالافاق الجدیدۃ، بیروت، لبنان
  23. (مسند:16/331)
  24. امام ابن حجر عسقلانی: الاصابہ فی تمييز الصحابہ، ج 8، ص 192
  25. (الإصابة في معرفة الصحابة:4/63، شاملہ،موقع الوراق)
  26. (مسند:6/332)
  27. (مسند:6/333)
  28. (مسند:6/333)
  29. (مسند:6/333)
  30. امام مسلم: صحیح مسلم، جلد 2، صفحہ 54، مطبوعہ دارالفکر، بیروت، لبنان
  31. محمد ابن سعد بغدادی: طبقات ابن سعد، تحقیق: محمد عبد القادر عطاء، جلد 1، صفحہ 323، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1990ء
  32. امام ابن حجر عسقلانی: الاصابہ فی تمييز الصحابہ، جلد 2، صفحہ 215، مطبوعہ اول، دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1415ھ
  33. مولانا سعید انصاری: سیر الصحابہ، ج 6، ص 88، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ، لاہور