ہشام بن حکیم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ہشام ؓبن حکیم
معلومات شخصیت

ہشام بن حکیم صحابی رسول تھے۔فتح مکہ میں مشرف باسلام ہوئے۔

نام ونسب[ترمیم]

ہشام نام، باپ کا نام حکیم تھا، نسب نامہ یہ ہے، ہشام بن حکیم بن خرام بن خویلد بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی قرشی اسدی، ام المومنین خدیجہ صدیقہؓ ہشام کے والد حکیم کی پھو پھی تھیں۔

اسلام[ترمیم]

فتح مکہ میں مشرف باسلام ہوئے [1] قبول اسلام کے بعد آنﷺ سے قرآن کی بعض سورتوں کی تعلیم حاصل کی۔

وفات[ترمیم]

عمر کے عہد خلافت میں وفات پائی، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اجنادین کے معرکہ میں شہید ہوئے، لیکن بروایتِ صحیح جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہوگا، ہشام حمص اورفلسطین میں احتساب کرتے تھے اوریہ دونوں مقام اجنادین کے بعد فتح ہوئے۔

امر بالمعروف ونہی عن المنکر[ترمیم]

ہشام کے صحیفۂ اخلاق میں امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کا عنوان بہت نمایاں ہے، انھوں نے اس کو اپنا مقصدِ حیات قرار دے لیا تھا، تمام ارباب سیر متفق اللفظ ہیں کہ "کان ممن یامر بالمعروف وینہیٰ عن المنکر" یعنی ہشام امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کرنے والوں میں تھے، اس فریضہ کے خاطر انھوں نے کسی سے دوستانہ تعلقات نہیں پیدا کیے اوراہل وعیال کے علائق سے بھی آزاد رہے، ایک سیاح کی طرح چکر لگا کر ہر جگہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کا فرض ادا کرتے تھے۔ [2] ان کی تبلیغ کا دائرہ غربا کے چھونپڑوں سے لے کر امرا وعمال کے قصور اورایوانِ حکومت تک یکساں وسیع تھا، عہد فاروقی کے مشہور فوجی افسر اوروالیٔ حکومت عیاض نے فتوحات کے سلسلہ میں کسی کو کوڑے لگائے، ہشام نے انھیں سخت تنبیہ کی، عیاض ایک ممتاز افسر تھے، ان کو ہشام کی یہ علانیہ تنبیہ بہت ناگوار ہوئی اور اس سے ان کو بڑی تکلیف پہنچی، چونکہ ہشام کی اس میں کوئی ذاتی غرض شامل نہ تھی، اس لیے دو تین دن کے بعد انھوں نے عیاض سے معذرت کی، آنﷺ کا یہ ارشاد سنایا کہ آخرت سے زیادہ عذاب اس شخص پر ہوگاجو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیگا، عیاض نے کہا تم نے رسول اللہ ﷺ کے جو افعال دیکھے اور جو اقوال سنے وہ میں نے بھی دیکھے اورسنے؛ لیکن تم رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان بھول گئے کہ جوشخص کسی حاکم کو نصیحت کرنا چاہے تو اس کو علانیہ نہ کرنا چاہیے؛بلکہ اس کا ہاتھ پکڑ کے الگ لیجا کر سمجھا دینا چاہیے، اگر وہ قبول کرلے تو فبہا ورنہ کہنے والا اپنے فرض سے سبکدوش ہو گیا۔ [3] ایک مرتبہ چند ذمیوں کو دھوپ میں کھڑا دیکھا، سبب پوچھاتو معلوم ہواجزیہ نہ ادا کرنے کے جر م میں سزادیجارہی ہے، یہ سن کر بولے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص دنیا میں لوگوں کو عذاب دیتا ہے خدا اس کو آخرت میں عذاب دیگا، اورفلسطین کے حاکم عمیر بن سعد کو یہ حدیث سنا کر ذمیوں کو تکلیف سے نجات دلائی۔ [4] عمر کو ان کے اس احتساب پر اتنا اعتماد تھا کہ جب کوئی ایسا واقعہ پیش آتا جسے وہ ناپسند کرتے تو فرماتے، جب تک میں اور ہشام زندہ ہوں، ایسا نہیں ہو سکتا۔ [5]

فضل وکمال[ترمیم]

قرآن کریم کی بعض سورتوں کی تعلیم براہ راست زبانِ وحی والہام سے حاصل کی تھی، اس لیے بعض مرتبہ قرأت میں ان کا علم کبار صحابہ کے مقابلہ میں زیادہ صحیح نکلتا تھا، ایک مرتبہ ہشام نماز میں سورۂ فرقان پڑھ رہے تھے، عمر نے سنا تو انھیں عام قرأت سے ان کی قرأت میں اختلاف معلوم ہوا، ہشام نے سلام پھیرا، تو عمر نے ان کو چادر سے کس لیا اورپوچھا اس طریقہ سے تم کو کس نے پڑھایا انھوں نے کہا رسول اللہﷺ نے، عمر نے فرمایا تم جھوٹ کہتے ہو، مجھ کو رسول اللہﷺ نے ہی یہ آیتیں تعلیم دی ہیں مگر اس میں اور تمھاری قرأت میں اختلاف ہے اورانہیں آنﷺ کی خدمت میں لاکر عرض کیا یا رسول اللہ ! قرآن کی قرأت یہ ایسے حروف میں کرتے ہیں جس کے خلاف آپ نے مجھے تعلیم دی ہے، آنﷺ نے دونوں سے پڑھواکر سنا اورفرمایا ان دونوں قرأتوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے، قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا ہے، جو ان میں آسان معلوم ہوا سے اختیار کرو۔ [6] حدیث میں ان کا کوئی قابلِ ذکر پایہ نہیں ہے، تاہم حدیث کی کتابیں ان کی مرویات سے بالکل خالی نہیں ہیں، جبیر بن کثیر اور عروہ نے ان سے روایت کی ہے۔ [7]


حوالہ جات[ترمیم]

  1. (استیعاب:2/611)
  2. (استیعاب واصابہ تذکرہ شہام)
  3. (مسند احمد بن حنبل:3/404)
  4. (مسند احمد بن حنبل:3/402)
  5. (استیعاب:2/619)
  6. (بخاری، ابواب فضا ئل القرآن)
  7. (تہذیب الکمال:409)