لاہور

متناسقات: 31°32′59″N 74°20′37″E / 31.54972°N 74.34361°E / 31.54972; 74.34361
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے


لہور
Lahore
میٹروپولس
گھڑی وار اوپر سے: قلعہ لاہور، شالامار باغ، عجائب گھر، لاہور، بادشاہی مسجد، قائداعظم لائبریری، مینار پاکستان۔
لاہور is located in پنجاب، پاکستان
لاہور
لاہور
لاہور is located in پاکستان
لاہور
لاہور
لاہور is located in ایشیا
لاہور
لاہور
پاکستان میں مقام
متناسقات: 31°32′59″N 74°20′37″E / 31.54972°N 74.34361°E / 31.54972; 74.34361
ملکپاکستان کا پرچم پاکستان
صوبہپنجاب، پاکستان کا پرچم پنجاب
ضلعضلع لاہور
میٹروپولیٹن کارپوریشن2013
وجہ تسمیہلو [1][2][3]
سٹی کونسللاہور
ٹاؤن10
حکومت
 • ناظم لاہور‬‎مبشر جاوید
 • نائب ناظم لاہور9 زونل میئر
رقبہ[4]
 • کل550 کلومیٹر2 (210 میل مربع)
بلندی217 میل (712 فٹ)
آبادی (خانہ و مردم شماری پاکستان 2017ء)[5]
 • کل11,126,285 (صوبائی)
 • کثافت20,205/کلومیٹر2 (52,418/میل مربع)
نام آبادیلاہوری
منطقۂ وقتپاکستان کا معیاری وقت (UTC+5)
ڈاک رمز54000
ڈائلنگ کوڈ042[6]
خام ملکی پیداوار$58.14 بلین (2014)[7]
انسانی ترقیاتی اشاریہ0.71 Increase (2012 کے اعداد و شمار کے مطابق)[8]
انسانی ترقیاتی اشاریہ زمرہاعلیٰ

لاہور (پنجابی: لہور، شاہ مکھی: ਲਹੌਰ‎؛ عربی: لاهور؛ فارسی: لاهور‎؛ انگریزی: Lahore) صوبہ پنجاب، پاکستان کا دار الحکومت اور دوسرا بڑا شہر ہے۔ [9] اسے پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی مرکز اور پاکستان کا دل اور باغوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہ شہر دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔ اس شہر کی آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے اور یہ ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ لاہور کا شمار دنیا کے قدیم اور اہم ترین شہروں میں کیا جاتا ہے۔ زندہ دلان لاہور کے روایتی جوش و جذبے کے باعث اسے بجا طور پر پاکستان کا دل کہا جاتا ہے۔ مغل شہنشاہ جہانگیر کی ملکہ نورجہاں نے لاہور کے بارے میں کہا تھا۔ [10]

لاہور رابجان برابر خریدہ ایم جاں دارایم و جنت دیگر خریدہ ایم

لاہور کی انتہائی قدیم تاریخ ہزاروں سال پر پھیلی ہوئی ہے۔ پرانوں کے مطابق رام کے بیٹے راجہ لوہ نے شہر لاہور کی بنیاد رکھی اور یہاں ایک قلعہ بنوایا۔ [11][12][13] دسویں صدی تک یہ شہر ہندو راجائوں کے زیرتسلط رہا۔ گیارہویں صدی میں سلطان محمود غزنوی نے پنجاب فتح کرکے ایاز کو لاہور کا گورنر مقرر کیا، اور لاہور کو اسلام سے روشناس کرایا۔ شہاب الدین غوری نے 1186ء میں لاہور کو فتح کیا۔ بعدازاں یہ خاندان غلاماں کے ہاتھوں میں آ گیا۔ 1290ء میں خلجی خاندان، 1320ء میں تغلق خاندان، 1414ء سید خاندان 1451ء لودھی خاندان کے تحت رہا۔ [14]

ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں ابراہیم لودھی کو شکست دی جس کے نتیجے میں مغلیہ سلطنت وجود میں آئی۔ مغلوں نے اپنے دور میں لاہور میں عظیم الشان عمارات تعمیر کروائیں اور کئی باغات لگوائے۔ اکبر اعظم نے شاہی قلعہ کو ازسرنو تعمیر کروایا۔ شاہجہان نے شالامار باغ تعمیر کروایا جو اپنی مثال آپ ہے۔ [15] 1646ء میں شہزادی جہاں آرا نے دریائے راوی کے کنارے چوبرجی باغ تعمیر کروایا جس کا بیرونی دروازہ آج بھی موجود ہے۔ [16] 1673ء میںاورنگزیب عالمگیر نے شاہی قلعہ کے سامنے بادشاہی مسجد تعمیر کروائی۔ [17][18]

1739ء میں نادر شاہ اور 1751ء میں احمد شاہ ابدالی نے لاہور پر قبضہ جمایا۔ بعدازاں 1765ء میں سکھوں نے لاہور پر قبضہ کر لیا۔ سکھ دور میں مغلیہ دور کی کئی عمارتوں کو نقصان پہنچایا گیا اور ان کی بے حرمتی کی گئی۔ انگریزوں نے 1849ء میں سکھوں کو شکست دیکر پنجاب کو برطانوی سلطنت میں شامل کر لیا۔ [14]

لاہور کو ایک منفرد اعزاز حاصل ہوا کہ 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ نے قائداعظم کے زیر صدارت قرارداد پاکستان منظور کی جس کے نتیجے میں 14 اگست 1947ء کو مسلمانوں کو اپنا الگ آزاد ملک پاکستان حاصل ہوا۔ [19] فروری 1974ء میں اس شہر نے دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کی میزبانی بھی کی۔ [20]

قدیم لاہور شاہی قلعہ کے ساتھ واقع ہے جسے اندرون لاہور بھی کہا جاتا ہے۔ لاہور کے گرد ایک فصیل موجود تھی جس میں تیرہ دروازے تھے جوکہ سکھوں کے دور تک غروب آفتاب کے ساتھ بند کر دیئے جاتے تھے۔ ان میں سے کچھ دروازوے اب بھی موجود ہیں۔ تیرہ دروازوں کے نام بھاٹی دروازہ، لوہاری دروازہ، شاہ عالمی دروازہ، موچی دروازہ، اکبری دروازہ، یکی دروازہ، شیرانوالہ دروازہ، کشمیری دروازہ، مستی دروازہ، دہلی دروازہ، روشنائی دروازہ، ٹکسالی دروازہ، موری دروازہ ہیں۔ [21][22]

بیسویں صدی میں قدیم لاہور کے مضافات میں کئی جدید بستیوں کا اضافہ ہوا جوکہ اب بھی جاری ہے۔ اردو کے نامور مزاح نگار پطرس بخاری نے اپنے مضمون لاہور کا جغرافیہ میں اس کا حدود اربعہ یوں بیان کیا ہے۔ [23]

کہتے ہیں، کسی زمانے میں لاہور کا حدوداربعہ بھی ہوا کرتا تھا، لیکن طلباء کی سہولت کے ليے میونسپلٹی نے اس کو منسوخ کر دیا ہے۔ اب لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی واقعہ ہے۔ اور روزبروز واقع تر ہورہا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے، کہ دس بیس سال کے اندر لاہور ایک صوبے کا نام ہوگا۔ جس کادارالخلافہ پنجاب ہوگا۔ یوں سمجھئے کہ لاہور ایک جسم ہے، جس کے ہر حصے پر ورم نمودار ہورہا ہے، لیکن ہر ورم مواد فاسد سے بھرا ہے۔ گویا یہ توسیع ایک عارضہ ہے۔ جو اس کے جسم کو لاحق ہے۔

لاہور کے قریب شہر امرتسر، صرف 31 میل دور واقع ہے جو سکھوں کی مقدس ترین جگہ ہے۔ اسکے شمال اور مغرب میں ضلع شیخوپورہ، مشرق میں واہگہ اور جنوب میں ضلع قصور واقع ہیں۔ دریائے راوی لاہور کے شمال مغرب میں بہتا ہے۔ [24]

تاریخ

اشتقاقیات

لو اور کُش ، ہندو دیوتا رام کے دو بیٹے

اس شہر کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں عوام میں مشہور ہے کہ رام چندر جی کے بیٹے لو نے یہ بستی آباد کی تھی۔ لیکن یہ روایت صرف سجان سنگھ نے خلاصتہ التواریخ میں درج کی کے اور باقی اب نے اسی سے نقل کی اور یہ معروف ہوگی. جبکہ صاحب تحفتہ الواصلین شیح احمد زنجانی نے اس روایت کا رد کیا ہے. قدیم ہندو "پرانوں" میں لاہور کا نام "لوہ پور" یعنی لوہ کا شہر ملتا ہے۔ [11][12][13] راجپوت دستاویزات میں اسے "لوہ کوٹ" یعنی لوہ کا قلعہ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ نویں صدی عیسوی کے مشہور سیاح "الادریسی" نے اسے "لہاور" کے نام سے موسوم کیا ہے۔ [25][26]

مختلف کتب میں لاہور کے درج ذیل نام ملتے ہیں.

  • لھور
  • لہانور
  • لوہاور
  • لوھور
  • لوھاووُر
  • لاوھُور
  • لھاور
  • لانہور
  • لھاوار
  • لاہور

-اس موضوع پر تفصیلی بحث ڈاکٹر محمد باقر صاحب نے کی اہل ذوق اس سے استفادہ کرسکتے ہیں.

قدیم لاہور

لاہور کے بارے میں سب سے پہلے چین کے باشندے سوزو زینگ نے لکھا جو ہندوستان جاتے ہوئے لاہور سے 630 عیسوی میں گزرا۔ یہ قدیم حوالہ جات اس بات کے غماز ہیں کہ اوائل تاریخ سے ہی یہ شہر اہمیت کا حامل تھا۔ درحقیقت اس کا دریا کے کنارے پر اور ایک ایسے راستے پر واقع ہونا جو صدیوں سے بیرونی حملہ آوروں کی رہگزر رہا ہے، اس کی اہمیت کا ضامن رہا ہے۔"فتوح البلدان" میں درج سنہ 664 عیسوی کے واقعات میں لاہور کا ذکر ملتا ہے جس سے اس کا اہم ہونا ثابت ہوتا ہے۔

علامہ احمد بن یحییٰ بن جابر بلاذری اپنی کتاب فتوح البلدان میں تحریر کرتے ہیں:

ثم غزا ذلك الثغر المهلب بن أبي صفرة في أيام معاوية أربع وأربعين۔فأتى بنة وألاهور وهما بين الملتان وكابل" فتوح البلدان (عربی)

ترجمہ: پھر سن 42ھ میں کہ معاویہ بن ابی سفیان کا عہد تھا مہلب بن ابی صفرہ نے اس سرحد (ہند) پر حملہ کیا اور بنّہ و الاہور تک جا پہنچے۔ یہ دونوں شہر ملتان و کابل کے درمیان میں ہیں۔ (فتوح البلدان۔ البلاذری ـ ترجمہ سید ابو الخیر مودودی ـ نفیس اکیڈمی کراچی۔ صفحہ 613)

قرون وسطی

ساتویں صدی عیسوی کے اواخر میں لاہور ایک گجر چوہان بادشاہ کا پایہ تخت تھا۔ فرشتہ کے مطابق 682ء میں کرمان اور پشاور کے مسلم پٹھان قبائل راجہ پر حملہ آور ہوئے۔ پانچ ماہ تک لڑائی جاری رہی اور بالآخر سالٹ رینج کے گکھڑ راجپوتوں کے تعاون سے وہ راجہ سے اس کے کچھ علاقے چھیننے میں کامیاب ہو گئے۔

محمود اور ایاز

نویں صدی عیسوی میں لاہور کے ہندو راجپوت چتوڑ کے دفاع کے لیے مقامی فوجوں کی مدد کو پہنچے۔ دسویں صدی عیسوی میں خراسان کا صوبہ دار سبکتگین اس پر حملہ آور ہوا۔ لاہور کا راجہ جے پال جس کی سلطنت سرہند سے لمگھان تک اور کشمیر سے ملتان تک وسیع تھی مقابلہ کے لیے آیا۔ ایک بھٹی راجہ کے مشورے پر راجہ جے پال نے پٹھانوں کے ساتھ اتحاد کر لیا اور اس طرح وہ حملہ آور فوج کو شکست دینے میں کامیاب رہا۔ غزنی کے تخت پر قابض ہونے کے بعد سبکتگین ایک دفعہ پھر حملہ آور ہوا۔ لمگھان کے قریب گھمسان کا رن پڑا اور راجہ جے پال ملغوب ہو کر امن کا طالب ہوا۔ طے یہ پایا کہ راجہ جے پال تاوان جنگ کی ادائیگی کرے گا اور سلطان نے اس مقصد کے لیے ہرکارے راجہ کے ہمرکاب کیے۔ لاہور پہنچ کر راجہ نے معاہدے سے انحراف کیا اور سبکتگین کے ہرکاروں کو مقید کر دیا۔ اس اطلاع پر سلطان غیض وغضب میں دوبارہ لاہور پر حملہ آور ہوا۔ ایک دفعہ پھر میدانِ کارزار گرم ہوا اور ایک دفعہ پھر جے پال کو شکست ہوئی اور دریائے سندھ سے پرے کا علاقہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔ دوسری دفعہ مسلسل شکست پر دلبرداشتہ ہو کر راجہ جے پال نے لاہور کے باہر خود سوزی کر لی۔ معلوم ہوتا ہے کہ سلطان کا مقصد صرف راجہ کو سبق سکھانا تھا کیونکہ اس نے مفتوحہ علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل نہیں کیا اور 1008 عیسوی میں جب سبکتگین کا بیٹا محمود غزنوی ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو جے پال کا بیٹا آنند پال ایک لشکر جرار لے کر پشاور کے قریب مقابلہ کے لیے آیا۔ محمود کی فوج نے آتش گیر مادے کی گولہ باری کی جس سے آنند پال کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی اور ان کی ہمت ٹوٹ گئی۔ نتیجتاً کچھ فوج بھاگ نکلی اور باقی کام آئی۔ اس شکست کے باوجود لاہور بدستور محفوظ رہا۔

آنند پال کے بعد اس کا بیٹا جے پال تخت نشین ہوا اور لاہور پر اس خاندان کی عملداری 1022ء تک برقرار رہی حتٰی کہ محمود اچانک کشمیر سے ہوتا ہوا لاہور پر حملہ آور ہوا۔ جے پال اور اس کا خاندان اجمیر میں پناہ گزین ہوا۔ اس شکست کے بعد لاہور غزنوی سلطنت کا حصہ بنا اور پھر کبھی بھی کسی ہندو سلطنت کا حصہ نہیں رہا۔محمود کے پوتے مودود کے عہدِ حکومت میں راجپوتوں نے شہر کو واپس لینے کے لیے چڑھائی کی مگر چھ ماہ کے محاصرے کے بعد ناکام واپس ہوئے۔ لاہور پر قبضہ کرنے کے بعد محمود غزنوی نے اپنے پسندیدہ غلام ملک ایاز کو لاہور کا گورنر مقرر کیا جِس نےشہرکے گرد دیوار قائم کرنے کے ساتھ ساتھ قلعہ لاہور کی بھی بنیاد رکھی۔ ملک ایاز کا مزار آج بھی بیرون ٹکسالی دروازہ لاہور کے پہلے مسلمان حکمران کے مزار کے طور پر معروف ہے۔ غزنوی حکمرانوں کے ابتدئی آٹھ حکمرانوں کے دور میں لاہور کا انتظام صوبہ داروں کے ذریعہ چلایا جاتا تھا تاہم مسعود ثانی کے دور میں (1098ء ۔ 1114ء) دار الحکومت عارضی طور پر لاہور منتقل کر دیا گیا۔اس کے بعد غزنوی خاندان کے بارہویں تاجدار خسرو کے دور میں لاہور ایک دفعہ پھر پایہِ تخت بنا دیا گیا اور اس کی یہ حیثیت 1186ء میں غزنوی خاندان کے زوال تک برقرار رہی۔ غزنوی خاندان کے زوال کے بعد غوری خاندان اور خاندانِ غلامان کے دور میں لاہور سلطنت کے خلاف سازشوں کا مرکز رہا۔ درحقیقت لاہور ہمیشہ پٹھانوں کے مقابلہ میں مغل حکمرانوں کی حمایت کرتا رہا۔1241 عیسوی میں چنگیز خان کی فوجوں نے سلطان غیاث الدین بلبن کے بیٹے شہزادہ محمد کی فوج کو راوی کے کنارے شکست دی اور حضرت امیر خسرو کو گرفتار کیا۔ اس فتح کے بعد چنگیز خان کی فوج نے لاہور کو تاراج کر دیا۔

خلجی اور تغلق شاہوں کے ادوار میں لاہور کو کوئی قابلِ ذکر اہمیت حاصل نہ تھی اور ایک دفعہ گکھڑ راجپوتوں نے اسے لوٹا۔ 1397ء میں امیر تیمور برصغیر پر حملہ آور ہوا اور اس کے لشکر کی ایک ٹکڑی نے لاہور فتح کیا۔ تاہم اپنے پیشرو کے برعکس امیر تیمور نے لاہور کو تاراج کرنے سے اجتناب کیا اور ایک افغان سردار خضر خان کو لاہور کا صوبہ دار مقرر کیا۔اس کے بعد سے لاہور کی حکومت کبھی حکمران خاندان اور کبھی گکھڑ راجپوتوں کے ہاتھ رہی یہاں تک کہ 1436ء میں بہلول خان لودھی نے اسے فتح کیا اور اسے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ بہلول خان لودھی کے پوتے ابراہیم لودھی کے دورِ حکومت میں لاہور کے افغان صوبہ دار دولت خان لودھی نے علمِ بغاوت بلند کیا اور اپنی مدد کے لیے مغل شہزادے بابر کو پکارا۔

تاریخ گواہ ہے کہ لاہور کو پہلے عروس البلد لاہور بھی کہتے تھے۔ اور یہ علاقہ ملتان کی عظیم سلطنت کا حصہ ہوتا تھا۔ اور اس وقت ملتان کی سرحدیں ساحل سمندر تک پھیلی ہوئی تھی۔

مغلیہ دور

بابر پہلے سے ہی ہندوستان پر حملہ کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا اور دولت خان لودھی کی دعوت نے اس پر مہمیز کا کام کیا۔ لاہور کے قریب بابر اور ابراہیم لودھی کی افواج میں پہلا ٹکراؤ ہوا جس میں بابر فتحیاب ہوا تاہم صرف چار روز کے وقفہ کے بعد اس نے دہلی کی طرف پیشقدمی شروع کر دی۔ ابھی بابر سرہند کے قریب ہی پہنچا تھا کہ اسے دولت خان لودھی کی سازش کی اطلاع ملی جس پر وہ اپنا ارادہ منسوخ کر کے لاہور کی جانب بڑھا اور مفتوحہ علاقوں کو اپنے وفادار سرداروں کے زیرِانتظام کرکے کابل واپس ہوا۔

اگلے برس لاہور میں سازشوں کا بازار گرم ہونے کی اطلاعات ملنے پر بابر دوبارہ عازمِ لاہور ہوا۔ مخالف افواج راوی کے قریب مقابلہ کے لیےسامنے آئیں مگر مقابلہ شروع ہونے سے پہلے ہی بھاگ نکلیں۔ لاہور میں داخل ہوئے بغیر بابر دہلی کی طرف بڑھا اور پانی پت کی لڑائی میں فیصلہ کن فتح حاصل کرکے دہلی کے تخت پر قابض ہوا۔ اس طرح ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی ابتداء لاہور کے صوبہ دار کی بابر کو دعوت سے ہوئی۔

1540ء میں شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو شکست دے کر ہندوستان سے مغلیہ سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ نومبر 1556ء میں ہمایوں کے بیٹے اکبر کی افواج نے پانی پت کے میدان میں سوری افواج کو شکست دی اور پھر جلد ہی دہلی اور پھر آگرہ پر قبضہ کر لیا۔ [27][28]

1575ء میں اکبر کے قلعہ لاہور کی از سر نو تعمیر کی اور لاہور کو سلطنت کا دار الحکومت بنایا۔ [29] اس کے بعد شاہجہان اور اورنگزیب عالمگیر نے بھی اپنے ادوار میں قلعے میں توسیع اور عمارات تعمیر کیں۔ [30][31] 1641ء میں شاہجہان نے شالامار باغ تعمیر کروایا۔ 1673ء اورنگزیب عالمگیر نے قلعہ لاہور کے سامنے عظیم الشان بادشاہی مسجد تعمیر کروائی۔ اس کے علاوہ مغل دور میں کئی عالی شان عمارات اور باغات لگوائے گئے۔

اندرون لاہور جسے قدیم لاہور بھی کہا جاتا ہے کی حفاظت کے لیے شہر کے گرد ایک فصیل تعمیر کی گئی جس میں بارہ دروازے بنائے گئے۔ انگریزوں کے دور میں شہر اور قلعہ لاہور کے حفاظتی حصار کو ناکارہ بنا دیا گیا۔

سترہویں صدی کے دوران میں مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہو گیا۔ لاہور پر اکثر پر حملہ کیا جاتا رہا،حکومتی عملداری کا فقدان رہا۔ 1761ء تک احمد شاہ ابدالی نے مغلوں کی باقیات سے پنجاب اور کشمیر چھین لیا۔ [32] پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر وارث شاہ نے اسی مناسبت سے کہا

کھادا پیتا وادے دا باقی احمد شاہے دا

بعد ازاں سلطنت دہلی اور مغلیہ سلطنت کے آخری حکمران خطے کے مختلف حصوں کے حکمران رہے۔ صوفیاء کی آمد کی وجہ سے لاہور کا علاقہ مسلم اکثریتی علاقہ بن گیا۔ [33] 1740ء کی دہائی افراتفری کی رہی۔ 1745ء سے 1756ء کے درمیان میں شہر کے نو گورنر رہے۔ 1756ء سے پانی پت کی تیسری لڑائی تک جو احمد شاہ ابدالی اور مرہٹوں درمیان میں ہوئی لاہور اور پشاور مرہٹوں کے قبضے میں رہے۔ تاہم مرہٹوں کو شکست دہنے کے بعد احمد شاہ ابدالی واپس افغانستان چلا گیا جس سے علاقے میں عدم استحکام پیدا ہوا۔ 1801ء میں رنجیت سنگھ کی قیادت میں سکھوں کے بارہ مثل متحد ہو کر ایک نئی قوت کے طور پر سامنے آئے۔ [34]

سکھ دور

شہنشاہ جہانگیر کے زمانے میں بھی سکھ مت اتنا واضح اور الگ مذہب نہیں بنا تھا لیکن آثار نمایاں ہونے لگے تھے کہ اب سکھ مغلیہ سلطنت کے مرکز برائے پنجاب یعنی لاہور کی بجائے امرتسر کی جانب دیکھنے لگے تھے [35]۔ سکھ ذرائع کے مطابق شہنشاہ جہانگیر کے کہنے پر ادی گرنتھ میں ترامیم سے گرو ارجن کے انکار پر ، اس نے خسرو کو امداد فراہم کرنے کا بہانا بنا کر ان کو قتل کروا دیا تھا [36] اور اس بات نے ان کے بیٹے اور چھٹے گرو ہرگوبند (1595ء تا 1644ء) کو عسکری طاقت کی جانب مائل کر دیا تھا جس کے ردعمل کے طور پر جہانگیر نے ایک بار امرتسر سے ہرگوبند کو گرفتار بھی کیا لیکن پھر آزاد کر دیا۔ ہرگوبند نے مغلیہ سلطنت کو ناجائز قرار دیکر اپنے پیروکاروں کو اسے تسلیم کرنے سے منع کر دیا تھا اور گرو کو خدا کی جانب سے دی جانے والی سلطنت کو جائز قرار دیا۔ شاہجہان کے دور (1628ء تا 1658ء) میں رام داس پور (امرتسر) پر حملہ کیا گیا اور ہرگوبند نے امرتسر سے بھاگ کر کرتار پور میں سکونت اختیار کی۔ اورنگزیب کے تبدیل ہوتے ہوئے کردار نے مختلف واقعات کو جنم دیا جن میں ایک سکھوں سے معاملات کا واقع بھی ہے جس میں محصول یا جزیہ پر ہونے والی معاشیاتی کشمکش کو مذہب اور خودمختاری سے جوڑ دیا گیا۔ تیغ بہادر کے قتل کو متعدد تاریخی دستاویزات میں سکھ مسلم ناچاقی یا نفرت کا آغاز کہا جاتا ہے [37]۔

اٹھارویں صدی کے اواخر میں مغلیہ سلطنت زوال پزیر تھی۔ درانی سلطنت اور مراٹھا سلطنت کی طرف سے بار بار حملے پنجاب میں اقتدار کے خلا کا باعث بنے۔ سکھ مثلوں کی درانی سلطنت سے جھڑپیں شروع ہو گئیں اور آخر کار بھنگی مثل لاہور پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ 1799ء میں زمان شاہ درانی کے حملے کے بعد خطہ مزید غیر مستحکم ہو گیا جس کے نتیجے میں رنجیت سنگھ کو اپنی حیثیت کو مضبوط کرنے میں مدد ملی۔ رنجیت سنگھ کا زمان شاہ درانی کے ساتھ جھڑپوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس میں رنجیت سنگھ بھنگی مثل اور دیگر اتحادیوں کی مدد سے کامیاب ہوا، اور خطہ سکھوں کے زیر انتظام آ گیا۔ [38] لاہور قبضہ کرنے کے بعد سکھ فوج نے فوری طور پر شہر میں لوٹ مار شروع کر دی جو رنجیت سنگھ کے باشاہ بننے کے اعلان تک رہی۔ [39] اس کے بعد سے لاہور سکھ سلطنت کا دار الحکومت بنا۔

مغلیہ دور کے لاہور کی عالی شان عمارات اٹھارویں صدی اواخر میں کھنڈر بن گئیں۔ سکھ حکمرانوں نے لاہور کی قیمتی مغل یادگاروں کو لوٹا اور قیمتی مرصع پتھر اور سفید سنگ مرمر اتار کر سکھ سلطنت کے مختلف علاقوں میں بھیج دیا۔ [40] اس لوٹ مار کا شکار اہم یادگاروں میں مقبرہ آصف خان، مقبرہ انارکلی اور مقبرہ نور جہاں شامل ہیں۔ [41] شالامار باغ کا تمام سنگ مرمر اتار کر امرتسر میں رنجیت سنگھ کے رام باغ محل کی تعمیر کے لیے بجھوا دیا گیا۔ باغات کا عقیق دروازہ لہنا سنگھ مجیٹھا جو سکھ دور کے لاہور کے گورنروں میں سے ایک تھا نے فروخت کر دیا۔ [42] رنجیت سنگھ کی فوج نے لاہور میں سب سے اہم مغل مساجد کی بے حرمتی بھی کی۔ بادشاہی مسجد کو ایک اسلحہ ڈپو اور رنجیت سنگھ کے گھوڑے کے اصطبل میں تبدیل کر دیا گیا۔ [43] اندرون لاہور کی سنہری مسجد کو ایک مدت کے لیے گردوارہ میں تبدیل کر دیا گیا،[44] جبکہ مریم زمانی بیگم مسجد کو ایک بارود فیکٹری بنا دیا گیا۔ [45]

سکھ سلطنت کے تحت تعمیر نو کا کام مغلوں سے متاثر ہو کر کیا گیا، رنجیت سنگھ خود لاہور قلعہ میں منتقل ہو گیا اور سکھ سلطنت کے انتظام کے لیے اسے مرکز بنایا۔ [46] 1812ء تک سکھوں نے اکبر کے زمانے کی اصل دیواروں کے ارد گرد بیرونی دیواریں بنا کر شہر کا دفاع مضبوط بنایا۔ اس کے علاقہ شاہجہان کے تنزل پزیر شالامار باغ کو بھی جزوی طور پر بحال کیا۔

سید احمد بریلوی نے 1821ء میں سکھ سلطنت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا جس کے نتیجے میں تحریک مجاہدین وجود میں آئی۔ سکھوں سے حاصل کردہ مفتوحہ علاقوں میں اسلامی قوانین نافذ کیے۔ لیکن بالآخر 1831ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی افواج سے لڑتے ہوئے بالاکوٹ کے میدان میں سید صاحب اور انکے بعض رفقاء نے جامِ شہادت نوش کیا۔ [47]

برطانوی دور

برطانوی راج کے آغاز میں لاہور کی آبادی کا تخمینہ 120،000 تھا۔ [48] برطانوی قبضہ سے لاہور بنیادی طور پر شہر کے فصیل کے اندر اور کچھ نواحی میدانی علاقے کے بستیوں جس میں باغبانپورہ، بیگم پورہ، مزنگ اور قلعہ گجر سنگھ پر مشتمل تھا۔ برطانوی دور میں اندرون لاہور پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی او ان کی تمام تر توجہ لاہور کے مضافاتی علاقوں اور خطۂ پنجاب کے زرخیز دیہی علاقوں پرمرکوز رہی۔ [49] انگریزوں نے اندرون شہر کی بجائے شہر کے جنوب میں ایک علاقے کو اپنا مرکز بنایا جسے "سول سٹیشن" کہا جاتا تھا۔ [50] اس کے علاوہ شہر کی فصیل اور قلعہ لاہور کی فصیل کو غیر موثر کر دیا تا کہ کوئی قلعہ بندی ممکن نہ رہے۔

ابتدائی برطانوی دور میں "سول سٹیشن" میں واقع ممتاز مغل دور کی یادگاروں کو دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اور کبھی کبھی ان کی بے حرمتی بھی کی گئی۔ مقبرہ انارکلی کو ابتدائی طور پر دفاتر کے لیے استعمال کیا گیا، جبکہ 1851ء میں اسے ایک گرجا گھر میں تبدیل کر دیا گیا۔ [51] اسی دور میںدائی انگہ مسجد کو ریلوے انتظامیہ کے دفاتر میں تبدیل کیا گیا۔ مقبرہ نواب بہادر خان کو ایک گودام میں، اور مقبرہ میر مانو کو ایک شراب کی دکان میں تبدیل کر دیا گیا۔ [52] اس کے علاوہ انگریزوں نے کئی دیگر عمارات کو سول سیکرٹریٹ، پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ، اور اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر کے لیے استعمال کیا۔ [53]

1857ء کی جنگ آزادی جسے انگریز غدر قرار دیتے ہیں کے بعد شہر سے باہر لاہور ریلوے اسٹیشن تعمیر کیا۔ اس کے ڈھانچے قلعے کے انداز میں موٹی دیواروں میں توپیں داغنے کے سوراخوں کے ساتھ دفاع حکمت عملی کے تحت تعمیر کیا۔ تا کہ مستقبل میں ممکنہ بغاوت کی صورت میں ایک محفوظ حصار کے طور پر کام آ سکے۔ [54] برطانوی دور کے اہم سرکاری ادارے اور تجارتی مراکز سول اسٹیشن کے ڈیڑھ میل کے علاقے میں مرکوز رہے اور اسی کے پہلو میں مال روڈ بنائی گئی جہاں لاہور کے فوجی علاقوں کے برعکس برطانوی اور مقامی لوگوں کے اختلاط کی اجازت دی گئی۔ [55] مال روڈ لاہور کی شہری انتظامیہ کے مرکز کے ساتھ جدید تجارتی علاقوں میں سے ایک ہے۔

برطانوی راج کے دوران میں مال روڈ پر کئی قابل ذکر ڈھانچے تعمیر کیے گئے جن میں منٹگمری ہال جو موجودہ دور میں قائداعظم لائبریری ہے، اور لارنس گارڈنز اہم ہیں۔ [56] باغات میںلندن کے رائل بوٹینک گارڈنز سے بھیجے گئے 600 سے زیادہ اقسام کے درخت اور پودے اگائے گئے۔ [57] اس کے علاوہ انگریزوں نے وسیع علاقے پر لاہور کنٹونمنٹ کی بنیاد بھی رکھی۔ [58]

1887ء میں ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کے موقع پر کئی اہم عمارات تعمیر کی گئیں جن میں لاہور عجائب گھر اور میو اسکول آف آرٹس سب سے اہم ہیں۔ [59] دیگر اہم عمارات میں ایچیسن کالج، لاہور ہائی کورٹ اور یونیورسٹی آف پنجاب قابل ذکر ہیں۔ لاہور میں اس دور کی اہم عمارت کا ڈیزائن سر گنگا رام نے بنایا۔ [60]

1901ء میں انگریزوں نے لاہور میں مردم شماری کروائی جس کے مطابق فصیل دار شہر میں 20،691 گھرتھے [61] اور ایک اندازے کے مطابق 200،000 افراد لاہور میں مقیم تھے۔ [48] تحریک آزادی ہند میں لاہور کا بہت اہم کردار رہا۔ 1940ء میں محمد علی جناح کے زیر صدارت آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس لاہور میں منعقد ہو جس میں قرارداد لاہور منظور کی گئی جس میں ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک علاحدہ وطن پاکستان کا مطالبہ کیا گیا۔ [62]

تحریک آزادی میں کردار

جواہر لعل نہرو اور "مکمل آزادی"

لاہور کا کردار تحریک پاکستان اور تحریک آزادی ہند میں نمایاں رہا۔ 1929ء میں جواہر لعل نہرو کی قیادت میں کانگریس کا اجلاس لاہور میں منعقد ہوا جس میں "مکمل آزادی" کی قراداد پیش کی گئی جسے 31 دسمبر 1929ء کی آدھی رات کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ [63] اسی موقع پر ترنگا (درمیان میں چکرا سمیت) کو بھارت کے معاصر قومی پرچم کے طور پر لہرا گیا جسے ہزاروں لوگوں نے سلامی دی۔ لاہور جیل آزادی کے لیے لڑنے والوں کو حراست میں رکھنے کی ایک جگہ تھی۔ انقلابی بھگت سنگھ کو بھی لاہور جیل میں پھانسی دی گئی۔ [64]

قائد اعظم محمد علی جناح کے زیر صدارت آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس 1940ء میں لاہور میں منعقد ہوا جس میں پہلی مرتبہ دو قومی نظریہ پیش کیا گیا اور قرارداد لاہور منظور کی گئی۔

قرارداد لاہور

آل انڈیا مسلم لیگ کے لاہور میں ہونے والے اجلاس میں شامل رہنما

23 مارچ، 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر وہ تاریخی قرار داد منظور کی گئی تھی جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے جدا وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی تھی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔

برصغیر میں برطانوی راج کی طرف سے اقتدار عوام کو سونپنے کے عمل کے پہلے مرحلے میں 1936ء/1937ء میں جو پہلے عام انتخابات ہوئے تھے ان میں مسلم لیگ کو بری طرح سے ہزیمت اٹھانی پڑی تھی اور اس کے اس دعویٰ کو شدید زک پہنچی تھی کہ وہ بر صغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔ اس وجہ سے مسلم لیگ کی قیادت اور کارکنوں کے حوصلے ٹوٹ گئے تھے اور ان پر ایک عجب بے بسی کا عالم تھا۔

کانگریس کو مدراس، یو پی، سی پی، بہار اور اڑیسہ میں واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی، سرحد اور بمبئی میں اس نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دی تھی اور سندھ اور آسام میں بھی جہاں مسلمان حاوی تھے کانگریس کو نمایاں کامیابی ملی تھی۔

مولوی فضل الحق

پنجاب میں البتہ سر فضل حسین کی یونینسٹ پارٹی اور بنگال میں مولوی فضل الحق کی پرجا کرشک پارٹی کو جیت ہوئی تھی۔

غرض ہندوستان کے 11 صوبوں میں سے کسی ایک صوبہ میں بھی مسلم لیگ کو اقتدار حاصل نہ ہو سکا۔ ان حالات میں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مسلم لیگ برصغیر کے سیاسی دھارے سے الگ ہوتی جارہی ہے۔

اس دوران میں کانگریس نے جو پہلی بار اقتدار کے نشے میں کچھ زیادہ ہی سر شار تھی، ایسے اقدامات کیے جن سے مسلمانوں کے دلوں میں خدشات اور خطرات نے جنم لینا شروع کر دیا۔ مثلاً کانگریس نے ہندی کو قومی زبان قرار دے دیا، گاؤ کشی پر پابندی عائد کردی اور کانگریسکے ترنگے کو قومی پرچم کی حیثیت دے دی۔

اس صورت میں مسلم لیگ کی اقتدار سے محرومی کے ساتھ اس کی قیادت میں یہ احساس پیدا ہورہا تھا کہ مسلم لیگ اقتدار سے اس بناء پر محروم کر دی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کہلاتی ہے۔ یہی نقطہ آغاز تھا مسلم لیگ کی قیادت میں دو جدا قوموں کے احساس کی بیداری کا۔

اسی دوران میں دوسری جنگ عظیم کی حمایت کے عوض اقتدار کی بھر پور منتقلی کے مسئلہ پر برطانوی راج اور کانگریس کے درمیان مناقشہ بھڑکا اور کانگریس اقتدار سے الگ ہوگئی تو مسلم لیگ کے لیے کچھ دروازے کھلتے دکھائی دئے۔ اور اسی پس منظر میں لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ' کا یہ 3 روزہ اجلاس 22 مارچ کو شروع ہوا۔

اجلاس سے 4 روز قبل لاہور میں علامہ مشرقی کی خاکسار جماعت نے پابندی توڑتے ہوئے ایک عسکری پریڈ کی تھی جس کو روکنے کے لیے پولیس نے فائرنگ کی۔ 35 کے قریب خاکسار جاں بحق ہوئے۔ اس واقعہ کی وجہ سے لاہور میں زبردست کشیدگی تھی اور صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ کی اتحادی جماعت یونینسٹ پارٹی برسراقتدار تھی اور اس بات کا خطرہ تھا کہ خاکسار کے بیلچہ بردار کارکن، مسلم لیگ کا یہ اجلاس نہ ہونے دیں یا اس موقع پر ہنگامہ برپا کریں۔

قائداعظم محمد علی جناح اور مولانا ظفر علی خان

موقع کی اسی نزاکت کے پیش نظر قائداعظم محمد علی جناح نے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا جس میں انہوں نے پہلی بار کہا کہ ہندوستان میں مسئلہ فرقہ ورارنہ نوعیت کا نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی ہے یعنی یہ دو قوموں کا مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق اتنا بڑا اور واضح ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرات سے بھر پور ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت میں ایک ہی راہ ہے کہ ان کی علاحدہ مملکتیں ہوں۔

دوسرے دن انہی خطوط پر 23 مارچ کو اس زمانہ کے بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل الحق نے قرار داد لاہور پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ اس وقت تک کوئی آئینی پلان نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کو قبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جدا گانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔ قرار داد میں کہا گیا تھا کہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یکجا کر کے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت اعلیٰ حاصل ہو۔

مولوی فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی رہنما چودھری خلیق الزماں، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگ زیب سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسی نے کی۔ قرارداد 23 مارچ کو اختتامی اجلاس میں منظور کی گئی۔

اپریل سنہ 1941ء میں مدراس میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد لاہور کو جماعت کے آئین میں شامل کر لیا گیا اور اسی کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک شروع ہوئی۔ لیکن اس وقت بھی ان علاقوں کی واضح نشاندہی نہیں کی گئی تھی جن پر مشتمل علاحدہ مسلم مملکتوں کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔

آزادی کے بعد

برطانوی راج سے آزادی کے بعد نئی ریاست پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور لاہور اس کے صوبے پنجاب کا دار الحکومت بنا۔ آزادی کے موقع پر ہونے والے فسادات کی زد میں کئی لاہور کی کئی عمارات بھی آئیں۔ [65] تنظیم تعاون اسلامی کے تحت دوسری سمٹ کانفرنس 1974ء کو لاہور میں منعقد ہوئی۔ [66] 1965ء میں پاک بھارت جنگ کے دوران میں لاہور بھی میدان جنگ بنا۔ 1996ء میں بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے ہونے والے کرکٹ عالمی کپ کا فائنل میچ قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کھیلا گیا۔ [67]

فصیل کے اندر شہر جسے اندرون لاہور کہا جاتا ہے لاہور کا قدیم ترین اور تاریخی حصہ ہے۔ 2009ء میں عالمی بنک کی مدد کے ساتھ اندرون لاہور کی اصل صورت میں بحالی کے لیے کام شروع کیا گیا۔ [68]

لاہور اعلامیہ

اٹل بہاری واجپائی
نواز شریف

لاہور اعلامیہ، ایک دو طرفہ معاہدہ ہے جو پاکستان اور بھارت کے مابین 21 فروری 1999ء کو طے پایا، اس معا یدے پر بھارت کی جانب سے اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی جبکہ پاکستان کی جانب سے اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے دستخط کیے۔ یہ معاہدہ لاہور میں تاریخی مذاکرات کے بعد طے پایا تھا۔ [69] لاہور اعلامیہ تاریخی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ دونوں ممالک میں ایٹمی تجربات کے بعد ہونے والا معاہدہ جو دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں بڑی پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے، گو کہ اس معاہدے کی اہمیت مئی 1998ء کے ایٹمی دھماکوں [70] کے تناظر میں نہایت واضع تھی لیکن مئی 1999ء میں شروع ہونے کارگل جنگ نے امن کے عمل کو دھچکا لگایا اور یہ اعلامیہ غیر موثر ہو کر رہ گیا۔

جغرافیہ

لاہور شہر کے شمال اور مغرب میں شیخوپورہ،مشرق میں واہگہ اور جنوب میں ضلع قصور واقع ہے۔دریائے راوی شہر کے شمال میں بہتا ہے اور شہر کا کُل رقبہ 404 مربع کلومیٹر (156 مربع میل) ہے۔ [24]

واہگہ بارڈر
دریائے راوی

واہگہ

واہگہ (انگریزی :Wahgah – ہندی : वाघा - مشرقی پنجابی : ਵਾਘਾ) بھارت اور پاکستان کے امرتسر ، بھارت اور لاہور ، پاکستان کے درمیان میں پار سڑک ہے۔ ہر شام یہاں پرچم اتارنے کے تقریب ہوتی ہے جسے واہگہ بارڈر تقریب کہا جاتا ہے۔ [71]

دریائے راوی

دریائے راوی کی اہمیت لاہور کے لیے اس لیے انتہائی اہم ہے کیونکہ یہ شہر اسی کے کنارے آباد کیا گیا۔ قدیم وقتوں میں یہ شہر کے بیت قریب تھا اور شاہی قلعہ کے ساتھ بہتا تھا۔ جبکہ اب یہ اپنا رخ تبدیل کرنے کے بعد قدیم شہر کچھ فاصلے پر بہتا ہے۔ [72][72][73]

لاہور نہر

لاہور نہر

بمباںوالی-راوی-بیدیاں نہر سے نکلتی ہے اور لاہور کے مشرق میں بہتی ہے۔ یہ 37 میل (60 کلومیٹر) طویل ہے۔ طویل آبی گزر گاہ ابتدائی طور پر مغلوں نے بنائی تھی جسے 1861ء میں انگریزیوں نے بہتر بنایا۔ [74]

آب و ہوا

لاہور
آب و ہوا چارٹ (وضاحت)
جفمامججاساند
 
 
23
 
19
4
 
 
29
 
22
7
 
 
41
 
28
14
 
 
20
 
34
20
 
 
22
 
39
24
 
 
36
 
40
27
 
 
202
 
36
27
 
 
164
 
35
26
 
 
61
 
35
24
 
 
12
 
33
18
 
 
4
 
27
12
 
 
14
 
21
5
اوسط زیادہ سے زیادہ. اور کم سے کم درجہ حرارت °C
ترسیب کل، ملی میٹر میں
ماخذ: ہانگ کانگ رصد گاہ [75]

لاہور کا موسم زیادہ تر نیم خشک ہوتا ہے، پورے سال گرم ترین مہینہ جون ہے جس میں درجہ حرارت 40 ڈگری سے تجاوز کر جاتی ہے۔ مون سون کا آغاز جون کے آخری ایام میں ہوتا ہے جس کی وجہ سے پھر جولائی کے مہینے میں سب سے زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔اس کے علاوہ سال کا سب سے ٹھنڈا مہینہ جنوری کا مہینہ ہوتا ہے۔ شہر میں سب سے زیادہ درجہ حرارت 48 ڈگری 30 مئی 1944 کو اور 10 جون 2007 کو ریکارڈ کیا گیا تھا۔ [76][77]

آب ہوا معلومات برائے لاہور (1961–1990)
مہینا جنوری فروری مارچ اپریل مئی جون جولائی اگست ستمبر اکتوبر نومبر دسمبر سال
بلند ترین °س (°ف) 27.8
(82)
33.3
(91.9)
37.8
(100)
46.1
(115)
48.3
(118.9)
47.2
(117)
46.1
(115)
42.8
(109)
41.7
(107.1)
40.6
(105.1)
35.0
(95)
30.0
(86)
48.3
(118.9)
اوسط بلند °س (°ف) 19.8
(67.6)
22.0
(71.6)
27.1
(80.8)
33.9
(93)
38.6
(101.5)
40.4
(104.7)
36.1
(97)
35.0
(95)
35.0
(95)
32.9
(91.2)
27.4
(81.3)
21.6
(70.9)
30.8
(87.4)
یومیہ اوسط °س (°ف) 12.8
(55)
15.4
(59.7)
20.5
(68.9)
26.8
(80.2)
31.2
(88.2)
33.9
(93)
31.5
(88.7)
30.7
(87.3)
29.7
(85.5)
25.6
(78.1)
19.5
(67.1)
14.2
(57.6)
24.32
(75.78)
اوسط کم °س (°ف) 5.9
(42.6)
8.9
(48)
14.0
(57.2)
19.6
(67.3)
23.7
(74.7)
27.4
(81.3)
26.9
(80.4)
26.4
(79.5)
24.4
(75.9)
18.2
(64.8)
11.6
(52.9)
6.8
(44.2)
17.8
(64)
ریکارڈ کم °س (°ف) −2.2
(28)
0.0
(32)
2.8
(37)
10.0
(50)
14.0
(57.2)
18.0
(64.4)
20.0
(68)
19.0
(66.2)
16.7
(62.1)
8.3
(46.9)
1.7
(35.1)
−1.1
(30)
−2.2
(28)
اوسط بارش مم (انچ) 23.0
(0.906)
28.6
(1.126)
41.2
(1.622)
19.7
(0.776)
22.4
(0.882)
36.3
(1.429)
202.1
(7.957)
163.9
(6.453)
61.1
(2.406)
12.4
(0.488)
4.2
(0.165)
13.9
(0.547)
628.8
(24.757)
ماہانہ اوسط دھوپ ساعات 218.8 215.0 245.8 276.6 308.3 269.0 227.5 234.9 265.6 290.0 259.6 222.9 3,034
ماخذ#1: NOAA (1961–1990) [78]
ماخذ #2: PMD[79]

فن تعمیر

گرینڈ جامعہ مسجد
وزیر خان مسجد کے ارد گرد کے علاقے اندرون لاہور کے شہری شکل کی عمدہ مثال ہے۔

لاہور میں مغلیہ سلطنت، سکھ سلطنت اور برطانوی راج کے دور کے متعدد یادگاریں موجود ہیں۔ اندرون لاہور میں مغلیہ طرز تعمیر کا گہرا اثر نظر آتا ہے جس میں بادشاہی مسجد، قلعہ لاہور سب سے زیادہ اہم ہیں۔ مغلیہ دور کی دیگر یادگاروں میں شالامار باغ، مقبرہ جہانگیر اور ملکہ نورجہاں انتہائی اہم ہیں۔ [80]

برطانوی دور کی عمارات میں لاہور عجائب گھر، جنرل پوسٹ آفس، جامعہ پنجاب وکٹورین فن تعمیر اور مسلم فن تعمیر کا حسین امتزاج ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد لاہور پاکستان کے صوبہ پنجاب کا دار الحکومت بنا اور قیام پاکستان کے بعد کئی عمارتیں تعمیر ہوئی جو جدید فن تعمیر اور اسلامی فن تعمیر کا امتزاج ہیں۔

شہر کے چند اہم مقامات

لاہور کے ہم نام دیگر جغرافیائی مقامات

پاکستان

ریاستہائے متحدہ امریکا

لاہور، ورجینیاریاستہائے متحدہ امریکا میں اورنج کاؤنٹی، ورجینیا میں ایک چھوٹا شہر ہے۔ اسکا نام پاکستان کے صوبہ پنجاب کے قدیم تاریخی شہر لاہور کے نام ہر ہے جو 1850ء کی دہائی میں رکھا گیا۔ لاہور کے طول بلد 38.198N اور عرض بلد -77.969W ہے۔ یہ مشرقی معیاری منطقہ وقت میں ہے۔ اسکی بلندی 364 فٹ (111 میٹر) ہے۔ [81]

لوپ بوری

لوپ بوری تھائی لینڈ کے صوبے لوپ بوری کا دار الحکومت ہے۔ اس کا اصل نام لوو یا لوپوری تھا جو کہ جس کے معنی لو کا شہر ہے جو کہ قدیم جنوبی ایشیائی شہر لو پورہ کے حوالے سے ہے جس کا موجودہ نام لاہور ہے۔ [82]

آبادیات

تاریخی آبادی
سالآبادی±%
1881138,878—    
1891159,947+15.2%
1901186,884+16.8%
1911228,687+22.4%
1921281,781+23.2%
1931400,075+42.0%
1941671,659+67.9%
19511,130,000+68.2%
19611,630,000+44.2%
19722,590,000+58.9%
19813,540,000+36.7%
19986,320,000+78.5%

آبادی

1998ء کی مردم شماری کے مطابق لاہور کی آبادی 6،318،745 تھی۔ ایک اندازے کے مطابق جنوری 2015ء میں لاہور کی آبادی 10،052،000ہو گی۔ [83]

مذہب

1998ء کی مردم شماری کے مطابق، لاہور کی آبادی کا 94 فیصد مسلمان ہے، جبکہ 1941ء میں یہ تناسب 60 فیصد تھا۔ دیگر مذاہب میں مسیحی سب سے بڑی اقلیت ہیں جو کل آبادی کا 5.80 فیصد ہیں۔ اس کے علاوہ قلیل تعداد میں بہائی، ہندو، احمدیہ، پارسی اور سکھ بھی آباد ہیں۔

نقل و حمل

لاہور پاکستان کے ان دو تین شہروں میں شمار ہوتا ہے جہاں ٹرانسپورٹ کی سہولیات باآسانی میسر ہیں کوئی بھی شخص 24 گھنٹے ٹرانسپورٹ کا انتظام آسانی سے کر سکتا ہے، جبکہ پاکستان کے بیشتر شہروں میں اس طرح کی ٹرانسپورٹ سہولیات نہیں پائے جاتے۔

لاہور میں نقل و حمل (ٹرانسپورٹ) کے بیشتر ذریعے موجود ہیں جن میں بس،رکشہ اور ٹیکسی شامل ہیں۔تقریباََ 75 فیصد شہریوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس اپنی گاڑیاں موجود ہیں۔لاہور میں زیادہ تر سڑکوں کا مسئلہ بھی نہیں ہوتا اور ٹریفک کے لیے بھی انتظامات موجود ہیں۔

لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کو 1984ء میں قائم کیا گیا تاکہ لوگوں کی ٹریفک مسائل کو حل کیا جاسکے۔ 2013ء میں لاہور میٹرو بس کا نظام بھی متعارف کرایا گیا جس کی وجہ سے شہریوں کو بہت سے سہولیات فراہم کئے گئے،اور جس سے سفر میں بہت آسانی پیدا ہوئی۔ لاہور میں آنے والے سیاحوں بھی اس سے مستفید ہوئے۔میٹروبس کا پہلا ٹریک 27 کلومیٹر طویل ہے اور یہ جاگوماتا سے شروع ہوکر شاہ درہ پر اختتام پزیر ہوتا ہے۔عموماََ یہ 27 کلومیٹر کا سفر تقریباََ 55 منٹ میں طے کیا جاتا ہے۔

سڑکیں

بادشاہی مسجد کے قریب آزادی چوک
لاہور رنگ روڈ

گرینڈ ٹرنک روڈ

معروف طویل سڑک گرینڈ ٹرنک روڈ جو مشرق میں چٹاگانگ (بنگلہ دیش) سے شروع ہوکر مغرب میں کابل (افغانستان) پر ختم ہوتا ہے وہ بھی لاہور سے گزرتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اب موٹروے بھی بنایا گیا ہے جو لاہور کو پاکستان کے تمام بڑے شہروں (بشمول پشاور، فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی، اسلام آباد) وغیرہ) سے ملاتا ہے۔ اسی لاہور سے سیالکوٹ تک ایک اور موٹروے زیر تعمیر ہے۔اس کے علاوہ لاہور میں مختلف انڈر پاس بنائے گئے ہیں تاکہ ٹریفک جام کے مسائل نہ ہو اور مسافروں کو سفر میں آسانی ہو۔ایک سرکاری ذرائع پاکستانی شہروں میں سب سے زیادہ انڈر پاس لاہور میں موجود ہیں۔ [84]

ایم 2 موٹروے

ایم 2 موٹروے پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ایک موٹروے ہے۔ یہ 367 کلومیٹر طویل ہے اور یہ لاہور سے شروع ہوتی ہے۔ پھر یہ شیخوپورہ، پنڈی بھٹیاں، کوٹ مومن، سالم، لِلہ، کلر کہار، بلکسار اور چکری سے گزرنے کے بعد جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد کے باہر ختم ہو جاتی ہے۔ [85]

لاہور رنگ روڈ

رنگ روڈ لاہور کے گرد ایک 85 کلومیٹر طویل 6 رویہ تیز رفتار محدود یا کنٹرول رسائی موٹروے ہے۔ یہ ایم 2 موٹروے اور این 5 نیشنل ہائی وے سے مربوط ہے۔ [86]

لاہور میٹرو

لاہور میٹرو یا لاہور ریپڈ ماس ٹرانزٹ سسٹم ایک ہلکی ریل نقل و حمل کا لاہور کے لیے نظام تھا۔ نظام پہلے 1991ء میں تجویز کیا گیا اور 1993ء میں اسے اپ ڈیٹ کیا گیا۔ منصوبے بعد ازاں 2005ء میں ترک کر دیا کیا۔ 2012ء میں حکومت پنجاب کی جانب سے لاہور میٹرو منصوبہ کو ترک کر دیا گیا اور اسکی جگہ لاہور میٹرو بس جس میں نسبتا کم سومایہ کاری درکار تھی اپنایا گیا۔

2015ء میں حکومت پنجاب نے پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت چینی معاونت سے 1.6 ارب ڈالر کا منصوبہ کے طور پر لاہور میٹرو کو دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اورنج لائن (لاہور میٹرو) 27.1 کلومیٹر (16.8 میل) طویل ہو گی جس میں اس کا 25.4 کلو میٹر (15.8 میل) حصہ مرتفع ہو گا۔ [87]

اورنج لائن

اورنج لائن لاہور میٹرو کے منصوبوں میں سے ایک ہے۔ یہ پاکستان کا پہلا ریپڈ ٹرانزٹ ٹرین نظام ہے۔ اورنج لائن لاہور میٹرو کی پہلی لائن ہو گی۔ اس کے مالی اخراجات اور تعمیر پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت چینی حکومت کرے کی۔ [88][89]

بس

شہر کے اندر

لاہور میٹرو بس
لاہور میٹرو بس

لاہور میٹرو بس پاکستان کے شہر لاہور میں تیز نقل و حمل کا ایک نظام ہے۔ ترکی فرم اولاسم اور نیسپاک منصوبے کے مشیر ہیں۔ میٹرو بس سروس 27 کلومیٹر طویل سڑک پر مشتمل ہے، جو گجومتہ سے شاہدرہ تک ہے۔ اس سے 27 کلومیٹر کا سفر ایک گھنٹے میں سمٹ آیا ہے۔۔ اس پر 27 بس اسٹیشن ہیں۔[90]

لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی

جسے عام طور اس کے مخفف ایل ٹی سی کے نام سے جانا جاتا ہے لاہور، پنجاب، پاکستان میں ایک منظم بس نظام ہے۔ [91]

شہروں کے مابین

ڈائیوو ایکسپریس

ڈائیوو پاکستان ایکسپریس بس سروس لمیٹڈ یا ڈائیوو ایکسپریس شہروں کے مابین مسافر بس خدمت ہے۔ یہ پاکستان میں 30 سے زیادہ مقامات کی خدمت فراہم کرتی ہے اور اس کا صدر دفتر لاہور میں واقع ہے۔ یہ کوریائی کمپنی ڈائیوو کے زیر انتظام ہے۔ [92]

نیازی ایکسپریس

نیازی ایکسپریس شہروں کے مابین مسافر بس خدمت ہے۔ اس کا صدر دفتر لاہور میں واقع ہے۔ [93]

لاری اڈا

لاہور کا لاری اڈا مینار پاکستان کے قریب واقع ہے۔ یہاں سے پنجاب کے تقریباً تمام شہروں، اور اس کے علاوہ سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے بیشتر شہروں کے لیے انٹرسٹی بسوں کے سفر کی سہولت موجود ہے۔ یہ برطانوی راج میں قائم ہوا۔ فی اوقت یہ بادامی باغ میں واقع ہے۔

لاہور ڈرائی پورٹ

لاہور ڈرائی پورٹ لاہور کی پہلی ڈرائی پورٹ تھی جو مغلپورہ میں قائم کی گئی۔ یہ 1973ء سے پاکستان ریلویز کے زیر انتظام تھی۔ 2008ء میں لاہور سے 48 کلومیٹر جنوب میں پریم نگر میں ایک نجی ڈرائی پورٹ کے معاہدے پر دستخط کئے گئے۔ [94]

ریلوے

لاہور جنکشن ریلوے اسٹیشن

لاہور جنکشن ریلوے اسٹیشن

لاہور جنکشن ریلوے اسٹیشن پاکستان کے صوبہ پنجاب، لاہور میں واقع ہے، جو برطانوی دور میں تعمیر کیا گیا۔ یہ جنوبی ایشیا میں برطانوی طرز تعمیر کی ایک مثال ہے جو برطانوی راج کے دور میں تعمیر کیا گیا۔ [95]

لاہور کینٹ ریلوے اسٹیشن

لاہور کینٹ ریلوے اسٹیشن لاہور کنٹونمنٹ، لاہور، پاکستان میں واقع ہے۔

اس کے علاوہ لاہور کے ریلوے اسٹیشن مندرجہ ذیل ہیں:

پاکستان ریلویز صدر دفتر

پاکستان ریلویز صدر دفتر

پاکستان ریلویز کا صدر دفتر لاہور میں ہے اور یہ وزارت ریلوے کے تحت کام کرتا ہے۔ پاکستان ریلویز پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح اہم ہے جو پاکستان میں بڑے پیمانے پر آمد و رفت کی سستی تیز رفتار اور آرام دہ سہولیات فراہم کرتا ہے۔ [96]

فضائی

علامہ اقبال بین الاقوامی ہوائی اڈا

علامہ اقبال بین الاقوامی ہوائی اڈا

لاہور میں پہلے ایک ہوائی اڈا موجود تھا لیکن وہ مسافروں کے لیے ناکافی تھا، لوگ زیادہ ہوتے اور ایئرپورت کا حجم اتنا نہ تھا اس لیے حکومتِ وقت نے لاہور میں 2003ء میں علامہ اقبال بین الاقوامی ہوائی اڈا تعمیر کیا، نئے ہوائی اڈے کو جدید طرز پر بنایا گیا اور جدید سہولیات سے آراستہ کیا گیا۔ ایئرپورٹ کا نام پاکستان کے قومی شاعر جناب علامہ محمد اقبال کے نام پر رکھا گیا۔ علامہ اقبال ایئرپورٹ لوکل اور بین الاقوامی دونوں سفر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، تاہم اس سے پرانا ہوائی اڈا حج و عمرے کرنے والوں کے لیے مختص کیا گیا ہے جہاں سے ہر سال ہزاروں افراد حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب کا سفر کرتے ہیں۔ [97]

والٹن ہوائی اڈا

والٹن ہوائی اڈا ماڈل ٹاؤن میں واقع ہے۔ یہ ہوائی اڈا لاہور، پنجاب، پاکستان سے 10 کلومیٹر (6 میل) کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ہوائی اڈا ہوابازی کے لیے استعمال ہوتا ہے اور کئی فلائینگ کلبوں کے زیر استعمال ہے۔

لاہور میں فضائی کمپنیوں کے دفاتر

پی آئی اے ہیڈ آفس، لاہور

مراکز و عمارتیں

اسلامی مراکز

بین الاقوامی میلاد کانفرنس، مینار پاکستان لاہور

لاہور کی مسجدیں، مزارات، مدرسے و اسلامی علوم کی درسگاہیں مشہور ہیں۔ ابتداسے ہی لاہور علم اور عمل کا مرکز رہا ہے۔ مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ہی بڑے بڑے علماء اور مشایخ نے لاہور میں تبلیغ دین کے لیے سفر کیے۔ سید اسسرور بخاری، مثلاً سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کا مزار داتا دربار بہت مشہور ہے۔

اسلامی علوم کی درسگاہیں و جامعات بھی موجود ہیں مثلاً:

مشہور تعلیمی ادارے

جامعہ پنجاب
کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی
گورنمنٹ کالج
یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی

لاہور کو کالجوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ مندرجہ ذیل لاہور کے اہم تعلیمی اداروں کی ایک فہرست ہے۔

لاہور کے دروازے

شاہی گزر گاہ، اندرون لاہور

اندرون لاہور کو پرانا لاہور بھی کہا جاتا ہے برصغیر میں مغلیہ دور حکومت کے دوران میں دشمن کے حملوں سے بچاؤ اور شہر لاہور کی حفاظت کے لیے اس کے اردگرد دیوار تعمیر کر دی گئی تھی۔ اس دیوار میں 13 دروازے بنائے گئے۔ بسا اوقات موری دروازہ کو دروازہ تسلیم نہیں کیا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ لاہور کے دراصل 12 دروازے ہیں۔

ان کے علاوہ چٹا دروازہ (لغوی معنی سفید دروازہ) اندرون لاہور، پاکستان میں وزیر خان چوک پو ایک دروازہ ہے جو 1650ء میں تعمیر ہوا۔[98] یہ دروازہ لاہور کا اصل دہلی دروازہ [99] اور شہر کی مرکزی داخلی دروازہ تھا۔[99]

نام تصویر تفصیل
بھاٹی دروازہ قدیم لاہور کے گرد قائم فصیل میں متعدد مقامات پر شہر میں داخلے کے لیے رکہے گئے دروازوں میں سے ایک اہم بھاٹی دروازہ، جو سید علی ہجویری کے مزار کی سمت واقع ہے۔
دہلی دروازہ دہلی دروازہ لاہور، پاکستان کے صوبہ پنجاب میں لاہور کے مقام پر واقع ہے۔ دہلی دروازہ مغلیہ دور حکومت میں تعمیر کیا گیا اور یہ اندرون شہر کے راستوں پر تعمیر شدہ تیرہ دروازوں میں سے ایک ہے۔ جس علاقے میں یہ دروازہ واقع ہے وہ تاریخی لحاظ سے انتہائی اہم ہے اور یہاں کئی یادگاریں، حویلیاں اور قدیم بازار واقع ہیں۔ مسجد وزیر خان بھی اسی درواز ےکے قریب واقع ہے
کشمیری دروازہ کشمیری دروازہ، پاکستان کے صوبہ پنجاب میں لاہور کے مقام پر واقع ہے۔ یہ مغل دور حکومت میں تعمیر کیا گیا اور یہ اندرون شہر کے راستوں پر تعمیر شدہ تیرہ دروازوں میں سے ایک ہے۔ لاہور کا قدیم کشمیری بازار ادھر واقع ہے۔ مشہور سنہری مسجد بھی یہاں واقع ہے۔
لوہاری دروازہ لوہاری دروازہ لاہور، پاکستان کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے، جو اصلی حالت میں محفوظ ہے۔
روشنائی دروازہ روشنائی دروازہ، اندرون شہر لاہور کی فصیل پر بنائے گئے تیرہ دروازوں میں سے ایک ہے، جو پاکستان کے صوبہ پنجاب میں واقع ہے۔ یہ دروازہ دوسرے مغلیہ دور میں تعمیر شدہ دروازوں سے اونچا اور چوڑا ہے۔ عالمگیری دروازے کے بعد مغلیہ فوج میں شامل ہاتھیوں کا دستہ اسی دروازے سے شہر میں داخل ہوا کرتا تھا۔ اسی دروازے سے ملحقہ حضوری باغ بھی تعمیر کیا گیا تھا۔
شیرانوالہ دروازہ پاکستان کے شہر لاہور کا تاریخی دروازہ ہے۔ یہ فصیل شہر کے شمال مشرق کی جانب واقع ہے۔
مستی دروازہ اکبری دروازہ جسے مستی دروازہ بھی کہا جاتا ہے لاہور، پاکستان کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔

تاریخی عمارات

مذہبی

مساجد
بادشاہی مسجد
سنہری مسجد
مسجد شب بھر
گرجا گھر
سیکرڈ ہارٹ کیتھیڈرل
سکھ مت
سمادھ مہاراجہ رنجیت سنگھ
  • سمادھ مہاراجہ رنجیت سنگھ
  • گردوارہ ڈیرہ صاحب
  • گردوارہ کانھ کاچھ
  • گردوارہ شہید گنج
  • جنم استان گرو رام داس
  • شہید گنج گوردوارہ
  • بھائی واسطی رام سمادھی
  • ناکائن کور، چند کور صاحب کور کی سمادھی
  • بھائی تارو سنگھ سمادھی
فری میسن
میسونک معبد (لاہور)
  • میسونک معبد لاہور، پاکستان کے چیئرنگ کراس کے قریب واقع ہے۔ یہ معبد پرنس البرٹ وکٹر لاج 2307 ای سی، اور ہوپ اینڈ پرسیویرینس لاج نمبر 782 کی سابقہ قیام گاہ ہے؛ جو کہ یونائیٹیڈ گرین لاج آف انگلینڈ سے منظور شدہ تھے۔

جب سے اس وقت کے وزیر اعظم، ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء میں پاکستان میں فری میسنری پر پابندی عائد کی تو اس کے بعد سے اس عمارت کو میسونک مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا گیا ہے۔[100]

مندر

کنہیالال لکھتا ہے کہ پرانی عمارات کے مندر اور ہندوءوں کی عبادت گاہیں بہت ہیں جن کا شمار نہیں ہو سکتا۔ چھوٹے چھوٹے شوالے و ٹھاکر دوارے و دیوی دوارے بے شمار ہیس۔ان میں سے و جدید دونوں قسم کے ہیں۔ مگر سکھی عہد میں پرانی عمارات کے مندر بھی ازسر نو نباءے گءے تھےجن کی عمارات تازہ نظرآتی ہیں۔بعض مندر جو اُن سے نامی گرامی ہیں اورخاص و عام وہاں جا کر پوجا کرتے ہیں اس قسم میں لکہے جاتے ہیں۔ مگریاد رہے کہ یہ کنہیالال نے 1882ء میں اپنی کتاب تاریخ لاہور میں لکھا تھا ۔اور آج بہت سہ مقامات ختم ہو چکے ہیں۔

  • شوالہ باواٹھاکرگر
  • شوالہ راجہ دینا ناتھ راجہ کلانور
  • شوالہ بخشی بھگت رام
  • مکان دھرم سالہ بابا خدا سنگھ
  • ٹھاکر دوارہ راجہ تیجا سنگھ
  • شوالے گلاب رائے جمعدار
  • کرشن مندر
  • والمیکی مندر
مزارات / مقبرے
مقبرہ جہانگیر
مقبرہ انارکلی

مزارات اولیا

داتا گنج بخش کا مزار

لاہور میں اولیا اکرام کے بے شمار مزارات ہیں۔

  1. علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش
  2. میراں حسین زنجانی
  3. الشیخ طاہر بندگی مجددی نقشبندی
  4. شیخ سید طاہر علا الدین بغدادی
  5. علامہ اقبال قادری
  6. آخوند زادہ مولانا پیر سیف الرحمن المبارک
  7. ابو انجم احمد ایاز

حویلیاں

حویلی نو نہال سنگھ

عجائب گھر

لاہور عجائب گھر

دیگر متفرق عمارتیں و مقامات

واپڈا ہاؤس
اسلامی سمٹ مینار

قبرستان

لاہور کے ہر علاقے میں مقامی قبرستان موجود ہیں، تاہم مندرجہ ذیل قبرستان خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔

تفریحی مقامات

مینار پاکستان
شالامار باغ
تاریخی
جدید

معیشت

لاہور سٹاک ایکسچینج

لاہور سٹاک ایکسچینج (گارنٹی) لمیٹڈ اکتوبر 1970ء کو سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آرڈینینس 1969 کے تحت وجود میں آئی۔ آغاز میں اس کے ممبران کی تعداد 63 تھی جو اب بڑھ کر 650 ہو چکی ہے۔ لاہور سٹاک ایکسچینج نے فیصل آباد اور سیالکوٹ میں تجارت کے لیے اپنی برانچیں کھول رکھی ہیں۔ [101]

اہم تجارتی مراکز

ایم ایم عالم روڈ
انارکلی بازار

کھیل

قذافی اسٹیڈیم

لاہور کامیابی سے بہت سے بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلوں کی میزبانی کر چکا ہے جن میں 1990ء کا ہاکی عالمی کپ اور 1996ء کا کرکٹ عالمی کپ کا فائنل شامل ہیں۔ اکثر بڑے کھیلوں کے ہیڈ کوارٹر مثلا کرکٹ، ہاکی، رگبی، فٹ بال وغیرہ لاہور میں واقع ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کا صدر دفتر بھی لاہور میں واقع ہے۔

لاہور میراتھن

لاہور میراتھن ایک سالانہ سڑک میراتھن ہے جو 2005ء کے بعد لاہور، پاکستان میں منعقد ہونا شروع ہوئی۔ میراتھن کی اصل طوالت 42،195 کلومیٹر ہے تاہم اس میں دیگر دوڑیں جن میں 10 کلومیٹر ریس، 5 کلومیٹر "فیمیلی فن رن" اور جسمانی اور بصری خرابی والے لوگوں کے لیے 3 کلومیٹر ریس بھی شامل ہوتی ہے۔ 2007ء میں تقریباً 26،000 لوگوں نے لاہور میراتھن میں حصہ لیا، جس سے اس کا شمار دنیا کے بڑے میراتھن میں کیا جاتا ہے۔ [2]

کھیلوں کے اہم میدان

لاہور میں واقع کھیلوں کے اہم میدانوں کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔

قذافی اسٹیڈیم

قذافی اسٹیڈیم

قذافی اسٹیڈیم لاہور ، پاکستان میں واقع سب سے بڑا کھیل کا میدان ہے۔ یہاں کرکٹ کے مقابلے منعقد ہوتے ہیں۔ قذافی اسٹیڈیم میں پاکستانی کرکٹ ٹیم اور لاہور کی مقامی کرکٹ ٹیمیں کھیلتی ہیں۔ [102]

یہ اسٹیڈیم 1959ء میں تعمیر ہوا، اور اس کا ڈیزائن نصر الدین مراد خان نے مکمل کیا۔ اس میدان پر پہلا کرکٹ ٹیسٹ میچ پاکستان اور آسٹریلیا کی ٹیموں کے مابین سنہ انیس سو انسٹھ میں اکیس سے چھبیس نومبر کے دوران میں کھیلا گیا ۔ اور اس میں 60 ہزار تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے جس کی بدولت یہ ملک کا سب سے بڑا کھیل کا میدان ہے۔ اس کا نام لیبیا کے صدر معمر قذافی کے نام پر رکھا گبا۔

لاہور جمخانہ کلب

لاہور جمخانہ کلب

لاہور جمخانہ کلب لاہور، پاکستان میں ایک سماجی اور کھیلوں کا کلب ہے۔ یہ مال روڈ لاہور پر واقع ہے۔ [103] یہ 1 مئی، 1878ء کو قائم ہوا۔ اس کا رقبہ 117،03 ایکڑ (0.4736 کلومیٹر) ہے۔

نیشنل ہاکی اسٹیڈیم

نیشنل ہاکی اسٹیڈیم لاہور، پاکستان میں ایک ہاکی اسٹیڈیم ہے۔ اسٹیڈیم میں 45،000 تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ [104]

فورٹریس اسٹیڈیم

فورٹریس اسٹیڈیم جسے مقامی طور پر فورٹریس بھی کہا جاتا ہے ایک کھلی جگہ پر مقبول خریداری مراکز، ریستوران، کیفے اور تفریحی پارک اور ایک اسپورٹس اسٹیڈیم پر مشتمل ہے۔ یہ لاہور کنٹونمنٹ، لاہور میں واقع ہے۔ فورٹریس اسٹیڈیم شہر کے سب سے زیادہ مصروف تجارتی علاقوں میں سے ایک ہے۔ اسٹیڈیم لاہور کے مشہور تہوار قومی میلہ موشیاں (نیشنل ہارس اینڈ کیٹل شو) کا مقام بھی ہے۔

ریس کورس

ریس کورس پارک میں واقع جھیل

جیلانی پارک سے ملحقہ ریس کورس گھڑ ڈور اور پولو کا میدان ہے۔ جیلانی پارک جسے عام طور پر ریس کورس پارک کہا جاتا ہے لاہور، پنجاب، پاکستان میں ایک تفریحی پارک ہے۔ [105] یہ جیل روڈ پر سروسز ہسپتال کے سامنے واقع ہے۔ پارک میں ایک جھیل بھی موجود ہے۔ [106]

لاہور رگبی فٹ بال کلب

لاہور رگبی فٹ بال کلب لاہور، پاکستان میں واقع ایک رگبی کلب ہے۔ [107]

لاہور سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن گراؤنڈ

لاہور سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن گراؤنڈ (پرانا نام: پنجاب کرکٹ ایسوسی ایشن گراؤنڈ) لاہور، پاکستان کے مشہور اسٹیڈیم قذافی اسٹیڈیم کے بالمقابل ایک گراؤنڈ ہے۔ اس گراؤنڈ میں فرسٹ کلاس کرکٹ، لسٹ اے کرکٹ اور ٹوئنٹی/20 کرکٹ میچ کھیلے جاتے ہیں۔ یہ گراؤنڈ علاقائی کرکٹ ایسوسی ایشن لاہور کی زیر نگرانی ہے۔ علاقائی کرکٹ ایسوسی ایشن لاہور کے موجودہ صدر ایزد حسین سید ہیں۔ 1980ء سے نومبر 2012ء تک اس گراؤنڈ میں 265 فرسٹ کلاس کرکٹ میچ، 105 لسٹ اے کرکٹ میچ اور 12 ٹوئنٹی/20 کرکٹ میچ کھیلے جا چکے ہیں۔

ھیلوں کی ٹیمیں

لاہور قلندرز

لاہور قلندرز

لاہور قلندرز پاکستان سپر لیگ میں ایک پاکستانی ٹوئنٹی/20 کرکٹ ٹیم ہے۔ ٹیم پنجاب کے دار الحکومت لاہور پر مبنی ہے۔ یہ ٹیم پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے پاکستان سپر لیگ کے قیام کے نتیجے میں تشکیل پائی۔ ٹیم کے کپتان اظہر علی ہیں۔یہ قطر لبریکنٹس کی ملکیت ہے۔[108]

لاہور لائینز

لاہور لائینز لاہور، پاکستان سے تعلق رکھنے والی ایک کرکٹ ٹیم ہے۔ اس ٹیم کی تاسیس لاہور ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام 2004/05 میں عمل میں آئی۔ اس ٹیم کا گھر میدان لاہور سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن گراؤنڈ ہے۔ مقامی سطح پر یہ ٹیم قومی ٹی/20 کپ میں حصہ لیتی ہے۔ اس ٹیم نے اپنا پہلا اعزاز قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کھیلے گئے میچ میں کراچی ڈولفنز کو 37 سکور سے ہرا کر حاصل کیا۔[109]

لاہور ایگلز

لاہور ایگلز لاہور، پنجاب، پاکستان سے تعلق رکھنے والی ایک کرکٹ ٹیم ہے۔ یہ ٹیم قومی ٹی/20 کپ میں شرکت کرتی ہے۔ اس ٹیم نے کھیل کا آغاز 2006ء میں کیا اور اس کا گھر میدان قذافی اسٹیڈیم لاہور ہے۔ اس ٹیم کے منتظم نواب منصور حیات خان ہیں۔ [110]

واپڈا ایف سی

واپڈا ایف سی یا واپڈا فٹبال کلب ایک پاکستانی فٹبال کلب ہے جو پاکستان پریمیئر لیگ میں حصہ لیتا ہے۔ واپڈا 7 مرتبہ پاکستانی چیمپئن بن چکی ہے۔ [111]

لاہور بادشاہز

لاہور بادشاہز انڈین کرکٹ لیگ کے 2008 اور 2008-09 کے کرکٹ سیزن میں کرکٹ کھیلنے والی ایک ٹیم تھی۔ اس ٹیم کے کپتان پاکستان قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان انضمام الحق تھے۔ [112][113] اس ٹیم نے اپنا پہلا آئی سی ایل میچ 11 مارچ 2008 کو سابقہ ٹورنامنٹ کی چیمپئن چنائی سپر سٹارز کے خلاف کھیلا۔

صحت

لاہور چونکہ ابتدا سے ہی پنجاب کا دار الحکومت اور مرکز رہا ہے اس لیے دیگر سہولیات کی طرح یہاں صحت عامہ کی اعلیٰ سہولیات مسیر ہیں۔ درج ذیل لاہور کے اہم ہسپتالوں اور طبی درس گاہوں کی ایک فہرست ہے۔

کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی

طبی درس گاہیں

ہسپتال

سروسز ہسپتال

درج ذیل لاہور کے بڑے اور قابل ذکر اور ہسپتال ہیں۔

ثقافت

ملکہ نورجہاں

لاہور برصغیر کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے اور ابتدا ہی سے اہم تجارتی گزر گاہ اور ثقافت کا مرکز رہا ہے، جس کا ماضی تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ یہاں کی تعمیرات برصغیر کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں منفرد ہیں۔ پنے باغات اور قدرتی حسن کے باعث اسے عروس البلاد کہا جاتا رہا ہے۔مغل شہنشاہ جہانگیر کی ملکہ نور جہاں نے لاہور کے بارے میں کہا تھا۔

لاہور رابجان برابر خریدہ ایم جاں دارایم و جنت دیگر خریدہ ایم

لاہور کے بارے میں دو کہاوتیں بہت مشہور ہیں۔

"جنے لہور نئیں ویکھیا اوہ جمیا ای نئیں" (پنجابی)

جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔

"لہور لہور اے" (پنجابی)

لاہور لاہور ہے۔ یعنی لاہور لاثانی ہے۔

فلمیں

لولی وڈ

لولی وڈ پاکستانی فلمی صنعت کے مرکز کو کہا جاتا ہے۔ اس میں لولی - پاکستان کے شہر لاہور سے لیا گیا ہے جہاں یہ صنعت قائم ہے۔

لاہور کے پس منظر میں بننے والی اہم فلمیں

مغل اعظم
مغل اعظم

یہ لاہور کے پس منظر میں بننے والی اہم فلموں کی فہرست ہے۔

تہوار

بسنت پتنگ کا تہوار

بسنت

بسنت پتنگ کا تہوار بھارت اور پاکستان دونوں جانب کی پنجاب ریاستوں میں مقبول ہے۔ یہ تہوار تاریخی طور پر راجہ رنجیت سنگھ کے دور میں بہار کا خیرمقدم کرنے کے لیے منائی جاتی تھی۔ تہوار کی تقریبات پر مذہبی رنگ غالب تھا۔ مہاراجہ کا میلے میں باقاعدہ گرنتھ صاحب سننا اور گرنتھی کو تحائف دینا مذہبی رسومات کے زمرے میں آتا ہے۔ ہندو برہمنوں کو نذرانے دیتے ہیں تو سکھ گرنتھیوں کو تحائف دیتے ہیں۔ سکھ مذہب میں بسنتی یا زرد رنگ کو بھی ایک خاص تقدس کا مرتبہ حاصل ہے۔[128]

لاہور میں بسنت کا تہوار انتہائی جوش و خروش سے منایا جاتا تھا۔ ایک زمانہ میں بسنت لاہور میں اس طرح منایا جاتا تھا کہ پاکستان کے دور دراز سے دوست احباب و رشتہ دار صرف بسنت منانے لاہور آتے تھے۔دنیا کے مختلف حصوں سے بھی منچلے بسنت کی نیرنگیوں سے لظف اندوز ہونے کے لیے لاہور کھنچے آتے تھے۔شہر کے ہوٹل اس موقع پر خاص طور پر بک ہوتے تھے۔ شہر کی تمام بلڈنگوں کی چھتوں پر بسنت پاٹیوں کا اہتمام ہوتا تھا۔ لاہور شہر کا آسمان دہنک و رنگ و نور کا منظر پیش کرتا تھا اور ہر سو نغموں کی گونج ہوتی اور چھوٹے بڑے مختلف رنگوں کے پتنگ آسمان پر تیرتے نظر آتے تھے۔ پورا شہر رات کو جاگتا تھا موسیقی کی محفلوں اور بو کاٹا کی آوازیں آتی رہتی تھیں۔بڑے بڑے لاوڈ سپیکروں کی مدد سے وہ اودہم مچتا کہ کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی۔ منچلے چھتوں پر ڈہولچیوں کا بھی بنوبست کرتے اور بو کاٹا کےساتھ رقص کرتے۔

تاہم کئی ہوئی پتنگوں کی ڈور سے راہگیروں کے زخمی اور ہلاک ہونے کے نتیجے میں حکومت پنجاب نے بسنت کے تہوار پر پتنگ بازی کی ممانعت کر دی۔ [129][130]

عرس داتا گنج بخش

داتا دربار

سید ابوالحسن علی بن عثمان الجلابی الہجویری معروف بہ داتا گنج بخش کا لاہور کی تاریخ میں اہم مقام ہے۔ لاہور کو اسی مناسبت سے داتا کی نگری بھی کہا جاتا ہے۔ عرس داتا گنج بخش لاہور کا سب سے بڑا ثقافتی تہوار بھی سمجھا جاتا ہے۔ اتا صاحب کا عرس صفر کی اٹھارہ تاریخ سے شروع ہوتا ہے۔ یہ روایتی میلہ داتا گنج بخش کے مزار اور قریبی مینار پاکستان کے تمام علاقے پر محیط ہوتاہے۔ عقیدت مند مزار پر فاتحہ خوانی اور دعا اور میلہ میں خریداری کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں موجود تفریحی سہولتوں اور سرکس وغیرہ سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ داتا گنج بخش کی تین روزہ تقریبات ہوتی ہیں اور ان کے دوران میں مزار پر چادر پوشی کا سلسلہ جاری رہتا ہے، زائرین فاتحہ خوانی کرتے ہیں، سلام پیش کرتے ہیں، منتیں مانتے ہیں اور ساتھ ہی مزار سے متصل مسجد کے احاطے میں تینوں دن مجالسِ مذاکرہ منعقد ہوتی ہیں جن میں دین ِ اسلام اور تصوف کے موضوعات کے ساتھ ساتھ سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کے سیرت وکردار پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے۔ مزار پر دودھ کی سبیل لگتی ہے اور تینوں دن سماع کی محفلیں ہوتی ہیں جن میں شرکت کرنا ہر قوال پارٹی اپنے لیے اعزاز سمجھتی ہے۔ [131][132]

میاں میر کا عرس

میاں میر کا مزار

میر محمد المعروف میاں میر پیر لاہوری ایک مسلم صوفی جو لاہور (موجودہ پاکستان) کے علاقے دھرم پورہ میں مقیم رہے۔ ملک کے طول و عرض سے بڑی تعداد میں زائرین عرس کی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں۔ مزار کے احاطے میں زائرین دئیے روشن کرتے ہیں۔ عرس کے موقع پر قریبی علاقے میں کھانوں اور دیگر دکانیں سجائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ارد گرد کے علاقے میں ایک میلے کا سماں ہوتا ہے۔ [133][134][135][136]

میلہ چراغاں

میلہ چراغاں یا میلہ شالامار دراصل پنجابی صوفی شاعر شاہ حسین کے عرس کی تین روزہ تقاریب کا نام ہے۔ یہ تقاریب شاہ حسین کے مزار، جو لاہور کے علاقے باغبانپورہ میں واقع کے قریبی علاقوں میں منعقد ہوتی ہیں۔ باغبانپورہ کا علاقہ لاہور شہر کے باہر شالیمار باغ کے قریب واقع ہے۔ یہ تقاریب پہلے شالامار باغ کے اندر منعقد ہوا کرتی تھیں مگر صدر ایوب خان کے صدارتی حکم 1958ء کے بعد سے شالیمار باغ میں ان تقاریب کے انعقاد پر پابندی عائد کر دی گئی۔
پہلے پہل یہ عرس پنجاب میں سب سے بڑی تقریب سمجھا جاتا تھا مگر اب یہ بسنت کے بعد دوسرا بڑا ثقافتی تہوار ہے۔ ماضی قریب تک یہ میلہ لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا ثقافتی میلہ گردانا جاتا تھا۔[137]۔ اب بسنت پر پابندی کے باعٹ یہ پھر بڑی تقریبات میں شمار ہوتا ہے۔ [138][139][140][141][142][143]

شاه جمال کا عرس

شاه جمال عرس

شاه جمال درگاه لاہور، پنجاب، پاکستان میں واقع صوفی بزرگ بابا شاه جمال کا مقبرہ ہے۔ یہ فورمن کرسچین کالج کے بالمقابل مسلم ٹاؤن میں واقع ہے۔ مقبرے کے گرد ایک مسجد بھی تعمیر کی گئی ہے۔ اسلامی تقویم کے مہینے ربیع الثانی کی ۳، ۴ اور ۵ تاریخ کو سالانہ عرس منعقد ہوتا ہے۔ 2006ء میں 300،000 افراد نے 366 ویں سالانہ عرس میں حصہ لیا۔ [144]

قومی میلہ مویشیاں

قومی میلہ مویشیاں یا ہارس اینڈ کیٹل شو فورٹریس اسٹیڈیم میں نومبر کے آخری ہفتے میں پانچ دنوں کے لیے منعقد ہوتا ہے۔ میلے کی سرگرمیاں میں مویشیوں کی دوڑیں، مویشی رقص، نیزہ بازی، ٹیٹو شو، لوک موسیقی، ، رقص، بینڈ، ثقافتی فلوٹ ور لوک کھیل میں شامل ہوتے ہیں۔ [145][146]

ورلڈ پرفارمنگ آرٹس فیسٹیول

الحمرا آرٹس کونسل

ورلڈ پرفارمنگ آرٹس فیسٹیول الحمرا آرٹس کونسل میں ہر موسم خزاں (عام طور پر نومبر میں) منعقد کیا جاتا ہے۔ یہ دس روزہ میلہ گانے کے پروگرام، تھیٹر، محافل موسیقی، رقص ور کٹھ پتلی شو پر مشتمل ہوتا ہے۔ [147] تہوار میں بین الاقوامی اداکاروں کی طرف سے کارکردگی کا مظاہرہ بھی کیا جاتا ہے۔ تہوار کے دوران میں اوسط 15-20 مختلف شوز میں فنکار اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ [148][149][150]

فیض انٹرنیشنل فیسٹول

فیض بین الاقوامی میلہ موسیقی، فن اور ادب کا ایک سالانہ میلہ ہے جو فیض احمد فیض کی یاد میں ہر سال لاہور کے الحمرا آرٹس کونسل میں منعقد کیا جاتا ہے۔ اس کو دورانیہ تین روز ہوتا ہے جس میں ملکی اور بین الاقوامی مایہ ناز فنکار اور ادیب شرکت کرتے ہیں۔ [151]

لاہور محفل موسیقی

لاہور محفل موسیقی

لاہور محفل موسیقی ایک سالانہ دو روزہ میلہ ہے۔ ایل ایم ایم کا مقصد موسیقی کی صنعت سے متعلقہ افراد اور موسیقی کے تعلیمی ماہرین کو ایک جگہ جمع کرنا اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

لاہور ادبی میلہ

لاہور ادبی میلہ یا لاہور لٹریری فیٹوللاہور، پنجاب، پاکستان میں سالانہ منعقد کیا جانے والا ایک بین الاقوامی ادبی میلہ ہے۔ [152][153]

لاہور انٹرنیشنل بک فیئر

لاہور انٹرنیشنل بک فیئر لاہور، پاکستان میں منعقد ہوانے والا ایک بڑا سالانہ بین الاقوامی کتاب میلہ ہے۔ [154] یہ پانچ دن کے لیے ایکسپو سینٹر، [155] جوہر ٹاؤن، لاہور میں منعقد ہوتا ہے جس میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد شرکت کرتے ہیں۔ [156]

دیگر

اس کے علاوہ پورے ملک کی طرح مذہبی اور قومی تہوار بھی جوش و جذبے سے منائے جاتے ہیں۔ درج ذیل چند اہم تہواروں کی ایک فہرست ہے۔

قومی
علامہ اقبال کا مزار
مذہبی

ہیرا منڈی

مغل دور میں ہیرا منڈی رقص اور موسیقی کے لیے مشہور تھی۔ یہ شہر کے طوائفی ثقافت کا مرکز تھا۔ لوگ بصری تفریح اور موسیقی کے لیے یہاں جاتے تھے۔بعض روایات کے مطابق یہاں سکھ حکومت کے ہندو ڈوگرہ وزیر اعظم دھیان سنگھ کے بیٹے ہیرا سنگھ کی حویلی تھی ہیرا سنگھ مہاراجہ رنجیت کا منہ بولا بیٹا بناہوا تھا ۔اپنے باپ دھیان سنگھ کی موت کے بعد وہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوا۔اس کی حویلی اور نام کی مناسبت سے لاہورشہر کا یہ حصہ ہیرا منڈی کہلاتا ہے۔

برطانوی راج کے دوران میں برطانوی فوجیوں کی تفریح ​​کے لیے پرانی انارکلی بازار میں کوٹہے تیار کیے گئے۔ اس کے بعد انہیں لوہاری دروازہ اور پھر ٹکسالی دروازہ پر منتقل کر دیا گیا۔ بعد ازیں انہیں موجودہ ہیرا منڈی کے مقام پر منتقل کر دیا گیا۔

لاہور کی مشہور شخصیات

اداکار اور فلم ساز

دیو آنند
علی ظفر

فنکار

اعجاز انور

کھلاڑی

اعصام الحق قریشی
وسیم اکرم

صحافی

موسیقی

نصرت فتح علی خان

سیاستدان

نواز شریف

اسکالرز / علماء

عنایت اللہ خاں مشرقی

ادیب اور شاعر

حبیب جالب
رڈیارڈ کپلنگ

سیاست

قومی اسمبلی پاکستان

مجلس شوریٰ پاکستان

قومی اسمبلی پاکستان کی پارلیمان کا ایوان زیریں ہے۔ جس کی صدارت اسپیکر کرتا ہے جو صدر اور ایوان بالا سینیٹ کے چیئرمین کی عدم موجودگی میں ملک کے صدر کی حیثیت سے ذمہ داریاں انجام دیتا ہے۔ عام انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت کا سربراہ عموماً وزیر اعظم منتخب ہوتا ہے جو قائد ایوان بھی ہوتا ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق قومی اسمبلی 342 نشستوں پر مشتمل ہے۔ لاہور سے قومی اسمبلی کی 13 نشستیں ہیں۔ جس کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔ [157]

حکومت پنجاب

حکومت پنجاب حکومت پاکستان کی ایک اکائی جس کی عملداری صوبہ پنجاب میں محدود ہے۔ اس کے سرکاری دفاتر لاہور میں واقع ہیں جو صوبہ پنجاب کا صدر مقام بھی ہے۔ [158]

عہدیدار

پنجاب صوبائی اسمبلی

پنجاب صوبائی اسمبلی

پنجاب صوبائی اسمبلی پاکستان میں پنجاب کا قانون ساز ایوان ہے کو کہ لاہور میں واقع ہے۔ یہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 106 کے تحت قائم کی گئی۔ اس ایوان کی 371 نشستیں ہیں جن میں سے 305 پر براہ راست انتخابات منعقد ہوتے ہیں جبکہ 66 نشستیں خواتین اور غیر مسلم اقلیتوں کے لیے مخصوص ہیں۔ لاہور سے پنجاب صوبائی اسمبلی کے لیے پچیس حلقے ہیں جن کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔ [161]

انتظامی تقسیم

لاہور ڈویژن

لاہور ڈویژن

لاہور ڈویژن پاکستان کے صوبہ پنجاب کی ایک انتظامی تقسیم تھی۔ 2000 کی حکومتی اصلاحات کے نتیجے میں اس تیسرے درجے کی تقسیم کو ختم کر دیا گیا۔ 2008ء کے عام انتخابات کے بعد پنجاب نے اسکے آٹھ ڈویژنوں کو بحال کر دیا۔ [162]

انتظامیہ

لاہور ڈویژن کے چار اضلاع مندرجہ ذیل ہیں۔

ضلع لاہور

ضلع لاہور

ضلع لاہور پاکستان کے صوبہ پنجاب کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ضلع ہے۔ اس کا مرکزی شہر لاہور ہے جو پنجاب کا دار الحکومت ہے۔ 1998ء کے میں کی آبادی کا تخمینہ 63٫18٫745 تھا۔ ضلع لاہور میں عمومی طور پر پنجابی، اردو وغیرہ بولی جاتی ہیں۔ اس کا رقبہ 1772 مربع کلومیٹر ہے۔ لاہور کی سطح سمندر سے اوسط بلندی 217 میٹر (711.94 فٹ) ہے۔

تحصیلیں

اسے انتظامی طور پر دو بڑی تحصیلوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جو درج ذیل ہیں۔

انتظامی ٹاؤن
  1. راوی
  2. شالامار
  3. واہگہ
  4. عزیز بھٹی
  5. داتا گنج بخش
  6. گلبرگ
  7. سمن آباد
  8. اقبال
  9. نشتر
  10. A کنٹونمنٹ
[163]
یونین کونسلیں

2017ء کے مطابق لاہور میں 274 یونین کونسل موجود ہیں۔[164]

  • یونین کونسل نمبر 1 بیگم کوٹ شاہدرہ
  • یونین کونسل نمبر 2 یوسف پارک
  • یونین کونسل نمبر 3 کوٹ کمبوہ
  • یونین کونسل نمبر 4 شمس آباد شاہدرہ
  • یونین کونسل نمبر 5 چاہ جھابے والا
  • یونین کونسل نمبر 6 عزیز کالونی شاہدرہ
  • یونین کونسل نمبر 7 لاجپت نگر
  • یونین کونسل نمبر 8 فیصل پارک
  • یونین کونسل نمبر 9 جاوید پارک
  • یونین کونسل نمبر 10 قیصر ٹاؤن
  • یونین کونسل نمبر 11 مجید پارک
  • یونین کونسل نمبر 12 قاضی پارک
  • یونین کونسل نمبر 13 راوی کلفٹن کالونی
  • یونین کونسل نمبر 14 لڈھے شاہ
  • یونین کونسل نمبر 15 قلعہ لکشمن سنگھ
  • یونین کونسل نمبر 16 اوقاف کالونی
  • یونین کونسل نمبر 17 فاروق گنج
  • یونین کونسل نمبر 18 حنیف پارک
  • یونین کونسل نمبر 19 صدیق پورہ
  • یونین کونسل نمبر 20 لیرکس پارک
  • یونین کونسل نمبر 21 بدر کالونی
  • یونین کونسل نمبر 22 داتا نگر
  • یونین کونسل نمبر 23 صدیقہ کالونی
  • یونین کونسل نمبر 24 بھگت پورہ
  • یونین کونسل نمبر 25 جھگیاں
  • یونین کونسل نمبر 26 اکرم پارک
  • یونین کونسل نمبر 27 فضل پارک
  • یونین کونسل نمبر 28 جہانگیر پارک
  • یونین کونسل نمبر 29 عثمان گنج
  • یونین کونسل نمبر 30 منظور آباد
  • یونین کونسل نمبر 31 فیض باغ
  • یونین کونسل نمبر 32 موچی گیٹ
  • یونین کونسل نمبر 33 اعظم مارکیٹ
  • یونین کونسل نمبر 34 شاہ عالم مارکیٹ
  • یونین کونسل نمبر 35 رنگ محل
  • یونین کونسل نمبر 36 لوہاری گیٹ
  • یونین کونسل نمبر 37 بھاٹی گیٹ
  • یونین کونسل نمبر 38 شاہی قلعہ
  • یونین کونسل نمبر 39 سوتر منڈی
  • یونین کونسل نمبر 40 حسین پارک
  • یونین کونسل نمبر 41 مکھن پورہ
  • یونین کونسل نمبر 42 دھوبی گھاٹ
  • یونین کونسل نمبر 43 سلطان پورہ
  • یونین کونسل نمبر 44 مصری شاہ
  • یونین کونسل نمبر 45 چاہ میراں
  • یونین کونسل نمبر 46 کاچھوپورہ
  • یونین کونسل نمبر 47 وسن پورہ
  • یونین کونسل نمبر 48 راضی پورہ
  • یونین کونسل نمبر 49 قصور پورہ
  • یونین کونسل نمبر 50 شفیق آباد
  • یونین کونسل نمبر 51 امین پارک
  • یونین کونسل نمبر 52 ناصر پارک
  • یونین کونسل نمبر 53 کریم پارک
  • یونین کونسل نمبر 54 دربار پیر مکی
  • یونین کونسل نمبر 55 میاں شمس الدین پارک
  • یونین کونسل نمبر 56 میاں منشی پارک
  • یونین کونسل نمبر 57 توحید پارک
  • یونین کونسل نمبر 58 سنت نگر/ اسلام پورہ
  • یونین کونسل نمبر 59 چوہان پارک
  • یونین کونسل نمبر 60 آؤٹ فال روڈ / چوہان روڈ
  • یونین کونسل نمبر 61 پرانا انارکالی
  • یونین کونسل نمبر 62 بیڈن روڈ
  • یونین کونسل نمبر 63 نیو انارکلی
  • یونین کونسل نمبر 64 ریواز گارڈن
  • یونین کونسل نمبر 65 اسلام پورہ
  • یونین کونسل نمبر 66 ساندہ
  • یونین کونسل نمبر 67 صداقت پارک
  • یونین کونسل نمبر 68 مزنگ
  • یونین کونسل نمبر 69 سر گنگا رام ہسپتال
  • یونین کونسل نمبر 70 سرائے سلطان
  • یونین کونسل نمبر 71 شبلی ٹاؤن
  • یونین کونسل نمبر 72 عثمان گنج
  • یونین کونسل نمبر 73 راج گڑھ
  • یونین کونسل نمبر 74 ساندہ خورد
  • یونین کونسل نمبر 75 گلشن راوی
  • یونین کونسل نمبر 76 نیو چوبرجی پارک
  • یونین کونسل نمبر 77 گلشن راوی ایف بلاک
  • یونین کونسل نمبر 78 گلشن راوی اے بلاک
  • یونین کونسل نمبر 79 رستم کالونی
  • یونین کونسل نمبر 80 گلگشت کالونی
  • یونین کونسل نمبر 81 جی او آر لاہور
  • یونین کونسل نمبر 82 اسلامیہ پارک
  • یونین کونسل نمبر 83 بہاولپور ہاؤس
  • یونین کونسل نمبر 84 پیر غازی روڈ اچھرہ
  • یونین کونسل نمبر 85 رحمان پورہ
  • یونین کونسل نمبر 86 نیو سمن آباد
  • یونین کونسل نمبر 87 محمد پورہ
  • یونین کونسل نمبر 88 کمبوہ کالونی
  • یونین کونسل نمبر 89 نوان کوٹ سمن آباد
  • یونین کونسل نمبر 90 زبیدہ پارک
  • یونین کونسل نمبر 91 ڈونگی گراؤنڈ سمن آباد
  • یونین کونسل نمبر 92 یونین پارک
  • یونین کونسل نمبر 93 شاہین آباد / شیرا کوٹ
  • یونین کونسل نمبر 94 سوڈیوال / طارق کالونی
  • یونین کونسل نمبر 95 ڈھولن وال
  • یونین کونسل نمبر 96 سبزہ زار بلاک بی
  • یونین کونسل نمبر 97 سیدپور
  • یونین کونسل نمبر 98 سبزہ زار
  • یونین کونسل نمبر 99 نیو شالیمار کالونی
  • یونین کونسل نمبر 100 بابو صابو
  • یونین کونسل نمبر 101 کوٹ کمبوہ خورد
  • یونین کونسل نمبر 102 جھگیاں نگرا
  • یونین کونسل نمبر 103 سبزہ زار کے بلاک
  • یونین کونسل نمبر 104 جعفریہ کالونی
  • یونین کونسل نمبر 105 حسن ٹاؤن / اعوان ٹاؤن
  • یونین کونسل نمبر 106 مصطفٰی پارک
  • یونین کونسل نمبر 107 پکی ٹھٹھی
  • یونین کونسل نمبر 108 کروالوار
  • یونین کونسل نمبر 109 مرغزار کالونی
  • یونین کونسل نمبر 110 ٹھوکر نیاز بیگ
  • یونین کونسل نمبر 111 ہنجروال
  • یونین کونسل نمبر 112 مصطفٰی ٹاؤن
  • یونین کونسل نمبر 113 ایاز بیگ کنال ویو
  • یونین کونسل نمبر 114 جوہر ٹاؤن
  • یونین کونسل نمبر 115 جوہر ٹاؤن / پی آئی اے سوسائٹی
  • یونین کونسل نمبر 116 ای ایم ای سوسائٹی
  • یونین کونسل نمبر 117 شاہ پور کانجراں
  • یونین کونسل نمبر 118 سگنل شاپ
  • یونین کونسل نمبر 119 ریلوے کالونی
  • یونین کونسل نمبر 120 درس چھوٹے میاں
  • یونین کونسل نمبر 121 کراؤن پارک
  • یونین کونسل نمبر 122 درس بڑے میاں
  • یونین کونسل نمبر 123 گڑھی شاہو
  • یونین کونسل نمبر 124 برگینزا کوارٹرز
  • یونین کونسل نمبر 125 باغبان پورہ
  • یونین کونسل نمبر 126 بیگم پورہ
  • یونین کونسل نمبر 127 مخدوم بہاالدين شاہ
  • یونین کونسل نمبر 128 حضرت مادھو لال حسین
  • یونین کونسل نمبر 129 محمد دین کالونی
  • یونین کونسل نمبر 130 مدینہ کالونی
  • یونین کونسل نمبر 131 نصیرآباد
  • یونین کونسل نمبر 132 محمود بوٹی
  • یونین کونسل نمبر 133 گرین پارک
  • یونین کونسل نمبر 134 مسلم آباد
  • یونین کونسل نمبر 135 سراج پورہ
  • یونین کونسل نمبر 136 دروغے والا
  • یونین کونسل نمبر 137 شاہدی پورہ
  • یونین کونسل نمبر 138 مومن پورہ
  • یونین کونسل نمبر 139 نشتر کالونی
  • یونین کونسل نمبر 140 فتح گڑھ
  • یونین کونسل نمبر 141 رشید پورہ
  • یونین کونسل نمبر 142 نبی پورہ
  • یونین کونسل نمبر 143 سلامت پورہ
  • یونین کونسل نمبر 144 وارا ستار
  • یونین کونسل نمبر 145 ہربنس پورہ
  • یونین کونسل نمبر 146 پنج پیر
  • یونین کونسل نمبر 147 رزاق کالونی
  • یونین کونسل نمبر 148 تاج پورہ
  • یونین کونسل نمبر 149 الفیصل ٹاؤن
  • یونین کونسل نمبر 150 رینجر ہیڈکوارٹر
  • یونین کونسل نمبر 151 گلدشت کالونی
  • یونین کونسل نمبر 152 نواں پنڈ ہربنس پورہ
  • یونین کونسل نمبر 153 انگوری باغ سکیم
  • یونین کونسل نمبر 154 کوٹ پیر عبدالرحمان
  • یونین کونسل نمبر 155 فیصل پارک
  • یونین کونسل نمبر 156 سہواری
  • یونین کونسل نمبر 157 گیج مغلپورہ
  • یونین کونسل نمبر 158 نبی نگر غازی آباد
  • یونین کونسل نمبر 159 غازی آباد
  • یونین کونسل نمبر 160 ناظم آباد
  • یونین کونسل نمبر 161 چین سکیم (گجر پورہ)
  • یونین کونسل نمبر 162 قمر دین پارک
  • یونین کونسل نمبر 163 ملتانی کالونی
  • یونین کونسل نمبر 164 رحمت پورہ
  • یونین کونسل نمبر 165 غوس پارک سرفراز کالونی
  • یونین کونسل نمبر 166 شاہنواز پارک
  • یونین کونسل نمبر 167 بلال پارک
  • یونین کونسل نمبر 168 گوالمنڈی
  • یونین کونسل نمبر 169 نسبت روڈ گوالمنڈی
  • یونین کونسل نمبر 170 شاہ ابوالمعلی
  • یونین کونسل نمبر 171 قلعہ گجر سنگھ
  • یونین کونسل نمبر 172 بی بی پاک دامن
  • یونین کونسل نمبر 173 حبیب اللہ روڈ
  • یونین کونسل نمبر 174 لاکھو دیار
  • یونین کونسل نمبر 175 باندہ گجراں
  • یونین کونسل نمبر 176 اعوان دھاندوالہ
  • یونین کونسل نمبر 177 اٹوکے اعوان
  • یونین کونسل نمبر 178 مناواں رام پور
  • یونین کونسل نمبر 179 بھسمین
  • یونین کونسل نمبر 180 ناتھوکی منہالا کلاں
  • یونین کونسل نمبر 181 واہگہ
  • یونین کونسل نمبر 182 ڈوگرے کلان
  • یونین کونسل نمبر 183 موضہ جلو کھیرا
  • یونین کونسل نمبر 184 درائی پورہ مغلپورہ
  • یونین کونسل نمبر 185 بستی سیدن شاہ
  • یونین کونسل نمبر 186 مدنی محلہ مصطفٰی آباد
  • یونین کونسل نمبر 187 مصطفٰی آباد
  • یونین کونسل نمبر 188 میاں میر
  • یونین کونسل نمبر 189 برکی
  • یونین کونسل نمبر 190 بدیارا
  • یونین کونسل نمبر 191 گھوند
  • یونین کونسل نمبر 192 تیرا
  • یونین کونسل نمبر 193 بھان گلی
  • یونین کونسل نمبر 194 لدھر
  • یونین کونسل نمبر 195 ہیار
  • یونین کونسل نمبر 196 جلمن
  • یونین کونسل نمبر 197 ڈھلوے
  • یونین کونسل نمبر 198 شادمان کالونی
  • یونین کونسل نمبر 199 شاہ جمال
  • یونین کونسل نمبر 200 کینال پارک
  • یونین کونسل نمبر 201 غوث اعظم کالونی گلبرگ 2
  • یونین کونسل نمبر 202 گلبرگ 3 لاہور
  • یونین کونسل نمبر 203 ایف سی کالج / کچی آبادی
  • یونین کونسل نمبر 204 ماڈل کالونی گلبرگ
  • یونین کونسل نمبر 205 مکہ کالونی
  • یونین کونسل نمبر 206 گوپال نگر
  • یونین کونسل نمبر 207 ماڈل ٹاؤن لاہور
  • یونین کونسل نمبر 208 نیو گارڈن ٹاؤن
  • یونین کونسل نمبر 209 ماڈل ٹاؤن ایکسٹینشن
  • یونین کونسل نمبر 210 فیصل ٹاؤن
  • یونین کونسل نمبر 211 کوٹھا پنڈ / فیصل ٹاؤن
  • یونین کونسل نمبر 212 ہما بلاک / علامہ اقبال ٹاؤن
  • یونین کونسل نمبر 213 کشمیر بلاک
  • یونین کونسل نمبر 214 رضا بلاک
  • یونین کونسل نمبر 215 کریم بلاک
  • یونین کونسل نمبر 216 مسلم ٹاؤن
  • یونین کونسل نمبر 217 کلفٹن کالونی شاہ کمال
  • یونین کونسل نمبر 218 جہانزیب بلاک
  • یونین کونسل نمبر 219 نیلم بلاک
  • یونین کونسل نمبر 220 وفاقی کالونی
  • یونین کونسل نمبر 221 ای بلاک جوہر ٹاؤن
  • یونین کونسل نمبر 222 جودھ پور
  • یونین کونسل نمبر 223 کیو بلاک ماڈل ٹاؤن
  • یونین کونسل نمبر 224 پنڈی راجپوتاں
  • یونین کونسل نمبر 225 لیاقت آباد کوٹ لکھپت
  • یونین کونسل نمبر 226 ماڈل ٹاؤن آر بلاک بہار کالونی
  • یونین کونسل نمبر 227 بوستان کالونی
  • یونین کونسل نمبر 228 چنگی امر سدھو
  • یونین کونسل نمبر 229 قائد ملت کالونی
  • یونین کونسل نمبر 230 ستارہ کالونی
  • یونین کونسل نمبر 231 پاک کالونی
  • یونین کونسل نمبر 232 ٹاؤن شپ سیکٹر بی -1
  • یونین کونسل نمبر 233 سیکٹر 2 ٹاؤن شپ
  • یونین کونسل نمبر 234 سیکٹر 1 ٹاؤن شپ
  • یونین کونسل نمبر 235 ٹاؤن شپ سیکٹر بی -2
  • یونین کونسل نمبر 236 سیکٹر 11 گرین ٹاؤن سی
  • یونین کونسل نمبر 237 سیکٹر 11 ڈی گرین ٹاؤن
  • یونین کونسل نمبر 238 مریم کالونی
  • یونین کونسل نمبر 239 کائر کلاں گرین ٹاؤن
  • یونین کونسل نمبر 240 بگڑیاں دھرم چند
  • یونین کونسل نمبر 241 چاندری کریم پارک
  • یونین کونسل نمبر 242 اٹاری سروبا
  • یونین کونسل نمبر 243 نشتر کالونی
  • یونین کونسل نمبر 244 گجو متہ
  • یونین کونسل نمبر 245 ڈیلو کلان
  • یونین کونسل نمبر 246 یوحنا آباد
  • یونین کونسل نمبر 247 کاہنہ کوہانہ
  • یونین کونسل نمبر 248 شازواہ
  • یونین کونسل نمبر 249 کماہاں
  • یونین کونسل نمبر 250 تھپانجو
  • یونین کونسل نمبر 251 بلوکی
  • یونین کونسل نمبر 252 پینڈوکی
  • یونین کونسل نمبر 253 سرائیچ
  • یونین کونسل نمبر 254 ویوخورد کلان
  • یونین کونسل نمبر 255 سٹو کاٹلاہ
  • یونین کونسل نمبر 256 علی رضا آباد
  • یونین کونسل نمبر 257 واپڈا ٹاؤن
  • یونین کونسل نمبر 258 چوہنگ پنج گرائیں
  • یونین کونسل نمبر 259 ازمیر ٹاؤن / کالونی
  • یونین کونسل نمبر 260 ماراکاہ
  • یونین کونسل نمبر 261 موہالوال
  • یونین کونسل نمبر 262 شامکے بھٹیاں
  • یونین کونسل نمبر 263 مانگا
  • یونین کونسل نمبر 264 سلطان کے
  • یونین کونسل نمبر 265 مانگا لوتر
  • یونین کونسل نمبر 266 تالاب سرائے
  • یونین کونسل نمبر 267 مانک
  • یونین کونسل نمبر 268 جودہو دھیر
  • یونین کونسل نمبر 269 بھوپتیاں
  • یونین کونسل نمبر 270 ارائیاں
  • یونین کونسل نمبر 271 جیا بگا
  • یونین کونسل نمبر 272 رائیونڈ دیہی
  • یونین کونسل نمبر 273 رائیونڈ شہری
  • یونین کونسل نمبر 274 ببلیاں اوتار
نواحی علاقہ جات

صحافت

لاہور چونکہ ابتدا ہی سے خطے کا انتظامی مرکز رہا ہے اس لیے ادبی اور صحافتی سرگرمیوں میں اس کا ایک منفرد مقام رہا ہے۔ تحریک آزادی ہند اس کا کردار بطور صحافت انتہائی اہم رہا۔

کوہ نور

کوہِ نور برطانوی ہندوستان کا اردو زبان کا سرکاری سرپرستی میں نکلنے والا ایک ہفت روزہ اخبار تھا جسے 1850ء میں منشی ہرسکھ رائے[165] نے لاہور سے جاری کیا تھا۔ یہ اردو زبان کا پہلا اخبار ہے جو پنجاب سے جاری کیا گیا۔

رفیق ہند

رفیق ہند برطانوی راج میں اردو زبان کا ایک ہفت روزہ اخبار تھا۔ یہ اخبار 5 جنوری 1884ء کو منشی محرم علی چشتی نے لاہور سے جاری کیا[166][167]۔ منشی محرم علی چشتی نے ہفت روزہ کوہِ نور کی ادارت سے اپنی صحافت کا آغاز کیا تھا۔

پیسہ اخبار

پیسہ اخبار ایک اردو روزنامہ تھا، جسے منشی محبوب عالم نے جنوری 1887ء میں فیروزوالا سے جاری کیا۔ یہ ہفتہ وار اخبار آٹھ صفحات پر مشتمل تھا۔ قیمت فی پرچہ ایک پیسہ تھی۔ بیسویں صدی کے آغاز میں لاہور منتقل ہو گیا جہاں بالاخر روزنامہ ہو گیا۔ مولانا ظفر علی خان کے ’’زمیندار‘‘ جاری کرنے پر اس کا ستارہ گردش میں آ گیا۔ 1900ء میں منشی محبوب عالم نے یورپ کا سفر کیا جس کی سرگزشت اخبار میں باقاعدگی سے شائع ہوتی رہی۔ بعد میں یہ حالات کتابی صورت میں شائع ہوئے جس پر حکومت نے چار سو روپے انعام دیا۔ [168]

زمیندار

زمیندار اردو زبان میں ایک ہندوستانی مسلم اخبار تھا۔ اس کے بانی ایڈیٹر شاعر،مصنف اور مسلم قوم پرست ظفر علی خان تھے۔ ظفر علی خان تحریک پاکستان کے سرکردہ کارکنوں میں سے ایک اور آل انڈیا مسلم لیگ کے حامی تھے۔ [169]

زمیندار اخبار 1920ء کی دہائی سے 1940ء کی دہائی تک ہندوستانی مسلمان، مسلمان قوم پرستوں اور تحریک پاکستان کا ترجمان تھا۔ یہ ہندوستان کے مسلمانوں کا سب سے زیادہ مقبول اخبار تھا اور پاکستان کی صحافتی روایات اور اردو زبان کی صحافت میں اس نے کلیدی کردار ادا کیا۔ [170][171] مولانا ظفر علی خان کو پاکستان میں بابائے صحافت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ [170] اخبار کا صدر دفتر لاہور میں تھا اور 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے بعد بھی شائع ہوتا رہا۔

الاصلاح

اَلْاِصْلاح تحریک خاکسار کی جانب سے چھپنے والا ہفتہ وار اخبار تھا۔ اس کا آغاز تحریک کے بانی عنایت اللہ خاں مشرقی نے 1934ء میں کیا تھا۔ یہ اس زمانے میں لاہور سے چھپتا تھا اور مشرقی کی تقاریر اور تحریک خاکسار کے افکار اور پیامات کی نمائندگی کرتا تھا۔ انگریزوں کے خلاف جدوجہد میں اس اخبار نے نمایاں کردار نبھایا۔

روزنامہ نوائے وقت

روزنامہ نوائے وقت، پاکستان کے شہروں اسلام آباد،لاہور، کراچی اور ملتان سے شائع ہونے والا اردو زبان کا ایک اہم روزنامہ ہے۔ نوائے وقت کا آغاز 23 مارچ 1940ء کو ہوا۔ پہلے یہ ہفت روزہ تھا بعد میں روزنامہ میں تبدیل ہو گیا۔ اخبار کی بنیاد حمید نظامی نے رکھی۔ تحریک پاکستان میں بھی روزنامہ نوائے وقت نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کا صدر دفتر لاہور میں واقع ہے۔ [172]

لاہور پریس کلب

لاہور پریس کلب بنیادی طور پر یہ صحافیوں کی ایک تنظیم ہے لیکن اس میں لاہور، پاکستان سے تعلق رکھنے والے ماہرین تعلیم، کاروباری افراد اور عوامی خدمت کے ارکان شامل ہیں۔ [173]

ذرائع ابلاغ کی فہرستیں

لاہور سے متعدد اخبار اور جرائد شائع ہوتے ہیں۔ ذیل میں صرف ان اہم اخبارات، جرائد اور ٹی وی چینلوں کی فہرست ہے جن کے صدر دفاتر لاہور میں واقع ہیں۔

روزنامے

جرائد

ٹی وی چینل

لاہور تصویروں میں

لاہور کی قدیم تصاویر

جڑواں شہر

لاہور میں قونصل خانے

لاہور میں کئی ممالک کے قونصل خانے موجود ہیں جن کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔ [180]

  • ریاستہائے متحدہ کا پرچم ریاستہائے متحدہ امریکا قونصل خانہ
  • آسٹریا کا پرچم آسٹریا اعزازی قونصل خانہ
  • بلجئیم کا پرچم بیلجئیم اعزازی قونصل خانہ
  • کینیڈا کا پرچم کینیڈا اعزازی قونصل خانہ
  • جمہوریہ ڈومینیکن کا پرچم ڈومینیکن ریپبلک اعزازی قونصل خانہ
  • نیدرلینڈز کا پرچم نیدرلینڈز اعزازی قونصل خانہ
  • فن لینڈ کا پرچم فن لینڈ اعزازی قونصل خانہ
  • جرمنی کا پرچم جرمنی اعزازی قونصل خانہ
  • انڈونیشیا کا پرچم انڈونیشیا اعزازی قونصل خانہ
  • ایران کا پرچم ایران جرنل قونصل خانہ
  • اطالیہ کا پرچم اطالیہ اعزازی قونصل خانہ
  • مالٹا کا پرچم مالٹا اعزازی قونصل خانہ
  • موریشس کا پرچم ماریشس اعزازی قونصل خانہ
  • رومانیہ کا پرچم رومانیہ اعزازی قونصل خانہ
  • سویٹزرلینڈ کا پرچم سوئٹزرلینڈ قونصل خانہ
  • ترکیہ کا پرچم ترکی اعزازی قونصل خانہ

مزید دیکھیے

کتابیات

  • تاریخ لاہور ازکنہیالال ص 109نا شر مشتاق بک کانر الکریم مارکٹ اُردو بازار لاہور
  • تاریخ لاہور از سید محمد لطیف، ناشر تخلیقات
  • واقعات لاہور از محمد نعیم مرتضی
  • مادھو لال حسین، لاہور دی ویل از نین سکھ، نیولائن پبلشرز
  • حدود العالم مصنف نامعلوم فارسی النسل
  • Syad Muhammad Latif (1892)۔ Lahore: Its History, Architectural Remains and Antiquities, with an Account of Its Modern Institutions, Inhabitants, Their Trade, Customs Etc۔ New Imperial Press۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  • Pran Neville۔ Lahore : A Sentimental Journey۔ Penguin Books۔ ISBN 978-0-14-306197-7 

1. City of Sin and Splendour: Writings on Lahore by Bapsi Sidhwa

2. Illustrated Views of the 19th Century by F.S. Aijazuddin

3. Lahore: Portrait of a Lost City by Som Anand

4. Lahore: A Memoir by Muhammad Saeed

5. Lahore: A Sentimental Journey by Pran Neville

6. Old Lahore by H.R. Goulding

7. The Dancing Girls of Lahore: Selling Love and Saving Dreams in Pakistan’s Pleasure District by Louise Brown

8. Amritsar to Lahore: A Journey Across the India-Pakistan Border by Stephen Alter

9. Lahore District Flora by Shiv Ram Kashyap

10. Beloved City Writings on Lahore by Bapsi Sidhwa

بیرونی روابط

دستاویزی فلمیں

حوالہ جات

  1. Ihsan H. Nadiem (1996)۔ Lahore, a Glorious Heritage۔ Sang-e-Meel Publications۔ صفحہ: 11 
  2. Proceedings – Punjab History Conference – Volumes 29-30۔ Panjabi University۔ صفحہ: 62۔ The city of Lahore is situated on the bank of river Ravi and took its origin from Lava, the son of Rama 
  3. Masudul Hasan (1978)۔ Guide to Lahore۔ Ferozsons 
  4. "Punjab Portal"۔ Government of Punjab۔ 25 جون 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 جولائی 2014 
  5. "POPULATION OF MAJOR CITIES CENSUS – 2017 [PDF]" (PDF)۔ Pakistan Bureau of Statistics۔ 29 اگست 2017 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ اگست 30, 2017 
  6. "National Dialing Codes"۔ پی ٹی سی ایل۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اگست 2014 
  7. "Lahore Fact Sheet"۔ Lloyd's۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اگست 2016 
  8. "SOCIAL DEVELOPMENT IN PAKISTAN ANNUAL REVIEW 2014–15" (PDF)۔ SOCIAL POLICY AND DEVELOPMENT CENTRE۔ 2016۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مارچ 2017 
  9. http://www.pakvisit.com/pakistan/cities.html
  10. https://books.google.com.sa/books?id=ugxFjVDk3I8C&pg=PA113&lpg=PA113&dq=nur+jahan+poetry&source=bl&ots=HAxlqMPI8W&sig=TC4olMNY891SIMoSAYKsgWAX7ws&hl=en&sa=X&ved=0ahUKEwiajJjU56zQAhVExxQKHbJhD60Q6AEIQjAI#v=onepage&q=nur%20jahan%20poetry&f=false
  11. ^ ا ب Bombay Historical Society (1946)۔ Annual bibliography of Indian history and Indology, Volume 4۔ صفحہ: 257۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 مئی 2009 
  12. ^ ا ب Muhammad Baqir (1985)۔ Lahore, past and present۔ B.R. Pub. Corp۔ صفحہ: 22۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 دسمبر 2015 
  13. ^ ا ب http://prr.hec.gov.pk/Chapters/1458-2.pdf
  14. ^ ا ب Punjabi Shahmukhi Book – Tareekh Shehar Lahore; Pure
  15. "Shalimar Gardens"۔ Gardens of the Mughal Empire۔ Smithsonian Productions۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اگست 2016 
  16. "Chauburji Gate"۔ Asian Historical Architecture۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اگست 2016 
  17. "Badshahi Mosque"۔ Ualberta.ca۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جنوری 2014 
  18. "De La Roche, Henri Francois Stanislaus"۔ allaboutsikhs.com۔ 27 دسمبر 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جنوری 2014 
  19. Choudhary Rahmat Ali, (1933)، اعلامیہ پاکستان، pamphlet, published جنوری 28. (Rehmat Ali at the time was an undergraduate at the جامعہ کیمبرج)
  20. "Second Islamic summit conference" (PDF)۔ Formun۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 اپریل 2013 
  21. New Page 1
  22. The Gates of Lahore (لاہور کے تاریخی دروازے) – YouTube
  23. Lahore Ka Jughrafiya (لاہور کا جغرافیہ) | Ahmed Shah Bokhari
  24. ^ ا ب Google Maps
  25. Shoaib Ahmed (16 اپریل 2004)۔ "Hindu, Sikh temples in state of disrepair"۔ Daily Times۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 مارچ 2013 
  26. Naqoosh, Lahore Number 1976
  27. Chandra 2007, p. 227
  28. John F. Richards (1996)۔ The Mughal Empire۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 9–13۔ ISBN 978-0-521-56603-2۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  29. Asher, p.47
  30. Bhalla, p.81
  31. Chaudhry, p.258
  32. For a detailed account of the battle fought, see Chapter VI of The Fall of the Moghul Empire of Hindustan by H. G. Keene۔
  33. Sonn Tamara (2011)۔ Islam: A Brief History۔ John Wiley & Sons 
  34. Encyclopædia Britannica article on Lahore
  35. Holy people of the world: Volume 3 by Phyllis G. jestice
  36. History of sikh gurus retold: 1469–1606 C.E By Surjit singh gandhi
  37. The new encyclopaedia britannica: Encyclopaedia britannica, inc
  38. S.R. Kakshi، Rashmi Pathak، S.R.Bakshi R. Pathak (1 جنوری 2007)۔ Punjab Through the Ages۔ Sarup & Sons۔ صفحہ: 272–274۔ ISBN 978-81-7625-738-1۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جون 2010 
  39. Bhagata Singh (1990)۔ Maharaja Ranjit Singh and his times۔ Sehgal Publishers Service 
  40. Bapsi Sidhwa (2005)۔ City of Sin and Splendour: Writings on Lahore۔ Penguin Books India۔ ISBN 978-0-14-303166-6 
  41. Sir John Hubert Marshall (1906)۔ Archaeological Survey of India۔ Office of the Superintendent of Government Printing 
  42. Syad Muhammad Latif (1892)۔ Lahore: Its History, Architectural Remains and Antiquities۔ Oxford University: New Imperial Press 
  43. City of Sin and Splendor: Writings on Lahore by Bapsi Sidhwa, p23
  44. "The Panjab Past and Present"۔ 22۔ Department of Punjab Historical Studies, Punjab University۔ 1988۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اگست 2016 
  45. Farooq Soomro (13 مئی 2015)۔ "A visual delight – Maryam Zamani and Wazir Khan Mosques"۔ Dawn۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اگست 2016 
  46. "Ranjit Singh: A Secular Sikh Sovereign by K.S. Duggal. ''(Date:1989. ISBN 81-7017-244-6'')"۔ Exoticindiaart.com۔ 3 ستمبر 2015۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 اگست 2009 
  47. Olivier Roy (1985)۔ Islam and Resistance in Afghanistan۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 57–8۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 ستمبر 2014 
  48. ^ ا ب William Glover (جنوری 2007)۔ Making Lahore Modern, Constructing and Imagining a Colonial City۔ Univ Of Minnesota Press۔ ISBN 978-0-8166-5022-4۔ By the turn of the twentieth century, Lahore’s population had nearly doubled from what it had been when the province was first annexed, growing from an estimated 120٫000 people in 1849 to over 200٫000 in 1901. 
  49. William Glover (جنوری 2007)۔ Making Lahore Modern, Constructing and Imagining a Colonial City۔ Univ Of Minnesota Press۔ ISBN 978-0-8166-5022-4۔ The inner city,on the other hand,remained problematic.Seen as a potential hotbed of disease and social instability, and notoriously difficult to observe and fathom,the inner districts of the city remained stubbornly resistant to colonial intervention. Throughout the British period of occupation in Punjab, for reasons we will explore more fully, the inner districts of its largest cities were almost entirely left alone. 5 The colonial state made its most significant investments in suburban tracts outside of cities.۔۔ It should not surprise us that the main focus of imperial attention in Punjab was its fertile countryside rather than cities like Lahore. 
  50. William Glover (جنوری 2007)۔ Making Lahore Modern, Constructing and Imagining a Colonial City۔ Univ Of Minnesota Press۔ ISBN 978-0-8166-5022-4۔ ۔ 
  51. William Glover (جنوری 2007)۔ Making Lahore Modern, Constructing and Imagining a Colonial City۔ Univ Of Minnesota Press۔ ISBN 978-0-8166-5022-4۔ What is more striking than the fact that the Punjab’s new rulers (cost-effectively) appropriated the symbolically charged buildings of their predecessors is how long some of those appropriations lasted. The conversion of the Mughal-era tomb of Sharif un-Nissa,a noblewoman during Shah Jahan’s reign, popularly known as Anarkali, was one such case (Figure 1.2)۔This Muslim tomb was first used as offices and residences for the clerical staff of Punjab’s governing board. In 1851, however, the tomb was converted into the Anglican church 
  52. William Glover (جنوری 2007)۔ Making Lahore Modern, Constructing and Imagining a Colonial City۔ Univ Of Minnesota Press۔ ISBN 978-0-8166-5022-4۔ the mosque of Dai Anga, Emperor Shah Jahan’s wet nurse,which the British converted first into a residence and later into the office of the railway traffic manager.Nearby was the tomb of Nawab Bahadur Khan, a highly placed member of Akbar’s court, which the railway used as a storehouse.۔۔ manager.Nearby was the tomb of Nawab Bahadur Khan, a highly placed member of Akbar’s court, which the railway used as a storehouse. That same tomb had been acquired earlier by the railway from the army, who had used it as a theater for entertaining officers.The railway provided another nearby tomb free of charge to the Church Missionary Society,who used it for Sunday services. The tomb of Mir Mannu, an eighteenth-century Mughal viceroy of Punjab who had brutally persecuted the Sikhs while he was in power, escaped demolition by the railway but was converted nevertheless into a private wine merchant’s shop 
  53. William Glover (جنوری 2007)۔ Making Lahore Modern, Constructing and Imagining a Colonial City۔ Univ Of Minnesota Press۔ ISBN 978-0-8166-5022-4۔ with an abundance of abandoned large structures scattered throughout the civil station on nazul (state administered) property, the colonial government often chose to house major institutions in converted buildings rather than to build anew. These institutions included the Civil Secretariat,which,as we have seen,was located in Ventura’s former house; the Public Works from Ranjit Singh’s period; and the Accountant General’s office, headquartered in a converted seventeenth century mosque near the tomb of Shah Chiragh,just off Mall Road.In 
  54. William Glover (جنوری 2007)۔ Making Lahore Modern, Constructing and Imagining a Colonial City۔ Univ Of Minnesota Press۔ ISBN 978-0-8166-5022-4۔ The Lahore station,built during a time when securing British civilians and troops against a future “native” uprising was foremost in the government’s mind, fortified medieval castle, complete with turrets and crenellated towers, battered flanking walls, and loopholes for directing rifle and canon fire along the main avenues of approach from the city 
  55. William Glover (جنوری 2007)۔ Making Lahore Modern, Constructing and Imagining a Colonial City۔ Univ Of Minnesota Press۔ ISBN 978-0-8166-5022-4۔ We should remember that outside of colonial military cantonments, where rules encouraging racial separation were partially formalized in the residential districts of India’s colonial cities. Wherever government institutions, commercial enterprises, and places of public congregation were concentrated, mixing among races and social classes was both legally accommodated and necessary.In Lahore these kinds of activities were concentrated in a half-mile-wide zone stretching along Mall Road from the Civil Secretariat, near Anarkali’s tomb, at one end to the botanical gardens at the other (see. 
  56. William Glover (جنوری 2007)۔ Making Lahore Modern, Constructing and Imagining a Colonial City۔ Univ Of Minnesota Press۔ ISBN 978-0-8166-5022-4۔ Montgomery Hall faced inward, toward the main avenue of what would become a and reading room, a teak dance and “rinking”floor (skating rink)، and room for the Gymkhana Club.Lawrence Hall was devoted to the white community in Lahore;the spaces and program of Montgomery Hall allowed for racial interaction between British civilians and officials and the elites of Lahori society. 
  57. William Glover (جنوری 2007)۔ Making Lahore Modern, Constructing and Imagining a Colonial City۔ Univ Of Minnesota Press۔ ISBN 978-0-8166-5022-4۔ Like Lawrence and Montgomery Halls,moreover,the garden’s major elements were all financed through a combination of provincial, municipal, and private funds from both British carefully isolated space of controlled cultural interaction underwritten by elite collaboration. Both the botanical garden and the zoo in Lawrence Gardens drafted a controlled display of exotic nature to the garden’s overall didactic program.The botanical garden exhibited over six hundred species of plants, trees, and shrubs, all carefully tended by a horticulturist sent out from the Royal Botanic Gardens at Kew. 
  58. William Glover (جنوری 2007)۔ Making Lahore Modern, Constructing and Imagining a Colonial City۔ Univ Of Minnesota Press۔ ISBN 978-0-8166-5022-4۔ We should remember that outside of colonial military cantonments, where rules encouraging racial separation were partially formalized in the residential districts of India’s colonial cities. Wherever government institutions, commercial enterprises, and places of public congregation were concentrated, mixing among races and social classes was both legally accommodated and necessary.In Lahore these kinds of activities were concentrated in a half-mile-wide zone stretching along Mall Road from the Civil Secretariat, near Anarkali’s tomb, at one end to the botanical gardens at the other 
  59. William Glover (جنوری 2007)۔ Making Lahore Modern, Constructing and Imagining a Colonial City۔ Univ Of Minnesota Press۔ ISBN 978-0-8166-5022-4۔ As a gesture of loyalty, Punjab’s “Princes, Chiefs, merchants, men of local note, and the public generally” formed a subscription to erect the “Victoria Jubilee Institute for the Promotion and Diffusion of Technical and Agricultural Education and Science” in Lahore, a complex that eventually formed the nucleus of the city’s museum and the Mayo School of Art (completed in 1894)۔ 
  60. Gill, Anjum. "Father of modern Lahore remembered on anniversary." Daily Times (Pakistan)۔ 12 جولائی 2004. آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ dailytimes.com.pk (Error: unknown archive URL)
  61. William Glover (جنوری 2007)۔ Making Lahore Modern, Constructing and Imagining a Colonial City۔ Univ Of Minnesota Press۔ ISBN 978-0-8166-5022-4۔ According to the 1901 census, therefore, the inner city of Lahore contained exactly 20٫691 “houses" 
  62. Story of Pakistan – Lahore Resolution 1940، Jin Technologies. Retrieved on 19 ستمبر 2007.
  63. Tribune India – Republic Day
  64. Daily Times Pakistan – Memorial will be built to Bhagat Singh, says governor
  65. Dalrymple, William. Lahore: Blood on the Tracks.
  66. "Second Islamic Summit Conference"۔ Oic-oci.org۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 مارچ 2011 
  67. [pu.edu.pk/images/journal/csas/PDF/9-Asad%20Ali%20Khan.pdf "Political History and Administrative History of the Punjab"] تحقق من قيمة |url= (معاونت) (PDF) 
  68. "Lahore – History of Lahore"۔ thelahorecity.com۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 ستمبر 2016 
  69. لاہور اعلامیہ
  70. Haider K. Nizamani (2000)۔ The roots of rhetoric : politics of nuclear weapons in India and Pakistan (1. publ. ایڈیشن)۔ Westport, Conn. [u.a.]: Praeger۔ ISBN 0-275-96877-4 
  71. https://www.quora.com/What-is-the-importance-of-the-beating-retreat-ceremony-held-at-the-Wagah-border-What-is-the-logic-or-rather-history-behind-it-Does-it-happen-in-other-international-borders-of-other-countries-apart-from-the-ones-in-Indian-subcontinent
  72. ^ ا ب Ravi River | river, Asia | Britannica.com
  73. Ravi River and its Course Map
  74. Lahore Canal – Lahore | Rediscovering City History
  75. "Climatological Normals of Lahore"۔ ہانگ کانگ رصد گاہ۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 مئی 2010 
  76. Climate & Weather Averages in Lahore, Pakistan
  77. Lahore, Punjab, Pakistan Weather Averages | Monthly Average High and Low Temperature | Average Precipitation and Rainfall days | World Weather Online
  78. "Lahore Climate Normals 1961–1990"۔ National Oceanic and Atmospheric Administration۔ اخذ شدہ بتاریخ جنوری 16, 2013 
  79. "Extremes of Lahore"۔ Pakistan Meteorological Department۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ فروری 2, 2015 
  80. "Architecture of Lahore۔" Wikipedia: The Free Encyclopedia. Wikimedia Foundation, Inc. Web. 19 Aug. 2016.
  81. Lahore, Virginia Information – ePodunk
  82. Phanindra Nath Bose, The Indian colony of Siam, Lahore, The Punjab Sanskrit Book Depot, 1927, p.v.
  83. "Demographia World Urban Areas" (PDF)۔ Demographia. 1 اپریل 2016. Retrieved 2 ستمبر 2016.
  84. Grand Trunk Road – Travel guide at Wikivoyage
  85. WOW Search Results
  86. Work on Ring Road southern loop starts – Newspaper – DAWN.COM
  87. "$1.6bn Lahore metro train deal signed with China"۔ Dawn.com۔ 23 مئی 2014۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2014 
  88. "Good news on track: Lahore to get Pakistan’s first metro train"، دی ایکسپریس ٹریبیون، Lahore, 23 Mar 2014. Retrieved on 20 اکتوبر 2014.
  89. 3D View of Orange Line Metro Train Lahore – YouTube
  90. Metro Bus System | Punjab Portal
  91. Lahore Transport Company | The Transport you deserve
  92. http://www.daewoo.com.pk
  93. Niazi Express Bus Services PVT LTD
  94. Railway Gazette International جولائی 2008 p414
  95. Pakistan Railway Time Table Lahore Station Train Timings
  96. Pakistan Railways
  97. Allama Iqbal International Airport, Lahore | www.lahoreairport.com
  98. Master Plan for Greater Lahore۔ Master Plan Project Office۔ 1973۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 اکتوبر 2017 
  99. ^ ا ب "Lahore and its historic Gates"۔ The United Kingdom Punjab Heritage Association۔ 3 فروری 2010۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 اکتوبر 2017 
  100. "Masonic mystique " - Dawn.com
  101. LSE Financial Service Limited
  102. Gaddafi Stadium | Pakistan | Cricket Grounds | ESPNcricinfo
  103. In the list of Pakistan Golf Federation
  104. National Hockey Stadium – World of Stadiums
  105. Jilani Park location on Paktive.com
  106. Jilani park ( Race Course ) Lahore Pakistan – Toppakistan.com
  107. "Rugby: Three local clubs to play in Dubai 7s"۔ دی ایکسپریس ٹریبیون۔ 29 نومبر 2012۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2012 
  108. Pakistan Super League: Seven companies fight it out to buy franchises – The Express Tribune
  109. "فیصل بینک ٹی/20 کپ / خبریں – لاہور لائینز نے جیت لیا"۔ کرک انفو۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اپریل 2012 
  110. The Home of CricketArchive
  111. Pakistan – Water and Power Development Authority FC – Results, fixtures, squad, statistics, photos, videos and news – Soccerway
  112. آئی سی ایل عملہ (مارچ 3، 2008)۔ "آئی سی ایل کی ٹیمیں"۔ آئی سی ایل۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 مارچ 2008 
  113. کرک انفو (29 فروری 2008)۔ "آئی سی ایل کے دوسرے ٹورنامنٹ کی ٹیمیں"۔ کرک انفو۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 مارچ 2008 
  114. King Edward Medical University | Alta Pete
  115. http://www.aimc.edu.pk/
  116. [/http://pgmipunjab.edu.pk "Post Graduate Medical Institute Punjab"] تحقق من قيمة |url= (معاونت)۔ Post Graduate Medical Institute۔ اخذ شدہ بتاریخ جون 30 2019 
  117. "Children Hospital Lahore Official Website"۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جون 2019 
  118. Doctors Hospital & Medical Center | Lahore PakistanDoctors Hospital & Medical Center Lahore, Pakistan
  119. Ittefaq – Hospital
  120. Shaukat Khanum Memorial Cancer Hospital & Research Centre
  121. http://www.aimc.edu.pk/jhl.html
  122. Mayo Hospital
  123. PIC
  124. Account Suspended
  125. Site Maintenance
  126. http://www.gulabdevi.org/
  127. http://www.wapda.gov.pk/index.php/healthcare-units
  128. [Mohaddis Magazine] محدث میگزین - 'بسنت' محض موسمی تہوار نہیں!
  129. Basant is banned for the right reasons – The Express Tribune Blog
  130. http://defence.pk/threads/basant-is-banned-for-the-right-reasons.92622/
  131. Roznama Dunya : پاکستان:-حضرت داتا گنج بخشؒ کا عرس شروع، لاکھوں زائرین کی حاضری
  132. لاہور میں داتا گنج بخش کا عرس، سخت حفاظتی انتظامات | معاشرہ | DW | 24. جنوری 2011
  133. http://www.92newshd.tv/urdu/حضرت-میاں-میر-کے-392ویں-عرس-کی-تقریبات-کا-ا/
  134. Dunya News: پاکستان:-حضرت میاں میر سرکار کے
  135. حضرت میاں میر قادری ؒ کے 352 ویں عرس مبار ک کی2روزہ
  136. http://www.urdupoint.com/pakistan/news/lahore/important-news/live-news-556441.html
  137. https://awazepakistan.wordpress.com/2014/03/18/میلہ-چراغاں/
  138. http://www.nawaiwaqt.com.pk/mazamine/28-Mar-2010/میلہ-چراغاں
  139. http://www.92newshd.tv/urdu/%D9%84%D8%A7%DB%81%D9%88%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%DB%8C%D9%84%DB%81-%DA%86%D8%B1%D8%A7%D8%BA%D8%A7%DA%BA-%D8%B3%D8%AC-%DA%AF%DB%8C%D8%A7%D8%8C-%D8%AD%D8%B6%D8%B1%D8%AA-%D9%85%D8%A7%D8%AF%DA%BE/
  140. میلہ چراغاں کی رونقیں قائم۔ جشن بہاراں البتہ نہ جم سکا
  141. https://awazepakistan.wordpress.com/2015/03/13/لاہور-کا-میلہ-چراغاں/
  142. میلہ چراغاں اور دھمال - Pakistan – Dawn News
  143. BBC Urdu
  144. Devotees whirl to dhol at Baba Jamal’s Urs, Khaleej Times (May 5, 2006)
  145. National Horse and Cattle Show 2015 | Local Government and Community Development
  146. Irhal – Festivals
  147. The Festival
  148. World Performing Arts Festival: Reclaiming lost space – The Express Tribune
  149. World Performing Arts Festival comes back to Lahore after 8 years – Art & Culture – Images
  150. http://www.pakistantoday.com.pk/2016/06/19/entertainment/world-performing-arts-festival-makes-a-come-back-in-lahore/
  151. Three-day Faiz International Festival starts in Lahore – Entertainment – Dunya News
  152. Lahore Literary Festival 2018 in Lahore, Pakistan | Everfest
  153. Lahore literary festival – a safe place for dangerous ideas | Books | The Guardian
  154. Welcome to 29th Lahore International Book Fair
  155. Upcoming Events
  156. Lahore International Book Fair kicks off at Expo Centre: | DailyTimes | Latest News
  157. National Assembly of Pakistan
  158. Punjab Portal
  159. https://www.nawaiwaqt.com.pk/01-Aug-2013/228104
  160. https://www.nawaiwaqt.com.pk/18-Aug-2018/888588
  161. Welcome to Provincial Assembly of Punjab
  162. "Office of Div Commissioner restored"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  163. "Town Nazims & Naib Town Nazims in the City District of Lahore"۔ National Reconstruction Bureau, Government of Pakistan۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 فروری 2009 
  164. https://www.politicpk.com/lahore-uc-list-detail-2015-2016-2017-لاہور-یوسیز/
  165. محمد افتخار کھوکھر، صحافت کی تاریخ، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، 1995ء، ص 44
  166. ڈاکٹر عبد السلام خورشید، صحافت: پاکستان و ہند میں، مجلس ترقی ادب لاہور، نومبر 2016ء، ص 280
  167. محمد افتخار کھوکھر، صحافت کی تاریخ، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، 1995ء، ص 61
  168. https://rekhta.org/ebooks/paisa-akhbar-shumara-number-011-magazines
  169. Zafar Ali Khan (19 نومبر 2012)۔ "Pakistani writers show renewed interest in Zafar Ali Khan's works"۔ Dawn News۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جون 2016 
  170. ^ ا ب "Maulana Zafar Ali Khan – the history maker"۔ Nation.com.pk۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جون 2016 
  171. Markus Daechsel (1 جون 2002)۔ Politics of Self-Expression۔ Routledge, Google Books۔ صفحہ: 64–۔ ISBN 978-1-134-38371-9۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جون 2016 
  172. Nawaiwaqt – Latest Headline & Top Stories
  173. Lahore Press Club (official website)
  174. زم زمہ توپ
  175. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح Syed Shayan (فروری 2015)۔ "Ground Realities 4"۔ Akhbar Peela۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اکتوبر 2015 
  176. Mansab Dogar, [1]، "Daily Times" ، اکتوبر 15, 2008
  177. "Glasgow 'twinned' with Lahore"۔ Web.archive.org۔ 29 نومبر 2006۔ 29 نومبر 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 ستمبر 2009 
  178. "Lahore & Chicago"۔ Chicago Sister Cities International Program۔ 25 دسمبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 فروری 2008 
  179. "Lahore and Chicago declared sister cities"۔ City District Government of Lahore۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 فروری 2008 
  180. Embassies and consulates in Lahore, Pakistan