"پاکستان" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 107: سطر 107:


== اشتقاقیات ==
== اشتقاقیات ==
پاکستان کے لفظی معنی '''پاک لوگوں کی سر زمین''' ہے۔ 1933 میں [[چوہدری رحمت علی|چودھری رحمت علی]] نے دوسری گول میز کانفرنس کے موقع پر اپنا مشہور کتابچہ (now or never) '''اب یا کبھی نہیں''' شائع کیا جس میں پہلی مرتبہ لفظ پاکستان استعمال کیا گیا۔
پاکستان کے لفظی معنی '''پاک لوگوں کی سر زمین''' ہے، پاک کے اردو اور فارسی میں معنی خالص اور صاف کے ہیں اور [[ستان]] کا مطلب زمین یا وطن کا ہے- 1933 میں [[چوہدری رحمت علی|چودھری رحمت علی]] نے دوسری گول میز کانفرنس کے موقع پر اپنا مشہور کتابچہ (now or never) '''اب یا کبھی نہیں''' شائع کیا جس میں پہلی مرتبہ لفظ پاکستان استعمال کیا گیا۔


لفظ '''پاکستان''' اس وقت پانچ مسلم علاقوں کے ناموں کا سرنامیہ ہے۔ '''پ''' پنجاب، '''ا''' خیبر پختونخوا (افغانیہ)، '''ک''' کشمیر، '''س''' سندھ، '''تان''' بلوچستان۔
لفظ '''پاکستان''' اس وقت پانچ مسلم علاقوں کے ناموں کا سرنامیہ ہے۔ '''پ''' پنجاب، '''ا''' خیبر پختونخوا (افغانیہ)، '''ک''' کشمیر، '''س''' سندھ، '''تان''' بلوچستان۔

نسخہ بمطابق 07:04، 8 ستمبر 2015ء

  
پاکستان
پاکستان
پاکستان
پرچم پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P163) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پاکستان
پاکستان
پاکستان کی ریاستی علامت   ویکی ڈیٹا پر (P237) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

 

ترانہ:   قومی ترانہ   ویکی ڈیٹا پر (P85) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زمین و آبادی
متناسقات 30°N 71°E / 30°N 71°E / 30; 71   ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں[1]
بلند مقام
پست مقام
رقبہ
دارالحکومت اسلام آباد   ویکی ڈیٹا پر (P36) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سرکاری زبان انگریزی [2]،  اردو [2]  ویکی ڈیٹا پر (P37) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آبادی
خواتین
مرد
حکمران
طرز حکمرانی وفاقی جمہوریہ   ویکی ڈیٹا پر (P122) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعلی ترین منصب عارف علوی (2018–)  ویکی ڈیٹا پر (P35) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سربراہ حکومت میاں محمد شہباز شریف (11 اپریل 2022–)  ویکی ڈیٹا پر (P6) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مقننہ مجلس شوریٰ پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P194) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مجلس عاملہ حکومت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P208) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قیام اور اقتدار
تاریخ
یوم تاسیس 14 اگست 1947  ویکی ڈیٹا پر (P571) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عمر کی حدبندیاں
شرح بے روزگاری
دیگر اعداد و شمار
کرنسی پاکستانی روپیا   ویکی ڈیٹا پر (P38) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مرکزی بینک بینک دولت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P1304) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ہنگامی فون
نمبر
ریسکیو 1122 (فوری طبی خدمات )[3][4]  ویکی ڈیٹا پر (P2852) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
منطقۂ وقت متناسق عالمی وقت+05:00
ایشیا/کراچی [5]  ویکی ڈیٹا پر (P421) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ٹریفک سمت بائیں [6]  ویکی ڈیٹا پر (P1622) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ڈومین نیم pk.   ویکی ڈیٹا پر (P78) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سرکاری ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آیزو 3166-1 الفا-2 PK  ویکی ڈیٹا پر (P297) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بین الاقوامی فون کوڈ +92  ویکی ڈیٹا پر (P474) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
Map

اسلامی جمہوریۂ پاکستان جنوبی ايشياء کے شمال مغرب وسطی ایشیاء اور مغربی ایشیاء کیلئے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خودمختار اسلامی ملک ہے ۔20 کروڑ کی آبادی کیساتھ یہ دنیا کا چھٹا بڑا آبادی والا ملک ہے۔اسکے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے۔ پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران واقع ہيں۔ پاکستان کا مطلب ہے پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ اور يہ نام چودھری رحمت علی نے 1933ء میں تجويز کيا تھا۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واہخان بارڈر تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سرحدی حدود عمان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔
موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم دنیا میں وہ علاقے تھے جن میں مہر گڑھ اور وادیٔ سندھ کی تہذیب پنپی تھی۔ اس علاقے پر یونانی ایرانی عرب,ہندو افغان منگول اور ترک حملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسے موریا ،حخمانیشی سلطنت عربوں کی خلافت امویہ ،مغول سلطنت ،مغلیہ سلطنت ،درانی سلطنت، سکھ سلطنت اور برطانوی راج کا اہم حصہ رہا ہے۔ اسکے بعد محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کامیاب ہوئی اور 14 اگست 1947ء کو ہندوستان کے مشرق مغرب میں ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان نے 1956ء میں اپنا پہلا قانون اپنایا۔ 1971ء میں ایک خانہ جنگی کے دوران اسکا مشرقی حصہ الگ ہوکر ایک نیا ملک بنگلہ دیش بن گیا۔
پاکستان وفاقی پارلیمانی جمہوری ریاست کے تحت چلتا ہے۔ اسکے چار صوبے اور کچھ وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقے ہیں۔ یہ ملک لسانی اور قومی طور پر مختلف اقوام کا علاقہ ہے اور اسکا جغرافیہ بھی ہر طرح کے خطے پر مشتمل ہے۔پاکستان دنیا کا ایک اہم طاقتور ملک ہے، جیسا کہ اسکی فوج دنیا کی ساتویں بڑی فوج ہے اور یہ اسلامی دنیا کی واحد اور جنوبی ایشیاء کی دوسری ایٹمی طاقت ہے۔ اسکی معیشت دنیا میں 27 ویں نمبر پر ہے۔
پاکستان کی تاریخ فوجی آمریت، سیاسی عدم استحکام اور پڑوسی ملک سےجھگڑوں پر مشتمل ہے۔ یہ ملک دہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے، جبکہ دیگر اہم مسائل میں غربت، جہالت ،کرپشن، بجلی کے بحران شامل ہیں۔یہ ملک مؤتمر عالم اسلامی ، اقوام متحدہ ،دولت مشترکہ ممالک، سارک،ترقی پذیر 8،اقتصادی تعاون تنظیم جیسی تنظیموں کا اہم رکن ہے۔

تاريخ

مسلم لیگ کے رہنما، ۱۹۴۰

711 میں اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں محمد بن قاسم برصغیر (موجودہ پاکستان و ہندوستان) کے خاصے حصے کو فتح کرتا ہے اور یوں برصغیر (موجودہ پاکستان) دنیا کی سب سے بڑی عرب ریاست کا ایک حصہ بن جاتا ہے، جس کا دارالحکومت دمشق، زبان عربی اور مذہب اسلام تھا۔ یہ علاقہ سیاسی، مذہبی اور ثقافتی طور پر عرب دنیا سے جڑ جاتا ہے۔ اس واقعہ نے برصغیر اور جنوبی ایشیاء کی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

سن 1947 سے پہلے بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش برطانوی کالونیاں تھیں اور برّصغیر کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ہندوستان کی آزادی (انگریزوں سے) کی تحریک کے دوران ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے لیے ایک علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا۔ "پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ" اس تحریک کا مقبول عام نعرہ تھا۔ اس مطالبے کے تحت تحریک پاکستان وجود میں آئی۔ اس تحریک کی قیادت محمد علی جناح نے کی۔ 14 اگست 1947 کو پاکستان وجود میں آیا۔ تقسیم برصغیر پاک و ہند کے دوران انگریزوں نے کچھ ایسے سقم چھوڑے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان 1948اور 1965 میں کشمیر کے مسئلہ پر دو جنگوں کا سبب بن گئے۔ اس کے علاوہ چونکہ پاکستانی پنجاب میں بہنے والے تمام دریا بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے ہوکر آتے ہیں، لہذا پاکستان کو 1960 میں انڈیا کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ کرنا پڑا، جس کے تحت پاکستان کومشرقی دریاؤں، ستلج، بیاس اور راوی سے دستبردار ہونا پڑا۔ جبکہ دریائے سندھ، چناب اور جہلم پر پاکستان کا حق تسلیم کر لیا گیا۔

1947 سے لے کر 1948 تک پاکستان کو بڑی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ بھارت نے پاکستان کے حصہ میں آنے والی رقم پاکستان کو ادا نہ کی۔ اس کے علاوہ صنعتی ڈھانچے کے نام پر پاکستان کے حصے میں گنتی کے چند کارخانے آئے اور مزید برآں کئی اندرونی و بیرونی مشکلات نے بھی پاکستان کو گھیرے رکھا۔ 1948ء میں جناح صاحب کی اچانک وفات ہوگئی، جس کے بعد حکومت لیاقت علی خان کے ہاتھ میں سونپی گئی۔ 1951 میں لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا۔ 1951ء سے 1958ء تک کئی حکومتیں آئیں اور ختم ہو گئیں۔ 1956ء میں پاکستان میں پہلا آئین نافذ ہوا۔ اس کے باوجود سیاسی بحران کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1958ء میں پاکستان میں مارشل لاء لگ گیا۔

پاکستان میں موجود تمام بڑے آبی ڈیم جنرل ایوب کے دور آمریت میں بنائے گئے۔ ایوب دور میں پاکستان میں ترقی تو ہوئی لیکن مشرقی پاکستان دور ہوتا گیا۔ 1963 میں پاکستان کے دوسرے آئین کا نفاذ ہوا، مگر مشرقی پاکستان کے حالات آہستہ آہستہ بگڑتے گئے۔ ایوب خان عوامی احتجاج کی وجہ سے حکومت سے علیحدہ ہو گئے لیکن جاتے جاتے انہوں نے حکومت اپنے فوجی پیش رو جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دی۔ 1971 کے عام انتخابات میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ کی واضح کامیابی کے باوجود فوجی حکمران یحییٰ خان نے اقتدار کی منتقلی کی بجائے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کو ترجیح دی۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علیحدگی پسندوں کو بھرپور مالی اور عسکری مدد فراہم کی جس کے نتیجے میں آخرکار دسمبر 1971ء میں سقوط ڈھاکہ ہوگیا اور مشرقی پاکستان ایک علیحدہ ملک بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔

1972 سے لے کر 1977 تک پاکستان میں پی پی پی کی حکومت تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے صدر اور بعد ازاں وزیر اعظم رہے۔ اس دور میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی رضامندی سے آئین پاکستان مرتب اور نافذ العمل کیا گیا۔ اس دور میں سوشلسٹ اور پین اسلامک عنصر بڑھا۔ اسی دور میں پاکستان میں صنعتوں اور اداروں کو قومیا لیا گیا۔ اس دور کے آخر میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی اور اس کے نتیجے میں 1977 میں دوبارہ مارشل لاء لگ گیا۔

اگلا دور 1977 تا 1988 مارشل لاء کا تھا۔ اس دور میں پاکستان کے حکمران جنرل ضیا الحق تھے۔ افغانستان میں جنگ کی وجہ سے پاکستان کو بہت امداد ملی۔ اسی دور میں 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات ہوئے اور جونیجو حکومت بنی جسے 1988 میں ضیاء الحق نے برطرف کر دیا- 1988ء میں صدر مملکت کا طیارہ گر گیا اور ضیاء الحق کے ساتھ ساتھ پاکستان کی اعلٰی عسکری قیادت کی اکثریت زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ پاکستان میں پھر سے جمہوریت کا آغاز ہو گیا۔

اس کے بعد 1988 میں انتخابات ہوئے اور بينظير بھٹو کی قیادت میں پی پی پی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ کچھ عرصہ بعد صدر غلام اسحاق خان نے حکومت کو برطرف کر دیا۔ 1990 میں نواز شریف کی قیادت میں آئی جے آئی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ 1993 میں یہ حکومت بھی برطرف ہو گئی۔

اس کے بعد پاکستان کے نئے صدر فاروق لغاری تھے۔ اگلے انتخابات 1993 میں ہوئے اور ان میں دوبارہ پی پی پی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ صدر فاروق احمد لغاری کے حکم پر یہ حکومت بھی بر طرف ہو گئی۔ 1997 میں انتخابات کے بعد دوبارہ نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اس حکومت کے آخری وقت میں سیاسی اور فوجی حلقوں میں کشیدگی بڑھ گئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1999 میں دوبارہ فوجی حکومت آ گئی۔ صدر مملکت پرويز مشرف بنے اور 2001 میں ہونے والے انتخابات کے بعد وزیر اعظم ظفر اللہ خان جمالی بنے۔

2004میں جنرل مشرف نے شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنانے کا فيصلہ کیا . مختصر عرصہ کے لیے چوہدرى شجاعت حسين نے وزیراعظم کی ذمہ داریاں سرانجام دیں اور شوکت عزیز کے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہونے کے بعد وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو گئے۔ شوکت عزیز صاحب قومی اسمبلی کی مدت 15 نومبر 2007ء کو ختم ہونے کے بعد مستعفی ہو گئے۔ 16 نومبر 2007ء کو سینٹ کے چیرمین جناب میاں محمد سومرو نے عبوری وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔ فروری 2008ء میں الیکشن کے بعد پی پی پی پی نے جناب یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم نامزد کیا، جنہوں نے مسلم لیگ (ن)، اے این پی کی حمایت سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔ 22 جون 2012 کو یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد راجہ پرویز اشرف نئے وزیر اعظم بنے۔ مئی 2013 میں عام انتحابات ہوئے جس میں پاکستان مسلم لیگ ن ایک بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔یوں نوازشریف پاکستان کےتیسری بار وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔

اشتقاقیات

پاکستان کے لفظی معنی پاک لوگوں کی سر زمین ہے، پاک کے اردو اور فارسی میں معنی خالص اور صاف کے ہیں اور ستان کا مطلب زمین یا وطن کا ہے- 1933 میں چودھری رحمت علی نے دوسری گول میز کانفرنس کے موقع پر اپنا مشہور کتابچہ (now or never) اب یا کبھی نہیں شائع کیا جس میں پہلی مرتبہ لفظ پاکستان استعمال کیا گیا۔

لفظ پاکستان اس وقت پانچ مسلم علاقوں کے ناموں کا سرنامیہ ہے۔ پ پنجاب، ا خیبر پختونخوا (افغانیہ)، ک کشمیر، س سندھ، تان بلوچستان۔

آئین،حکومت اور سياست

پاکستان کا اعلیٰ اساسی قانون آئین پاکستان کہلاتا ہے۔آئین پاکستان کا وہ اعلیٰ قانون ہے جو ریاست پاکستان کے اندرتمام اہم چیزوں اور فیصلوں کا تعین کرتا ہے۔ملک میں چار مرتبہ مارشل لا لگا جس سے دو مرتبہ آئین معطل ہوا، ایک مرتبہ 1956 کا آئین اور دوسری مرتبہ 1962 کا آئین۔1972 میں مشرقی پاکستان میں مخالفین نے سازشیں کی ، دوسری طرف مشرقی پاکستان کی عوام میں احساس محرومی بڑھ گئی جس کی نتیجے میں وطن عزیز دو لخت ہوگیا اس وقت غور کیا گیا تو ملک ٹوٹنے کے بہت سے وجوہات تھے اسی بنا پر 1973 کا آئین بنایا گیا۔آئین بنانے کیلئے ایک خاص کمیٹی تشکیل دے دی گئی اور آئین میں ہر شعبے اور اہم امور کیلئے اصول بنے،آئین میں ریاست کی تمام بڑے فیصلوں کیلئے قوانین بنائے گئے،حکومت اور ریاست کا پورا تشکیل بیان کیا گیا۔مسودہ تیار ہونے کے بعد اسے قومی اسمبلی سے پاس کرایا گیا۔

پاکستانی سیاست کا بنیاد آئین پاکستان نے قائم کیا ہے۔آئین کے مطابق پاکستان ایکجمہوری اور قومی ریاست ہے۔آئین پاکستان نے ایک وفاق اور اس کے ماتحت صوبائی حکومتیں قائم کی ہیں۔آئین کا پہلا آرٹیکل بیان کرتا ہے کہ "مملکت پاکستان ایک وفاقی جمہوریت ہوگا جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا اور جسے بعد ازیں پاکستان کہا جائے گا". پاکستان کی مختلف علاقہ جات کے متعلق آئین پاکستان کا دوسراں آرٹیکل بیان کرتا ہے:

پاکستان کے علاقے مندرجہ ذیل پر مشتمل ہونگے:

(الف) صوبہ جات:بلوچستان،خیبر پختونخوا،پنجاب اور سندھ
(ب) وفاقی دارالحکومت اسلام آباد
(ج) وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات
(د) ایسے علاقے اور ریاستیں جو الحاق کے ذریعے پاکستان میں شامل ہیں یا ہوجائے[7]

آرٹیکل 1 میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کا کوئی واضح حیثیت تو بیان نہیں کیا گیا لیکن 2009 میں قومی اسمبلی سے ایک اور بل پاس ہوا جس نے واضح طور پر گلگت بلتستان کو نیم-صوبے کا درجہ دیا اور یہاں باقاعدہ صوبائی حکومت قائم کیا گیا، جس کے تمام بنیادی شاخ (اسمبلی،عدلیہ،وزارتیں،وغیرہ) قائم کئے گئے۔[8]

آئین نے مزید ملک میں دو قانون ساز ایوان قائم کئے ایک قومی اسمبلی اور دوسراں سینٹ۔قومی اسمبلی کا بنیاد آبادی کے لحاظ سے ہے یعنی جہاں آبادی زیادہ ہوگی وہاں زیادہ نشستیں رکھی جائے گی اور قومی اسمبلی کے ارکان کو براہ راست عوام اپنے ووٹ سے منتخب کرتے ہیں۔ جبکہ سینٹ میں تمام صوبوں کو برابر کے نشستیں دیئے گئے ہیں چاہے صوبہ چھوٹا ہو یا بڑا۔سینٹ کے ارکان کو سینیٹر کہا جاتا ہے اور ان سینیٹرز کو چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ممبران اپنے ووٹ سے منتخب کر سکتے ہیں۔

خارجہ تعلقات

کسی ملک کے دوسرے ممالک سے تعلقات قائم کرنا تاکہ وہ ملک دیگر ممالک سے برآمدات اور درآمدات کاسلسلہ قائم رکھ سکے اس سلسلہ میں ملکی مذہبی امور،دفاعی سامان کی خرید وفروخت اور ملکی و قومی نظریات کو بھی مدنظر رکھاجاتا ہے،ایک نقطہ ذہن نشین کرلیں کہ خارجہ پالیسی میں نہ توئی مستقل دشمن ہوتا ہے اور نہ مستقل دوست۔یہ سب وقت اور حالات کے تحت بدلتا رہتا ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے انڈونیشیا کے بعد دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے۔ایک ایٹمی قوت ہونے کے باعث بھی اسے اقوام عالم میں مسلمان ممالک میں اونچا مقام حاصل ہے۔ پاکستان ہر معاملے میں ایک آزاد خارجہ پالیسی رکھتا ہے خاص طور پر نیوکلیائی ہتھیاروں کا معاملہ ہو یا اسلحے کی خرید و فروخت کا۔

افواج

پاک بحریہ کے جوان مارچ کرتے ہوئے
ایک فوجی جوان نے سوات میں دہشت گردوں کیخلاف آپریشن کے بعد پاکستان کا پرچم لگایا۔
پاک بحریہ کےجہاز سمندری سرحدات کی حفاظت کیلئے تعینات

پاکستان کی دفاع کا ذمہ ملک کے مسلح افواج پر ہے جس کی بنیادی طور پر تین شاخیں ہیں:

1947ء میں قیام پاکستان سے پہلے پاک عسکریہ، ہندوستانی فوج کا حصہ تھی۔ اس لحاظ سے اس کے تاج برطانیہ کے زیر اثر پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم میں بھی حصہ لیا ہے۔ تقسیم برصغیر کے بعد ہندوستانی فوج پاکستان اور بھارت میں بالترتیب 36% اور 64% کت تناسب میں تقسیم ہو گئی۔ اس وقت اعلان ہوا کہ کوئی بھی فوجی جس بھی فوج میں جانا چاہتا ہے تو اسے مکمل اجازت ہے۔ اس وقت بہت سے مسلمان فوجی، پاک عسکریہ میں شامل ہوگئے۔ تقسیم کے وقت بھارت میں 16 آرڈینس فیکٹریاں تھیں جبکہ پاکستان بھی ایک بھی نہیں تھی۔ الحمد اللہ اب پاکستان کافی حد تک دفاعی اعتبار سے خود کفیل ہو گیا ہے لیکن بھارت کے اپنا دفاعی تباسب برقرار رکھنے کے لیے اس بڑی طاقتوں سے خریداری کرنا پڑتی ہے جس پر خطیر زر مبادلہ خرچ ہوتا ہے۔

قانون نافذ کرنے والے ادارے

پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے بہت سے ادارے شامل ہیں جن میں سیول ادارے بھی ہیں اور فوجی بھی۔فوج اداروں میں پاک فوج،پاک فضائیہ اور پاک بحریہ شامل ہیں جو سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں،قدرتی آفت میں متاثرین کی امداد،وغیرہ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ دیگر نیم فوجی ادارے بھی قانون نافذ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ان نیم فوجی داروں میں فرنٹیئر کانسٹبلری،سرحد کور،پاکستان رینجرز شامل ہیں۔پاکستان رینجرز کو ملک کے دو مشرقی صوبوں یعنی پنجاب اور سندھ میں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اسلئے اس ادارے کے مزید دو شاخ بنائے گئے ہیں یعنی پنجاب رینجرز اور سندھ رینجرز۔اسی طرح سرحد کور اور فرنٹیئر کانسٹبلری کو ملک کے مغربی صوبوں یعنی صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اسی اداری کو مزید دو شاخوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی پختونخوا کانسٹبلری اور بلوچستان کانسٹبلری۔

اس کے علاوہ ہر انتظامی اکائی میں مختلف پولیس فورسز بنائیں گئے ہیں جن میں خیبر پختونخوا پولیس،پنجاب پولیس،سندھ پولیس،بلوچستان پولیس،آزاد کشمیر پولیس اور گلگت بلتستان پولیس شامل ہیں۔پولیس فورس میں ایک الگ شاخ بھی بنایا گیا ہے جسے پولیس قومی رضا کار کہا جاتا ہے،اس فورس کا مقصد تمام صوبوں میں جہاں ضرورت پڑے وہاں کام کرنا ہے۔ایئرپورٹ پولیس کا کام ایئرپورٹ کے امور سرانجام دینا ہے اسی طرح موٹروے پولیس اور قومی شاہراہ پولیس کا کام سڑکوں کی حفاظت ہے۔

تحقیقات کیلئے وفاقی ادارۂ تحقیقات‎ (ایف آئی اے) اور دیگر تحقیقاتی ادارے موجود ہیں۔مخابرات اور ملک کے بیرون خطرات سے نمٹنے کیلئے بھی مخابراتی ادارے (جیسے آئی ایس آئی،وغیرہ) موجود ہیں۔

انتظامی تقسیم

پاکستان کا نقشہ

پاکستان ميں 4 صوبے، 2 وفاقی علاقے اور پاکستانی کشمير کے 2 حصے ہيں۔ حال ہی میں پاکستانی پارلیمنٹ نے گلگت بلتستان کو بھی پاکستان کے پانچویں صوبے کی حیثیت دے دی ہے۔ صوبہ جات کی تقسیم یکم جولائی 1970ء کو کی گئی۔ صوبہ بلوچستان کا کل رقبہ 347,190 مربع کلومیٹر ہے جبکہ 2011ء میں آبادی 79 لاکھ 14ہزار تھی۔ صوبہ پنجاب کا کل رقبہ 205,344 مربع کلومیٹر ہے جبکہ 2013ء میں آبادی 10کروڑ 10لاکھ تھی۔ صوبہ خیبر پختونخوا کا کل رقبہ 74,521 مربع کلومیٹر ہے جبکہ 2012ء میں آبادی 2 کروڑ 20 لاکھ تھی۔ صوبہ سندھ کا کل رقبہ 140,914 مربع کلومیٹر ہے جبکہ 2012ء میں آبادی 4 کروڑ 24 لاکھ تھی۔ گلگت بلتستان (سابق شمالی علاقہ جات) کا کل رقبہ 72,496 مربع کلومیٹر ہے جبکہ 2008ء میں آبادی 18 لاکھ تھی۔

انتظامی تقسیم

انتظامی اکائی دارالحکومت آبادی
بلوچستان کوئٹہ 7,914,000
خیبر پختونخوا پشاور 28,000,000
پنجاب لاہور 101,000,000
سندھ کراچی 42,400,000
فائل:Flag of Gilgit Baltistan.svg گلگت بلتستان گلگت 1,800,000
قبائلی علاقہ جات پشاور/پاڑاچنار 3,176,331
آزاد کشمیر مظفر آباد 4,567,982
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد 1,151,868

پاکستان کا جغرافيہ،ماحولیات اور آب و ہوا

جغرافیائی طور پر پاکستان جنوبی ایشیا کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے۔پاکستان کا جغرافیہ اور آب و ہوا انتہائی متنوع ہے،پاکستان بے شمار جانداروں کا گھر ہے،بلکہ کہیں جانور اور پرندے ایسے بھی ہیں جو صرف پاکستان میں پایے جاتے ہیں۔پاکستان کا کل رقبہ 796,095 مربع کلومیٹر ہے۔پاکستان کا سمندری ساحل تقریباََ 1,046 کلومیٹر ہے اور 6,774 کلومیٹر زمینی سرحد ہے۔پاکستان کے مشرقی،وسطی اور جنوبی علاقے میدانی ہیں جبکہ مغربی اور شمالی علاقے پہاڑی ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا دریا دریائے سندھ ہے۔ یہ دریا پاکستان کے شمال سے شروع ہوتا ہے اور صوبہ خیبر پختونخواہ، پنجاب اور سندھ سے گزر کر سمندر میں گرتا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کے جنوبی علاقے، صوبہ سندھ کے وسطی علاقے اور پنجاب کے شمالی، وسطی اور جنوبی علاقے میدانی ہیں۔ یہ علاقے نہری ہیں اور زیر کاشت ہیں۔ صوبہ سندھ کے مشرقی اور صوبہ پنجاب کے جنوب مشرقی علاقے صحرائی ہیں۔ زیادہ تر بلوچستان پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے لیکن بلوچستان کا سبی علاقہ میدانی اور صحرائی ہے۔ خیبر پختونخوا کے مغربی علاقوں میں نیچے پہاڑ ہیں جبکہ شمالی خیبر پختونخوا اور شمالی علاقہ جات میں دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ واقع ہے۔

پاکستان کی سرحدیں

پاکستان کا سمندری ساحل تقریباََ 1,046 کلومیٹر ہے اور 6,774 کلومیٹر زمینی سرحد ہے،زمینی سرحد میں سے 2,430 کلومیٹر سرحد افغانستان کے ساتھ،523 کلومیٹر چین کے ساتھ،2,912 بھارت کے ساتھ اور 909 ایران کے ساتھ لگا ہوا ہے۔

معيشت

پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد

پاکستان دوسری دنيا کا ايک ترقی پذیر ملک ہے۔ پاکستان کے سیاسی معاملات ميں فوج كى مداخلت، کثیر اراضی پر قابض افراد (وڈیرے ، جاگیردار اور چوہدری وغیرہ) کی عام انسان کو تعلیم سے محروم رکھنے کی نفسیاتی اور خود غرضانہ فطرت (تاکہ بیگار اور سستے پڑاؤ (labor camp) قائم رکھے جاسکیں)، اعلٰی عہدوں پر فائز افراد کا اپنے مفاد میں بنایا ہوا دوغلا تعلیمی نظام (تاکہ کثیر اراضی پر قابض افراد کو خوش رکھا جاسکے اور ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی [عموماً انگریزی اور/ یا ولایت میں تعلیم کے بعد] اجارہ داری کيلئے راہ کو کھلا رکھا جاسکے)، مذہبی علماؤں کا کم نظر اور اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کا رویہ اور بيرونی کشيدگی کی وجہ سے ملک کی معيشت زيادہ ترقی نہيں کر سکی۔ پہلے پاکستان کی معيشت کا زيادہ انحصار زراعت پر تھا۔ مگر اب پاکستان کی معيشت (جو کہ کافی کمزور سمجھی جاتی ہے) نے گیارہ ستمبر کے امریکی تجارتی مرکز پر حملے، عالمی معاشی پستی، افغانستان جنگ، پانی کی کمی اور بھارت کے ساتھ شديد کشيدگی کے با وجود کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کيا [حوالہ درکار]۔ اِس وقت پاکستان کی معيشت مستحکم ہے اور تيزی سے بڑھنا شروع ہو گئی ہے [حوالہ درکار]۔ کراچی سٹاک ایکسچینج کے کے ايس سی انڈکس گزستہ دو سالوں سے دنيا بھر ميں سب سے بہترين کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے [حوالہ درکار]۔

اعداد و شمار

پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنيا کا چھٹا سب سے بڑا ملک ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی آبادی بہت تيزی سے بڑھ رہی ہے۔

پاکستان کے 96.7 فيصد شہری مسلمان ہيں جن ميں سے تقريباً 20 فيصد اہل تشیع، 77 فيصد اہل سنت اور تقریباً 3 فيصد ديگر مذاہب سے تعلق رکھتے ہيں۔ تقريباً ايك فيصد پاکستانی ہندو اور اتنے ہی پاکستانی عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے ہيں۔ ان کے علاوہ کراچی ميں پارسی، پنجاب و‌سرحد ميں سکھ اور شمالی علاقوں ميں قبائلی مذاہب کے پيرو کار بھی موجود ہيں۔

پاکستان کی قومی زبان اردو ہے، جبکہ زيادہ تر دفتری کام انگريزی ميں کیے جاتے ہيں۔ پاکستان کے خواص بھی بنيادی طور پر انگريزی کا استعمال کرتے ہيں۔ پاکستان ميں تمام تر اعلیٰ تعليم بھی انگريزی ميں ہی دی جاتی ہے۔ اس کے باوجود اردو پاکستان کی عوامی و قومی زبان ہے۔ اردو کے علاوہ پاکستان ميں کئی اور زبانيں بولی جاتی ہيں، ان ميں پنجابی، سرائکی، سندھی، گجراتی، بلوچی، براہوی، پہاڑی، پشتو اور ہندکو زبانیں قابلِ ذکر ہيں۔

پاکستان ميں مختلف قوموں سے تعلّق رکھنے والے لوگ آباد ہيں، ان ميں زيادہ نماياں پنجابی، سندھی، پٹھان، بلوچی اور مہاجر ہيں، ليکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کے مابین فرق کم ہوتا جا رہا ہے۔

ثقافت اور معاشرہ

تہذیب

گندھارا سے بدھ کا مجسمہ

پاکستان کی بہت قديم اور رنگارنگ تہذيب ہے۔ پاکستان کا علاقہ ماضی ميں دراوڑ، آريا، ہن، ايرانی، يونانی، عرب، ترک اور منگول لوگوں کی رياستوں ميں شامل رہا ہے۔ ان تمام تہذيبوں نے پاکستان کی موجودہ تہذيب پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف صوبوں ميں لباس، کھانے، زبان اور تمدن کا فرق پايا جاتا ہے۔ اس ميں اس علاقوں کی تاريخی عليحدگی کے ساتھ ساتھ موسم اور آب و ہوا کا بھی بہت اثر ہے۔ ليکن ايک اسلامی تہذيب کا حصہ ہونے کی وجہ سے اس ميں کافی تہذيبی ہم آہنگی بھی موجود ہے۔

پاکستان ميں بہت مختلف قسم کی موسيقی ملتی ہے۔ کلاسيکی موسيقی، نيم کلاسيکی موسيقی، لوک موسيقی اور اس کے ساتھ ساتھ جديد پاپولر ميوزک، ان سب کے پاکستان ميں بلند پايہ موسيقار موجود ہيں۔ پاکستان دنيا بھر ميں قوالی کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔

پاکستانی تہذيب ميں مغربی عناصر بڑھتے جا رہے ہيں۔ يہ امراء اور روساء ميں اور بڑے شہروں ميں زيادہ نماياں ہے کيونکہ مغربی اشياء، ميڈيا اور تہذيب تک ان کی زيادہ رسائی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ايک بڑھتی ہوئی تحريک ہے جو کہ مغربی اثرات کو کم ديکھنا چاہتی ہے۔ کچھ جگہوں ميں اس تحريک کا زيادہ جھکا‏ؤ اسلام اور کچھ ميں روايات کی طرف ہے۔

پاکستانيوں کی بڑی تعداد امريکہ، برطانيہ، آسٹريليا، کنيڈا اور مشرق وسطی ميں مقيم ہے- ان بيرون ملک پاکستانيوں کا پاکستان پر اور پاکستان کی بين الاقوامی تصوير پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ ان لوگوں نے ماضی ميں پاکستان ميں بہت سرمايہ کاری بھی کی ہے۔

پاکستان کا سب سے پسنديدہ کھيل کرکٹ ہے۔ پاکستان کی کرکٹ ٹيم دنيا کی اچھی ٹيموں ميں شمار ہوتی ہے۔ کرکٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان ميں ہاکی بھی بہت شوق سے کھيلی جاتی ہے۔ ہاکی پاكستان كا قومى كھيل بھى ہےـ چوگان (پولو) پاکستان کے شمالی علاقہ جات كے لوگوں كا كھيل ہے اور اس كھيل كى پيدائش بھى يہيں ہوئى اور آج تک ان علاقوں ميں بہت شوق سے کھيلی جاتی ہے۔

لباس،فن اور فیشن

خواتین کا بلوچی علاقائی لباس

پاکستان میں سب سے عام لباس شلوار قمیض ہے جس کو قومی لباس کا حیثیت حاصل ہے،شلوار قمیص کو پاکستان کے چاروں صوبوں بلوچستان،پنجاب،سندھ اور خیبر پختونخوا سمیت قبائلی علاقہ جات،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں پہنا جاتا ہے۔تاہم پھر ہر صوبے اور علاقے میں شلوار قمیص پہننے کا طرز تھوڑا مختلف بھی ہوتا ہے ہر کوئی اپنے مقامی انداز میں پہنتا ہے۔

شلوار قمیص کے علاوہ اور بھی بہت سے لباس پاکستان میں میں پہنے جاتے ہیں جن میں سوٹ اور نیکٹائی بھی عام ہے جن کا استعمال سکول،کالج،جامعات،دفاتر،وغیرہ میں ہوتا ہے۔دیہی علاقوں میں شہروں کے بہ نسبت سوٹ او ٹائی کا استعمال کم ہوتا ہے۔شیروانی کا استعمال خاص کر تقاریب اور خوشیوں کے مواقع پر کیا جاتا ہے۔

خواتین میں بھی پاکستانی شلوار قمیض کا استعمال ہوتا ہے تاہم خواتین شلوار قمیض کے علاوہ انارکلی ، لہنگا،گاگرہ،وغیرہ بھی پہنتی ہیں۔

میڈیا

پاکستان میں بہت سے ذرائع ابلاغ موجود ہیں ، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا دونوں میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔اس سے پہلے پی ٹی وی ملک کا واحد چینل نیٹورک ہوتا تھا اور حکومت پاکستان اس نیٹورک کو چلا رہا تھا۔2002 کے بعد الیکٹرونک میڈیا نے ترقی کی اور پے در پے نئے نجی چینل آتے رہے۔اس وقت پاکستان میں 50 سے بھی زیادہ صرف نجی چینلز موجود ہیں جن کی نشریات 24 گھنٹے جاری رہتے ہیں۔اس وقت پاکستان میں نیوز ،انٹرٹینمنٹ،ہیلتھ،ایجوکیشن،علاقائی اور بہت سے چینلز موجود ہیں۔پاکستان میں زیادہ تر چینلز کے نشریات اردو میں ہوتے ہیں تاہم ملک کے علاقائی زبانوں (پشتو،پنجابی،سندھی،بلوچی،کشمیری،سرائیکی،وغیرہ) کے بھی ٹی وی چینلز موجود ہیں۔پی ٹی وی ورلڈ پاکستان کا پہلا انگریزی چینل ہے۔

اردو فلم انڈسٹری لالی وڈ کی صدر مقامات لاہور،کراچی اور پشاورمیں واقع ہے۔لالی وڈ نے اب تک بہت سے فلمیں ریلیز کئے ہیں اور کر رہا ہے۔پاکستان میں سب سے عام اردو ڈرامہ سیریلز ہیں جو مختلف چینلز پر چلائے جاتے ہیں۔

ادب اور فلسفہ

فن تعمیرات

پاکستان کے فن تعمیرات ان مختلف عمارات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو مختلف ادوار میں موجودہ پاکستان کے علاقوں میں بنائے گئے ہیں۔ وادئ سندھ کی تہذیب کے شروع ہونے کے ساتھ ہی جو کہ ۳۵۰۰ قبل مسیح تھا، موجودہ پاکستان کے علاقے میں شہری ثقافت کا ارتقاء ہوا جس میں بڑی عمارتیں تھیں جن میں سے کچھ آج بھی موجود ہیں۔ اس کے بعد گندھارا طرز کا بدھ طرز تعمیر آیا جس میں قدیم یونان کے اجزاء بھی شامل تھے۔ اس کے بقایا جات گندھارا کے صدر مقام ٹیکسلا میں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ پاکستان میں مغل اور انگریزی طرز تعمیر کی مثالیں بھی موجود ہیں جو نہایت ہی اہم ہیں۔ آزادی کے بعد کا فن تعمیر بھی ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ آزادی کے بعد پاکستان نے اپنی نئی حصل کی گئی آزادی اور شناخت کو فن تعمیر کے ذریعے سے ظاھر کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان خود کو جدید عمارتوں میں ظاھر کرتا ہے مثلاً فیصل مسجد جو کہ دارالخلافہ میں واقع ہے اور ۱۹۶۰ میں بنایا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسری عمارتیں بھی قابل ذکر ہیں جیسے مینار پاکستان، سفید ماربل سے بنا مزار قائد۔ یہ عمارتیں نئی ریاست کی خود اعتمادی کو ظاھر کرتی ہیں۔ ملکی دارالخلافہ اسلام آباد میں موجود قومی یادگار تہذیب، آزادی اور جدید فن تعمیر کا ایک حسین امتزاج ہے۔ پاکستان میں اس وقت چھ (۶) جگہیں ایسی ہیں جنہیں عالمی ورثہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے، ان کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔

  • موہنجو داڑو کی آثریاتی کھنڈرات
  • تخت باھی اور پڑوسی شہر شہر بہلول کے بدھ مت کے کھنڈرات
  • شاھی قلعہ لاھور اور شالیمار باغ لاھور
  • ٹھٹہ کی تاریخی یادگاریں
  • قلعہ روہتاس
  • ٹیکسلا

سیاحت

پاکستان اپنے نظاروں، لوگوں اور تہذیبوں کے حوالے سے ایک وسیع ملک ہے اور اسی وجہ سے سال ۲۰۱۲ میں یہاں دس (۱۰) لاکھ سیاح آئے۔ پاکستان کی سیاحت کی صنعت ۱۹۷۰ کے عشرے کے دوران عروج پر تھی جب یہاں ایک بہت بڑی تعداد میں سیاح آتے تھے۔ ان سیاحوں کے لئے سب سے زیادہ قابل دلچسپی جگہیں خیبر پاس، پشاور، کراچی، لاھور، سوات اور راولپنڈی تھیں۔ اس ملک کی حمل کشش جگہوں میں موہنجو داڑو، ٹیکسلا اور ہڑپہ جیسی تہذیبوں کے کھنڈرات سے لیکر کوہ ہمالیہ کے پہاڑی مقامات تک ہیں۔ پاکستان ۷۰۰۰ میٹر سے زیادہ بلند کئی چوٹیوں کا مسکن ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں کئی پرانے قلعے ہیں، پرانے زمانے کی فن تعمیر، ہنزہ اور چترال کی وادیاں جو کہ ایک چھوٹی سی غیر مسلم سماجی گروہ کیلاش کا مسکن ہے جو خود کو سکندر اعظم کے اولاد سے بتاتے ہیں۔ پاکستان کے ثقافتی مرکز و صدر مقام لاھور میں مغل فن تعمیر کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جیسے بادشاہی مسجد، شالیمار باغ، مقبرہ جھانگیر، اور قلعئہ لاھور شامل ہیں جو کہ سارے سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ عالمی معاشی بحران سے پہلے پاکستان میں سالانہ تقریباً پانچ (۵) لاکھ سیاح آتے تھے۔ تاہم سال ۲۰۰۸ سے پاکستان میں اندرونی غیریقینی صورتحال کی وجہ سے یہ تعداد کافی کم ہو گئی ہے۔ اکتوبر ۲۰۰۶ میں کشمیر کے زلزلے کے بعد رسالہ دی گارڈین نے پاکستان کے پانچ مقبول ترین سیاحتی مقامات کے نام سے ایک مضمون شائع کیا تاکہ پاکستان کی سیاحتی کی صنعت کی مدد کر سکے۔ یہ پانچ مقامات ٹیکسلا، لاھور، شاھراہ قراقرم، کریم آباد، اور جھیل سیف الملوک تھے۔ عالمی معاشی فورم کے سفر اور سیاحت کے مقابلے کی رپورٹ نے پاکستان کو مقبول ترین ۲۵ فیصد سیاحتی مقامات کا اعزاز عالمی ورثہ کے مقامات کے طور پر مقرر کیا۔ سیاحتی مقامات کی پہنچ جنوب میں مینگروو جنگلات سے وادئ سندھ کی تہذیب کے موہنجو داڑو اور ہڑپہ جیسے ۵۰۰۰ سال پرانے شہروں تک ہے۔

خورد و نوش

پاکستانی کھانے جنوبی ایشیاء کے مختلف علاقائی کھانوں کا حسین امتزاج ہیں۔ پاکستانی کھانوں میں شمالی ھندوستانی، وسط ایشیائی، اور مشرق وسطیٰ کے کھانے شامل ہیں لیکن یہاں کے کھانوں میں گوشت کا استعمال زیادہ ہے۔ پاکستان میں ایک علاقے کے کھانے دوسرے علاقے کے کھانوں سے قدرے مختلف ہوتے ہیں جس سے اس ملک کی ثقافتی اور لسانی تنوع جھلکتی ہے۔ پنجاب اور سندھ کے کھانے مصالحےدار ہوتے ہیں جو جنوبی ایشیاء کے کھانوں کی خاصیت ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے علاقوں کے کھانے مثلاً خیبر پختونخوا، بلوچستان، قبائیلی علاقہ جات، گلگت بلتستان اور کشمیر کے کھانے بھی اپنی اپنی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں اور ان پر بھی مختلف علاقائی رنگ غالب ہوتے ہیں۔

کھیل

پاکستان میں کھیلے جانے والے بیشتر کھیلوں کا آغاز برطانیہ میں ہوا اور برطانویوں نے انہیں ھندوستان میں متعارف کرایا۔ ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے۔ اس نے ۱۹۶۰، ۱۹۶۸، اور ۱۹۸۴ میں کھیلے گئے اولمپک کھیلوں میں تین سونے کے طمغے حاصل کئے ہیں۔ پاکستان نے ہاکی کا عالمی کپ بھی چار بار جیتا ہے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ پاکستان نے ہاکی کا عالمی کپ ۱۹۷۱، ۱۹۷۸، ۱۹۸۲ اور ۱۹۹۴ میں جیتا ہے۔ تاہم، کرکٹ پاکستان کا سب سے زیادہ مشہور کھیل ہے۔ پاکستان کرکٹ کے ٹیم، جنہیں شاھین کہا جاتا ہے، نے ۱۹۹۲ میں کرکٹ کا عالمی کپ جیتا تھا۔ ۱۹۹۹میں شاھین دوسرے نمبر پر رہے۔ اور ۱۹۸۷ اور ۱۹۹۶ میں عالمی کپ کے مقابلے جزوی طور پر پاکستان میں ہوئے۔ پاکستان ٹی ۲۰ قسم کے کھیل کے پہلے مقابلے میں دوسرے نمبر پر رہے جو سال ۲۰۰۷ میں جنوبی افریقہ میں کھیلا گیا تھا۔ اور سال ۲۰۰۹ میں اسی قسم کے کھیل میں پہلے نمبر پر رہے اور عالمی کپ جیتا جو برطانیہ میں کھیلا گیا تھا۔ سال ۲۰۰۹ کے مارچ کے مہینے میں دھست گردوں نے سری لنکا کے کرکٹ ٹیم پر حملہ کر دیا جو پاکستان کے دورے پر لاھور میں موجود تھی اور اسی کے ساتھ پاکستان میں عالمی کرکٹ عارضی طور پر بند ہو گئی۔ تاہم چھ سالوں کے طویل انتظار کے بعد مئی ۲۰۱۵ میں عالمی کرکٹ پاکستان میں اس وقت بحال ہوئی جب زمبابوے کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔ تمام مقابلے سخت حفاظتی حصار میں لاھور میں ہوئے اور تمام مقابلوں کے لئے ٹکٹ سارے بک چکے تھے اور کرسیاں ساری بھری ہوئی تھیں۔ یہ ایک تاریخی کامیابی تھی۔ اس نے دوسری ٹیموں کے آنے کے لئے بھی راہ ہموار کر لی۔ ورزشی کھیلوں میں عبدالخالق نے سال ۱۹۵۴ اور سال ۱۹۵۸ کے ایشیائی کھیلوں میں حصہ لیا۔ اس نے ۳۵ سونے کے طمغے اور ۱۵ عالمی چاندی اور پیتل کے طمغے پاکستان کے لئے حاصل کئے۔ سکواش میں پاکستان کے شہر پشاور سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی جھانگیر خان ہیں جن کو عالمی معیار کا کھلاڑی اور کھیلوں کی تاریخ میں عظیم کھلاڑی مانا جاتا ہے، اور ساتھ ہی جانشیر خان ہیں جنہوں نے عالمی سکواش کے مقابلوں میں کئی بار پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔

صحت عامہ

دیگر انسانی بنیادی ضروریات کی ناپیدی اور انحطاط کے ساتھ ساتھ صحت عامہ کا شعبہ بھی پاکستان میں انتہائی تنزل کا شکار ہے۔ پاکستان میں رہنے والے ناقص غذا اور صفائی ستھرائی کی عدم دستیابی و غلاظت سے جنم لینے والے امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اچھا اور مناسب علاج درمیانے سے لیکر اعلٰی طبقے کے ليے مخصوص ہے۔ سرکاری شفاخانے دنیا بھر کی تہذیب یافتہ اقوام میں اپنا ایک معیار رکھتے ہیں مگر پاکستان میں انکی حالت ابتر ہے۔

تعطيلات

تعطيل نام وجہ
12 ربیع الاول جشن عید میلاد النبی ولادت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
9 اور 10 محرم یوم عاشورہ حضرت حسین بن علی کی شہادت کا دن
10 ذوالحجۃ عيد الاضحى حضرت ابراہيم علیہ السلام کی قربانی کی ياد ميں
1 شوال عيد الفطر رمضان کے اختتام پر اللہ كى نعمتوں كى شكرگزارى كا دن
1 مئی يوم مزدور مزدوروں کا عالمی دن
14 اگست يوم آزادی اس دن 1947ء میں پاکستان وجود میں آیا ہوا
25 دسمبر ولادت قائد قائد اعظم کی ولادت کا دن
23 مارچ يوم پاکستان 1940میں اس روز منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک) میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی
5 فروری یومِ یکجہتیِ کشمیر کشمیری عوام کیساتھ یکجہتی کا دن

قومی چیزیں

پاکستان کا پرچم پاکستان کی قومی علامات
پرچمّپرچم
نشانپاکستان کی ریاستی علامت
قومی ترانہپاک سر زمین
جانورمارخور
پرندہچکور
پھولیاسمین
درختدیودار
مشروبگنے کا رس
کھیلہاکی
لباسشلوار قمیض
ماخذ: [10]
گہرا سبز رنگ جس پر ہلال اور پانچ کونوں والا ستارہ بنا ہوا ہے۔ جھنڈے میں شامل سبز رنگ مسلمانوں کی، سفید رنگ کی بٹی پاکستان میں آباد مختلف مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ قومی پرچم گیارہ اگست 1947 کو لیاقت علی خان نے دستور ساز اسمبلی میں پیش کیا۔
یہ نعرہ مشہور شاعر اصغر سودائی نے 1944ء میں لگایا جو تحریک پاکستان کے دوران بہت جلد زبان زدوعام ہو گیا۔ (قابل اعتبار حوالہ درکار ہے) ان کا تعلق سیالکوٹ سے ہے۔
A deodar tree
دیودار، پاکستان کا قومی درخت
A jasmine flower
یاسمین، پاکستان کا قومی پھول
A Markhor goat
مارخور، پاکستان کا قومی جانور
A chukar bird
چکور، پاکستان کا قومی پرندہ[11]

ریاستی نشان

پاکستان کا ریاستی نشان
پاکستان کا ریاستی نشان

ریاستی نشان درج ذیل نشانات پر مشتمل ہے۔

چاند اور ستارہ جو کہ روایتی طور پر اسلام سے ریاست کی عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ چوکور شیلڈ جس میں ملک کی چار اہم صنعتوں کی علامت کندہ ہے۔ شیلڈ کے اردگرد پھول اور پتیاں بنی ہوئی ہیں جو وطن عزیز کے بھر پور ثقافتی ماحول کی عکاسی کرتی ہیں۔ علامت کے چاروں طرف بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کا قول۔۔۔ اتحاد، ایمان، نظم تحریر ہے۔

آبادیات

آبادی

پاکستان کی آبادی کا کثافت

پاکستان کی زیادہ تر آبادی ملک کی وسطی علاقوں میں ہے ،ملک کے جنوب میں زیادہ آباد مقامات اکثر دریائے سندھ کے آس پاس پر واقع ہے جن میں سب سے زیادہ آبادی والا علاقہ کراچی ہے جو ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔

بلحاظ سال آبادی

اقوام متحدہ کی اعداد و شمار

کُل آبادی (ہزروں میں) آبادی عمر 0–14 (%) آبادی عمر 15–64 (%) آبادی عمر 65+ (%)
1950 37,547 40.3 54.1 5.6
1955 41,109 40.3 54.8 4.9
1960 45,920 40.4 55.3 4.3
1965 51,993 41.6 54.5 3.9
1970 59,383 42.6 53.6 3.8
1975 68,483 43.2 53.1 3.7
1980 80,493 43.4 52.9 3.7
1985 95,470 43.4 52.9 3.8
1990 111,845 43.7 52.5 3.8
1995 127,347 43.3 52.9 3.8
2000 144,522 41.4 54.7 3.9
2005 158,645 38.1 57.8 4.1
2011 173,593 35.4 60.3 4.3

زبانیں

پاکستان آپسی محبت اور اتحاد کا ایک اعلیٰ مثال ہے کیونکہ یہاں پہ مختلف علاقوں اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ متحد رہتے ہیں۔ جہاں پہ ہماری بہت سے زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے ایک ہماری قومی زبان اردو ہے۔ اس کے علاوہ چار صوبائی زبانیں اور بہت سے اور زبانیں بولی جاتی ہیں۔

پاکستان میں کئی زبانیں بولی، لکھی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 65 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ انگریزی پاکستان کی سرکاری زبان ہے، تمام معاہدے اور سرکاری کام انگریزی زبان میں ہی طے کیے جاتے ہیں، جبکہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہے۔
پاکستان کی صوبائی زبانوں میں پنجابی صوبہ پنجاب، پشتو صوبہ خیبر پختونخوا، سندھی صوبہ سندھ ، بلوچی صوبہ بلوچستان اور شینا صوبہ گلگت بلتستان میں تسلیم شدہ زبانیں ہیں۔ [12]
پاکستان میں رائج دوسری زبانوں اور لہجوں میں، آیر ، بدیشی ، باگری ، بلتی ، بٹیری ، بھایا ، براہوی ، بروشسکی ، چلیسو ، دامیڑی ، دیہواری ، دھاتکی ، ڈوماکی ، فارسی ، دری ، گواربتی ، گھیرا ، گوریا ، گوورو ، گجراتی ، گوجری ، گرگلا ، ہزاراگی ، ہندکو ، جدگلی ، جنداوڑا ، کبوترا ، کچھی ، کالامی ، کالاشہ ، کلکوٹی ، کامویری ، کشمیری ، کاٹی ، کھیترانی ، کھوار ، انڈس کوہستانی ، کولی (تین لہجے)، لہندا لاسی ، لوارکی ، مارواڑی ، میمنی ، اوڈ ، ارمری ، پوٹھواری ، پھالولہ ، سانسی ، ساوی ، شینا (دو لہجے)، توروالی ، اوشوجو ، واگھری ، وخی ، وانیسی اور یدغہ شامل ہیں۔[13] ان زبانوں بعض کو عالمی طور پر خطرے میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ ان زبانوں کو بولنے والوں کی تعداد نسبتاً نہایت قلیل رہ گئی ہے۔ وجود کے خطرات میں گھری یہ زبانیں زیادہ تر ہند فارس شاخ اور ہند یورپی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ پاکستان کے ضلع چترال کو دنیا کا کثیرالسانی خطہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس ضلع میں کل چودہ زبانیں بولی جاتی ہیں-

تعلیم یافتگی

جنس شرح تعلیم (2008ء)
مرد 70%
خواتین 45%
کُل آبادی 60%

تعلیمی ادارے بلحاظ زمرہ جات

زمرہ تعداد
پرائمری سکول 156,592
مڈل سکول 320,611
ہائی سکول 23,964
آرٹ اور سائنس کالج 3,213
ڈگری کالج 1,202
تکنیکی اور وکیشنل انسٹی ٹیوٹ 3,125
یونیورسٹی 167

اہم شہر

کراچی، لاہور، ساہیوال، فیصل آباد، ملتان، حیدر آباد، راولپنڈی، پشاور، کوئٹہ، ڈیرہ اسماعیل خان، بہاولپور، سرگودھا، جھنگ، سکھر، ڈیرہ غازی خان، جہلم, سیالکوٹ، گجرات، گوادر، چترال، سوات، مری، شیخوپورہ، گوجرانوالہ،چترال وغیرہ

فہرست متعلقہ مضامین پاکستان

حوالہ جات

  1.   ویکی ڈیٹا پر (P402) کی خاصیت میں تبدیلی کریں "صفحہ پاکستان في خريطة الشارع المفتوحة"۔ OpenStreetMap۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اپریل 2024ء 
  2. باب: 251
  3. International Numbering Resources Database — اخذ شدہ بتاریخ: 8 جولا‎ئی 2016 — مدیر: عالمی ٹیلی مواصلاتی اتحاد
  4. International Numbering Resources Database — اخذ شدہ بتاریخ: 10 جولا‎ئی 2016 — مدیر: عالمی ٹیلی مواصلاتی اتحاد
  5. https://data.iana.org/time-zones/tzdb-2021e/asia
  6. http://chartsbin.com/view/edr
  7. آئین پاکستان (اردو میں)
  8. https://gbtribune.files.wordpress.com/2012/09/self-governance-order-2009.pdf
  9. ^ ا ب "Pakistan: largest cities and towns and statistics of their population"۔ World Gazetteer۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اگست 2012 
  10. "National Symbols of Pakistan"۔ Ministry of Culture, Government of Pakistan۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 دسمبر 2011 
  11. Aqeel Abbas Jafari (2010)۔ پاکستان کرونیکل (بزبان اردو) (First ایڈیشن)۔ 94/1, 26th St., Ph. 6, D.H.A., کراچی: Wirsa Publications۔ صفحہ: 880۔ ISBN 9789699454004 
  12. "پاکستان کی زبانیں"۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مارچ 2009 
  13. گارڈن، ریمنڈ (2005)۔ "پاکستان کی علاقائی زبانیں"۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مارچ 2009 

بیرونی روابط

مزید دیکھیے

پاکستانی پرچموں کی فہرست