"اردو" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.9.5
سطر 422: سطر 422:
* [http://www.scribd.com/doc/8509778/English-to-Urdu-Dictionary انگریزی سے اردو آف لائن اور editable ڈکشنری ڈاون لوڈ کریں]
* [http://www.scribd.com/doc/8509778/English-to-Urdu-Dictionary انگریزی سے اردو آف لائن اور editable ڈکشنری ڈاون لوڈ کریں]
* [https://www.scribd.com/doc/273226768/URDU-LASHKARI-ZUBAN-pdf لشکری زبان]
* [https://www.scribd.com/doc/273226768/URDU-LASHKARI-ZUBAN-pdf لشکری زبان]
* [http://alvi.urdushare.net/blog/200811/download-alvi-nastaleeq/ علوی نستعلیق یونیکوڈ فونٹ ڈاون لوڈ کریں]
* [http://alvi.urdushare.net/blog/200811/download-alvi-nastaleeq/ علوی نستعلیق یونیکوڈ فونٹ ڈاون لوڈ کریں] {{wayback|url=http://alvi.urdushare.net/blog/200811/download-alvi-nastaleeq/ |date=20101105001926 }}
* [http://khawarking.blogspot.com/2005/03/blog-post.html اردو كى پيدائش]
* [http://khawarking.blogspot.com/2005/03/blog-post.html اردو كى پيدائش]
* [https://xn--mgbqf7g.com/%D9%86%D8%AB%D8%B1/%d9%85%d8%b6%d9%85%d9%88%d9%86/9140 اردو حروفِ تہجی کی کہانی]
* [https://xn--mgbqf7g.com/%D9%86%D8%AB%D8%B1/%d9%85%d8%b6%d9%85%d9%88%d9%86/9140 اردو حروفِ تہجی کی کہانی]

نسخہ بمطابق 21:10، 20 جولائی 2023ء

اردوئے معلیٰ
"اردو" نستعلیق میں لکھا گیا
تلفظمعاونت:بین الاقوامی اصواتی ابجدیہ برائے اردو و ہندی: [ˈʊrd̪u] ( سنیے)
مستعملپاکستان اور بھارت[1]
مقامی متتکلمین
6 کروڑ 5 لاکھ (80% بھارت میں[2]) (2007)ne2007
زبان دوم: 14 کروڑ 4 لاکھ پاکستان میں (2011)۔[2]
  • بھارتی اشارتی نظام (ISS)[5]
  • اشارتی اردو[6]
باضابطہ حیثیت
سرکاری زبان
نظمیت از
رموزِ زبان
آیزو 639-1ur
آیزو 639-2urd
آیزو 639-3urd
گلوٹولاگurdu1245[8]
لسانی اثرات59-AAF-q(مع ہندی،
بشمول 58 تنوع: 59-AAF-qaa to 59-AAF-qil)
  وہ خطے جہاں اردو کو سرکاری یا مقامی زبان کا درجہ حاصل ہے
  (دیگر)علاقے جہاں صرف ایک علاقائی زبان سرکاری ہے

اُردُو[9] برصغیر کی معیاری زبانوں میں سے ایک ہے۔ یہ پاکستان کی قومی اور رابطہ عامہ کی زبان ہے، جبکہ بھارت کی چھ ریاستوں کی دفتری زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ آئین ہند کے مطابق اسے 22 دفتری شناخت زبانوں میں شامل کیا جاچکا ہے۔ 2001ء کی مردم شماری کے مطابق اردو کو بطور مادری زبان بھارت میں 5.01% فیصد لوگ بولتے ہیں اور اس لحاظ سے یہ بھارت کی چھٹی بڑی زبان ہے جبکہ پاکستان میں اسے بطور مادری زبان 7.59% فیصد لوگ استعمال کرتے ہیں، یہ پاکستان کی پانچویں بڑی زبان ہے۔ اردو تاریخی طور پر ہندوستان کی مسلم آبادی سے جڑی ہے۔ [10] زبانِ اردو کو پہچان و ترقی اس وقت ملی جب برطانوی دور میں انگریز حکمرانوں نے اسے فارسی کی بجائے انگریزی کے ساتھ شمالی ہندوستان کے علاقوں اور جموں و کشمیر میں اسے 1846ء اور پنجاب میں 1849ء میں بطور دفتری زبان نافذ کیا۔ اس کے علاوہ خلیجی، یورپی، ایشیائی اور امریکی علاقوں میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے جو بنیادی طور پر جنوبی ایشیاء سے کوچ کرنے والے اہلِ اردو ہیں۔ 1999ء کے اعداد و شمار کے مطابق اردو زبان کے مجموعی متکلمین کی تعداد دس کروڑ ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کی نویں بڑی زبان ہے۔ اردو زبان کو کئی ہندوستانی ریاستوں میں سرکاری حیثیت بھی حاصل ہے۔ [12] [11] نیپال میں، اردو ایک رجسٹرڈ علاقائی بولی ہے [13] اور جنوبی افریقہ میں یہ آئین میں ایک محفوظ زبان ہے۔ یہ افغانستان اور بنگلہ دیش میں اقلیتی زبان کے طور پر بھی بولی جاتی ہے، جس کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں ہے۔

1837ء میں، اردو برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی سرکاری زبان بن گئی، کمپنی کے دور میں پورے شمالی ہندوستان میں فارسی کی جگہ لی گئی۔ فارسی اس وقت تک مختلف ہند-اسلامی سلطنتوں کی درباری زبان کے طور پر کام کرتی تھی۔ [14] یورپی نوآبادیاتی دور میں مذہبی، سماجی اور سیاسی عوامل پیدا ہوئے جنہوں نے اردو اور ہندی کے درمیان فرق کیا، جس کی وجہ سے ہندی-اردو تنازعہ شروع ہوا ۔ [15]

اردو 18ویں صدی میں ایک ادبی زبان بن گئی اور اسی طرح کی دو معیاری شکلیں دہلی اور لکھنؤ میں وجود میں آئیں۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد سے پاکستانی شہر کراچی میں ایک تیسرا معیار پیدا ہوا ہے۔ [16] [17] دکنی ، ایک پرانی شکل جو دکن میں استعمال ہوتی تھی، سولہویں صدی تک دکن سلاطین کی درباری زبان بن گئی۔ [18] [17]

اُردو کا بعض اوقات ہندی کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے۔ اُردو اور ہندی میں بُنیادی فرق یہ ہے کہ اُردو نستعلیق رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور عربی و فارسی الفاظ استعمال کرتی ہے۔ جبکہ ہندی زبان دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور سنسکرت الفاظ زیادہ استعمال کرتی ہے۔ کچھ ماہرینِ لسانیات اُردو اور ہندی کو ایک ہی زبان کی دو معیاری صورتیں گردانتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندی، اُردو زبان سے نکلی ہے۔ اسی طرح اگر اردو اور ہندی زبان کو ایک سمجھا جائے تو یہ دنیا کی چوتھی بڑی زبان ہے۔ اردو زبان دنیا کی نئی زبانوں میں سے ہونے کے باوجود اپنے پاس معیاری اور وسیع ذخیرہ ادب رکھتی ہے۔ خاص کر جنوبی ایشیائی زبانوں میں اردو اپنی شاعری کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔

تسمیعہ

اردو کا نام سب سے پہلے شاعر غلام ہمدانی مصحفی نے 1780 کے آس پاس ہندوستانی زبان کے لیے استعمال کیا تھا [19] [20] حالانکہ اس نے خود بھی اپنی شاعری میں زبان کی تعریف کے لیے ہندوی اصطلاح استعمال کی تھی۔ [21] اردو کا مطلب ترک زبان میں فوج ہے۔ 18ویں صدی کے آخر میں، اسے زبانِ اُرْدُوئے مُعَلّٰی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس کا مطلب بلند کیمپ کی زبان ہے ۔ [22] [23] [24] پہلے اسے ہندوی، ہندی اور ہندوستانی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ [20] [25]

تاریخ

نستعلیق خطاطی پر لشکری زبان کا عنوان

اردو ہندی زبان کی طرح فارسی، عربی، ترک زبان کی ایک قسم ہے۔ [26] [27] [28]یہ شوراسنی زبان (یہ زبان وسطی ہند آریائی زبان تھی جو موجودہ کئی زبانوں کی بنیاد سمجھی جاتی ہے، ان میں پنجابی زبان بھی شامل ہے) کی ذیلی قسم کے طور پر اپ بھرنش سے قرون وسطٰی (چھٹی سے تیرہویں صدی) کے درمیان میں وجود میں آئی۔[29] [30]

13ویں صدی سے 19ویں صدی کے آخر تک اردو زبان کو بیک وقت ہندی، [31] ہندوستانی اور ہندوی[32] کہا جاتا تھا۔

سنہ 1908 میں شائع ہوئی A GRAMMAR OF URDU OR HINDUSTANI LANGUAGE کی کبھار پیج

اگرچہ لفظ اردو بذات خود ترک زبان کے لفظ اوردو (لشکر، فوج) یا اوردا سے نکلا ہے، اسی سے انگریزی لفظ horde کا ظہور ہوا، تاہم ترک زبان سے اردو میں کم ہی الفاظ آئے ہیں۔ عرب اور ترک الفاظ اردو میں پہنچ کر فارسی قسم کے بن گئے ہیں، جیسے ة کو اکثر اوقات ہ میں بدل دیا جاتا ہے۔ مثلاً عربی تائے مربوطہ (ة) کو (ہ) یا (ت) میں بدل دیا جاتا ہے۔

بھلے ہی آج اردو کو ایک الگ زبان کی پہچان حاصل ہے لیکن عظیم اردو لیکھک اور کاتبین  نے اُنیس وی صدی کی  پہلی کچ دہائیوں تک اپنی زبان کو ہندی یا ہندوی کے شکل پر اعلان کرتے رہے ہے۔[33]

جیسے غلام حمدان مصحفی نے اپنی ایک شاعری میں لکھا ہے: -

مصحفی فارسی کو طاق پہ رکھ، اب ہیں اشعارِ ہندوی کا رواج"[34]


اور شاعر مير تقی میر نے کہا ہے

نہ جانے لوگ کہتے ہے کس کو سرورِ قلب، آیا نہیں یہ لفظ تو ہندی زبان کے ویچ[35]


اردو زبان کو ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ خاص کیا جاتا ہے اور اسی حوالے سے کئی نظریات بھی قائم کیے گئے ہیں۔ ممتاز محقق حافظ محمود شیرانی کے نزدیک یہ زبان محمود غزنوی کے حملہ ہندوستان کے ادوار میں پنجاب میں پیدا ہوئی، جب فارسی بولنے والے سپاہی پنجاب میں بس گئے، نیز ان کے نزدیک یہ فارسی متکلمین دہلی فتح کرنے سے قبل دو سو سال تک وہیں آباد رہے، یوں پنجابی اور فارسی زبانوں کے اختلاط نے اردو کو جنم دیا، پھر ایک آدھ صدی بعد جب اس نئی زبان کا آدھا گندھا خمیر دہلی پہنچا تب وہاں اس نے مکمل زبان کی صورت اختیار کی، اس حوالے سے انہوں نے پنجابی اور اردو زبان میں کئی مماثلتیں بھی پیش کی ہیں۔ شیرانی کے اسی نظریہ کو پنجاب میں اردو نامی مقالے میں لکھا گیا، جس نے اردو زبان دانوں میں کافی شہرت پائی اور اسی کو دیکھ کر بہت سے محققین نے اردو کے آغاز کو مسلمانوں کی آمد سے جوڑنا شروع کر دیا، اس طرح "دکن میں اردو"، "گجرات میں اردو"، "سندھ میں اردو"، "بنگال میں اردو "حتیٰ کہ "بلوچستان میں اردو" کے نظریات بھی سامنے آنے لگے۔ (حقیقتاً شیرانی سے قبل بھی سنیت کمار چترجی، محی الدین قادری زور جیسے بعض محققین اردو پنجابی تعلق کے بارے میں ایسے خیالات رکھتے تھے، البتہ اسے ثابت کرنے میں وہ دوسروں سے بازی لے گئے) حافظ شیرانی کے نظریہ کی مخالفت کرنے والوں میں مسعود حسین خان اور سبزواری جیسے محققین شامل ہیں، جنہوں نے ان کے نظریے کو غلط ثابت کیا۔

برطانوی راج میں فارسی کی بجائے ہندوستانی کو فارسی رسم الخط میں لکھا جاتا تھا اور ہندو مسلم دونوں اس پر عمل کرتے تھے۔ لفظ اردو کو شاعر غلام ہمدانی مصحفی نے 1780ء کے آس پاس سب سے پہلے استعمال کیا تھا۔ انہوں نے خود اپنی شاعری میں زبان کی تعریف کے لئے ہندوی لفظ بھی استعمال کیا[36]۔ تیرہویں سے اٹھارویں صدی تک اردو کو عام طور پر ہندی ہی کے نام سے پکارا جاتا رہا۔ اسی طرح اس زبان کے کئی دوسرے نام بھی تھے، جیسے ہندوی، ریختہ یا دہلوی۔ اردو اسی طرح علاقائی زبان بنی رہی، پھر 1837ء میں فارسی کی بجائے اسے انگریزی کے ساتھ دفتری زبان کا درجہ دیا گیا۔ اردو زبان کو برطانوی دور میں انگریزوں نے ترقی دی، تاکہ فارسی کی اہمیت کو ختم کیا جا سکے۔ اس وجہ سے شمال مشرقی ہندوستان کے ہندوؤں میں تحریک اٹھی کہ فارسی رسم الخط کی بجائے اس زبان کو مقامی دیوناگری رسم الخط میں لکھا جانا چاہیے۔ نتیجتاً ہندوستانی کی نئی قسم ہندی کی ایجاد ہوئی اور اس نے 1881ء میں بہار میں نافذ ہندوستانی کی جگہ لے لی۔ اس طرح اس مسئلہ نے فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہندوستانی کو دو زبانوں اردو (برائے مسلم) اور ہندی (برائے ہندو) میں تقسیم کر دیا۔ اور اسی فرق نے بعد میں ہندوستان کو دو حصوں بھارت اور پاکستان میں تقسیم کرنے میں اہم کردار ادا کیا (اگرچہ تقسیم سے پہلے اور بعد میں بھی بہت سے ہندو شعرا و مصنفین اردو زبان سے جڑے رہے، جن میں معروف منشی پریم چند، گلزار، گوپی چند نارنگ اور آزاد وغیرہ شامل ہیں)

ابتدائی تاریخ

غالب کے اردو دیوان کے ابتدائی صفحات، 1821

ہندوستان کے دہلی کے علاقے میں مقامی زبان کھوری بولی تھی، جس کی ابتدائی شکل پرانی ہندی (یا ہندوی) کے نام سے جانی جاتی ہے۔ [37] [38] [39] [40] اس کا تعلق وسطی ہند آریائی زبانوں کے مغربی ہندی زبان سے ہے۔ [41] [42] [43] [44] [45] [46] [47] [48] [49] [50]

دہلی جیسے شہروں میں، قدیم ہندی اور فارسی کااثر و رسوخ تھا اور اسے "ہندی" اور بعد میں "ہندوستانی" بھی کہا جانے لگا۔ [51] [52] [53] [54] [55] ہندوی کی ایک ابتدائی ادبی روایت کی بنیاد امیر خسرو نے 13ویں صدی کے آخر میں رکھی تھی۔ [56] [57] [58] [59] دکن کی فتح کے بعد، اور اس کے بعد عظیم مسلم خاندانوں کی جنوب میں ہجرت کے بعد، زبان کی ایک شکل قرون وسطی کے ہندوستان میں شاعری کے طور پر پروان چڑھی۔ [60] اور اسے دکنی کے نام سے جانا جاتا ہے، جس میں تیلگو زبان اور مراٹھی زبان کے الفاظ شامل ہیں۔ [61] [62] [63] 13ویں صدی سے 18ویں صدی کے آخر تک؛ جو زبان اب اردو کے نام سے جانی جاتی ہے اسے ہندی ، [64] ہندوی ، ہندوستانی ، [65] دہلوی ، [66] دہلوی ، [67] لاہوری ، [66] اور لشکری کہا جاتا تھا۔ [68] دہلی سلطنت نے فارسی کو ہندوستان میں اپنی سرکاری زبان کے طور پر قائم کیا، یہ پالیسی مغل سلطنت کی طرف سے جاری رہی، جس نے 16 ویں سے 18 ویں صدی تک شمالی جنوبی ایشیا کے بیشتر حصوں میں توسیع کی اور ہندوستانی پر فارسی اثر کو مضبوط کیا۔ [69] [70]

خان آرزو کے نوادر الفاز کے مطابق، "زبانِ اردو شاہی" [71] کو عالمگیر کے زمانے میں خاص اہمیت حاصل تھی۔ 1700ء کی دہائی کے اوائل میں اورنگ زیب کے دور حکومت کے اختتام تک، دہلی کے آس پاس کی عام زبان کو زبانِ اردو کہا جانے لگا، [72] یہ نام ترک زبان کے لفظ اوردو (فوج) یا اوردا سے ماخوذ ہے اور کہا جاتا ہے۔ "کیمپ کی زبان" کے طور پر پیدا ہوا ہے، یا " زبانِ اردو " کا مطلب ہے " اونچے کیمپوں کی زبان " [73] یا مقامی طور پر " لشکری زبان " کا مطلب ہے " فوج کی زبان " [74] اگرچہ اردو کی اصطلاح مختلف ہے۔ اس وقت کے معنی [75] یہ ریکارڈ کیا گیا ہے کہ اورنگ زیب ہندوی زبان میں بولتا تھا، جو غالباً فارسی زبان میں تھی، کیونکہ اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ ہندوی اس دور میں فارسی رسم الخط میں لکھی گئی تھی۔ [76]

اس عرصے کے دوران اردو کو "مورس" کہا جاتا تھا، جس کا مطلب صرف مسلمان تھا، [77] یورپی مصنفین نے [78] جان اوونگٹن نے 1689ء میں لکھا: [79]

موروں کی زبان ہندوستان کے قدیم اصلی باشندوں سے مختلف ہے لیکن اپنے کرداروں کے لیے ان غیر قوموں کی پابند ہے۔ کیونکہ اگرچہ مورز بولی اپنے لیے مخصوص ہے، پھر بھی اس کے اظہار کے لیے خطوط سے محروم ہے۔ اور اس لیے، اپنی مادری زبان میں اپنی تمام تحریروں میں، وہ اپنے خطوط ہیتھنز، یا فارسیوں، یا دیگر اقوام سے مستعار لیتے ہیں۔

1715 میں ریختہ میں ایک مکمل ادبی دیوان نواب صدرالدین خان نے لکھا۔ [80] ایک اردو فارسی لغت خان آرزو نے 1751ء میں احمد شاہ بہادر کے دور میں لکھی تھی۔ [81] اردو کا نام سب سے پہلے شاعر غلام ہمدانی مصحفی نے 1780ء کے آس پاس متعارف کرایا تھا [82] [83] ایک ادبی زبان کے طور پر اردو نے درباری، اشرافیہ کے ماحول میں شکل اختیار کی۔ [84] [85] جبکہ اردو نے مقامی ہندوستانی بولی کھڑ بولی کی گرامر اور بنیادی ہند آریائی الفاظ کو برقرار رکھا، اس نے نستعلیق تحریری نظام کو اپنایا [86] [87] – جسے فارسی خطاطی کے انداز کے طور پر تیار کیا گیا تھا۔ [88]

دیگر تاریخی نام

اردو زبان کی پوری تاریخ میں، اردو کو کئی دوسرے ناموں سے بھی جانا گیا ہے: ہندی، ہندوی، ریختہ، اردو-ملا، دکھینی ، مورس اور دہلوی وغیرہ۔ 1773 میں سوئس فرانسیسی سپاہی اینٹون پولیئر نے نوٹ کیا کہ انگریزوں نے اردو کے لیے "مورس" کا نام استعمال کرنا پسند کیا:[89]

مجھے ہندوستان کی عام زبان کے بارے میں گہرا علم ہے، جسے انگریز مورس کہتے ہیں اور اس سرزمین کے باشندے ہیں ۔

اشرف جہانگیر سمنانی جیسے صوفی مصنفین کی کئی تخلیقات نے اردو زبان کے لیے اسی طرح کے نام استعمال کیے ہیں۔ شاہ عبدالقادر رائے پوری پہلے شخص تھے جنہوں نے قرآن کا اردو میں ترجمہ کیا۔ [90] شاہجہاں کے زمانے میں دارالحکومت کو دہلی منتقل کر دیا گیا اور اس کا نام شاہجہان آباد رکھا گیا اور اس قصبے کے بازار کا نام اردو مُلّہ رکھا گیا۔ [91] [92]

نوآبادیاتی دور میں اردو

نوآبادیاتی انتظامیہ میں اردو کو معیاری بنانے سے پہلے، برطانوی افسران اکثر اس زبان کو " مورس " کہتے تھے۔ جان گلکرسٹ برطانوی ہندوستان میں پہلے شخص تھے جنہوں نے اردو پر ایک منظم مطالعہ شروع کیا اور "ہندوستانی" کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کی جسے یورپیوں کی اکثریت "مورس" کہتی تھی۔[93]

بعد میں برطانوی پالیسیوں کے ذریعے نوآبادیاتی ہندوستان میں اردو کو فروغ دیا گیا تاکہ فارسی پر سابقہ زور کا مقابلہ کیا جا سکے۔ [94] نوآبادیاتی ہندوستان میں، "انیسویں صدی میں متحدہ صوبوں میں عام مسلمان اور ہندو یکساں طور پر ایک ہی زبان بولتے تھے، یعنی ہندوستانی، خواہ اس نام سے پکارا جائے یا ہندی، اردو، یا برج یا اودھی جیسی علاقائی بولیوں میں سے ایک۔ " [95] مسلم کمیونٹیز کے اشرافیہ کے ساتھ ساتھ ہندو اشرافیہ کی ایک اقلیت، جیسا کہ ہندو نسل کے منشی ، [96] نے عدالتوں اور سرکاری دفاتر میں فارسی عربی رسم الخط میں زبان لکھی، حالانکہ ہندو بعض ادبیات میں دیوناگری رسم الخط کو استعمال کرتے رہے۔ اور مذہبی سیاق و سباق۔ [95] [97] [98] 19ویں صدی کے آخر تک، لوگ اردو اور ہندی کو دو الگ الگ زبانوں کے طور پر نہیں دیکھتے تھے، حالانکہ شہری علاقوں میں، معیاری ہندستانی زبان کو تیزی سے اردو کہا جاتا تھا اور فارسی عربی رسم الخط میں لکھا جاتا تھا۔ [99] اردو اور انگریزی نے 1837ء میں ہندوستان کے شمالی حصوں میں فارسی کو سرکاری زبانوں کے طور پر بدل دیا [100] نوآبادیاتی ہندوستانی اسلامی اسکولوں میں، مسلمانوں کو ہند اسلامی تہذیب کی زبانوں کے طور پر فارسی اور عربی پڑھائی جاتی تھی۔ انگریزوں نے ہندوستانی مسلمانوں میں خواندگی کو فروغ دینے اور انہیں سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کی طرف راغب کرنے کے لیے ان سرکاری تعلیمی اداروں میں فارسی عربی رسم الخط میں لکھی ہوئی اردو پڑھانا شروع کی اور اس وقت کے بعد ہندوستانی مسلمانوں میں اردو کو بطور خاص نظر آنے لگا۔ [95] شمال مغربی ہندوستان میں ہندوؤں نے، آریہ سماج کے تحت فارسی عربی رسم الخط کے استعمال کے خلاف احتجاج کیا اور دلیل دی کہ زبان کو مقامی دیوناگری رسم الخط میں لکھا جانا چاہیے، [101] جس نے دیوناگری میں لکھی گئی ہندی کے استعمال کو جنم دیا۔ انجمن اسلامیہ لاہور [101] دیوناگری رسم الخط میں ہندی اور فارسی-عربی رسم الخط میں لکھی گئی اردو نے مسلمانوں کے لیے "اردو" اور ہندوؤں کے لیے "ہندی" کی فرقہ وارانہ تقسیم قائم کی، یہ تقسیم نوآبادیاتی ہندوستان کی تقسیم کے بعد ہندوستان میں تقسیم ہو گئی۔ پاکستان کی آزادی کے بعد (حالانکہ ایسے ہندو شاعر ہیں جو اردو میں لکھتے رہتے ہیں، جن میں گوپی چند نارنگ اور گلزار ) تھے۔ [102] [103]

تقسیم کے بعد

اردو کو بمبئی پریزیڈنسی ، بنگال ، صوبہ اڑیسہ ، [104] اور ریاست حیدرآباد کے نوآبادیاتی ہندوستانی مصنفین کے لیے بطور ادبی ذریعہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ [105] 1973 میں، اردو کو پاکستان کی واحد قومی زبان کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔ [106] 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے اور اس کے بعد لاکھوں افغان مہاجرین کی آمد کے بعد جو کئی دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں، [107] نے بھی ہندی-اردو میں عبور حاصل کر لیا ۔ ہندوستانی میڈیا خاص طور پر ہندی-اردو بالی ووڈ فلمیں اور گانے اردو زبان میں ہوتے ہیں۔ [108] [109] [110] اردو کو پراکرت اور سنسکرت کے مقامی الفاظ سے پاک کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اور ہندی کو فارسی کے الفاظ سے پاک کرنے کی کوشش کی گئی ہے - نئی لغت بنیادی طور پر فارسی اور عربی سے اردو کے لیے اور سنسکرت سے ہندی سے نکالی گئی ہے۔ [111] [112] انگریزی نے ایک مشترکہ سرکاری زبان کے طور پر دونوں پر بہت زیادہ اثر ڈالا ہے۔ [113] بروس (2021) کے مطابق، اٹھارویں صدی سے اردو نے انگریزی الفاظ کو ڈھال لیا ہے۔ [114] پاکستان میں 1947ء میں اپنی آزادی کے بعد سے ایک اردو کی ہائپر فارسائزیشن کی طرف ایک تحریک ابھری جو ہندوستان میں ابھرنے والی ہائپر سنسکرت زدہ ہندی کی طرح "مصنوعی" ہے۔ [115] ہندی کے بڑھتے ہوئے سنسکرتائزیشن سے کچھ حد تک اردو کی ہائپر فارسائزیشن کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ [116] پاکستان میں روزمرہ کی بنیاد پر بولی جانے والی اردو کا انداز غیر جانبدار ہندستانی کے مشابہ ہے جو برصغیر کے شمالی حصے کی زبان ہے۔ [117] [118]

1977 کے بعد سے، [119] صحافی خشونت سنگھ جیسے کچھ مبصرین نے اردو کو "مرتی ہوئی زبان" قرار دیا ہے، حالانکہ دیگر، جیسے کہ ہندوستانی شاعر اور مصنف گلزار (جو دونوں ممالک میں مقبول ہیں، نے اس تشخیص سے اختلاف کیا اور کہا کہ اردو ہندوستان میں "سب سے زندہ زبان ہے اور وقت کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے"۔ [120] [121] [122] [119] [123] [124] [125] یہ رجحان دیگر زبانوں کے بولنے والوں کے مقابلے میں مقامی اردو بولنے والوں کی نسبتاً اور مطلق تعداد میں کمی سے متعلق ہے۔ [126] [127] اردو کے فارسی عربی رسم الخط، اردو ذخیرہ الفاظ اور گرامر کے بارے میں کم ہوتی ہوئی (جدید) علم؛ [126] [128] اردو سے اور ادب کے ترجمے اور نقل کا کردار۔ [126] اردو کی بدلتی ثقافتی تصویر اور اردو بولنے والوں کے ساتھ منسلک سماجی و اقتصادی حیثیت (جس سے دونوں ممالک میں خاص طور پر ان کے روزگار کے مواقع پر منفی اثر پڑتا ہے)، [128] [126] اردو کی قانونی حیثیت اور حقیقی سیاسی حیثیت، [128] اردو کو تعلیم کی زبان کے طور پر کتنا استعمال کیا جاتا ہے اور طلباء نے اعلیٰ تعلیم میں اس کا انتخاب کیا ہے، [128] [126] [127] [125] اور کس طرح اردو کی دیکھ بھال اور ترقی کو حکومتوں اور این جی اوز کی مالی اور ادارہ جاتی مدد حاصل ہے۔ [128] [126] ہندوستان میں، اگرچہ اردو صرف مسلمانوں کے ذریعہ استعمال نہیں کی جاتی ہے اور نہ کبھی ہوتی ہے (اور ہندی کبھی بھی خصوصی طور پر ہندوؤں کے ذریعہ نہیں)، [125] [129] جاری ہندی-اردو تنازعہ اور دونوں مذاہب کے ساتھ ہر زبان کی جدید ثقافتی وابستگی کی وجہ سے بہت کم اضافہ ہوا ہے۔ ہندو اردو استعمال کرتے ہیں۔ [125] [129] 20ویں صدی میں، ہندوستانی مسلمانوں نے بتدریج اجتماعی طور پر اردو کو اپنانا شروع کیا [129] (مثال کے طور پر، ' بہار کی آزادی کے بعد کی مسلم سیاست نے اردو زبان کے ارد گرد ایک متحرک دیکھا جو اقلیتوں کو بااختیار بنانے کے آلے کے طور پر خاص طور پر کمزور سماجی و اقتصادی پس منظر سے آنے والی ہے'۔ [126] )، لیکن 21 ویں صدی کے اوائل میں ہندوستانی مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی نے سماجی و اقتصادی عوامل کی وجہ سے ہندی کو تبدیل کرنا شروع کیا، جیسے کہ ہندوستان کے بیشتر حصوں میں اردو کو تدریسی زبان کے طور پر چھوڑ دیا گیا، [127] [126] [125] ہندوستان میں اردو بولنے والوں کی تعداد 2001ء اور 2011ء کے درمیان 1.5 فیصد کم ہوئی (اس وقت 5.08 ملین اردو بولنے والے تھے)، خاص طور پر سب سے زیادہ اردو بولنے والی ریاستوں اتر پردیش (c. 8% سے 5%) اور بہار (c. 11.5% سے 8.5%)، حالانکہ ان دونوں ریاستوں میں مسلمانوں کی تعداد میں اسی عرصے میں اضافہ ہوا ہے۔ [127] اگرچہ 21 ویں صدی کے اوائل کے ہندوستانی پاپ کلچر میں اردو اب بھی بہت نمایاں ہے، بالی ووڈ [124] سے لے کر سوشل میڈیا تک، اردو رسم الخط اور اردو میں کتابوں کی اشاعت میں مسلسل کمی واقع ہوئی ہے۔ [126] چونکہ پاکستانی حکومت نے تقسیم کے وقت اردو کو قومی زبان قرار دیا تھا، اس لیے ہندوستانی ریاست اور کچھ مذہبی قوم پرستوں نے جزوی طور پر اردو کو ایک 'غیر ملکی' زبان کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا۔ [123] ہندوستان میں اردو کے حامی اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ اسے دیوناگری اور لاطینی رسم الخط ( رومن اردو ) میں لکھنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔[125] [130] [126]

وولہ بھائی آفتاب نے دلیل دی کہ اردو اصل میں روشن خیالی، ترقی اور آزادی کی ایک بہترین اشرافیہ زبان ہے، جس نے تحریک آزادی کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ [131] لیکن 1947ء کی تقسیم کے بعد، جب اسے پاکستان کی قومی زبان کے طور پر منتخب کیا گیا، تو اسے بنیادی طور پر بنگالی سے سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑا (جو کل آبادی کا 56% بولی جاتی ہے، زیادہ تر مشرقی پاکستان میں۔ آزادی کے حامی دونوں اشرافیہ جنہوں نے پاکستان میں مسلم لیگ اور ہندوستان میں ہندو اکثریتی کانگریس پارٹی کی قیادت کی تھی، برطانوی نوآبادیاتی دور میں انگریزی میں تعلیم حاصل کی گئی تھی، اور انگریزی میں کام کرتے رہے اور اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم اسکولوں میں بھیجتے رہے۔ [131] اگرچہ پاکستان میں اشرافیہ نے مختلف درجات کے ساتھ تعلیم کی اردوائزیشن کی کوششیں کی ہیں، لیکن سیاست، قانونی نظام، فوج اور معیشت کو اردو میں کرنے کے لیے کوئی بھی کامیاب کوشش نہیں کی گئی۔ [131] یہاں تک کہ جنرل ضیاء الحق کی حکومت (1977-1988)، جو ایک متوسط پنجابی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ابتدائی طور پر پاکستانی معاشرے کی تیز اور مکمل اردوائزیشن کی بھرپور حمایت کرتے تھے (انہیں 'سرپرست اردو' کا اعزازی خطاب دیا گیا تھا۔ [131] 1960ء کی دہائی سے، اردو پاکستان میں اردو زبان مذہبی اسلام پسندی اور سیاسی قومی قدامت پرستی (اور آخر کار نچلے اور نچلے متوسط طبقے، علاقائی زبانوں جیسے کہ پنجابی، سندھی اور بلوچی) کے ساتھ منسلک رہی ہے، جبکہ انگریزی۔ بین الاقوامی سطح پر سیکولر اور ترقی پسند بائیں بازو (اور آخر کار بالائی اور اعلیٰ متوسط طبقے) سے وابستہ رہی۔ [131]

آبادیاتی اور جغرافیائی تقسیم

ہندوستان اور پاکستان میں اردو بولنے والوں کی تعداد 100 ملین سے زیادہ ہے۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں اردو بولنے والوں کی تعداد 50.8 ملین تھی (کل آبادی کا 4.34%)۔ [132] [133] 2006 میں پاکستان میں تقریباً 16 ملین [134] برطانیہ، سعودی عرب، امریکہ اور بنگلہ دیش میں بولنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ تاہم، اردو زبان بہت وسیع پیمانے پر بولی جاتی ہے، جو دنیا میں مینڈارن چینی اور انگریزی کے بعد تیسری سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ [135] نحو (گرامر)، اردو اور ہندی کے بنیادی الفاظ بنیادی طور پر یکساں ہیں - اس طرح ماہر لسانیات انہیں عام طور پر ایک زبان کے طور پر شمار کرتے ہیں، جب کہ کچھ کا کہنا ہے کہ انہیں سماجی و سیاسی وجوہات کی بنا پر دو مختلف زبانوں کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ [136] دوسری زبانوں کے ساتھ تعامل کی وجہ سے، اردو جہاں کہیں بھی بولی جاتی ہے، بشمول پاکستان میں مقامی ہو گئی ہے۔ پاکستان میں اردو میں تبدیلیاں آئی ہیں اور اس نے علاقائی زبانوں کے بہت سے الفاظ کو شامل کیا ہے۔ اسی طرح، ہندوستان میں بولی جانے والی اردو کو کئی بولیوں میں بھی پہچانا جا سکتا ہے جیسے کہ لکھنؤ اور دہلی کی معیاری اردو کے ساتھ ساتھ جنوبی ہندوستان کی دکنی بولی وغیرہ۔ [137] [138] اردو کی ہندی سے مماثلت کی وجہ سے، دونوں زبانوں کے بولنے والے آسانی سے ایک دوسرے کو سمجھ سکتے ہیں۔[139]

پاکستان

پاکستان کی 2017ء کی مردم شماری کے مطابق ہر پاکستانی ضلع میں ان کی مادری زبان اردو والے لوگوں کا تناسب

اردو پورے پاکستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہے، [140] لیکن پاکستان کی صرف 7% آبادی اردو کو اپنی مادری زبان کے طور پر بولتی ہے۔ [141] پاکستان میں پچیس سال سے زائد عرصے تک رہنے والے مختلف نسلی (جیسے پشتون ، تاجک ، ازبک ، ہزاروی اور ترکمان ) کے تقریباً تیس لاکھ افغان مہاجرین میں سے زیادہ تر اردو زبان بولتے ہیں۔ [142] [143] پاکستان میں اردو میں بہت سے اخبارات شائع ہوتے ہیں جن میں روزنامہ جنگ ، روزنامہ نوائے وقت اور روزنامہ ملت شامل ہیں۔ پاکستان میں کوئی بھی خطہ اردو کو اپنی مادری زبان کے طور پر استعمال نہیں کرتا۔ [144] پاکستان کی پنجابی اشرافیہ ، نے اردو کو مادری زبان کے طور پر اپنایا ہے اور وہ اردو بولنے والے کے ساتھ ساتھ پنجابی شناخت دونوں سے پہچانے جاتے ہیں۔ [145] [146] اردو کو 1947ء میں پاکستان کی نئی ریاست کے لیے اتحاد کے طور پر منتخب کیا گیا تھا۔ یہ پاکستان کے تمام صوبوں/علاقوں میں لکھی، بولی اور استعمال کی جاتی ہے۔ [147] انگریزی اور اردو دونوں میڈیم اسکولوں میں ہائر سیکنڈری اسکول تک اردو کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے، جس نے لاکھوں دوسری زبان کے بولنے والوں کو اردو سکھائی۔ [148] جبکہ کچھ اردو الفاظ کو پاکستان کی علاقائی زبانوں نے بھی ضم کر لیا ہے۔ [149] [150]

بھارت

ہندوستان میں، اردو ان جگہوں پر بولی جاتی ہے جہاں بڑی مسلم اقلیتیں یا شہر ہیں جو ماضی میں مسلم سلطنتوں کے علاقے تھے۔ ان میں اتر پردیش ، مدھیہ پردیش ، بہار ، تلنگانہ ، آندھرا پردیش ، مہاراشٹرا ( مراٹھواڑہ اور کونکنی)، کرناٹک اور حیدرآباد ، لکھنؤ ، دہلی ، ملیرکوٹلہ ، بریلی ، میرٹھ ، سہارنپور ، مظفر نگر ، روڑکی ، مورا آباد جیسے شہر شامل ہیں۔, اعظم گڑھ, بجنور, نجیب آباد, رام پور, علی گڑھ, الہ آباد, گورکھپور, آگرہ, فیروز آباد, کانپور, بدایوں, بھوپال, حیدرآباد, اورنگ آباد , [151] بنگلور, کولکتہ, میسور, پٹنہ, دربھنگہ, مدھوا, سمبھوانی, گانو پور سہرسہ ، سپول ، مظفر پور ، نالندہ ، مونگیر ، بھاگلپور ، ارریہ ، گلبرگہ ، پربھنی ، ناندیڑ ، مالیگاؤں ، بیدر ، اجمیر اور احمد آباد ۔ [152] ہندوستان کے تقریباً 800 اضلاع میں ایک بہت بڑی تعداد میں اردو بولنے والی اقلیت میں ہیں۔ ارریہ ضلع ، بہار میں، اردو بولنے والوں کی کثرت ہے اور حیدرآباد ضلع، تلنگانہ (43.35% تلگو بولنے والے اور 43.24% اردو بولنے والے) میں تقریباً کثرت ہے۔

کچھ ہندوستانی مسلم اسکول ( مدرسہ ) اردو کو پہلی زبان کے طور پر پڑھاتے ہیں اور ان کا اپنا نصاب اور امتحانات ہوتے ہیں۔ [153] درحقیقت بالی ووڈ فلموں کی زبان میں فارسی اور عربی الفاظ کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے اور اس طرح اسے ایک لحاظ سے "اردو" سمجھا جاتا ہے، [154] خاص طور پر گانوں میں۔ [155] ہندوستان میں 3,000 سے زیادہ اردو اشاعتیں ہیں جن میں 405 روزانہ اردو اخبارات بھی شامل ہیں۔ [156] [157] اخبارات جیسے کہ نشاط نیوز اردو ، سہارا اردو ، روزنامہ سالار ، ہندوستان ایکسپریس ، روزنامہ پاسبان ، روزنامہ سیاست ، روزنامہ منصف اور انقلاب بنگلور، مالیگاؤں، میسور، حیدرآباد، اور ممبئی میں شائع اور تقسیم کیے جاتے ہیں۔[158]

دیگر ممالک

جنوبی ایشیا سے باہر، یہ خلیج فارس کے ممالک کے بڑے شہری مراکز میں نقل مکانی کرنے والے جنوبی ایشیائی کارکنوں کی بڑی تعداد کے ذریعہ بولی جاتی ہے۔ برطانیہ ، ریاستہائے متحدہ، کینیڈا، جرمنی، نیوزی لینڈ، ناروے اور آسٹریلیا کے بڑے شہری مراکز میں بڑی تعداد میں تارکین وطن اور ان کے بچے بھی اردو بولتے ہیں۔ [159] عربی کے ساتھ ساتھ، کاتالونیا میں سب سے زیادہ بولنے والے تارکین وطن کی زبانوں میں اردو بھی شامل ہے۔ [160]

ثقافتی شناخت

بولنے والے اور جُغرافیائی توزیع

بھارت اور پاکستان میں اردو بولنے والے علاقے۔
  علاقے جہاں اردو سرکاری یا علاقائی سرکاری زبان سے مشترکہ سرکاری زبان ہے۔
  (دیگر) علاقے جہاں صوبائی زبان سرکاری زبان ہے۔
۔

معیاری اُردو (کھڑی بولی) کے اصل بولنے والے افراد کی تعداد 60 سے 80 ملین ہے۔ ایس۔ آئی۔ ایل نژادیہ کے 1999ء کی شماریات کے مطابق اُردو اور ہندی دُنیا میں پانچویں سب سے زیادہ بولی جانی والی زبان ہے۔ لینگویج ٹوڈے میں جارج ویبر کے مقالے : 'دُنیا کی دس بڑی زبانیں ' میں چینی زبانوں، انگریزی اور ہسپانوی زبان کے بعد اُردو اور ہندی دُنیا میں سب سے زیادہ بولے جانی والی چوتھی زبان ہے۔ اِسے دُنیا کی کل آبادی کا 4.7 فیصد افراد بولتے ہیں۔

جنوبی انگلستان کا شہر بارٹن آن سی میں 1913ء سے قائم اردو یادگار۔

اُردو کی ہندی کے ساتھ یکسانی کی وجہ سے، دونوں زبانوں کے بولنے والے ایک دوسرے کو عموماً سمجھ سکتے ہیں۔ درحقیقت، ماہرینِ لسانیات اِن دونوں زبانوں کو ایک ہی زبان کے حصّے سمجھتے ہیں۔ تاہم، یہ معاشی و سیاسی لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ لوگ جو اپنے آپ کو اُردو کو اپنی مادری زبان سمجھتے ہیں وہ ہندی کو اپنی مادری زبان تسلیم نہیں کرتے اور اِسی طرح اِس کے برعکس۔

پاکستان میں اردو

اُردو کو پاکستان کے تمام صوبوں میں سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ مدرسوں میں اعلیٰ ثانوی جماعتوں تک لازمی مضمون کی طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ اِس نے ایسے کروڑوں اُردو بولنے والے پیدا کر دیئے ہیں، جن کی مادری زبان پنجابی، پشتو، سندھی، بلوچی، کشمیری، براہوی اور چترالی وغیرہ میں سے کوئی ایک ہوتی ہے۔ اُردو پاکستان کی مُشترکہ زبان ہے اور یہ علاقائی زبانوں سے کئی الفاظ ضم کر رہی ہے۔ اُردو کا یہ لہجہ اب پاکستانی اُردو کہلاتا ہے۔ یہ اَمر زبان کے بارے میں رائے تبدیل کر رہا ہے، جیسے اُردو بولنے والا وہ ہے جو اُردو بولتا ہے گو کہ اُس کی مادری زبان خواہ کوئی اور زبان ہی کیوں نہ ہو۔ علاقائی زبانیں بھی اُردو کے الفاظ سے اثر پا رہی ہیں۔ پاکستان میں کروڑوں افراد ایسے ہیں جن کی مادری زبان کوئی اَور ہے لیکن وہ اُردو کو بولتے اور سمجھ سکتے ہیں۔ پاکستان میں پچیس برس گزارنے والے پچاس لاکھ افغان مہاجرین میں سے زیادہ تر اُردو روانی سے بول سکتے ہیں۔ وہ تمام اُردو بولنے والے کہلائیں گے۔ اس حقیقت کے پیش نظر 2007ء میں سید ندیم احمد نے اردو قوم کا نظریہ پیش کیا۔ اس نظریہ کے تحت ہر وہ شخص اردو قوم کا حصہ ہے جو اردو سمجھتا، بولتا اور اسے اپنی مادری یا رابطے کی پہلی زبان سمجھتا ہے، خواہ اس کا تعلق کہیں سے بھی ہو۔ اس نظرئے کے مطابق اردو قوم کی تعداد ساری دنیا میں 30 کروڑ سے تجاوز کر جاتی ہے۔ پاکستان میں اُردو اخباروں کی ایک بڑی تعداد چھپتی ہے، جن میں روزنامہ جنگ، روزنامہ نوائے وقت، روزنامہ ایکسپریس اور روزنامہ ملّت شامل ہیں۔

8 ستمبر 2015ء بروز منگل کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے متعلقہ حکام کو فوری طور پر سرکاری دفاتر میں اردو بطور سرکاری زبان کے نفاذ کے لیے حکم دے رکھا ہے۔ [161]

بھارت میں اردو

بھارت میں، اُردو اُن جگہوں میں بولی اور استعمال کی جاتی ہے جہاں مسلمان اقلیتی آباد ہیں یا وہ شہر جو ماضی میں مسلمان حاکمین کے مرکز رہے ہیں۔ اِن میں اُتر پردیش کے حصے (خصوصاً لکھنؤدہلی، بھوپال، حیدرآباد، بنگلور، کولکتہ، میسور، پٹنہ، اجمیر اور احمد آباد بھٹکل شامل ہیں۔ کچھ بھارتی مدرسے اُردو کو پہلی زبان کے طور پر پڑھاتے ہیں، اُن کا اپنا خاکۂ نصاب اور طریقۂ امتحانات ہیں۔ بھارتی دینی مدرسے عربی اور اُردو میں تعلیم دیتے ہیں۔ بھارت میں اُردو اخباروں کی تعداد 35 سے زیادہ ہے

حقیقت یہ ہے بھارت کا اردو کے بغیر گزارہ نہیں۔ ہندی زبان میں وہ صلاحیت نہیں کہ اسے عام لوگوں کی زبان بنایا جا سکے۔ ہندی کے کئی الفاظ تو خود ہندی بولنے والوں کی سمجھ میں بھی نہیں آتے۔ اس لیے انھیں آپس میں بات چیت کے لیے اردو کا سہارا لینا پڑتا ہے کیونکہ اردو کے لفظ سادہ اور عام فہم ہیں جن کو سمجھنا اور بولنا بہت آسان ہے۔ بھارت کی فلم انڈسٹری جو دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹریز میں سے ایک ہے اور جہاں ہر سال اربوں روپے کی فلمیں بنتی ہیں۔ وہاں بھی ہر جگہ اردو ہی بولی جاتی ہے۔ فلموں کے مکالمات اور گیت سب اردو زبان میں ہی ہوتے ہیں۔ مکالموں میں تو ہندی کے چند الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں لیکن گیتوں میں سو فیصد اردو زبان ہی استعمال کی جاتی ہے۔

۔

جنوبی ایشیاء سے باہر اُردو زبان خلیجِ فارس اور سعودی عرب میں جنوبی ایشیائی مزدور مہاجر بولتے ہیں۔ یہ زبان برطانیہ، امریکا، کینیڈا، جرمنی، ناروے اور آسٹریلیا میں مقیم جنوبی ایشیائی مہاجرین بولتے ہیں۔

دیگر ممالک

متحدہ عرب امارات میں، تین زبانوں میں لکھا ہوا سائن بورڈ۔ اردو سب سے نچلی سطر پر نظر آرہی ہے۔
نئی دہلی ریلوے اسٹیشن میں ہمہ زبانوں میں لکھا ہوا بورڈ۔
اردو بولنے والے ممالک کی فہرست
ملک سال بولنے والوں کی تعداد فی صد
پاکستان 2011 30,800,000 7%
بھارت 2001 70,736,600 6.1%
مملکتِ متحدہ 2001 747,285 1.3%
بنگلہ دیش 650,000 0.4%
متحدہ عرب امارات 600,000 13%
سعودی عرب 382,000 1.5%
نیپال 375,000 1.3%
ریاست ہائے متحدہ امریکا 350,000 0.1%
افغانستان 320,000 8%
جنوبی افریقا 170,000
کینیڈا 156,415 0.5%
عمان 90,000 2.8%
بحرین 80,000 11.3%
ماریشس 74,000 5.6%
قطر 70,000 8%
جرمنی 40,000
ناروے 29,100
فرانس 20,000
سپین 2004 18,000
سویڈن 2001 10,000
سوری نام
کُل عالمی 85,718,400

درج بالا فہرست سے پتہ چلتا ہے کہ اصل اُردو بولنے والوں کی زیادہ تعداد جنوبی ایشاء کی بجائے چھوٹے عرب ریاستوں (متحدہ عرب امارات، بحرین) میں ہے، جہاں اُن کی تعداد وہاں کی کل آبادی کا 10 فیصد سے زیادہ ہے۔ اِس کی وجہ وہاں پر پاکستان اور بھارتی تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد ہے۔

سرکاری حیثیت

اردو زبان
اردو زبان

یہ مضمون اردو زبان پر مضامین کا تسلسل ہے
اصناف ادب

پاکستان میں

اُردو پاکستان کی قومی زبان ہے اور یہ پورے ملک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ یہ تعلیم، اَدب، دفتر، عدالت، وسیط اور دینی اِداروں میں مستعمل ہے۔ یہ ملک کی سماجی و ثقافتی میراث کا خزانہ ہے۔

اردو واحد قومی ہے، اور پاکستان کی دو سرکاری زبانوں میں سے ایک (انگریزی کے ساتھ)۔ [162] یہ پورے ملک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے، جبکہ ریاستی زبانیں (مختلف خطوں میں بولی جانے والی زبانیں) صوبائی زبانیں ہیں، حالانکہ صرف 7.57% پاکستانی اپنی پہلی زبان کے طور پر اردو بولتے ہیں۔ [163] اس کی سرکاری حیثیت کا مطلب یہ ہے کہ اردو دوسری یا تیسری زبان کے طور پر پورے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ یہ تعلیم ، ادب ، دفتر اور عدالت کے کاروبار میں استعمال ہوتا ہے، [164] حالانکہ عملی طور پر حکومت کے اعلیٰ عہدوں میں اردو کے بجائے انگریزی استعمال ہوتی ہے۔ [165] پاکستانی آئین کے آرٹیکل 251(1) میں کہا گیا ہے کہ اردو کو حکومت کی واحد زبان کے طور پر لاگو کیا جائے، حالانکہ پاکستانی حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر انگریزی سب سے زیادہ استعمال ہونے والی زبان ہے۔ [166]

بھارت میں

اردو ہندوستان میں سرکاری طور پر تسلیم شدہ زبانوں میں سے ایک ہے اور اسے ہندوستانی ریاستوں آندھرا پردیش ، اتر پردیش ، بہار ، جھارکھنڈ ، مغربی بنگال ، تلنگانہ اور قومی دارالحکومت دہلی میں "اضافی سرکاری زبان" کا درجہ بھی حاصل ہے۔ [167] [168] جموں و کشمیر کی پانچ سرکاری زبانوں میں سے ایک کے طور پر بھی ہے۔ [169]

ہندوستان نے 1969 میں اردو کے فروغ کے لیے سرکاری بیورو قائم کیا، حالانکہ سنٹرل ہندی ڈائریکٹوریٹ اس سے قبل 1960 میں قائم کیا گیا تھا، اور ہندی کی ترویج کے لیے بہتر مالی امداد اور زیادہ ترقی دی گئی ہے، [170] جب کہ فروغ سے اردو کی حیثیت کو نقصان پہنچا ہے۔ ہندی کا [171] نجی ہندوستانی تنظیمیں جیسے انجمنِ طریقت اردو، دینی علمی کونسل اور اردو مصحف دستہ اردو کے استعمال اور تحفظ کو فروغ دیتی ہیں، انجمن نے کامیابی کے ساتھ ایک مہم کا آغاز کیا جس نے 1970 کی دہائی میں بہار کی سرکاری زبان کے طور پر اردو کو دوبارہ متعارف کرایا۔ [170] سابقہ جموں و کشمیر ریاست میں، کشمیر کے آئین کے سیکشن 145 میں کہا گیا ہے: "ریاست کی سرکاری زبان اردو ہوگی لیکن انگریزی زبان جب تک قانون سازی کے ذریعہ دوسری صورت میں فراہم نہیں کرتی، ریاست کے تمام سرکاری مقاصد کے لیے استعمال ہوتی رہے گی۔ وہ ریاست جس کے لیے اسے آئین کے آغاز سے فوراً پہلے استعمال کیا جا رہا تھا۔ [172]

بولیاں

اردو میں چند تسلیم شدہ بولیاں ہیں، جن میں دکھنی ، ڈھاکیہ ، ریختہ ، اور ماڈرن ورناکولر اردو (دہلی کے علاقے کی کوروی بولی بولی پر مبنی) شامل ہیں۔ دکنی ، جنوبی ہندوستان کے علاقے دکن میں بولی جاتی ہے۔ یہ مراٹھی اور کوکنی زبان کے الفاظ کے مرکب کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی اور چغتائی کے الفاظ کے مرکب سے الگ ہے جو اردو کی معیاری بولی میں نہیں ملتی۔ دکھینی مہاراشٹر ، تلنگانہ ، آندھرا پردیش اور کرناٹک کے تمام حصوں میں بڑے پیمانے پر بولی جاتی ہے۔ اردو ہندوستان کے دوسرے حصوں کی طرح پڑھی اور لکھی جاتی ہے۔ ان ریاستوں میں اردو کے کئی روزنامے اور کئی ماہانہ رسائل شائع ہوتے ہیں۔

ڈھاکیہ اردو بنگلہ دیش کے پرانے ڈھاکہ شہر کی ایک بولی ہے جو مغل دور سے شروع ہوتی ہے۔ تاہم، اس کی مقبولیت، یہاں تک کہ مقامی بولنے والوں میں بھی، 20ویں صدی میں بنگالی زبان کی تحریک کے بعد سے بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے۔ اسے بنگلہ دیش کی حکومت نے سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی بولی جانے والی اردو اس بولی سے مختلف ہے۔

اردو کی بولیاں جن کو شناخت کیا گیا ہے وہ یہ ہیں ؛

  • دکنی - اس کو دکھنی، دیسیا، مرگان نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ زبان دکن بھارت میں بولی جاتی ہے۔ مہاراشٹر میں جائیں تو مراٹھی اور کونکنی زبانوں کا اثر ملے گا، آندھرا پردیش جائیں تو تیلگو کا اثر ملے گا۔
  • ریختہ
  • کھری بولی :(کھڑی بولی)

پاکستان میں اردو پر پشتو، پنجابی، سرائیکی، بلوچی، سندھی زبانوں کا اثر پایا جاتا ہے، مقامی زبانوں کے اثر کی وجہ سے اردو کے حروف تہیجی عربی اور فارسی سے زیادہ ہیں بنیادی طور پر پاکستان کی اردو پر فارسی اور عربی کا زیادہ اثر پایا جاتا ہے۔

ہندی کے ساتھ موازنہ

ہندوستان میں سڑک کے نشان پر اردو اور ہندی۔ اردو ورژن انگریزی کا براہ راست ترجمہ ہے۔ ہندی ایک حصہ نقل حرفی ہے ("پارسل" اور "ریل") اور جزوی ترجمہ "کاریالے" اور "ارکشن کیندر"

معیاری اردو کا اکثر معیاری ہندی سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ [173] اردو اور ہندی دونوں، جو ایک ہی زبان، ہندوستانی کے بنیادی الفاظ اور گرامر کا اشتراک کرتے ہیں۔ [174] [175] [176] [177] مذہبی انجمنوں کے علاوہ، اختلافات زیادہ تر معیاری شکلوں تک ہی محدود ہیں: معیاری اردو روایتی طور پر فارسی حروف تہجی کے نستعلیق انداز میں لکھی جاتی ہے اور فنی اور ادبی الفاظ کے ماخذ کے طور پر فارسی اور عربی پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے، [178] جبکہ معیاری ہندی روایتی طور پر دیوناگری میں لکھی جاتی ہے اور سنسکرت سے عبارت ہے۔ [179] تاہم، دونوں مقامی سنسکرت اور پراکرت سے ماخوذ الفاظ کی بنیادی ذخیرہ الفاظ اور عربی اور فارسی کے الفاظ کی ایک خاصی مقدار کا اشتراک کرتے ہیں، ماہرین لسانیات کے اتفاق کے ساتھ کہ وہ ایک ہی زبان کی دو معیاری شکلیں ہیں [180] [181] اور فرق پر غور کریں۔ سماجی لسانی ہونا؛ [182] کچھ ان کی الگ الگ درجہ بندی کرتے ہیں۔ [183] دونوں زبانوں کو اکثر ایک زبان (ہندوستانی یا ہندی-اردو) سمجھا جاتا ہے جس میں فارسی سے لے کر سنسکرت کے الفاظ تک کے تسلسل میں بولی جاتی ہے، [184] لیکن اب وہ سیاست کی وجہ سے الفاظ میں زیادہ سے زیادہ مختلف ہیں۔ [185] پرانی اردو لغات میں سنسکرت کے زیادہ تر الفاظ اب ہندی میں موجود ہیں۔ [186] [187] [188] صوتیاتی سطح پر، دونوں زبانوں کے بولنے والے اپنے الفاظ کے انتخاب کی فارسی-عربی یا سنسکرت کی اصل سے اکثر واقف ہوتے ہیں، جو ان الفاظ کے تلفظ کو متاثر کرتا ہے۔ [189] اردو بولنے والے اکثر سنسکرت کے الفاظ میں پائے جانے والے حرفوں کے جھرمٹ کو توڑنے کے لیے حرف داخل کرتے ہیں، لیکن عربی اور فارسی کے الفاظ میں ان کا صحیح تلفظ کریں گے۔ [190] برٹش انڈیا کی تقسیم کے بعد سے مذہبی قوم پرستی اور فرقہ وارانہ کشیدگی کے نتیجے میں، ہندی اور اردو دونوں کے مقامی بولنے والے اکثر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وہ الگ الگ زبانیں ہیں۔

اردو بولنے والے ممالک

درج ذیل فہرست میں کچھ ممالک میں اردو بولنے والوں کی تعداد دکھائی گئی ہے۔

ملک آبادی مقامی زبان بولنے والے % مقامی بولنے والے اور دوسری زبان بولنے والے %
 بھارت 1,296,834,042 [191] 50,772,631 [192] 3.9 12,151,715 [193] 0.9
 پاکستان 207,862,518 [194] 14,700,000 [195] [196] 7 164,000,000 77%
 سعودی عرب 33,091,113 [197] - 2.3 930,000 [198] -
 نیپال 29,717,587 [199] 691,546 [200] 2.3 - -
 افغانستان 38,347,000 [201] - - 733,000 [202] -
 بنگلادیش 159,453,001 [203] 300,000 [204] 0.1 - -
مملکت متحدہ کا پرچم برطانیہ 65,105,246 [205] 269,000 0.4 - -
 ریاستہائے متحدہ 329,256,465 [206] 397,502 [207] 0.1 - -
 متحدہ عرب امارات 9,890,400 300,000 3.0 1,500,000 15.1
 کینیڈا 35,881,659 [208] 243,090 [209] 0.6 - -

ادب

حضرت امیر خسرو کی فارسی شاعری۔ (1253–1325)۔

اردو ادب نے حالیہ صدیوں میں حقیقی مقام پایا، اس سے کئی صدیوں پہلے تک سلاطین دہلی پر فارسی کا غلبہ تھا۔ فارسی کی جگہ اردو نے بڑی آسانی سے پالی اور یہاں تک کہ لوگوں کو شک ہوتا ہے کہ فارسی کبھی سرکاری زبان تھی بھی کہ نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ اردو کے مصنفین اور فنکار ہیں۔

نثری ادب

مذہبی

اردو زبان میں اسلامی ادب اور شریعت کی کئی تصانیف ہیں۔ اس میں تفسیر القران، قرآنی تراجم، احادیث، فقہ، تاریخ اسلام، روحانیت اور صوفی طریقہ کے بے شمار کتب دستیاب ہیں۔ عربی اور فارسی کی کئی کلاسیکی کتب کے بھی تراجم اردو میں ہیں۔ ساتھ ساتھ کئی اہم، مقبول، معروف اسلامی ادبی کتب کا خزینہ اردو میں دستیاب ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پنڈت روپ چندجوشی نے 18وں صدی میں ایک کتاب لکھی، جس کا نام لال کتاب ہے۔ اس کا موضوع فالنامہ ہے۔ یہ کتاب برھمنوں کے اُن خاندانوں میں جہاں اردو عام زبان تھی، کافی مشہور کتاب مانی گئی۔

ادبی

میر تقی میر (1723–1810) مغل سلطنت کے دور میں 18 ویں صدی میں اودھ کے نوابی دور کے مشہور شاعر۔

غیر مذہبی ادب کو پھر سے دو اشکال میں دیکھ سکتے ہیں۔ ایک فکشن ہے تو دوسرا غیر فکشن۔

دیگر اصناف ہیں۔

نظم

مرزا غالب کی ایک یادگار تصویر۔
علامہ اقبال۔

ادب کی دوسری قسم نظم ہے۔ نظم کے معنی موتی پرونا ہے۔ یعنی کلام کو ایک ترتیب وار ہیئت کے ساتھ پیش کریں تو وہ صنف نظم کہلاتی ہے۔ اس ادب کو اردو نظمی ادب کہتے ہیں۔ لیکن آج کل اس کو اردو شاعری یا شاعری کے نام سے بھی جانا جانے لگا ہے۔

جنوبی ایشیاء میں اردو ایک اہم زبان ہے۔ بالخصوص نظم میں اردو کے مقابلہ میں دوسری زبان نہیں۔ اردو کی روایات میں کئی اصناف ہیں جن میں غزل نمایاں ترین حیثیت کی حامل ہے۔

نظمی اردو (اردو شاعری) میں ذیل کے اصناف ہیں :

  • نظم: مربوط اور مکمل شاعرانہ کلام۔
  • غزل : دو مصرعوں پر مشتمل مکمل، بامعنی اور جداگانہ اشعار کی لڑی
  • مثنوی : ایک لمبی نظم جس میں کوئی قصہ یا داستان کہی گئی ہو۔
  • مرثیہ : شہیدوں کے واقعات کو بیان کرنے والی نظم۔ بالخصوص شہیدانِ کربلا کی شہادت کو بیان کرنے والی نظم۔
  • قصیدہ : قصیدہ اردو نظم کی وہ صنف ہے جسے کسی کی تعریف میں کہی گئی نظمی شکل کہہ سکتے ہیں۔ اس کے چار اقسام ہیں
  • حمد : اللہ کی تعریف میں کہا گیا قصیدہ۔
  • نعت : حضرت محمد کی شان میں کہا گیا قصیدہ۔
  • منقبت : بزرگوں کی شان میں کہا گیا قصیدہ۔
  • مدح : بادشاہوں، نوابوں کی شان میں کہا گیا قصیدہ۔
  • نوحہ : معرکئہ کربلا میں ہوئے شہیدوں کے واقعات کو بیان کرنے والی صنف نوحہ ہے۔ مرثیہ اور نوحہ لکھنے میں شہرت یافتہ شعرا میر ببر علی انیس اور مرزا سلامت علی دبیر ہیں۔

مزید دیکھیے

بیرونی روابط

حوالہ جات

  1. "Ethnologue: Languages of the World, Seventeenth edition, Urdu"۔ Ethnologue۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 مارچ 2013 
  2. ^ ا ب اردو at ایتھنولوگ (18th ed., 2015)
  3. ^ ا ب ہندوستانی (2005)۔ مدیر: کیتھ براؤن۔ دائرۃ المعارف زبان و لسانیات (2 ایڈیشن)۔ ایلسویر۔ ISBN 0-08-044299-4 
  4. W. YATES (1847)۔ A DICTIONARY, HINDUSTANI AND ENGLISH۔ Calcutta, British India: Baptist Mission Press۔ صفحہ: iv 
  5. Gaurav Takkar۔ "Short Term Programmes"۔ punarbhava.in۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 مارچ 2015 
  6. "Indo-Pakistani Sign Language"، Encyclopedia of Language and Linguistics
  7. "National Council for Promotion of Urdu Language"۔ Urducouncil.nic.in۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 دسمبر 2011 
  8. ہرالڈ ہیمر اسٹورم، رابرٹ فورکل، مارٹن ہاسپلمتھ، مدیران (2017ء)۔ "Urdu"۔ گلوٹولاگ 3.0۔ یئنا، جرمنی: میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار دی سائنس آف ہیومین ہسٹری 
  9. Khan, Sajjad, et al. "Template Based Affix Stemmer for a Morphologically Rich Language." International Arab Journal of Information Technology (IAJIT) 12.2 (2015)۔
  10. احتشام حسین (1956)۔ "اُردو زبان کی ابتدا"۔ اردو کی کہانی۔ اردو گاہ 
  11. ^ ا ب استشهاد فارغ (معاونت) 
  12. Urdu has some form of official status in the Indian states of Bihar, Jharkhand, Telangana, Uttar Pradesh and West Bengal, as well as the national capital territory of Delhi and the Union Territory of Jammu and Kashmir.[11]
  13. "National Languages Policy Recommendation Commission" (PDF)۔ MOE Nepal۔ 1994۔ صفحہ: Appendix one۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مارچ 2021 
  14. Barbara D. Metcalf (2014)۔ Islamic Revival in British India: Deoband, 1860-1900۔ Princeton University Press۔ صفحہ: 207–۔ ISBN 978-1-4008-5610-7۔ The basis of that shift was the decision made by the government in 1837 to replace Persian as court language by the various vernaculars of the country. Urdu was identified as the regional vernacular in Bihar, Oudh, the North-Western Provinces, and Punjab, and hence was made the language of government across upper India. 
  15. استشهاد فارغ (معاونت) 
  16. Ruth Laila Schmidt (8 December 2005)۔ Urdu: An Essential Grammar (بزبان انگریزی)۔ Routledge۔ ISBN 978-1-134-71319-6۔ Historically, Urdu developed from the sub-regional language of the Delhi area, which became a literary language in the eighteenth century. Two quite similar standard forms of the language developed in Delhi, and in Lucknow in modern Uttar Pradesh. Since 1947, a third form, Karachi standard Urdu, has evolved. 
  17. ^ ا ب B. P. Mahapatra (1989)۔ Constitutional languages (بزبان انگریزی)۔ Presses Université Laval۔ صفحہ: 553۔ ISBN 978-2-7637-7186-1۔ Modern Urdu is a fairly homogenous language. An older southern form, Deccani Urdu, is now obsolete. Two varieties however, must be mentioned viz. the Urdu of Delhi, and the Urdu of Lucknow. Both are almost identical, differing only in some minor points. Both of these varieties are considered 'Standard Urdu' with some minor divergences. 
  18. Rachel Dwyer (27 September 2006)۔ Filming the Gods: Religion and Indian Cinema (بزبان انگریزی)۔ Routledge۔ ISBN 978-1-134-38070-1 
  19. استشهاد فارغ (معاونت) 
  20. ^ ا ب Tariq Rahman (2001)۔ From Hindi to Urdu: A Social and Political History (PDF)۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 1–22۔ ISBN 978-0-19-906313-0۔ 10 اکتوبر 2014 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اکتوبر 2014 
  21. "A Historical Perspective of Urdu | National Council for Promotion of Urdu Language"۔ 15 October 2022۔ 15 اکتوبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اکتوبر 2022 
  22. Rekhta Dictionary (5 April 2022)۔ "Meaning of Urdu"۔ Rekhta dictionary۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اپریل 2022 
  23. Michael G. Clyne (1992)۔ Pluricentric Languages: Differing Norms in Different Nations (بزبان انگریزی)۔ Walter de Gruyter۔ صفحہ: 383۔ ISBN 9783110128550 
  24. "Meaning of urdu-e-mualla in English"۔ Rekhta Dictionary (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اکتوبر 2022 
  25. M. Ashraf Bhat (2017)۔ The Changing Language Roles and Linguistic Identities of the Kashmiri Speech Community (بزبان انگریزی)۔ Cambridge Scholars Publishing۔ صفحہ: 72۔ ISBN 978-1-4438-6260-8۔ Although it has borrowed a large number of lexical items from Persian and some from Turkish, it is a derivative of Hindvi (also called 'early Urdu'), the parent of both modern Hindi and Urdu. It originated as a new, common language of Delhi, which has been called Hindavi or Dahlavi by Amir Khusrau. After the advent of the Mughals on the stage of Indian history, the Hindavi language enjoyed greater space and acceptance. Persian words and phrases came into vogue. The Hindavi of that period was known as Rekhta, or Hindustani, and only later as Urdu. Perfect amity and tolerance between Hindus and Muslims tended to foster Rekhta or Urdu, which represented the principle of unity in diversity, thus marking a feature of Indian life at its best. The ordinary spoken version ('bazaar Urdu') was almost identical to the popularly spoken version of Hindi. Most prominent scholars in India hold the view that Urdu is neither a Muslim nor a Hindu language; it is an outcome of a multicultural and multi-religious encounter. 
  26. Dua, Hans R. (1992).
  27. استشهاد فارغ (معاونت) 
  28. Azad Qalamdaar (27 December 2010)۔ "Hamari History" (بزبان انگریزی)۔ Hamari Boli Foundation۔ 27 دسمبر 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ Historically, Hindustani developed in the post-12th century period under the impact of the incoming Afghans and Turks as a linguistic modus vivendi from the sub-regional apabhramshas of north-western India. Its first major folk poet was the great Persian master, Amir Khusrau (1253–1325), who is known to have composed dohas (couplets) and riddles in the newly-formed speech, then called 'Hindavi'. Through the medieval time, this mixed speech was variously called by various speech sub-groups as 'Hindavi', 'Zaban-e-Hind', 'Hindi', 'Zaban-e-Dehli', 'Rekhta', 'Gujarii. 'Dakkhani', 'Zaban-e-Urdu-e-Mualla', 'Zaban-e-Urdu', or just 'Urdu'. By the late 11th century, the name 'Hindustani' was in vogue and had become the lingua franca for most of northern India. A sub-dialect called Khari Boli was spoken in and around the Delhi region at the start of the 13th century when the Delhi Sultanate was established. Khari Boli gradually became the prestige dialect of Hindustani (Hindi-Urdu) and became the basis of modern Standard Hindi & Urdu. 
  29. Schmidt, Ruth Laila. "1 Brief history and geography of Urdu 1.1 History and sociocultural position."
  30. Malik, Shahbaz, Shareef Kunjahi, Mir Tanha Yousafi, Sanawar Chadhar, Alam Lohar, Abid Tamimi, Anwar Masood et al.
  31. Tariq Rahman (2011)۔ From Hindi to Urdu : a social and political history۔ Karachi۔ ISBN 978-0-19-906313-0۔ OCLC 731974235 
  32. M. Ashraf Bhat (2017)۔ The changing language roles and linguistic identities of the Kashmiri speech community۔ Newcastle upon Tyne, UK۔ ISBN 978-1-4438-6260-8۔ OCLC 991595607 
  33. "A Historical Perspective of Urdu National Council for Promotion of …"۔ 2022-10-15۔ 15 اکتوبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  34. "A Historical Perspective of Urdu National Council for Promotion of …"۔ 2022-10-15۔ 15 اکتوبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  35. "A Historical Perspective of Urdu National Council for Promotion of …"۔ 2022-10-15۔ 15 اکتوبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  36. "اردو کا ایک تاریخی تناظر"۔ National council for Promotion of Urdu language۔ Urdu council India۔ 15 اکتوبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 Oct, 2022 
  37. Sujata Sudhakar Mody (2008)۔ Literature, Language, and Nation Formation: The Story of a Modern Hindi Journal 1900-1920 (بزبان انگریزی)۔ University of California, Berkeley۔ صفحہ: 7۔ ...Hindustani, Rekhta, and Urdu as later names of the old Hindi (a.k.a. Hindavi). 
  38. English-Urdu Learner's Dictionary (بزبان انگریزی)۔ Multi Linguis۔ 6 March 2021۔ ISBN 978-1-005-94089-8۔ ** History (Simplified) ** Proto-Indo European > Proto-Indo-Iranian > Proto-Indo-Aryan > Vedic Sanskrit > Classical Sanskrit > Sauraseni Prakrit > Sauraseni Apabhramsa > Old Hindi > Hindustani > Urdu 
  39. B. S. Kesavan (1997)۔ History Of Printing And Publishing in India (بزبان انگریزی)۔ National Book Trust, India۔ صفحہ: 31۔ ISBN 978-81-237-2120-0۔ It might be useful to recall here that Old Hindi or Hindavi, which was a naturally Persian- mixed language in the largest measure, has played this role before, as we have seen, for five or six centuries. 
  40. Sisir Kumar Das (2005)۔ History of Indian Literature (بزبان انگریزی)۔ Sahitya Akademi۔ صفحہ: 142۔ ISBN 978-81-7201-006-5۔ The most important trend in the history of Hindi-Urdu is the process of Persianization on the one hand and that of Sanskritization on the other. Amrit Rai offers evidence to show that although the employment of Perso-Arabic script for the language which was akin to Hindi/Hindavi or old Hindi was the first step towards the establishment of the separate identity of Urdu, it was called Hindi for a long time. "The final and complete change-over to the new name took place after the content of the language had undergone a drastic change." He further observes: "In the light of the literature that has come down to us, for about six hundred years, the development of Hindi/Hindavi seems largely to substantiate the view of the basic unity of the two languages. Then, sometime in the first quarter of the eighteenth century, the cleavage seems to have begun." Rai quotes from Sadiq, who points out how it became a "systematic policy of poets and scholars" of the eighteenth century to weed out, what they called and thought, "vulgar words." This weeding out meant "the elimination, along with some rough and unmusical plebian words, of a large number of Hindi words for the reason that to the people brought up in Persian traditions they appeared unfamiliar and vulgar." Sadiq concludes: hence the paradox that this crusade against Persian tyranny, instead of bringing Urdu close to the indigenous element, meant in reality a wider gulf between it and the popular speech. But what differentiated Urdu still more from the local dialects was a process of ceaseless importation from Persian. It may seem strange that Urdu writers in rebellion against Persian should decide to draw heavily on Persian vocabulary, idioms, forms, and sentiments. . . . Around 1875 in his word Urdu Sarf O Nahr, however, he presented a balanced view pointing out that attempts of the Maulavis to Persianize and of the Pandits to Sanskritize the language were not only an error but against the natural laws of linguistic growth. The common man, he pointed out, used both Persian and Sanskrit words without any qualms; 
  41. Afroz Taj (1997)۔ "About Hindi-Urdu" (بزبان انگریزی)۔ The University of North Carolina at Chapel Hill۔ 15 اگست 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جون 2019 
  42. "Two Languages or One?"۔ hindiurduflagship.org۔ 11 مارچ 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 مارچ 2015۔ Hindi and Urdu developed from the "khari boli" dialect spoken in the Delhi region of northern India. 
  43. M. Farooqi (2012)۔ Urdu Literary Culture: Vernacular Modernity in the Writing of Muhammad Hasan Askari (بزبان انگریزی)۔ Springer۔ ISBN 978-1-137-02692-7۔ Historically speaking, Urdu grew out of interaction between Hindus and Muslims. He noted that Urdu is not the language of Muslims alone, although Muslims may have played a larger role in making it a literary language. Hindu poets and writers could and did bring specifically Hindu cultural elements into Urdu and these were accepted. 
  44. Christopher Rolland King (1999)۔ One Language, Two Scripts: The Hindi Movement in Nineteenth Century North India (بزبان انگریزی)۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 67۔ ISBN 978-0-19-565112-6۔ Educated Muslims, for the most part supporters of Urdu, rejected the Hindu linguistic heritage and emphasized the joint Hindu-Muslim origins of Urdu. 
  45. Insup Taylor، David R. Olson (1995)۔ Scripts and Literacy: Reading and Learning to Read Alphabets, Syllabaries, and Characters (بزبان انگریزی)۔ Springer Science & Business Media۔ صفحہ: 299۔ ISBN 978-0-7923-2912-1۔ Urdu emerged as the language of contact between Hindu inhabitants and Muslim invaders to India in the 11th century. 
  46. Venkat Dhulipala (2000)۔ The Politics of Secularism: Medieval Indian Historiography and the Sufis (بزبان انگریزی)۔ University of Wisconsin–Madison۔ صفحہ: 27۔ Persian became the court language, and many Persian words crept into popular usage. The composite culture of northern India, known as the Ganga Jamuni tehzeeb was a product of the interaction between Hindu society and Islam. 
  47. Indian Journal of Social Work, Volume 4 (بزبان انگریزی)۔ Tata Institute of Social Sciences۔ 1943۔ صفحہ: 264۔ ... more words of Sanskrit origin but 75% of the vocabulary is common. It is also admitted that while this language is known as Hindustani, ... Muslims call it Urdu and the Hindus call it Hindi. ... Urdu is a national language that evolved through years of Hindu and Muslim cultural contact and, as stated by Pandit Jawaharlal Nehru, is essentially an Indian language and has no place outside. 
  48. "Women of the Indian Sub-Continent: Makings of a Culture - Rekhta Foundation" (بزبان انگریزی)۔ Google Arts & Culture۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 فروری 2020۔ The "Ganga-Jamuni tehzeeb" is one such instance of the composite culture that marks various regions of the country. Prevalent in the North, particularly in the central plains, it is born of the union between the Hindu and Muslim cultures. Most of the temples were lined along the Ganges and the Khanqah (Sufi school of thought) were situated along the Yamuna river (also called Jamuna). Thus, it came to be known as the Ganga-Jamuni tehzeeb, with the word "tehzeeb" meaning culture. More than communal harmony, its most beautiful by-product was "Hindustani" which later gave us the Hindi and Urdu languages. 
  49. Zahur-ud-Din (1985)۔ Development of Urdu Language and Literature in the Jammu Region (بزبان انگریزی)۔ Gulshan Publishers۔ صفحہ: 13۔ The beginning of the language, now known as Urdu, should therefore, be placed in this period of the earlier Hindu Muslim contact in the Sindh and Punjab areas that took place in early quarter of the 8th century A.D. 
  50. Danesh Jain، George Cardona (2007)۔ The Indo-Aryan Languages (بزبان انگریزی)۔ Routledge۔ ISBN 978-1-135-79711-9۔ The primary sources of non-IA loans into MSH are Arabic, Persian, Portuguese, Turkic and English. Conversational registers of Hindi/Urdu (not to mentioned formal registers of Urdu) employ large numbers of Persian and Arabic loanwords, although in Sanskritised registers many of these words are replaced by tatsama forms from Sanskrit. The Persian and Arabic lexical elements in Hindi result from the effects of centuries of Islamic administrative rule over much of north India in the centuries before the establishment of British rule in India. Although it is conventional to differentiate among Persian and Arabic loan elements into Hindi/Urdu, in practice it is often difficult to separate these strands from one another. The Arabic (and also Turkic) lexemes borrowed into Hindi frequently were mediated through Persian, as a result of which a thorough intertwining of Persian and Arabic elements took place, as manifest by such phenomena as hybrid compounds and compound words. Moreover, although the dominant trajectory of lexical borrowing was from Arabic into Persian, and thence into Hindi/Urdu, examples can be found of words that in origin are actually Persian loanwords into both Arabic and Hindi/Urdu. 
  51. B. S. Kesavan (1997)۔ History Of Printing And Publishing in India (بزبان انگریزی)۔ National Book Trust, India۔ صفحہ: 31۔ ISBN 978-81-237-2120-0۔ It might be useful to recall here that Old Hindi or Hindavi, which was a naturally Persian- mixed language in the largest measure, has played this role before, as we have seen, for five or six centuries. 
  52. M. Ashraf Bhat (2017)۔ The Changing Language Roles and Linguistic Identities of the Kashmiri Speech Community (بزبان انگریزی)۔ Cambridge Scholars Publishing۔ صفحہ: 72۔ ISBN 978-1-4438-6260-8۔ Although it has borrowed a large number of lexical items from Persian and some from Turkish, it is a derivative of Hindvi (also called 'early Urdu'), the parent of both modern Hindi and Urdu. It originated as a new, common language of Delhi, which has been called Hindavi or Dahlavi by Amir Khusrau. After the advent of the Mughals on the stage of Indian history, the Hindavi language enjoyed greater space and acceptance. Persian words and phrases came into vogue. The Hindavi of that period was known as Rekhta, or Hindustani, and only later as Urdu. Perfect amity and tolerance between Hindus and Muslims tended to foster Rekhta or Urdu, which represented the principle of unity in diversity, thus marking a feature of Indian life at its best. The ordinary spoken version ('bazaar Urdu') was almost identical to the popularly spoken version of Hindi. Most prominent scholars in India hold the view that Urdu is neither a Muslim nor a Hindu language; it is an outcome of a multicultural and multi-religious encounter. 
  53. Jaroslav Strnad (2013)۔ Morphology and Syntax of Old Hindī: Edition and Analysis of One Hundred Kabīr vānī Poems from Rājasthān (بزبان انگریزی)۔ Brill Academic Publishers۔ ISBN 978-90-04-25489-3۔ Quite different group of nouns occurring with the ending -a in the dir. plural consists of words of Arabic or Persian origin borrowed by the Old Hindi with their Persian plural endings. 
  54. Tariq Rahman (2001)۔ From Hindi to Urdu: A Social and Political History (PDF)۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 1–22۔ ISBN 978-0-19-906313-0۔ 10 اکتوبر 2014 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اکتوبر 2014 
  55. Afroz Taj (1997)۔ "About Hindi-Urdu" (بزبان انگریزی)۔ The University of North Carolina at Chapel Hill۔ 15 اگست 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جون 2019 
  56. "Amīr Khosrow - Indian poet" 
  57. Jaswant Lal Mehta (1980)۔ Advanced Study in the History of Medieval India۔ 1۔ Sterling Publishers Pvt. Ltd۔ صفحہ: 10۔ ISBN 9788120706170 
  58. Shiri Ram Bakshi، Sangh Mittra (2002)۔ Hazart Nizam-Ud-Din Auliya and Hazrat Khwaja Muinuddin Chisti (بزبان انگریزی)۔ Criterion۔ ISBN 9788179380222 
  59. "Urdu language"۔ Encyclopædia Britannica 
  60. Culture and Circulation: Literature in Motion in Early Modern India۔ Brill۔ 2014۔ ISBN 9789004264489 
  61. Abdul Rashid Khan (2001)۔ The All India Muslim Educational Conference: Its Contribution to the Cultural Development of Indian Muslims, 1886-1947 (بزبان انگریزی)۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 152۔ ISBN 978-0-19-579375-8۔ After the conquest of the Deccan, Urdu received the liberal patronage of the courts of Golconda and Bijapur. Consequently, Urdu borrowed words from the local language of Telugu and Marathi as well as from Sanskrit. 
  62. Bhanwarlal Nathuram Luniya (1978)۔ Life and Culture in Medieval India (بزبان انگریزی)۔ Kamal Prakashan۔ صفحہ: 311۔ Under the liberal patronage of the courts of Golconda and Bijapur, Urdu borrowed words from the local languages like Telugu and Marathi as well as from Sanskrit, but its themes were moulded on Persian models. 
  63. Bellary Shamanna Kesavan (1985)۔ History of Printing and Publishing in India: Origins of printing and publishing in the Hindi heartland (بزبان انگریزی)۔ National Book Trust۔ صفحہ: 7۔ ISBN 978-81-237-2120-0۔ The Mohammedans of the Deccan thus called their Hindustani tongue Dakhani (Dakhini), Gujari or Bhaka (Bhakha) which was a symbol of their belonging to Muslim conquering and ruling group in the Deccan and South India where overwhelming number of Hindus spoke Marathi, Kannada, Telugu and Tamil. 
  64. Tariq Rahman (2001)۔ From Hindi to Urdu: A Social and Political History (PDF)۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 1–22۔ ISBN 978-0-19-906313-0۔ 10 اکتوبر 2014 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اکتوبر 2014 
  65. M. Ashraf Bhat (2017)۔ The Changing Language Roles and Linguistic Identities of the Kashmiri Speech Community (بزبان انگریزی)۔ Cambridge Scholars Publishing۔ صفحہ: 72۔ ISBN 978-1-4438-6260-8۔ Although it has borrowed a large number of lexical items from Persian and some from Turkish, it is a derivative of Hindvi (also called 'early Urdu'), the parent of both modern Hindi and Urdu. It originated as a new, common language of Delhi, which has been called Hindavi or Dahlavi by Amir Khusrau. After the advent of the Mughals on the stage of Indian history, the Hindavi language enjoyed greater space and acceptance. Persian words and phrases came into vogue. The Hindavi of that period was known as Rekhta, or Hindustani, and only later as Urdu. Perfect amity and tolerance between Hindus and Muslims tended to foster Rekhta or Urdu, which represented the principle of unity in diversity, thus marking a feature of Indian life at its best. The ordinary spoken version ('bazaar Urdu') was almost identical to the popularly spoken version of Hindi. Most prominent scholars in India hold the view that Urdu is neither a Muslim nor a Hindu language; it is an outcome of a multicultural and multi-religious encounter. 
  66. ^ ا ب استشهاد فارغ (معاونت) 
  67. Mazhar Yusuf (1998)۔ Sind Quarterly:Volume 26, Issues 1-2۔ صفحہ: 36 
  68. Malik, Muhammad Kamran, and Syed Mansoor Sarwar.
  69. First Encyclopaedia of Islam: 1913–1936 (بزبان انگریزی)۔ Brill Academic Publishers۔ 1993۔ صفحہ: 1024۔ ISBN 9789004097964۔ Whilst the Muhammadan rulers of India spoke Persian, which enjoyed the prestige of being their court language, the common language of the country continued to be Hindi, derived through Prakrit from Sanskrit. On this dialect of the common people was grafted the Persian language, which brought a new language, Urdu, into existence. Sir George Grierson, in the Linguistic Survey of India, assigns no distinct place to Urdu, but treats it as an offshoot of Western Hindi. 
  70. Jaroslav Strnad (2013)۔ Morphology and Syntax of Old Hindī: Edition and Analysis of One Hundred Kabīr vānī Poems from Rājasthān (بزبان انگریزی)۔ Brill Academic Publishers۔ ISBN 978-90-04-25489-3۔ Quite different group of nouns occurring with the ending -a in the dir. plural consists of words of Arabic or Persian origin borrowed by the Old Hindi with their Persian plural endings. 
  71. Am.rta Rāya، Amrit Rai، Amr̥tarāya (1984)۔ A House Divided: The Origin and Development of Hindi/Hindavi۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 240۔ ISBN 978-0-19-561643-9 
  72. Michael G. Clyne (1992)۔ Pluricentric Languages: Differing Norms in Different Nations (بزبان انگریزی)۔ Walter de Gruyter۔ صفحہ: 383۔ ISBN 9783110128550 
  73. Rekhta Dictionary (5 April 2022)۔ "Meaning of Urdu"۔ Rekhta dictionary۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اپریل 2022 
  74. Alyssa Ayres (23 July 2009)۔ Speaking Like a State: Language and Nationalism in Pakistan۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 19۔ ISBN 9780521519311 
  75. "Urdu's origin: it's not a 'camp language' - Newspaper - DAWN.COM"۔ 17 May 2023۔ 17 مئی 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  76. Language Problem in India۔ Institute of Objective Studies۔ 1997۔ صفحہ: 138۔ ISBN 9788185220413 
  77. sir Richard Francis Burton, Luis Vaz de Camoens (1881)۔ Camoens: his life and his Lusiads, a commentary: Volume 2۔ Oxford University۔ صفحہ: 573۔ The "Moor" of Camoens, meaning simply "Moslem", was used by a past generation of Anglo-Indians, who called the Urdu or Hindustani dialect "the Moors" 
  78. Henk W. Wagenaar، S. S. Parikh، D. F. Plukker، R. Veldhuijzen van Zanten (1993)۔ Allied Chambers transliterated Hindi-Hindi-English dictionary۔ Allied Publishers۔ ISBN 9788186062104 
  79. John Ovington (1994)۔ A Voyage to Surat in the Year 1689۔ Asian Educational Services۔ صفحہ: 147 
  80. Zahiruddin Malik (1977)۔ The Reign Of Muhammad Shah 1919-1748 
  81. Deutsche Morgenländische Gesellschaft (1969)۔ Zeitschrift der Deutschen Morgenländischen Gesellschaft:Volume 119۔ Kommissionsverlag F. Steiner۔ صفحہ: 267 
  82. استشهاد فارغ (معاونت) 
  83. Tariq Rahman (2001)۔ From Hindi to Urdu: A Social and Political History (PDF)۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 1–22۔ ISBN 978-0-19-906313-0۔ 10 اکتوبر 2014 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اکتوبر 2014 
  84. John Coatsworth (2015)۔ Global Connections: Politics, Exchange, and Social Life in World History۔ United States: Cambridge Univ Pr۔ صفحہ: 159۔ ISBN 9780521761062 
  85. استشهاد فارغ (معاونت) 
  86. Afroz Taj (1997)۔ "About Hindi-Urdu" (بزبان انگریزی)۔ The University of North Carolina at Chapel Hill۔ 15 اگست 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جون 2019 
  87. Richard Delacy، Shahara Ahmed (2005)۔ Hindi, Urdu & Bengali۔ Lonely Planet۔ صفحہ: 11–12۔ Hindi and Urdu are generally considered to be one spoken language with two different literary traditions. That means that Hindi and Urdu speakers who shop in the same markets (and watch the same Bollywood films) have no problems understanding each other -- they'd both say yeh kitne kaa hay for 'How much is it?' -- but the written form for Hindi will be यह कितने का है? and the Urdu one will be یہ کتنے کا ہے؟ Hindi is written from left to right in the Devanagari script, and is the official language of India, along with English. Urdu, on the other hand, is written from right to left in the Nastaliq script (a modified form of the Arabic script) and is the national language of Pakistan. It's also one of the official languages of the Indian states of Bihar and Jammu & Kashmir. Considered as one, these tongues constitute the second most spoken language in the world, sometimes called Hindustani. In their daily lives, Hindi and Urdu speakers communicate in their 'different' languages without major problems. ... Both Hindi and Urdu developed from Classical Sanskrit, which appeared in the Indus Valley (modern Pakistan and northwest India) at about the start of the Common Era. The first old Hindi (or Apabhransha) poetry was written in the year 769 AD, and by the European Middle Ages it became known as 'Hindvi'. Muslim Turks invaded the Punjab in 1027 and took control of Delhi in 1193. They paved the way for the Islamic Mughal Empire, which ruled northern India from the 16th century until it was defeated by the British Raj in the mid-19th century. It was at this time that the language of this book began to take form, a mixture of Hindvi grammar with Arabic, Persian and Turkish vocabulary. The Muslim speakers of Hindvi began to write in the Arabic script, creating Urdu, while the Hindu population incorporated the new words but continued to write in Devanagari script. 
  88. P. M. Holt، Ann K. S. Lambton، Bernard Lewis، مدیران (1977)۔ The Cambridge History of Islam۔ Cambridge: Cambridge University Press۔ صفحہ: 723۔ ISBN 0-521-29138-0 
  89. Sanjay Subrahmanyam (2017)۔ Europe's India: Words, People, Empires, 1500–1800۔ Harvard University Press۔ ISBN 9780674977556 
  90. Christine Everaert (2010)۔ Tracing the Boundaries Between Hindi and Urdu۔ ISBN 978-9004177314 
  91. Siddheshwar Varma (1973)۔ G. A. Grierson's Linguistic Survey of India 
  92. Abdul Jamil Khan (2006)۔ Urdu/Hindi: An Artificial Divide: African Heritage, Mesopotamian Root۔ ISBN 9780875864372 
  93. David Prochaska, Edmund Burke III (July 2008)۔ Genealogies of Orientalism: History, Theory, Politics۔ Nebraska Paperback 
  94. استشهاد فارغ (معاونت) 
  95. ^ ا ب پ John Hutchinson، Anthony D. Smith (2000)۔ Nationalism: Critical Concepts in Political Science (بزبان انگریزی)۔ Taylor & Francis۔ ISBN 978-0-415-20112-4۔ In the nineteenth century in north India, before the extension of the British system of government schools, Urdu was not used in its written form as a medium of instruction in traditional Islamic schools, where Muslim children were taught Persian and Arabic, the traditional languages of Islam and Muslim culture. It was only when the Muslim elites of north India and the British decided that Muslims were backward in education in relation to Hindus and should be encouraged to attend government schools that it was felt necessary to offer Urdu in the Persian-Arabic script as an inducement to Muslims to attend the schools. And it was only after the Hindi-Urdu controversy developed that Urdu, once disdained by Muslim elites in north India and not even taught in the Muslim religious schools in the early nineteenth century, became a symbol of Muslim identity second to Islam itself. A second point revealed by the Hindi-Urdu controversy in north India is how symbols may be used to separate peoples who, in fact, share aspects of culture. It is well known that ordinary Muslims and Hindus alike spoke the same language in the United Provinces in the nineteenth century, namely Hindustani, whether called by that name or whether called Hindi, Urdu, or one of the regional dialects such as Braj or Awadhi. Although a variety of styles of Hindi-Urdu were in use in the nineteenth century among different social classes and status groups, the legal and administrative elites in courts and government offices, Hindus and Muslims alike, used Urdu in the Persian-Arabic script. 
  96. Sachchidananda Sinha (1911)۔ The Hindustan Review: Volume 23۔ University of Wisconsin- Madison۔ صفحہ: 243 
  97. Richard Delacy، Shahara Ahmed (2005)۔ Hindi, Urdu & Bengali۔ Lonely Planet۔ صفحہ: 11–12۔ Hindi and Urdu are generally considered to be one spoken language with two different literary traditions. That means that Hindi and Urdu speakers who shop in the same markets (and watch the same Bollywood films) have no problems understanding each other -- they'd both say yeh kitne kaa hay for 'How much is it?' -- but the written form for Hindi will be यह कितने का है? and the Urdu one will be یہ کتنے کا ہے؟ Hindi is written from left to right in the Devanagari script, and is the official language of India, along with English. Urdu, on the other hand, is written from right to left in the Nastaliq script (a modified form of the Arabic script) and is the national language of Pakistan. It's also one of the official languages of the Indian states of Bihar and Jammu & Kashmir. Considered as one, these tongues constitute the second most spoken language in the world, sometimes called Hindustani. In their daily lives, Hindi and Urdu speakers communicate in their 'different' languages without major problems. ... Both Hindi and Urdu developed from Classical Sanskrit, which appeared in the Indus Valley (modern Pakistan and northwest India) at about the start of the Common Era. The first old Hindi (or Apabhransha) poetry was written in the year 769 AD, and by the European Middle Ages it became known as 'Hindvi'. Muslim Turks invaded the Punjab in 1027 and took control of Delhi in 1193. They paved the way for the Islamic Mughal Empire, which ruled northern India from the 16th century until it was defeated by the British Raj in the mid-19th century. It was at this time that the language of this book began to take form, a mixture of Hindvi grammar with Arabic, Persian and Turkish vocabulary. The Muslim speakers of Hindvi began to write in the Arabic script, creating Urdu, while the Hindu population incorporated the new words but continued to write in Devanagari script. 
  98. استشهاد فارغ (معاونت)  in Pollock (2003)
  99. استشهاد فارغ (معاونت) 
  100. Syed Ameer Ali (1989)۔ The Right Hon'ble Syed Ameer Ali: Political Writings (بزبان انگریزی)۔ APH Publishing۔ صفحہ: 33۔ ISBN 978-81-7024-247-5 
  101. ^ ا ب Michael Clyne (24 May 2012)۔ Pluricentric Languages: Differing Norms in Different Nations (بزبان انگریزی)۔ Walter de Gruyter۔ ISBN 978-3-11-088814-0 
  102. Christopher Rolland King (1999)۔ One Language, Two Scripts: The Hindi Movement in Nineteenth Century North India (بزبان انگریزی)۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 78۔ ISBN 978-0-19-565112-6۔ British language policy both resulted from and contributed to the larger political processes which eventually led to the partition of British India into India and Pakistan, an outcome almost exactly paralleled by the linguistic partition of the Hindi-Urdu continuum into highly Sanskritized Hindi and highly Persianized Urdu. 
  103. Irfan Ahmad (20 November 2017)۔ Religion as Critique: Islamic Critical Thinking from Mecca to the Marketplace (بزبان انگریزی)۔ UNC Press Books۔ ISBN 978-1-4696-3510-1۔ There have been and are many great Hindu poets who wrote in Urdu. And they learned Hinduism by readings its religious texts in Urdu. Gulzar Dehlvi—who nonliterary name is Anand Mohan Zutshi (b. 1926)—is one among many examples. 
  104. Aijazuddin Ahmad (2009)۔ Geography of the South Asian Subcontinent: A Critical Approach (بزبان انگریزی)۔ Concept Publishing Company۔ صفحہ: 119۔ ISBN 978-81-8069-568-1 
  105. Rahman Tariq۔ Urdu in Hyderabad State (PDF)۔ The Annual of Urdu Studies 
  106. Ali Raj (30 April 2017)۔ "The case for Urdu as Pakistan's official language"۔ Herald Magazine (بزبان انگریزی)۔ 28 اکتوبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 دسمبر 2019 
  107. Walter Hakala (2012)۔ "Languages as a Key to Understanding Afghanistan's Cultures" (PDF)۔ Afghanistan: Multidisciplinary Perspectives 
  108. لوا خطا ماڈیول:Citation/CS1 میں 828 سطر پر: Argument map not defined for this variable: NameListStyle۔
  109. Rajeshwari Krishnamurthy (28 June 2013)۔ "Kabul Diary: Discovering the Indian connection" (بزبان انگریزی)۔ Gateway House: Indian Council on Global Relations۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مارچ 2018۔ Most Afghans in Kabul understand and/or speak Hindi, thanks to the popularity of Indian cinema in the country. 
  110. "Who Can Be Pakistani?"۔ thediplomat.com (بزبان انگریزی)۔ 28 اکتوبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اکتوبر 2019 
  111. R. Vanita (2012)۔ Gender, Sex, and the City: Urdu Rekhti Poetry in India, 1780-1870 (بزبان انگریزی)۔ Springer۔ ISBN 978-1-137-01656-0۔ Desexualizing campaigns dovetailed with the attempt to purge Urdu of Sanskrit and Prakrit words at the same time as Hindi literateurs tried to purge Hindi of Persian and Arabic words. The late-nineteenth century politics of Urdu and Hindi, later exacerbated by those of India and Pakistan, had the unfortunate result of certain poets being excised from the canon. 
  112. Laetitia Zecchini (31 July 2014)۔ Arun Kolatkar and Literary Modernism in India: Moving Lines (بزبان انگریزی)۔ A&C Black۔ ISBN 9781623565589 
  113. استشهاد فارغ (معاونت) 
  114. Bruce, Gregory Maxwell. "2 The Arabic Element".
  115. C. Shackle (1990)۔ Hindi and Urdu Since 1800: A Common Reader (بزبان انگریزی)۔ Heritage Publishers۔ ISBN 9788170261629 
  116. A History of Indian Literature: Struggle for freedom: triumph and tragedy, 1911–1956 (بزبان انگریزی)۔ Sahitya Akademi۔ 1991۔ ISBN 9788179017982 
  117. Braj Kachru (2015)۔ Collected Works of Braj B. Kachru: Volume 3 (بزبان انگریزی)۔ Bloomsbury Publishing۔ ISBN 978-1-4411-3713-5۔ The style of Urdu, even in Pakistan, is changing from "high" Urdu to colloquial Urdu (more like Hindustani, which would have pleased M.K. Gandhi). 
  118. Harry S. Ashmore (1961)۔ Encyclopaedia Britannica: a new survey of universal knowledge, Volume 11 (بزبان انگریزی)۔ Encyclopædia Britannica۔ صفحہ: 579۔ The everyday speech of well over 50,000,000 persons of all communities in the north of India and in West Pakistan is the expression of a common language, Hindustani. 
  119. ^ ا ب Oh Calcutta, Volume 6۔ 1977۔ صفحہ: 15۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اگست 2021۔ It is generally admitted that Urdu is a dying language. What is not generally admitted is that it is a dying National language. What used to be called Hindustani, the spoken language of the largest number of Indians, contains more elements of Urdu than Sanskrit academics tolerate, but it is still the language of the people. 
  120. "Urdu Is Alive and Moving Ahead With Times: Gulzar" (بزبان انگریزی)۔ Outlook۔ 13 February 2006۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 ستمبر 2021 
  121. Gulzar (11 June 2006)۔ "Urdu is not dying: Gulzar" (بزبان انگریزی)۔ The Hindustan Times 
  122. Shoaib Daniyal (1 June 2016)۔ "The death of Urdu in India is greatly exaggerated – the language is actually thriving" (بزبان انگریزی)۔ Scroll.in۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 ستمبر 2021 
  123. ^ ا ب Ali Husain Mir، Raza Mir (2006)۔ Anthems of Resistance: A Celebration of Progressive Urdu Poetry۔ New Delhi: Roli Books Private Limited۔ صفحہ: 118۔ ISBN 9789351940654۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اگست 2021۔ Phrases like 'dying language' are often used to describe the condition of Urdu in India and indicators like 'the number of Urdu-medium schools' present a litany of bad news with respect to the present conditions and future of the language. 
  124. ^ ا ب Journal of the Faculty of Arts, Volume 2۔ Aligarh Muslim University۔ 1996۔ صفحہ: 42۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اگست 2021۔ Arvind Kala is not much off the mark when he says 'Urdu is a dying language (in India), but it is Hindi movie dialogues which have heightened appreciation of Urdu in India. Thanks to Hindi films, knowledge of Urdu is seen as a sign of sophistication among the cognoscent of the North.' 
  125. ^ ا ب پ ت ٹ ث Khushwant Singh (2011)۔ Celebrating the Best of Urdu Poetry۔ Penguin UK۔ صفحہ: 9–10۔ ISBN 9789386057334۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اگست 2021 
  126. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ Hanan Irfan (15 July 2021)۔ "The Burden of Urdu Must Be Shared"۔ LiveWire۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اگست 2021 
  127. ^ ا ب پ ت Shoaib Daniyal (4 July 2018)۔ "Surging Hindi, shrinking South Indian languages: Nine charts that explain the 2011 language census"۔ Scroll.in۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اگست 2021 
  128. ^ ا ب پ ت ٹ John Willoughby & Zehra Aftab (2020)۔ "The Fall of Urdu and the Triumph of English in Pakistan: A Political Economic Analysis" (PDF)۔ PIDE Working Papers۔ Pakistan Institute of Development Economics۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اگست 2021 
  129. ^ ا ب پ Paul R. Brass (2005)۔ Language, Religion and Politics in North India۔ Cambridge: Cambridge University Press۔ صفحہ: 136۔ ISBN 9780595343942۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اگست 2021۔ The third force leading to the divergence between Hindi and Urdu was the parallel and associated development of Hindu and Muslim revivalisms and communal antagonism, which had the consequence for the Hindi–Urdu conflict of reinforcing the tendency to identify Urdu as the language of Muslims and Hindi as the language of Hindus. Although objectively this is not entirely true even today, it is undeniable historical tendency has been in this direction. (...) Many Hindus also continue to write in Urdu, both in literature and in the mass media. However, Hindu writers in Urdu are a dying generation and Hindi and Urdu have increasingly become subjectively separate languagues identified with different religious communities. 
  130. Christine Everaert (2010)۔ Tracing the Boundaries Between Hindi and Urdu: Lost and Added in Translation Between 20th Century Short Stories۔ Leiden: Brill۔ صفحہ: 77–79۔ ISBN 9789004177314۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اگست 2021 
  131. ^ ا ب پ ت ٹ John Willoughby & Zehra Aftab (2020)۔ "The Fall of Urdu and the Triumph of English in Pakistan: A Political Economic Analysis" (PDF)۔ PIDE Working Papers۔ Pakistan Institute of Development Economics۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اگست 2021 
  132. "Statement – 1: Abstract of speakers' strength of languages and mother tongues – 2001"۔ Government of India۔ 2001۔ 04 اپریل 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اکتوبر 2016 
  133. ORGI۔ "Census of India: Comparative speaker's strength of Scheduled Languages-1951, 1961, 1971, 1981, 1991 ,2001 and 2011" (PDF) 
  134. "Government of Pakistan: Population by Mother Tongue" (PDF)۔ Pakistan Bureau of Statistics۔ 10 اکتوبر 2014 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ 
  135. "Hindustani"۔ Columbia University press۔ encyclopedia.com۔ 29 جولا‎ئی 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  136. e.g.
  137. Ruth Laila Schmidt (8 December 2005)۔ Urdu: An Essential Grammar (بزبان انگریزی)۔ Routledge۔ ISBN 978-1-134-71319-6۔ Historically, Urdu developed from the sub-regional language of the Delhi area, which became a literary language in the eighteenth century. Two quite similar standard forms of the language developed in Delhi, and in Lucknow in modern Uttar Pradesh. Since 1947, a third form, Karachi standard Urdu, has evolved. 
  138. Abdul Rashid Khan (2001)۔ The All India Muslim Educational Conference: Its Contribution to the Cultural Development of Indian Muslims, 1886-1947 (بزبان انگریزی)۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 152۔ ISBN 978-0-19-579375-8۔ After the conquest of the Deccan, Urdu received the liberal patronage of the courts of Golconda and Bijapur. Consequently, Urdu borrowed words from the local language of Telugu and Marathi as well as from Sanskrit. 
  139. Jan Gube، Fang Gao (2019)۔ Education, Ethnicity and Equity in the Multilingual Asian Context (بزبان انگریزی)۔ Springer Publishing۔ ISBN 978-981-13-3125-1۔ The national language of India and Pakistan 'Standard Urdu' is mutually intelligible with 'Standard Hindi' because both languages share the same Indic base and are all but indistinguishable in phonology. 
  140. "PAKISTAN"۔ Official U.S. Marine Corps۔ 31 جنوری 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2022 
  141. The World Factbook (بزبان انگریزی)۔ Central Intelligence Agency۔ 1992۔ صفحہ: 264 
  142. "Who Can Be Pakistani?"۔ thediplomat.com (بزبان انگریزی)۔ 28 اکتوبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اکتوبر 2019 
  143. M. Rieker، K. Ali (26 May 2008)۔ Gendering Urban Space in the Middle East, South Asia, and Africa (بزبان انگریزی)۔ Springer۔ ISBN 978-0-230-61247-1 
  144. استشهاد فارغ (معاونت) 
  145. Nikky-Guninder Kaur Singh (30 November 2012)۔ Of Sacred and Secular Desire: An Anthology of Lyrical Writings from the Punjab (بزبان انگریزی)۔ Bloomsbury Publishing۔ ISBN 978-0-85772-139-6 
  146. "Why Punjabis in Pakistan Have Abandoned Punjabi"۔ Fair Observer۔ 14 July 2020 
  147. "EDUCATION SYSTEM PROFILES Education in Pakistan"۔ World Education Services۔ 25 February 2020۔ English has been the main language of instruction at the elementary and secondary levels since colonial times. It remains the predominant language of instruction in private schools but has been increasingly replaced with Urdu in public schools. Punjab province, for example, recently announced that it will begin to use Urdu as the exclusive medium of instruction in schools beginning in 2020. Depending on the location and predominantly in rural areas, regional languages are used as well, particularly in elementary education. The language of instruction in higher education is mostly English, but some programs and institutions teach in Urdu. 
  148. Aijazuddin Ahmad (2009)۔ Geography of the South Asian Subcontinent: A Critical Approach (بزبان انگریزی)۔ Concept Publishing Company۔ ISBN 978-81-8069-568-1 
  149. Hans Henrich Hock، Elena Bashir (24 May 2016)۔ The Languages and Linguistics of South Asia: A Comprehensive Guide (بزبان انگریزی)۔ Walter de Gruyter GmbH & Co KG۔ ISBN 978-3-11-042330-3 
  150. Ali Raj (30 April 2017)۔ "The case for Urdu as Pakistan's official language"۔ Herald Magazine (بزبان انگریزی)۔ 28 اکتوبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اکتوبر 2019 
  151. "National Languages Policy Recommendation Commission" (PDF)۔ MOE Nepal۔ 1994۔ صفحہ: Appendix one۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مارچ 2021 
  152. "Urdu"Error in Webarchive template: Empty url..
  153. استشهاد فارغ (معاونت) 
  154. "Is Urdu losing its charm in Bollywood films?"۔ Deccan Herald (بزبان انگریزی)۔ 27 February 2021۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مئی 2023 
  155. Jayson Beaster-Jones (9 October 2014)۔ Bollywood Sounds: The Cosmopolitan Mediations of Hindi Film Song (بزبان انگریزی)۔ Oxford University Press۔ ISBN 978-0-19-999348-2 
  156. "Urdu newspapers: growing, not dying"۔ asu.thehoot.org۔ 26 فروری 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 ستمبر 2020 
  157. استشهاد فارغ (معاونت) 
  158. "Highest Circulated amongst ABC Member Publications Jan - Jun 2017" (PDF)۔ Audit Bureau of Circulations۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 ستمبر 2020 
  159. "Most Pakistanis and Urdu speakers live in this Australian state"۔ SBS Your Language (بزبان انگریزی)۔ sbs.com.au 
  160. "Árabe y urdu aparecen entre las lenguas habituales de Catalunya, creando peligro de guetos"۔ Europapress.es۔ 29 June 2009۔ 18 جنوری 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 دسمبر 2011 
  161. SC orders immediate implementation of Urdu as official language | Pakistan | Dunya News
  162. Ali Raj (30 April 2017)۔ "The case for Urdu as Pakistan's official language"۔ Herald Magazine (بزبان انگریزی)۔ 28 اکتوبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 دسمبر 2019 
  163. "Government of Pakistan: Population by Mother Tongue" (PDF)۔ Pakistan Bureau of Statistics۔ 17 فروری 2006 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ 
  164. In the lower courts in Pakistan, despite the proceedings taking place in Urdu, the documents are in English, whereas in the higher courts, i.e. the High Courts and the Supreme Court, both documents and proceedings are in English.
  165. Tariq Rahman (2010)۔ Language Policy, Identity and Religion (PDF)۔ Islamabad: Quaid-i-Azam University۔ صفحہ: 59۔ 21 اکتوبر 2014 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اکتوبر 2014 
  166. Faqir Hussain (14 July 2015)۔ "Language change"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 دسمبر 2019 
  167. Akhtarul Wasey (16 July 2014)۔ "50th Report of the Commissioner for Linguistic Minorities in India (July 2012 to June 2013)" (PDF)۔ 08 جولا‎ئی 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اکتوبر 2016 
  168. لوا خطا ماڈیول:Citation/CS1 میں 828 سطر پر: Argument map not defined for this variable: NameListStyle۔
  169. Devika Paliwal (24 September 2020)۔ "Parliament Nod to Bill for Declaration of 5 Official Languages for J&K"۔ Law Times Journal۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جون 2022 
  170. ^ ا ب Michael Clyne (24 May 2012)۔ Pluricentric Languages: Differing Norms in Different Nations (بزبان انگریزی)۔ Walter de Gruyter۔ صفحہ: 395۔ ISBN 978-3-11-088814-0 
  171. Christine Everaert (2010)۔ Tracing the Boundaries Between Hindi and Urdu: Lost and Added in Translation Between 20th Century Short Stories (بزبان انگریزی)۔ BRILL۔ صفحہ: 225۔ ISBN 978-90-04-17731-4 
  172. "The Constitution of Jammu and Kashmir" (PDF)۔ 07 مئی 2012 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ 
  173. "Hindi and Urdu are classified as literary registers of the same language"۔ 02 جون 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  174. Rakesh Peter-Dass (2019)۔ Hindi Christian Literature in Contemporary India (بزبان انگریزی)۔ Routledge۔ ISBN 978-1-00-070224-8۔ Two forms of the same language, Nagarai Hindi and Persianized Hindi (Urdu) had identical grammar, shared common words and roots, and employed different scripts. 
  175. Manisha Basu (2017)۔ The Rhetoric of Hindutva۔ Cambridge University Press۔ ISBN 9781107149878۔ Urdu, like Hindi, was a standardized register of the Hindustani language deriving from the Dehlavi dialect and emerged in the eighteenth century under the rule of the late Mughals. 
  176. Jan Gube، Fang Gao (2019)۔ Education, Ethnicity and Equity in the Multilingual Asian Context (بزبان انگریزی)۔ Springer Publishing۔ ISBN 978-981-13-3125-1۔ The national language of India and Pakistan 'Standard Urdu' is mutually intelligible with 'Standard Hindi' because both languages share the same Indic base and are all but indistinguishable in phonology. 
  177. Kathleen Kuiper (2010)۔ The Culture of India (بزبان انگریزی)۔ Rosen Publishing۔ ISBN 978-1-61530-149-2۔ Urdu is closely related to Hindi, a language that originated and developed in the Indian subcontinent. They share the same Indic base and are so similar in phonology and grammar that they appear to be one language. 
  178. "Bringing Order to Linguistic Diversity: Language Planning in the British Raj"۔ Language in India۔ 26 مئی 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مئی 2008 
  179. "A Brief Hindi – Urdu FAQ"۔ sikmirza۔ 02 دسمبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مئی 2008 
  180. "Hindi/Urdu Language Instruction"۔ University of California, Davis۔ 03 جنوری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 جنوری 2015 
  181. سانچہ:E25
  182. "Urdu and its Contribution to Secular Values"۔ South Asian Voice۔ 11 نومبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 فروری 2008 
  183. The Annual of Urdu studies, number 11, 1996, "Some notes on Hindi and Urdu", pp. 203–208.
  184. Christine Everaert (2010)۔ Tracing the Boundaries Between Hindi and Urdu: Lost and Added in Translation Between 20th Century Short Stories (بزبان انگریزی)۔ BRILL۔ صفحہ: 225۔ ISBN 978-90-04-17731-4 
  185. "Is Urdu losing its charm in Bollywood films?"۔ Deccan Herald (بزبان انگریزی)۔ 27 February 2021۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مئی 2023 
  186. استشهاد فارغ (معاونت) 
  187. ، Banāras  مفقود أو فارغ |title= (معاونت)
  188. Michael C. Shapiro، Harold F. Schiffman (2019)۔ Language and Society in South Asia (بزبان انگریزی)۔ Walter de Gruyter GmbH & Co KG۔ صفحہ: 53۔ ISBN 978-3-11-085763-4 
  189. Michael Clyne (24 May 2012)۔ Pluricentric Languages: Differing Norms in Different Nations (بزبان انگریزی)۔ Walter de Gruyter۔ صفحہ: 391۔ ISBN 978-3-11-088814-0 
  190. "A Brief Hindi – Urdu FAQ"۔ sikmirza۔ 02 دسمبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مئی 2008 
  191. "South Asia :: India – The World Factbook – Central Intelligence Agency"۔ www.cia.gov۔ 11 جون 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اکتوبر 2019 
  192. "Urdu | Ethnologue Free"۔ Ethnologue (Free All) (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مارچ 2023 
  193. "Urdu | Ethnologue Free"۔ Ethnologue (Free All) (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مارچ 2023 
  194. "South Asia :: Pakistan – The World Factbook – Central Intelligence Agency"۔ www.cia.gov۔ 24 مئی 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اکتوبر 2019 
  195. Carl Skutsch (7 November 2013)۔ Encyclopedia of the World's Minorities۔ Taylor & Francis۔ صفحہ: 2234–۔ ISBN 978-1-135-19395-9 
  196. "Pakistan: population by language 2017"۔ Statista (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مارچ 2023 
  197. "Middle East :: Saudi Arabia – The World Factbook – Central Intelligence Agency"۔ www.cia.gov۔ 08 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 نومبر 2019 
  198. "Urdu | Ethnologue Free"۔ Ethnologue (Free All) (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مارچ 2023 
  199. "South Asia :: Nepal – The World Factbook – Central Intelligence Agency"۔ www.cia.gov۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اکتوبر 2019 
  200. "Nepal Census" (PDF) 
  201. "Afghanistan | Ethnologue Free"۔ Ethnologue (Free All) (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مارچ 2023 
  202. "Afghanistan | Ethnologue Free"۔ Ethnologue (Free All) (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مارچ 2023 
  203. "South Asia :: Bangladesh – The World Factbook – Central Intelligence Agency"۔ www.cia.gov۔ 29 دسمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 نومبر 2019 
  204. "Bangladesh: Urdu-Speaking 'Biharis' Seek Recognition, Respect and Rights" (بزبان انگریزی)۔ International Republican Institute۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 ستمبر 2022 
  205. "Europe :: United Kingdom – The World Factbook – Central Intelligence Agency"۔ www.cia.gov۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 نومبر 2019 
  206. "North America :: United States – The World Factbook – Central Intelligence Agency"۔ www.cia.gov۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 نومبر 2019 
  207. "Detailed Languages Spoken at Home and Ability to Speak English for the Population 5 Years and Over for United States: 2009-2013" 
  208. "North America :: Canada – The World Factbook – Central Intelligence Agency"۔ www.cia.gov۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 نومبر 2019 
  209. "Linguistic diversity and multilingualism in Canadian homes"۔ Statistics Canada۔ 2 August 2017