ابو محذورہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ابو محذورہ رسول اللہ ﷺ کے مؤذن صحابی تھے۔

نام ونسب[ترمیم]

ان کے نام میں بڑا اختلاف ہے، بعض نے اوس بعض نے سمرہ اور بعض نے سلمان لکھا ہے ابو محذورہ کنیت ہے، نسب نامہ یہ ہے اوس بن معیر بن لوذان بن ربیعہ بن عریج بن سعد بن جمح قرشی جمحی

اسلام[ترمیم]

میں مشرف باسلام ہوئے، ان کے اسلام کا واقعہ یہ ہے کہ ابو محذورہ 8ھ میں چند مشرکین کے ساتھ کہیں جا رہے تھے، ٹھیک اسی وقت رسول اللہ ﷺ غزوۂ حنین سے واپس آ رہے تھے، راستہ میں ایک مقام پر ٹھہرے، موذن نبوی نے نماز کے لیے اذان دی، ابو محذورہ کے ساتھیوں نے اذان کی آواز سنی تو بطور مضحکہ اس کی نقل اتارنے لگے، ابو محذورہ نے بھی نقل اتاری، ان کی آواز نہایت دل کش تھی، اس لیے مضحکہ میں بھی دلکشی باقی رہی، رسول اللہ ﷺ نے آواز سن کر اذان دینے والوں کو بلا بھیجا، یہ لوگ آئے، آپ نے پوچھا ابھی کس نے بلند آواز سے اذان دی تھی، ابو محذورہ کے ساتھیوں نے ان کی طرف اشارہ کر دیا، آپ نے سب کو واپس کر دیا اور انھیں روک لیا اور اذان دینے کی فرمائش کی، ابو محذورہ کو یہ فرمائش بہت گراں گذری ؛ لیکن انکار کی جرأت نہ تھی، ان کو اذان سے پوری واقفیت نہ تھی، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انھیں بتایا، انھوں نے آپ کی زبان سے سن کر اسی کو دہرا دیا، زبان نبی کا یہ اعجاز تھا کہ اس مرتبہ اذان دینے میں زبان کے ساتھ دل بھی لا الہ اللہ محمد رسول اللہ پکار اٹھا اور ابو محذورہ جو ابھی چند ساعت پہلے اذان کا مضحکہ اڑاتے تھے، اسلام کے حلقہ بگوش ہوئے، آنحضرت ﷺ نے انھیں ایک تھیلی میں تھوڑی سی چاندی مرحمت فرمائی اور ان کی پیشانی سے لے کر ناف تک دستِ مبارک پھیر کر برکت کی دعا دی۔

یا ابو محذورہ اذان کا مضحکہ اڑاتے تھے یا دفعۃ یہ قلبِ ماہیت ہوئی کہ آنحضرت ﷺ سے درخواست کی یا رسول اللہ ﷺ مجھے مکہ میں اذان دینے کی اجازت مرحمت ہو، آپ نے منظور فرمایا اور ابو محذورہ اجازت لے کر مکہ چلے گئے اس وقت ان کا دل محبت نبوی ﷺ سے معمور ہو چکا تھا، مکہ جاکر آنحضرت ﷺ کے عامل عتاب بن اسید کے یہاں اترے اور مستقل اذان دینے کی خدمت انجام دینے لگے[1] فتح مکہ کے بعد آنحضرت ﷺ نے انھیں مکہ کا مستقل موذن بنا دیا [2] ان کی اذان اور خوش الحانی کی اس قدر مقبولیت حاصل ہوئی کہ شعرا اس کی قسم کھاتے تھے ایک قریشی شاعر کہتا ہے :

اما ورب الکعبۃ المستورہ وما تلا محمد من سورہ

ترجمہ:پردہ پوش کعبہ کے رب اور محمد ﷺ کی تلاوت کردہ سورتوں کی

والنغمات من ابی محذورۃ لافعلن فعلہ مذکورہ

ترجمہ اور ابو محذورہ کے نغموں کی قسم میں یہ کام ضرور کروں گا

وفات[ترمیم]

ابو محذورہ مکہ کے موذن تھے اس لیے ہمیشہ یہیں رہے اور یہیں امیر معاویہ کے عہدِ خلافت 59ھ میں وفات پائی بعض روایتوں میں 79ھ میں وفات کا ذکر ہے، ایک لڑکا عبد الملک یاد گار چھوڑا۔[3]

فضل وکمال[ترمیم]

ان کی دستار فضیلت کا بڑا طرۂ امتیاز یہی ہے کہ وہ نہایت خوش آواز موذن تھے، حدیث نبوی سے بھی تہی دامن نہ تھے، حدیث کی کتابوں میں ان کی مرویات موجود ہیں، مسلم میں بھی ایک روایت ہے [4] ان کے گھر کے لوگوں میں ان کے لڑکے عبد الملک پوتے عبد العزیز اوربیوی ام عبد الملک نے ان سے روایتیں کیں، بیرونی رواۃ میں عبد اللہ بن محیرز، اسود بن یزید النخعی، سائب مکی، اوس بن خالد، عبد اللہ بن عبید اللہ اورابو سلمان قابلِ ذکر ہیں۔ [5]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج2، ص680 ، مکتبہ رحمانیہ لاہور
  2. تہذیب التہذیب :12/23
  3. الاصابہ فی تمیز الصحابہ مؤلف: ابن حجر العسقلانی ناشر: دار الكتب العلمیہ - بیروت
  4. (تہذیب الکمال:459)
  5. (تہذیب االتہذیب :12/223)