مندرجات کا رخ کریں

ام حبیبہ رملہ بنت ابوسفیان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ام حبیبہ رملہ بنت ابوسفیان
(عربی میں: رملة بنت أبي سفيان ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 594ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 665ء (70–71 سال)[2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن جنت البقیع   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شریک حیات محمد بن عبداللہ (628–632)[3]
عبید اللہ بن جحش [3]  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد حبیبہ بنت ام حبیبہ   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد ابو سفیان بن حرب [3]  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ صفیہ بنت ابی العاص   ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
مؤمنین کی والدہ
ام المؤمنین
امہات المؤمنین - (ازواج مطہرات)

امہات المومنین

ام المومنین رملہ بنت ابو سفیان (عربی: رملة بنت أبي سفيان) حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ تھیں۔ آپ کی کنیت "ام حبیبہ" تھی۔ اہل سنت والجماعت کا یہ ماننا ہے کہ حضرات صحابہ اور صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منسوب تمام ایسے واقعات جو ان کی اعلی و ارفع حیثیت و مقام کے خلاف ہیں ۔الواقدی، محمد بن سائب کلبی، سیف بن عمر تمیمی جیسے کذاب اور وضاع اشخاص نے بیان کیے ہیں اور ان حضرات پر علما اسما الرجال کی طرف سے مستند کتابوں میں سخت جرح بھی موجود ہے اور ان باطل قسم کے واقعات تمام صحابہ کی توثیق و عدالت پر بالکل بھی اثرانداز نہیں ہو سکتے۔تمام صحابہ اور صحابیات کے جنتی ہونے پر اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے جو قرآن اور تمام صحیح اور مستند احادیث سے ثابت شدہ ہے جن کے راوی اہل سنت والجماعت میں عادل اور ثقہ تصور کیے جاتے ہیں۔

ابتدائی زندگی

آپ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہن اور عرب قبیلہ قریش کے سردار ابو سفیان بن حرب اور صفیہ بنت ابو العاص کی بیٹی تھیں۔ آپ حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ کی خالہ زاد بہن تھیں۔ آپ کی ایک اور بہن کا نام بھی رملہ ہی تھا۔

عبید اللہ بن جحش سے شادی

ان کی پہلی شادی عبید اللہ بن جحش سے ہوئی تھی۔ وہ زینب بنت جحش کے بھائی تھے۔ جن سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نکاح کیا تھا۔ آپ اپنے شوہر عبید اللہ کے ساتھ ہجرت کر کے حبشہ (ایتھوپیا) چلی گئی تھیں۔ آپ کے شوہر اسلام سے مرتد ہو کر مسیحی ہو گئے اور انھوں نے آپ کو بھی مرتد ہونے کا کہا لیکن آپ نے انکار کر دیا۔ اسی وجہ سے ان میں علیحدگی ہو گئی۔ اس کے بعد اپنے سابقہ شوہر کی وفات تک وہ اپنی بیٹی حبیبہ کے ساتھ حبشہ میں ہی رہیں۔

شادی

جب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان حالات کا پتہ چلا تو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نجاشی کو لکھا کہ وہ ان کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے پیام دے۔ ام حبیبہ نے منظوری دے دی تو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے خالد بن سعید بن العاص نے ایجاب و قبول کیا اور نجاشی نے خود 400 اشرفی مہر ادا کر دیا اس طرح ( 627ء ) میں آپ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نکاح میں آ گئیں نکاح کے بعد حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا جہاز میں بیٹھ کر روانہ ہوئیں اور مدینہ کی بندرگاہ میں اُتریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت خیبر میں تشریف رکھتے تھے، یہ سنہ یا سنہ کا واقعہ ہے۔ [4] اس وقت اُم حبیبیہ رضی اللہ عنہا کی عمر 36 ،37/سال کی تھی۔۔ آپ اور حضرت خدیجہ کے علاوہ بقیہ تمام ازواج کا حق مہر 400 درہم تھا۔

بعض روایات کے مطابق حضرت رملہ نے ہجرت کے ایک سال بعد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شادی کی۔ بعض روایات کے مطابق شادی کے وقت آپ کی عمر تیس برس کی تھی۔

حضرت رملہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عزت کا بہت زیادہ خیال کرتی تھیں۔ ایک دفعہ آپ کے والد ابوسفیان آپ سے ملنے آتے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چادر پر بیٹھنے لگے تو آپ نے فورا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چادر اٹھا کر اپنے والد ابوسفیان سے کہا کہ آپ اس چادر پر نہیں بیٹھ سکتے کیونکہ آپ نجس ہیں۔ اس وقت تک ابو سفیان مشرف بہ اسلام نہ ہوئے تھے۔

اولاد

پہلے شوہر سے آپ کے ایک لڑکا عبد اللہ اور ایک لڑکی حبیبہ تھی۔ اسی بیٹی حبیبہ کی وجہ سے آپ کی کنیت ام حبیبہ پڑ گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔

وفات

حضرت رملہ خلافت امویہ میں اپنے بھائی امیر معاویہ کے دورِ خلافت میں 45ھ ( 665ء ) میں وفات پا گئیں اور آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ اس وقت 73/برس کا سن تھا۔ قبر کے متعلق اس قدر معلوم ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مکان میں تھی (حضرت علی بن حسین ) سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ میں نے مکان کا ایک گوشہ کھدوایا تو ایک کتبہ برآمد ہوا کہ یہ رملہ بنت صخر کی قبر ہے؛ چنانچہ اس کو میں نے اسی جگہ رکھ دیا۔ [5] وفات کے قریب حضرت اُم حبیبیہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کو اپنے پاس بلایا اور کہا (کہ سوکنوں میں باہم جو کچھ ہوتا ہے وہ ہم لوگوں میں بھی کبھی ہو جایا کرتا تھا، اس لیے مجھ کو معاف کر دو، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے معاف کر دیا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی) تو بولیں، تم نے مجھ کو خوش کیا، خدا تم کو خوش کرے۔ [6]

حلیہ

خوبصورت تھیں، صحیح مسلم میں خود ابوسفیان کی زبانی منقول ہے: عِنْدِي أَحْسَنُ الْعَرَبِ وَأَجْمَلُهُ أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ أَبِي سُفْيَانَ۔ [7] ترجمہ:میرے ہاں عرب کی حسین تر اور جمیل تر عورت اُم حبیبیہ رضی اللہ عنہا بنت ابو سفیان موجود ہے۔

روایات

آپ سے صحیحین میں تقریباً 55 احادیث منقول ہیں۔

فضل وکمال

حضرت اُم حبیبیہ رضی اللہ عنہا سے حدیث کی کتابوں میں 65/روایتیں منقول ہیں، راویوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے، بعض کے نام یہ ہیں، حبیبہ رضی اللہ عنہا (دختر) معاویہ رضی اللہ عنہ اور عتبہ رضی اللہ عنہ پسران ابوسفیان رضی اللہ عنہ، عبد اللہ بن عتبہ، ابوسفیان بن سعید ثقفی (خواہر زادہ) ، سالم بن سوار (مولیٰ) ابو الجراح، صفیہ بنت شیبہ، زینب بنت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ، عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، ابوصالح السمان، شہر ابن حوشب۔

اخلاق

حضرت اُم حبیبیہ رضی اللہ عنہا کے جوش ایمان کا یہ منظر قابل دید ہے کہ فتح مکہ سے قبل جب ان کے باپ (ابوسفیان) کفر کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ آئے اور ان کے گھر گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بچھونے پر بیٹھنا چاہتے تھے، حضرت اُم حبیبیہ رضی اللہ عنہا نے یہ دیکھ کر بچھونا اُلٹ دیا، ابوسفیان سخت برہم ہوئے کہ بچھونا اس قدر عزیز ہے؟ بولیں یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرش ہے اور آپ مشرک ہیں اور اس بناپر ناپاک ہیں، ابوسفیان نے کہا کہ تو میرے پیچھے بہت بگڑ گئی۔ [8] حدیث پر بہت شدت سے عمل کرتی تھیں اور دوسروں کو بھی تاکید کرتی تھیں، ان کے بھانجے ابوسفیان بن سعید بن المغیرہ آئے اور انھوں نے ستو کھا کر کلی کی تو بولیں تم کو وضو کرنا چاہیے؛ کیونکہ جس چیز کوآگ پکائے اس کے استعمال سے وضو لازم آتا ہے [9] یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے (یہ حکم منسوخ ہے، یعنی پہلے تھا؛ پھرحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کوباقی نہیں رکھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام آگ پرپکی ہوئی چیزیں کھاتے تھے اور اگر پہلے پہلے سے وضو ہوتا)تو دوبارہ وضو نہیں کرتے تھے؛ بلکہ پہلے ہی وضو سے نماز پڑھ لیا کرتے تھے اس قسم کی ایک حدیث حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حالات میں آئندہ ملے گی۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا توخوشبو لگاکر رخساروں پرملی اور کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ کسی پرتین دن سے زیادہ غم نہ کیا جائے؛ البتہ شوہر کے لیے 4/مہینہ دس دن سوگ کرنا چاہیے۔ [10] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ سنا تھا کہ جو شخص بارہ رکعت روزانہ نفل پڑھے گا اس کے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا، فرماتی ہیں: فَمَا بَرِحْتُ أُصَلِّيهِنَّ بَعْدُ۔ [11] میں اُن کو ہمیشہ پڑھتی ہوں، اس کا یہ اثر ہوا کہ ان کے شاگرد اور بھائی عتبہ اور عتبہ کے شاگرد عمرو ابن اویس اور عمر کے شاگرد نعمان بن سالم سب اپنے اپنے زمانہ میں برابر یہ نمازیں پڑھتے تھے۔ فطرۃ نیک مزاج تھیں، ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا میری بہن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکاح کر لیجئے، فرمایا: کیا تمھیں یہ پسند ہے، بولیں ہاں! میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تنہا بیوی نہیں ہوں، اس لیے میں یہ پسند کرتی ہوں کہ آپ کے نکاح کی سعادت میں میرے ساتھ میری بہن بھی شریک ہو۔(اس حدیث کے آخر میں آپﷺ نے حضرت ام حبیبہ سے فرمایا کہ مجھ پر اپنی لڑکیاں اور بہنیں نہ پیش کرو) [12]

حوالہ جات

  1. http://www.mpac-ng.org/islam-links/281-mothers-of-the-believers-umm-habiba-ramla-bint-abu-sufyan.html — اخذ شدہ بتاریخ: 7 نومبر 2017
  2. عنوان : Умм Хабиба бинт Абу Суфьян
  3. ^ ا ب عنوان : Умм Хабиба бинт Абу Суфьян
  4. (مسند:6/427۔ تاریخ طبری واقعات سنہ6ھ)
  5. (استیعاب:2/750)
  6. (اصابہ جلد:8/85، بحوالہ ابن سعد۔ ابن سعد جزء نساء:71)
  7. (مسلم، كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ،بَاب مِنْ فَضَائِلِ أَبِي سُفْيَانَ بْنِ حَرْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، حدیث نمبر:4557، شاملہ، موقع الإسلام)
  8. (اصابہ:8/85، بحوالہ ابن سعد)
  9. (مسند:2/326)
  10. (بخاری:2/803)
  11. (مسنداحمد بن حنبل،كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا،بَاب فَضْلِ السُّنَنِ الرَّاتِبَةِ،حدیث نمبر:26818، شاملہ،الناشر:مؤسسة قرطبة، القاهرة)
  12. (بخاری، بَاب﴿ وَأُمَّهَاتُكُمْ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ﴾ وَيَحْرُمُ مِنْ الرَّضَاعَةِ مَايَحْرُمُ مِنْ النَّسَبِ:2/764)